Saturday 23 March 2024

نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں

0 comments
نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : اللہ سبحانہ و تعالی نے جن و انس کو اپنی عبادت کےلیے پیدا فرمایا قرآن عظیم میں فرمایا : وماخلقت الجن والانس الالیعبدون ۔ (الذاریات ۵۶)
ترجمہ : اورمیں نے جن و انس کوتواپنی عبادت کےلیے بنایا ۔

دعا کی فضیلت اور رغبت میں کئی آیات اور احادیث موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ادعونی استجب لکم ۔ (سورۃ المومن 60)
ترجمہ : مجھ سے مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول فرماؤں گا ۔

اجیب دعوۃ الداع اذا دعان ۔ (سورۃ البقرہ 186-)
ترجمہ : جب دعا مانگنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول فرماتا ہوں ۔

اور اللہ تعالی کی عبادت کے طریقوں میں سے ایک محبوب ترین طریقہ ”دعا“ ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الدعاء مخ العبادۃ ۔ دعا عبادت کا مغز ہے ۔ (جامع الترمذی ۳۹۲۳، المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث ۴۲۳۳، الدعاء للطبرانی رقم الحدیث۵)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : الدعاء مخ العبادۃ ۔ (مشکوٰۃ کتاب الدعوات)
ترجمہ : دعا عبادت کا مغز (یعنی اصل) ہے ۔

"لایرد القدر الا الدعاء ۔ (مشکوٰۃ کتاب الدعوات)
ترجمہ : دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعاء سے زیادہ کسی چیز میں فضیلت نہیں ہے ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم عن ابی ہریرہ)

بلکہ بعض احادیث طیبہ میں تو یہاں تک فرمایا کہ : عبادت تو دعا ہی ہے ۔ جیسا کہ جناب نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الدعاء ھوالعبادۃ ۔ دعاء ہی عبادت ہے ۔ (سنن ابی داودرقم الحدیث۴۶۲۱،چشتی،جامع الترمذی رقم الحدیث ۵۹۸۲، ۰۷۱۳، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ۸۱۸۳، الدعاء للطبرانی رقم الحدیث ۱، ۲، ۳، ۴)،(امام ترمذی نے اس حدیث سے متعلق فرمایا:حسن صحیح)

یونہی جناب براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان الدعاء ھوالعبادۃ ۔ بے شک دعاء ہی عبادت ہے ۔ (تاریخ بغدادج۵ص۶۵۳)

اور اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی ، دعا میں کثرت کرنے پرمدح فرمائی ، قرآن عظیم میں ہے : ان ابراہیم لاواہ حلیم ۔ بے شک ابراہیم ”اواہ“اورحلم والے ہیں ۔ (سورہ التوبۃ آیت نمبر ۴۱۱)

اور حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : الاواہ الدعاء ۔ ”اواہ“ کے معنی ہیں : دعا کی کثرت کرنے والا ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۱ص۳۲۵)

اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کثرت سے دعا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اکثرو االدعاء ۔ دعاء کثرت سے کرو ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث۴۴۷، سنن ابی داود رقم الحدیث۱۴۷، سنن النسائی ۵۲۱۱، مسند احمد ۳۸۰۹،چشتی)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان اللہ یحب الملحین فی الدعاء ۔ بے شک اللہ تعالی بار بار دعاء کرنے والوں کومحبوب رکھتا ہے ۔ (نوادر الاصول جلد ۲ صفحہ ۲۸۲)

ان آیات و احادیث پاک سے دعا کی کتنی فضیلت معلوم ہو رہی ہے اب اگر دعا کسی جگہ ممنوع ہوگی تو اس کےلیے دلیل کا ہونا ضروری ہوگا بلا دلیل ناجائز کہنا اصول شریعت کے خلاف ہے ۔ چنانچہ بطور خاص جو شخص نماز جنازہ کے بعد دعا کو ناجائز کہے اس پر دلیل کا پیش کرنا لازم ہو گا ۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی دلیل پیش کرتے ان کی طرف سے دلائل طلب کئے جاتے ہیں حالانکہ احادیث و آثار کثرت کے ساتھ اس بارے میں موجود ہیں ممکن ہے ان ہمارے بھائیوں کی نظر سے یہ احادیث نہ گذری ہوں ۔ چنانچہ ہم خالص جذبہ اصلاح اور اس امید کے ساتھ روایات ذکر کریں گے کہ یہ ہمارے یہ بھائی اپنی اصلاح فرما لیں ۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ، بعض مسلمان کہلانے والے لوگ ۔ جہاں اہلِ اسلام کو دیگر نیک کاموں سے منع کرتے ، اور بدعت ، گمراہی وغیرہ کا راگ الاپ کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب حاصل کرنے سے روکتے ہیں ۔ وہاں دعاء ایسی عبادت پر بھی پابندی لگاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ فلاں وقت دعا کرنا ناجائز ہے ، نمازکے بعد اللہ تعالی سے مانگنا بدعت ہے ، نمازِجنازہ کے بعد اللہ سے سوال کرنا گمراہی ہے ۔ سبحنک ھذابھتان عظیم ۔

