Saturday 16 March 2024

غزوہ بدر الکبریٰ حقائق و دلائل کی روشنی میں

0 comments
غزوہ بدر الکبریٰ حقائق و دلائل کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : غزوہ بدر تاریخ اسلام کا وہ معرکہ ہے جب اسلام وکفر ، حق و باطل کی پہلی ٹکر ہوئی ، اس معرکہ میں فرزندانِ اسلام کی تعدادکفار کے مقابلے میں ایک تہائی تھی ، بے سروسامانی کا عالم تھا جبکہ باطل ، حق کامقابلہ کرنے کےلیے بڑے کرّوفر اور غرورورعونت کیساتھ میدان میں اترا لیکن اسے ایسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کہ پھر کبھی بھی اسے حق کو اس شان سے للکارنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ مؤرخین اسے غزوہ بدر الکبریٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ قرآن عظیم میں یوم الفرقان کے لقب کیساتھ ذکر کیا گیا ہے یعنی وہ دن جب حق اور باطل کے درمیان فرق اس طور پر واضح ہواکہ اندھوں اور بہروں کو بھی پتہ چل گیا کہ حق کا دعویدار کون ہے اور باطل کا محب کون ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وما انزلناعلی عبدنایوم الفرقان یوم التقیٰ الجمعٰن ۔ (سورہ الانفال:۱۴)
ترجمہ : اور جیسے ہم نے اتارا اپنے بندے پر فیصلے کے دن جس روز دولشکر آمنے سامنے ہوئے تھے ۔

نبی کریم کرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تین سوتیرہ افراد کولے کرقریش کے تجارتی قافلے کو روکنے کےلیے نکلے جوکہ شام سے ابو سفیان کی سربراہی میں واپس آ رہا تھا ، ابوسفیان نے جب مسلمانوں سے خطرہ محسوس کیا تو قبیلہ غفار کے ایک شخص ضمضم کو اجرت دے مکہ بھیجا کہ وہ قریش کو اس معاملے کی خبر دے اور انہیں کہے کہ اگر تم قافلے کی سلامتی چاہتے ہو تو جلدی مدد کےلیے آؤ ، چنانچہ ابو جہل نے جب یہ سنا تو بڑے کروفر رعب و دعب کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کےلیے لشکر جرار کیساتھ اس انداز میں نکلا کہ اس کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ : ومعھم القیان وھن الاماء المغنیات یضربن بالدفوف یغنّین بھجاء المسلمین ۔ السیرۃ النبویۃ لابن کثیرج۲ ص۷۸۲،چشتی)(السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۲ص۲)
ترجمہ : ان کیساتھ رقص کرنے والی کنیزیں تھیں وہ دفیں بجارہی تھیں انہیں جوش دلانے کےلیے گارہی تھیں اور مسلمانوں کی ہجو میں اشعار پڑھ رہی تھیں ۔

ابوسفیان تو راستہ بدل کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور ابوجہل کی طرف پیغام بھیجا کہ اب مدد کی کوئی ضرورت نہیں لیکن لعین ابو جہل (علیہ ماعلیہ) نے لشکر کشی پر اصرار کیا اور مقابلہ کرنے کیلئے سردارانِ قریش کو لے کر میدان میں اترا ، مسلمانوں کے اس قلیل لشکر نے ایک ہزار کفار کا مقابلہ دلیری سے کیا اور اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد فرما کر انہیں عظیم کامیابی عطافرمائی اور مسلمانوں کا رعب ودبدبہ ہمیشہ کےلیے ان پر مسلط کردیا ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 123)
ترجمہ : اور بے شک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سرو سامان تھے تو اللہ سے ڈرو کہ کہیں تم شکر گزار ہو ۔

یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے عظیم احسان کو بیان فرما رہا ہے کہ غزوۂ بدر میں جب مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اوران کے پاس ہتھیاروں اور سواروں کی بھی کمی تھی جبکہ کفار تعداد اور جنگی قوت میں مسلمانوں سے کئی گناہ زیادہ تھے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفار پر فتح و کامرانی عطا فرمائی ۔ جنگ بدر 17 رمضان 2 ہجری میں جمعہ کے دن ہوئی ۔ مسلمان 313 تھے جبکہ کفار تقریباً ایک ہزار ۔ بدر ایک کنواں ہے جو ایک شخص بدر بن عامر نے کھودا تھا ، اس کے نام پر اس علاقے کا نام ’’بدر‘‘ ہوگیا ۔ (یہ علاقہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے) ۔ (تفسیر صاوی، اٰل عمران الآیۃ: ۱۲۳، ۱/۳۱۰،چشتی)

اس آیتِ مبارکہ سے اہلسنّت کا ایک عظیم عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ جنگِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کیلئے فرشتے نازل ہوئے جیسا کہ اگلی آیتوں میں موجود ہے ، جنگ میں فرشتے لڑے ، انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی لیکن ان کی مدد کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے جب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مدد فرماتے ہیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی مدد ہوتی ہے ۔ لہٰذا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ جو مدد فرمائیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد قرار پائے گی اور اسے کفر و شرک نہیں کہا جائے گا ۔

اِذْ تَقُوۡلُ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکْفِیَکُمْ اَنۡ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ ، بَلٰۤیۙ اِنۡ تَصْبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا وَیَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوْرِہِمْ ہٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمۡ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ ۔ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 124 ، 125)
ترجمہ : جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتے اتار کر۔ ہا ں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا ۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حوصلہ دیتے ہوئے اور ان کی ہمت بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’ تم اپنی ہمت بلند رکھو ، کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ۔ اس کے بعد فرمان ہے کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اگرتم صبر و تقویٰ اختیار کرو او راس وقت دشمن تم پر حملہ آور ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار ممتاز فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔ یہ ایک غیبی خبر تھی جو بعد میں پوری ہوئی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے صبر و تقویٰ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا جنہوں نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کی ۔

(1) بدر میں شرکت کرنے والے تمام مہاجرین و انصار صابر اور متقی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد اتارنے کےلیے صبر اور تقویٰ کی شرط رکھی تھی اور چونکہ فرشتے بعد میں نازل ہوئے تو اس سے معلوم ہوا کہ شرط پائی گئی تھی ، یعنی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے صبر و تقویٰ کا مظاہرہ کیا تھا ، لہٰذا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے صبر اور تقویٰ پر قرآن گواہ ہے ۔

(2) بدر میں تشریف لانے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ نے ان پر خاص نشان لگا دیے تھے جن سے وہ دوسروں سے ممتا ز ہوگئے اور احادیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے کہ بدر میں اترنے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں ۔

(3) نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی خدمت اور مجاہدین کی مدد اعلیٰ عبادت ہے کہ یہ فرشتے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مدد کےلیے نازل ہوئے اور دوسرے فرشتوں سے افضل قرار پائے ۔ لہٰذا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تمام مسلمانوں سے افضل ہیں کہ یہ وہ خوش نصیب حضرات ہیں جنہیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی خدمت نصیب ہوئی۔ حدیث میں ہے’’ اللہ تعالیٰ نے اصحابِ بدر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں فرمایا ’’تم جو چاہے عمل کرو تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے ۔ (بخاری کتاب المغازی باب فضل من شہد بدراً، ۳/۱۲، الحدیث: ۳۹۸۳،چشتی)

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’غزوۂ بدر کے دن حضرت حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ مجھے حارثہ کتنا پیارا تھا ، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر خدانخواستہ معاملہ برعکس ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تجھ پر افسوس ہے ، کیا تو پگلی ہو گئی ہے ؟ کیا خدا کی ایک ہی جنت ہے ؟ اس کی جنتیں تو بہت ساری ہیں اور بے شک حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت الفردوس میں ہے ۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدراً، ۳/۱۲، الحدیث: ۳۹۸۲،چشتی)

اس سے پہلی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے جنگ احد کا واقعہ بیان کیا تھا اور اب ان آیتوں میں جنگ بدر کا تذکرہ فرما رہا ہے ‘ کیونکہ جنگ بدر میں مسلمان نہایت بےسروسامانی کی حالت میں تھے اور کفار بہت تیاری اور اسلحہ کی فراوانی کے ساتھ آئے تھے ‘ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مشرکوں پر غالب کردیا ‘ اور یہ اس بات کی قومی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر توکل نہیں کرنا چاہیے ‘ اور نہ اس کے سوا اور کسی سے مدد طلب کرنی چاہیے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اس آیت کو موکد کیا جائے کہ اگر تم اللہ کے احکام (کی اطاعت) پر صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو کافروں کا مکرو و فریب تمہیں بالکل ضرر نہیں پہنچا سکتا ‘ نیز اس بات کو موکد کرنا ہے کہ مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے ۔

مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی کا نام بدر ہے ‘ شعبی نے کہا یہاں ایک کنواں تھا جس کا نام بدر تھا کیونکہ اس کے مالک کا نام بدر تھا ‘ پھر مالک کے نام سے وہ کنواں مشہور ہو گیا ۔

علامہ ابوعبداللہ یاقوت بن عبداللہ حموی متوفی ٦٢٦ ھ لکھتے ہیں : بدر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا ‘ بدر مدینہ منورہ سے تقریبا اسی میل کی مسافت پر واقع ہے ‘ بدر کا لغوی معنی ہے بھرنا ‘ چودھویں رات کے چاند کو بدر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھرا ہوا اور مکمل ہوتا ہے ‘ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی میں مشہور کنواں ہے جس کو بدر کہتے ہیں ۔ (معجم البلدان ج ١ ص ٣٥٦‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٣٩٩ ھ)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی درآں حالیکہ تم ذلیل تھے اور ایک اور جگہ فرمایا ہے : وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ۔ (سورہ المنافقون : ٨)
ترجمہ : اللہ ہی کے لیے عزت (غلبہ) ہے اور اس کے رسول کےلیے اور مومنین کےلیے ۔

اس آیت میں مسلمانوں کےلیے ذلت کا لفظ استعمال فرمایا اور سورة منافقون میں عزت کا لفظ استعمال فرمایا اور یہ بظاہر تعارض ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں ذلت سے مراد مادی ضعف ہے اور سورة منافقون میں اس سے مراد ہے اللہ کی نظر میں معزز ہونا ‘ یا دلائل اور معقولیت کے لحاظ سے مسلمانوں کے دین کا باقی ادیان پر غالب آنا ‘ یا اللہ اور اس کی اطاعت کی شرط پر دنیا میں بھی مادی غلبہ پانا اور سرفرازی حاصل کرنا۔ جنگ بدر میں مسلمان مادی طور پر ضعیف تھے کیونکہ ان کی تعداد تین سو تیرہ نفوس قدسیہ تھی اور کفار نو سو پچاس تھے۔ ان کے پاس صرف دو گھوڑے اسی اونٹ تھے اور کفار کے پاس سو گھوڑے ‘ بہ کثرت اونٹ اور وافر مقدار میں اسلحہ تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کفار کی نظروں میں مسلمان ضعیف تھے یا مسلمانوں نے مکہ میں کفار کی جو قوت اور شوکت دیکھی تھی اس کے مقابلہ میں وہ خود کو ضعیف اور کمزور خیال کرتے تھے ۔

