Wednesday, 2 November 2022

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 3

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 3
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ابو المعالی احمد مظفر بن یوسف بغدادی حنبلی آئے اور کہنے لگے کہ ’’ میرے بیٹے محمد کو پندرہ مہینے سے بخار آرہا ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’ تم جاؤ اور اس کے کان میں کہہ دو ’’ اے ام ملدم ! تم سے عبدالقادر (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’ میرے بیٹے سے نکل کر حلہ کی طرف چلے جاؤ ۔ ہم نے ابو المعالی سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’ میں گیا اور جس طرح مجھے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا تھا اسی طرح کہا تو اس دن کے بعد اس کے پاس پھر کبھی بخار نہیں آیا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ نمبر ۱۵۳)

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ابو حفص عمر بن صالح حدادی اپنی اونٹنی لے کر آیا اور عرض کیا کہ ’’ میرا حج کا ارادہ ہے اور یہ میری اونٹنی ہے جو چل نہیں سکتی اور اس کے سوا میرے پاس کوئی اونٹنی نہیں ہے ۔ پس آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ایک انگلی لگائی اور اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا وہ کہتا تھا کہ ’’ اس کی حالت یہ تھی کہ تمام سواریوں سے آگے چلتی تھی حالانکہ وہ اس سے قبل سب سے پیچھے رہتی تھی ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب صفحہ ۱۵۳،چشتی)

حضرت شیخ ابو الفضل احمد بن صالح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میں حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مدرسہ نظامیہ میں تھا آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس فقہاء اور فقراء علیہم الرحمہ جمع تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے گفتگو کر رہے تھے اتنے میں ایک بہت بڑا سانپ چھت سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی گود میں آگرا تو سب حاضرین وہاں سے ہٹ گئے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ رہا ، وہ آپ کے کپڑوں کے نیچے داخل ہوا اور آپ کے جسم پر سے گزرتا ہوا آپ کی گردن کی طرف سے نکل آیا اور گردن پر لپٹ گیا ، اس کے باوجود آپ نے کلام کرنا موقوف نہ فرمایا اور نہ ہی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ سانپ زمین کی طرف اُترا اور آپ کے سامنے اپنی دُم پر کھڑا ہو گیا اور آپ سے کلام کرنے لگا آپ نے بھی اس سے کلام فرمایا جس کو ہم میں سے کوئی نہ سمجھا ۔ پھر وہ چل دیا تو لوگ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ’’ اس نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے کیا کہا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے کیا کہا ؟ آپ نے فرمایا کہ ’’ اس نے مجھ سے کہا کہ ’’ میں نے بہت سے اولیاء کرام کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم کسی کو نہیں دیکھا ۔ میں نے اس سے کہا : تم ایسے وقت مجھ پر گرے کہ میں قضا و قدر کے متعلق گفتگو کر رہا تھا اور تُو ایک کیڑا ہی ہے جس کو قضا حرکت دیتی ہے اور قدر سے ساکن ہو جاتا ہے ۔ تو میں نے اس وقت ارادہ کیا کہ میرا فعل میرے قول کے مخالف نہ ہو ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب صفحہ ۱۶۸،چشتی)

حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا ابو عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ میں ایک رات جامع منصور میں نماز پڑھتا تھاکہ میں نے ستونوں پر کسی شے کی حرکت کی آواز سنی پھر ایک بڑا سانپ آیا اور اس نے اپنا منہ میرے سجدہ کی جگہ میں کھول دیا ، میں نے جب سجدہ کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ سے اس کو ہٹا دیا اور سجدہ کیا پھر جب میں التحیات کے لئے بیٹھا تو وہ میری ران پر چلتے ہوئے میری گردن پر چڑھ کر اس سے لپٹ گیا ، جب میں نے سلام پھیرا تو اس کو نہ دیکھا ۔ دوسرے دن میں جامع مسجد سے باہر میدان میں گیا تو ایک شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں بلی کی طرح تھیں اورقد لمبا تھا تو میں نے جان لیا کہ یہ جن ہے اس نے مجھ سے کہا : میں وہی جن ہوں جس کو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کل رات دیکھا تھا میں نے بہت سے اولیاء کرام رحمہم اللہ علیہم اجمعین کو اس طرح آزمایا ہے جس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ کو آزمایا مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ان میں سے کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہا ، ان میں بعض وہ تھے جو ظاہر و باطن سے گھبرا گئے ، بعض وہ تھے جن کے دل میں اضطراب ہوا اور ظاہر میں ثابت قدم رہے ، بعض وہ تھے کہ ظاہر میں مضطرب ہوئے اور باطن میں ثابت قدم رہے لیکن میں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ آپ نہ ظاہر میں گھبرائے اورنہ ہی باطن میں ۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’ آپ مجھے اپنے ہاتھ پر توبہ کروائیں ۔ میں نے اسے توبہ کروائی ۔ (بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۶۸)