وہ کریم تو اپنی کتاب میں بغیر کسی قید کے فرمائے : وقال ربکم ادعونی استجب لکم ۔
ترجمہ : اور تمہارے رب نے فرمایا : مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔ (سورہ غافر۶۰)

اور اس کے حبیب کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں : اذا سأل احدکم فلیکثر فانہ یسأل ربہ ۔
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی دعاکرے توکثرت سے مانگے ۔ کیونکہ وہ اپنے رب سے مانگ رہا ہے ۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث۰۹۸)

لیکن یہ لوگ ہیں کہ سارے دلائل و براہین سے آنکھیں میچ کر صرف ایک عذر لنگ پیش کرتے ہیں : نمازجنازہ بھی تو دعا ہے ، پھر بعد میں دعاکیوں مانگیں ؟
حیرت کی بات ہے ۔ کیا ایک بار جوعبادت کرلی جائے ، اس کے بعد دوبارہ وہ عبادت کرنا ممنوع ہو جاتا ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وکان اذا دعا دعا ثلاثا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دعافرماتے توتین بار دعا فرماتے تھے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث ۹۴۳۳)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بار بار دعا کریں ، لیکن یہ دوبارہ دعاء سے بھی منع کریں ۔ اور اس کے باوجود اپنے آپ کوسنت کا متبع اور شریعت مطہرہ کا پابند بتائیں ۔ مالکم کیف تحکمون ؟

نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا قرآن ، حدیث اورعملِ صحابہ رضی اللہ عنہم ، سب سے ثابت ہے ۔ قرآن عظیم میں فرمایا : فاذافرغت فانصب ۔ (سورہ الشرح آیت نمبر ۷)

صحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : اذافرغت من الصلاۃ فانصب فی الدعاء واسأل اللہ وارغب الیہ ۔
ترجمہ : جب آپ نماز سے فارغ ہو جائیں تو دعاء میں کوشش کریں اور اللہ تعالی سے مانگیں اوراس کی طرف متوجہ ہوں ۔ (جامع البیان للطبری جلد ۴۲ صفحہ ۶۹۴،چشتی)(تفسیر ابن ابی حاتم الرازی جلد ۲۱ صفحہ ۷۲۴)

حضرت جناب قتادۃ رضی اللہ عنہ اس آیہ مقدسہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : امرہ اذافرغ من صلاتہ ان یبالغ فی الدعاء ۔
ترجمہ : اللہ سبحانہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ : جب اپنی نمازسے فارغ ہوجائیں تودعاء میں مبالغہ کریں ۔ (جامع البیان للطبری جلد ۴۲ صفحہ ۶۹۴)

اس آیۂ مقدسہ سے ہر نماز کے بعد دعاء کا جائز ہونا ، بلکہ شرعا مندوب و مطلوب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اور واضح بات ہے کہ نمازجنازہ بھی تو نماز ہے ، پھراس کے بعد دعاء ناجائز کیسے ہوجائے گی ؟

اور اگر کوئی کہے کہ نمازِ جنازہ نماز نہیں ، یا اس آیۂ مقدسہ سے نمازِ جنازہ مراد نہیں تو ہم اسے کہں گے : ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین ۔ فاذلم یأتوا بالشھداء فاولئک عنداللہ ھم الکاذبون ۔

اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اذاصلیتم علی المیت فاخلصوالہ الدعاء ۔
ترجمہ : جب میت پر نماز پڑھ چکو تو اخلاص کے ساتھ اس کےلیے دعاء کرو ۔ (سنن ابی داودرقم الحدیث۴۸۷۲،چشتی،سنن ابن ماجہ۶۸۴۱،السنن الکبری للبیہقی ج۴ص۰۴،صحیح ابن حبان رقم الحدیث۱۴۱۳، الدعاء للبطرانی رقم الحدیث ۷۰۱۱)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَی الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَی الْمَيِّتِ فَأخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ ۔
ترجمہ : عبد العزیز بن یحییٰ حرانی ، محمد ابن سلمہ ، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابراہیم ، ابو سلمہ بن عبدالرحمن ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھ چکو تو خلوص دل سے اس کےلیے دعا کرو ۔ (مشکوۃ المصابیح ،کتاب الجنائز ،الفصل الثانی ، الحدیث ،۱۶۷۴ج۱،ص۳۱۹ ۔ مترجم اردو جلد اول حدیث نمبر 1583 مطبوعہ فرید بکسٹال لاہور،چشتی)(أبو داؤد، السنن، باب الدعاء للميت، 3 : 210، رقم : 3199)(ابن ماجه، السنن، باب ماجاء فی الدعاء فی الصلاة علی الجنازة، 1 : 480، رقم : 1497)(ابن حبان، الصحيح، باب : ذکر الأمر لمن صلی علی ميت أن يخلص له الدعاء، 7 : 345، رقم : 3076)(بيهقی، السنن الکبری، باب الدعاء فی صلاة الجنازة، 4 : 40، رقم : 6755، مکتبة دار الباز مکة المکرمة)