آج بھی مسلمان مادی طور پر ضعیف اور مغلوب ہیں اور ان کے مقابلہ میں کفار مادی طور پر قوی اور غالب ہیں ‘ لیکن مسلمانوں کو اس لحاظ سے غلبہ حاصل ہے کہ ان کی کتاب اپنے اصل متن کے ساتھ من وعن محفوظ ہے ‘ جب کہ تورات اور انجیل جس زبان میں نازل ہوئیں تھیں اس زبان میں وہ کتاب آج کہیں بھی موجود نہیں ہے ‘ قرآن مجید میں کسی ایک لفظ کی تبدیلی یا کمی اور بیشی نہیں ہوئی ‘ جب کہ تورات اور انجیل محرف ہوچکی ہیں ‘ متن قرآن کے ہزاروں بلکہ لاکھوں حافظ موجود ہیں جب کہ تورات اور انجیل کا کوئی ایک حافظ دنیا میں کبھی بھی نہیں پایا گیا ‘ قرآن کا چیلنج ہے کہ اس کی کسی ایک سورت کی مثل کوئی بنا کر نہیں لا سکتا ‘ اور آج تک کوئی اس چیلنج کو نہیں توڑ سکا ‘ مسلمانوں کے نبی کی پیدائش سے لے کر وفات تک مکمل سیرت مستند مآخذ کے ساتھ مکمل محفوظ ہے ‘ جب کہ اور کسی نبی کی مکمل سیرت پوری سند کے ساتھ موجود نہیں ہے ‘ مسلمانوں کے نبی کے تمام ارشادات (احادیث مبارکہ) اسانید کے ساتھ موجود ہیں اور کتاب کی تعلیم اور دین کی ہدایت کے متعلق آپ نے جو کچھ بھی فرمایا وہ محفوظ کرلیا گیا اور سینوں سے صحیفوں میں منتقل ہو کر دنیا میں آج تک موجود ہے اور وہی دین پر اتھارٹی ہے ‘ جب کہ اور کسی نبی کے ارشادات اس طرح محفوظ نہیں کیے گئے ‘ نہ ان کو دین میں حجت تسلیم کیا گیا ‘ قرآن اور حدیث کی پیش گوئیاں اپنے صدق کو ہر زمانہ میں منواتی رہی ہیں مثلا روم کا ایرانیوں پر غالب آنا ‘ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی فرعون کے جسد کا قرآن مجید کی پیش گوئی کے مطابق آج تک سلامت رہنا قرآن، مجید کی کسی سورت کی مثال نہ لا سکنا ‘ اس میں کمی بیشی اور تغیر نہ ہونا ‘ قرآن مجید نے معیشت کا جو نظام پیش کیا ہے اس کے مقابلہ میں تمام معاشی نظاموں کا ناقص ہونا ‘ یہ چند مثالیں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان اپنی بےعملی اور بد عملی کی وجہ سے خواہ مادی طور پر ضعیف اور مغلوب ہوں لیکن ان کا دین تمام ادیان پر غالب ہے : ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا ۔ (سورہ الفتح : ٢٨)
ترجمہ : (اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے ۔

باقی مسلمانوں کے ضعف اور مغلوبیت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے اجتماعی طور پر انحراف کیا الا ماشاء اللہ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا وہ باعث عار سمجھنے لگے ‘ اور مغربی تہذیب اپنانے کو باعث فخر سمجھنے لگے ‘ وہ موسیقی اور راگ ورنگ میں ڈوب گئے اور مسلمان آپس میں افتراق اور انتشار کا شکار ہو گئے ۔

سائنسی علوم اور عسکری تربیت حاصل کرنے کے بجائے تعیشات اور تن آسانیوں میں مبتلا ہوگئے مضاربت کے اصول پر تجارت کرنے کے بجائے سودی کاروبار اور جوئے اور سٹے کو اپنایا نتیجے کے طور پر وہ معاشرتی بدحالی کا شکار ہوئے اور اپنے وطن کے دفاع اور اس کی حفاظت کے قابل نہ رہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم ۔ (سورہ الانفال : ٤٦)
ترجمہ : اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔

ولا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ۔ (سورہ ال عمران : ١٣٩)
ترجمہ : اور سستی نہ کرو اور غم نہ کرو ‘ اور تم میں ہی غالب رہو گے بشرطیکہ تم ایمان کامل پر قائم رہو ۔

علامہ اقبال کہتے ہیں :

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول طاؤس ورباب آخر

تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (اے رسول مکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) یاد کیجئے جب آپ مومنوں سے فرما رہے تھے کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار نازل کیے ہوئے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے ؟ ہاں کیوں نہیں ! اگر تم ثابت قدم رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو جس آن دشمن تم پر چڑھائی کریں گے اسی آن اللہ (تین ہزار کے بجائے) پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ اور اللہ نے اس (فرشتوں کے نازل کرنے) کو محض تمہیں خوشخبری دینے کے لیے کیا ہے اور تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن رہیں اور (درحقیقت) مدد تو صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جو بہت غالب اور بڑی حکمت والا ہے ۔ (اور اس مدد کا باعث یہ ہے کہ) تاکہ اللہ کافروں کے ایک گروہ کو (جڑ سے) کاٹ دے یا انہیں (شکست خوردہ کرکے) رسوا کرے تاکہ وہ نامراد ہو کر لوٹ جائیں ۔

سورة انفال میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتے نازل کرنے کا ذکر فرمایا ہے : اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملآئکۃ مردفین ۔ (سورہ الانفال : ٩)
ترجمہ : جب تم اپنے رب سے فرماد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری (فریاد) سن لی ‘ کہ میں ایک ہزار پہنچایا ‘ وہ شرطیں یہ ہیں تم صبر کرو ‘ اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اور دشمن تم پر اچانک یک بارگی ہلہ بول دے ‘ چونکہ دشمن نے اچانک یک بارگی حملہ نہیں کیا تھا پانچ ہزار فرشتوں کا نزول نہیں ہوا ۔

اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ فرشتوں کا نزول جنگ بدر میں ہوا تھا ‘ یا جنگ احد میں جنگ احزاب میں جب وقت مسلمانوں نے بنوقریظہ محاصرہ کیا تھا ‘ جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ فرشتوں کا نزول جنگ بدر میں ہوا تھا ۔

قرآن مجید میں کی مذکور الصدر آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں کا نزول مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے کےلیے ہوا تھا اور اس کو فتح اور نصرت کی بشارت دینے کے لیے قرآن مجید میں یہ مذکور نہیں ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں نے قتال بھی کیا تھا ‘ البتہ بعض احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں نے جنگ بدر میں قتال بھی کیا تھا ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جنگ بدر کے دن فرمایا یہ جبرئیل ہیں جنہوں نے گھوڑے کے سر کو پکڑا ہوا ہے اور ان پر جنگی ہتھیار ہیں ۔ (صحیح بخاری ج ٣ ص ‘ ٥٧٠ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ،چشتی)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن ایک مسلمان ایک مشرک کے پیچھے دوڑ رہا تھا ‘ جو اس سے آگے تھا ‘ اتنے میں اس نے اپنے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز سنی اور ایک گھوڑے سوار کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا ” اے حیزوم آگے بڑھ “ (حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر اچانک اس نے دیکھا کہ وہ مشرک اس کے سامنے چت گرپڑا اس مسلمان نے اس مشرک کی طرف دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ تھی اور اس کا چہرہ اس طرح پھٹ گیا تھا جیسے کوڑا لگاہو اور اس کا پورا جسم نیلا پڑگیا تھا ‘ اس انصاری نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ تیسرے آسمان سے مدد آئی تھی ۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ‘ ٩٣ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

امام محمد بن عمر بن واقد اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں : معاذ بن رفاعہ بن رافع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ فرشتوں کی علامت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے عماموں کے شملوں کو اپنے کندھوں کے درمیان لٹکایا ہوا تھا ان کے عماموں کا رنگ سبز ‘ زرد اور سرخ تھا ‘ اور ان کے گھوڑوں کی پیشانیوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں ۔

ابو رہم غفاری اپنے ابن عم سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا عم زاد بدر کے کنوئیں پر کھڑے ہوئے تھے ‘ جب ہم نے دیکھا کہ (سیدنا) محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے اصحاب کے لشکر پر حملہ کریں گے ‘ پھر ہم (سیدنا) محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے اصحاب کی بائیں جانب چلے گئے ‘ اور ہم کہہ رہے تھے کہ یہ تو قریش کے لشکر کا چوتھائی ہیں ‘ جس وقت ہم مسلمانوں کے لشکر کے بائیں جانب جارہے تھے تو ایک بادل نے آکر ہم کو ڈھانپ لیا ‘ ہم نے اس بادل کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو ہمیں مردوں اور ہتھیاروں کی آوازیں سنائی دیں ‘ اور ہم نے سنا ایک شخص اپنے گھوڑے سے کہہ رہا تھا ” حیزوم آگے بڑھو “ اور ہم نے سنا وہ کہہ رہے تھے ٹھیرو ‘ پیچھے سے آؤ‘ پھر وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دائیں جانب اترے ‘ پھر ان کی طرح ایک اور جماعت آئی ‘ اور وہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھی ‘ پھر جب ہم نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب کی طرف دیکھا تو وہ قریش سے دگنے نظر آئے ‘ میرا عم زاد فوت ہوگیا ‘ اور میں نے اسلام قبول کرلیا ۔

سائب بن ابی حبیش اسدی ‘ حضرت عمر بن الخطاب کے زمانہ میں بیان کر رہے تھے کہ بہ خدا مجھے کسی انسان نے گرفتار نہیں کیا تھا ‘ ان سے پوچھا پھر کس نے گرفتار کیا تھا ؟ انہوں نے کہا جب قریش نے شکست کھائی تو میں نے بھی ان کے شکست کھائی ‘ مجھے سفید رنگ کے ایک طویل القامت شخص نے گرفتار کیا جو آسمان اور زمین کے درمیان ایک چتکبرے گھوڑے پر سوار ہو کر آرہا تھا ‘ اس نے مجھے رسیوں سے باندھ دیا ‘ حضرت عبدالرحمان بن عوف آئے تو انہوں نے مجھے بندھا ہوا پایا ‘ حضرت عبدالرحمن لشکر میں اعلان کر رہے تھے کہ اس شخص کو کس نے گرفتار کیا ہے ؟ تو کسی شخص نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ اس نے مجھے گرفتار کیا ہے حتی کہ مجھے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس لے جایا گیا ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مجھ سے پوچھا اے ابن ابی حبیش ! تم کو کس نے گرفتار کیا ہے ؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا ‘ اور میں نہیں جانتا ‘ اور میں نے جو کچھ دیکھا تھا اس کو بتلانا نا پسند کیا ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا اس کو فرشتوں میں سے ایک کریم فرشتے نے گرفتار کیا ہے ‘ اے ابن عوف اپنے قیدی کو لے جاؤ ! تو حضرت عبدالرحمان مجھے لے گئے ‘ سائب نے کہا میں نے ایک عرصہ تک اس بات کو مخفی رکھا اور اپنے اسلام قبول کرنے کو موخر کرتا رہا بالآخر میں مسلمان ہو گیا ۔

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں (یہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے) میں نے اس دن دیکھا آسمان ایک سیاہ چادر سے ڈھکا ہوا ہے اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آسمان سے کوئی چیز آرہی ہے جس سے (سیدنا) محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تائید کی گئی ہے ‘ اور اس وجہ سے شکست ہوئی اور یہ فرشتے تھے ۔

