Saturday 30 March 2024

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

0 comments

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

محترم قارئینِ کرام : ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا ۔ جو مومنہ ، مہاجرہ اور بیوہ تھیں ۔ ان کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی ۔ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ ذہین اور مضبوط حافظے کی مالکہ تھیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی جملہ ازواج میں سب سے زیادہ محبت و الفت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے فرماتے تھے ۔ علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں ان کا رتبہ بڑا بلند تھا ۔ بل کہ اکثر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ عالمہ بھی تھیں اور بڑے بڑے علما صحابہ آپ سے بعض ایسے احکام کے بارے میں سوال کرتے تھے جو انہیں مشکل لگتے تھے ۔ شیخ الاسلام والمسلمین اعلی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں : ⬇

بنتِ   صدیقِ    آرامِ    جانِ   نبی
اُس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام

یعنی ہے سورۂ  نور جسکی گواہ
ان کی پر نور صورت پے لاکھوں سلام

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بنت امیرالمومنین  حضرت سیدنا ابوبکر صدیق عتیق رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 5 سال بعد اظہار نبوت مطابق شوال المکرم 615 عیسوی مکہ المکرمہ میں ہوئی ۔ نام نامی عائشہ  لقب صدیقہ خطاب حمیرا اور ام عبداللہ کنیت ہے ۔ رضی اللہ عنہا ۔

والد محترم کی طرف سے قریش کے خاندان بنوتمیم سے تھیں ۔
سلسلہ نسب حضرت عائشہ بنت امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما بن عثمان ابی قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب بن لوئ ۔ اور ماں صاحبہ کی طرف سے آپ کنانیہ مشہور تھیں اس کی تشریح اس طرح ہے حضرت عائشہ بنت حضرت ام رومان بنت عمیر بن عامر بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 39)

والدہ محترمہ کا نام ام رومان بنت عامر تھا اور یہ بھی جلیل القدر صحابیہ تھیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ طفولیت امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق عتیق رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسے جلیل القدر باپ کے زیر سایہ بسرہوا. وہ بچپن ہی سے بے حد ذہین ‘ہوشمند تھیں ‘ اپنے بچپن کی تمام باتیں انہیں آخری عمر تک یاد تھیں کہاجاتا ہے کہ کسی دوسرے صحابی یاصحابیہ کی یادداشت اتنی قوی نہ تھی ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا پیدائشی مسلمان تھیں , آپ سے روایت ہے کہ جب میں نے اپنے والدین کو پہچانا تو انہیں مسلمان پایا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر روز ازل سے ہی کفر و شرک کا سایہ تک نہ پڑا ۔

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مَیں نے طب ، فقہ اور شعر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا ۔ ‘‘ احادیث اور سیرت کی کتابیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیش بہا علم اور سمجھ داری کی گواہ ہیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمانا بڑی حکمتوں کا حامل تھا ۔ چناں چہ عورتوں سے متعلق اکثر احکام و مسائل آپ ہی سے روایت کردہ ہیں ۔ آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوالات کرتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو باتیں ارشاد فرماتے انھیں ازبر کر لیتیں ۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے ۔ امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی ۔ شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ’’نزہۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : اِن (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے ۲۲۱۰؍ حدیثیں مروی ہیں ، علما فرماتے ہیں کہ دین کا چوتھائی حصہ آپ سے مروی ہے ۔ (نزہۃ القاری شرح بخاری ص ۱۷۷،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت اور کردار پر یوں تو کئی ضخیم کتابیں لکھی گئیں ۔ رحمانی پبلی کیشنز کی تاریخی شخصیات سیریز کے لیے بچّوں کی عمر اور ان کی نفسیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پیشِ نظر کتاب تالیف کی گئی ہے بہ ظاہر اسے کوئی اضافہ نہ قرار دیا جائے لیکن پھر بھی اس کتاب سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مختصر سوانح اور آپ کی زندگی کے اہم واقعات سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ اہل علم سے التماس ہے کہ کتاب پر اپنی گراں قدر رائے سے ضرور نوازیں ۔

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام ’’عائشہ‘‘ اور لقب ’’صدیقہ‘‘ اور ’’ حمیرا‘‘ ہے۔ اُن کی کنیت ’’اُم عبداللہ ‘‘ اور خطاب ’’ اُم المؤمنین‘‘ ہے۔ آپ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے محبوب بیوی ہیں ۔ آپ کے والد ماجد خلیفۂ اول امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور والدۂ ماجدہ مشہور صحابیہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ہیں ۔ والدِ گرامی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے : عائشہ بنت ابو بکر بن ابو قحافہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک ۔

والدۂ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی طرف سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے : ام رومان بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذنیہ بن سبع بن دھمان بن حارث بن غتم بن مالک بن کنانہ ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے اور والدۂ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی طرف سے بارہویں پشت پر کنانہ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے والدِ ماجد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔ اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سفر و حضر کے ساتھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جو بے مثال قربانیاں ہیں وہ اسلامی تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہی ہیں ۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یارِ غار اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ کے لقب سے سرفراز ہوئے ۔ آپ کی شرافت اور بزرگی بڑی بے مثال ہے ، وصال کے بعد بھی آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدۂ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا بھی اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے لیے اپنی بے لوث خدمات کی وجہ سے عظیم المرتبت صحابیات میں نمایاں مقام کی حامل ہیں ۔آپ کی وفات ۶ ھ میں ہوئی ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اُن کی قبر میں اترے اور فرمایا کہ : جو کوئی جنت کی حورِ عین کو دیکھنا چاہتا ہو وہ امِ رومان (رضی اللہ عنہا) کو دیکھ لے ۔

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدۂ ماجدہ حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا ۔ عبداللہ کی موت کے بعد آپ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے بطن سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک بیٹا حضرت عبدالرحمان اور ایک بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نصیب فرمائے ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس مقدس اور مبارک خاندان میں پیدا ہوئیں ۔ جس میں سب سے پہلے اسلام کی کرنوں نے اپنا اجالا بکھیرا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر ابتدا ہی سے نبوت کے نور سے روشن و منور رہا ۔ کفر و شرک کا اس گھرا نے میں دور دور تک پتا نہ تھا اسی نورانی ماحول میں آنکھ کھولنے والی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دامن بھی ہمیشہ کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک و صاف رہا ۔ بچپن ہی سے آپ نے اسلامی اور ایمانی فضا میں اپنی گزر بسر کی ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بے پناہ ذہین اور مثالی قوتِ حافظہ کی مالکہ تھیں ۔ آپ کے والدِ ماجد خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی بڑے علم و فضل والے اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی دوسری اولاد کی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی تربیت فرمائی ۔ اور انھیں تاریخ و ادب کے علاوہ اُس زمانے کے ضروری علوم بھی پڑھائے ۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہو گیا اُس کے بعد بھی اُن کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تعلیم و تربیت فرماتے رہے۔ والدِ ماجد کی اِن ہی تربیت کا اثر تھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ نکاح میں آ جانے کی وجہ سے مسلمان عورتوں کے زیادہ ترمسائل اور اُن کی ضروریات کی باتیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے ہی پہنچیں ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والدِ گرامی کے زیرِ سایا تعلیم و تربیت حاصل کرتی رہیں اور جلد ہی انھوں نے اپنے خداداد مثالی قوتِ حافظہ اور ذہن کی وجہ سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کر لی۔ جب آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نکاح میں آ گئیں تو یہ دور اُن کی تعلیم و تربیت کا حقیقی دور بنا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمکے کاشانۂ اقدس میں آ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ سیکھا وہ آج پوری امتِ مسلمہ خصوصاً مسلمان عورتوں کے لیے بھلائی اور نجات کا سامان بنا ہوا ہے ۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پوری کائنات کے معلمِ اعظم کی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تربیت فرماتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی جملہ ازواج کے ایک ایک فعل کی نگرانی فرماتے اور کہیں کوئی لغزش نظر آتی تو فوراً اصلاح فرماتے ۔اس سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جو امتیاز حاصل ہوا وہ ایک مثال رکھتا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف نکاح کے وقت کم تھی اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے ذریعہ امت کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام لینا مقصود تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ رب العزت نے ذہانت عطا فرمائی تھی اس کے ہوتے آپ کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھ لیتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسئلہ واضح فرما دیتے تو وہ انھیں ازبر کر لیتیں ۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے ۔ امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھا ، ناظرہ قرآن پڑھا ، علم انساب سے واقفیت حاصل کی ، علمِ طب میں مہارت پیدا کی ، شریعت کے باریک باریک نکات یاد کیے،خطابت میں عبور حاصل کیا، ضروریاتِ دین اور قرآنی و نبوی علوم میں ملکہ پیدا کیا۔ اللہ جل شانہٗ نے آپ رضی اللہ عنہا کو قرآن و سنت سے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کا شعور بخشا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کے اثر نے آپ کو امت کی ایک بہترین فقیہ اور عالمہ بنا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ مشکل سے مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے اور تسلی بخش جواب پاتے ۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت : ⏬

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی کنیت ام عبداللہ ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے کنیت مقرر کرنے کی درخواست کی چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھانجے ( یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے اپنی کنیت رکھ لو ۔ ایک اور روایت میں آیا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجب اپنی بہن کے نوزائیدہ فرزند حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارگاہِ رسالت میں لے کر حاضر ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کے منہ میں لعاب دہن ڈال کر فرمایا :یہ عبداللہ ہے اور تم ام عبداللہرضی اللہ تعالیٰ عنہما ۔ (مدارج النبوت قسم پنجم باب دوم جلد ۲ صفحہ ۴۶۸،چشتی)

خواب میں سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صورت : ⏬

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں :رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:تم تین راتیں مجھے خواب میں دکھائی گئیں ایک فرشتہ تمہیں (تمہاری تصویر)ریشم کے ایک ٹکڑے میں لے کر آیااوراس نے کہا:یہ آپ کی زوجہ ہیں ان کاچہرہ کھولئے۔ پس میں نے دیکھاتووہ تم تھیں میں نے کہا:اگریہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تووہ اسے پوراکرے گا ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فی فضل عائشۃ، الحدیث۲۴۳۸ ،ص ۱۳۲۴،چشتی)

دوسری روایت میں یہ لفظ بھی ہیں ، یہ تمہاری زوجہ ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب ،باب فضل عائشۃ الحدیث ۳۹۰۶، ج۵،ص۴۷۰)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح : ⏬

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور پیغام سنایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے فرمادیا ہے ، اوران کے پاس عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک تصویرتھی۔(شرح العلامۃ الزرقانی،المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات،ج۴،ص۳۸۷)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا نکاح مدینہ طیبہ میں چھ سال کی عمر میں ماہ شوال میں ہوا،اور ماہِ شوال ہی میں نو سال کی عمر میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں نو سال تک رہیں ۔ جب سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے وصال فرمایا تو اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی عمر اٹھارہ سال تھی ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ذکرازواج رسول اللہ جلد ۸ صفحہ ۴۶،۴۸،چشتی)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں نکاح کیااوررخصتی بھی شوال کے مہینے میں ہوئی تو کون سی عورت مجھ سے زیادہ خوش نصیب ہے!ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااس بات کوپسندکرتی تھیں کہ عورتوں کی رخصتی شوال میں ہو ۔ (صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب استحباب التزوج ...الخ، الحدیث ۱۴۲۳،ص۷۳۹،چشتی)

حبیبہ حبیبِ خدا عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و رضی اللہ عنہا : ⏬

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اعظم فضائل ومناقب میں سے ان سے حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا بہت زیادہ محبت فرمانا بھی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اپنی نعلین مبارک میں پیوند لگارہے تھے جبکہ میں چرخہ کات رہی تھی۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے چہرہ پر نور کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہا تھا اور اس پسینہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے جمال میں ایسی تابانی تھی کہ میں حیران تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے میری طرف نگاہ کرم اٹھاکر فرمایا : کس بات پر حیران ہو؟ سیدہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: یارسول اللہ !صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے رخِ روشن اور پسینۂ جبین نے مجھے حیران کردیا ہے اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے پاس آئے اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: اے عائشہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے تم اتنا مجھ سے لطف اندوز نہیں ہوئی جتنا تم نے مجھے مسرور کردیا ۔ (حلیۃ الاولیائ ، ذکر النساء الصحابیات، عائشۃ زوج رسول اللہ الحدیث ۱۴۶۴ جلد ۲ صفحہ ۵۶،چشتی)

حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس سے میں محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو گی؟ سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: ضرور یارسول اللہ !صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں محبت رکھوں گی۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے محبت رکھو ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فی فضل عائشۃ، الحدیث ۲۴۴۲،ص۱۳۲۵)

حضرت عماربن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کسی کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بارے میں بدگوئی کرتے سنا تو حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: او ذلیل و خوار! خاموش رہ، کیا تو اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی حبیبہ پربد گوئی کرتا ہے ۔ (حلیۃ الاولیائ ذکر النساء الصحابیات،عائشۃ زوج رسول اللہ،الحدیث۱۴۶۰، جلد ۲ صفحہ ۵۵،چشتی)

حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق روایت : ⏬

حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکابر تابعین میں سے ہیں ، جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت کرتے تو فرمایا کرتے :’’حدثتنی الصدیقۃ بنت الصدیق حبیبۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ‘‘مجھ سے حدیث بیان کی صدیقہ بنت صدیق، محبوبۂ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے یا کبھی اس طرح حدیث بیان کرتے حبیبۃ حبیب اللہ المبرّأۃ من السماء اللہ کے حبیب کی محبوبہ جن کی پارسائی کی گواہی آسمان سے نازل ہوئی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۶۹)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ناز و نیاز : ⏬

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محبوب کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ گفتگو کرنے کی بہت قدرت تھی اور وہ جو چاہتیں بلاجھجک عرض کردیتی تھیں اور یہ اس قرب و محبت کی وجہ سے تھا جو ان کے مابین تھی۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم در ذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۱)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنی گڑیا ں گھر کے ایک دریچہ میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی۔ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے دریچہ کے پردہ کو اٹھایا اور گڑیاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو دکھائیں ۔حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: یہ سب کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا:میری بیٹیاں (یعنی میری گڑیاں ) ہیں ، ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے دو بازو تھے۔ فرمایا: کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا:کیاآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے۔حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس پر اتنا تبسم فرمایاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں ۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۱،چشتی)

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوگا مگر حق تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کیا آپ بھی جنت میں داخل نہ ہوں گے مگر خدا کی رحمت سے؟ فرمایا: ہاں !میں بھی داخل نہ ہوں گا مگر یہ کہ مجھے حق تعالیٰ نے اپنی رحمت میں چھپا لیا ہے۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۲)

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن حضورپر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے درآنحالیکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ بلندآواز سے باتیں کررہی تھیں ،توحضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہوئے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی طرف بڑھے کہ اے ام رومان کی بیٹی!کیاتورسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پراپنی آوازکوبلندکرتی ہے۔تونبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم درمیان میں حائل ہوگئے۔جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے چلے گئے تو حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کومناتے ہوئے فرمایا:کیاتم نے نہ دیکھاکہ میں تمہارے اوران( حضرت ابوبکرصدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے درمیان حائل ہوگیا۔راوی فرماتے ہیں :پھرجب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضرہوئے توسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بہت خوش پایا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بہت خوش ہوئے۔(المسندللامام أحمدبن حنبل،مسند الکوفیین، حدیث النعمان بن بشیر،ج۲،ص۲۵۴،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: میں جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی رہتی ہو اور جب تم خفا رہتی ہو میں نے پوچھا:آپ کیسے پہچانتے ہیں ؟ فرمایا:جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو توکہتی ہو محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے رب عزوجل کی قسم! اور جب ناراض رہتی ہوتوکہتی ہو ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! میں نے عرض کیا: ہاں ! یہی بات ہے میں صرف آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا نام ہی چھوڑتی ہوں ۔ (صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب غیرۃ النساء ...الخ،الحدیث ۵۲۲۸، ج۳، ص۴۷۱)

مطلب یہ ہے کہ اس حال میں صرف آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا نام نہیں لیتی۔ لیکن آپصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی یاد میرے دل میں اور میری جان آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی محبت میں مستغرق ہے۔

تفقہ فی الدین : ⏬

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فقہا و علما و فصحا بلغا اور اکابرمفتیانِ صحابہ میں سے تھیں اور حدیثوں میں آیا ہے کہ تم اپنے دو تہائی دین کو ان حمیرا(یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)سے حاصل کرو ۔ (مدارج النبوت، قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۶۹،چشتی)

عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو معانی قرآن احکام حلال و حرام، اشعار عرب اور علم انساب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ عالم نہیں دیکھا ۔ (حلیۃ الاولیائ،ذکر النساء الصحابیات،عائشۃ زوج رسول اللہ،الحدیث۱۴۸۲، ج۲،ص۶۰)

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ہم کوکسی حدیث کے بارے میں مشکل پیش آتی ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کرتے تو ان کے پاس اس کے متعلق علم پاتے ۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فضل عائشۃ،الحدیث:۳۹۰۸،ج۵،ص۴۷۱)

برکاتِ آلِ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ⏬

ایک سفر میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہار مدینہ طیبہ کے قریب کسی منزل میں گم ہوگیا، سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس منزل پر پڑاؤ ڈالا تاکہ ہار مل جائے، نہ منزل میں پانی تھا نہ ہی لوگوں کے پاس، لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شکایت لائے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے،دیکھا کہ راحت العاشقین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آغوش میں اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرمارہے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاپر سختی کا اظہار کیا لیکن سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے آپ کو جنبش سے باز رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی چشمانِ مبارکہ خواب سے بیدا رہوجائیں چنانچہ صبح ہوگئی اور نمازکے لئے پانی عدم دستیاب ، اس وقت اللہ عزوجل نے اپنے لطف و کرم سے آیت تیمم نازل فرمائی اور لشکر اسلام نے صبح کی نماز تیمم کے ساتھ ادا کی حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’ما ھی با ول برکتکم یا ال ابی بکر‘‘ اے اولاد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہیہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔( مطلب یہ کہ مسلمانوں کو تمہاری بہت سی برکتیں پہنچی ہیں ) سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد جب اونٹ اٹھایا گیا تو ہار اونٹ کے نیچے سے مل گیا( گویا حکمت الٰہی عزوجل یہی تھی کہ مسلمانوں کے لئے آسانی اور سہولت مہیا کی جائے ۔ (صحیح البخاری ، کتاب التیمم ، باب التیمم ، الحدیث۳۳۴، ج۱، ص۱۳۳،چشتی)