اس حدیث کے دو معنیٰ ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ نمازِ جنازہ میں خالص دعا ہی کرو تلاوتِ قرآن نہ کرو حمد وثنا ء درود ودعاء کے مقدمات میں سے ہے اس صورت میں یہ حدیث امام اعظم رضی اللہ عنہ کی دلیل ہے کہ نماز جنازہ میں تلاوتِ قرآن ناجائز ہے دوسرا یہ کہ جب تم نماز جنازہ پڑھ چکو تو میت کےلیے خلوصِ دل سے دعا مانگو اس صورت میں دعا بعد نماز جنازہ کا ثبوت ہوگا خیال رہے کہ دعا بعد نمازِ جنازہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے سنتِ صحابہ بھی چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شاہ حبشہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی اور بعد میں دعا مانگی حضرت عبد اللہ بن سلام ایک جنازہ میں پہنچے نماز ہوچکی تھی تو آپ نے حاضرین سے فرمایا نماز تو پڑھ چکے میرے ساتھ مل کردعا تو کرلو ۔ جن فقہاء نے اس دعا سے منع کیا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ سلام کے بعد یونہی کھڑے کھڑے دعا مانگی جائے جس سے آنے والوں کو نماز کا دھوکہ ہو یا بہت لمبی دعائیں مانگی جائیں جس سے بلاوجہ دفن میں بہت دیر ہوجائے ۔ (مراٰۃ لمناجیح جلد ۲ صفحہ ۴۸۰ تا ۴۷۹)

اس حدیث میں ”فاخلصوا“ فرمایا ۔ یعنی ”فاء“ لائی گئی ۔ اورامام رازی ”المحصول“ میں اور امام عبید اللہ بن مسعود رحمہم اللہ علیہم ”التوضیح“ میں رقمطرازہیں : الفاء للتعقیب ۔ فاء تعقیب کےلیے آتی ہے ۔ (المحصول جلد ۱ صفحہ ۳۷۳،چشتی)(التوضیح جلد ۱ صفحہ ۰۹۳)

اور امام بدرالدین زرکشی علیہ الرحمہ ذکر فرماتے ہیں : الاجماع علی ان الفاء للتعقیب ۔ یعنی فاء کے تعقیب کے لیے ہونے پراجماع ہے ۔ (البحرالمحیط جلد ۳ صفحہ ۷۹۱)

لہٰذا حدیث کا حاصل یہ ہو گا کہ : نمازِ جنازہ سے فارغ ہو کر میت کےلیے اخلاص سے دعا کرو ۔ مالکم لاتنطقون ؟ فلیأتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صادقین ۔

اور نہ صرف یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ جنازہ کے بعد دعاء کرنے کا حکم فرمایا ۔ بلکہ نماز جنازہ کے بعد خود دعاء فرماتے بھی رہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذافرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروالاخیکم وسلوالہ بالتثبیت فانہ الآن یسأل ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہو جاتے تو اس کی قبرپہ کھڑے ہو کر فرماتے : اپنے بھائی کےلیے مغفرت کی دعاء کرو ، اوراس کےلیے ثابت قدمی کاسوال کرو ۔ کیونکہ اس سے اس وقت سوال کیا جا رہا ہے ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث ۴۰۸۲)