امام واقدی بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ ہورہی تھی تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہاتھ اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ سے فتح کی دعائیں کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے : ” اے اللہ ! اپنا وعدہ پورا فرما “ اور کہہ رہے تھے : ” اے اللہ ! اگر آج یہ جماعت مغلوب ہوگئی تو پھر شرک غالب ہوجائے گا اور تیرا دین قائم نہیں ہو سکے گا ‘ اور حضرت ابوبکر (رض) آپ سے کہہ رہے تھے کہ بخدا ! اللہ آپ کی مدد فرمائے گا اور آپ کو سرخرو کرے گا ‘ پھر اللہ عزوجل نے دشمن کی جانب ایک ہزار لگا تار فرشتے نازل کیے ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے ابوبکر خوشخبری ہو ! یہ جبرائیل ہیں جو زرد عمامہ باندھے ہوئے ہیں ‘ ان کے دانتوں پر غبار ہے وہ آسمان اور زمین کے درمیان اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے آرہے ہیں ‘ جب وہ زمین پر اترے تو ایک ساعت کے لیے مجھ سے غائب ہوگئے ‘ پھر ظاہر ہوئے اور کہہ رہے تھے کہ جب آپ نے مدد طلب کی تو اللہ کی مدد آگئی ۔

امام واقدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی مٹھی میں کنکریاں لیں اور یہ کہہ کر کفار کی طرف پھینکیں کہ ان کے چہرے بگڑ جائیں ‘ اے اللہ ! ان کے دلوں پر رعب طاری کر ! اور ان کے قدم اکھاڑ دے ‘ پھر اللہ تعالیٰ کے دشمن شکست کھا گئے اور مسلمان قتل کر رہے تھے اور کفار کو قید کر رہے تھے اور مشرکوں کے چہرے اور ان کی آنکھیں خاک میں اٹی ہوئی تھیں اور ان کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ یہ خاک کہاں سے آئی اور مومنین اور فرشتے ان کو قتل کر رہے تھے ۔ (کتاب المغازی ج ١ ص ٨١۔ ٧٥‘ مطبوعہ عالم الکتب بیروت ‘ الطبعۃ الثالثہ)

امام بیہقی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ جنگ بدر کے دن حاضر تھے ‘ انہوں نے اپنی بینائی چلے جانے کے بعد کہا اگر میں تمہارے ساتھ اس وقت بدر میں ہوتا اور میں بینا بھی ہوتا تو میں تمہیں وہ گھاٹی دکھاتا جہاں سے فرشتے نکلے تھے ۔ (دلائل النبوۃ ج ٣ ص ٨١‘ جامع البیان ج ٤ ص ٥٠‘ سیرت ابن ہشام ج ٢ ص ٢٧٤،چشتی)

امام ابن جوزی لکھتے ہیں : حضرت ابو داؤد مازنی نے کہا میں جنگ بدر کے دن مشرکین میں سے ایک شخص کا پیچھا کر رہا تھا تاکہ میں اس کو قتل کروں سو میرے تلوار مارنے سے پہلے ہی اس کا سر کٹ کر گرگیا تو میں نے جان لیا کہ میرے علاوہ کسی اور نے اس کو قتل کیا ہے ۔ (زادالمسیر ج ١ ص ٤٥٣۔ ٤٥٢‘ سیرت ابن ہشام ج ١ ص ٦٣٣‘ جامع البیان ج ٤ ص ٥٠)

امام ابن جریر طبری روایت کرتے ہیں : عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے بعد ابوسفیان مکہ کے لوگوں میں جنگ کے احوال بیان کر رہا تھا ‘ اس نے کہا ہم نے زمین اور آسمان کے درمیان سفید رنگ کے سوار دیکھے جو چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے وہ ہم کو قتل کر رہے تھے اور ہم کو قید کر رہے تھے ‘ ابو رافع نے کہا وہ فرشتے تھے ۔

مقسم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جس شخص نے عباس کو گرفتار کیا وہ حضرت ابو الیسر تھے ‘ حضرت ابوالیسر دبلے پتلے آدمی تھے اور عباس بہت جسیم تھے ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو الیسر سے پوچھا تم نے عباس پر کیسے قابو پایا ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک شخص نے میری مدد کی تھی میں نے اس کو اس سے پہلے دیکھا تھا نہ اس کے بعد دیکھا ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ایک معزز فرشتے نے تمہاری مدد کی تھی ۔

مقسم بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا یوم بدر کے سوا ملائکہ نے کسی دن بھی قتال نہیں کیا ‘ باقی ایام میں وہ عددی قوت اور مدد کےلیے آتے تھے قتال نہیں کرتے تھے ۔

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جب تک اللہ نے چاہا قریظہ اور نضیر کا محاصرہ کرتے رہے ‘ اور ہم کو فتح حاصل نہیں ہوئی ‘ پھر ہم واپس آگئے ‘ سو جس وقت رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنے گھر میں اپنا سر دھو رہے تھے ‘ اچانک آپ کے پاس جبریل آئے اور کہا اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آپ نے اپنا اسلحہ اتار دیا ‘ اور فرشتوں نے ابھی اپنے ہتھیار نہیں اتارے ‘ پھر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ایک کپڑا منگایا اور اس کو سر پر لپیٹا اور سر نہیں دھویا ‘ پھر آپ نے ہمیں بلایا ہم سب آپ کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ہم قریظہ اور نضیر کے پاس پہنچے ‘ اس دن اللہ تعالیٰ نے ہماری تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی اور ہم اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ واپس آئے ۔ (جامع البیان جز ٤‘ ص ٥٢۔ ٥٠)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غزوہ خندق سے واپس آئے تو آپ نے ہتھیار اتار دیے اور غسل فرمایا ‘ آپ کے پاس جبرائیل آئے اور کہا آپ نے ہتھیار اتار دیے ‘ بہ خدا ہم نے ابھی ہتھیار نہیں اتارے ‘ اپ ان کی طرف نکلئے ‘ آپ نے پوچھا کس طرف ؟ جبرائیل نے کہا ادھر اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا سو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کی طرف روانہ ہوئے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں جبرائیل کے چلنے سے بنو غنم کی گلیوں میں غبار بلند ہو رہا تھا ‘ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بنو قریظہ کی طرف روانہ ہو رہے تھے ‘ ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٥٩١۔ ٥٩٠ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

فرشتوں کے قتال کے متعلق جس قدر اہم روایات ہم کو دستیاب ہوئیں ہم نے ان سب کو یہاں ذکر کردیا ہے۔ رہا فرشتوں کی مدد کا معاملہ تو کئی غزوات میں فرشتے مسلمانوں کی مدد کی لیے نازل ہوئے ‘ لیکن فرشتوں کا نزول ان کے جنگ کرنے کو مستلزم نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی عددی قوت بڑھانے کےلیے ‘ ان کی دلجمعی کے لیے ‘ ان کو مطمئن کرنے کے لیے ‘ جنگ میں ان کو ثابت قدم رکھنے لیے ‘ دشمنوں پر رعب طاری کرنے کے لیے اور ان کو فتح اور نصرت کی بشارت دینے کے لیے فرشتوں کا نزول ہوا تھا ‘ انہوں نے کفار کے خلاف جنگ میں عملا حصہ نہیں لیاکیون کہ انسانوں کا فرشتوں سے مقابلہ کرانا اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کی حکمت کے خلاف ہے ‘ مقابلہ ایک جنس کے افراد میں ہوا کرتا ہے ‘ جن روایات میں یہ ذکر ہے کہ فرشتوں نے کفار سے قتال کیا تھا ان میں سے بعض سندا ضعیف ہیں اور بعض میں تاویل اور توجیہ ہے ‘ اس سلسلہ میں ہم پہلے اس مسئلہ میں مفسرین کی آراء اور مکمل تحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے :

امام محمد ابن جریرطبری متوفی ٣١٠ ھ لکھتے ہیں : ان آیات کی تفسیر میں صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف سے یہ خبر دی کہ آپ نے مسلمانوں سے یہ فرمایا کہ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تمہاری تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کرے ‘ سو اللہ تعالیٰ نے تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ان کی مدد کا وعدہ فرما لیا ‘ پھر ان سے پانچ ہزار فرشتوں کی مدد کا وعدہ فرمالیا بشرطیکہ وہ دشمن کے مقابلہ میں صبر کریں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں ‘ اور ان آیتوں میں اس پر دلیل نہیں ہے کہ ان کی تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی اور نہ اس پر دلیل ہے کہ ان کی پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی ‘ اور نہ اس پر دلیل ہے کہ ان کی مدد کی گئی تھی اور نہ اس پر دلیل ہے کہ ان کی پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی ‘ اور نہ اس پر دلیل ہے کہ ان کی مدد نہیں کی گئی تھی ‘ اس لیے فرشتوں کا مدد کرنا اور نہ کرنا دونوں امر جائز ہیں ‘ اور ہمارے پاس کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی یا پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی ‘ اور بغیر کسی صحیح حدیث کے ان میں سے کسی چیز کا قول کرنا جائز نہیں ہے ‘ البتہ قرآن مجید میں یہ دلیل ضرور ہے کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی اور وہ یہ آیت ہے : اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملآئکۃ مردفین ۔ (سورہ الانفال : ٩)
ترجمہ : جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں تمہاری ایک ہزار لگا تار آنیوالے فرشتوں سے مدد کرنے والا ہوں ۔
البتہ جنگ احد میں مسلمانوں کی فرشتوں سے مدد نہیں کی گئی ورنہ وہ شکست نہ کھاتے ۔ (جامع البیان ج ٤ صفحہ ٥٣ مطبوعہ دار المعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ،چشتی)

امام فخرالدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی متوفی ٦٠٦ لکھتے ہیں : اہل تفسیر اور اہل سیرت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن فرشتوں کو نازل کیا اور انہوں نے کفار سے قتال کیا ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا فرشتوں نے جنگ بدر کے سوا اور کسی دن قتال نہیں کیا اور باقی غزوات میں فرشتے عددی قوت کے اظہار اور مدد کے لیے نازل کیے گئے تھے لیکن انہوں نے عملی طور پر قتال میں کوئی حصہ نہیں لیا ‘ اور یہی جمہور کا قول ہے لیکن ابوبکر اصم نے اس کا بڑی شدت کے ساتھ انکار کیا ہے اور ان کے حسب ذیل دلائل ہیں :
(1) تمام روئے زمین کو تباہ کرنے کے لیے ایک فرشتہ کافی ہے حضرت جبرائیل نے اپنے ایک پر سے مدائن کی سرزمین کو تحت الثری سے لے کر آسمان تک اٹھایا پھر اس زمین کو پلٹ کر پھینک دیا اور قوم لوط تباہ ہوگئی تو پھر جنگ بدر کے دن ان کو کافروں سے لڑنے کی کیا حاجت تھی ؟ پھر ان کے ہوتے ہوئے باقی فرشتوں کی کیا ضرورت تھی ۔
(2) قتل کیے جانے والے تمام بڑے کافر مشہور تھے اور یہ معلوم تھا کہ فلاں کافر کو فلاں صحابی نے قتل کیا ہے تو پھر فرشتوں نے کس کو قتل کیا تھا ۔
(3) اگر فرشتے کفار کو انسانی شکل میں نظر آرہے تھے تو پھر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیرہ سو ایاتین ہزار یا اس سے زائد ہوجائے گی حالانکہ اس پر اجماع ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کافروں سے کم تھی ‘ اور اگر وہ غیر انسانی شکل میں تھے تو کفار پر سخت رعب طاری ہونا چاہیے تھا ‘ حالانکہ یہ منقول نہیں ہے ۔
امام رازی فرماتے ہیں اس قسم کے شبہات وہی شخص پیش کرسکتا ہے جو قرآن مجید اور نبوت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ لیکن جو قرآن مجید اور احادیث پر ایمان رکھتا ہو اس سے اس قسم کے شبہات بہت بعید ہیں ‘ سو ابوبکر اصم کے لائق نہیں ہے کہ وہ فرشتوں کے قتال کرنے کا انکار کرے جب کہ قرآن مجید میں فرشتوں کی مدد کرنے کا ذکر ہے اور فرشتوں کے قتال کرنے کے متعلق جو احادیث ہیں وہ تواتر کے قریب ہیں ‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب قریش جنگ احد سے واپس ہوئے تو وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے تھے کہ اس مرتبہ ہم نے وہ چتکبرے گھوڑے اور سفید پوش انسان نہیں دیکھے جن کو ہم نے جنگ بدر میں دیکھا تھا ‘ ابوبکر اصم کے شبہات کا جب ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے مقابلہ میں جائزہ لیتے ہیں تو وہ زائل ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ اپنے کسی کام پر کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے ۔ (تفسیر کبیر ج ٣ ص ٤٥ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں : حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے جنگ بدر کے دن دیکھا کہ ہم کسی مشرک پر تلوار مارتے اور ہماری تلوار پہنچنے سے پہلے اس کا سردھڑ سے الگ ہوجاتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اذ یوحی ربک الی الملآئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان ۔ (سورہ الانفال : ١٢)
ترجمہ : جب آپ کے رب نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو ‘ عنقریب میں کافروں کے دلوں پر رعب طاری کروں گا ‘ تم کافروں کی گردنوں کے اوپر وار کرو اور کافروں کے ہر جوڑ کے اوپر ضرب لگاؤ ۔

حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن فرشتوں کے ہاتھوں قتل کئے ہوئے کافر الگ پہچانے جاتے تھے۔ ان کی گردنوں کے اوپر تلوار کے وار تھے اور ان کے ہر جوڑ پر ضرب تھی ‘ اور ہر ضرب کی جگہ ایسی تھی جیسے آگ سے جلی ہوئی ہو ‘ امام بیہقی نے ان تمام کافروں کا ذکر کیا ہے ۔ اور بعض علماء نے کہا فرشتے قتل کرتے تھے اور کافروں میں ان کی ضرب کی علامت صاف ظاہر تھی ‘ کیونکہ جس جگہ وہ ضرب لگاتے تھے وہ جگہ آگ سے جل جاتی تھی ‘ حتی کہ ابوجہل نے حضرت ابن مسعود (رض) سے پوچھا کیا تم نے مجھے قتل کیا ہے ؟ مجھے اس شخص نے قتل کیا کہ باوجود میری پوری کوشش کے میرا نیزہ اس کے گھوڑے تک نہیں پہنچ سکا ‘ اور اس قدر زیادہ فرشتے نازل کرنے کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کے دل پر سکون رہیں ‘ اور اس کے لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ان فرشتوں کو مجاہد بنادیا ‘ سو ہر وہ لشکر جو صبر وضبط سے کام لے اور محض ثواب کی نیت سے لڑے فرشتے آکر اس کے ساتھ قتال کرتے ہیں ‘ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد نے کہا کہ جنگ بدر کے سوا اور کسی جنگ میں فرشتوں نے قتال نہیں کیا اور باقی غزوات میں وہ صرف عددی قوت کے اظہار اور مدد کے لیے آتے تھے ‘ اور بعض علماء نے کہا کہ بکثرت فرشتوں کو نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ دعا کریں ‘ تسبیح پڑھیں اور لڑنے والوں کی عدد قوت میں اضافہ کریں ‘ اس قول کی بناء پر فرشتوں نے جنگ بدر میں بھی قتال نہیں کیا وہ صرف دعا کرنے کے لیے اور مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے کے لیے حاضر ہوئے تھے ۔ لیکن پہلی رائے کے قائلین زیادہ ہیں ۔
قتادہ نے کہا پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ جنگ بدر میں مدد کی گئی تھی ‘ حسن نے کہا یہ پانچ ہزار فرشتے قیامت تک مسلمانوں کے مددگار ہیں ‘ شعبی نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو یہ خبر پہنچی تھی کہ کرزبن جابر محاربی مشرکین کی مدد کرنا چاہتا ہے ‘ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں پر یہ خبر شاق گزری تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار نازل کیے ہوئے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے ۔ ہاں کیوں نہیں ! اگر تم ثابت قدم رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو جس آن دشمن تم پر چڑھائی کریں گے اسی آن اللہ (تین ہزار کی بجائے) پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ (آل عمران : ١٢٥۔ ١٢٤)
کرز کو جب مشرکوں کی شکست کی خبر پہنچی تو وہ ان کی مدد کے لیے نہیں آیا اور لوٹ گیا ‘ اور اللہ تعالیٰ نے بھی مدد کے لیے پانچ ہزار فرشتے نہیں بھیجے ‘ اور ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ ان کی مدد کی گئی تھی ‘ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے جنگ بدر کے دن یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت پر ثابت قدم رہیں اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈریں اور بچیں ‘ تو اللہ ان کی تمام جنگوں میں مدد فرمائے گا اور مسلمانوں جنگ خندق کے سوا اور کسی جنگ میں ثابت قدم نہیں رہے اور صرف اسی جنگ میں نافرمانی کرنے سے ڈرے تو جب انہوں نے قریظہ کا محاصرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی (انزال ملائکہ) سے مدد فرمائی ‘ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت جنگ احد کے متعلق ہے کہ اگر وہ اس میں ثابت قدم رہتے ‘ اور نافرمانی نہ کرتے تو پانچ ہزار فرشتوں سے ان کی مدد کی جاتی۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ثابت ہے کہ میں نے جنگ بدر کے دن دو سفید پوش آدمیوں کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دائیں اور بائیں بہت شدت سے قتال کرتے ہوئے دیکھا ‘ اور اس سے پہلے اور اس کے بعد ان آدمیوں کو نہیں دیکھا تھا ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ وعدہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ مخصوص ہو اور عام صحابہ کی فرشتوں کے قتال سے مدد نہ کی گئی ہو ۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٤ ص ١٩٥۔ ١٩٤ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ١٣٨٧ ھ،چشتی)

مفتی محمد عبدہ لکھتے ہیں : فرشتوں کی مدد معنوی تھی جس سے مسلمان ثابت قدم رہے اور ان کے ارادے پختہ ہوئے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اللہ نے ان (فرشتوں کے نازل کرنے) کو محض تمہیں خوش خبری دینے کے لیے کیا ہے اور تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن رہیں اور (درحقیقت) مدد تو صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جو بہت غالب اور بڑی حکمت والا ہے ۔ (آل عمران : ١٢٦) ۔ یعنی تاکہ کفار کے لشکر کی کثرت کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں گھبراہٹ پیدا نہ ہو سو تمہاری تسکین کےلیے اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل کیے ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جو تم سے فرشتوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے وہ محض تمہیں خوشخبری دینے اور تمہاری تسکین کے لیے ہے ‘ کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جو مسلمانوں سے وعدہ فرمایا ہے اس کو نقل فرمایا ہے اور فرشتوں کی مدد کا محمل یہ ہے کہ اس سے دشمن کے دل میں رعب واقع ہوگا اور خوف پیدا ہوگا ‘ اور مسلمان جنگ میں ثابت قدم رہیں گے اور فرشتے ان کو جنگ کے متعلق عمدہ تدبیریں القاء کریں گے چناچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ وادی کے قریب ترین راستے میں اتر گئے تھے ‘ اور آپ نے اس راستہ کو دشمن سے مخفی رکھا اور آپ نے بہت مناسب جگہ لشکر کو ٹھیرایا ‘ اور لشکر کی پشت پہاڑ کی طرف رکھی اور تیراندازوں کو ان کے پیچھے کھڑا کیا ‘اگر ان تدبیروں میں سے کوئی تدبیر بھی بروئے کار نہ لائی جاتی تو مشکل پیش آتی ۔

بعض سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ فرشتوں نے جنگ احد میں لڑائی میں حصہ لیا ‘ امام ابن حجر نے اس کی نفی کی ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ روایت نقل کی ہے کہ فرشتوں نے صرف جنگ بدر میں قتال کیا ہے اور کسی جنگ میں قتال نہیں کیا ‘ ابوبکر اصم نے اس کا بہت شدت سے انکار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ایک فرشتہ ہی تمام روئے زمین کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے اتنے فرشتے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی ‘ نیز ہر کافر کے متعلق معلوم ہے کہ اس کو فلاں صحابی نے قتل کیا ہے پھر فرشتوں نے کس کو قتل کیا تھا ‘ نیز اگر فرشتے انسانی شکلوں میں دکھائی دے رہے تھے تو مسلمانوں کی تعداد کافروں سے بہت زیادہ ہوگئی حالانکہ قرآن مجید میں ہے : ویقللکم فی اعینھم ۔ (سورہ الانفال : ٤٤)
ترجمہ : اور اللہ تم کو ان کی نگاہوں میں کم دیکھا رہا تھا ۔
اور اگر فرشتے انسانی شکلوں میں نظر نہیں آرہے تھے تو لازم آئے گا کہ بغیر کسی فاعل کے سرکٹ کٹ کر گر رہے ہوں ‘ پیٹ چاک ہو رہے ہوں اور اعضاء کٹ کٹ کر گر رہے ہوں اور یہ بہت عظیم معجزہ تھا اور اس کو تواتر سے نقل ہونا چاہیے تھا ۔
امام رازی نے جو ابوبکر اصم کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابوبکر اصم کا یہ قول قرآن مجید کے خلاف ہے تو قرآن مجید میں کہیں یہ نص صریح نہیں ہے کہ فرشتوں نے بالفعل قتال کیا ہے ‘ البتہ سورة انفال میں غزوہ بدر کے سیاق میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کرے گا ‘ اور اس مدد کا یہ معنی ہے کہ فرشتے مسلمانوں کو جنگ میں ثابت قدم رکھیں گے اور ان کی نیت درست رکھیں گے کیونکہ فرشتے انسانوں میں الہام وغیرہ کے ساتھ تاثیر کرتے ہیں اور ان کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے کہ اور اللہ نے اس (نزول ملائکہ) کو محض تمہیں خوشخبری دینے کے لیے کیا ہے اور تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن رہیں ۔ (آل عمران : ١٢٦‘ الانفال : ١٠)
باقی رہا یہ کہ اس میں کیا حکمت تھی کہ جنگ بدر کے دن فرشتوں کی مدد آئی اور جنگ احد کے دن نہیں آئی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے احوال ان دونوں میں مختلف تھے ‘ جنگ بدر کے دن مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی اور کسی پر نظر نہیں تھی اور انہوں نے اس جنگ میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مکمل اطاعت کی ‘ اور جنگ احد میں سب مسلمانوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مکمل اطاعت نہیں کی بلکہ بعض مسلمان آپ کی مقرر کی ہوئی جگہ سے ہٹ گئے تھے ۔ (المنار ج ٤ ص ١١٥۔ ١١٢‘ ملخصا ‘ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت،چشتی)

قاضی ابو الخیر عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں : فرشتوں کے قتال کرنے میں اختلاف ہے اور بعض احادیث فرشتوں کے قتال کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ (انوار التنزیل ص ٢٣٥‘ مطبوعہ دار فراس للنشروالتوزیع ‘ مصر)

علامہ احمد شہاب الدین خفاجی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں : اس میں اختلاف ہے کہ فرشتوں نے کفار کے خلاف قتال کیا تھا یا قتال نہیں کیا بلکہ فرشتوں کا نازل ہونا صرف مسلمانوں کی تقویت کے لیے تھا اور ان کے دشمنوں کو کمزور کرنے کے لیے تھا ‘ اس کی تفصیل کشاف میں ہے ۔ (عنایۃ القاضی ج ٤ ص ٢٥٦‘ مطبوعہ دار صادر بیروت ١٢٨٣ ھ)

