شوگر کے مریض ، روزہ اور فدیہ شرعی احکام
محترم قارئینِ کرام : اس مسئلہ کے بارے میں علمائے کرام کا ایک موقف یہ ہے کہ روزے کے دوران جو چیز بطور دوا یا غذا جسم میں داخل کی جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ انسولین بھی ایک دوا ہے ، جو جسم کے کئی نظاموں پر اثرانداز ہوتی ہے ۔ اس لیے روزے میں انسولین لینا جائز نہیں ۔ طبی معالج سے مشورے کے بعد ، کوشش کریں کہ سحری اور افطاری میں انسولین لگوا لیں ۔
دوسرا مؤقف : پہلے مؤقف کے جواب میں علمائے کرام لکھتے ہیں کہ حالتِ روزہ میں انسولین کا انجکشن لگانا جائز ہے ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ عمومی طور پر انجکشن کی سوئی جوف (معدہ یا معدہ تک جانے والے راستوں کے اندرونی حصے) یا دماغ تک نہیں پہنچائی جاتی اور جوف تک جانے کا کوئی عارضی راستہ بھی نہیں بنتا کہ جس کے ذریعے دوائی جوف تک پہنچ سکے لہٰذا یہ انجکشن روزہ ٹوٹنے کا سبب نہیں ۔ مسامات کے ذریعے کسی چیز کا داخل ہونا ویسے ہی روزے کے منافی نہیں جیسا کہ جسم پر تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کہ تیل اگرچہ جسم کے اندر جاتا ہے لیکن مسامات کے ذریعے اور یہ روزے کے خلاف نہیں ۔
شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیِ اعظم حضرت علامہ مولانا محمد مصطفی رضانوری (متوفی 1402ھ) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فی الواقع انجکشن سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ انجکشن سے دواجوف میں نہیں جاتی ، انجکشن ایسا ہی ہے جیسے سانپ کاٹے ، بچھو کاٹے ، جیسے ان کے دانت یا ڈنک جوف میں نہیں جاتے اور روزہ فاسد نہیں ہوتا یوں ہی انجکشن ۔ (فتاوی مفتی اعظم کتاب الصوم جلد ۳ صفحہ ۳۰۲،چشتی)
فتاویٰ فیض الرسول میں ہے : تحقیق یہ ہے کہ انجیکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہے رَگ میں لگایا جائے چاہے گوشت میں ۔ (فتاویٰ فیض الرسول کتاب الصوم جلد 1 صفحہ 514 شبیر برادرز لاہور،چشتی)
انسولین چوںکہ کھال میں لگانے کا انجکشن ہے اور روزہ کی حالت میں گوشت میں انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اس لیے روزہ کی حالت میں انسولین لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ فتاویٰ شامی میں ہے : قال في النهر؛ لأن الموجود في حلقه أثر داخل من المسام الذي هو خلل البدن والمفطر إنما هو الداخل من المنافذ للاتفاق على أن من اغتسل في ماء فوجد برده في باطنه أنه لايفطر ۔ (الفتاوی الشامية جلد ۲ صفحہ ۳۹۵)
فقیہِ اعظم مفتی نور اللہ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اگر کوئی ٹیکہ جوف میں کیا جائے یعنی سوئی جوف تک پہنچا کر دوائی جوف میں ڈالی جائے تو ایساٹیکہ ضرور مُفْسدِ صوم ہوگا ۔ یونہی جوف تک پہنچنے والے کسی اصلی راستے (حلق ، کان ، ناک ، مَبْرَز ، مَبالُ المرأۃ) کے اندرونی حصہ میں یا دماغ میں حسبِ دستور سوئی کے خود ساختہ راستہ سے دوائی پہنچانا بھی مفسد ہے کیونکہ دماغ اور اصلی راستوں کے اندرونی حصے بھی جوف ہی کے حکم میں ہیں ، اس لیے کہ ان راستوں کے خلاء ، خلاءِ پیٹ سے ملے ہوئے ہیں اور دماغ و جوف کے مابین بھی چونکہ قدرتی راستہ ہے تو جو چیز دماغ میں پہنچے وہ جوف میں پہنچ جاتی ہے لہٰذا دماغ اور اصلی راستوں کے اندرونی حصے جوف کے کونوں کی طرح ہیں ۔۔۔۔ ایسے عام ٹیکے جن میں دوائی جوف و دماغ تک بذریعہ سوئی نہیں جاتی بلکہ سوئی رہتی ہی جوف سے بالائی یا زیریں حصوں میں ہے روزہ فاسد نہیں کرتے کَمَا مَرَّ اَوَّلاً ایضاً کہ اس صورت میں تو جوف و دماغ تک عارضی راستہ بنتا ہی نہیں تو دوائی پہنچنے کا کوئی احتمال ہی نہیں ۔ (فتاوی نوریہ، کتاب الصیام رسالہ روزہ وٹیکہ جلد ۲ صفحہ ۲۱۹-۲۲۳)
