Wednesday 13 March 2024

روزہ کی حالت میں انہیلر اور آکسیجن لینے کا شرعی حکم

0 comments

روزہ کی حالت میں انہیلر اور آکسیجن لینے کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : روزہ کی حالت میں آکسیجن کے استعمال سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ وہ وہی کچھ ہے جو انسان اپنے پھپھڑوں کی مدد سے فضا سے اندر لے جاتا ہے اور پھپھڑوں کی کمزوری کی وجہ سے آکسیجن کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ اور روزہ کی حالت میں انہیلر کا استعمال کرنا پڑے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ کیونکہ انہیلر میں دوائی کے ذرات ہوتے ہیں جس کے ذریعے مریض کے پھیپھڑوں کے اندروہ دوا پہنچائی جا تی ہے جس کی وجہ سے وہ مریض آسانی سے سانس لینا شروع کر دیتا ہے ۔

طحطاوی علی المراقی میں ہے : أودخل حلقہ غبار ، التعقید بالدخول الاحتراز عن الادخال ولھذاصرّحوا بانّ الاحتواء علی المبخرۃمفسد ۔
ترجمہ : ہوا داخل ہوئی اس کے حلق میں ،داخل ہو نے کی قید لگائی احترا ز ہے داخل کرنے سے اسی لیے فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ خوشبو داربھاپ کواندر لے جانا روزے کو توڑ دیتا ہے ۔ (حاشیہ طحطاوی علی المراقی،کتا ب الصوم باب فی بیان ما لایفسد الصوم صفحہ ۶۶۱ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی،چشتی)

روزہ کی حالت میں انہیلر  لینا جائز نہیں ، کیوں کہ انہیلر میں دوا ہوتی ہے ، جو حلق کے راستہ  مریض  کے اندر جاتی ہے ، جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے ، لہٰذا دمہ کا مریض جب انہیلر  کے بغیر روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو ، اس وقت تک وہ روزہ نہ رکھے ، صحتیابی کے بعد ان روزوں کی قضاء کرنا واجب ہو گا ۔ رد المحتار على الدر المختار میں ہے : (أو دخل حلقه غبار أو ذباب أو دخان) ولو ذاكرا استحسانا لعدم إمكان التحرز عنه، ومفاده أنه لو أدخل حلقه الدخان أفطر أي دخان كان ولو عودا أو عنبرا له ذاكرا لإمكان التحرز عنه فليتنبه له كما بسطه الشرنبلالي ۔ (قوله : أنه لو أدخل حلقه الدخان) أي بأي صورة كان الإدخال، حتى لو تبخر ببخور وآواه إلى نفسه واشتمه ذاكرا لصومه أفطر لإمكان التحرز عنه وهذا مما يغفل عنه كثير من الناس، ولا يتوهم أنه كشم الورد ومائه والمسك لوضوح الفرق بين هواء تطيب بريح المسك وشبهه وبين جوهر دخان وصل إلى جوفه بفعله إمداد وبه علم حكم شرب الدخان ونظمه الشرنبلالي في شرحه على الوهبانية بقوله : ويمنع من بيع الدخان وشربه ۔۔۔ وشاربه في الصوم لا شك يفطر ۔ ويلزمه التكفير لو ظن نافعا ۔۔۔ كذا دافعا شهوات بطن فقرروا ۔ (كتاب الصوم باب ما يفسد الصوم و ما لايفسده جلد ٢ صفحہ ٣٩٥، ط:  دار الفكر)

اور جب مریض کا مرض اس قدر بڑھ جائے کہ وہ ایک پورے روزے کا وقت انہیلر استعمال کیے بغیر نہیں گزار سکتا تو وہ معذور شرعی ہے اس پر عذر کی وجہ سے روزہ نہیں بلکہ وہ اپنے روزے کا فدیہ ادا کرے گا ۔

مہ کے مریض کئی قسم کے ہوتے ہیں : ⏬

ایک وہ جو رات کے اوقات میں انہیلر استعمال کر لیں تو دن روزے کے ساتھ بخوبی گزار سکتے ہیں ، ایسے لوگوں کےلیے روزے کے دن میں انہیلر کا استعمال جائز نہیں ۔ بلا اضطرار و پریشانی دن میں استعمال کی صورت میں روزے کی قضا و کفارہ دونوں لازم ہو گا ۔ ایسا مریض اگر کسی وجہ سے سخت اضطراب کا شکار ہو جس کی وجہ سے انہیلر کا استعمال ضروری ہو تو اس کےلیے اجازت ہے مگر روزے کی قضا کرنی ہو گی ۔