حضرت سیدنا عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں ہمدان میں ایک شخص سے ملا جو دمشق کا رہنے والا تھا اس کا نام ’’ظریف‘‘ تھا ان کا کہنا ہے کہ ’’میں بشر قرظی کو نیشاپور کے راستے میں ملا ۔۔ یا ۔۔ یہ کہا کہ خوارزم کے راستے میں ملا ، اس کے ساتھ شکر کے چودہ اونٹ تھے اس نے مجھے بتایا کہ ہم ایسے جنگل میں اترے جو اس قدر خوفناک تھا کہ اس میں خوف کے مارے بھائی بھائی کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتا تھا جب ہم نے شب کی ابتداء میں گٹھڑیوں کو اٹھایا تو ہم نے چار اونٹوں کو گم پایا جو سامان سے لدے ہوئے تھے میں نے انہیں تلاش کیا مگر نہ پایا قافلہ تو چل دیا اور میں اپنے اونٹوں کو تلاش کرنے کےلیے قافلے سے جدا ہو گیا ، ساربان نے میری امداد کی اور میرے ساتھ ٹھہر گیا ، ہم نے ان کو تلاش کیا لیکن کہیں نہ پایا ۔ جب صبح ہوئی تو مجھے حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان یاد آیا کہ ’’ اگر تُو سختی میں پڑے تو مجھ کو پکارنا تو تجھ سے مصیبت دور ہو جائے گی ۔ (میں نے یوں پکارا) اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ میرے اونٹ گم ہو گئے،اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ میرے اونٹ گم ہو گئے ۔ پھر میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو صبح ہو چکی تھی جب روشنی ہو گئی تو میں نے ایک شخص کو ٹیلے پر دیکھا جس کے کپڑے انتہائی سفید تھے اس نے مجھ کو اپنی آستین سے اشارہ کیا کہ ’’ اوپر آؤ ۔ جب ہم ٹیلے پر چڑھے تو کوئی شخص نظر نہ آیا مگر وہ چاروں اونٹ ٹیلے کے نیچے جنگل میں بیٹھے تھے ہم نے ان کو پکڑ لیا اور قافلے سے جا ملے ۔ (بهجة الاسرار ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۹۶)

حضرت امام شیخ ابو البقا مکبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں ایک روز حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا ، میں پہلے کبھی حاضرنہ ہوا تھا اور نہ ہی کبھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا کلام سنا تھا ، میں نے دل میں کہا کہ ’’ اس مجلس میں حاضر ہو کر اس عجمی کا کلام سنوں ؟ جب میں مدرسہ میں داخل ہوا اور دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا کلام شروع ہے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا کلام موقوف فرما دیا اور فرمایا : اے آنکھوں اور دل کے اندھے ! تو اس عجمی کے کلام کو کیا سنے گا ؟ تو میں نہ رہ سکا یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے منبر کے قریب پہنچ گیا پھر میں نے اپنا سر کھولا اور بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ علیہ میں عرض کیا : یا حضرت ! مجھے خرقہ پہنائیں ۔ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے خرقہ پہنا کر ارشاد فرمایا : اے عبداللہ ! اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے تمہارے انجام کی خبر نہ دی ہوتی تو تم ہلاک ہو جاتے ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۱۱،چشتی)