ارفع شان : ⏬

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :قبل اس کے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میرے لئے پیام نکاح دیں جبرئیل علیہ السلام نے ریشمی کپڑے پر میری صورت حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کودکھائی۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۰،چشتی)

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی تھیں :بے شک اللہ عزوجل کی نعمتوں میں سے مجھ پریہ بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا وصال میرے گھر میں اور میری باری میں ، میرے سینے اور گلے کے درمیان ہوا،اور اللہ تعالیٰ نے میرے اوران کے لعاب کوان کے وصال کے وقت جمع فرمایا،عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے، ان کے ہاتھ میں مسواک تھی،اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم مجھ پرٹیک لگائے ہوئے تھے،تومیں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کودیکھاکہ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں ،میں نے پہچاناکہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم مسواک کوپسندفرماتے ہیں ، میں نے پوچھا :آپ کے لئے مسواک لے لوں ؟ توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے سر انور سے اشارہ فرمایاکہ ہاں ! میں نے مسواک لی(مسواک سخت تھی )میں نے عرض کی: اسے نرم کردوں ؟ توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے سرسے اشارہ فرمایا کہ ہاں !تومیں نے( اپنے منہ سے چبا کر) اسے نرم کردیا،پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کواپنے منہ میں پھیرا۔( اس طرح میرا اورسرور دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کالعاب جمع ہوگیا۔)(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ووفاتہ ، الحدیث۴۴۴۹،ج۳، ص۱۵۷)

خلفائے مسلمین رضی اللہ عنہم کے ایمان افروز اقوال : ⏬

مروی ہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمسے عرض کی:(ام المؤمنین پر افترا کرنے والے) منافقین قطعاً جھوٹے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کواس سے محفوظ رکھاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمکے جسم اطہرپرمکھی بیٹھے، اس لئے کہ وہ نجاست پر بیٹھتی اوراس سے آلودہ ہوتی ہے، توجب اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمکواتنی سی بات سے بھی محفوظ رکھاپھر یہ کیسے ہوسکتاہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمکو ایسے کی صحبت سے محفوظ نہ فرماتاجوایسی بے حیائی سے آلودہ ہو۔(تفسیر النسفی،الجزء الثانی عشر،النورتحت الآیۃ۱۲،ص۷۷۲،چشتی)

حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے سائے کو زمین پر نہیں پڑنے دیااس لئے کہ کوئی شخص اس سائے پراپناپاؤں نہ رکھے توجب کسی کوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے سائے پرپاؤں رکھنے کابھی موقع نہ دیاتوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمکی زوجہ کی آبرو پرکسی کوکیسے اختیار دے دیتا ۔ (تفسیر النسفی،الجزء الثانی عشر،النورتحت الآیۃ۱۲،ص۷۷۲)

حضرت سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :بے شک جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کواس بات پربھی مطلع کیاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی نعلین پرمیل لگاہواہے ،اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کی کہ اسے اپنے پاؤں سے اتاردیجئے کیونکہ اس میں میل لگاہواہے،لہٰذا اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو الگ کردینے کا حکم بھی نازل ہوجاتا۔(تفسیر النسفی،الجزء الثانی عشر،النورتحت الآیۃ۱۲،ص۷۷۲)

انفاق فی سبیل اللہ عزوجل : ⏬

مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیں کہ حق تعالیٰ مجھے جنت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں رکھے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :اگر تم اس رتبہ کی تمنا کرتی ہو تو کل کے لئے کھانا بچاکر نہ رکھو۔ اور کسی کپڑے کو جب تک اس میں پیوند لگ سکتا ہے بے کار نہ سمجھو، سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی اس وصیت ونصیحت پر اس قدر کاربند رہیں کہ کبھی آج کا کھانا کل کے لئے بچا کر نہ رکھا۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،ذکر امہات المؤمنین ، حضرت عائشۃ، ج۲،ص۴۷۲)

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ستر ہزار درہم راہِ خدا میں صدقہ کرتے دیکھا حالانکہ ان کی قمیص کے مبارک دامن میں پیوند لگا ہوا تھا۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،ذکر امہات المؤمنین، حضرت عائشۃ،ج۲،ص۴۷۳)

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اسی دن وہ سب دراہم اقارب و فقرا میں تقسیم فرمادیئے ۔ اس دن روزہ سے ہونے کے باوجود شام کے کھانے کے لئے کچھ نہ بچایا۔ باندی نے عرض کیا کہ اگر ایک درہم روٹی خریدنے کے لئے بچالیتیں تو کیا ہوتا؟ فرمایا: یاد نہیں آیا اگر یاد آجاتا تو بچالیتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،ذکر امہات المؤمنین،حضرت عائشۃ،ج۲،ص۴۷۲)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کتب معتبرہ میں دوہزاردوسودس حدیثیں مروی ہیں ان میں سے بخاری و مسلم میں ایک سو چوہتر متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری میں چوَّن اور صرف مسلم میں سٹر سٹھ ہیں ، بقیہ تمام کتابوں میں ہیں صحابہ و تابعین میں سے خلق کثیر نے ان سے روایتیں لی ہیں ۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،ذکر امہات المؤمنین ، حضرت عائشۃ،ج۲،ص۴۷۲)

وصال مبارک : ⏬

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں ۵۷ھ؁ میں ۶۶ سال کی عمر میں ہوا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ (شرح الزرقا نی علی المواہب،المقصدالثانی،الفصل الثالث،عائشۃ ام المؤمنین جلد ۴ صفحہ ۳۹۲)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی ۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ آپ کا نماز جنازہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا ۔ (البداية والنهاية، لابن کثير، ج : 4، جز : 7، ص : 97)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال کے وقت فرمایا : کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات، ج۲، ص۴۷۳)

جب سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔ باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اپنے والد ماجد کے بعد ۔ (مدارج النبوت، قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

کیا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کروایا ؟ : ⏬

محترم قارئینِ کرام : پہلے کھلے رافضی اور اب سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی یہ جھوٹ بول کر کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کروایا اس طرح یہ کذّاب لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور توہین بھی کرتے ہیں آیئے حقائق کیا ہیں پڑھتے ہیں مستند دلائل کی روشنی میں ۔ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری میں ۶۶ سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ (شرح الزرقا نی علی المواہب ، المقصدالثانی ، الفصل الثالث عائشۃ ام المؤمنین جلد ۴ صفحہ ۳۹۲،چشتی)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال کے وقت فرمایا : کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

جب ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔ باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اپنے والد ماجد کے بعد ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی ۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ آپ کا نماز جنازہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا ۔ (البداية والنهاية، لابن کثير، ج : 4، جز : 7، ص : 97)

امام بخاري رحمۃ الله علیہ (المتوفى256) صحیح بخاری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا ۔ (صحيح البخاري: 6/ 106 رقم 4753،چشتی)
ترجمہ : ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں ۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لئے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ انشاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے ۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اوراس کے اوپر سے اسے چھپا کر وہاں پر ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہاں پہچنچی تو گڈھے میں گرگئی اور ان کی وفات ہوگئیں ۔ اس جھوٹ اور بہتان کے برعکس بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڑھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو ۔ نیز بخاری کی یہی حدیث صحیح ابن حبان میں بھی ہے اوراس میں ابن عباس کے لئے عیادت کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ ہو : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ: فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا ۔(صحيح ابن حبان: 16/ 41،چشتی)

عیادت کا لفظ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طریقہ پرہوئی تھی ۔ بلکہ حاکم کی روایت میں ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی پوری صراحت ہے ملاحظہ ہوں الفاظ : جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی)

یہ روایات اس بات کی زبردست دلیل ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طور پر ان کے گھر پر ہوئی تھی ۔ آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کا بھی ہے ۔ نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا نے پڑ ھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔ (اسد الغابہ،ج:۵/ص:۵۰۴)


عَنْ أَبِي سَلَمَةَ: إِنَّ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَوْمًا: يَا عَائِشَةُ، هَذَا جِبْرِيْلُ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ ۔ فَقُلْتُ : وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُةُ ، تَرَي مَا لَا أَرَي تُرِددُ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ ! یہ جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا : ان پر بھی سلام ہو اور الله کی رحمت اور برکات ہوں ۔ لیکن آپ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں دیکھ سکتی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي، باب: فضل عائشة، 3 / 1374، الرقم: 3557، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة، 4 / 1895، الرقم؛ 2447، و الترمذي في السنن، کتاب: الاستئذان، باب: ما جاء في تبليغ السلام، 5 / 55، الرقم: 2693)


عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أُرِيْتُکِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ أَرَي أَنَّکِ فِي سَرَقَةٍ مِّنْ حَرِيْرٍ وَ يُقَالُ: هَذِهِ امْرَأَتُکَ، فَاکْشَفْ عَنْهَا فَإِذَا هِيَ أَنْتِ فَأَقُوْلُ إِنْ يَکُ هَذَا مِن عِنْدِ اللهِ يُمْضِهِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : میں نے خواب میں دو مرتبہ تمہیں دیکھا میں نے دیکھا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے ۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے ، جب میں نے دیکھا تو تم تھی۔ تو میں نے کہا کہ اگر یہ الله تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کر کے ہی رہے گا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي، باب: تزويج النبي عائشة، 3 / 1415، الرقم: 3682، و في کتاب: النکاح، باب: قول الله ولا جناح عليکم فيما عرضتم به من خطبة النساء، 5 / 1969، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل عائشة، 4 / 1889، الرقم: 2438، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 41، الرقم: 24188،چشتی)


عَنْ أَبِي عُثْمَانَ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلٰى جَيْشٍ ذَاتِ السُّلَاسِلِ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلٰىکَ؟ قَالَ: عَائِشَةُ. قُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: أَبُوْهَا. قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: عُمَرُ. فَعَدَّ رِجَالًا فَسَکَتُّ مَخَافَةَ أَنْ يَجْعَلَنِي فِي آخِرِهِمْ ۔

ترجمہ : حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ ذات السلاسل کے لئے حضرت عمرو بن العاص کو امیر لشکر مقرر فرمایا ۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ ! آپ کو انسانوں میں سب سے پیارا کون ہے ؟ فرمایا : عائشہ، میں عرض گزار ہوا : مردوں میں سے؟ فرمایا : اس کا والد، میں نے عرض کیا : ان کے بعد کو ن ہے ؟ فرمایا : عمر ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دیگر حضرات کے نام لیے لیکن میں اس خیال سے خاموش ہو گیا کہ کہیں میرا نام آخر میں نہ آئے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة ذات السلاسل، 4 / 1584، الرقم: 4100، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل أبي بکر، 4 / 1856، الرقم 2384، و الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: فضل عائشة، 5 / 706، الرقم: 3885، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 308، الرقم: 6885)


عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَ إِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَي. قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَ مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِکَ؟ فَقَالَ: أَمَّا إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً فَإِنَّکِ تَقُولِيْنَ: لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَ إِذَا کُنْتِ غَضْبَي قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ وَاللهِ، يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَکَ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : میں بخوبی جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ یہ بات آپ کس طرح معلوم کرلیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ رب محمد کی قسم! اور جب تم ناخوش ہوتی ہو تو کہتی ہو ربِ ابراہیم کی قسم ! وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ خدا کی قسم! یارسول الله ! اس وقت میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: النکاح، باب: غيرة النساء ووجدهن، 5 / 2004، الرقم: 4930، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل عائشة، 4 / 1890، الرقم: 2439، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 49، الرقم: 7112، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 61، الرقم: 24363،چشتی)


عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها: أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ يَبْتَغُوْنَ بِهَا أَوْ يَبْتَغُوْنَ بِذَلِکَ مَرْضَاةَ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے تحائف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے میرے (ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص کردہ) دن کی تلاش میں رہتے تھے ، اور اس عمل سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا چاہتے تھے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب: قبول الهدية، 2 / 910، الرقم: 2435، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة، 4 / 1891، الرقم: 2441، و النسائي في السنن، کتاب: عشرة النساء، باب: حب الرجل بعض نسائه أکثر من بعض، 7 / 69، الرقم: 3951، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 169، الرقم: 11723)


عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنْ کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَيَتَعَذُّرُ فِي مَرَضِهِ أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ ؟ أَيْنَ أَنَا غَدًا ؟ اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ فَلَمَّا کَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ اللهُ بَيْنَ سَحْرِي وَ نَحْرِي وَ دُفِنَ فِي بَيْتِي ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مرض الوصال) میں (میری) باری طلب کرنے کےلیے پوچھتے کہ میں آج کہاں رہوں گا ؟ کل میں کہاں رہوں گا ؟ پھر جس دن میری باری تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ انور میری گود میں تھا کہ اللہ عزوجل نے آپ کی روح مقدسہ قبض کر لی اور میرے گھر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہوئے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: ما جاء في قبر النبي ﷺ، 1 / 486، الرقم: 1323، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة رضی الله عنها ، 4 / 1893، الرقم؛ 2443)


عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ، قَالَتْ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ وَ أَنَا أَنْظُرُ إِلٰى الْحَبَشَةِ يَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّي أَکُوْنَ أَنَا الَّتِي أَسْأَمُ فَاقْدُرُوْا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيْثَةِ السِّنِّ الْحَرِيْصَةِ عَلَي اللَّهْوِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حبشی اپنے ہتھیاروں سے لیس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں کھیل رہے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے تاکہ میں ان کا کھیل دیکھتی رہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری وجہ سے کھڑے رہے یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا اور میں خود وہاں سے چلی گئی۔ اب تم خود اندازہ کر لو کہ جو لڑکی کم سن اور کھیل کی شائق ہو وہ کب تک دیکھے گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: النکاح، باب: نظر المرأة إلي الحبش و نحوهم من غير ريبة، 5 / 2006، الرقم: 4938، و مسلم في الصحيح، کتاب: صلاة العيدين، باب: الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2 / 608، الرقم: 892، و النسائي في السنن، کتاب: صلاة العيدين، باب: اللعب في المسجد يوم العيد و نظر النساء إلي ذلک، 3 / 195، الرقم: 1595، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 85، الرقم: 24596، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 179، الرقم: 282،چشتی)


عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ. قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قُبَيْلَ مَوْتِهَا عَلَي عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوْبَةٌ. قَالَتْ: أَخْشَي أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيْلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَ مِنْ وُجُوْهِ الْمُسْلِمِيْنَ قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ؟ فَقَالَ: کَيْفَ تَجِدِيْنَکِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنْ اتَّقَيْتُ. قَالَ: فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللهُ تَعَالَي، زَوْجَةُ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَلَمْ يَنْکِحْ بِکْرًا غَيرَکِ وَ نَزَلَ عُذْرُکِ مِنَ السَّمَاءِ، وَ دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلَافَهُ فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثَنَي عَلَيَّ وَ وَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ۔

ترجمہ : امام ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی جبکہ وفات سے پہلے وہ عالم نزع میں تھیں ۔ انہوں نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ یہ میری تعریف کریں گے ۔ حاضرین نے کہا : یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد اور سرکردہ مسلمانوں میں سے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا : اچھا انہیں اجازت دے دو ۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے ؟ جواب دیا : اگر پرہیزگار ہوں تو بہتر ہے ۔ آپ نے فرمایا : ان شاء الله بہتر ہی رہے گا کیونکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا انہوں نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی براءت آسمان سے نازل ہوئی تھی ۔ ان کے بعد حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے فرمایا : حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما آئے تھے وہ میری تعریف کر رہے تھے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش ! میں گمنام ہوتی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التفسير، باب: ولولا إذ سمعتموه، 4 / 1779، الرقم: 4476،چشتی)


عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ رضی الله عنها لَا تُمْسِکُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَ هَا مِنْ رِزْقِ اللهِ تَعَالَي إِلَّا تَصَدَّقَتْ بِهِ ۔

ترجمہ : حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت (کھڑے کھڑے) اس کا صدقہ فرما دیتیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: مناقب قريش، 3 / 1291، الرقم: 3314)


عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ جَارًا لِرَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَارِسِيًا کَانَ طَيبَ الْمَرَقِ فَصَنَعَ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ: وَ هَذِهِ لِعَائِشَةَ فَقَالَ: لاَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا، فَعَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَ هَذِهِ قَالَ: لَا، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا، ثُمَّ عَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَ هَذِهِ، قَالَ: نَعَمْ، فِي الثَّالِثَةِ، فَقَامَ يَتَدَافِعَانِ حَتَّي أَتَيَا مَنْزِلَهُ ۔

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، پس ایک دن اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے سالن بنایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دینے کےلیے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور یہ بھی یعنی عائشہ (بھی میرے ساتھ مدعو ہے یا نہیں) تو اس نے عرض کیا : نہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں (میں نہیں جاؤں گا) اس شخص نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی (یعنی عائشہ) تو اس آدمی نے عرض کیا : نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر انکار فرما دیا ۔ اس شخص نے سہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی ، اس نے عرض کیا : ہاں یہ بھی ، پھر دونوں (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا) ایک دوسرے کو تھامتے ہوئے اٹھے اور اس شخص کے گھر تشریف لے کر آئے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: ما يفعل الضيف إذا تبعه غير من دعاه صاحب الطعام و استحباب إذن صاحب الطعام للتابع، 3 / 1609، الرقم: 2037، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 123، الرقم: 12265)


عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ جِبْرِيْلَ جَاءَ بِصُوْرَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيْرٍ خَضْرَاءَ إِلٰى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ فَقَالَ : إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُکَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) ان کی تصویر لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: من فضل عائشة، 5 / 704، الرقم: 3880، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 6، الرقم: 7094، و ابن راهويه في المسند، 3 / 649، الرقم: 1237، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 140، 141،چشتی)


عَنْ أَبِي مُوْسَي، قَالَ: مَا أَشْکَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَدِيْثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا ۔

ترجمہ : حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس حدیث کا صحیح علم پالیتے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم: 3883، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 179، و المزي في تهذيب الکمال، 12 / 423، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18)


عَنْ مُوْسَي بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ : مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ ۔