علامہ سید محمودآلوسی حنفی لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امداد کو محض بشارت اور مسلمانوں کے دلوں کے اطمینان کے لیے نازل کیا ہے ‘ اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ فرشتوں نے قتال نہیں کیا ‘ اور یہ بعض علماء کا مذہب ہے ‘ اور بعض احادیث میں اس کی دلیل ہے حضرت ابواسید نے نابینا ہونے کے بعد کہا اگر میں اس وقت بدر میں ہوتا اور بینا ہوتا تو تم کو وہ گھاٹی دکھاتا جس سے فرشتے نکل رہے تھے ۔ (روح المعانی ج ٩ ص ١٧٤‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

قرآن مجید میں صراحۃ یہ مذکور نہیں ہے کہ فرشتوں نے جنگ بدر میں قتال کیا ‘ البتہ سورة انفال کی اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے : اذ یوحی ربک الی الملآئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان ۔ (سورہ الانفال : ١٢)
ترجمہ : جب آپ کے رب نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تو تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو ‘ عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب طاری کروں گا تم کافروں کی گردنوں کے اوپر دار کرو اور کافروں کے ہر جوڑ کے اوپر ضرب لگاؤ۔

علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں : اس آیت سے بظاہر یہی ثابت ہوتا کہ فرشتوں نے بالفعل لڑائی میں حصہ لیا لیکن جن حضرات نے اسے مستعد جانا ہے ان کا خیال ہے کہ فاضربو ! میں خطاب مومنین سے ہے اور انہیں مارنے کا حکم دیا جارہا ہے لیکن اس آیت کے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے ۔ (ضیاء القرآن ج ٢ ص ١٣٤‘ مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشزلاہور)

علامہ ابو محمد ابن عطیہ اندلسی متوفی ٥٤٦ ء لکھتے ہیں : اس آیت میں یا تو فرشتوں سے خطاب ہے کہ تم کافروں کی گردنوں پر وار کرو اور یا یہ مسلمانوں سے خطاب ہے کہ تم کافروں کو قتل کرو ۔ (المحرر الوجیز ‘ ج ٨ ص ٢٧‘ مطبوعہ مکتبہ تجاریہ مکہ مکرمہ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : اس آیت میں ان علماء کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتوں نے قتال کیا تھا ‘ اور جو علماء یہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے قتال نہیں کیا تھا وہ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرشتوں کے قول کی حکایت کی ہے وہ مسلمانوں کو جنگ میں ثابت قدم رکھتے تھے ‘ ان کا حوصلہ بڑھاتے تھے اور فرشتے مومنوں سے یہ کہتے تھے کہ تم کافروں کی گردنوں پر وار کرو اور کافروں کے ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ ۔ (روح المعانی ج ٩ ص ‘ ١٨٧ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

علامہ ابو الحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں : جو معنی واضح ہے وہ یہی ہے کہ اس آیت میں فرشتوں کے ثابت قدم رکھنے کی تفسیر ہے اور فرشتے مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ کافروں کی گردنوں پروار کرو اور ان کے ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ ۔ (البحر المحیط ج ٥ ص ٢٨٥ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ،چشتی)

شبیر احمد عثمانی دیوبندی متوفی ١٣٦٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : روایات میں ہے کہ بدر میں ملائکہ کو لوگ آنکھوں سے دیکھتے تھے اور ان کے مارے ہوئے کفار کو آدمیوں کے قتل کیے ہوئے کفار سے الگ شناخت کرتے تھے ۔ (تفسیر برحاشیہ قرآن ‘ مطبوعہ سعودی عربیہ)

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ابوداؤد مازنی جو بدر میں حاضر ہوئے تھے فرماتے ہیں کہ میں ایک مشرک کی گردن مارنے کے لیے اس کے درپے ہوا اس کا سرمیری تلوار کے پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گرگیا تو میں نے جان لیا کہ اس کو کسی اور نے قتل کیا ۔ (تفسیر برحاشیہ قرآن مطبوعہ تاج کمپنی لیمٹڈ لاہور)

ابوالاعلی مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : جو اصولی باتیں ہم کو قرآن کے ذریعہ سے معلوم ہیں ان کی بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتوں سے قتال میں یہ کام نہیں لیا ہوگا کہ وہ خود حرب وضرب کا کام کریں ‘ بلکہ شاید اس کی صورت یہ ہوگی کہ کفار پر جو ضرب مسلمان لگائیں وہ فرشتوں کی مدد سے ٹھیک بیٹھے اور کاری لگے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ (تفہیم القرآن ج ٢ ص ‘ ١٣٤ مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن ‘ لاہور ‘ ١٩٨٣ ء)

مفتی محمد شفیع دیوبندی کا کلام اس مسئلہ میں واضح نہیں ہے ‘ انہوں نے دو ٹوک طریقے سے نہ تو فرشتوں کے قتال کا قول کیا ہے اور نہ صراحتہ اس کی نفی کی ہے۔ سورة آل عمران کی تفسیر میں قتال ملائکہ کی بعض روایات نقل کر کے لکھتے ہیں : یہ سب مشاہدات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں کہ ملائکۃ اللہ نے مسلمانوں کو اپنی نصرت کا یقین دلانے کے لیے کچھ کچھ کام ایسے کیے ہیں کہ گویا وہ بھی قتال میں شریک ہیں اور دراصل ان کا کام مسلمانوں کی تسلی اور تقویت قلب تھا ‘ فرشتوں کے ذریعہ میدان جنگ فتح کرانا مقصود نہیں تھا اس کی واضح دلیل یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں جنگ و جہاد کے فرائض انسانوں پر عائد کیے گئے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو فضائل و درجات حاصل ہوتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ فرشتوں کے لشکر سے ملک فتح کرائے جائیں تو دنیا میں کفر و کافر کا نام ہی نہ رہتا ‘ حکومت و سلطنت کی تو کیا گنجائش تھی مگر اس کارخانہ قدرت میں اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہی نہیں ۔ (معارف القرآن ج ٤ ص ١٧٤‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)
اور سورة انفال کی زیر بحث آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس میں فرشتوں کو دو کام سپرد کیے گئے ایک یہ کہ مسلمانوں کی ہمت بڑھائیں۔ یہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے میدان میں آکر ان کی جماعت کو بڑھائیں اور ان کے ساتھ مل کر قتال میں حصہ لیں ‘ اور اس طرح بھی کہ اپنے تصرف سے مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کردیں اور ان میں قوت پیدا کردیں ۔ دوسرا کام یہ بھی ان کے سپرد ہوا کہ فرشتے خود بھی قتال میں حصہ لیں اور کفار پر حملہ آور ہوں ‘ اس آیت سے ظاہر یہی ہے کہ فرشتوں نے دونوں کام انجام دیئے ‘ مسلمانوں کے دلوں میں تصرف کر کے ہمت وقوت بھی بڑھائی اور قتال میں بھی حصہ لیا ‘ اور اس کی تائید چند روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے جو تفسیر در منثور اور مظہری میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور قتال ملائکہ کی عینی شہادتیں صحابہ کرام سے نقل کی ہیں ۔ (معارف القرآن ج ٤ ص ١٩٧‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)

شیعہ مفسر شیخ فتح اللہ کاشانی لکھتے ہیں : روایت ہے کہ جنگ بدر کے دن جبرائیل پانچ سو فرشتوں کے ساتھ اور میکائیل پانچ سو فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے ‘ جبرائیل دائیں جانب تھے اور میکائل بائیں جانب تھے ‘ انہوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا اور عمامہ کا شملہ کندھوں کے درمیان ڈالا ہوا تھا ‘ انہوں نے مشرکوں کے ساتھ جنگ کی اور ان کو مغلوب کیا ‘ اور ماضی اور مستقبل میں سے جنگ بدر کے سوا اور کسی دن میں فرشتوں کو جہاد کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ حضرت رسالت پناہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کے بلند مرتبہ کی وجہ سے انکو صرف جنگ بدر کے دن جہاد کا حکم دیا گیا تھا ‘ حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) سے روایت کیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مشرک کے ساتھ جنگ کرتا تو اس مشرک کے سر کے اوپر سے تازیانہ کی آواز آتی اور جب مسلمان شخص نظر اوپر اٹھاتا تو وہ مشرک زمین پر پڑا ہوتا اور اس کے اوپر تازیانہ کانشان ظاہر ہوتا ‘ اور وہ شخص کسی اور کو نہ دیکھتا ‘ اور جب اس نے رسول اللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کو اس واقعہ کی خبر سنائی تو آپ نے فرمایا یہ فرشتے تھے جن کو حق تعالیٰ نے تمہاری مدد کے لیے بھیجا تھا ‘ اور حضرت امیر المومنین صلوات اللہ علیہ نے فرمایا ہمارے شہید اور قریش کے مقتولین میں فرق یہ تھا کہ ہمارے شہداء پر زخموں کے نشانات تھے اور قریش کے مقتولین پر زخموں کے نشانات نہیں تھے ۔ (مہنج الصادقین ج ٤ ص ١٦٨‘ مطبوعہ خیابان ناصر خسرو ایران)

شیعہ مفسر آیۃ اللہ مکارم شیرازی لکھتے ہیں : مفسرین کا اس میں اختلاف ہے ‘ بعض اس کے معتقد ہیں کہ فرشتے اپنے مخصوص اسلحہ کے ساتھ نازل ہوئے تھے ‘ اور انہوں نے دشمنوں پر حملہ کیا اور ان کی ایک جماعت کو خاک پر گرا دیا ‘ اور اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ روایات کو بھی نقل کیا ہے ‘ اور مفسرین کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ فرشتے صرف مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے ان ان کے دلوں کو تقویت دینے اور ان کو فتح کی خوشخبری دینے کے لیے نازل ہوئے تھے اور یہی قول حقیقت سے قریب تر ہے اور اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں : (١) آل عمران : ١٢٦‘ اور الانفال : ١٠ میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ فرشتوں کا نزول صرف مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے اور ان کو فتح کی بشارت دینے کے لیے ہوا تھا ۔

امام ابو منصور محمد بن محمد محمود ماتریدی السمرقندی الحنفی المتوفی ٣٣٣ ھ لکھتے ہیں : ملائکہ کے قتال میں اختلاف کیا گیا ہے ‘ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ فرشتوں نے کفار سے قتال کیا تھا اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ فرشتوں نے قتال نہیں کیا بلکہ وہ مسلمانوں کے دلوں کو مطمئن رکھنے کے لیے آئے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : واذ یریکموھم اذ التقیتم فی اعینکم قلیلا ویقللکم فی اعینھم ۔ (سورہ الانفال : ٤٤)
ترجمہ : اور (یاد کرو) جب تم سے مقابلہ کے وقت تمہیں کفار کی تعداد کم دکھائی اور تمہاری تعداد بھی انہیں کم دکھائی ۔
یعنی مسلمانوں کو کفار کی تعداد کم دکھائی تاکہ ان کی اصل تعداد جو بہت زیادہ تھی ‘ کو دیکھ کر مسلمان گھبرا نہ جائیں اور اگر یہ کہا جائے کہ فرشتوں نے قتال کیا تھا تو فرشتے تو کفار کی زیادہ تعداد سے گھبرانے والے نہیں ہیں ‘ کیونکہ ان میں سے ایک فرشتہ بھی تمام مشرکین کے لیے کافی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حضرت جبریل نے کیسے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کو اٹھا کر پلٹ دیا تھا ‘ سو یہ ہمارے قول پر دلالت کرتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرشتوں نے قتال کیا تھا ‘ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے غزوہ بدر میں قتال کیا تھا ‘ غزوہ احد میں نہیں کیا تھا ‘ سو ہم کو نہیں معلوم کہ اصل واقعہ کیا تھا ۔ (تاویلات اہل السنہ ج ١ ص ٣٠٥‘ مؤسسۃ الرسالۃ ‘ ناشرون ‘ ١٤٢٥ ھ،چشتی)