حضرت شیخ ابو نصر موسیٰ بن شیخ عبدالقادر جیلانی علیہما الرحمہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے ارشاد فرمایا : میں اپنے ایک سفر میں صحرا کی طرف نکلا اور چند دن وہاں ٹھہرا مگر مجھے پانی نہیں ملتا تھا جب مجھے پیاس کی سختی محسوس ہوئی تو ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا اور اُس میں سے مجھ پربارش کے مشابہ ایک چیز گری ، میں اس سے سیراب ہو گیا پھر میں نے ایک نور دیکھا جس سے آسمان کا کنارہ روشن ہو گیا اور ایک شکل ظاہر ہوئی جس سے میں نے ایک آواز سنی : اے عبدالقادر ! میں تیرا رب ہوں اور میں نے تم پر حرام چیزیں حلال کر دی ہیں ، تو میں نے اعوذ بالله من الشيطٰن الرجيم پڑھ کر کہا : اے شیطان لعین ! دور ہو جا ۔ تو روشن کنارہ اندھیرے میں بدل گیا اور وہ شکل دھواں بن گئی پھر اس نے مجھ سے کہا : اے عبدالقادر ! تم مجھ سے اپنے علم ، اپنے رب عزوجل کے حکم اور اپنے مراتب کے سلسلے میں سمجھ بُوجھ کے ذریعے نجات پاگئے اور میں نے ایسے سَتّر (۷۰) مشائخ کو گمراہ کر دیا ۔ میں نے کہا : یہ صرف میرے رب عزوجل کا فضل و احسان ہے ۔ شیخ ابو نصر موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ ’’ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کس طرح جانا کہ وہ شیطان ہے ؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : اُس کی اِس بات سے کہ ’’ بے شک میں نے تیرے لیے حرام چیزوں کو حلال کر دیا ۔ (بهجة الاسرار ذکر شي من اجوبته مما يدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۲۸)

حضرت شیخ ابو محمد الجونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ ایک روز میں حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت میں فاقہ کی حالت میں تھا اور میرے اہل و عیال نے بھی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ میں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سلام عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا : اے الجونی ! بھوک اللہ عزوجل کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اس کو عطا فرما دیتا ہے ۔ (قلائدالجواهر صفحہ ۵۷)

حضرت شیخ ابو القاسم عمر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جو کوئی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کردوں گا اور جو کوئی میرے وسیلے سے اللہ عزوجل سے اپنی حاجت طلب کرے گا تو اللہ عزوجل اس کی حاجت کو پورا فرما دے گا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فضل اصحابه و بشراهم صفحہ نمبر ۱۹۷)

ایک عورت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مرید ہوئی ، اس پر ایک فاسق شخص عاشق تھا ، ایک دن وہ عورت کسی حاجت کےلیے باہر پہاڑ کے غار کی طرف گئی تو اس فاسق شخص کو بھی اس کا علم ہو گیا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہولیا حتیٰ کہ اس کو پکڑ لیا ، وہ اس کے دامن عصمت کو ناپاک کرنا چاہتا تھا تو اس عورت نے بارگاہِ غوثیہ میں اس طرح استغاثہ کیا :
الغیاث یاغوث اعظم الغیاث یاغوث الثقلین
الغیاث یاشیخ محی الدین الغیاث یاسیدی عبدالقادر
اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مدرسہ میں وضو فرما رہے تھے آپ نے اس کی فریاد سن کر اپنی کھڑاؤں (لکڑی کے بنے ہوئے جوتے) کو غار کی طرف پھینکا وہ کھڑاویں اس فاسق کے سر پر لگنی شروع ہو گئیں حتیٰ کہ وہ مر گیا ، وہ عورت آپ کی نعلین مبارک لے کر حاضرِ خدمت ہوئی اورآپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں سارا قصہ بیان کردیا ۔ (تفريح الخاطر صفحہ ۳۷،چشتی)

حضرت ابوالحسن علی الازجی رحمۃ اللہ علیہ بیمار ہوئے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کے گھر ایک کبوتری اور ایک قمری کو بیٹھے ہوئے دیکھا ، حضرت ابوالحسن رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا : حضور والا رحمۃ اللہ علیہ یہ کبوتری چھ مہینے سے انڈے نہیں دے رہی اور قمُری (فاختہ) نو مہینے سے بولتی نہیں ہے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کبوتری کے پاس کھڑے ہو کر اس سے فرمایا : اپنے مالک کو فائدہ پہنچاؤ ۔ اور قمری سے فرمایا کہ ’’ اپنے خالق عزوجل کی تسبیح بیان کرو ۔ تو قمری نے اسی دن سے بولنا شروع کر دیا اور کبوتری عمر بھر انڈے دیتی رہی ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب صفحہ نمبر ۱۵۳)