وہ مریض جن کا مرض شدید ہے اور دن کو بھی انہیلر استعمال کرنے سے ان کےلیے چارۂ کار نہیں تو وہ روزے نہ رکھیں ۔ اور جب انہیں سہولت کے ایام میسر ہوں تو روزے کی قضا کریں ۔ بالفرض ایسے ایام میسر نہ ہوں اور عمر کے لحاظ سے انہیں آیندہ ایسے دن ملنے کی امید نہ ہو تو وہ روزے کا فدیہ دیں ۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے : طاقت نہ ہونا ایک تو واقعی ہوتا ہے اور ایک کم ہمتی سے ہوتا ہے ۔ کم ہمتی کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اکثر اوقات شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ ہم سے یہ کام ہرگز نہ ہو سکے گا اور کریں گے تو مرجائیں گے ، بیمار پڑ جائیں گے ۔ پھر جب خدا پر بھروسہ کر کے کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ادا کرا دیتا ہے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیطان کا دھوکا تھا ۔ ۷۵ برس کی عمر میں بہت لوگ روزے رکھتے ہیں ۔
ہاں ! ایسے کمزور بھی ہو سکتے ہیں کہ ستّر ہی برس کی عمر میں نہ رکھ سکیں تو شیطان کے وسوسوں سے بچ کر خوب صحیح طور پر جانچ چاہیے، ایک بات تو یہ ہُوئی ۔
دوسری یہ کہ ان میں بعض کو گرمیوں میں روزہ کی طاقت واقعی نہیں ہوتی مگر جاڑوں میں رکھ سکتے ہیں ۔ یہ بھی کفارہ نہیں دے سکتے،بلکہ گرمیوں میں قضا کرکے جاڑوں میں روزے رکھنا ان پر فرض ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان میں بعض لگاتار مہینہ بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے ۔ مگر ایک دو دن بیچ کر کے (ناغہ کرکے) رکھ سکتے ہیں تو جتنے رکھ سکیں اُتنے رکھنا فرض ہے ۔ جتنے قضا ہو جائیں جاڑوں میں رکھ لیں ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفار ہ دینے کی اجازت نہیں ، بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں ۔ اگر قبل شفا موت آجائے تواس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں ۔ غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں، نہ لگاتار نہ متفرق ، اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اُس عذر کے جانے کی امید نہ ہو ، جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کر دیا کہ گنڈے دار روزے متفرق کرکے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ، ایسے شخص کو کفارہ کاحکم ہے ۔ ہر روزے کے بدلے پونے دوسیر گیہوں اٹھنی اُوپر بریلی کی تول سے(۵) ، یا ساڑھے تین سیر جَو ایک روپیہ بھر اُوپر (۶) ۔ اسے اختیار ہے کہ روز کا (کفارہ / فدیہ) روز دے دے یا مہینہ بھر کا پہلے ہی ادا کردے یا ختمِ ماہ کے بعد کئی فقیر وں کو دے یا سب ایک ہی فقیر کو دے ، سب جائز ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ٤ صفحہ ۶۱۲ رضا اکیڈمی ممبئی،چشتی)