ترجمہ : حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم: 3884، و الحاکم في المستدرک، 4 / 12، الرقم: 6735، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 182، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 191، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 876، الرقم: 1646، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال: رجاله رجال الصحيح،چشتی)


عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها في رواية طويلة: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ لِفَاطِمَةَ: إِنَّهَا (أَي عَائِشَةَ) حِبَّةُ أَبِيْکَ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا ایک طویل حدیث میں روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا : ربِ کعبہ کی قسم ! بے شک عائشہ تمہارے والد کو بہت زیادہ محبوب ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في الانتصار، 4 / 274، الرقم: 4898، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 322)


عَنْ ذَکْوَانَ حَاجِبِ عَائِشَةَ: أَنَّهُ جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَي عَائِشَةَ... فَقَالَتْ: ائْذِنْ لَهُ إِنْ شِئْتَ، قَالَ: فَأَدْخَلْتُهُ فَلَمَّا جَلَسَ، قَالَ: أَبْشِرِي، فَقَالَتْ: أَيْضًا، فَقَالَ: مَا بَيْنَکِ وَ بَيْنَ أَنْ تَلْقَي مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَ الْأَحِبَّةَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ الرُّوْحُ مِنَ الْجَسَدِ، کُنْتِ أَحَبَّ نِسَاءِ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلٰى رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وَ لَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يُحِبُّ إِلَّا طَيِّبًا وَ سَقَطَتْ قِلاَدَتُکِ لَيْلَةَ الْأَبْوَاءِ فَأَصْبَحَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتَّي يُصْبِحَ فِي الْمَنْزِلِ وَ أَصْبَحَ النَّاسُ لَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اللهُ عزوجل (فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا) فَکَانَ ذَلِکَ فِي سَبَبِکِ، وَ مَا أَنْزَلَ اللهُ عزوجل لِهَذِهِ الْأُمَّةِ مِنَ الرُّخْصَةِ، وَ أَنْزَلَ اللهُ بَرَاءَ تَکِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ جَاءَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ، فَأَصْبَحَ لَيْسَِﷲِ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ اللهِ يُذْکَرُ اللهُ فِيْهِ إِلَّا يُتْلَي فِيْهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَقَالَتْ: دَعْنِي مِنْکَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَ الَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًا ۔

ترجمہ : حضرت ذکوان جو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے دربان تھے، روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے ملنے کی اجازت طلب کرنے کےلیے تشریف لائے ۔ تو آپ نے فرمایا : اگر تم چاہتے ہو تو انہیں اجازت دے دو ، راوی بیان کرتے ہیں پھر میں ان کو اندر لے آیا پس جب وہ بیٹھ گئے تو عرض کرنے لگے : اے ام المومنین ! آپ کو خوشخبری ہو ، آپ نے جواباً فرمایا : اور تمہیں بھی خوشخبری ہو ، پھر انہوں نے عرض کیا : آپ کی آپ کے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات میں سوائے آپ کی روح کے قفس عنصری سے پرواز کرنے کے کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ازواج مطہرات سے بڑھ کر عزیز تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے پاکیزہ چیز کے کسی کو پسند نہیں فرماتے تھے، اور ابوا والی رات آپ کے گلے کا ہار گر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح تک گھر نہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صبح اس حال میں کی کہ ان کے پاس وضو کرنے کیلئے پانی نہیں تھا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی ’’پس تیمم کرو پاکیزہ مٹی کے ساتھ‘‘ اور یہ سارا آپ کے سبب ہوا اور یہ جو رخصت اللہ تعالیٰ نے (تیمم کی شکل میں) نازل فرمائی (یہ بھی آپ کی بدولت ہوا) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت سات آسمانوں کے اوپر سے نازل فرمائی جسے حضرت جبریل امین علیہ السلام لے کر نازل ہوئے پس اب اللہ تعالیٰ کی مساجد میں سے کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے جس میں اس (سورئہ براءت) کی رات دن تلاوت نہ ہوتی ہو ۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : اے ابن عباس! بس کرو میری اور تعریف نہ کرو ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مجھے یہ پسند ہے کہ میں کوئی بھولی بسری چیز ہوتی (جسے کوئی نہ جانتا ہوتا) ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 276، الرقم: 2496، و ابن حبان في الصحيح في الصحيح، 16 / 41، 42، الرقم: 7108، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 321، الرقم: 10783، و أبو يعلي في المسند، 5 / 5765، الرقم: 2648،چشتی)


عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَي مَعْرَفَةِ فَرَسٍ وَ هُوَ يُکَلِّمُ رَجُلًا، قُلْتُ: رَأَيْتُکَ وَاضِعًا يَدَيْکَ عَلٰى مَعْرَفَةِ فَرَسِ دِحْيَةَ الْکَلْبِيِّ وَ أَنْتَ تُکَلِّمُهُ، قَالَ: وَ رَأَيْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ: ذَاکَ جِبْرِيْلُ عليه السلام وَ هُوَ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ، قَالَتْ: وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ، جَزَاهُ اللهُ خَيْراً مِنْ صَاحِبٍ وَ دَخِيْلٍ، فَنِعْمُ الصَاحِبُ وَ نِعْمَ الدَّخِيْلُ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ایک آدمی سے کلام فرما رہے ہیں ، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے دحیہ کلبی کے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ان سے کلام فرما رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے یہ منظر دیکھا ؟ آپ نے عرض کیا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جبریل علیہ السلام تھے اور وہ تجھے سلام پیش کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا : اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں ، اور اللہ تعالیٰ دوست اور مہمان کو جزائے خیر عطا فرمائے ، پس کتنا ہی اچھا دوست (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس) اور کتنا ہی اچھا مہمان (حضرت جبریل علیہ السلام) ہیں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 674، الرقم: 24506، 2 / 871، الرقم: 1635، و الحميدي في المسند، 1 / 133، الرقم: 277، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 46، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 20)


عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا رَأَيْتُ مِنَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طَيِّبَ نَفْسٍ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ اللهَ لِي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِعَائِشَةَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهَا وَ مَا تَأَخَّرَ مَا أَسَرَّتْ وَمَا أَعْلَنَتْ فَضَحِکَتْ عَائِشَةُ حَتَّي سَقَطَ رَأْسُهَا فِي حِجْرِهَا مِنَ الضِّحْکِ، قَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أَيَسُرُّکِ دُعَائِي، فَقَالَتْ: وَمَا لِي لَا يَسُرُّنِي دُعَاؤُکَ، فَقَالَ ﷺ: وَاللهِ، إِنَّهَا لَدُعَائِي لِأُمَّتِي فِي کُلِّ صَلَاةٍ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشگوار حالت میں دیکھا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعا فرمائیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! عائشہ کے اگلے پچھلے ، ظاہری و باطنی ، تمام گناہ معاف فرما (ایسا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے از رائے مزاح فرمایا) یہ سن کر حضرت عائشہ رضی الله عنہا اتنی ہنسیں یہاں تک کہ ان کا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں آ پڑا (یعنی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں) اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میری دعا تمہیں اچھی لگی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعا مجھے اچھی نہ لگے ، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم ! بے شک ہر نماز میں میری یہ دعا میری امت کےلیے خاص ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 6 / 48، الرقم: 7111، الحاکم في المستدرک، 4 / 13، الرقم: 6738، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم: 32285، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 498، الرقم: 2032، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 145، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243)


عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ أَفْقَهَ النَّاسِ وَ أَعْلَمَ النَّاسِ وَ أَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا فِي الْعَامَّةِ ۔

ترجمہ : حضرت عطا بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 15، الرقم: 6748، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18)


عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِشِعْرٍ، وَلَا فَرِيْضَةٍ، وَلَا أَعْلَمَ بِفِقْهٍ مِنْ عَائِشَةَ ۔

ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر ، شعر ، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 276، الرقم: 26044، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18،چشتی)


عَنِ الزُّهْرِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: لَوْ جُمِعَ عِلْمُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِيْهِنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ عِلْمُ عَائِشَةَ أَکْثَرُ مِنْ عِلْمِهِنَّ ۔

ترجمہ : حضرت زہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس امت کی تمام عورتوں کے جن میں امہات المومنین بھی شامل ہوں علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم ان سب کے علم سے زیادہ ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 184، الرقم: 299، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 235، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 33، و الخلال في السنة، 2 / 476، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال: رجال هذا الحديث ثقات،چشتی)


عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا رَأَيْتُ خَطِيْبًا قَطُّ أَبْلَغَ وَلَا أَفْطَنَ مِنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ۔

ترجمہ : قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے کسی بھی خطیب کو عائشہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 183، الرقم: 298، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 398، الرقم: 3027، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243)


عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَ لَا بِفَرِيْضَةٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَ لَا بِشِعْرٍ وَلَا بِحَدِيْثِ الْعَرَبِ وَلَا بِنَسَبٍ مِنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ۔

ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو قرآن، فرائض ، حلال و حرام ، شعر ، عربوں کی باتیں ، اور نسب کا عالم نہیں دیکھا ۔ (أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 49، 50، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32)


عَنْ أُمِّ ذَرَّةَ وَ کَانَتْ تَغْشَي عَائِشَةَ، قَالَتْ: بَعَثَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلٰىهَا بِمَالٍ فِي غَرَارَتَيْنِ ثَمَانِيْنَ أَوْ مِائَةَ أَلْفٍ فَدَعَتْ بِطَبْقٍ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صَائِمَةٌ فَجَلَسَتْ تَقْسِمُ بَيْنَ النَّاسِ فَأَمْسَتْ وَ مَا عِنْدَهَا مِنْ ذَلِکَ دِرْهَمٌ فَلَمَّا أَمْسَتْ، قَالَتْ: يَا جَارِيَةُ، هَلُمِّي فِطْرِي فَجَاءَ تْهَا بِخُبْزٍ وَ زَيْتٍ، فَقَالَتْ لَهَا أُمُّ ذَرَّةَ: أَمَا اسْتَطَعْتِ مِمَّا قَسَمْتِ الْيَوْمَ أَنْ تَشْتَرِي لَنَا لَحْمًا بِدِرْهَمٍ نَفْطُرُ عَلَيْهِ، قَالَتْ: لاَ تُعَنِّفِيْنِي، لَوْ کُنْتِ ذَکَرْتِيْنِي لَفَعَلْتُ ۔

ترجمہ : حضرت ام ذرہ ، جو کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی خادمہ تھیں ، بیان کرتی ہیں کہ حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو اسی ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا ، آپ نے (مال رکھنے کےلیے) ایک تھال منگوایا اور آپ اس دن روزے سے تھیں ، آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کےلیے بیٹھ گئیں ، پس شام تک اس مال میں سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا ، جب شام ہو گئی تو آپ نے فرمایا : اے لڑکی ! میرے لیے افطار کےلیے کچھ لاؤ ، وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی ، پس ام ذرہ نے عرض کیا : کیا آپ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے اس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں جس سے آج ہم افطار کرتے ، حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا : اب میرے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کر اگر اس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی) تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی ۔ (أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 47، و هناد في الزهد، 1 / 337، 338، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 187، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 / 67،چشتی)


عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ امْرَأَ تَيْنِ أَجْوَدَ مِنْ عَائِشَةَ وَ أَسْمَاءَ وَ جُوْدُهُمَا مَخْتَلِفٌ: أَمَّا عَائِشَةُ، فَکَانَتْ تَجْمَعُ الشَّيْئَ إِلٰى الشَّيْيئِ حَتَّي إِذَا کَانَ اجْتَمَعَ عِنْدَهَا قَسَمَتْ وَ أَمَّا أَسْمَاءُ فَکَانَتْ لَا تُمْسِکُ شَيْئًا لِغَدٍ ۔

ترجمہ : حضرت عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی الله عنہما سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی اور دونوں کی سخاوت میں فرق ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا تھوڑی تھوڑی اشیاء جمع فرماتی رہتی تھیں اور جب کافی ساری اشیاء آپ کے پاس جمع ہو جاتیں تو آپ انہیں (غربا اور محتاجوں میں) تقسیم فرما دیتیں ، جبکہ حضرت اسماء (بھی) اپنے پاس کل کےلیے کوئی چیز نہیں بچا کر رکھتی تھیں ۔ (أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 106، الرقم: 286، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 58، 59)


عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: بَعَثَ مُعَاوِيَةُ إِلٰى عَائِشَةَ بِطَوْقٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيْهِ جَوْهَرٌ قُوِّمَ بِمِائَةِ أَلْفٍ، فَقَسَّمَتْهُ بَيْنَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

ترجمہ : حضرت عطا سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو سونے کا ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی ، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا ۔ (أخرجه هناد في الزهد، 1 / 337، الرقم: 618، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 29،چشتی)


عَنْ عُرْوَةَ: أَنَّ عَائِشَةَ رضی الله عنها ، کَانَتْ تَسْرَدُ الصَّوْمَ. وَ عَنِ الْقَاسِمِ، أَنَّ عَائِشَةَ کَانَتْ تَصُوْمُ الدَّهْرَ وَ لاَ تَفْطُرُ إِلَّا يَوْمَ أَضْحَي أَوْ يَوْمَ فِطْرٍ ۔ و في رواية عنه: قَالَ: کُنْتُ إِذَا غَدَوْتُ أَبْدَأُ بِبَيْتِ عَائِشَةَ أُسَلِّمُ عَلَيْهَا، فَغَدَوْتُ يَوْمًا فَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تَسَبِّحُ وَ تَقْرَأُ: (فَمَنَّ اللهُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) وَ تَدْعُوْ وَ تَبْکِي وَ تُرَدِّدُهَا فَقُمْتُ حَتَّي مَلَلْتُ الْقِيَامَ فَذَهَبْتُ إِلٰى السُّوْقِ لِحَاجَتِي ثُمَّ رَجَعْتُ فَإِذَا هِي قَائِمَةٌ کَمَا هِيَ تُصَلِّي وَ تَبْکِي ۔

ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں ۔ اور قاسم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف عید الاضحیٰ اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں ۔ اور ان ہی سے روایت ہے کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس جاتا، پس ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیہ کریمہ پڑھ رہی تھیں (فَمَنَّ اللهُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) اور دعا کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں، پس میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اکتا گیا اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا ، پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اسی حالت میں کھڑی نماز ادا کر رہیں ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں ۔ (أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 2 / 451، الرقم: 4048،چشتی)(شعب الإيمان، 2 / 375، الرقم: 2092، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 164، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 31)


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نسبت “جبیر بن مطعم ” کے بیٹے سے ہوئی تھی مگر جبیر نے اپنی ماں کے ایماء پر یہ نسبت اس لئے فسخ کردی کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق عتیق رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل مسلمان ہو چکے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم کی تحریک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عقد مبارک مکہ مکر مہ ماہ شوال المکرم  میں ایک روایت کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل بروایت دیگر تین سال قبل 621 عیسوی میں انتہائی سادہ و سادگی سے ہوا ۔ امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خود نکاح پڑھایا ، پانچ سو درہم حق مہر مقرر ہوا ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح اور رخصتی کے وقت عمر کی تحقیق : ⏬

محترم قارئینِ کرام : منکرین حدیث نے اس بات کو بہت اچھالا ہے کہ حدیث شریف میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی شادی کے وقت 9 سال عمر بتائی گئی ہے جو عقل و نقل کی رو سے غلط ہے ۔ اس سے غیر مسلموں بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی انکار حدیث کا بہانہ مل گیا ہے ۔ فقیر کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک شادی کے وقت کم سے کم 17 یا 19 سال تھی ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی بڑی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا  طویل العمر صحابیات میں سے ہیں ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی والدہ محترمہ ہیں ۔ بڑی خدا رسیدہ عبادت گذار اور بہادر خاتون ان کی عمر تمام مورخین نے سو سال لکھی ہے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  ان سے دس سال چھوٹی ہیں ۔ سیدہ اسماء حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے پانچ یا دس دن بعد فوت ہوئیں ۔ سن وفات 73ھ ہے ۔ اس حساب سے سیدہ اسماء کی عمر ہجرت کے وقت 27 سال ہوئی اور سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  ان سے دس سال چھوٹی ہیں تو آپ کی عمر ہجرت کے وقت 17 سال ہوئی ۔ اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی رخصتی 2ھ کو مانی جائے تو رخصتی کے وقت آپ کی عمر مبارک 19 سال ہوئی۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں ۔

اسلمت اسماء قديما وهم بمکة فی اول الاسلام ۔ وهی آخر المهاجرين والمهاجرات موتا ۔ وکانت هی اکبر من اختها عائشة بعشر سنين ۔ بلغت من العمر ماته سنة ۔
ترجمہ : اسماء مکہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں ۔ مہاجرین مردوں عورتوں میں سب سے آخر فوت ہونے والی ہیں۔ اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے دس سال بڑی تھیں ۔ (ابن کثير البدايه والنهايه جلد 8 صفحہ 346 طبع بيروت)

اسلمت قديما بعد اسلام سبعة عشر انسانا ۔ ماتت بمکة بعد قتله بعشره ايام وقيل بعشرين يوماً وذلک فی جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين ۔
ترجمہ : مکہ معظمہ میں سترہ آدمیوں کے بعد ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں۔۔۔ اور مکہ مکرمہ میں اپنے بیٹے (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ) کی شہادت کے دس یا بیس دن بعد فوت ہوئیں اور یہ واقع ماہ جمادی الاولیٰ سن 73ھ کا ہے ۔ (تهذيب التهذيب جلد 12 صفحہ 426 طبع لاهور الامام ابوجعفر،چشتی)(تاريخ الامم والملوک جلد 5 صفحہ 31 طبع بيروت)(حلية الولياء وطبقات الاصفياء جلد 2 صفحہ 56 طبع بيروت)

اسلمت قديما بمکة وبايعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.. ماتت اسماء بنت ابی بکرالصديق بعد قتل ابنها عبدالله بن الزبير وکان قتله يوم الثلثاء لسبع عشرة ليلة خلت من جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين ۔
ترجمہ : سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  مکہ معظمہ میں قدیم الاسلام ہیں ۔ آپ نے رسول اللہ A کی بیعت کی ۔ اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے چند دن بعد فوت ہوئیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی شہادت بروز منگل 12 جمادی الاولیٰ 73ھ کو ہوئی ہے ۔ (طبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 255 طبع بيروت)