حضرت شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اللہ عزوجل کے اذن سے مادر زاد اندھوں اور برص کے بیماروں کو اچھا کرتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرتے ہیں ۔ (بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۲۴)

حضرت شیخ خضر الحسینی الموصلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں تقریبا ۱۳ سال تک رہا ، اس دوران میں نے آپ کے بہت سے خوارق و کرامات کو دیکھا ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس مریض کو طبیب لاعلاج قرار دیتے تھے وہ آپ کے پاس آکر شفایاب ہو جاتا ، آپ اس کےلیے دعاء صحت فرماتے اور اس کے جسم پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرتے تو اللہ عزوجل اسی وقت اس مریض کو صحت عطا فرما دیتا ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب صفحہ ۱۴۷،چشتی)

ایک بار دریائے دجلہ میں زور دار سیلاب آگیا ، دریا کی طغیانی کی شدت کی وجہ سے لوگ ہراساں اور پریشان ہو گئے اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے مدد طلب کرنے لگے حضرت نے اپنا عصاء مبارک پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے اور دریا کے کنارے پر پہنچ کر آپ نے عصاء مبارک کو دریا کی اصلی حد پر نصب کر دیا اور دریا کو فرمایا کہ ’’ بس یہیں تک ۔ آپ کا فرمانا ہی تھا کہ اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہو گیا اور آپ کے عصاء مبارک تک آگیا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب صفحہ ۱۵۳)

حضرت شاہ ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ایک شخص نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر عرض کیا : آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس دربار میں حاجتیں پوری ہوتی ہیں اور یہ نجات پانے کی جگہ ہے پس میں اس بارگاہ میں ایک لڑکا طلب کرنے کی التجا کرتا ہوں ۔ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کر دی ہے کہ اللہ عزوجل تجھے وہ چیز عطا فرمائے جو تو چاہتا ہے ۔ وہ آدمی روزانہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف میں حاضر ہونے لگا ، قادر مطلق کے حکم سے اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ، وہ شخص لڑکی کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا : حضور والا (رحمۃ اللہ علیہ) ہم نے تو لڑکے کے متعلق عرض کیا تھا اور یہ لڑکی ہے ۔ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : اس کو لپیٹ کر اپنے گھر لے جاؤ اور پھر پردہ غیب سے قدرت کا کرشمہ دیکھوب۔ تو وہ حسبِ ارشاد اس کو لپیٹ کر گھر لے آیا اور دیکھا تو قدرت الٰہی عزوجل سے بجائے لڑکی کے لڑکا پایا ۔ (تفريح الخاطر صفحہ ۱۸،چشتی)