اور دفن کے بعد دعاء کرنا ، نمازجنازہ کے بعد ہی ہوتا ہے ۔ پس نمازِ جنازہ کے بعد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ بلکہ تدفین کی تکمیل سے پہلے ۔ یعنی دوران تدفین دعا کرنا بھی وارد ہوا ہے ۔ جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین وغیرہ کی روایت کے کلمات ہیں : مر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بجنازۃ عندقبروصاحبہ یدفن فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم استغفروالاخیکم سلوااللہ لہ التثبیب فانہ الآن یسأل ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے پاس رکھے ایک جِنازہ کے پاس سے گزرے جبکہ قبر والے کو دفن کیا جا رہا تھا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے بھائی کےلیے مغفرت کی دعاء مانگو اور اللہ تعالی سے اس کےلیے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ وہ ابھی سوال کیا جائے گا ۔ (مستدرک علی الصحیحین رقم الحدیث۰۲۳۱) ، امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں (یہ روایت طویل ہے) مقام موتہ میں جب کفار سے صحابہ جنگ فرما رہے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو شہید ہوتے ملاحظہ فرمایا تو ان پر نماز جنازہ پڑھی اور ان کےلیے دعا مانگی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دعائے بخشش کا حکم دیا الفاظ یہ ہیں : وَصَلَّی عَلَیْہِ وَدَعَا وَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لَہٗ ۔ (فتح القدیر لابن ھمام۳؍۳۶۸،چشتی)(عمدۃ القاری شرح بخاری۸؍۲۲)(نصب الرایۃ ۲؍۲۸۴)(شرح ابی داؤد للعینی ۶؍۱۵۳)(عون المعبود ۹؍۲۰)

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی (اس کے بعد) جو دعا مانگی وہ میں نے یاد کرلی الفاظ یہ ہیں : صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلٰی جَنَازَۃَ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائَہٖ ۔ (صحیح مسلم۳؍۵۹رقم۲۲۷۶)(صحیح ابن حبان ۷؍۳۴۴رقم۳۰۷۵)(مسند البزار۷؍۷۲رقم۲۷۳۹)(سنن الکبرٰی للبیہقی ۴؍۴۰رقم۷۲۱۶)(معجم الکبیر للطبرانی ۱۲؍۴۰۶رقم۴۵۰۷)(شرح السنۃ للبغوی ۵؍۳۵۶رقم۱۴۹۵)(مسند الشامین ۳؍۱۸۲رقم۲۰۳۷)(المنتقی لابن الجارود ۲؍۹۱رقم۵۲۲)(عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۲؍۴۵۴)(شرح مسلم للنووی ۳؍۳۸۳)(تحفۃ الأحوذی۳؍۸۲،چشتی)(تلخیص الحبیر۲؍۲۸۸رقم۷۷۰)(کنزالعمال ۱۵؍۵۸۷ رقم۴۲۳۰۱)(بلوغ المرام۱؍۲۰۴)(ریاض الصالحین۱؍۴۷۳)(مشکٰوۃ المصابیح ۱؍۳۷۳رقم ۱۶۵۵)(البحرالرائق شرح کنز الدقائق۵؍۳۲۲)

امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں ’’فحفظت،، کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : أَیْ عَلَّمَنِیْہِ بَعْدَ الصَّلٰوۃ  فَحَفِظْتُہ ۔
ترجمہ : دعا نماز کے بعد سکھائی ، پس انہوں نے اسے یاد کر لیا ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی ۳؍۳۸۳طبع بیروت)

ان دونوں روایتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا واضح ہے پھر اس کے جواز میں شک کرنا کیسا ؟

اب ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی کا عمل بھی ملاحظہ فرمائیے : حضرت مستظل بن حصین سے روایت ہے : أَنَّ عَلِیًّا صَلَّی عَلٰی جَنَازَۃٍ بَعْدَ مَا صُلِّیَ عَلَیْہَا ۔
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھی جانے کے بعد دعا مانگی ۔ (سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۵رقم۶۷۸۷)(التمہید لابن عبد البر ۶؍۲۷۵)(کنز العمال۱۵؍۷۱۳رقم۴۲۸۴۱)(جامع الأحادیث للسیوطی ۲۹؍۴۶۱رقم۳۲۵۶۱)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک اور روایت بھی ہے : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَیْبَانِیِّ،عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ : صَلَّیْت مَعَ عَلِیٍّ عَلٰی یَزِیْدَ بْنَ الْمُکَفَّفِ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا ،ثُمَّ مَشٰی حَتّیی أَتَاہُ فَقَالَ:أَللّٰہُمَّ عَبْدُکَ ۔
ترجمہ : حضرت عمیر بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید بن مکفف رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی آپ نے چار تکبیریں کہیں پھر چلے میت کے پاس آئے اور کہا اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے ۔۔۔۔ الخ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ۳؍۳۳۱رقم ۱۱۸۳۱اس کی سند صحیح ہے)

ان دونوں روایتوں میں جنازہ کے بعد دعا کرنی واضح ہے ۔ اسی طرح جنازہ کے بعد دعا کر نا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے دیکھیے ۔ (مصنف عبدالرزاق۳؍۵۱۹رقم۶۵۴۵،چشتی)

اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما سے بھی روایات ہیں دیکھیے ۔ (سنن الکبرٰی بیہقی۹۳۴)(کنزالعمال ۱۵؍۷۱۷ رقم۴۲۸۵۸،چشتی)(المبسوط للسرخسی۲؍۲۷)(بدائع الصنائع ۱؍۳۱۱،طبقات الکبرٰی۳؍۳۶۹)

حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اطْلُبُوْا الْخَیْرَ دَہْرَکُمْ کُلَّہٗ وَتَعَرَّضُوْا لِنَفَحَاتِ رَحْمَۃِاللّٰہ ِ ۔
ترجمہ : ہر وقت ، ہر گھڑی ، عمر بھر خیر مانگے جاؤ اور تجلیات رحمتِ الٰہی کی تلاش رکھو ۔ (شعب الایمان للبیہقی ۲؍۳۷۰رقم۱۰۸۳)(تفسیر ابن کثیر ۴؍۳۳۰)(التمہید لابن عبدالبر۵؍۳۳۹)(الاستذکار ۷؍۴۶۴)(جامع الصغیر ۱؍۸۵)(الفتح الکبیر ۱؍۱۸۱)(الفردوس بمأثورالخطاب۱؍۷۹رقم۲۴۱)(جامع الاحادیث للسیوطی ۴؍۴۹۵رقم۳۶۱۸،چشتی)(کنزالعمال ۲؍۷۴رقم۳۱۸۹)(الأسماء والصفات للبیہقی ۱؍۳۲۹)(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴؍۳۸۹رقم۱۸۹۰)

اب دیکھیے کہ نمازِ جنازہ کے بعد میت کو دفن کرنا ہوتا ہے لیکن دفن سے پہلے اور جنا زہ کے بعد دعا کرنے کا معمول سلف صالحین کا ہے یہی معمول بہا ہے یعنی اسی پر فتوٰی ہے ملاحظہ فرمائیے ، کشف الغطاء میں ہے : فاتحہ ودعا برائے میت پیش از دفن درست است و ہمیں است روایت معمولہ کذا فی الخلاصۃ الفقہ ۔
ترجمہ : میت کےلیے دفن سے پہلے فاتحہ و دعا  درست ہے اور یہی روایت معمول بہا ہے ایسا ہی خلاصۃ الفقہ میں ہے ۔ (کشف الغطاء صفحہ ۴۰ فصل ششم نماز جنازہ مطبوعہ دہلی)

میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا

دفن کرنے کے بعد میت کےلیے دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو آپ اس پر کھڑے ہو کر فرماتے کہ اپنے بھائی کےلیے بخشش مانگو، پھراس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو۔ اس سے اب سوال و جواب کیا جا رہا ہے ۔ (سنن ابو داوؤد ، صحیح الترغیب و الترھیب ، ح:۳۵۱۱)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک طویل حدیث مبارکہ روایت کی ہے جس میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے اٹھ کر باہر نکل جانے کے بارے میں فرماتی ہیں : حَتَّی جَاءَ الْبَقِیعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۔
ترجمہ : یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع (قبرستان) تشریف لے گئے وہاں کافی دیر تک کھڑے رہے پھر تین بار اپنے ہاتھ اٹھائے ۔ (مسلم، الصحیح، 2: 670، رقم: 974، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 6: 221، رقم: 25897، مصر: مؤسسة قرطبة)

میت کو قبرستان میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا حدیث مشکوٰۃ وغیرہ میں موجود ہے ۔ اس کے الفاظ ہیں : وعنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروا لاخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فانہ الان یسئال ۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دفن میت سے فارغ ہو کر قبر پر کھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے دعاء بخشش کرو۔ اور اس کےلیے بارگاہ ایزدی میں ثابت قدمی کی درخواست کرو۔ وہ اس وقت سوال کیا جاتا ہے ۔ (مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر)

امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تین سو تیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے : فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اﷲِ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ یَدَیْهِ فَجَعَلَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِکْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ فَمَا زَالَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا یَدَیْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْکِبَیْهِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھ اٹھا کر باآواز بلند اپنے رب سے یہ دعا کی : اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا فرما ، اے اللہ ! تو نے جس چیز کا مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ عطا فرما ، اے اللہ ! اہل اسلام کی یہ جماعت اگر ہلاک ہو گئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی ۔ آپ ہاتھ پھیلا کر باآواز بلند مسلسل دعا کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کے شانوں سے چادر گر گئی ۔ (مسلم الصحیح، 3: 1384، رقم: 1763،چشتی)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے ۔ جس کے اندر یہ الفاظ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل امین تشریف لائے اور کہا کہ آپ کا پروردگار آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع (مدینے کا قبرستان) جائیں اور بقیع والوں کےلیے بخشش مانگیں ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز باب ما یقال عند دخول المقابر)