امام ابو الحجاج مجاہدبن حبر القرشی المخزومی المتوفی ١٠٤ ھ لکھتے ہیں : مشرکین کے ساتھ فرشتوں نے غزوئہ احد میں قتال نہیں کیا ‘ انہوں نے مشرکین کے ساتھ صرف یوم بدر میں قتال کیا تھا ۔ (تفسیر مجاہد ص ٤٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٦ ھ)

امام ابوالحسن مقاتل بن سلیمان بن بشیر الازدی البلخی المتوفی ١٥٠ ھ لکھتے ہیں : جبریل (علیہ السلام) ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے اور صحابہ کرام کے دائیں جانب پانچ سو فرشتوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے ان صحابہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے جب کہ حضرت میکائیل (علیہ السلام) پانچ سو فرشتوں کے ساتھ صحابہ کے بائیں جانب کھڑے ہو اگئے ان صحابہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے ان فرشتوں نے سفید لباس اور سفید عمامے زیب تن کیے ہوئے تھے اور انہوں نے عمامہ کے شملے کندھوں کے درمیان پیچھے چھوڑے ہوئے تھے فرشتوں نے جنگ بدر میں قتال کیا تھا اور جنگ احزاب وجنگ خیبر میں قتال نہیں کیا تھا ۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج ٢ ص ٧ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٤ ھ)

امام الحسین بن مسعود الفراء البغوی الشافعی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں : روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جب غزوہ بدر میں رب عزوجل سے بہت زیادہ دعا کی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا فرمائے گا ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو عریش میں بیٹھے معمولی سی نیند آگئی ‘ پھر آپ بیدار ہوئے ‘ پھر آپ نے فرمایا ‘ اے ابوبکر ! اللہ کی مدد آگئی ‘ یہ جبریل ہیں جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے قیادت کر رہے ہیں اور ان کے سامنے کے دانتوں پر گرد و غبار ہے ۔ (دلائل النبوت للبیہقی ج ٣ ص ٨٠۔ ٨١)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جنگ بدر کے دن فرمایا : یہ جبریل ہیں جو اپنے گھوڑے کے سر کو پکڑے ہوئے ہیں اور ان کے اوپر جنگ کے ہتھیار ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جنگ بدر میں فرشتوں کی علامت سفید عمامے تھے اور جنگ متین میں سبز عمامے تھے اور فرشتوں نے جنگ بدر کے سوا کسی دن بھی قتال نہیں کیا اور باقی ایام میں فرشتے عددی برتری اور مدد کے لیے آئے تھے ۔

اور ابو اسید مالک بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ جنگ بدر میں موجود تھے اور انہوں نے اپنی بینائی زائل ہونے کے بعد کہا کہ اگر میں تمہارے ساتھ آج وادی بدر میں ہوتا اور میری بصارت بھی ہوتی تو میں تم کو وہ گھاٹی دکھاتا جہاں سے فرشتے نکلے تھے ۔ (دلائل النبوت للبیہقی ج ٣ ص ٥٣) (معالم التنزیل ج ٢ ص ٢٧٣‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ،چشتی)

قاضی محمد ثناء اللہ عثمانی حنفی مظہری نقشبندی متوفی ١١٤٣ ھ لکھتے ہیں : بعض فرشتے بعض مردوں کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے ۔ ابوسفیان بن حارث کہتے ہیں کہ ہم نے جنگ بدر میں کچھ سفید انسان دیکھے جو چتکبرے گھوڑوں پر سوار آسمان اور زمین کے درمیان تھے ۔
امام بیہقی اور امام ابن عساکر نے سہل بن عمر و رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے جنگ بدر میں کچھ سفید رنگ کے انسانوں کو چتکبرے گھوڑوں پر آسمان اور زمین کے درمیان دیکھا ‘ وہ نشان زدہ تھے ‘ وہ کافروں کو گرفتار بھی کررہے تھے اور قتل بھی کر رہے تھے ۔
امام ابن عساکر نے حضرت عبدا لرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے جنگ بدر میں دو آدمیوں کو دیکھا ایک آپ کے دائیں جانب تھا اور ایک آپ کے بائیں جانب تھا ‘ وہ دونوں بہت شدت سے قتال کر رہے تھے ‘ پھر میں نے ایک تیسرے شخص کو دیکھا جو آپ کے پیچھے تھا ‘ پھر ایک چوتھے شخص کو دیکھا جو آپ کے آگے تھا ۔
ابراہیم غفاری اپنے عم زاد سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا عم زاد بدر کے پانی پر کھڑے ہوئے تھے ‘ جب ہم نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لوگوں کی قلت کو دیکھا اور قریش کی کثرت کو دیکھا تو ہم نے کہا : یہ لوگ تو قریش کے چوتھائی ہیں اسی اثناء میں ہم نے دیکھا کہ ایک بادل آیا جس نے ہم کو ڈھانپ لیا ‘ پھر ہم نے آدمیوں کی اور ہتھیاروں کی آوازیں سنیں اور ہم نے سنا ‘ ایک آدمی کہہ رہا تھا : اے حیزوم ! آگے بڑھو ۔
پھر وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائیں جانب اتر آئے ‘ پھر اسی طرح کی دوسری جماعت آپ کے بائیں جانب اتر آئی ۔ (تفسیر مظہری ج ٤ ص ٢٥‘ مطبوعہ مکتبہ عثمانیہ کوئٹہ ‘ ١٤٢٥ ھ)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جان نثاری

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام سے جنگ میں جانے سے پہلے مشورہ کیا توصحابہ کرام نے مناسب مشورے پیش کئے چنانچہ حضرت مقداد اٹھے اور عرض کی یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ! ہم وہ بنی اسرائیل نہیں جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا اے موسی!تم جاؤ اور تمہارارب جنگ کیجئے ہم یہاں بیٹھے ہیں ، بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے لڑیں گے ۔
فوالذی بعثک بالحق لوسرت بناالی برک الغماد لجالدنا معک من دونک حتی تبلغہ ۔
اگرآپ ہمیں برک غماد تک بھی لے چلیں تو ہم آپ کے ساتھ ملکر قتال کریں گے یہاں تک کہ وہاں پہنچ جائیں ۔
اس کے بعد انصارمیں سے حضرت سعد کھڑے ہوئے انہوں نے احسن انداز میں جانثاری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا : فوالذی بعثک بالحق لواستعرضت بناالبحرفخصتہ لخضناہ معک ماتخلف بنا رجل واحد ۔ (زادالمعادج۲ص۳۵۱۔السیرۃ النبویہ لابن ھشام ۸۷۲۔السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ج۲ص۳۹۳۔ السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ص۷۔السیرۃ الحلبیۃ فی سیرۃ الامین ج۲ص۵۸۳،چشتی)
اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اگر آپ ہمیں سمندر کے سامنے لے جائیں اور اس میں چھلانگ لگادیں تو ہم بھی اس میں چھلانگ لگا دیں گے ہم میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا ۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ صحابہ کرام کے اس جواب سے بہت خوش ہوئے اورفرمایا : واللہ لکانی الآن انظرالی مصارع القوم ، خداکی قسم میں ابھی قوم کی جائے قتل کو دیکھ رہا ہوں ۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اپنے لشکر کی بے سروسامانی کو دیکھ کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں گریہ وزاری کی : اللھم انھم حفاۃ فاحملھم وعراۃ فاکسھم وجیاع فاشبعھم وعالۃ فاغنھم من فضلک“ ۔ (سنن ابی داؤد ۹۴۷۲۔سبل الھدی والرشاد ج۴ ص۳۲۔مغازی الواقدی ج۱ص۶۲۔السیرۃ الحلبیہ فی سیرۃ الامین ج۲ص۲۸۳،۷۸۳۔السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ص۳۵) ۔ الٰہی یہ پیادہ ہیں انہیں سواری عطا فرما ، یہ ننگے ہیں انہیں کپڑے دے ، یہ بھوکے ہیں انہیں کھانا کھلا ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ بدر کے روز نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ قبہ میں تشریف فرماتھے اور دعا مانگ رہے تھے : اللھم انی انشدک عہدک ووعدک اللھم ان شئت لم تعبدبعد الیوم ۔
اے اللہ ! میں تجھے اس عہداوروعدہ کا واسطہ دیتاہوں جو تونے میرے ساتھ کیا ہے ۔
اے اللہ : اگر تو اسے پورا نہیں کرے گا تو پھر تاابد تیری عبادت نہیں کی جائے گی ۔ حضرت صدیق اکبر نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو ہاتھوں سے پکڑا اور عرض کی یارسول اللہ ! یہ کافی ہے ۔ آپ نے اپنے رب پر اصرار کی حد کردی ہے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس وقت زرہ پہن رکھی تھی آپ اس حالت میں نکلے کہ یہ آیت پڑھ رہے تھے ، سیھزم الجمع ویولّون الدبر بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھیٰ وامر ، عنقریب پسپاہوگئی یہ جماعت اورپیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ ان کے وعدے کا وقت روز قیامت ہے اور قیامت بڑی خوفناک اور تلخ ہے ۔ (الصحیح البخاری ۵۱۹۲،۳۵۹۳،۵۷۸۴۔الرحیق المختوم ج۱ص۹۷۱۔ الرسالۃ المحمدیۃ ج۱ص۷۷۱۔الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ج۷۱ ص۶۶۔السیرۃ الحلبیہ فی سیرۃ الامین ج۲ص۵۰۴۔السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ ص۷۲)

دو 2 ہجری، 17رمضان المبارک جمعہ کا بابرکت دن تھا جب غزوۂ بدر رونما ہوا، قرآنِ مجید میں اسے ”یوم الفرقان“فرمایا گیا ۔ (در منثور ،4/72،پ 10،الانفال تحت الآیہ:41) اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن کے پاس صرف 2 گھوڑے،70 اونٹ، 6 زرہیں(لوہے کا جنگی لباس)  اور 8 تلواریں تھیں جبکہ ان کے مقابلے میں لشکرِ کفار 1000 افراد پر مشتمل تھا جن کے پاس 100گھوڑے، 700 اونٹ اور  کثیر آلاتِ حرب تھے ۔ (زرقانی علی المواھب، 2/260،چشتی)(معجم کبیر، 11/133، حدیث 11377)(مدارج النبوۃ،2/81)

نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نےاپنے چند جانثاروں کے ساتھ بدر کے میدان کو ملاحظہ فرمایا اور زمین پر جگہ جگہ ہاتھ رکھ کر فرماتے : یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر  کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ راوی فرماتے ہیں:  ویسا ہی  ہواجیسا فرمایا تھا اور ان میں سے کسی نےاس لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہ کیا ۔ (مسلم ص759، حدیث: 4621)

کیا شان ہے ہمارے نبی صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کی ، کہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے ایک دن پہلے ہی یہ بتادیا کہ کون کب  اور کس جگہ  مرے گا ۔

اس رات اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کر دی جس سے ان کی تھکاوٹ جاتی رہی اور اگلی صبح بارش بھی نازل فرمائی جس سے مسلمانوں کی طرف ریت جم گئی اور پانی کی کمی دور ہو گئی ۔ ( الزرقانی علی المواہب ،2/271)
نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے تمام رات اپنے ربّ عَزَّ وَ جَلَّ کے حضور عجزو نیاز میں گزاری ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،3/49) ۔ اور صبح مسلمانوں  کو نمازِ فجر کےلیے  بیدار فرمایا، نماز کے بعدایک خطبہ ارشاد فرمایا جس سے مسلمان شوق ِ شہادت سے سرشار ہوگئے ۔ (سیرت حلبیہ، 2/212)

حضور رحمتِ دوعالم  صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے پہلے مسلمانوں کے لشکر کی جانب نظر فرمائی پھر کفار  کی طرف دیکھا اور دعا کی  کہ یا رب ! اپنا وعدہ سچ فرما جو تو نے مجھ سے کیا ہے ، اگرمسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہوگیا  تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔ (صحیح مسلم صفحہ 750، حدیث:4588)

اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے پہلے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے ، اس کے بعد یہ تعداد بڑھ کر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار ہو گئی ۔ (پ 9،الانفال:9۔ پ4،اٰل عمران 124،125)

نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ و اٰلہٖ وسَلَّم نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کفار کی طرف پھینکی جو کفار کی آنکھوں میں پڑی ۔ (درمنثور ،4/40،پ 9،الانفال  الآیہ:17)

جانثار مسلمان اس دلیری سے لڑے کہ لشکرِ کفار کو عبرتناک شکست ہوئی، 70 کفار واصلِ جہنم اور اسی قدر (یعنی70) گرفتار ہوئے ۔ (مسلم ، ص750، حدیث:4588) جبکہ 14مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ (عمدۃ القاری 10/122،چشتی)

غزوۂ بدر میں مسلمان  بظاہر بے سروسامان اور تعداد میں کم تھے  مگر ایمان و اخلاص کی دولت سے مالامال تھے ، ان کے دل پیارے آقا  صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے عشق و محبت اور جذبہ ٔاطاعت سے لبریز تھے اور اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی مدد اور پیارے آقا  صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کی دعائیں ان کے شاملِ حال تھیں۔ یہی وہ اسباب تھے جنہوں نے اس معرکے کو یاد گار اور قیامت تک کے مسلمانوں کےلیے مشعلِ راہ  بنادیا ۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا کفارکی قتل گاہوں کی خبر دینا

جنگ سے ایک دن پہلے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے میدان جنگ کا معائنہ کیا ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ جب گزرتے تو فرماتے : ھذامصرع فلان غدا ان شاء اللہ ، یہ کل فلاں کی جائے قتل ہوگا اگر اللہ نے چاہا ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے کفار کے نام لے لے کر بتایا ، جنگ کے اختتام پر ان مرداروں کی لاشیں اسی جگہ پرہی تھیں جہاں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے نشان لگایاتھا ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ، فوالذی بعثہ باحق مااخطأواالحدود التی حدھا ۔ (الصحیح المسلم ۲۰۴۷۔مسند ابی یعلی ۰۴۱۔ نسائی ۴۷۰۲۔مسند احمد ۲۸۱۔صحیح ابن حبان ۲۲۷۴۔مصنف ابن ابی شیبہ۰۸۴۔السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ ص۹۸)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا وہ ان حدود سے کچھ بھی آگے پیچھے نہ تھے جن کی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے نشان دہی فرمائی تھی ۔

شہداء بدر کے اسماء

اس عظیم معرکے میں کتنے خوش نصیبوں کو خلعت شہادت سے سرفراز کیا گیا اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں اسحاق کا قول یہ ہے کہ ان کی تعداد گیرارہ تھی لیکن واقدی نے مغازی میں ذکرکیاہے کہ عبداللہ بن جعفر نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ میں نے زھری سے سوال کیاکہ کتنے مسلمان بدرمیں شھید ہوئے ۔ آپ نے کہا چودہ ۔ جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے ۔ پھر انہیں شمار کیا ۔ (مغازی للواقدی ۱/۴۴۱،۵۴۱)

جمہور علماء مغازی اور سیر اور محدثین نے اسی قول کوترجیح دی ہے ۔ اور وہ چودہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام درج ذیل ہیں : ⬇

(1) عبیدہ بن الحارث (2) عمیر بن ابی وقاص(3) عمیربن حمام (4) سعد بن خیثمہ (5) ذوالشمامین بن عمربن نضلہ خزاعی (6) مبشربن عبدالمنذر (7) ماقل بن بکیر اللیشی (8) مہجع (حضرت عمر فاروق کے آزاد کردہ غلام)(9) صفوان بن بیضاء الفہری (10) یزیدبن حارث خزرجی (11) رافع بن معلی (12) حارث بن سراقہ (13) عوف بن عفراء (14) معوذبن عفراء ۔ (رضی اللہ عنہم) ، الروض الانف فی شرح غریب السیرمیں بھی ان شھدائے بدر کے نام اور کس صحابی کو کس کافر نے شھید کیا مفصلا ذکر فرمائے ہیں ۔ (الروض الانف فی غریب السیر ج۳ ص۴۶۱) ، شھدائے بدرکی تعداد کو ایک اور جگہ پر یوں ذکر کیا گیا ہے ، اماالمسلمون فاستشھدمنھم یوم بدراربعۃ عشر ۔ (مع المصطفیٰ ج۱ص۳۴۲) ، بہرحال مسلمان توان میں سے بدر کے دن چودہ شہید کردئے گئے تھے ۔

شرکاءِ بدر کی فضیلت

غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کو اللہ تعالی نے عظیم نے مرتبہ عطافرمایااور بدری باقی صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں ، اسی لیے خلفائے راشدین بدری صحابہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ رفاعہ بن رافع زرقی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں (ان کے والد اھل بدر میں سے ہیں) کہ جبرئیل امین نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے عرض کی : ماتعدّون اھل بدرفیکم قال من افضل المسلمین او کلمۃ نحوھا قال وکذلک من شھد بدرا من الملائکۃ ۔ (الصحیح البخاری رقم۲۹۶۳،چشتی) ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے صحابہ میں اہل بدر کا کیا مرتبہ ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : مسلمانوں میں افضل یا اس کی مثل کوئی کلمہ ۔ جبریل نے کہا یونہی فرشتوں میں سے بدر کے میدان میں حاضر ہونے والے فرشتے باقی ملائکہ سے افضل ہیں ۔

حضرت حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ میدان بدر میں شھید ہو گئے توان کی والدہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں۔اگر حارثہ جنت میں ہے تومیں صبرکروں گی اور اگر جنت میں نہیں توآپ بتائیں میں کیا کروں ؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تیرے لئے ہلاکت ہو ، انہ فی جنۃ الفردوس ۔ (الصحیح البخاری رقم۳۸۶۳) ۔ بیشک وہ جنت الفردوس میں ہے ۔

حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے طویل واقعے میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : لعل اللہ اطلع علی اھل بدرفقال اعملوا ماشئتم فقد وجبت لکم الجنۃ ۔ (الصحیح البخاری رقم ۴۸۶۳) ، اہل بدر کی فضیلت کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی معیت میں اسلام کی سربلندی وسرفرازی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور ان صحابہ کی اس وقت کی کاوشوں سے دین کی جڑیں مضبوط سے مضبوط ترہوگئیں اور کفر کے دل میں ہمیشہ کےلیے اللہ تعالی نے مسلمانوں کارعب ڈال دیا ۔

جنگ بدر تاریخ اسلام کا پہلا اور عظیم الشان معرکہ تھا جس میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی ایک قلیل جماعت کو ان کی بے سروسامانی کے باوجود مشرکین کے ایک بڑے اور ہر طرح کے جنگی آلات سے لیس گروہ پر ایک روشن فتح عطا فرمائی تھی جسے مورخین نے ”غزوہ بدر الکبری“ اور غزوہ ب سے موسوم کیا ہے مگر قرآن کریم میں اسے یوم الفرقان (یعنی حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان حد فاصل کھینچنے والے دن) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
غزوہ بدر وہ فیصلہ کن اور تاریخ ساز جنگ تھی جس نے امت اسلامیہ کی تفسیر اور دعوت اسلام کے مستقبل کا فیصلہ ہوا اس کے بعد آج تک مسلمانوں کو جتنی بھی فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں وہ سب اسی ”فتح مبین“ کی مرہون منت ہیں جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی ۔

معرکہ بدر کے اسباب

مکہ مکرمہ میں اسلام کا سورج جیسے ہی طلوع ہوا کفار و مشرکین اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہوگئے پھر جیسے جیسے اسلام کا دائرہ بڑھتا گیا ان ریشہ دوانیاں بھی بڑھتی رہیں۔ دامن اسلام سے وابستہ ہونے والوں پر نت نئے مظالم ڈھائے گئے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو اپنا گھر بار،قیمتی مال و متاع چھوڑ کر پہلے حبشہ پھر مدینہ کی جانب ہجرت کرنا پڑا ،  ہجرت کے بعد بھی ظلم وزیادتی کا سلسلہ جاری رہا بلکہ اور زور پکڑ گیا، کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو زیارتِ کعبہ سے روکا، املا کِ مومنین ضبط کیں، مدینہ منورہ پر لشکر کشی کی تیاری کی، اسلام کے خلاف ماحول سازی کی، رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے بنائے، اہلِ ایماں پر ستم ڈھائے کہ وہ دین سے باز آجائیں … اِسی کے نتیجے میں اسلام کی پہلی جنگ ”بدر“ کے میدان میں ہوئی۔ماہِ رمضان کے شروع میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ اہلِ قریش کا تجارتی مال و اسباب سے بھرا ہوا قافلہ شام سے مکہ آرہا ہے اس کے ساتھ تیس یا چالیس آدمی خاص اہلِ قریش کے ہیں جن کا سردار ابو سفیان ہے اور اس کے ہمراہیوں میں عمرو بن العاصی و محزمۃ بن نوفل ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسلمانانِ مہاجرین و انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے اس قافلے کی طرف پیش قدمی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ (ابن خلدون /اول/۷۱)

اتفاق سے یہ خبر رفتہ رفتہ ابو سفیان تک پہنچ گئی اس نے مسلمانوں سے ڈر کر ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا اور یہ کہلا بھیجا کہ تمہارا قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور انکے تابعین کی وجہ سے معرض زوال میں ہے، دوڑو اوراپنے قافلے کو بچاؤ۔ چنانچہ اہلِ مکہ یہ سنتے ہی سب کے سب نکل کھڑے ہوئے سوائے چند افراد کے جن میں ابو لہب بھی تھا۔ ابو سفیان اپنے قافلے کو ساحل کے ساتھ ساتھ لے کر مکہ کی جانب چلا تو راستے میں اہلِ مکہ بھی مل گئے اس نے خوش ہو کر کہا چلو واپس چلو ہمارا قافلہ صحیح و سالم بچ آیا مگر ابو جہل نے ابو سفیان کے مشورے کو رد کر دیا اور فوج کو بدر تک جانے پر اصرار کیا۔ اس نے بڑے تکبر اور غضب سے کہا، خدا کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے ہم بدر تک جائیں گے اور تین دن وہاں ٹھہریں گے اور اونٹ ذبح کریں گے اور کھائیں گے کھلائیں گے اور شراب نوشی کریں گے اور گلوکارائیں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور عرب ہمارے متعلق اور ہماری پیش قدمی سے متعلق سنیں گے تو ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔(سبل الہدی و الرشاد، ۴:۲۹،چشتی)

جب سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ کی پیش قدمی ، ان کی تعداد اور ان جنگی تیاریوں کے بارے میں پتا چلا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مہاجرین و انصار کوجمع کر کے مشورہ کیا ۔ پہلے مہاجرین نے نہایت خوبصورتی اور بسرو چشم ہر حکم بجالانے کا اقرار کیا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے انصار کی طرف رخ کیا ان میں سے حضرت سعد بن معاذ نے نکل کر عرض کیا ”اے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی ہے ۔ اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم دریا میں کودنے کوفرمائیں گے تو ہم اس میں بھی غوطہ لگا دیں گے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اللہ کے نام پر ہمارے ساتھ چلئے، ہم ساتھ چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں ۔“ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم یہ سن کر خوش ہوگئے اور یہ ارشاد فرمایا: ”کہ تم لوگوں کو بشارت ہو،کہ اللہ جل شانہٗ نے مجھ سے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔“(طبقات ابن سعد، ۱:۳۱۵)

رمضان المبارک سن ہجری بروز جمعہ اشراق کے بعد کفار کی فوج اپنے دلدلی حصہ زمین سے اسلامی فوج کی طرف بڑھی اور بدر کی بے شجر وادی میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، ایک جانب لوہے میں ڈھکے ہوئے سرتا پا مسلح فنِ جنگ کے خوب ماہر قہر مجسم ایک ہزار قریشی سرداروں ، پہلوانوں اور نامور بہادروں کی پیش قدمی ہے تو دوسری جانب ۳۱۳ اسلامی لشکر کے افراد کہ جن کے پاس مکمل جنگی سازو سامان بھی نہیں ہے اکثر کے لباس بھی پھٹے پرانے ہیں۔ تمام ظاہری آثار بتاتے ہیں کہ قریشی لشکر اسلامی لشکر کا صفایا چند لمحوں میں بڑی آسانی سے کردے گا ۔ سب سے پہلے مغرور سردارعتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولیدکے ساتھ آگے بڑھا اور بڑے زعم سے مبارزت طلب کی، انصار اصحاب میں سے حضرات عوف، معاذ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مقابلہ کےلیے آگے بڑھے تو عتبہ نے کہا کہ ہم انصار مدینہ سے مقابلہ نہیں چاہتے تم ہمارے جوڑ کے نہیں مہاجرین میں سے کسی کو جرات ہو تو آ گے آئے ، تب چیلنج دینے والے اس مغرور کے سردار کے ایک فرزند (جو مسلمان ہو چکے تھے) حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے چاہا کہ اپنے کافر باپ کا مقابلہ کریں مگر حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ کو روک دیااور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے محترم چچا اسد اللہ و اسد الرسول حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت عبیدہ ابن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو آگے بھیجا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے شیبہ بن ربیعہ کو ایک ہی وار میں واصل جہنم کردیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اسی آنِ واحد میں ولید بن عتبہ کا خاتمہ کیا اور عتبہ بن ربیعہ اور حضرت عبیدہ کے باہم مقابلے میں حضرت عبیدہ کے پاؤں کٹ گئے تو حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عتبہ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔(تاریخ طبری، ۱:۱۷۹،چشتی)

تین ممتاز و معزز و نامور سردارانِ قریش کے اس طرح مارے جانے پر کفار کی فوج میں صف ماتم بچھ گئی اور عجیب ہیبت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اسلامی لشکر میں فرطِ فرحت و تشکر سے احد…احد …اور اللہ اکبر…اللہ اکبر … اللہ اکبر…. کے فلک بوس نعرے گونجنے لگے جو کفار کے حق میں جگر شگاف تھے۔ بعد ازاں کفار نے اپنے مقام سے تیر برسائے جن سے حضرت مہجع بن صالح اور حضرت حارثہ بن سراقہ شہید ہو گئے۔ اور پھر گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی۔لشکر اسلام کے علم بردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی بھائی جو مشرک تھا عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا اور حضرت سیدنا فارقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا ۔ میدانِ کارزار کا ایسا ہولناک  منظر تھا کہ گویا زمین پر زلزلہ تھا، پہاڑ لرز رہے تھے، اور آسمان پھٹ رہا تھا، حضور انور و اقدس  سپہ سالارِ لشکر اسلام علیہ افضل التحیاۃ والصلوٰۃ والسلام داخل عریش ہوئے اور دونوں مبارک ہاتھوں کو پھیلا کر حق تعالیٰ جلِ جلالہٗ عم نوالہٗ سے نہایت خلوص و عجز سے عرض کرنے لگے ”یا الٰہ العالمین، یا ذوالجلال والاکرام اگر آج اس میدان میں یہ نہتے مسلمان کٹ جائیں اور مٹ جائیں توپھر تیری عبادت کرنے والے بندے دنیا میں کوئی باقی نہ رہیں گے، یا الٰہی تیری عبادت کرنے والے ان نہتے مسلمانوں کو آج فتح سے نواز، اے مولیٰ تیرا وہ وعدہ کہ مسلمانوں کو فتح سے سرخرو فرمائے گا اب پورا فرما…الخ ۔ (سیرت ابن ہشام، ۲:۶۲۷ و مسلم ۲:۹۳)

چنانچہ اس دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مختصر سی جماعت نے جو تعداد اور ساز و سامان دونوں لحاظ سے دشمن سے کم تھی ایسی جرأت،ہمت اور استقلال سے مقابلہ کیا اور اپنے امیر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ایسی اطاعت کی اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ایسے بروقت اور بر محل ماہرانہ فیصلے فرمائے کہ جن سے جنگ کا نتیجہ حیرت انگیز طور پر مسلمانوں کے حق میں نکلا اس جنگ میں ستر کافر مارے گئے۔ ستر گرفتار ہوئے اور چودہ مسلمان مقام شہادت سے سرفراز ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی دعا قبول کر لی اور کفا ر کو ذلیل و خوار کر دیا۔
شہداء و شرکائے بدر کی فضیلت
رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے : جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا آپ اہلِ بدر کو مسلمانوں میں کیسا سمجھتے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا! سب مسلمانوں سے افضل سمجھتا ہوں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ فرشتوں میں سے جو فرشتے بدر میں حاضر تھے ان کا درجہ بھی ملائکہ میں ایسا ہی سمجھاجاتا ہے ۔ (بخاری کتاب المغازی باب الشھود الملٓئکۃ بدرا،چشتی)(فتح الباری، ۷:۳۶۲)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے روایت کیا کہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اہلِ بدر کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا ہے اب تم جو چاہو سو کرو۔“(ابو داؤدشریف، ۲:۲۹۱۔۲۹۲، مطبوعہ امدادیہ ملتان
اندلس کے مشہور سیاح محمد بن جبیر (متوفی ۲۷ شعبان ۶۱۴ھ) نے بدر کے حال میں یوں لکھا ہے۔
”اس موضع میں کھجور کے بہت باغات ہیں۔ اور آبِ رواں کاایک چشمہ ہے۔موضع کا قلعہ بلند ٹیلے پر ہے۔ اور قلعہ کاراستہ پہاڑوں کے بیچ میں ہے۔ وہ قطعہ زمین نشیب میں ہے جہاں اسلامی لڑائی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت اور اہلِ شرک کو ذلت دی۔ آج کل اس زمین میں کھجور کا باغ ہے اور اس کے بیچ میں گنج شہیداں ہے۔ اس آبادی میں داخل ہوتے وقت بائیں طرف جبل الرحمۃ ہے۔ لڑائی کے دن اس پہاڑ پر فرشتے اترے تھے۔ اس پہاڑ کے ساتھ جبل الطبول ہے۔ اس کی قطع ریت کے ٹیلے کی سی ہے۔ کہتے ہیں ہر شب جمعہ کواس پہاڑ سے نقارے کی صدا آتی ہے۔ اس لیے اس کا نام جبل الطبول رکھا ہے۔ ہنوز نصرت نبوی ا کا یہ بھی ایک معجزہ باقی ہے۔ اس بستی کے ایک عرب باشندے نے بیان کیا کہ میں نے اپنے کانوں سے نقاروں کی آواز سنی ہے اور یہ آوا زہر جمعرات اور دو شنبے کو آیا کرتی ہے اس پہاڑ کی سطح کے قریب حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے تشریف رکھنے کی جگہ ہے اور اس کے سامنے میدانِ جنگ ہے۔“ (سیرت رسول عربی:۱۳۷ و رحلۃ ابن جبیر: ۱۹۲)

معرکہ بدر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے کئی معجزات ظاہر ہوئے، میدانِ جنگ میں اپنی صفوں کو لے کر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میدان کے وسط میں تشریف لائے اور جنگ سے ایک روز قبل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے عصائے مبارکہ سے مختلف لکیریں میدان میں کھینچتے ہوئے فرمایا: ”کل یہاں عتبہ بن ربیعہ کی موت ہوگی، اور یہاں اس دور کے فرعون ابو جہل کی موت واقع ہوگی، الغرض مشرکین کی موت اور ان کے مقتل کی جیسی نشاندہی فرمائی گئی تھی اس سے ہٹ کر وقوع نہ ہوا ۔ (مسلم شریف، ۲:۱۰۲)

حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک زنگ آلود پُرانی تلوار تھی جو ٹوٹ گئی تو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میدان سے ایک سوکھی جنگلی جلانے والی لکڑی اپنے دست مبارک سے اٹھا کر انہیں دے دی اور ارشاد فرمایا: ”جاؤ اس سے لڑو“ وہ لکڑی حضرت عکاشہ کے ہاتھ میں ایک سفید چمکدار فولادی تیز تلوار بن گئی اور عرصہ دراز تک (۱۱ہجری) ان کے پاس رہی۔ اسی طرح حضرت سلمہ بن اسلم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بھی حضور ا نے کھجور کی سوکھی شاخ دی جو کہ فوراً ایک تیز دھار تلوار بن گئی۔ حضرت رفاعہ بن رافع بن مالک خزرجی انصاری و حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زخمی آنکھوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے لعابِ دہن سے تندرست کر دیا۔ (ابن کثیر،۲:۴۴۶۔۴۴۷،چشتی)

کفر و اسلام کے پہلے معرکہ میں نہ صرف رسول عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتیں اور حربی امور کی ماہرانہ اصول اجاگر ہوئے۔بلکہ اس عظیم معرکے میں مجاہدین اسلام کے لئے بہت سے قیمتی اسباب پوشیدہ ہیں۔غزوہ بدرمیں ابتداء سے آخر تک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دفاع،حملہ اور دوسرے اہم مراحل میں لشکر اسلام پر مکمل کنٹرول قائم رکھا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ جہاد و شہادت کو اجاگر کیا اور ہر حال میں امیر کی اطاعت کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میدان جہاد میں جتنے بھی کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔یہ تمام ”اطاعت امیر“ کا نتیجہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس ”تین سو تیرہ“ کے بظاہر معمولی لشکر نے وہ غیر معمولی کام کر دکھایا جو تاریخ اسلام کے ماتھے کا ”جھومر“ ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جذبہ جہاد اور جذبہ اطاعت اس قدر موجزن تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کبھی مایوس نہ کیا۔بلکہ ان کی نصرت کے لیے فرشتوں کے غول کے غول بھیج کر فتح و نصرت کو مسلمانوں کی جھولی میں لا ڈالا۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی معرکہ بدر نے یہ ثابت کر دیا کہ محض وسائل اور سپاہیوں کی کثرت فتح و نصرت کےلیے کافی نہیں۔بلکہ ایمان کی قوت اور جذبہ جہاد و شوق شہادت کی بدولت کوئی بھی اقلیت اکثریت پر غالب آسکتی ہے ۔ بس پختہ ارادوں کی ضرورت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