حضرت ابو السعود الحریمی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ : ابوالمظفرحسن بن نجم تاجر نے شیخ حماد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : حضور والا ! میرا ملک شام کی طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اور میرا قافلہ بھی تیار ہے، سات سو دینار کا مالِ تجارت ہمراہ لے جاؤں گا۔‘‘ تو شیخ حماد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر تم اس سال سفر کرو گے تو تم سفر میں ہی قتل کردیے جاؤ گے اور تمہارا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔ ‘‘وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد سن کر مغموم حالت میں باہر نکلا توحضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملاقات ہوگئی اس نے شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد سنایا تو آپ نے فرمایا اگر تم سفر کرنا چاہتے ہو تو جاؤ تم اپنے سفر سے صحیح و تندرست واپس آؤ گے، میں اس کا ضامن ہوں۔‘‘ آپ کی بشارت سن کر وہ تاجر سفرپر چلا گیا اور ملک شام میں جاکر ایک ہزار دینار کا اس نے اپنا مال فروخت کیا اس کے بعد وہ تاجر اپنے کسی کام کے لئے حلب چلاگیا، وہاں ایک مقام پر اس نے اپنے ہزار دینار رکھ دیئے اوررکھ کر دیناروں کو بھول گیا اور حلب میں اپنی قیام گاہ پر آگیا، نیند کا غلبہ تھا کہ آتے ہی سوگیا، خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ عرب بدوؤں نے اس کا قافلہ لوٹ لیا ہے اور قافلے کے کافی آدمیوں کو قتل بھی کر دیا ہے اور خود اس پر بھی حملہ کر کے اس کو مار ڈالا ہے، گھبرا کر بیدار ہوا تو اسے اپنے دینار یاد آگئے فورا ً دوڑتا ہوا اس جگہ پر پہنچا تو دینار وہاں ویسے ہی پڑے ہوئے مل گئے، دینار لے کر اپنی قیام گاہ پر پہنچا اور واپسی کی تیاری کرکے بغداد لوٹ آیا ۔ جب بغداد شریف پہنچا تو اس نے سوچا کہ پہلے حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ وہ عمر میں بڑے ہیں یا حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میرے سفر کے متعلق جو فرمایا تھا بالکل درست ہوا ہے اسی سوچ و بچار میں تھا کہ حسن اتفاق سے شاہی بازارمیں حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے اس کو ارشاد فرمایا کہ ’’پہلے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری دوکیوں کہ وہ محبوب سبحانی ہیں انہوں نے تمہارے حق میں سَتَّر (۷۰) مرتبہ دعا مانگی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے تمہارے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرما دیا اور مال کے ضائع ہونے کو بھول جانے سے بدل دیا۔ جب تاجر غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایاکہ ’’جو کچھ شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شاہی بازار میں تجھ سے بیان فرمایا ہے بالکل ٹھیک ہے کہ میں نے سَتَّر (۷۰) مرتبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہارے لیے دعا کی کہ وہ تمہارے قتل کے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادے اور تمہارے مال کے ضائع ہونے کو صرف تھوڑی دیر کے لئے بھول جانے سے بدل دے ۔ (بهجة الاسرار، ذکرفصول من کلامه مرصعابشي من عجائب صفحہ ۶۴)

ایک دن حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان فرما رہے تھے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کو نیند آگئی حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے اہل مجلس سے فرمایا خاموش رہو اور آپ منبر سے نیچے اتر آئے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے با ادب کھڑے ہوگئے اور ان کی طرف دیکھتے رہے ۔ جب شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خواب سے بیدار ہوئے تو حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان سے فرمایا کہ ’’آپ نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’میں اسی لیے بادب کھڑا ہوگیا تھا پھرآپ نے پوچھا کہ ’’ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو کیا نصیحت فرمائی؟‘‘ تو کہاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری کو لازم کر لو۔‘‘ بعد ازیں لوگوں نے شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دریافت کیا کہ ’’حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کا کیا مطلب تھا کہ ’’میں اسی لئے با ادب کھڑا ہوگیا تھا۔‘‘ تو شیخ علی بن ہیتی علیہ رحمۃ اللہ الباری نے فرمایا: ’’میں جو کچھ خواب میں دیکھ رہا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کو بیداری میں دیکھ رہے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب صفحہ ۵۸)

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے، اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُس کا ادب کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے تمام کام صحیح ودرست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہیے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا ۔ بندے کا شجرِ ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجرِ ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال کی) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجرِ ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہلِ ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکرِ ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب العالمین عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو ۔(فتوح الغيب مع قلائد الجواهر صفحہ ۴۴)

حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان عالی شان ہے :’’محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگا دے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹا کر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضلِ عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اِس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کردے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تُو راحت و سکون پائے گا اور اگر تُو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اورتجھ سے فضلِ خداوندی رُک جائے گا ۔ تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ جب تک تُو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تَو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس ،محویت ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کرد ے تو تیرے دل میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل،ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کرے گا ۔
مزید فرماتے ہیں : تیرا نفس اور اعضاء غیر اللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں ۔ (فتوح الغيب مع قلائد الجواهر صفحہ ۱۰۳)