کانت اسن من عائشة وهی اختها من ابيها.. ولدت قبل التاريخ لسبع وعشرين سنة ۔
ترجمہ : سیدہ اسمائ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے زیادہ عمر کی تھیں۔ باپ کی طرف سے سگی بہن تھیں۔ ہجرت سے 27 سال قبل پیدا ہوئیں ۔ (اسدالغايه فی معرفة الصحابة جلد 5 صفحہ 392 طبع رياض)

اسلمت قديما بمکة قال ابن اسحق بعد سبعة عشر نفسا .. بلغت اسماء مائة سنة ولدت قبل الهجرة لسبع وعشرين سنة ۔
ترجمہ : سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا  مکہ مکرمہ میں ابتدائً مسلمان ہوئیں ۔ ابن اسحاق نے کہا سترہ انسانوں کے بعد سو سال عمر پائی ہجرت سے 27 سال پہلے پیدا ہوئیں ۔ (الاصابة فی تميز الصحابة جلد 4 صفحہ 230 م 773ه طبع بيروت،چشتی)(سيرة ابن هشام جلد 1 صفحہ 271 طبع بيروت)(الکامل فی التاريخ جلد 4 صفحہ 358 طبع بيروت)(الاستيعاب فی اسماء الاصحاب علی هامش الاصابة جلد 4 صفحہ 232 طبع بيروت)(تاريخ الاسلام ودفيات المشاهير والاسلام جلد 5 صفحہ 30 طبع بيروت)(الروض الانف شرح سيرة ابن هشام جلد 1 صفحہ 166 طبع ملتان)

حضرت عائشہ کی عمر اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہما کی عمر کی نسبت : بقول عبدالرحمن ابن ابی الذناد ۔ حضرت اسماء ، حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں ۔ (سیار العلم النبالہ الذہابی جلد 2 صفحہ 289 عربی موسستہ الرسالہ بیروت 1992)

بقول ابن کثیر : حضرت اسماء اپنے بہن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے 10 سال بڑی تھیں ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 371 دار الفکر العربی الجزاہ 1933)

بحوالہ ابن کثیر : حضرت اسماء نے اپنے بیٹے کو 73ھ میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر 5 دن، یا 10 دن یا 20 دن یا' کچھ دن' یا 100 دن بعد( دنوں کی تعداد مورخ یا محدث پر منحصر ہے) ان کی وفات 100 برس کی عمر میں ہوئی ۔ (البدیاہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 372 دار الفکر العربی الجزاہ 1933،چشتی)

بحوالہ ابن حجار الاثقلینی : حضرت اسماء - 100 سو برس زندہ رہیں اور 73ھ یا 74 ھجری میں وفات پائی ۔ (تقریب التہذیب صفحہ 654 عربی باب فی النساء الحرف الیف لکھنئو)

تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماء کی وفات - سو برس کی عمر میں 73ھ یا 74 ھ میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ھجرت کے وقت ، 27 یا 28 برس کی تھیں ۔ جس کے حساب سے حضرت عائشہ کی عمر ہجرت کے وقت 17 یا 18 سال اور رسول اللہ کے گھر 19 یا 20 سال کی عمر سے رہنا شروع کیا ۔

حجار ، ابن کثیر ، اور عبدالرحمن کی درج روایات کے مطابق ، حساب کرنے سے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر ، شادی کے وقت 19 یا 20 سال بنتی ہے ۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سن ہجری کا آغاز نہیں ہوا اور سن عیسوی یا کسی اور سن کا عرب معاشرے میں تعارف یا چلن نہ تھا ۔

اہل عرب کسی مشہور تاریخی واقعہ سے سالوں کا حساب کرتے تھے مثلاً واقعہ اصحاب فیل، سے اتنا عرصہ پہلے یا بعد وغیرہ۔ باقاعدہ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے اپنے دور خلافت میں کیا اور اس کا آغاز سال ہجرت سے کیا ۔

پہلی سن ہجری ، دوسری سن ہجری، تیسری سن ہجری میں کم سے کم امکانی مدت ۔ پہلی سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ لیں اور دوسری سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم ، دو سنوں میں وقفہ ایک دن ۔ دوسرے رخ سے دیکھیں پہلی سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم، دوسری سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ، کل مدت دو سال مکمل۔ دونوں صورتوں میں سن بدل گئے مگر ایک طرف ایک دن ملا اور دوسری طرف پورے دو سال ۔ جب تک تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو یہ فرق باقی رہ کر ابہام پیدا کرتا رہے گا ۔

آج کل پرنٹ میڈ یا کتنی ترقی کر چکا ہے مگر کتابوں میں ، اخبارات میں ، حد تو یہ کہ قرآن کریم کی طباعت و کتابت میں غلطی ہوجاتی ہے ، پہلا دور تو ہاتھوں سے کتابت کا دور تھا ، ممکن ہے ’’تسع عشر‘‘ انیس سال عمر مبارک ہو ، مگر کتابت کی غلطی سے تسع یا تسعاً رہ گیا اور عشر کا لفظ کتابت میں ساقط ہوگیا ہو ، تسع عشر انیس سال کی جگہ تسعاً یا تسع یعنی نو سال باقی رہ گیا اور آنے والوں نے نقل درنقل میں اسی کو اختیار کرلیا کہ نقل کرنے والے اعلیٰ درجہ کے ایماندار ، پرہیزگار ، علوم وفنون کے ماہر ، صحیح و سقیم میں امتیاز کرنے والے ، نہایت محتاط لوگ تھے ۔ وجہ سقوط کچھ بھی ہونا ممکن نہیں ۔ حقائق بہر حال حقائق ہوتے ہیں ، ان کے چہرے پر گردو غبار تو پڑ سکتا ہے مگر ہمیشہ کےلیے اسے مسخ نہیں کیا جا سکتا ۔ احادیث کی تمام کتب میں ایسے تسامحات کا ازالہ کیا جانا چاہیے تاکہ بد اندیش کو زبان طعن دراز کرنے کی ہمت نہ رہے ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے تین سال بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت فرما کر مدینہ شریف تشریف لے گئے ۔ مدینہ منور پہنچ کر سرور کائنات نورمجسم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن حارثہ , حضرت ابورافع ‘ اور حضرت عبداللہ بن اریقط رضی اللہ عنہم کو اپنے اہل وعیال کولانے کےلیے مکہ مکرمہ بھیجا ۔ واپسی پر حضرت زید بن حارثہ کے ہمراہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا ‘حضرت ام کلثوم ‘ حضرت سودہ بنت زمعہ ‘حضرت ام ایمن اور حضرت اسامہ بن زید تھے ۔ اور حضرت عبداللہ بن اریقط کے  ہمراہ حضرت عبداللہ بن ابوبکر’ حضرت ام رومان’ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہم اجمعین تھیں ۔ (مدارج نبوۃ جلد دوم ‘ازواج مطہرات)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نگاہ میں آپ کا مقام و مرتبہ اور آپ سے جو محبت تھی وہ نا قابلِ بیان ہے : حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جب غزوۂ سلاسِل سے واپس آئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے پوچھا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا *عائشہ*، انہوں نے عرض کی مردوں میں ؟ فرمایا ان کے والد (حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) ۔ (بخاری شریف)

ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن  میں آپ کا درجہ فقہ وحدیث علم وفضل میں بہت ہی بلند ترین اور ممتاز ہے ۔ خود آقائے کائنات صل اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :” اپنے دین کا نصف علم اس حُمیرا یعنی بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے سیکھو“ ۔ اور حضرت امام زہری کے یہ پیارے الفاظ آپ کے علم و ہنر میں مہارت تامہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں فرماتے ہیں: اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے علم کے مقابلے میں تمام امّھات المؤمنین ، بلکہ تمام عورتوں کے علوم کو رکھا جائے تو حضرتِ عائشہ صدیقہ کے علم کا پلہ بھاری ہوگا - ام المومنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ‘ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور امیرالمومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہم کے دور میں آپ فتوی دیاکرتی تھیں ‘اکابر صحابہ ‘صحابیہ آپ کے علم وفضل کے معترف تھے اورمسائل میں آپ سے استفسار کیا کرتے تھے آپ سے دوہزار دوسو دس (2210) حدیثیں مروی ہیں جن میں سے ایک سوچوہتر (174) حدیثوں پر بخاری و مسلم نے اتفاق کیا ہے ۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی آپ سے منقول ہے. تفسیر ‘ حدیث ‘ اسرار شریعت ‘خطاب, ادب اور انساب میں آپ کو بہت کمال حاصل تھا ۔ (زرقانی جلد دوم’ جلد سوم فضائل اہلیت ‘شان صحابہ)

اوصاف وکمالاتِ ‘علم و فضل ‘فہم و فراست ‘ تبلیغِ دین ‘ زہد وتقوی اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے لحاظ سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا  کو کافی فوقیت حاصل تھی ۔

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ خود فرماتی ہیں : دس خوبیوں (اوصاف) سے مجھے دیگر ازواجِ مطہرات پر فوقیت حاصل ہے ۔
(1)  حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے میرے سوا کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا ۔
(2)  میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مُہاجر ہوں ۔
(3)  اللہ تعالٰی نے میری پاکدامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا ۔
(4)  نکاح سے قبل حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو دکھلا دی تھی اور آپ تین راتیں مجھے خواب میں دیکھتے رہے ۔
(5)  میں اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم ایک ہی برتن میں سے پانی لے کر غسل کیا کرتے تھے یہ شرف میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا ۔
(6)  حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نمازِ تہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی ہوئی رہتی تھی امہات المؤمنین میں سے کوئی بھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئی ۔
(7)  میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ ایک لحاف میں سوتی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی یہ اعزازِ خداوندی ہے جو میرے سوا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی کسی زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں ہوا ۔
(8)  وفاتِ اقدس کے وقت میں حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو اپنی گود میں لیے ہوئی تھی اور آپ کا سرِ انور میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا وصال ہوا ۔
(9)  حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے میری باری کے دن وصال فرمایا ۔
(10)  نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا مزار مبارک خاص میرے گھر (حجرۂ عائشہ) میں بنی ۔ (سیرت المصطفی)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا خدمت دین کے باب میں کردار اور مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کےلیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین پر استقامت اور ریاضت و مجاہدہ میں آپ کو کتنا تمکن حاصل تھا ۔ خدمت دین اس وقت تک مقبول اور مبارک نہیں ہوتی جب تک دین کی خدمت کرنے والے خود اپنی زندگی سیرت و کردار کو اور اپنے شب و روز کو عملی نمونہ نہ بنالیں ۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی مقبول ترین زوجہ مطہرہ تو تھیں مگر خود وہ اپنی عملی زندگی میں دین کا عظیم الشان نمونہ تھیں ۔ یہاں آپ کی حیات مبارکہ چند گوشے اختصار کے ساتھ بیان کیے جارہے ہیں جس کی روشنی میں آپ کے کردار کے مبارک پہلو کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔

آپ رضی اللہ عنہا کا ذوق عبادت اور ریاضت و مجاہدہ اس قدر بلند مرتبے کا تھا کہ نماز میں طویل قیام فرماتیں۔ جس کو احمد بن حنبل نے اپنی المسند میں نقل کیا ہے ۔ اس طرح نفلی نمازیں ادا کرتیں تو قرات کے دوران جب آیت وعید کا ذکر آتا آپ پر گریہ و زاری طاری ہوجاتی ، آپ ان کا تکرار کرتیں ۔ نماز کے بعد دیر تک آپ پر گریہ کی کیفیت طاری رہتی ۔ فرض نمازوں کا یہ عالم تھا کہ آپ اکثر و بیشتر نماز پنجگانہ با جماعت اداکرتیں ۔ وہ یوں کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک متصل تھا ۔ امام کی آواز آتی تھی سو مسجد نبوی کے امام کی اقتداء میں متصل اپنے حجرہ مبارک میں نماز ادا کرتی تھیں ۔ جب خواتین زیادہ جمع ہوجاتیں تو الگ سے اہتمام کرتیں اور خود صف کے وسط میں قیام فرماکر انہیں نماز پڑھاتیں ۔ آپ صائم الدھر تھیں اکثر و بیشتر روزے کا اہتمام فرماتیں ۔ سخت گرمیوں میں بھی نفلی روزہ ترک نہ کرتیں ۔ امام احمد بن حنبل نے المسند ، امام ابن سعد طبقات میں آپ کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ایک مرتبہ گھر پر تھیں ، حج پر نہیں گئی تھیں نویں ذوالحج تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے فرمان کے مطابق روزہ رکھا تھا کیونکہ سخت گرمی تھی ۔ آپ اپنے اوپر پانی گرارہی تھیں ۔ آپ سے افطار کرلینے کا کہا گیا فرمایا : میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے ۔ جو لوگ حج پر نہ گئے ہوں ان کے لیے یوم عرفہ کا روزہ پچھلے پورے سال کےلیے کفارہ بن جاتا ہے ۔

عبادت میں کوئی ایک فضیلت کا امر اپنی حیات میں ترک نہ کرتی تھیں ۔ حتی کہ سفر میں بھی روزہ ترک نہ کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے سوال کیا کہ آپ نے جہاد کو افضل ترین اعمال قرار دیا ہے ۔ کیا ہم جہاد نہ کیا کریں ؟ یعنی شوق جہاد پیدا ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : سب سے افضل عبادت حج مبرور ہے دوسری روایت میں ہے ۔ حج و عمرہ افضل عبادت ہے آپ اس پر اکتفاء کریں ۔ اسی طرح آپ کی حیات طیبہ میں اور عادت مبارک میں جود و سخا کمال درجے کا تھا ۔ تھوڑا زیادہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دست مبارک تک پہنچ جاتا یا آپ کی ملکیت میں آجاتا اسی وقت خیرات کر دیتیں ۔

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے فرمان کو اکثر بیان فرماتیں ۔ ’’دوزخ کی آگ سے بچائو اختیار کرو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کی خیرات کے ذریعے سے ہو ۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے وصال کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بہت فتوحات ہوئیں ۔ اموال کثرت سے آنے لگے جو مال آپ رضی اللہ عنہا کے حصے میں آئے آپ اس مال کو اسی لمحے خرچ کر دیتیں ۔

امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں بیان فرمایا ایک مرتبہ ایک لاکھ درہم آپ کے حصہ میں آئے۔ آپ نے سورج غروب ہونے سے پہلے پورا ایک درہم خیرات کردیا۔ ایک روز آپ کی خادمہ نے عرض کیا : اگر آپ ایک درہم بچا کر رکھ لیتی اس سے ہمارے لیے کچھ گوشت آجاتا ۔ فرمایا : بیٹے ! اگر مجھے پہلے بتادیتیں تو میں بچا لیتی ۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زہد و ورع بھی کمال درجے کا تھا آپ نے پوری حیات مبارکہ میں فرائض و واجبات اور سنن کا پوری صحت سے اہتمام کیا اور شبہات سے بچیں ۔ ایک روز ایک نابینا شخص سوال کرنے کے لیے آیا تو آپ نے اس سے پردہ کرلیا جس پر آپ سے کہا گیا کہ وہ تو دیکھتا نہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ میں تو دیکھتی ہوں ۔

آپ کے حجرہ مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا مزار مبارک تھا ۔ بعد ازاں حضرت صدیق اکبر بھی وہاں مدفون ہوئے جب سیدنا فاروق اعظم تو آپ پردے کا زیادہ اہتمام کرتیں کیونکہ وہ آپ کےلیے نامحرم تھے اس سے آپ کے اعتقاد کا اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب مزار حاضر ہونے والے کو دیکھتا ہے ۔

اس طرح دعوت و تبلیغ میں آپ کا کردار بڑا نمایاں تھا ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بڑا اہتمام کرتیں ، جب کسی کے عمل میں کوئی کمی بیشی آپ مشاہدہ فرماتیں اسی وقت اس کو حکمت و بصیرت اور محبت سے اصلاح اور تربیت کرتیں ۔ آپ کا علم دین اتنا وسیع تھا کہ جس قرآن کے علم، علم التفسیر ، علم الحدیث ، علم فقہ میں گہرائی و گیرائی ، عربی ادب، شعر و نثر ، علم میراث ، علم تاریخ ، علم انساب، علم طب پر کمال درجے کی مہارت رکھتیں ۔ علم میں آپ کا درجہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی اللہ عنہن میں بلند تھا ۔ ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں ۔

جسے امام ترمذی نے روایت کیا جب بھی صحابہ کرام کو علمی مسائل میں اشکال ہوتا اور کسی سے کوئی حل نہ ہورہا ہوتا تو آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اس مسئلہ کو حل فرما دیتیں ۔ آپ کے دروازے پر علم کا کوئی طلبگار بھی آتا مشکل حل کروائے بغیر واپس نہ جاتا ۔ جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آکر سوال کرتے تھے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ ابن عباس ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم آپ سے اخذ فیض ، استفادہ اور مسائل دریافت کرتے ۔ اس وجہ سے 100 سے زائد صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم نے آپ سے علم اور احادیث نبوی روایت کی ہیں ۔ آپ کا درجہ صحابہ اور صحابیات میں استاذ کا تھا ۔

امام زہری فرماتے ہیں آپ کے علم کو جملہ خواتین علماء کے علم کے ساتھ سے موازنہ کیا جائے بلکہ سب کے علم کو جمع کرلیا جائے تو بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ان سب سے وسیع تر ہے ۔ امام بدرالدین زرکشی نے الاجابہ کے نام سے کتاب لکھی جس میں آپ کی دقت علم کو بیان کیا ہے ۔

امام جلال الدین سیوطی نے عین الصحابہ کے نام سے ایک رسالہ رقم فرمایا ہے آپ کے علم کی گہرائی ، گیرائی ، فقہ اجتہاد علم کا بیان کیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو آپ کا ہی حجرہ مبارک محبط وحی تھا اکثر و بیشتر نزول وحی آپ کے ہی حجرہ مبارکہ میں ہوتا ۔ اسی وجہ سے آپ صحابہ کرام تابعین عظام کےلیے معلمہ تھیں ۔ آپ مفسرہ ، محدثہ ، مجتہدہ ، فقیہہ ، زاہدہ ، عابدہ ، طیبہ طاہرہ تھیں ۔ پوری امت مسلمہ کی ماں ہیں ۔ آپ کا شمار کبار حفاظ حدیث و سنت میں ہوتا ہے ۔ آپ پردہ کے پیچھے سے تعلیم دیتی تفسیر پڑھاتیں ، حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی حدیث روایت کرتیں ۔ سنت نبوی کے احکام سمجھاتیں ، استنباط اور اجتہاد کے ذریعے پوری امت کی رہنمائی فرماتیں ۔ آقا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے وصال کے بعد کم و بیش 50 برس تک حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی سنت کو امت تک پہنچایا ، حدیث نبوی کی تعلیم دی ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرویات 2210 ہیں یہ مسند عائشہ ہیں ۔ اس میں متفق علیہ 174 ہیں جو بخاری اور مسلم دونوں میں روایت ہوئی ہیں۔ بقیہ میں سے صحیح بخاری میں 54 اور صحیح مسلم میں 69 بیان ہوئی ہیں ۔ بقیہ حدیث دیگر کتب احادیث ہیں ۔