فتح القدیرمیں ہے : والمفطرالداخل من المنافذکالمدخل والمخرج لا من المسام ۔
ترجمہ : روزہ وہ چیز توڑتی ہے جو کسی منفذ کے راستے جسم میں داخل ہو جیسے مَدخل (یعنی منہ ،ناک وغیرہ) ومَخرج (یعنی پاخانے کا مقام وغیرہ) مسام کے ذریعے داخل ہونے والی چیز روزہ نہیں توڑتی ۔ (فتح القدیر، کتاب الصوم باب ما یوجب القضاء والکفارۃ جلد ۲ صفحہ ۲۵۷)
علامہ ابنِ نجیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : والداخل من المسام لا من المسالک فلا ینافیہ کما لو اغتسل بالماء البارد ووجد بردہ فی کبدہ ۔
ترجمہ : جو چیز مسام کے ذریعے داخل ہو راستوں کے ذریعے داخل نہ ہوتو وہ روزہ کے منافی نہیں جیسے اگر ٹھنڈے پانی سے نہایا اور اس کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس کی (تو روزہ نہیں ٹوٹے گا) ۔ (بحر الرائق کتاب الصوم باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ جلد ۳ صفحہ ۴۷۶،چشتی)
فتاویٰ عالمگیری میں شرح المجمع کے حوالے سے ہے : وما یدخل من مسام البدن من الدھن لا یفطر ۔
ترجمہ : جو تیل بدن کے مسام کے ذریعے جسم میں داخل ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاوی ہندیۃ ، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لایفسد جلد ۱ صفحہ ۲۰۳،چشتی)
روزہ بیاطیس کے مرض یعنی شوگر کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ عام لوگوں کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر شوگر کا مریض روزہ رکھ لے تو اسے کہیں پریشان کن حالت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ بعض لوگ جسم میں پانی کی کمی یا شوگر لیول (Sugar Level) حد اعتدال سے گرنے کے احتمال کو اپنے ذہن پر سوار کر لیتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ البتہ شدتِ مرض کی صورت میں صورت حال مختلف ہوسکتی ہے شدتِ مرض کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی اللہ رب العزت نے اجازت دی ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے : وَمَنْ کَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَامٍ اُخَرَط يُرِيْدُ اللہ بِکُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ۔ (سورہ البقرة آیت نبر 185)
ترجمہ : اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے ، اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا ۔
ماہرینِ طب کی رائے میں ایسے اشخاص جو روزہ دار نہ ہوں ، کا شوگر لیول اتار چڑھاؤ کا شکار رہتا ہے جبکہ روزہ دار مریض کا شوگر لیول نارمل رہتا ہے کیونکہ روزہ مریض اور معالج کےلیے کسی قسم کی مشکلات یا پریشانی پیدا نہیں کرتا۔ مزید برآں اگر رمضان المبارک کے علاوہ بھی یہ طریقہ اپنایا جائے تو اس سے نہ صرف شوگر لیول کنٹرول ہوگا بلکہ شوگر لیول میں عدم تنظیم کی بناء پر جو نقاہت و کمزوری ہوا کرتی ہے ۔ اس سے بھی محفوظ رہے گا روزہ کے سبب شوگر میں مبتلا شخص کی قوتِ مدافعت بڑھتی ہے لہٰذا اس سے شوگر کے باعث ہونے والی دماغی سوزش ، کالا موتیا ، اندھا پن ، جگر اور گردوں کی خرابی کے خدشات بھی بڑی حد تک معدوم ہو جاتے ہیں ۔