اسی فتاویٰ رضویہ میں ہے : اگر صائم اپنے قصد وارادہ سے اگریا لوبان خواہ کسی شَے کا دُھواں یاغبار اپنے حلق یا دماغ میں عمداً بے حالتِ نسیانِ صوم داخل کرے ، مثلاً بخور سلگائے اور اسے اپنے جسم سے متصل کرکے دُھواں سُونگھے کہ دماغ یاحلق میں جائے تو اس صورت میں روزہ فاسد ہو گا ۔
درمختار میں ہے : مفادہ أنہ لو أدخل حلقہ الدخان أفطر أی دخان کان ولو عودا أو عنبرا لو ذاکراًلإمکان التحرز عنہ فلیتنبہ لہ کما بسطہ الشرنبلالی.
علامہ شرنبلالی نے غنیہ ذوی الاحکام وامداد الفتاح ومراقی الفلاح تینوں کتابوں میں فرمایا : وہذا لفظالمراقی : وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ من أدخل بصنعہ دخانا حلقہ بأی صورۃ کان الإدخال فسد صومہ سواء کان دخان عنبر أوعود أو غیرہما حتی من تبخر ببخور فآواہ إلی نفسہ واشتم دخانہ ذاکراً لصومہ أفطر لإمکان التحرز عن إدخال المفطر جوفہ ودماغہ وہذا مما یغفل عنہ کثیر من الناس فلیتـنبّہ لہ ۔
ولا یتوہم أنہ کشم الورد ومائہ والمسک لوضوح الفرق بین ہواء تطیب بریح المسک وشبہہ وبین جوہر دخان وصل إلی جوفہ بفعلہ ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ٤ صفحہ ۵۸۸ ، ۵۸۹ ، رضا اکیڈمی ممبئی)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : وَلَوْ قَدَرَ عَلَی الصِّیَامِ بَعْدَ مَا فَدَی بَطَلَ حُکْمُ الْفِدَاء ِ الَّذِی فَدَاہُ حَتَّی یَجِبَ عَلَیْہِ الصَّوْمُ ہٰکَذَا فِی النِّہَایَۃِ ۔ (فتاویٰ عالمگیری کتاب الصوم الباب الخامس الأعذار التی تبیح الإفطار جلد 1 صفحہ 228 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فتاویٰ رضویہ میں ہے : فدیہ صرف شیخ فانی کےلیے رکھا گیا ہے جو بہ سبب پیرانہ سالی روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو ، نہ آیندہ طاقت کی امید، کہ عمر جتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گا اس کے لیے فدیہ کا حکم ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۴ صفحہ ۶۰۲ رضا اکیڈمی ممبئی)
کنز میں ہے : الشیخ الفانی ھو یفدی فقطغیر (شیخ) فانی پر قضا فرض ہے ۔پیش از قضا قضا آجائے تو فدیہ کی وصیت واجب ۔ کمافی ردالمحتار وغیرہ من الأسفار ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 4 صفحہ 611 رضا اکیڈمی ممبئی،چشتی)

ڈاکٹر صاحبا ن سے ہم نے اس سلسلے میں جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق سانس کے مریض کے پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں تکلیف اور دشواری محسوس ہوتی ہے انہیلر کے ذریعے ایسے کیمیکلز گیس یا ما ئع بوندوں کی شکل میں ان کے پھیپھڑے میں پہنچتے ہیں جن کی بنا پر ان کے پھیپھڑے کھل جاتے ہیں اور وہ دوبا رہ آسانی سے سانس لینے لگتاہے تو چونکہ مریض کے بدن کے اندر ایک مادی چیز جاتی ہے لہٰذا اس کا روزہ ٹوٹ جا تا ہے اور اگر مرض اس درجے کا ہے کہ پورے روزے کا وقت انہیلر کے استعمال کے بغیر مریض کےلیے گزارنا مشکل ہے تو پھر وہ معذور ہے بربنا ء عذرو بیماری روزہ نہ رکھے اور فدیہ ادا کرے ۔ (تفہیم المسائل جلد ۲ صفحہ ۱۹۰ مطبوعہ ضیا ء القرآن،چشتی)

اگر کوئی شخص دن میں انہیلر استعمال کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور آئندہ بھی صحتیابی کی کوئی امید نہیں ہے تو وہ معذور شرعی ہیں اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر (دو کلو آٹا یا اس کی قیمت) کی مقدار فدیہ دینا لازم ہے ۔ اور اگر فدیہ دینے کے بعد اللہ تعالی نے صحت عطاء فرمائی کہ روزہ رکھنے کے قابل ہو گئے تو دیا ہوا فدیہ نفل ہو جائے گا اور روزے دوبارہ رکھنے ہوں گے ۔ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں : اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے تو فدیہ صدقہ نفل ہو کر رہ گیا ان روزوں کی قضا رکھے ۔ (بہار شریعت جلد ۱ حصہ ۵ صفحہ ۳۸۸ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ آکسیجن کے استعمال سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جبکہ انہیلر کے استعمال کرنے سے روز ٹوٹ جاتا ہے اگر انسان کی حالت ایسی ہو کہ کوئی دن انہیلر کے استعمال کے بغیر نہیں گزرتا تو ایست افراد کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار (دوکلو آٹا یا اس کی قیمت) فدیہ دے دیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