اگر آپ کی مرویات نہ ہوتیں تو سنت نبوی کا بہت بڑا حصہ امت کو معلوم نہ ہوسکتا۔ خاص کر سنت فعلیہ کا حصہ، آپ کا حجرہ مبارک اس امت کا سب سے بڑا مدرسہ، حدیث و سنت تھا۔ جہاں علم، فقہ، علم، حدیث، علم قرآن، علم تفسیر کے چشمے بہتے تھے۔ صحابہ کرام تابعین عظام مختلف شہروں سے اطراف عالم سے سفر کرکے آپ سے اکتساب فیض کرتے۔ آپؓ کا فیض آج بھی امت کو جاری ہے۔ آج بھی عالم رئویا میں ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا حدیث کی اجازت فرماتیں ہیں حدیث کی سند حدیث کا سبق دیتی اور حدیث کا سبق سنتی ہیں ۔ بخاری و مسلم کی کتب کی اجازت اور سند خود دیتی ہیں ۔ آج بھی آپ کا فیض امت محمدی صلی اللہ علیہ والہ و سلم میں جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ طریق جاری رہے گا ۔

آپ نے حدیث میں روایت بالمعنی کا طریق اختیار نہیں اپنایا بلکہ روایت بالفظ پر تمسک کیا۔ ضبط الفاظ حدیث کا بڑی اہتمام کیا۔ امت کی سب بڑی فقیہ تھیں۔ کبار مجتہدین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ صحابہ کرام کی طرف سے آپ سے فتویٰ طلب کیا جاتا احکام میں اجتہاد اور استنباط کرتیں، آپ نے بہت سے شاگرد چھوڑے جن میں عروہ بن زبیر ہیں جنہیں عالم المدینہ کا لقب دیا جاتا تھا یہ آپ کے بھانجے اور حضرت اسما بن ابی بکر کے صاحبزادے ہیں ۔ انہوں نے طویل عمر آپ کی صحبت میں رہ کر اخذ علم اور اکتساب فیض کیا اور مدینہ طیبہ کے سب سے بڑے عالم بنے۔ اس طرح آپ کے تلامذہ میں حضرت قاسم بن ابی بکر آپ کے بھتیجے ہیں جو اتنے بڑے زاہد اور اتنے بڑے صوفی زہد و ورع کے پیکر تھے کہ دور دراز سے تابعین چل کر آپ سے اکتساب فیض کے لیے تشریف لاتے ۔

آپ کے معمولات کو دیکھ کر دین سیکھتے ۔ یہ قاسم بن محمد بن ابی بکر وہ ہستی آپ کے درس کے دوران جن کی مسجد نبوی میں مسند حدیث تھی اور مسجد نبوی بھری رہتی تھی ۔ طلبہ ان سے حدیث کا درس لیتے یہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فیض کے قاسم ہیں ۔ بعد ازاں ان کی مسند پر عبدالرحمن بن قاسم بن محمدبن ابی بکر بیٹھے ۔ انہوں نے علم حدیث کے چشمے بنائے ۔ یہی وہ نشست ہے جس پر بعد ازاں امام مالک بیٹھے ۔ آپ کے تلامذہ میں ان تابعین کے علاوہ سعید بن مسیب جیسی جلیل القدر ہستیاں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عامر حضرت مسروق بن اجداء بھی ہیں ۔ آپ سے حضرت عکرمہ نے بھی براہ راست اخذ علم اور اکتساب فیض کیا ۔

اسی طرح خواتین میں بھی بہت سی مفسرہ، محدثہ اور فقیہہ ہوئیں جن کے ذریعے آپ نے امت میں علم کے چشمے اور دریا بہائے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں میں امت میں کسی ایسی عالمہ،محدثہ، فقیہا، مفسرہ سے واقف نہیں ہوں جن کا علم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جتنا ہو ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے علم کا بہت سا حصہ یاد کرلیا اور 50 برس تک اس نبوی علم کی امانت امت کو پہنچاتی رہیں اور کثیر تعداد میں خلق نے آپ سے اخذ علم کیا اور استفادہ کیا ۔ اور دین کے احکام و اداب سیکھے اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں شریعت کے کم و بیش ایک چوتھائی احکام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔ آپ سے استفادہ کرنے والے جلیل القدر تلامذہ کا عدد 88 ہے ۔ جیسے خلق کثیر کہا جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ بنت طلحہ کہتی ہیں کہ آپ مرجع خاص و عام تھیں ہر شہر سے طالبان علم سفر کرکے آپ کی بارگاہ میں آتے ۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں کہاں ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چشمہ علم محمدی صلی اللہ علیہ والہ و سلم تھیں ۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے علم کے دریا بہادیے ۔ کتب حدیث آپ کی مرویات سے معمور ہیں۔ نسلاً بعد نسل امت کے علماء، محدثین ، مجتہدین، فقہاء بالواسطہ یا بلاواسطہ آپ سے فیض لیتے رہے۔ دین میں آپ کی خدمات کا یہ عالم ہے کہ آپ ام المومنین تو ہیں ہی مگر محسنہ المومنین بھی ہیں۔ علم کے باب میں پوری امت کی سرپرستی فرمانے والی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ سے اکتساب فیض کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کے علم سے حاصل ہونے والے نور سے اپنی زندگیوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

عبادت و ریاضت میں بھی آپ کا مقام و مرتبہ بہت ہی اَرفع و اعلیٰ ہے ۔ آپ بکثرتِ فرائض کے علاوہ نوافل پڑھتیں اور اکثر روزہ دار رہتیں، ہر سال حج کرتیں ۔ آپ کے بھتیجے حضرتِ قاسم بن محمدبن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ بی بی عائشہ صدّیقہ  رضی اللہ عنہا بلا ناغہ تہجد کی نماز پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتیں ۔ (ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن)

خوفِ خداوندی اور خشیتِ ربانی کا یہ عالم کہ ایک بار دوزخ کی یاد آگئی تو رونا شروع کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو عرض کیا کہ مجھے دوزخ کا خیال آگیا اس لیے رو رہی ہوں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو شعروشاعری میں بھی بہت مہارت حاصل تھی - جب کوئی ضرورت درپیش ہوتی تو فی البدیہ اشعار میں گفتگو کرتی تھیں ۔

ام المومنین رضی اللہ عنہا کے یہ دو شعر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی مدح میں مروی ہیں : ⬇

لوسمعوافی مصر اوصاف خدہ
لمابذلو فی سوم یوسف من نقد
لواحی زلیخالوراین حبیبۂ
لاثرن بالقطع القلوب علی الایدی
(زرقانی جلد سوم)

ماہ رمضان المبارک کی سترہ تاریخ 57 یا 58 ہجری مطابق 13 جولائی 678 عیسوی چھیاسٹھ (66) سال کی عمر میں آپ کا وصال مدینہ منوّرہ میں ہوا طانا للہ و انا الیہ راجعون ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8)

حضرت سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیّت کے مطابق رات میں آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبروں کے پہلو میں تدفین ہوئی ۔
ام المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذاتِ مبارکہ حُسن علم و ادب فضل وکمال ‘ ریاضت و روحانیت’ پیکرِ شرم و حیا ‘ مجسمۂ عفّت و عصمت ‘ سیرت و خصلت ‘ ذہانت و فطانت ‘ علم و ہنر کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کا مجموعہ کمالات تھیں  آپ کی ذاتِ مبارکہ خواتین کے لئے حُسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کا ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے جن کی زندگی کے آئینہ میں دنیا اور دین دونوں سنوارے جا سکتے ہیں ۔ حضرت ام المؤمنین کی سیرتِ مبارکہ سے ہماری ماں بہنوں کو اپنی زندگی سنوارنی چاہیے اور ہم سب کو زیادہ سے خراج عقیدت پیش کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی بارگاہ اقدس کا قرب حاصل کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔


ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا وصال مبارک : ⏬

پہلے کھلے رافضی اور اب سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی یہ جھوٹ بول کر کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کروایا اس طرح یہ کذّاب لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور توہین بھی کرتے ہیں آئیے حقائق کیا ہیں پڑھتے ہیں مستند دلائل کی روشنی میں ۔ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری میں 66 سال کی عمر میں ہوا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ (شرح الزرقا نی علی المواہب المقصدالثانی الفصل الثالث عائشۃ ام المؤمنین جلد ۴ صفحہ ۳۹۲)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصال کے وقت فرمایا : کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ (مدارج النبوت قسم پنجم باب دوم درذکر ازواج مطہرات جلد ۲ صفحہ ۴۷۳)

جب ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔ باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اپنے والد ماجد کے بعد ۔ (مدارج النبوت قسم پنجم باب دوم درذکر ازواج مطہرات جلد ۲ صفحہ ۴۷۳)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ آپ کا نماز جنازہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا ۔ (البداية والنهاية جلد 4 جز 7 صفحہ 97)

امام بخاري رحمۃ الله علیہ (المتوفى256) صحیح بخاری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا ۔ (صحيح البخاري جلد 6 صفحہ 106 رقم 4753،چشتی)
ترجمہ : ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں ۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لیے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں ؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے ۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان شاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی ۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے ۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی ، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور اس کے اوپر سے اسے چھپا کر وہاں پر ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہاں پہچنچیں تو گڑھے میں گر گئیں اور ان کی وفات ہو گئی ۔ اس جھوٹ اور بہتان کے برعکس بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڑھے میں گر کر وفات ہو گئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو ۔ نیز بخاری کی یہی حدیث صحیح ابن حبان میں بھی ہے اور اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کےلیے عیادت کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ ہو : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ : فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا ۔(صحيح ابن حبان جلد 16 صفحہ 41)

عیادت کا لفظ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طریقہ پرہوئی تھی ۔ بلکہ حاکم کی روایت میں ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی پوری صراحت ہے ملاحظہ ہوں الفاظ : جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم جلد 4 صفحہ 9 صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی،چشتی)

یہ روایات اس بات کی زبردست دلیل ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طور پر ان کے گھر پر ہوئی تھی ۔ آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کا بھی ہے ۔ نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا نے پڑ ھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔ (اسد الغابہ جلد ۵ صفحہ ۵۰۴،چشتی)

کیا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ماتم کیا ؟

جواب : شیعہ حضرات جب بھی دلیل دیتے ہیں تو صرف اپنے مطلب کی بات کرتے ہیں اور پوری بات نہیں کرتے ۔ جس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ماتم ثابت کرنا چاہ رہے ہیں لیکن مکمل روایت نقل نہیں کی ہم مکمل روایت پیش کر رہے ہیں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں : حدثنا يعقوب قال حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال حدثنی يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير عن أبيه عباد قال سمعت عاشة تقول مات رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بين سحری و نحری وفی دولتی لم أظلم فيه أحدا فمن سفهی وحداثة سنی أن رسول الله قبض وهو في حجري ثم وضعت رأسه على وسادة وقمت ألتدم مع النسا وأضرب وجهی ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال میری گردن اور سینہ کے درمیان اور میری باری کے دن میں ہوا تھا ، اس میں میں نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ، لیکن یہ میری بیوقوفی اور نوعمری تھی کہ میری گود میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اور پھر میں نے ان کا سر اٹھا کر تکیہ پر رکھ دیا اور خود عورتوں کے ساتھ مل کر رونے اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی ۔ (مسند احمد جلد نہم حدیث نمبر 6258،چشتی)

اس میں ماتم کا جواز نہیں ملتا بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرما رہی ہیں کہ “یہ میری بیوقوفی اور نوعمری تھی” یہ کسی عام بندے کی وفات کی بات نہیں تھی بلکہ افضل البشر ، رحمۃ اللعالمین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال تھی اور عائشہ رضی اللہ عنھا سے یہ عمل ہو بھی گیا ہے تو اس کو ماتم کرنے کی دلیل نہیں لی جا سکتی ۔

ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتے اور شیعہ جنہیں امام معصوم سمجھتے ہیں ان سے بھی کافی غلطیاں ہوئیں تھی ۔ جیسا کہ شیعہ کتاب “ملاذ الاخیار پر لکھا ہے علی علیہ السلام نے غلطی سے میں کو چوری کے الزام میں ہاتھ کٹوا دیئے لیکن اصل چور کوئی اور تھا ۔ (ملاذ الاخیار جلد 10 صفحہ 126،چشتی)

اگر حضرت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک بار ماتم ثابت ہے اور جس میں وہ خود اپنی غلطی کا ازھار بھی کر رہی ہے تو کیا اسے جس طرح شیعہ ماتم کرتے ہیں اس کی دلیل لی جا سکتی ہے ؟ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے ہر سال ماتم کیا ؟

اگر شیعہ سمجھتے ہیں کی ماتم کرنا محبت کی نشانی ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک پر حضرت علی ، فاطمہ ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اجمعین نے ماتم کیوں نہ کیا ؟ کیوں سینہ نہیں پیٹا ؟ کیوں تلوار سے ماتم نہیں کیا ؟ کیوں قمی زنی نہیں کی؟ کیا ان حضرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں تھی ؟

کیا شیعہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات پر ہر سال ماتم کرتے ہیں ؟ کیونکہ ماتم تو شیعہ کے نزدیک عبادت ہے ، اور بعض کے نزدیک تو اصل نماز ہی ماتم ہے ۔

شیعہ حضرات اہل سنت پر ماتم کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے اس کو بڑے فخر و غرور سے یہ مزکورہ روایت پیش کرتے ہیں اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر  پہلے اس وایت کے راویوں پر “فن اسماء الرجال” کے تحت کچھ گفتگو ہو جائے تاکہ راویت کا درجہ معلوم ہو سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ کیا یہ حدیث قابل استدلال اور قابل قبول ہے بھی یا نہیں ۔

تاریخ طبری کے مصنف نے یہ روایت جس راوی سے نقل کی ہے اس کا نام محمد بن حمید ہے اس راوی کے متعلق علامہ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب نامی کتاب میں یوں لکھا ہے ۔

نوٹ : یہ اسماءالرجال میں بہت اہم اور سب سے بڑی کتاب ہے ۔

یعقوب بن شبہ کہتے ہیں کہ محمد بن حمید منکر حدیثیں زیادہ روایت کرتا ہے امام بخاری کہتے ہیں اس کی روایت کردہ حدیث میں نظر ہے یعنی بے سوچے سمجھے قبول نہ ہوگی امام نسائی فرماتے ہیں یہ ثقہ نہیں ہے اور جوز جانی کہتے ہیں یہ ردی المذہب اور غیر ثقہ ہے اور فضلک رازی نے کہا میرے پاس ابن حمید کی روایت کردہ پچاس ہزار احادیث ہیں لیکن میں ان میں سے ایک حرف بھی روایت نہیں کرتا ۔

صالح بن محمد اسدی کہتے ہیں کہ ابن حمید جو حدیث ہمیں سناتا ہم اس کو متہم کرتے ایک اور جگہ فرمایا یہ کثیر الاحادیث ہے اور اللہ تعالی کے معاملہ اس سے بڑا بے باک میں نے کوئی دوسرا نہ دیکھا لوگوں سے حدیث لیتا اور ایک دوسری میں غلط ملط کر دیتا اور ابوالعباس بن سعید نے کہا ابن خراش سے میں نے سنا کہ ابن حمید ہمیں حدیثیں سناتا اور اللہ کی قسم وہ جھوٹ بولتا ۔

جس سند میں ایک راوی ایسا ہو جو فن اسماءالرجال میں کذاب ، غیر ثقہ ، ردی المذہب اور خاص کر اللہ تعالی پر غلط باتوں کی نسبت کرنے کی جرات میں لاثانی ہو اس روایت کا کیا مقام ہو گا ایسی حدیث سے شیعہ کا استدلال کرنا کہ ماتم جائز ہے لوگوں کو کھلا دھوکا دینا ہے یا پھر اپنی کم علمی بے بسی کا رونا ہے ورنہ ایسی حدیث جس کے راوی پر اس قدر جرح ہو وہ قابل نہیں رہتی اس بات سے فن اسماءالرجال کا ادنی طالب علم بھی آگاہ ہے ۔

سلمہ بن فضل راوی محمد حمید کے استاد ہیں ان سے ابن حمید نے روایت کی ہے ان کا پورا نام سلمہ بن فضل الابرش الانصاری ہے ۔

امام بخاری نے فرمایا سلمہ بن فضل کے پاس زیادہ احادیث منکر تھیں جن کو علی نے کمزور کہا علی نے کہا ہم نے رے نامی شہر سے باہر نکلتے وقت اس کی حدثیں وہیں چھوڑ دی تھی برزعی کہتا ہے کہ ابوذرعہ نے کہا کہ اہل رائے سلمہ بن فضل کی طرف رغبت نہ کرتے تھے کیونکہ یہ شخص بری رائے اور ظلم سے موصوف تھا ابراہیم بن موسی نے کہا کہ میں نے اس سلمہ بن فضل کے بارے میں ابوذرعہ کو بار ہار اپنی زبان پکڑتے دیکھا جس سے وہ اس کا جھوٹا ہونا اشارةً بیان کرتے تھے امام نسائی نے اسے ضعیف کہا اور یہ بھی کہا کہ اس میں شیعت تھی ۔

محترم قارئینِ کرام : فن اسماء الرجال سے ہم نے سلمہ بن فضل کے بارے میں ناقدین کی تنقید بمع وجوہات ذکر کی امام بخاری کے نزیک یہ منکراحادیث کا جامع ہے اور ابوذرعہ اس کے بارے میں یہاں تک کہتے ہیں کہ خود اس کے ہم شہر لوگ اس کی بات کی کوئی اہمیت نہ دیتے کیونکہ ظم اور بری رائے اس میں مشہور تھی بلکہ ابوذرعہ نے تو کذاب بھی کہا امام نسائی نے کذاب مائل شیعیت کہا اور کوئی جرع کی وجہ نہ ہوتی صرف شیعت ہی اس مقام پر کافی تھی کیونکہ شیعوں نے اس حدیث کو سنیوں کی حدیث کے طور پر بیان کیا اور بطور حجت اہلسنت کی حدیث پیش کر کے مروجہ ماتم کو اہلسنت عبارات سے ثابت کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی آپ غور فرمائیں جس حدیث کا راوی ایک شیعہ ہو وہ سنیوں کی روایت کیسے ہوئی گویا شیعوں نے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ دیکھو اہلسنت کی کتابوں میں ثابت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انتقال پر مروجہ ماتم کیا ۔