جب کوئی آدمی کسی عذربیماری وغیرہ کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے پھر اس میں روزہ قضاء کرنے کی طاقت و قوت فی الوقت بھی نہ ہو اور آئندہ بھی توقع نہ ہو تو ایسے شخص کو شریعت نے رہ جانے والے روزوں کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کےلیے’’ فدیہ‘‘ دینے کی اجازت دی ہے گویا ایسا آدمی اپنے ایک روزے کے بدلے میں ’’نصف صاع‘‘گندم یا ’’ایک صاع‘‘ جَو ، کھجور وغیرہ میں سے کوئی چیز یا اس کی قیمت کسی مستحق مسلمان کو خود دے یا دینے کی وصیت کرے ۔ (ہدایہ جلد 1صفحہ 207)
آسان الفاظ میں فدیہ ایک آدمی کے صدقۂ فطر کو کہا جاتا ہے جس کی ادائیگی کے بعد اگر مریض تندرست ہو جائے تو اس کا فدیہ کالعدم ہوجائے گا اب روزوں کی قضاء ہی کرنا ہوگی ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد1صفحہ207)
اگر کسی شخص نے اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کے فدیہ کی وصیت نہیں کی اور فوت ہو گیا تو اس کے ترکہ میں سے تمام ورثاء کی دلی خوشی کے بغیر فدیہ ادا کرنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد 1 صفحہ207)
اگر ورثاء میں نابالغ بچہ ہو تو اس کی رضامندی کا اعتبار نہ ہونے کی وجہ سے بالغ ورثاء کو اس کا مال الگ کرکے اپنے مال سے فدیہ ادا کرنا جائز ہے(حوالۂ بالا )فدیہ مختلف محتاجوں کو بھی دے سکتے ہیں اور ایک ہی محتا ج کو بھی دے سکتے ہیں (در مختار جلد 2 صفحہ427،چشتی)
کئی سالوں کا فدیہ ادا کرتے وقت ادائیگی کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا یعنی اگر گذشتہ دس سال کے روزوں کا فدیہ دینا ہے تو گذشتہ قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا جس وقت دیا جارہا ہے اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 258)
آجکل بہت سارے لوگ معمولی سی بیماری یا کبھی کبھار بڑی بیماری کی صورت میں فوراً فدیہ دے دیتے ہیں اور قضاء کی کوشش تک نہیں کرتے یہ شرعاً انتہائی غلط ہے ،اولاً روزہ رکھا جائے اگر روزہ نہ رکھ سکے تو قضاء کی جائے اور اگر قضاء کی طاقت و قوت نہیں تو فدیہ دینا جائز ہوگا اگرقضاء کی طاقت و قوت ہونے کے باوجودفدیہ دیا تو ادائیگی نہیں ہوگی وہ صورتیں جن میں روزہ نہ ہونے کے باوجود رمضان میں کھاناپیناجائز نہیں * کسی نے وقتِ افطار کے وقت سے پہلے غلطی سے افطار کرلیا * کسی نے صبح صادق کا وقت ہوجانے کی باوجود سحری جاری رکھی * حیض یا نفاس والی عورت دن کے کسی حصے میں پاک ہو گئی * کسی نے بھول کر کھایا پیا پھر اسے روزہ ٹوٹنے کا سبب قرار دے کر قصدا کھالیا * کسی کا روزہ غلطی سے ٹوٹ گیا یا جبراً توڑوایا گیا * مسافر مقیم ہو گیا * کافر مسلمان ہو گیا * نابالغ بالغ ہوگیا ان تمام صورتوں میں بقیہ دن کھانے پینے سے رکنا ضروری ہے ۔ (البحرالرائق جلد 2 صفحہ 288-289،چشتی)
روزہ کی بجائے اس کا فدیہ ادا کرنے کا حکم شیخِ فانی کےلیے ہے ، مریض کےلیے نہیں ۔ شیخِ فانی وہ شخص ہے کہ جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہو چکا ہو کہ حقیقتاً روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو،نہ سردی میں نہ گرمی میں ، نہ لگاتار نہ متفرق طور پر اور نہ ہی آئندہ زمانے میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو ۔