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبداللہ ذوالبجادین کی قبر میں دیکھا ۔ اس میں ہے کہ جب آپ اس کے دفن سے فارغ ہوئے اور آپ نے منہ قبلے کی طرف کیا اور آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی ۔ (فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعا مستقبل القبلۃ حدیث ۵۸۶۷ کی شرح میں بحوالہ مسند ابی عوانہ)

قبرستان میں اور میت کو دفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح سنت سے ثابت ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نماز سے باہر کسی دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے ۔ اس کے بعد آپ نے ایسی بہت سی روایات ذکر کی ہیں جو کہ نماز سے باہر ہاتھ اٹھا کے دعا کرنے کے جواز کی دلیل ہیں ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : اس مسئلے میں اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں ، تاہم جتنی احادیث میں نے ذکر کردی ہیں یہ کافی ہیں ، اور مقصد یہ ہے : دعا میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق تمام مواقع کو یکجا جمع کرنے کا مدعی شخص سنگین غلطی پر ہے ( یعنی: مدعی ان مواقع کا مکمل طور پر شمار نہیں کرسکتا ۔ الخ ۔ (شرح المهذب 3/489)

غیر مقلد علماء لکھتے ہیں : عام طور پر لوگ دعا اس کو سمجھتے ہیں جس میں ہاتھ اٹھائے جائیں ، حالاں کہ دعا ء ہاتھ اٹھائے اور بغیر ہاتھ اٹھائے دونوں صورتوں میں ہوتی ہے۔ مثلاً نماز کے اندر ، سجدہ میں اور بین السجدتین اور بعض دفہ قیام میں بلا ہاتھ اٹھائے دعا ہوتی ہے ۔ اس طرح قبر پر اختیار ہے ہاتھ اُٹھا کر دعا ء کرے یا بغیر ہاتھ اُٹھائے، ہاں ہاتھ اٹھانا آداب دعا سے ہے، اس لیے اُٹھانا بہتر ہے، مگر لازم نہ سمجھے ، اور اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو اس پر اعتراض بھی نہ کرے ۔ جیسے فرضوں کے بعد کی دعا میں کوئی ہاتھ نہ اُٹھائےتو ناواقفط لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔ (عبد اللہ امر تسری روپڑی فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ ص۴۶۷) ۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد 5 صفحہ 254)

فتویٰ دارالعلوم دیوبند

سوال # 54953 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے کہ قبر پرہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے یا ہاتھ چھوڑ کر.مسنون طریقہ کیا ہے قبر پر دعا ما نگنے کا اور کیا پڑھنا چاہیے۔ اکابر علمائے دیوبند کا طرز عمل کیا تھا ؟

Published on: Sep 13, 2014

جواب # 54953 بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1389-933/L=11/1435-U

قبرستان میں داخل ہوتے وقت ان الفاظ کے ساتھ سلام کرنا چاہیے، السلام علیکم یا دار قومٍ موٴمنین أنتم سلفنا ونحن بالأثر وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون یغفر اللہ لنا ولکم أجمعین وصلی اللہ علی سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار پھر جو قرآن سے آسان معلوم ہو، سورہٴ فاتحہ، سورہٴ بقرہ کی ابتدائی آیتیں مفلحون تک، آیة الکرسی، آمن الرسول، سورہ یاسین سورئہ الملک سورہ تکاثر، سورہٴ اخلاص بارہ یا گیارہ مرتبہ یا سات مرتبہ یا تین مرتبہ پڑھ کر بخش دے۔ (شامی: ۳/۱۵۱) قبر پر ہاتھ اٹھاکر یا بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کرسکتے ہیں، البتہ ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کی صورت میں رخ قبلہ کی طرف ہو، اس طور پر کھڑا نہ ہو کہ مردے سے مانگنے کا گمان پیدا ہو۔

واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء ، دارالعلوم دیوبند

فتاویٰ ھندیہ المعروف فتاویٰ عالگیری میں ہے : یستحب اذا دفن المیت ان یجلسوا ساعۃ عند القبر بعد الفراغ بقدر مایخرجھم و یقسم لحملھا یتلون القران ویدعون للمیت کذا فی الجوھرۃ الینزۃ ۔
ترجمہ : میت کی تدفین کے بعد تھوڑی دیر ٹھہرنا ، قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مستحب ہے ۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ منہ قبلے کی طرف ہو۔ (فتاویٰ ھندیہ :1/167 )