محمد بن اسحاق راوی سملہ بن فضل کے استاد ہیں ان کا پورا نام محمد بن اسحاق ہے ان کا حال بھی ملاخط کر لیں تاکہ راویان حدیث میں ان کے مقام کو سمجھا جا سکے ۔

امام مالک نے فرمایا محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے جوزجانی نے کہا ہے اس پر مختلف بدعات ایجاد کرنے کا الزام لگایا گیا موسی بن ہارون نے کہا میں نے محمد بن عبد اللہ نمیر سے سنا کہ محمد بن اسحاق قدریہ تھا میمونی نے ابن معین سے نقل کیا یہ ضعیف تھا اور امام نسائی نے اسے لیس بقوی کہا ۔

ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ حدیث میں جب ایسے راوی ہوں جن کو ائمہ حدیث قابل حجت شمار نہ فرمائیں تو وہ حدیث اہلسنّت کے ہاں کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے اس قسم کے غیر معتبر راویوں کی حدیث بیان کر کے خود شیعوں نے مروجہ ماتم جائز ثابت کرنے کی کوشش کی تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کے پاس لے دے کے کچھ ایسی ہی ناقابل حجت احادیث ہیں جب خود حدیث غیر مقبول ہوئی تو اس سے استدلال اور حجت کو کون قوی اور قابلِ عمل کہے ۔

دوسری بات ائمہ محدثین علیہم الرحمہ کے ہاں ایک قانوں یہ بھی ہے کہ جب حدیث کا کوئی راوی خود اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرے یا اس میں تنقید یا عذر پیش کرے تو وہ حدیث بھی قابل عمل نہیں رہتی شیعوں نے اس حدیث سے استدلال کیا لیکن ام المومنین سیدہ عائشہ صدیق رضی اللہ عنہا کا عذر اور تنقید نظر نہ آئی وہ یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرا ایسا کرنا یعنی چہرہ پر ہاتھ مارنا اور پیٹنا بوجہ بے عقلی اور کم سنی کے تھا یعنی اگر میر عمر حد بلوغ تک پہنچ چکی ہوتی اور اس کے ساتھ میری عقل بھی کامل ہو چکی ہوتی تو پھر یہ کام مجھ سے متوقع نہ تھا ۔

اب آپ حضرات خود سوچیں کہ اہل تشیع جن کو اپنے مسلک کے ثبوت پر بطور دلیل و حجت پیش کرتے ہیں یہ وہی شخصیت ہیں جس کے بارے میں شیعوں کی کتاب فروع الکافی موجود ہے کہ ہر فرضی نماز کے بعد ان پر شیعوں کو لعنت کرنی چاہیے ادھر اس قدر نفرت اور ادھر ان کے فعل کو اپنے مسلک کی دلیل بنانا کس قدر منافقت ہے پھر جب قاعدہ مذکورہ کے تحت راوی حدیث خود اپنی روایت کردہ بات کو ناپسند کرے اور اس میں عذر پیش کرے ایسے میں دوسرے کے لیے اس سے ثبوت مہیا کرنا کس طرح روا ہے ۔

ہم شیعہ حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ اللہ عزوجل سے ڈریں اور جب بھی بات کریں تو مکمل کیا کریں صرف اپنے مطلب کی بات کاٹ کر لوگوں کو گمراہ نہ کریں ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :  وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ ۔ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ۔
ترجمہ : اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو ۔ وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ۔ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 155 - 156)

قرآنِ کریم میں مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور یہ بتایا گیا کہ صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ تعالیٰ ہی کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور آخرت میں ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ (تفسیر جلالین سورہ البقرۃ زیرِ آیت ننبر 155 ، 156 صفحہ ۲۲)

آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول خوف سے اللہ تعالیٰ کا ڈر ، بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا ، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے ، جیساکہ حدیث شریف میں ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا : جب کسی بندے کا بچہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی ۔وہ عرض کرتے ہیں کہ ’’ہاں ، یارب پھر فرماتا ہے :’ تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا ۔ وہ عرض کرتے ہیں : ہاں ، یارب ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس پر میرے بندے نے کیا کہا ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : اس نے تیری حمد کی اور ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس کےلیے جنت میں مکان بناؤ اور اس کا نام بیتُ الحمد رکھو ۔ (ترمذی کتاب الجنائز باب فضل المصیبۃ اذا احتسب جلد ۲ صفحہ ۳۱۳ حدیث نمبر ۱۰۲۳،چشتی)

یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے ، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ،ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا ستایا جانا اور انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کےلیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے ۔

صدر الشریعہ حضرت  مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب ( اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ (وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا (استقبال کرتے ہیں) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو) صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب (جو احادیث میں بیان کیا گیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے ۔ (بہار شریعت کتاب الجنائز بیماری کا بیان جلد ۱ صفحہ ۷۹۹)

اللہ عزوجل نے ہمیں اشرف المخلوقات میں سے پیدا کیا اگر وہ چاہتا تو ہمیں جانوروں میں سے بھی پیدا کر سکتا تھا اس وجہ سے اللہ کا شکر ادا کریں اللہ سبحان و تعالی نے ہمیں صحت جیسی نعمت دی ، ہمیں دماغ دیا سوچنے کےلیے اس وجہ سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کفر نہ کریں اور نہ اپنا خون بہایا کریں ۔ اللہ عزوجل ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان صبر کرنے والوں میں سے کر دے جنہیں اللہ نے قرآن میں بشارت دی ہے آمین ۔

وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ ۔ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ ۔ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ۔
ترجمہ : اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو ۔ کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ۔ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 155-156)


امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں : عقیدہ سابعہ (7) مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم : حضرت مرتضوی (امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیے ۔ (اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ و زبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولا علی مرتضی رضی اللہ عنہم) ۔ ہم اہلسنت ان میں حق جانبِ جناب مولا علی مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل و اعلٰی جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ (کہ ان حضرات رضی اللہ عنہم کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن  وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کےلیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں ، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے ۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں ، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی علیہما الرحمہ جیسا اختلاف سمجھتے ہیں ۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی رضی اللہ عنہ پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ (عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع) میں طعن کریں ، حاش ! یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے ۔ اللہ تعالٰی ان کی تطہیر و بریت (پاکدامنی و عفت اور منافقین کی بہتان تراشی سے براء ت ) میں آیات نازل فرمائے اور ان پر تہمت دھرنے والوں کو وعیدیں عذابِ الیم کی سنائے ۔ (القرآن الکریم ۲۴/ ۱۹)

نوٹ : بریلی شریف سے شائع ہونے والے رسالہ میں مذکور کہ یہاں اصل میں بہت بیاض ہے ، درمیان میں کچھ ناتمام سطریں ہیں مناسبت مقام سے جو کچھ فہم قاصر میں آیا بنا دیا ۱۲ اس فقیر نے ان اضافوں کو اصل عبارت سے ملا کر قوسین میں محدود کر دیا ہے تاکہ اصل و اضافہ میں امتیاز رہے اور ناظرین کو اس کا مطالعہ سہل ہو ۔ اس میں غلطی ہو تو فقیر کی جانب منسوب کیا جائے ۔ (محمد خلیل عفی عنہ)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اپنی سب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن میں زیادہ چاہیں ، جہاں منہ رکھ کر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پانی پئیں حضور اُسی جگہ اپنا لبِ اقدس رکھ کر وہیں سے پانی پئیں ، یوں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب ازواج (مطہرات ، طیبّات طاہرات رضی اللہ عنہن) دنیاو آخرت میں حضور ہی کی بیبیاں ہیں مگر عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ان کے حق میں ارشاد ہوا کہ یہ حضور کی بی بی ہیں دنیا و آخرت میں حضرت خیر النساء یعنی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو حکم ہوا ہے کہ فاطمہ ! تو مجھ سے محبت رکھتی ہے تو عائشہ سے بھی محبت رکھ کہ میں اسے چاہتا ہوں ۔ (چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ سے فرمایا)
اَیْ بنیۃ ! الست تحبّین ما احب؟ فقالت بلٰی قال فاحبّی ھٰذہ  ۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل فضائل عائشہ رضی اللہ عنہا قدیمی کتب خانہ جلد ۲ صفحہ ۲۸۵)
پیاری بیٹی ! جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تو اس سے محبت نہیں رکھتی ؟ عرض کیا : بالکل یہی درست ہے (جسے آپ چاہیں میں ضرور اسے چاہوں گی) فرمایا تب تو بھی عائشہ سے محبت رکھا کر) ۔

سوال ہوا سب آدمیوں میں حضور کو کون محبوب ہیں ؟ جواب عطا ہوا : عائشہ ۔ (صحیح البخاری ابواب مناقب اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدیمی کتب خانہ جلد ۱ صفحہ ۵۱۷،چشتی)(صحیح مسلم باب فضائل  ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ قدیمی کتب خانہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۳)(مسند احمد بن حنبل عن عمروبن العاص المکتب الاسلامی بیروت جلد ۴ صفحہ ۲۰۳)

وہ عائشہ صدیقہ بنت الصدیق ، اُمّ المومنین ، جن کا محبوبہ  رب العالمین ہونا آفتاب نیم روز سے روشن تر، وہ صدیقہ جن کی تصویر بہشتی حریر میں رُوح القدس خدمتِ اقدس سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر لائیں ۔ وہ ام المومنین کہ جبرئیل امین بآں فضل مبین انہیں سلام کریں اور ان کے کاشانہ عزت و طہارت میں بے اذن لیے حاضر نہ ہوسکیں، وہ صدیقہ کہ اللہ عزوجل وحی نہ بھیجے ان کے سوا کسی کے لحاف میں ۔ وہ ام المومنین کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر سفر میں بے ان کے تشریف لے جائیں ان کی یاد میں  واعروساہ ۔ فرمائیں ۔ (مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا المکتب الاسلامی بیروت جلد ۶ صفحہ ۲۴۸)

وہ صدیقہ کہ یوسف صدیق علیہ الصلوۃ والسلام کی براء ت و پاکدامنی کی شہادت اہلِ زلیخا سے ایک بچہ ادا کرے بتول مریم کی تطہیر و عفت مآبی ، روح اللہ کلمۃ اللہ فرمائیں ، مگر ان کی براء ت ، پاک طینتی ، پاک دامنی و طہارت کی گواہی میں قرآن کریم کی آیاتِ کریمہ نزول فرمائیں ۔ وہ ام المومنین کہ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پانی پینے میں دیکھتے رہیں کہ کوزے میں کس جگہ لب مبارک رکھ کر پانی پیا ہے حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے لب ہائے مبارک و خدا پسند و ہیں رکھ کر پانی نوش فرمائیں ۔ صلی اللہ علیہ وعلیہا و علٰی ابیہا و بارک وسلم ۔

آدمی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھے اگر کوئی اس کی ماں کی توہین کرے اس پر بہتان اٹھائے یا اسے بُرا بھلا کہے تو اس کا کیسا دشمن ہو جائے گا اس کی صورت دیکھ کر آنکھوں میں خون اُتر آئے گا ، اور مسلمانوں کی مائیں یوں بے قدر ہوں کہ کلمہ پڑھ کر ان پر طعن کریں تہمت دھریں اور مسلمان کے مسلمان بنے رہیں ۔ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔

اور زبیر و طلحہ رضی اللہ عنہما ان سے بھی افضل کہ عشرہ مبشرہ سے ہیں ۔ وہ (یعنی زبیر بن العوام) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حواری (جاں باز ، معاون و مددگار) اور یہ (یعنی طلحہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے انور کےلیے سپر ، وقت جاں نثاری (جیسے ایک جاں نثار نڈر سپاہی و سرفروش محافظ) ۔

رہے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو اُن کا درجہ ا ن سب کے بعد ہے ۔ اور حضرت مولا علی ( مرتضی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنی)کے مقام رفیع (مراتب بلند وبالا) و شانِ منیع (عظمت ومنزلتِ محکم واعلا) تک تو ان سے وہ دور دراز منزلیں ہیں جن ہزاروں ہزار رہوار برق کردار (ایسے کشادہ فراخ قدم گھوڑے جیسے بجلی کا کوندا) صبا رفتار (ہوا سے بات کرنے والے ، تیز رو ، تیز گام) تھک رہیں اور قطع (مسافت) نہ کر سکیں ۔ مگر فضلِ صحبت (و شرفِ صحابیت وفضل) و شرف سعادت خدائی دین ہے ۔ (جس سے مسلمان آنکھ بند نہیں کر سکتے تو ان پر لعن طعن یا ان کی توہین تنقیص کیسے گوارا رکھیں اور کیسے سمجھ لیں کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں انہوں نے جو کچھ کیا بربنائے نفسانیت تھا ۔ صاحبِ ایمان مسلمان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی ۔

ہاں ایک بات کہتے ہیں اور ایمان لگتی کہتے ہیں کہ) ہم تو بحمد اللہ سرکار اہلبیت (کرام) (رضی اللہ عنہم) کے غلامانِ خان زاد ہیں (اور موروثی خدمت گار ، خدمت گزار) ہمیں (امیر) معاویہ (رضی اللہ عنہ) سے کیا رشتہ خدانخواستہ ان کی حمایت بے جا کریں مگر ہاں اپنی سرکار کی طرفداری (اور امرِ حق مین ان کی حمایت وپاسداری) اور ان (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) کا (خصوصاً) الزام بدگویاں (اور دریدہ دہنوں ، بدزبانوں کی تہمتوں سے بری رکھنا منظور ہے کہ ہمارے شہزادہ اکبر حضرت سبط (اکبر ، حسن) مجتبٰی رضی اللہ عنہ نے حسبِ بشارت اپنے جدِّا مجد سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اختتامِ مدت (خلافت راشدہ کہ منہاجِ نبوت پر تیس سال رہی اور سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے چھ ماہ مدتِ خلافت پر ختم ہوئی) عین معرکہ جنگ میں ایک فوج جرار کی ہمراہی کے باوجود) ہتھیار رکھ دیے (بالقصد والا ختیار) اور ملک (اور امور مسلمین کا انتظا م و انصرام) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سپرد کر دیا (اور ان کے ہاتھ پر بیعت اطاعت فرمالی) اگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ العیاذ بااللہ کافر یا فاسق تھے یا ظالم جائر تھے یا غاصب جابر تھے ۔ (ظلم وجور پر کمر بستہ) تو الزام امام حسن رضی اللہ عنہ پر آتا ہے کہ انہوں نے کاروبار مسلمین و انتظام شرع و دین باختیارِ خود (بلا جبروا کراہ بلا ضرورت شرعیہ ، باوجود مقدرت) ایسے شخص کو تفویض فرما دیا (اور اس کی تحویل میں دے دیا) اور خیر خواہی اسلام کو معاذ اللہ کام نہ فرمایا (اس سے ہاتھ اٹھالیا) اگر مدتِ خلافت ختم ہوبچکی تھی اور آپ رضی اللہ عنہ (خود) بادشاہت منظور نہیں فرماتے تھے) تو صحابہ رضی اللہ عنہم حجاز میں کوئی اور قابلیت نظم و نسق دین نہ رکھتا تھا جو انہیں کو اختیار کیا ۔ اور انہیں کے ہاتھ پر بیعتِ اطاعت کرلی) حاش للہ بلکہ یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیش گوئی میں ان کے اس فعل کو پسند فرمایا اور ان کی سیادت کا نتیجہ ٹھہرایا ۔ کما فی صحیح البخاری ۔ (جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے) صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا : ان ابنی ھذا سید لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین ۔
ترجمہ : میرا یہ بیٹا سید ہے ، سیادت کا علمبردار ، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ عزوجل اس کے باعث دو بڑے گروہ اسلام میں صلح کرا دے ۔ (صحیح البخاری کتاب الصلح باب قول النبی صلی اللہ علیہ وآہ وسلم للحسن رضی اللہ عنہ الخ و مناقب الحسن و الحسین قدیمی کتب خانہ کراچی جلد ۱ صفحہ ۳۷۳ ، ۵۳۰،چشتی)

آیہ کریمہ کا ارشاد ہے : ونزعنا مافی صدور ھم من غل ۔ (القرآن الکریم ۷ / ۴۳)
ترجمہ : اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیے ۔

جو دنیا میں ان کے درمیان تھے اور طبعیتوں میں جو کدورت و کشیدگی تھی اسے رفق والفت سے بدل دیا اور ان میں آپس میں نہ باقی رہی مگر مودت و محبت ۔ اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے مروی کہ آپ نے فرمایا کہ   ان شاء اللہ میں اور عثمان اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم ان میں سے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا کہ نزعنا الایۃ ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کے بعد بھی ان پر الزام دینا عقل و خرد سے جنگ ہے، مولٰی علی سے جنگ ہے ، اور خدا و رسول سے جنگ ہے ۔ والعیاذ بااللہ ۔

جب کہ تاریخ کے اوراق شاہد عادل ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو جونہی اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے فوراً جنگ سے کنارہ کشی کرلی ۔ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مدد گار کے ذریعے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بیعت اطاعت کرلی تھی ۔

اور تاریخ سے ان واقعات کو کون چھیل سکتا ہے کہ جنگ جمل ختم ہونے کے بعد حضرت مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے برادرِ معظم محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور دیکھیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خدا نخواستہ کوئی زخم وغیرہ تو نہیں پہنچا ۔ بلکہ بعجلت تمام خود بھی تشریف لے گئے اور پوچھا ۔  آپ کا مزاج کیسا ہے ؟
انہوں نے جواب دیا  الحمدﷲ اچھی ہوں ۔
مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :  اللہ تعالٰی آپ کی بخشش فرمائے ۔
حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا  اور تمہاری بھی ۔

پھر مقتولین کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی واپسی کا انتظام کیا اور پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی نگرانی میں چالیس معزز عورتوں کے جھرمٹ میں ان کو جانب حجاز رخصت کیا ۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دور تک مشایعت کی ، ہمراہ رہے ، امام حسن رضی اللہ عنہ میلوں تک ساتھ گئے ۔ چلتے وقت حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجمع میں اقرار فرمایا کہ  مجھ کو علی رضی اللہ عنہ سے نہ کسی قسم کی کدورت پہلے تھی اورنہ اب ہے ۔ ہاں ساس ، داماد (یا دیور ، بھاوج) میں کبھی کبھی جو بات ہو جایا کرتی ہے اس سے مجھے انکار نہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا  لوگو ! حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سچ کہہ رہی ہیں خدا کی قسم مجھ میں اور ان میں اس سے زیادہ اختلاف نہیں ہے ، بہرحال خواہ کچھ ہو یہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ہیں (اور ام المومنین) ۔

اللہ اللہ ! ان یارانِ پیکر صدق و صفا رضی اللہ عنہم میں باہمی یہ رفق و مودت اور عزت و اکرام اور ایک دوسرے کے ساتھ یہ معاملہ تعظیم و احترام ، اور ان عقل سے بیگانوں اور نادان دوستوں کی حمایتِ علی رضی اللہ عنہ کا یہ عالم کہ ان پر لعن طعن کو اپنا مذہب اور اپنا شعار بنائیں اور ان سے کدورت و دشمنی کو مولا علی رضی اللہ عنہ سے محبت و عقیدت ٹھہرائیں ۔ ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔

مسلمانانِ اہلسنت اپنا ایمان تازہ کرلیں اور سن رکھیں کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں کھوٹ ، نیتوں میں فتور اور معاملات میں فتنہ و فساد ہو تو رضی اللہ عنہم کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عند اللہ مرضی و پسندیدہ ہونے کے معنیٰ یہی تو ہیں کہ وہ مولائے کریم ان کے ظاہر و باطن سے راضی ، ان کی نیتوں اور مافی الضمیر سے خوش ہے ، اور ان کے اخلاق و اعمال بارگاہِ عزت میں پسندیدہ ہیں ۔ اسی لیے ارشاد فرمایا ہے کہ : ولٰکن اللہ حبّب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم ۔ (القرآن الکریم ۴۹/ ۷) ۔ یعنی : اللہ تعالٰی نے تمہیں ایمان پیارا کردیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا ہے اور کفر اور حکم عدولی اوار نافرمانی تمہیں ناگوار کر دیے اب جو کوئی اس کے خلاف کہے اپنا ایمان خراب کرے اور اپنی عاقبت برباد ۔ والعیاذ باﷲ ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۹ کتاب الشتّٰی،چشتی)

واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور علم غیب پر اعتراض کا مدلل جواب : ⏬

محترم قارئین کرام : دور حاضر کے وہابیہ ، دیابنہ اور دیگر فرقِ باطلہ کے لوگ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے تعلق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور عوام الناس کو ورغلانے کےلیے یہ کہتے ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب تھا توآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں اتنا سکوت کیوں فرمایا اور وحی کے منتظر کیوں تھے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم غیب قرآن کی متعدد آیات اور احادیث کے بے شمار متون سے ثابت ہے ۔ اس پر ایمان رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین کے درجہ میں اس معاملہ کا علم تھا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں یقینا با خبر تھے ۔ اسی لیے تو اپنے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت کے سامنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں فرمایا : وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی : اللہ کی قسم ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا ۔ اس جملے کو غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے کو'' وَ اللّٰہِ'' یعنی ''اللہ کی قسم '' سے مؤکد فرمایا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عصمت کا صرف گمان نہیں تھا بلکہ یقین کامل تھا ۔ اسی لیے تو اللہ کی قسم سے جملے کی ابتدا فرما کر اپنے یقین کامل کا اظہار فرما رہے ہیں ۔ جب نبی اور رسول معصوم ہیں ۔ ان سے گناہ کا صادر ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور جھوٹ بولنا گناہ عظیم ہے ۔ قرآن میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان ہے ۔ تو نبی اور رسول کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور پھر جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانا ، اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے ۔ ہر مومن کا یہ عقیدہ ہونا لازم ہے کہ رسول کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور کبھی بھی اللہ کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے ۔ تو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے خدا کی قسم کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت فرمارہے ہیں ، تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اس واقعہ کی حقیقت کا یقین کے درجہ میں علم تھا ، بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تہمت لگانے والا اور فتنہ اٹھانے والا کون ہے؟ اسی لیے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ : کون ہے جو میری مدد کرے ؟ اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اعلان سے جوش الفت کے جذبے کے تحت طیش میں آکر منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق جو قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا ، اس سے انتقام لینے کےلیے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کھڑے ہوگئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں باز رکھا ۔ اور مصلحتاً خاموش کر دیا کیونکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان حضرات کو اجازت انتقام عطا فرماتے اور وہ تہمت لگانے والے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کو قتل کر دیتے ، تو دیگر منافقین یہ واویلا مچاتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زوجہ کی طرفداری میں حقیقتِ واقعہ کو چھپانے کےلیے عبداللہ بن ابی کو ہمیشہ کےلیے خاموش کر دیا ۔ اپنی زوجہ کی پاک دامنی کا کوئی ثبوت نہ تھا، لہذا قتل و غارت گری کی راہ اپنائی ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کو خاموش کر دیا ۔ تاکہ فتنہ کی آگ اور زیادہ نہ بھڑکے ۔

پانچ ہجری میں غزوہ بنی المصطلق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لے جانے کا ارادہ فرمایا ۔ اور ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالا ۔ اور اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کا نام نکلا ۔ غزوہ بنی المصطلق سے پہلے آیت حجاب نازل ہو چکی تھی ۔ یعنی عورتوں کےلیے پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا ۔ قرآن مجید پارہ ٢٢ سورہ احزاب میں آیت حجاب نازل ہو چکی تھی ۔ غزوہ بنی المصطلق کا واقعہ غزوہ خندق اور غزوہ بنی قریظہ سے قبل کا ہے ۔ غزوہ بنی المصطلق میں ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تشریف لے گئیں ۔ ان کی سواری کا بندوبست ایک اونٹنی پر محمل یعنی کجاوے میں کیا گیا ۔ اس کجاوے کو پردہ کےلیے اچھی طرح محجوب کیا گیا ۔ تاکہ کسی غیر محرم کی نظر ام المؤمنین پر نہ پڑے ۔ آپ کجاوے میں پردے کے کامل انتظام کے ساتھ بیٹھ جاتیں ۔ اور پھر اس کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ پر رسیوں سے باندھ دیا جاتا ۔ پڑاؤ اور منزل پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس کجاوے کے اندر بیٹھی رہتی تھیں ۔ اور کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ سے اتار لیا جاتا تھا ۔ اب پورا واقعہ جس کو '' حدیث افک'' کے نام سے شہرت ملی ہے ۔ اس کو خود سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مقدس زبان سے سنیے ۔

اصل واقعہ کیا تھا ؟

شیخین رحمۃ اللہ تعالی علیہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ، آپ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ سے فارغ ہو کر روانہ ہوئے ۔ اور مدینہ طیبہ پہنچنے سے پہلے ایک مقام پر پڑاؤ کا حکم فرمایا میں اٹھی اور قضائے حاجت کےلیے لشکریوں کے پڑاؤ اور ٹھہراؤ سے ذرا فاصلے پر باہر چلی گئی ، فراغت پاکر اپنی قیام گاہ پر لوٹی تو اتفاق سے میرا ہاتھ سینے پر گیا ، تو مجھے پتہ چلا کہ میرا ہار گلے میں نہیں ہے ۔ وہ ہار جزع غفار کا بنا ہوا تھا ۔ میں اسی جگہ پر واپس گئی تو ہار کو تلاش کرنے لگی ۔ اور اس تلاش میں دیر لگ گئی ۔ ادھر لشکر روانہ ہو رہا تھا جو لوگ میرا کجاوا (محمل) اونٹ پر رکھتے اور باندھتے تھے وہ آئے اور یہ سمجھا کہ میں اس کجاوے (محمل ) میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔ محمل کو اٹھاکر اونٹ کی پیٹھ پر باندھ دیا ۔ میں ایک کم وزن اور سبک جسم عورت تھی ۔ لہٰذا ان کو یہ پتہ نہ چلا کہ محمل خالی ہے یا بھرا ہوا ہے ۔ میں جب ہار تلاش کرکے اقامت گاہ پر لوٹی تو لشکر روانہ ہو چکا تھا ۔ جہاں لشکر کا پڑاؤ تھا ، وہاں پر اب کوئی بھی موجود نہ تھا جس جگہ پر میرا ڈیرہ تھا میں اس جگہ آکر بیٹھ گئی ۔ میرا خیال یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مجھ کو نہ پائیں گے تو کسی کو بھیج کر مجھ کو بلوالیںگے ۔ میں اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ بیٹھے بیٹھے آنکھیں بوجھل ہوئیں، نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گئی ۔ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جو لشکر کے پیچھے ''معقب کارواں'' کی خدمت پر مامور تھے (معقب کاروں یعنی پہلے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی قافلہ یا لشکر کوچ کرتا تھا تو ایک شخص کارواں یا لشکر کے پیچھے رکھا جاتا تھا تاکہ کارواں سے کسی کی کوئی چیز گر جائے تو وہ شخص اٹھالے اور پھر منزل پر پہنچ کر امیر کارواں کے سپرد کر دے ، اور امیر کارواں تحقیق کرکے جس کی وہ چیز ہو اسے دے دے) حضرت صفوان بن معطل صبح کے وقت اس مقام پر پہونچے اور مجھ کو سوتا پایا ۔ چونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے جب عورتوں کے شرعی پردے نہ تھے ، تب انہوں نے مجھ کو دیکھا تھا، اس لئے انہوں نے مجھ کو پہچان لیا ۔ اور مجھ کو پہچان لینے پر فوراً استرجاع پڑھا ۔ یعنی '' انا للہ و انا الیہ راجعون'' ۔ ان کے استرجاع پڑھنے سے میں بیدار ہوئی اور چہرے اور جسم کو میں نے چادر میں اور زیادہ چھپالیا ، حضرت صفوان نے استرجاع کے علاوہ کچھ بھی نہ کہا اور نہ میں نے کچھ سنا ۔ انہوں نے اونٹنی سے اتر کر اونٹنی کو بٹھایا اور میں جا کر سوار ہوگئی ۔ اور حضرت صفوان اونٹنی کو کھینچ کر چل دیے ۔ ہم نے چل کر لشکر کو سخت دھوپ اور گرمی کے وقت ٹھہراؤ میں پالیا ۔ پھر ہلاک ہوا جس کو میرے معاملے میں ہلاک ہونا تھا اور جس شخص نے سب سے بڑھ کر اس کی تشہیر اور اتہام طرازی کی وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا ۔ (الخصائص الکبریٰ فی معجزات خیر الوری مترجم اردو جلد ١ صفح ٤٤٩ تا ٤٥٠،چشتی)

بس اتنی سی بات تھی لیکن مدینہ طیبہ کے منافقین اور خصوصاً عبد اللہ بن اُبی بن سلول منافق نے اپنے خبث باطن اور دل میں چھپے ہوئے نفاق کا اظہار کرتے ہوئے ام المومنین محبوبہ محبوب رب العالمین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عصمت اور پاک دامنی کے خلاف تہمت اور افترا پردازی کا طوفان کھڑا کر دیا ۔ فتنے کا طوفان برپا ہو گیا ۔ منافقین کے ساتھ کفار اور مشرکین بھی شامل ہو گئے ، کچھ ضعیف الاعتقاد، سادہ لوح ، بھولے بھالے مسلمان بھی ان کے بہکاوے میں آ گئے ۔

جہاں دیکھو وہاں صرف ایک ہی بات ، مبالغہ ، غلو اور جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ منافقین نے اس واقعہ کو اتنی اہمیت اور شہرت دی کہ خدا کی پناہ۔ ایک عظیم فتنہ کھڑا ہو گیا ۔ حالانکہ اجلّہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے منافقین کے بہتان و افک کا دندان شکن جواب دیا اور بارگاہ رسالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عصمت اور پاک دامنی کا اظہار کیا ۔

امیر المؤمنین خلفیۃ المسلمین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے جسم اقدس پر جب کہ مکّھی تک نہیں بیٹھتی کیونکہ اس کے پاؤں نجاستوں سے آلودہ ہوتے ہیں تو حق تعالی آپ کےلیے کیسے گوارا کرے گا ، اس بات کو جو اس سے کہیں زیادہ بد ترین ہو اور اس سے آپ کی حفاظت نہ فرمائے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا سایہ زمین پر نہیں گرتا ، مبادا کہ وہ زمین ناپاک ہو ۔ حق تعالی جب کہ آپ کے سائے کی اتنی حفاظت فرماتا ہے تو آپ کی زوجہ محترمہ کی ناشائستگی سے کیوں نہ حفاظت فرمائے گا ۔ مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق تعالی نے اتنا گوارا نہیں فرمایا کہ آپ کے پائے اقدس کے نعلین مبارک میں نجاست کی آلودگی ہو اور وہ آپ کو اس کی خبر دیتا ہے کہ آپ نعلین کو پائے اقدس سے اتار دیں ۔ تو اگر یہ واقعہ نفس الامر میں وقوع پذیر ہوتا تو یقیناً رب تبارک و تعالی آپ کو اس کی خبر دیتا ۔ (مدارج النبوۃ مترجم اردو جلد ١ صفحہ ٢٨٠،چشتی)(الخصائص الکبری مترجم اردو جلد ١ صفحہ ٤٥٣)

منافقین و مشرکین کی جانب سے حضرت سیدتنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عصمت اور پاک دامنی پر مسلسل الزامات و اتہامات کا سلسلہ جاری رہا ۔ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ اور مبالغہ ہوتا رہا ۔ ادھر صحابہ کرام و جانثاران بارگاہ رسالت منافقین کے اقوال و الزامات کی تردید فرماتے رہے ۔ یہ معاملہ ایک ماہ سے زیادہ طول پکڑ گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بر بنائے مصلحت سکوت فرمایا اور منافقین کو کچھ جواب نہ دیا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عصمت اور پاک دامنی سے آپ یقیناً با خبر تھے لیکن مصلحت ایزدی کی بنا پر آپ نے اپنی رفیق حیات کی برأت کا صراحۃً اعلان نہ فرمایا ۔ البتہ اشارۃً اپنے جاں نثار صحابہ کے سامنے ان الفاظ میں ذکر فرمایا کہ وَ اللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلیٰ أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ میری اہلیہ کا دامن اس تہمت سے پاک ہے ۔

یہاں تک کہ اس فتنہ کے دوران آپ نے مسجد نبوی میں دوران خطبہ فرمایا کہ '' کون ہے جو میری مدد کرے ، اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی '' ( اس سے مراد عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا ) پھر فرمایا کہ '' قسم ہے خدا کی ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا '' والله ما علمت على أهلى إلا خيرا ۔ (صحیح بخاری کتابُ المغازی حدیث نمبر 4141،چشتی)

مذکورہ واقعہ تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اس واقعہ میں کیا کیا اسرار و رموز مخفی تھے ؟ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس مصلحت کی بنا پر سکوت فرمایا ؟ اور اس میں کیا حکمت تھی ؟ ۔ پہلے اس واقعہ کو تفصیل سے ذکر پیش کرتا ہوں ۔

جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا لشکر کے قافلے سے بچھڑ گئیں اور قافلہ جب روانہ ہوگیا تب تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ حضرت عائشہ بچھڑ گئی ہیں ۔ محمل اٹھانے والوں نے یہی سمجھ کر محمل (کجاوے) کو اونٹ پر رکھ دیا تھا کہ آپ اس کے اندر تشریف فرما ہیں ۔ لیکن جب یہ لشکر مدینہ شریف کے قریب صلصل نامی مقام پر ٹھہرا اور اونٹ بٹھائے گئے، مگر محمل سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا باہر تشریف نہ لائیں ، تب پتہ چلا کہ آپ پیچھے رہ گئیں ہیں، ان کے انتظار میں لشکر بمقام صلصل ٹھہرا رہا لشکر میں پانی اس انداز سے تھا کہ مدینہ شریف پہنچ جائے ۔ لیکن ام المومنین کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے قافلہ کو مجبوراً ان کے انتظار میں رکنا پڑا اور لشکر میں جتنا پانی تھا ، وہ صرف ہوگیا۔ نماز کا وقت آیا تو وضو کیلئے پانی نہیں تھا پینے کےلیے بھی پانی کی تنگی تھی ۔ پانی کے بغیر وضو اور وضو کے بغیر نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن چونکہ یہ قافلہ محبوبہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و ازواجہ و بارک وسلم کے انتظار میں ٹھہرنے کی وجہ سے پانی کی قلت کی دقت و مصیبت میں مبتلا تھا ۔ لہٰذا اللہ تبارک و تعالی نے اپنے محبوب کی حرم محترمہ کے صدقے اور طفیل ان لشکر والوں پر مہربان ہو کر، ان پر اور ان کے طفیل قیامت تک کے مسلمانون پر کرم فرماکر تیمم کاحکم نازل فرمایا ۔ جس کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت سید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ صدیقہ میں عرض کیا کہ مَا ھِیَ بِأوَّلِ بَرْکَتِکُمْ یَا آلِ أبِیْ بَکْرٍ اے اولاد ابو بکر ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں '' مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو تمہاری بہت سی برکتیں پہونچی ہیں ۔ (مدارج النبوۃ مترجم اردو جلد ٢ صفحہ ٢٧٥،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم مدینہ منورہ واپس آئے ، تو مشیت ایزدی سے ان ہی دنوں میں بیمار ہوگئی ۔ میں گھر ہی میں تھی ۔ ایک ماہ سے زیادہ میں بیمار رہی ۔ باہر میرے خلاف فتنہ پردازوں نے جو الزامات اٹھا رکھے تھے ، اس کا مجھے کچھ پتہ نہ تھا ۔ ایک دن ام مسطح نام کی عورت نے الزام تراشیوں کی اتہام سازیوں کی ساری باتیں مجھ سے بیان کیں ۔ جنہیں سن کر میں پہلے سے زیادہ بیمار ہو گئی ۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور سلام علیک کے بعد مجھ سے فرمایا '' تم کیسی ہو ؟ '' میں نے اپنی کیفیت بتانے کے بعد عرض کیا کہ اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو میں چند دنوں کیلئے اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی اور میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر چلی گئی ۔ میں نے اپنی والدہ سے تمام باتیں دریافت کیں ۔ میں تمام رات روتی رہی اور صبح ہوجانے پر بھی میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، تمام شب جاگتی ہی رہی ، پلک تک نہ جھپکی ۔ میں دن بھر مسلسل روتی رہی ، میرے آنسو روکے نہ رکتے تھے اور نیند نام کو بھی نہ تھی، مجھ کو اندیشہ ہوا کہ شدت گریہ کی وجہ سے شاید میرا جگر پھٹ جائے گا ۔ (الخصائص الکبری مترجم اردو جلد ١ صفحہ ٤٥١)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو ملنے میرے گھر تشریف لائے ۔ اور مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ! میرے حضور تمہارے بارے میں ایسی ایسی باتیں پہنچی ہیں ، لہٰذا اگر تم بری اور پاک ہو ، تو عنقریب اللہ تمہاری پاکی بیان فرمائے گا اور تمہاری برأت کی خبر نازل فرمائے گا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں ۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلمات سن کر میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں ایک قطرہ تک بھی نظر نہ آتا تھا ۔ یہ اس خوشی کی بنا پر تھا جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام مبارک سے بشارت پائی تھی ۔ (مدارج النبوۃ مترجم اردو جلد ٢ صفحہ ٢٨١،چشتی)(الخصائص الکبری مترج اردو جلد ١ صفحہ ٤٥٢)

ام المومنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں امید رکھتی تھی کہ اللہ تبارک و تعالی میری برأت فرمادے گا ۔ اور میری پاکی اور پاک دامنی کی خبر دے گا ۔ لیکن مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ اللہ میرے اس معاملہ میں وحی نازل فرمائے گا ۔ کیونکہ میں اپنے آپ کو اور اپنے معاملے کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی ۔ البتہ مجھ کو صرف اس بات کی توقع تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید خواب دیکھیں گے اور اس ذریعہ سے مجھ بے چاری کی عفت اور عصمت پر گواہی مل جائے گی ۔ اللہ کا کرم دیکھیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے کہ یکا یک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزولِ وحی کے آثار نمودار ہوئے اور جو شدت ایسے موقع پر ہوتی تھی وہ شروع ہوئی ۔ حتی کہ آپ کی پیشانی مبارک پر موتیوں کے مانند پسینہ چمکنے لگا ۔ آپ پر خوب ٹھنڈی کے موسم میں بھی نزول وحی کی شدت سے پسینہ وغیرہ کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔ اور یہ اس گرانی اور بوجھ کی وجہ سے ہوتا تھا ، جو کلام مجید آپ پر اترتا تھا ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نزول وحی کی کیفیت سے فارغ ہوئے ، تو آپ کا یہ حال تھا کہ آپ تبسم فرمارہے تھے ۔ سب سے پہلی بات جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی وہ یہ تھی کہ : اے عائشہ صدیقہ ! حق تعالی نے تمہیں بری قرار دے کر تمہیں پاک گردانا ہے ۔ اس تہمت سے تمہاری پاکی بیان کی ہے اور تمہاری شان میں قرآن بھیجا ہے ۔ (مدارج النبوۃ ،اردو ترجمہ جلد ۲ صفحہ ۲۸۳،چشتی)(خصائص الکبری مترجم اردو جلد ۱ صفحہ ۴۵۴)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت : إنَّ الَّذِیْنَ جَآؤا بِالإفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ ۔ (پارہ ۱۸ ، سورہ نور آیت نمبر ۱۱)
ترجمہ: بے شک وہ کہ یہ بہت بڑابہتان لائے ہیں ، تمہیں میں کی ایک جماعت ۔ سے لے کر دس آیتوں تک وحی ہوئی ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت میں دس آیات مذکورہ اور دیگر آٹھ آیات ملا کر کل اٹھارہ آیات نازل فرمائیں ۔

سورئہ نور آیت نمبر ۴ ۔ پارہ اٹھارہ میں صاف حکم نازل ہوا کہ : وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأتُوا بِأرْبَعَۃِ شُھَدَآئِ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَ لاَ تَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَۃً أبَدًا ۔
ترجمہ : اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں ، پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں اسی کوڑے لگاٶ اور ان کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو ۔

ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت اور افک کے سلسلہ میں قرآن مجید کا انداز بیان بڑا جامع اور پر زور ہے ۔ اس میں اعجاز و ایجاز اور احکامات و تنبیہات اس اسلوب سے بیان کیے گئے ہیں کہ معصیت کے کسی دوسرے وقوع اور موقع پر اس انداز سے بیان نہیں کیے گئے ۔ تہمت طرازی اور سخن سازی کا منافقین کی طرف سے جو مظاہرہ ہوا ، جس سے اہل بیت رسول رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو انتہائی صدمہ ، دکھ ، اور تکلیف پہونچی تھی ، اس کی وجہ سے انداز بیان میں شدت ہوئی ہے ۔

الخصائص الکبری فی معجزات خیر الوری میں امام عبد الرحمن جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے زمخشری کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ : اصنام پرستی اور شرک کے بارے میں جو تنبیہات ہیں ، وہ بھی مقابلۃً اس سے کچھ کم ہی ہیں ۔ کیونکہ یہ ایک پاکباز زوجۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طہارت و برأت کی حامل ہیں ۔

وحی کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ نور کی دس آیتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سے نکل کر خوش و خرم مسجد نبوی میں تشریف لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع فرما کر خطبہ دیا اور اس کے بعد نازل شدہ آیتوں کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے تلاوت فرمائی ۔ اور تہمت لگانے والوں کو طلب فرمایا ۔ تہمت لگانے والے جب بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر کیے گئے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر ’’حدِ قذف‘‘ جاری فرمایا اور ہر ایک کو اسی اسی کوڑے لگوائے ۔ (مدارج النبوۃ مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۲۸۳)

یہاں تک کے مطالعہ سے واقعہ کی ابتدا سے انتہا تک کی واقفیت حاصل ہو چکی ہو گی ۔ اب دورِ حاضر کے منافقین کے اعتراضات میں سے اہم اعتراض جو اس واقعہ کے ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب پر ہے اس کا جواب پیشِ خدمت ہے : ⏬

دور حاضر کے منافقین یعنی وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، اور تبلیغی فرقہ باطلہ کے مبلغین و مقررین اپنے جہالت سے لبریز بیان اور تقریر جو در اصل تقریر نہیں بلکہ تفریق بین المسلمین ہوتی ہے ۔ بڑے تپ و تپاک سے اودھم مچاتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ کی عصمت و پاک دامنی کے سلسلہ میں حضور نے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ تک سکوت کیوں فرمایا ؟ آپ نے فی الفور ان کی برات کا اعلان کیوں نہ کر دیا ؟ بلکہ وحی کے منتظر رہے ۔ اور جب وحی آئی تب آپ نے برأت کا اعلان فرمایا ۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا ۔ اگر علم غیب ہوتا تو آپ فوراً برأت کا اعلان کردیتے ۔ (معاذ اللہ)

بس یہی ہے ان کے دعوی کی دلیل و برہان ۔ مشیت ایزدی اور حکمت الہیہ کے رموز کو سمجھنے سے یک لخت قاصر و عاجز ہونے کی وجہ سے ایسی بے ڈھنگی بات کہہ رہے ہیں ۔ حالانکہ اس واقعہ کے پردے میں اللہ تعالی کی کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں اور ان تمام حکمتوں سے اللہ نے اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ فرما دیا تھا ۔ اسی وجہ سے آپ نے سکوت فرمایا تھا ۔ کچھ وجوہات ذیل میں عرض ہیں ۔

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی تھی ، منافق اس کو کہتے ہیں کہ جو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو لیکن دل سے وہ مومن نہیں ہوتا ۔ زبان سے تو قسمیں کھا کھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا رسول ہونے کا اقرار کرتے تھے لیکن پیٹھ کے پیچھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نا زیبا کلمات کہہ کر آپ کی گستاخی کرتے تھے اور آپ کو جھٹلاتے تھے ۔منافقین کی ان دو غلی باتوں کا اللہ نے پردہ فاش فرماتے ہوئے قرآن مجید میں ایک مکمل سورۃ بنام '' منافقون '' نازل فرمائی ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے : إذَا جَا ۤءَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوا نَشْھَدُ إنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ إنَّکَ لَرَسُوْلُہ، وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ إنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ ۔ (سورہ منافقون ۔ آیت ١)
ترجمہ : جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بیشک یقیناً اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں ۔

ان منافقین کی ایک خصلت کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح ہے کہ : إذَا لَقُوا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَالُوْا آمَنَّا وَ إذَا خَلَوْا إلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْا إنَّا مَعَکُمْ إنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِؤُنَ ۔ (سورہ البقرۃ آیت ١٤)
ترجمہ : اور جب ایمان والوں سے ملیں ، تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں ، تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ، ہم تو یوں ہی ہنسی کرتے ہیں ۔

رسول کے ماننے میں اور ایمان کے اقرار میں منافقین دو غلی بولی بولتے ہیں اور ان کے اقرار و ایمان کا کچھ بھی اعتبار نہیں ۔ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ منافقین ضرور جھوٹے ہیں ۔ منافق کو صرف جھوٹا نہیں بلکہ'' ضرور جھوٹا'' کہا گیا ہے ۔ یعنی ان کا جھوٹ اتنا عام ہے کہ ان سے صدق کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی ۔ منافقوں کی بے حیائی اور بے شرمی کا یہ حال تھا کہ ابھی انکار اور ابھی رجوع ۔ بلکہ دن کے اجالے کو رات کی اندھیری کہہ دینے میں بھی ان کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلاتے تھے ، آپ کی تکذیب کرتے تھے ، آپ کے بین معجزات کو معاذ اللہ جادو اور سحر کہتے تھے ۔ لہٰذا ان جھوٹوں کے سامنے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان کرنا بے سود تھا ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان فرماتے ، تو منافقین ایک الزام یہ گڑھتے کہ دیکھو ! اپنی بیوی کا دفاع کر رہے ہیں ، زوجیت کی بناء پر طرفداری کر رہے ہیں ، اپنی بیوی کے عیب پر پردہ ڈال رہے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں یقیناً با خبر تھے ۔ اسی لیے تو اپنے جانثار صحابہ کرام کی مقدس جماعت کے سامنے حضرت عائشہ کے معاملے میں فرمایا وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی : اللہ کی قسم ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا '' اس جملے کو غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے کو'' وَ اللّٰہِ'' یعنی ''اللہ کی قسم '' سے مؤکد فرمایا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ کی عصمت کا صرف گمان نہیں تھا بلکہ یقین کامل تھا ۔ اسی لیے تو اللہ کی قسم سے جملے کی ابتدا فرما کر اپنے یقین کامل کا اظہار فرمارہے ہیں ۔ جب نبی اور رسول معصوم ہیں ۔ ان سے گناہ کا صادر ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور جھوٹ بولنا گناہ عظیم ہے ۔ قرآن میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان ہے ۔ تو نبی اور رسول کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور پھر جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانا ، اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے ۔ ہر مومن کا یہ عقیدہ ہونا لازم ہے کہ رسول کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور کبھی بھی خدا کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے ۔ تو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے سامنے اللہ کی قسم کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت فرمارہے ہیں ، تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اس واقعہ کی حقیقت کا یقین کے درجہ میں علم تھا، بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تہمت لگانے والا اور فتنہ اٹھانے والا کون ہے؟ اسی لئے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ :''کون ہے جو میری مدد کرے؟ اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی ''حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان سے جوش الفت کے جذبے کے تحت طیش میں آکر منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق جو قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، اس سے انتقام لینے کیلئے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے لیکن حضور نے انہیں باز رکھا ۔ اور مصلحتاً خاموش کر دیا کیونکہ اگر حضور ان حضرات کو اجازت انتقام عطا فرماتے اور وہ تہمت لگانے والے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کو قتل کردیتے، تو دیگر منافقین یہ واویلا مچاتے کہ حضور نے اپنی زوجہ کی طرفداری میں حقیقتِ واقعہ کو چھپانے کیلئے عبداللہ بن ابی کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ اپنی زوجہ کی پاک دامنی کا کوئی ثبوت نہ تھا، لہذا قتل و غارت گری کی راہ اپنائی ۔ اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کو خاموش کر دیا۔ تاکہ فتنہ کی آگ اور زیادہ نہ بھڑکے ۔

دورِ حاضر کے منافقین صرف اسی بات کی رٹ لگاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان نہ کرتے ہوئے سکوت کیوں اختیار کیا ۔ اس کا جواب ضمناً تو اوپر بیان ہو چکا کہ اگر آپ برأت کا اعلان فرماتے تو منافقین ماننے والے نہ تھے بلکہ دیگر الزامات تراشتے ۔اس لئے حضور نے سکوت فرمایا ۔ اور ایک اہم مصلحت یہ تھی کہ حضور برأت کا اعلان کریں وہ اتنا مؤثر نہ ہوگا جتنا کہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے اعلان برأت کا اثر ہوگا ۔ اس کو ایک آسان مثال سے سمجھیں کہ ایک بادشاہ کی کوئی چیز گم ہوگئی ، کچھ مخالف لوگوں نے چوری کا الزام بادشاہ کے وزیر اعلیٰ کے بیٹے پر لگایا ۔ حالانکہ کہ وزیر اعلیٰ کا بیٹا بے قصور تھا ۔ وزیر اعلیٰ کو اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا یقین کے درجہ میں علم ہے ۔ لیکن وقت کا تقاضا اور مصلحت حالات یہ ہے کہ وزیر خاموش ہی رہے ۔ کیونکہ اگر وزیر اٹھ کر اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا اعلان کرے گا تو الزام لگانے والے مخالفین کا گروہ یہی کہے گا کہ اپنے بیٹے کی محبت اور طرفداری میں وزیر اعلیٰ اپنے عہدے اور منصب کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ لہٰذا وزیر اعلیٰ سکوت اختیار کرے یہی بہتر و مناسب ہے ، چاہے تہمت کی آندھی کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو جائے ۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ صبر کرے اور خاموش رہ کر اس وقت کا انتظار کرے کہ حق بات واضح ہو کر سامنے آجائے ۔ اچانک ایک دن بادشاہ سلامت کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ وزیر اعلی کے فرزند ارجمند پر چوری کا جو الزام لگایا گیا ہے اس میں وہ بری اور بے قصور ہے ۔ وزیر زادہ دیانتدار اور نیک بخت ہے ۔ ایسے نیک بخت پر چوری کا الزام لگانا ، ظلم شدید اور گناہ عظیم ہے ۔ ہم وزیر زادہ کو اس چوری کی تہمت سے باعزت بری کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم نافذ فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایسے نیک بخت اور دیانتدار پر غلط الزام لگاتے ہیں ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔ اس اعلان کے بعد الزام لگانے والوں کو بادشاہ کوڑے لگوائے اور کوڑے لگانے کا کام اپنے وزیر کے ہاتھ سے انجام دلوائے ۔

اب محترم قارئینِ کرام ، سوچیں ! وزیر زادہ کی عزت کس میں بڑھی ؟ اگر وزیر اپنے بیٹے کی برأت کا اعلان کرتا ہے تو اس میں وہ عزت و شان حاصل نہ ہوتی جو عزت اور مرتبہ بادشاہ کے اعلان سے حاصل ہوا ۔ ٹھیک اسی مثال کو حضرت سدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ میں ذہن نشیں کرکے سوچیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے برأت و عصمت کے اعلان میں منافقین کو طرفداری اور پاسداری کے الزام کی گنجائش تھی ۔ لیکن جب اللہ تبارک و تعالی نے ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں فرمادیا ، تو اب کسی کو سسکنے کی ، کھسکنے کی ، بدکنے کی ، رینگنے کی گنجائش ہی نہ رہی ۔

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی طرف سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برات کا اعلان فرماتے تو وہ حدیث کہلاتی اور یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں دیگر واقعات کی طرح شمار کیا جاتا ۔ حدیث کے متن (عبارت) کی نماز میں تلاوت نہیں ہوتی لیکن اللہ نے حضرت عائشہ کی برات کا قرآن مجید میں اعلان فرمایا ۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی عظمت قیامت تک نماز میں تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ ظاہر ہوتی رہے ۔ عوام مسلمین میں دینی تعلیم و معلومات حاصل کرنے کی رغبت اور شوق دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ بڑی مشکل سے ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم لوگ اپنی اولاد کو دے پاتے ہیں ۔ ایسے ماحول میں حدیث و فقہ کے علم کی طرف بہت کم افراد مائل ہیں۔ اگر برأت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بذریعہ حدیث ہوتی تو اتنی شہرت و عزت نہ ملتی جتنی کہ قرآن مجید سے برأت ہونے پر حاصل ہوئی ۔

چھوٹا سا دیہات ہو گا ، چاہے اس میں مسلمان کے دور چار ہی مکان ہوں لیکن وہاں کسی نہ کسی گھر میں قرآن مجید ضرور ہو گا ۔ لیکن وہاں کتب احادیث کا ہونا ناممکن ہے ۔بلکہ اکثر شہروں میں جہاں دار العلوم نہیں ہوتے وہاں بخاری شریف ، مسلم شریف و دیگر کتب احادیث کا ہونا نا ممکن ہے ۔ علاوہ ازیں دنیا کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں ہے جہاں کلام مجید کا نسخہ موجود نہ ہو ۔ بر عکس اس کے کتب احادیث بہت کم دستیاب ہیں ۔ تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ذریعہ برأت حضرت عائشہ کا جو اعلان فرمایا ہے ، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ کی شان و شوکت کا ڈنکا قیامت تک بجتا رہے ۔

اگر بجائے قرآن مجید کے احادیثِ مبارکہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت و عصمت کا اعلان ہوتا ، تو منکرین عظمت کو تنقیص کےلیے ایک راہ یہ ملتی کہ وہ اپنی ذہنی اختراع سے یہ کہہ دیتے کہ ''یہ حدیث ضعیف ہے'' جیسا کہ دورِ حاضر کے منافقین وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، تبلیغی لوگ عظمت و تعظیمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز و ثبوت کی احادیثِ مبارکہ سے عوام کو بے التفات و بے اعتماد کرنے کےلیے بلا کسی ثبوتِ علم اسماء الرجال کہہ دیتے ہیں کہ ''یہ حدیث ضعیف ہے'' لیکن قرآن مجید کی کسی بھی آیت کو ضعیف کہنے کی کسی میں جرأت نہیں ۔ اور اسی حکمت کے تحت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں کیا گیا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)