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد مبارک ہے : جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ، اور دنیا و آخرت کی آرزؤوں سے فنا ہو جاتا ہے تَو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تَو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کردیتا ہے ۔پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبیر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے ۔ (فتوح الغيب مع قلائد الجواهر المقاله السادسة والخمسون صفحہ ۱۰۰)

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعتِ مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : وَمَآاٰتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَانَهٰكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۔
ترجمہ : اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔(پ۲۸،الحشر:۷) ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہیے، اس طرح تُو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہوجائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کیے جائیں گے اللہ عزوجل تیری حفاظت فرمائے گا، موا فقتِ خداوندی حاصل ہو گی ۔ اللہ عزوجل تجھے گناہوں سے محفوظ فرمائے گا اور تجھے اپنے فضل عظیم سے استقامت عطا فرمائے گا، تجھے دین کے تقاضوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریعت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان دنیوی نعمتوں سے تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حدودِ شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’خوشبو اور عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ (مشکوٰة المصابيح، کتاب الرقائق الفصل الثالث الحديث ۵۲۶۱ جلد ۲ صفحہ ۲۵۸،چشتی)
لہٰذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے ، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو نعمتِ الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اوروہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکامِ شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرتِ انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے ۔ (فتوح الغيب مترجم صفحہ ۷۲)

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالیٰ سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتۂِ تقدیرنے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لیے قبول ہوجاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔(فتوح العيوب مع قلائد الجواهر، المقالة الثامنة والستون صفحہ ۱۱۵)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اورجگہ ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے، اللہ عزوجل جو چاہتا کرتا ہے، جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کر دے، عرش سے فرش اور تحت الثرٰی تک جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ عزوجل کے قبضے میں ہے، ساری مخلوق اسی کی ہے، ہر چیز کا خالق وہ ہی ہے، اللہ عزوجل کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے تو ان سب کے با وجود تُو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے؟‘‘
اللہ عزوجل جسے چاہے اور جس طرح چاہے حکومت و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اللہ عزوجل کی بہتری سب پر غالب ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے ۔ (فتوح الغيب مترجم صفحہ ۸۰)

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا : پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اور موجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء وقدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضا مندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالیٰ نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظٖت کی دعا کر، کیونکہ تُو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے ،محتاجی و فقر فاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے ،یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتر ی کس میں ہے۔یہ بات اللہ تعالیٰ کی تدبیر پر رضا مندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی ۔ (فتوح الغيب مع قلائد الجوهر المقالة التاسعة والستون صفحہ ۱۱۷)

ایک مرتبہ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ ’’محبت کیا ہے؟‘‘ تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’محبت، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محوہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا ان ہیں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے ، وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اُس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته ممايدل علی قدم راسخ صفحہ ۲۲٩)

حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے توَکُّل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا کہ ’’توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا اور’’مذہب معرفت‘‘ میں دل کے یقین کی حقیقت کا نام اعتقاد ہے کیوں کہ وہ لازمی امور ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والانقص نہیں نکال سکتا۔(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ نمبر ۲۳۲)

حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’ دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرریعنی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ (بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۳۳)

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اوراسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ نمبر ۲۳۴)

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’ صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اُس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۳۴)

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ : اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو ۔ اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجالائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہاہے اور خود کو بھول جائے ۔ احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعتِ انسانی ہمیشہ حالت ِحق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کاخوف ہویادوست کا ناحق مطالبہ ہو ۔ (بهجة الاسرار صفحہ نمبر ۲۳۵)

حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا : وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں اِن کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اُس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته مما يدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۳۵،چشتی)

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا : روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالیٰ کےلیے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ نمبر ۲۳۶)

حضرت محبوب سبحانی ، قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’ اس کی بہت سی قسمیں ہیں (۱) خوف ۔ یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے ۔ (۲) رہبہ ۔ یہ عابدین کو ہوتا ہے ۔ (۳) خشیت ۔ یہ علماء کو ہوتی ہے ۔ نیز ارشاد فرمایا : گنہگار کا خوف عذاب سے، عابد کا خوف عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک خفی سے ہوتا ہے ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیوں کہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پاجاتے ہیں ۔ (بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۳۶) ۔ (مزید حصّہ نمبر 4 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...