اور نمازِ جنازہ کے بعد ، دفن کرنے سے پہلے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعاء فرمائی ہے ۔ واقدی رحمہ اللہ تعالی نے جنگ مؤتۃ کے بیان میں روایت کیا ہے : لماالتقی الناس بمؤتۃ جلس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم علی المنبر وکشف لہ مابینہ وبین الشام فھوینظر الی معترکھم فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اخذ الرأیۃ زیدبن حارثۃ…………حتی استشھد فصلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال استغفروالہ فقد دخل الجنۃ وھویسعی۔ثم اخذ الرایۃ جعفر بن ابی طالب…………حتی استشھد فصلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ودعالہ ثم قال استغفروالاخیکم فانہ شھید، دخل الجنۃ فھویطیرفی الجنۃ بجناحین من یاقوت حیث یشاء من الجنۃ ۔
ترجمہ : جب مؤتۃ میں جنگ شروع ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر اقدس پرجلوہ فرماہوئے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اورشام کے درمیان سے پردے ہٹا دئیے گئے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے معرکہ کودیکھ رہے تھے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:زیدبن حارثۃ نے جھنڈاپکڑا ۔ یہاں تک کہ وہ شہید کردیے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر نماز پڑھی ، پھر فرمایا : ان کےلیے مغفرت کی دعا کرو ، پس تحقیق وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہوئے ۔ پھر جناب جعفر بن ابی طالب نے جھنڈاپکڑا ۔ یہاں تک کہ وہ شھید کر دیے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر نماز پڑھی اور ان کےلیے دعا فرمائی ۔ پھر فرمایا : اپنے بھائی کےلیے مغفرت کی دعا کرو ، کیونکہ وہ شھید ہیں ، جنت میں داخل ہو گئے ۔ پس وہ جنت میں یاقوت کے دوپروں کے ساتھ جنت میں جہاں چاہتے ہیں اڑرہے ہیں ۔ (کتاب المغازی للواقدی صفحہ ۲۶۷،چشتی)

یہ حدیث واضح طور پر فرما رہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب زیدبن حارثہ کی نمازجنازہ اداء کرنے کے بعداپنے صحابہ کوان کےلیے دعائے مغفرت کاحکم فرمایا ۔ یونہی جناب جعفربن ابی طالب کی نمازِ جنازہ کے بعد خودبھی دعاء فرمائی اور پھر اپنے صحابہ کوان کےلیے مغفرت کی دعا کا حکم فرمایا وللہ الحمد ۔

جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ جنازہ کے بعد دعاء فرمائی ، یونہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نمازِ جنازہ کے بعد دعاء کرنا مروی ہے ۔ جناب سعیدبن مسیب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : حضرت ابن عمرفی جنازۃ فلماوضعھافی اللحد قال : بسم اللہ وفی سبیل اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ، فلمااخذ فی تسویۃ اللبن علی اللحد قال اللھم اجرھامن الشیطان ومن عذاب القبراللھم جاف الارض عن جنبیہا وصعدروحھا ولقھامنک رضوانا۔قلت : یاابن عمر اشئ سمعتہ من رسول اللہ ام قلتہ برأیک ؟ قال انی اذالقادرعلی القول بل شیئ سمعتہ من رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
ترجمہ : میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا ۔ پس جب آپ نے اسے لحدمیں رکھا تو آپ نے کہا : اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملت پر ۔ پس جب لحد پر کچی اینٹیں برابر کرنے لگے تو کہا : اے اللہ ! اسے شیطان سے اور قبر کے عذاب سے پناہ عطا فرما ۔ اے اللہ ! زمین کو اس کی دونوں کروٹوں سے جدا فرما اور اس کی روح کو اوپر پہنچا اور اسے اپنی خوشنودی عطا فرما ۔ میں نے کہا : اے ابن عمر ! یہ بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے یا آپ نے اپنی رائے سے کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تب تومیں بہت کچھ کہہ سکتاہوں ۔ بلکہ میں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ۔ (بن ماجہ رقم الحدیث۲۴۵۱،چشتی)

اس حدیث سے جہاں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نمازِ جنازہ کے بعد ، تدفین کی تکمیل سے پہلے میت کےلیے دعاء کی ۔ وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل جناب عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نمازِ جنازہ کے بعد ، اس کی تدفین کی تکمیل سے پہلے اس کےلیے دعا فرمائی ۔

ابراہیم ہجری بتاتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ کیسے اداء کی ، فرمایا : ثم کبر علیھا اربعا ثم قام بعد الرابعۃ قدر ما بین التکبیرتین یدعو ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی نماز اداء کرتے ہوئے چار تکبیرات کہیں ۔ پھر چوتھی تکبیر کے بعد اتنی دیر کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے جتنا وقت دو تکبیروں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ فعل کرنے کے بعد حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے فرمایا : کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یصنع فی الجنازۃ ھکذا ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنازہ میں یونہی کیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث 19447)