چنانچہ نقایہ میں ہے : وشیخ فان عجز عن الصوم افطر“یعنی بوڑھا شخص جو کہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو وہ روزہ نہیں رکھے گا ۔
شرح نقایہ میں ہے : (شیخ فانٍ) سُمّی بہ لقربہ الی الفناء او لانّہ فنیتْ قوّتہ “ یعنی شیخِ فانی کو فانی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ فناء کے بہت قریب ہو تا ہے یا اس لیے کہ اس کی قوت ختم ہو چکی ہوتی ہے ۔ (فتح باب العنایة بشرح النقایة کتاب الصوم فصل فيما یفسد الصوم و فيما لا یفسدہ جلد ۱ صفحہ ۵۸۲،چشتی)
کسی بیماری میں مبتلا ہونا بھی روزے چھوڑنے کا عذر نہیں بہت سے شوگر و گردے کے مرض والے بھی روزہ رکھتے ہیں ،ہاں البتہ مرض اتنا شدید ہے کہ روزہ رکھنا اس کےلیے ضرر کا باعث ہے توتاحصولِ صحت اسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے اور اس کے بدلے اگر مسکین کو کھانا دے تو مستحب ہےتاہم یہ کھانا اس کے روزے کا بدلہ نہیں ہوگا بلکہ صحت پر ان روزوں کی قضا لازم ہے ۔ ہاں البتہ اگر اسی مرض ہی کی حالت میں بڑھاپے کی عمر میں پہنچ گیا اوراس بڑھاپے کی وجہ سے فی الحال یا آئندہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رہے تو ایسا شخص شیخِ فانی ہے ،اب اس صورت میں قضا شدہ روزوں کا فدیہ ادا کرے اور ہر ایک روزہ کا فدیہ صدقۂ فطر کی مقدار کے برابر ہے اور ایک صدقۂ فطر کی مقدار تقریباً 1920 گرام (یعنی دو کلو میں اَسّی گرام کم) گندم ، آٹا یااس کی رقم ہے ۔ اور اگر شیخِ فانی کی تعریف میں داخل نہ ہوا تو ورثاء کو قضاء شدہ روزوں کے بدلے میں فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرے ۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت مجدّدِ دین و ملت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں : بعض جاہلوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کےلیے جائز ہے جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو ، ایسا ہر گز نہیں ، فدیہ صرف شیخِ فانی کےلیے رکھا ہے جو بہ سبب پیرانہ سالی حقیقۃً روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو ، نہ آئندہ طاقت کی امید کہ عمرجتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گا اُس کےلیے فدیہ کا حکم ہے اور جو شخص روزہ خود رکھ سکتا ہو اور ایسا مریض نہیں جس کے مرض کو روزہ مضر ہو ، اس پر خود روزہ رکھنا فرض ہے اگرچہ تکلیف ہو ،بھوک پیاس گرمی خشکی کی تکلیف تو گویا لازمِ روزہ ہے اور اسی حکمت کےلیے روزہ کا حکم فرمایا گیا ہے ، اس کے ڈر سے اگر روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہو تو مَعَاذَ اللہ عزوجل روزے کا حکم ہی بیکار و معطل ہو جائے ۔ (فتاوی رضویہ باب الفدیۃ جلد ۱۰ صفحہ ۵۲۱،چشتی)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں : جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفارہ دینے کی اجازت نہیں بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں ، اگر قبلِ شفا موت آجائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں ، غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں ، نہ لگاتار نہ متفرق اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہو ، جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کردیا کہ روزے متفرق کر کے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے ۔ (فتاوی رضویہ باب الفدیۃ جلد ۱۰ صفحہ ۵۴۷)