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کے کلمات تو استمرار پر دلالت کر رہے ہیں ، لیکن نہ جانے پھر کیوں بعض احباب کو اصرار ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی ایسا نہ کیا ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے فرمایا : وضع عمربن الخطاب علی سریرہ فتکنفہ الناس یدعون ویثنون ویصلون علیہ قبل ان یرفع وانا فیھم ۔
ترجمہ : جناب عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کوآپ کی چارپائی پر رکھا گیا تو لوگ آپ کو گھیرے میں لے کر ، چارپائی اٹھانے سے پہلے آپ کےلیے دعاء اور ثناء کرنے لگ گئے اور میں بھی ان دعاء کرنے والوں میں تھا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ۹۰۴۳، صحیح مسلم رقم الحدیث ۲۰۴۴،چشتی)

یہ حدیث تو صاف دلالت کر رہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں نمازِ جنازہ کے بعد چارپائی اٹھانے سے پہلے دعاء کرنا بھی رائج تھا ، اور اسی لیے وہ لوگ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی چارپائی اٹھانے سے پہلے ان کےلیے دعاء وثناء میں مصروف رہے ۔

عمیربن سعید کہتے ہیں : صلیت مع علی علی یزید بن المکفف فکبرعلیہ اربعاثم مشی حتی اتاہ فقال:اللہم عبدک وابن عبدک نزل بک الیوم فاغفرلہ ذنبہ ووسع علیہ مدخلہ فانالانعلم منہ الاخیراوانت اعلم بہ ۔
ترجمہ : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معیت میں یزید بن المکفف کی نمازجنازہ اداء کی توآپ رضی اللہ عنہ نے ان پر چار تکبیریں کہیں ، پھر چل کر ان کے قریب آئے اور کہا : اے اللہ ! تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا آج تیرے پاس حاضر ہوا ہے ۔ پس تواس کے گناہ کوبخش دے اور اس پر اس کے مدخل کو کشادہ فرما ، پس بے شک ہم اس سے بھلائی ہی جانتے ہیں اور تو اسے زیادہ بہتر جاننے والا ہے ۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ جلد ۳ صفحہ ۲۱۲،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن سلام سے متعلق مروی ہے کہ ان سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ فوت ہو گئی ۔ پس جب وہ پہنچے توفرمایا : ان سبقتمونی بالصلاۃ علیہ فلاتسبقونی بالدعاء لہ ۔ اگرتم ان پرنمازمیں مجھ سے سبقت کرگئے ہوتوان کے لیے دعاء میں مجھ سے پہل مت کرو ۔ (المبسوط جلد ۲ صفحہ ۷۴۴)(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ج۳ص۶۸۲)

بلکہ بدائع الصنائع میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز اداء فرمائی ۔ پس جب فارغ ہوئے تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے تو آپ نے دوبارہ نماز اداء کرنے کا ارادہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : الصلاۃ علی الجنازۃ لاتعاد ولکن ادع للمیت واستغفرلہ ۔
ترجمہ : جنازہ پر نماز دہرائی نہیں جاتی ۔ لیکن تم میت کےلیے دعا اور استغفار کرو ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع جلد ۳ صفحہ ۵۸۲)

نمازِ جنازہ کے بعد میت کو دفن کرنے کے بعد ، تدفین کے دوران ، اور تدفین سے پہلے ۔ ہر وقت دعاء کرنا قرآن ، حدیث نبوی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل مبارک ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال سے ثابت ہے ۔ بلکہ تدفین کے بعد دعاء ، جو نمازجنازہ کے بعد ہی ہوتی ہے ، سے متعلق تو کثیر احادیث موجود ہیں ۔ اور امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں اس سے متعلق ایک مستقل باب باندھاہے ۔ لیکن اگر اس کے باوجود کوئی یہی رٹ لگائے جائے کہ نمازجنازہ کے بعد دعاء کرنا جائز نہیں ، بدعت ہے ، گمراہی ہے ، اور لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش میں لگا رہے تواس کےلیے ہدایت کی دعاء ہی کی جا سکتی ہے ۔ احادیث مبارکہ اور روایات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنے کا معمول واضح طور پر ظاہر ہو رہا ہے ان واضح دلائل کے بعد اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو بدعت کہے تو ہم اس کےلیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اہلِ ایمان اس نیک عمل کو اپناتے ہوئے ثواب سے محروم نہیں رہیں گے ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ میں انشتار پیدا کرنے کے بجائے اتحاد کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