ایسے مریض کےلیے فدیہ مستحب ہونے کی صورت بیان کرتے ہوئے امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر واقعی کسی ایسے مرض میں مبتلاہے جسے روزہ سے ضرر پہنچتا ہے تو تاحصولِ صحت اُسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے اُس کے بدلے اگر مسکین کو کھا ناد ے تو مستحب ہے ثواب ہے جبکہ اُسے روزہ کا بدلہ نہ سمجھے اور سچے دل سے نیت رکھے کہ جب صحت پائے گا جتنے روزے قضا ہوئے ہیں ادا کرے گا ۔ (فتاوی رضویہ باب الفدیۃ جلد ۱۰ صفحہ ۵۲۱،چشتی)
اگر کسی شخص کےلیے روزہ رکھنا اگر باعثِ ضرر نہیں اگرچہ صحت مند کے مقابلے میں تھوڑی مشقت زیادہ ہوتی ہو ، تو ایسی صورت میں رمضان کے روزےرکھنا فرض اور چھوڑ دینے کی صورت میں شدید گناہ اور ان کی قضاء کرنا لازم ہو گا ۔ اور اگر روزہ باعثِ ضرر ہے تو فی الحال روزے ترک کر کے بیماری چلے جانے کی صورت میں ان روزوں کو قضاء کرنا لازم ہو گا ان کے بدلے میں فدیہ دینے سے فدیہ ادا نہ ہو گا ۔ اگر تو یہ مرض اس قدر شدت اختیار کر چکے ہیں کہ روزہ رکھنا شدید تکلیف کا باعث ہو یا ذاتی تجربہ سے یہ ثابت ہو کہ روزہ رکھنے سے بیماری بڑھ جاتی ہے یا شریعت کی پاسداری کرنے والے کسی ماہر ڈاکٹر نے روزہ نہ رکھنے کو بتا یا ہو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے لیکن صحت یا بی کے بعد جو روزے چھوڑے ہیں ان کی قضاء کرنی اس پر لازم ہے ان کا فدیہ دینا درست نہیں ۔ اور اگر مرض ایسا ہے کہ دن بدن بڑھ رہا ہے یا مرض کے کم ہونے کہ اب امید نہیں جیسا کہ بلڈ پریشر یا شوگر کا مرض کہ ماہرین کے مطابق یہ بیماریاں جاتی نہیں ہیں ۔ تو اگر کسی کو یہ مرض لاحق ہو اور مرض کی شدت کی وجہ سے روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو اور آئندہ تندرست ہونے کا غالب گمان بھی نہیں تو شریعت نے انہیں رخصت دی ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے فدیہ ایک صدقہ فطر دو کلو گندم کی رقم کسی شرعی فقیر کو دے دیں ۔ اور اگر یہ مرض زیادہ شدت کے نہ ہوتو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں اسی طرح مرض ایسا ہے کہ گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتے مگر سردیوں میں روزے رکھ سکتے ہیں تب بھی فدیہ دینا درست نہیں بلکہ جن دنوں میں روزے رکھنے کی قوت ہو ان دنوں میں روزہ رکھے ۔
خلاصہ یہ کہ روزے چھوڑنے پرفدیہ اس وقت دیا جاتا ہے جب بڑھاپے یا کسی مرض کی وجہ روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو یا بیماری بڑھنے کا غالب گمان ہو اورمستقبل میں روزہ رکھنے کی طاقت و قوت کا بظاہر کوئی امکان بھی نہ ہو ۔ اور اگر آئندہ دنوں میں روزہ رکھنے کی قوت کا امکان ہو تو فدیہ دینا درست نہیں اسی طرح اگر کسی بوڑھے یا مریض نے بعذر فدیہ دیا بعد کو روزہ رکھنے کی طاقت آجائے تو اب ان روزوں کی قضاء اس پر لازم ہے اور جو فدیہ دیا تھا وہ صدقہ نفلی ہو جائے گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment