فضائل و مسائل اور دلائل بیس رکعات نمازِ تراویح
واضح رہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو امام بنایا تو تمام صحابۂ کرام نے اس پر اتفاق کیا اور کسی نے اعتراض نہیں کیا ، اس لیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے بہتر قرآن مجید پڑھنے والے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو رَمضان میں ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کے لیے قیام کرے ، تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ (مسلم صفحہ ۳۸۲ حدیث ۷۵۹،چشتی)
حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ (یعنی چھوٹے) گناہ معاف ہو جائیں گے کیونکہ گناہ ِکبیرہ (یعنی بڑے گناہ) توبہ سے اور حقوق العباد (اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں توبہ کے ساتھ) حق والے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۲ صفحہ ۲۸۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے رَمضان کے روزے تم پر فرض کیے اور میں نے تمہارے لیے رَمضان کے قیام کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص رَمضان میں روزے رکھے اور ایمان کے ساتھ اورحصولِ ثواب کی نیت سے قیام کرے (یعنی تراویح پڑھے) تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے ولادت کے دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا ۔ (سنن نَسائی صفحہ ۳۶۹ حدیث ۲۲۰۷)
رَمَضانُ الْمبارَک میں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں میسر آتی ہیں انہی میں تراویح کی سنت بھی شامِل ہے اور سنت کی عظمت کے کیا کہنے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔ (ابن عساکر جلد ۹ صفحہ ۳۴۳،چشتی)
تراویح سنّتِ مُؤَکَّدَہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختم قراٰن بھی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ۔
افسوس ! آج کل دینی مُعاملات میں سستی کادَور دورہ ہے،عموماً تراویح میں قراٰنِ کریم ایک بار بھی صحیح معنوں میں ختم نہیں ہو پاتا۔ قراٰنِ پاک ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے ، مگر حال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تواکثر لوگ اُس کے ساتھ تراویح پڑھنے کےلیے تیار ہی نہیں ہوتے ! اب وُہی حافظ پسند کیا جاتا ہے جو تراویح سے جلد فارِغ کر دے ۔ یاد رکھئے ! تر اویح اور نمازکے علا وہ بھی تلاوت میں حرف چبا جا نا حرام ہے ۔ اگر تراویح میں حافظ صاحب پورے قرآنِ کریم میں سے صرف ایک حرف بھی چبا گئے تو ختم قران کی سنت ادا نہ ہو گی ۔ بلکہ دورانِ نماز حرف چب جانے کی وجہ سے معنیٰ فاسد ہونے یا مہمل یعنی بے معنیٰ ہو جانے کی صورت میں وہ نماز بھی فاسد ہو جائے گی ۔لہٰذاکسی آیت میں کوئی حرف ’’چب‘‘ گیا یا دُرست ’’مخرج‘‘ سے نہ نکلا اور بدل گیا تو لوگوں سے شرمائے بغیر پلٹ کر پھر پڑھیے اور دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے ۔ ایک افسو س ناک اَمریہ بھی ہے کہ حفا ظ کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جسے ترتیل کے ساتھ پڑھنا ہی نہیں آتا ! تیزی سے نہ پڑھیں تو بھو ل جا تے ہیں ! ایسوں کی خد متوں میں ہمدردانہ مشورہ ہے ، لوگوں سے نہ شر مائیں ، اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی ناراضی بہت بھاری پڑے گی لہٰذا بلا تاخیر تجوید کے ساتھ پڑھانے والے کسی قا ری صاحب کی مدد سے از اِبتدا تا اِنتہا اپنا حفظ دُرُست فر ما لیں ۔ مدولین (وؤا،ی اور الف ساکن اور قبل کی حرکت موافق ہوتو (یعنی واؤ کے پہلے پیش اور ی کے پہلے زیر اور الف کے پہلے زبر) اس کو مد اور واؤ اور ی ساکن ماقبل مفتوح کو لین کہتے ہیں) کا خیال رکھنا لا زِمی ہے نیز مد ، غنہ ، اظہار ، اِخفا وغیرہ کی بھی رعایت فرمائیں ۔
حضرت صدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں : فر ضو ں میں ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرے اور تراویح میں مُتَوَ سِّط (یعنی درمیانہ) انداز پر اور رات کے نوافل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے ، مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم ’’مد‘‘ کا جو دَرَجہ قا رِیو ں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے۔اس لئے کہ ترتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر) قراٰن پڑھنے کا حکم ہے ۔ (بہار شریعت جلد ۱ صفحہ ۵۴۷،چشتی)(دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۲ص۳۲۰)
پارہ 29 سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّل کی چو تھی آیت میں ارشا د ِربّا نی ہے : وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ ۔
ترجمہ : اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ۔
ترتیل سے پڑھنا کسے کہتے ہیں !:
امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ’’ کمالین علیٰ حاشیہ جلالین‘‘ کے حوالے سے ’’ ترتیل ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں : ’’قراٰنِ مجید اِس طرح آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو کہ سننے والا اِس کی آیات و الفاظ گن سکے ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۶ ۲۷)
نیز فرض نماز میں اس طرح تلاوت کرے کہ جدا جدا ہر حرف سمجھ آئے، تراویح میں مُتَوَسِّط (یعنی درمیانہ) طریقے پر اور رات کے نوافل میں اتنی تیز پڑھ سکتا ہے جسے وہ سمجھ سکے ۔(دُرِّمُختَار ج۲ص۳۲۰)
’’مدارِکُ التَّنْزِیل‘‘ میں ہے : ’’قراٰن کو آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو ، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ،حروف جدا جدا ، وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے،’’ تَرْتِیْلًا ‘‘اس مسئلے میں تاکید پیدا کر رہا ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کےلیے نہایت ہی ضَروری ہے ۔‘‘ (مدارکُ التّنزیل ص۱۲۹۲)(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۸ ۲۷،۲۷۹،چشتی)
قرآنِ کریم پڑھنے پڑھانے والوں کو اپنے اندر اِخلاص پیدا کرنا ضروری ہے اگر حافظ اپنی تیزی دکھانے ، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کےلیے قرآنِ کریم پڑھے گا تو ثواب تو دُور کی بات ہے ، اُلٹا حب جاہ اور ریاکاری کی تباہ کاری میں جا پڑے گا ! اِسی طرح اُجرت کا لین دین بھی نہ ہو ، طے کرنے ہی کو اُجرت نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تراویح پڑھانے آتے اِسی لیے ہیں کہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو ، تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔اُجرت رقم ہی کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلہ (یعنی اناج) وغیرہ کی صورت میں بھی اُجرت ، اُجرت ہی ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحب نیت کے ساتھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں کچھ نہیں لوں گا یا پڑھوانے والا کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا ۔ پھر بعد میں حافظ صاحب کی خدمت کردیں تو حرج نہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیثِ مبارَک میں ہے : اِنّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات۔ یعنی اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔ (صحیح بُخاری جلد ۱ صفحہ ۶ حدیث ۱)
امام احمد رضاخان قادری عَلَیْہِ الرَّحْمہ کی بارگاہ میں اُجرت دے کر میت کے ایصالِ ثواب کےلیے خَتْمِ قرآن و ذِکرُ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کروانے سے مُتَعَلِّق جب اِستفتا پیش ہوا تو جواباً ارشاد فرمایا : تلاوتِ قراٰن وذکرِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ پر اُجرت لینا دینا دونوں حرام ہے، لینے دینے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں اور جب یہ فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اَموات (یعنی مرنے والوں) کو بھیجیں گے ؟ گناہ پر ثواب کی اُمید اور زیادہ سخت و اَشد (یعنی شدید ترین جرم) ہے ۔ اگر لوگ چاہیں کہ ایصالِ ثواب بھی ہو اور طریقۂ جائزہ شرعیہ بھی حاصل ہو (یعنی شرعاً جائز بھی رہے) تو اِس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اُتنی دیر کی ہرشخص کی مُعَیَّن (مقرر) کر دیں ۔ مَثَلاً پڑھوانے والا کہے : ’’میں نے تجھے آج فلاں وَقت سے فلاں وَقت کےلیے اِ س اُجرت پر نوکر رکھا (کہ) جو کام چاہوں گا لوں گا ۔‘‘ وہ کہے : ’’میں نے قبول کیا ۔‘‘ اب وہ اُتنی دیر کے واسطے اَجیر (یعنی ملازِم) ہو گیا ، جو کام چاہے لے سکتا ہے اس کے بعد اُس سے کہے فلاں مَیت کے لئے اِتنا قراٰنِ عظیم یا اِس قدر کلِمۂ طیبہ یا دُرُود پاک پڑھ دو۔ یہ صورت جواز (یعنی جائز ہونے) کی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ج۲۳ص۵۳۷)
اِس فتوے کی روشنی میں تراویح کےلیے حافظ صاحب کی بھی ترکیب ہو سکتی ہے ۔ مَثَلاً مسجد کمیٹی والے اُجرت طے کر کے حافظ صاحب کو ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں نماز عشا کےلیے امامت پر رکھ لیں اور حافظ صاحب بِالتَّبَع یعنی ساتھ ہی ساتھ تراویح بھی پڑھا دیا کریں کیوں کہ رَمَضانُ المبارَک میں تراویح بھی نمازِ عشا کے ساتھ ہی شامل ہوتی ہے ۔ یا یوں کریں کہ ماہِ رَمَضان المبارَک میں روزانہ دویا تین گھنٹے کےلیے (مَثَلاً رات 8 تا 11) حافظ صاحب کو نوکری کی آفر کرتے ہوئے کہیں کہ ہم جو کام دیں گے وہ کرنا ہو گا ، تنخواہ کی رقم بھی بتادیں ، اگر حافظ صاحب منظور فرمالیں گے تو وہ ملازم ہو گئے ۔ اب روزانہ حافظ صاحب کی ان تین گھنٹوں کے اندر ڈیوٹی لگا دیں کہ وہ تراویح پڑھا دیا کریں ۔ یاد رکھیے ! چاہے امامت ہو یا مؤَذِّنی ہو یا کسی قسم کی مَزدوری جس کا م کےلیے بھی اِجارہ کرتے وقت یہ معلوم ہو کہ یہاں اُجرت یاتنخواہ کا لین دَین یقینی ہے توپہلے سے رقم طے کرنا واجِب ہے ، ورنہ دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہوں گے ۔ ہاں جہاں پہلے ہی سے اُجرت کی مقررہ رقم معلوم ہو مَثَلاً بس کا کرایہ ، یا بازار میں بوری لادنے ، لے جانے کی فی بوری مزدوری کی رقم وغیرہ ۔ تواب باربارطے کرنے کی حاجت نہیں ۔ یہ بھی ذِہن میں رکھیے کہ جب حافظ صاحب کو (یاجس کوبھی جس کام کےلیے) نوکر رکھا اُس وقت یہ کہہ دینا جائز نہیں کہ ہم جو مناسب ہوگا دے دیں گے یا آپ کو راضی کر دیں گے ، بلکہ صَراحَۃً یعنی واضح طورپر رقم کی مقدار بتانی ہوگی ، مَثَلاًہم آپ کو 12ہزار روپے پیش کریں گے اور یہ بھی ضروری ہے کہ حافظ صاحب بھی منظور فرمالیں ۔ اب بارہ ہزار دینے ہی ہوں گے ۔ یاد رہے ! مسجد کے چندے سے دی جانے والی اُجرت وہاں کے عرف سے زائد نہیں ہونی چاہیے ، پہلے سے موجود امام صاحب دل برداشتہ نہ ہوں اِس کا بھی خیال رکھا جائے ، پورے ماہِ رَمضان میں نَمازِ عشا کی امامت کی چھٹی کے سبب امام صاحب کو مسجد کے چندے سے اُس ماہ کی عشا کی نمازوں کی تنخواہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اسی طرح کا عرف یعنی معمول جاری ہے ۔ ہاں حافظ صاحب کو مطالبے کے بغیر اپنی مرضی سے طۓ شدہ سے زائد مسجد کے چندے سے نہیں بلکہ اپنے پلے سے یا اسی مقصد کے لیے جمع کی ہوئی رقم دے دیں تب بھی جائز ہے ۔ جو حافظ صاحبان ، یا نعت خوان بغیر پیسوں کے تراویح ، قراٰن خوانی یا نعت خوانی میں حصہ نہیں لے سکتے وہ شرم کی وجہ سے ناجائز کام کا ارتکاب نہ کریں ۔ امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرکے پا ک روزی حاصل کریں ۔ اور اگر سخت مجبوری نہ ہو تو حیلے کے ذَرِیعے بھی رقم حاصِل کرنے سے گریز کریں کہ جس کاعمل ہوبے غرض اُس کی جزا کچھ اور ہے ۔ ایک امتحان سخت امتحان یہ ہے کہ جو رقم قبول نہیں کرتا اُس کی کافی واہ !واہ ! ہوتی ہے ۔ یہاں اپنے آپ کو حب جاہ اور ریاکاری سے بچاناضروری ہے ، بلا حاجت دوسروں سے تذکرہ کرنے سے بچنا اور دعائے اخلاص کرتے رہنا ایسے مواقع پر مفید ہوتا ہے ۔
جہاں تراویح میں ایک بار قراٰنِ پاک کی تلاوت کی جائے وہاں بہتر یہ ہے کہ ستائیسویں شب کو ختم کریں ، رقت و سوز کے ساتھ اِختتام ہو اور یہ اِحساس دل کو تڑپا کر رکھ دے کہ میں نے صحیح معنوں میں قراٰنِ پاک پڑھا یاسنا نہیں ، کوتاہیاں بھی ہوئیں ، دل جمعی بھی نہ رہی ، اِخلاص میں بھی کمی تھی ۔ صد ہزار افسوس ! دُنیوی شخصیت کا کلام تو توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا پاکیزہ کلام دھیان سے نہ سنا ، ساتھ ہی یہ بھی غم ہو کہ افسوس ! اب ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک چند گھڑیوں کا مہمان رَہ گیا ، نہ جانے آیند ہ سال اس کی تشریف آوَری کے وَقت اس کی بہاریں لوٹنے کےلیے میں زندہ رہوں گایا نہیں ! اِس طرح کے تصورات جما کر اپنی غفلتوں پر خود کو شرمندہ کرے اور ہو سکے تو روئے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی سی صورت بنائے کہ اچھوں کی نقل بھی اچھی ہے ، اگر کسی کی آنکھ سے مَحَبَّتِ قراٰن و فراقِ رَمضان میں ایک آدھ قطرہ آنسو ٹپک کر مقبولِ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہو گیا تو کیا بعید کہ اُسی کے صدقے اللہ تعالیٰ سبھی حاضرین کو بخش دے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بھی تراویح ادا فرمائی اور اسے خوب پسند بھی فرمایا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جو ایمان و طلبِ ثواب کے سبب سے رَمضان میں قیام کرے اُس کے پچھلے گناہ (یعنی صغیرہ گناہ) بخش دیے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۰۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس اندیشے کی وجہ سے ترک فرمائی کہ کہیں امّت پر (تراویح) فرض نہ کر دی جائے ۔(صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۶۵۸ حدیث ۲۰۱۲،چشتی)
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے (اپنے دورِ خِلافت میں) ماہِ رَمَضان المُبَارَک کی ایک رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ جدا جدا انداز پر (تراویح) اداکر رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقتدا میں پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں ۔ لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت سیّدنا اُبَی بِن کَعْب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو سب کا امام بنا دیا، پھر جب دوسری رات تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں (توبہت خوش ہوئے اور) فرمایا : نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ ۔ یعنی’’ یہ اچّھی بدعت ہے ۔ (بُخاری جلد ۱ صفحہ ۶۵۸ حدیث ۲۰۱۰،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہمارا کتنا خیال ہے ! محض اِس خوف سیجماعتِ تراویح پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمّت پر فرض نہ کر دی جائے ۔ اِس حدیثِ پاک سے بعض وَساوِس کا علا ج بھی ہو گیا ۔ مثَلاً تراویح کی باقاعدہ جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی جاری فرما سکتے تھے مگر نہ فرمائی اور یوں اسلام میں اچھے اچھے طریقے رائج کرنے کا اپنے غلاموں کو موقع فراہم کیا ۔ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہیں کیا وہ کام سیّدُِنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے محض اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تا قِیا مت ایسے اچھے اچھے کام جاری کرتے رہنے کی اپنی حیاتِ ظاہِری میں ہی اجازت مَرحمت فرمادی تھی ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے : جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گا اور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعد اُس پر عمل کریں گے اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں برا طریقہ جار ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں) کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ (صحیح مُسلم صفحہ ۵۰۸ حدیث ۱۰۱۷،چشتی)
اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا ، قیامت تک اسلام میں اچھے اچھے نئے طریقے جاری کرنے کی اجازت ہے جیسا کہ {۱} امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام کیا اور اس کو خود ’’اچھی بدعت‘‘ بھی قرار دیا ۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وِصال ظاہری کے بعد صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی جونیا اچھا کام جاری کریں وہ بھی بدعت حَسَنہ کہلاتا ہے ۔ {۲}مسجِد میں امام کےلیے طاق نما محراب نہیں ہوتی تھی سب سے پہلے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے مسجدُ النَّبَوِی الشّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں محراب بنانے کی سعادت حاصل کی اِس نئی ایجاد (بد عتِ حَسَنہ) کو اس قدر مقبولیت حاصل ہے کہ اب دنیابھر میں مسجد کی پہچان اِسی سے ہے ۔ {۳} اِسی طرح مساجِد پر گنبد و مینار بنانا بھی بعد کی ایجاد ہے ، یہاں تک کہ مسجد الحرام کے مَنارے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے دَور میں نہیں تھے ۔ {۴} ایمانِ مفصل ۔ {۵} ایمانِ مُجْمَل ۔ {۶} چھ کلمے اور ان کی تعداد و ترکیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا اور ان کے نام ۔ {۷} قراٰنِ کریم کے تیس پارے بنانا ، اِعراب لگانا ، ان میں رُکوع بنانا ، رُموزِ اَوقاَف کی علامات لگانا ۔ بلکہ نقطے بھی بعدمیں لگائے گئے ، خوبصورت جِلدیں چھاپنا وغیرہ ۔ {۸} احادیثِ مبارَکہ کو کتابی شکل دینا ، اس کی اَسناد پر جرح کرنا ، ان کی صحیح ، حسن، ضعیف اور موضوع وغیرہ اَقسام بنانا ۔ {۹} فقہ ، اُصولِ فقہ و علم کلام۔ {۱۰}زکٰوۃ و فطر ہ سکۂ رائج الْوقت بلکہ با تصویر نوٹوں سے ادا کرنا ۔ {۱۱} اونٹوں وغیرہ کے بجائے سفینے یاہوائی جہازکے ذَرِیعے سفر حج کرنا ۔ {۱۲} شریعت و طریقت کے چاروں سلسلے یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اسی طرح قادِری، نقشبندی ، سہروردی اور چشتی۔
ہر بدعت گمراہی نہیں ہے : ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ان دو احادیث مبارکہ (۱) کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار ۔ یعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے ۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) (۲) شَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلالۃ ۔ یعنی بدترین کام نئے طریقے ہیں ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے ۔ (مسلم ص۴۳۰ حدیث۸۶۷) ۔ کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں احادیثِ مبارَکہ حق ہیں ۔ یہاں بدعت سے مراد بدعتِ سَیِّـَٔہ (سَیْ ۔یِ ۔ ئَ ہْ) یعنی بری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بری ہے جو کسی سنت کے خلاف یا سنت کو مٹانے والی ہو ۔ جیسا کہ دیگر احادیثِ مقدسہ میں اس مسئلے کی وضاحت موجود ہے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ گمراہ کرنے والی بدعت جس سے اللہ عزوجل اور اس کا رسول راضی نہ ہو ، تو اُس گمراہی والی بدعت کو جاری کرنے والے پر اُس بدعت پر عمل کرنے والوں کی مثل گناہ ہے ، اُسے گناہ مل جانا لوگوں کے گناہوں میں کمی نہیں کرے گا ۔ ( تِرمذی ج ۴ ص۳۰۹ حدیث۲۶۸۶)
بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیْہِ فَہُوَ رَد ۔ (بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۱۱ حدیث ۲۶۹۷) ۔ یعنی ’’جو ہمارے دین میں ایسی نئی بات نکالے جو اُس (کی اصل) میں سے نہ ہو وہ مردود ہے ۔
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا ایسی نئی بات جو سنت سے دُور کر کے گمراہ کرنے والی ہو ، جس کی اَصْل دین میں نہ ہو وہ بدعتِ سَیِّـَٔہ یعنی بری بدعت ہے ، جبکہ دین میں ایسی نئی بات جو سنت پر عمل کرنے میں مدد کرنے والی ہو یا جس کی اصل دین سے ثابت ہو وہ بدعت ِحسنہ یعنی اچھی بدعت ہے ۔
حضرتِ سیِّدُ نا شیخ عبدالحق محدث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک ،’’ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : جو بدعت اُصول اور قواعد سنت کے موافق اور اُس کے مطابق قیاس کی ہوئی ہے (یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُ اللَّمعات جلد ۱ صفحہ ۱۳۵،چشتی)
بدعت حسنہ کے بغیر گزارہ نہیں :
اچھی اور بری بدعات کی تقسیم ضروری ہے کیوں کہ کئی اچھی اچھی بدعتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو صرف اس لئے ترک کر دیا جائے کہ قرونِ ثلاثہ یعنی (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان (۲) تابعینِ عظام اور (۳) تبع تابعینِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے اَدوارِ پر انوارمیں نہیں تھیں ، تو دین کا موجود ہ نظام ہی نہ چل سکے ، جیسا کہ دینی مدارِس ، ان میں درسِ نظامی ، قراٰن و احادیث اور اسلامی کتابوں کی پریس میں چھپائی وغیرہ وغیرہ یہ تمام کام پہلے نہ تھے بعد میں جاری ہوئے اور بدعت حسنہ میں شا مل ہیں ۔
تراویح ہر عاقِل و بالغ مسلمان بھائی اور مسلمان بہن کےلیے سنَّت ِمُؤَکَّدہ ہے ۔ (دُرِّ مُخْتارج ۲ص۵۹۶) اس کا تَرْک جائز نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۶۸۸)
تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ہیں ۔حضر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے عہد میں بیس رَکْعَتَیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ (السُّنَن ُالکبرٰی للبیہقی ج۲ص۶۹۹حدیث۴۶۱۷)
تراویح کی جماعت سنّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہ ہے ، اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑ دی تو سب اِسائَت کے مرتکب ہوئے (یعنی بُرا کیا) اور اگرچند افراد نے با جماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا ۔ (ہِدایہ ج۱ص۷۰)
تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادِق تک ہے ۔ عشا کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہو گی ۔ (عالمگیری ج۱ص ۱۱۵ )
وترکے بعد بھی تراویح پڑھی جا سکتی ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۷) جیساکہ بعض اوقات 29 کو رویت ہلا ل کی شہادت (یعنی چاند نظر آنے کی گواہی) ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے ۔
مُستَحَب یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کریں ، اگر آدھی رات کے بعد پڑھیں تب بھی کراہت نہیں ۔ (لیکن عشا کے فرض اتنے مؤخّر (Late) نہ کئے جائیں ) (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۸)
تراویح اگر فوت ہو ئی تو اس کی قضا نہیں ۔ (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۸)
بِہتر یہ ہے کہ تراویح کی بیس رَکْعَتَیں دو دو کر کے دس سلام کے ساتھ ادا کر یں ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۵۹۹)
تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ایک سلام کے ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہیں ، مگر ایسا کرنا مکروہِ (تنزیہی) ہے ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۵۹۹،چشتی)
ہر دو رَکعت پر قعدہ کرنا فرض ہے ، ہر قعدے میں اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُود شریف بھی پڑھے اور طاق رَکعت (یعنی پہلی ، تیسری ، پانچویں وغیرہ) میں ثَنا پڑھے اور امام تعوذ و تَسْمِیہ بھی پڑھے ۔
جب دو دو رَکعت کر کے پڑ ھ رہا ہے تو ہر دو رَکعت پر الگ الگ نیت کرے اور اگر بیس رَکْعَتوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تب بھی جائز ہے ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۵۹۷)
بلاعذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے نز د یک تو ہوتی ہی نہیں ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۶۰۳)
تراویح مسجِدمیں باجماعت ادا کرنا افضل ہے ، اگر گھر میں باجماعت ادا کی توترکِ جماعت کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا ۔(فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۱۶)
عشا کے فرض مسجد میں باجماعت ادا کرکے پھر گھر یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِشرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشا کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو ترک واجب کے گناہ گار ہوں گے ۔
نابالِغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔
بالِغ کی تراویح (بلکہ کوئی بھی نماز حتی کہ نفل بھی) نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی ۔
تراویح میں پورا کلامُ اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنَّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہ ہے لہٰذا اگر چند لوگوں نے مل کر تراویح میں ختم قراٰن کا اہتما م کرلیا تو بقیہ علاقے والوں کےلیے کفایت کرے گا ۔ فتاوٰی رضویہ جلد 10 صفحہ 334 پر ہے : قرآن دَرْ تراویح خَتم کَرْ دَنْ نَہ فَرْضَ سْت وَ نَہ سُنَّتِ عین۔یعنی تراویح میں قراٰنِ کریم ختم کرنا نہ فرض نہ سنَّتِ عین ہے ۔ اور صفحہ 335 پر ہے : خَتْمِ قُرآن دَرْ تراویح سنّتِ کِفایہ اَسْت ۔ یعنی تراویح میں ختمِ قراٰن سنَّتِ کِفایہ ہے ۔
اگر با شرائط حافِظ نہ مل سکے یا کسی وجہ سے ختم نہ ہو سکے تو تراویح میں کوئی سی بھی سورَتیں پڑھ لیجیے اگر چاہیں تو اَلَمْ تَرَ سے وَالنَّاس دو بار پڑھ لیجیے ، اِس طرح بیس رَکْعَتَیں یا د رکھنا آسان رہے گا ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)
ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ جَہر کے ساتھ (یعنی اُونچی آواز سے) پڑھنا سنت ہے اور ہر سورت کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مُستَحَب ہے ۔ مُتَأَخِّرین (یعنی بعد میں آنے والے فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ علیہم) نے ختم تراویح میں تین بار قُل ھُوَ اللہ شریف پڑھنا مُسْتَحَب کہا نیز بہتریہ ہے کہ ختم کے دن پچھلی رَکعت میں الٓمّٓۚ سے مُفْلِحُوْن تک پڑھے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۶۹۴،۶۹۵،چشتی)
اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قراٰنِ پاک اُن رَکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اِعادہ کریں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُسْتَحَب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
الگ الگ مسجِد میں تراویح پڑھ سکتا ہے جبکہ ختم قراٰن میں نقصان نہ ہو ، مَثَلاً تین مساجد ایسی ہیں کہ ان میں ہر روزسوا پارہ پڑھا جا تا ہے تو تینوں میں روزانہ باری باری جا سکتا ہے ۔
دو رَکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جا ئے ، آخر میں سجدۂ سہو کر لے۔اور اگر تیسری کاسجدہ کر لیا توچارپوری کر لے مگر یہ دو شمار ہوں گی۔ہاں دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
تین رَکْعَتَیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رَکْعَتَیں دوبارہ پڑھے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)
سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہو اُس کا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب (یعنی شک و شبہ) کا شکار ہو تو جس پر اعتماد ہو اُس کی بات مان لے (عالمگیری ج ۱ ص۱۱۷)
اگرلوگوں کوشک ہوکہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ ؟ تو دو رَکْعَت تنہا تنہا پڑھیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
افضل یہ ہے کہ تمام شفعوں میں قرائَ ت برابر ہو اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں ،اِسی طرح ہر شفع (کہ دو رکعت پر مشتمل ہوتا ہے اس) کی پہلی اور دوسری رَکعت کی قرائَ ت مساوی (یعنی یکساں) ہو ، دوسری کی قرائَ ت پہلی سے زائد نہیں ہونی چاہیے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
امام و مقتدی ہر دو رَکعت کی پہلی میں ثنا پڑھیں (امام اَعُوْذ اور بِسْمِ اللّٰہ بھی پڑھے) اور اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُودِابراہیم اور دعابھی ۔ (دُرِّمُختار و رَدُّالْمُحتار جلد ۲ صفحہ ۶۰۲،چشتی)
اگر مقتدیوں پر گِرانی (دشواری) ہوتی ہو تو تشہد کے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ پر اکتفا کرے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۶۹۰،چشتی)(دُرِّمُختار و رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)
اگر ستائیسویں کویا اس سے قبل قراٰنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخرِ رَمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)
ہر چاررَکْعَتَوں کے بعد اُتنی دیر بیٹھنا مُستَحَبْ ہے جتنی دیر میں چاررَکعات پڑھی ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰،چشتی)(عالمگیری ج۱ص۱۱۵)
اس بیٹھنے میں اسے اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا ذِکر و دُرُود اور تلاوت کرے یا چار رَکعتیں تنہا نفل پڑھے ۔ (دُرِمُخْتار ج۲ص۶۰۰)(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰)
یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں : ⬇
سُبْحٰنَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ، سُبْحٰنَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَيْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِيَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحٰنَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰٓئِكَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ ۔بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ ۔
بیس رَکْعَتَیں ہو چکنے کے بعد پانچواں ترویحہ بھی مُسْتَحَب ہے ، اگر لوگوں پر گراں ہو تو پانچویں بار نہ بیٹھے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۵)
مقتدی کو جائز نہیں کہ بیٹھا رہے ، جب امام رکوع کرنے والا ہو تو کھڑا ہو جائے ، یہ مُنافقین سے مشابہت ہے ۔ سُوْرَۃُ النِّسَآء کی آیت نمبر 142 میں ہے : وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ ۔
ترجَمہ : اور (منافِق ) جب نَماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے) ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۳)(غُنیہ ص۴۱۰)
فرض کی جماعت میں بھی اگر امام رُکوع سے اُٹھ گیا تو سجدوں وغیرہ میں فورًا شریک ہو جائیں نیز امام قعدۂ اُولیٰ میں ہو تب بھی اُس کے کھڑے ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدے میں شامل ہو گئے اور امام کھڑا ہو گیا تو اَلتَّحِیَّاتُُ پوری کیے بغیر نہ کھڑے ہوں ۔
رَمضان شریف میں وِتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے ، مگر جس نے عشا کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے وہ وِتر بھی تنہا پڑھے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۲،۶۹۳) ۔ بعض علما نے لکھا وتر جماعت سے پڑھ سکتا ہے ۔
یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشا و وِتر پڑھائے اور دوسرا تراویح ۔
حضرت سیّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرض و وِتر کی جماعت کرواتے تھے اور حضرتِ سیِّدُنا اُبَیِّ بِنْ کَعْب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ تراویح پڑھاتے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۶،چشتی)
قیام رمضان (تراویح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس رکعت فرمایا ۔ اسی پر حضرات خلفاءِ راشدین میں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ ، دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ائمہ مجتہدین و حضرات مشائخ رحمہم اللہ عمل پیرا رہے ، بلادِ اسلامیہ میں چودہ سو سال سے اسی پر عمل ہوتا رہا ہے اورامت کا اسی پر اجماع ہے ۔ اس کی مزید وضاحت آ رہی ہے ان شاء اللہ ۔
لفظ تراویح
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّۃُ الْوَاحِدَ ۃُ مِنَ الرَّاحَۃِ کَتَسْلِیْمَۃِ مِنَ السَّلَامِ ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری ج4ص317)
ترجمہ : تراویح ”ترویحہ‘‘ کی جمع ہے اور ترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں ، جیسے ”تسلیمہ‘‘ ایک بار سلام کرنے کو کہتے ہیں ۔
تراویح کسے کہتے ہیں ؟ ”ترویحہ‘‘ وہ نشست ہے جس میں کچھ راحت لی جائے ۔ چونکہ تراویح کی چاررکعتوں پر سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر راحت لی جاتی ہے ، اس لیے تراویح کی چار رکعت کو ایک ”ترویحہ‘‘ کہا جانے لگا اورچونکہ پوری تراویح میں پانچ ترویحے ہیں ، اس لیے پانچوں کامجموعہ ”تراویح‘‘ کہلاتاہے ۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمہة اللہ علیہ فرماتے ہیں : سُمِّیَتِ الصَّلٰوۃُ فِی الْجَمَاعَۃِ فِی لَیَالِی رَمَضَانَ التَّرَاوِیْحَ ؛ لِاَنَّھُمْ اَول مااجتمعواعلیھا کانوا یستریھون بین کل تسلیمتین ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری: جلد 4 صفحہ 317،چشتی)
ترجمہ : جونماز رمضان کی راتوں میں باجماعت اداکی جاتی ہے اس کانام ”تروایح“ رکھا گیا ہے ، اس لیے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پہلی بار اس نماز پر مجتمع ہوئے تو وہ ہر دو سلام (چاررکعتوں) کے بعدآرام کیاکرتے تھے ۔
تروایح سنت مؤکدہ ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام رمضان کو سنت قرار دیا ہے جیسا کہ باحوالہ عرض کیا جا چکا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرات خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس پر مواظبت فرمائی اور یہی مواظبت دلیل ہے کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد روایت فرماتے ہیں : فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ۔ (سنن ابی داؤد: ج2،ص290، باب فی لزوم السنۃ،چشتی)
ترجمہ : تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کو اپنے اوپر لازم پکڑو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ۔
اس حدیث مبارک میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت پر لفظ ’’علیکم‘‘ (تم پر لازم ہے) اور عضوا علیھا بالنواجذ (مضبوطی سے تھام لو) سے عمل کرنے کی تاکید فرمائی اسی طرح حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت پر بھی عمل کرنے کی تاکید فرمائی جوکہ تراویح کے سنت موکدہ ہونے کی دلیل ہے ۔
با جماعت نمازتراویح ؛ تین راتیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تراویح کی جماعت صرف تین دن ثابت ہے ، پورا مہینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو کوئی نماز نہ پڑھائی جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔ چنانچہ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِىَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ. قَالَ فَقَالَ « إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ». قَالَ فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلاَحُ . . . . ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 204، باب فى قيام شهر رمضان،چشتی)
ترجمہ : فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے پورا مہینہ ہمیں رات میں نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ سات دن باقی رہ گئے تو (تیئسویں رات میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نمازپڑھائی یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی جب چھ دن رہ گئے تو نماز نہیں پڑھائی پھر جب پانچ دن رہ گئے تو نماز پڑھائی (یعنی پچیسویں رات میں) یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ اس رات کے باقی حصے میں بھی ہمیں نفل پڑھا دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ! آپ نے فرمایا : جب کوئی شخص امام کے ساتھ نماز (عشاء) پڑھے پھر اپنے گھر واپس جائے تو اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا ۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب چار دن باقی رہ گئے توآپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی ، جب تین دن باقی رہ گئے توآپ نے اپنے گھر والوں ، عورتوں اور دیگر لوگوں کوجمع کیا اور نماز پڑھائی (یعنی ستائیسویں رات) اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ہم سے سحری رہ جائے گی ، پھر باقی ایام بھی آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی ۔
بیس رکعت تراویح کا صحیح احادیث اور تابعین کے اقوال سے ثبوت
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تراویح کے بارے میں مختلف روایات ہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمین کا اس پر اتفاق ہےکہ تراویح بیس رکعت پڑھی جائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل کو صحابہ کرام سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ، لہٰذا تراویح بیس رکعت ہی پڑھنی چاہئیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیس رکعت تراویح سے متعلق جو روایات منقول ہے ، اسے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے : ⬇
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم بیس (20) رکعات تراویح پڑھتے تھے ، اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے ، اور امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے ۔
(السنن الکبری للبیھقی جلد 2 صفحہ 698 رقم الحدیث : 4288، ط: دارالکتب العلمیۃ،چشتی)
علامہ محمد بن علی نیموی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ( معتبر ) ہیں ، اس حدیث کی سند کو امام نووی نے اپنی کتاب " الخلاصہ" میں ، امام ابن العراقی نے "شرح التقریب " میں ، اور امام سیوطی نے " المصابیح" میں صحیح کہا ہیں ۔ (التعلیق الحسن علی آثار السنن : ص 246 ، ط: مکتبۃ البشری،چشتی)
امام مالک نے یزید بن رومان علیہما الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ لوگ (یعنی صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک کے مہینے میں تئیس رکعات (تین رکعت وتر سمیت) تراویح پڑھا کرتے تھے ۔ (مؤطّا الامام مالك بروايۃ يحيي بن يحيي الليثي ، ص 60 ، رقم الحدیث : 249 ، ط: مکتبۃ دارالکتب العلمیۃ،چشتی)
اس حدیث کی سند اگرچہ مرسل ہے ، لیکن مرسل روایت جمہور (جن میں حنفیہ بھی شامل ہیں) کے نزدیک حجت ہے ، نیز مرسل روایت کی تائید جب دوسرے صحیح مرسل روایت سے ہو جاتی ہے تو وہ قابل حجت ہوتی ہے ، ذیل کی روایت بھی مرسل ہے ، لہذا وہ اس کی مؤید ہے ۔
یحیی ابن سعید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 2 صفحہ 163، رقم الحدیث 7682 ط مكتبة الرشد)
اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، اور مرسل ہونے کی وجہ سے ماقبل روایت کےلیے مؤید ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں، مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے ، اس لیے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین ! آپ نے ایک ایسی بات کا حکم دیا ہے ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں عمل نہیں رہا ہے (یعنی باجماعت تراویح پڑھنا) ، حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا : میں جانتا ہوں ، لیکن یہی بہتر ہے ، تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی ۔ (الأحاديث المختارة لضياءالدين المقدسي: ج3، ص 367، رقم الحدیث : 1161، ط: دار خضر)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (20) رکعات ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھتے پایا ہے ۔ (جامع الترمذی : ج 3، ص 160، ط: مطبعۃ مصطفى البابي الحلبي – مصر،چشتی)
حضرات تابعین رضی اللہ عنہم کے چند مشاہدات بھی ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں : ⬇
جلیل القدر تابعی حضرت عطاء رضی الکہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم) کو بیس (20) رکعات تراویح اور تین (3) رکعات وتر پڑھتے پایا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ بحوالہ آثار السنن،ص 247،ط : مکتبۃ البشری)
امام نیموی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند حسن (صحیح کی ایک قسم ) ہے ۔
ابوالخصیب علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ سوید بن غفلہ ہمیں تراویح پانچ ترویحے پڑھاتے تھے ، جو کہ بیس رکعات بنتی ہیں ۔ (السنن للبیھقی بحوالہ آثار السنن، ص 247، ط : مکتبۃ البشری،چشتی)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند بھی حسن ہے ۔
ان صحیح روایات سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام اور حضرات تابعین کو بیس رکعت تراویح پر جمع فرمایا تھا ، اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی اس تعداد کی مخالفت اور تبدیلی بھی ثابت نہیں ہے ، لہٰذا بیس رکعت تراویح خلفائے راشدین ، بلکہ موجود تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا متفقہ سنت طریقہ ثابت ٹھہرا ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد صرف دو سال بعد شروع ہوا ہے ، لہٰذا بیس رکعت کا فیصلہ بالکل دورِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مزاج نبوی کے موافق تھا ۔
نیز جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی سنت کی اتباع کا حکم دیا ہے ، ویسے ہی حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اتباع کا حکم بھی دیا ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کی سنت پر چلو ، اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو ، اور (دین میں) نئی چیزوں کی ایجاد سے بچو، کیونکہ دین میں (اپنی طرف سے) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (سنن ابی داود،ج4، ص 200 رقم الحدیث 4607 ط المکتبۃ العصریۃ)
ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا بیس رکعت تراویح کے سنت ہونے پر اتفاق ہے ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج 27، ص 141، ط : مطابع دار الصفوة مصر،چشتی)
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ :
اگر لوگ زیادہ دیر تک کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ، تو ایسی صورت میں بیس رکعت تراویح پڑھنا افضل ہوگا ۔ اسی تعداد پر اکثر مسلمانوں کا عمل ہے ، اور یہی تعداد دس اور چالیس رکعت کے درمیان معتدل طریقہ ہے ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج 27، ص 144، ط : مطابع دار الصفوة – مصر)
سعودی وہابیوں کے مشہور عالم علامہ ابن باز کہتے ہیں کہ : اگر کوئی شخص بیس رکعات تراویح پڑھتا ہے ، جیسا کہ حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے رمضان کی بعض راتوں میں منقول ہے ، تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ تراویح کا معاملہ وسعت والا ہے ۔ (مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز،ج 11، ص 322، ط: مکتبۃ الشاملۃ،چشتی)
نمازِ تراویح کی بڑی ہی فضیلت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو سنت قرار دیا ہے ، اس لیے حضرات فقہا فرماتے ہیں کہ ہر عاقل بالغ مرد اور عورت کے ذمے تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔ (سنن نسائی حدیث: ۲۲۱۰)(فیض القدیر حدیث: ۱۶۶۰)(ردالمحتار مع درالمختار)
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح مردوں کےلیے تراویح پڑھنے کا اہتمام ضروری ہے اسی طرح خواتین کےلیے بھی تراویح کا اہتمام ضروری ہے ، بعض خواتین تراویح کو اہمیت نہیں دیتیں بلکہ اس کو ترک کرنے کےلیے معمولی بہانوں کا بھی سہارا لیتی ہیں ، ان کا یہ طرز عمل ہرگز درست نہیں ۔ تراویح چونکہ سنت مؤکدہ ہے، اس لیے بلاعذر تراویح چھوڑتے رہنا گناہ ہے ۔ (ردالمحتار)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح ادا فرماتے تھے
رمضان المبارک کے مہینہ میں نمازِ عشاء کے بعد بیس 20 رکعت نماز تراویح پڑھنی صحیح مذہب میں سنت مؤکدہ ہے اور تمام آئمہ دین یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ، امام مالک اور ان کے تلامذہ ، امام شافعی اور ان کے تلامذہ، امام احمد بن حنبل اور ان کے تلامذہ کے علاوہ وہ دیگر مجتہدین بھی (جن کے مقلدین آج دنیا میں نہیں ہیں) اس کے سنت ہونے اور بیس رکعات ہونے پر متفق ہیں ۔ رافضیوں کے علاوہ کوئی جماعت ِتراویح کامنکر نہیں ہے ۔ غیر مقلدین (نام نہاد اہلحدیث یا اہل الظواہر) بیس رکعات پر کمزور اعتراض کرتے ہیں اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث آٹھ رکعات پڑھتے ہیں ، جو ثابت نہیں ۔ آٹھ رکعات کوتراویح کہنا بھی غلط اور باطل ہے ، کیونکہ ”تراویح” جمع ہے ”ترویحہ ”واحد ہے ، ایک ترویحہ چار رکعات کا ہوتا ہے توعربی قواعد کے اصولو ں کے مطابق آٹھ رکعات ادا کرنے کے نتیجے میں دو ترویحہ بنتے ہیں جس پرتثنیہ کا اطلاق ہوتا ہے اور لغت کے حساب سے ”ترویحتان” کہا جاتا ہے ۔ عربی میںکسی بھی لفظ کی جمع کا اطلاق دو سے زائد پر ہوتا ہے لہٰذا آٹھ رکعات کو کبھی بھی تراویح قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ حضوراکرم نے کبھی بھی رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کے طور پر ادا نہیں فرمائیں ۔ اور نہ ہی آٹھ رکعات ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے بسند صحیح حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سے روایت کی کہ” لوگ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی ایسا ہی تھا ”اور ”موطا ”میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ ”عمر رضی اللہ عنہ، کے زمانہ میں لوگ تئیس 23 رکعات پڑھتے ”۔ بیہقی نے کہا اس میں تین رکعتیں وتر کی ہیں اور مولیٰ علی رضی اللہ عنہ ، نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ ”رمضان میں لوگوں کو بیس ٢٠ رکعتیں پڑھائے ۔” نیز اس کے بیس رکعت میںیہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجبات کی ہر روز بیس رکعتیں ہیں (یعنی فجر 2 + ظہر 4 + عصر 4 + مغرب 4 + عشاء فرض 4 + وتر 3 = 20رکعات) لہٰذا مناسب تھا کہ یہ بھی بیس ہوں ۔ (بہار شریعت حصہ چہارم ، صفحہ نمبر 30،چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان المبارک میں بیس رکعات ( تراویح) اور وتر ادا فرماتے تھے ۔ (مصنف شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 669 حدیث نمبر 7774،چشتی)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں ۔کو بیس (20) رکعات نماز تراویح اور وتر پڑھائے رمضان المبارک میں ۔ ( تاریخ جرجان صفحہ نمبر 276)
حدیث : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رمضان المبارک میں دو راتیں لوگوں کو بیس رکعات (20) نماز تراویح پڑھائی۔(تلخیص الجبیر جلد 2 صفحہ نمبر 45)
منکرین بیس (20) غیر مقلد وھابی حضرات کو چیلنج ہے کہ آٹھ رکعات نماز تراویح پر ایک حدیث پیش کرو جس میں لفظ تراویح اور رمضان المبارک کا ذکر ہو اور جسے محدثین کرام علیہم الرّحمہ نے لکھا اور قبول کیا ہو نماز تہجد والی روایت سے دھوکہ دے کر لوگوں کا بابرکت مہینے میں عبادت سے مت روکو وقت تا قیامت ہے ہم بحوالہ جواب کے منتظر رہیں گے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیس رکعات نماز تراویح پڑھنا متعدد حوالہ جات کے ساتھ ثابت کر دیا ہے الحمد للہ ۔
بیس رکعت تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا تھا
محترم قارئینِ کرام : غیر مقلدین کے شیخ الکل جناب نذیر حسین دہلوی کے فتاویٰ نذریہ میں ہے : بیس (20) رکعات نماز تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا اور یہ اجماع صحابہ رضی عنہم کا ہے ۔ بیس رکعت تراویح اس حدیث سے ثابت ہیں ﻋﻦ ﯾﺰﯾﺪ ﺑﻦ ﺭﻭﻣﺎﻥ ﺍﻧﮧ ﻗﺎﻝ ﮐﺎﻥ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﯾﻘﻮﻣﻮﻥ ﻓﯽ ﺯﻣﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ ﻓﯽ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺑﺜﻠﺚ ﻭﻋﺸﺮﯾﻦ رکعۃ ۔ (ﻣﻮﻃﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ﺹ 98) ، (ﺍﺳﻨﺎﺩﮦ ﺻﺤﯿﺢ ﻋﻠﯽ ﺷﺮﻁ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ،چشتی) ۔
ترجمہ : یزید بن رومان سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ لوگ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں تیئیس رکعت (بیس تراویح اور تین وتر) پڑھتے تھے ۔ (ﺍﺱ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﻁ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ) ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر 1 صفحہ 634)
کیا کہتے ہیں منکرین بیس رکعات تراویح اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کو مانیں یا غیر مقلدین کی مانیں ؟
بیس (20) رکعات نماز تراویح پر علمائے امت کا اجماع ہے
محترم قارئینِ کرام : امام ترمذی رحمۃ ﷲ کا ارشاد : ترمذی شریف میں بابُ مَاجَاءَ فِي قِیَامِ شَھْرِ رَمضان کے تحت امام ترمذی رحمۃ ﷲ نے قیام رمضان یعنی تراویح کے باب میں احادیث پیش کرتے ہوئے فرمایا ” واختلف اھل العلم فی قیام رمضان فرأی بعضھم ان یصلی احدی واربعین رکعة مع الوتر وھو قول اھل المدینة والعمل علی ھٰذا عندھم بالمدینة وَأ کْثرُ أھلِ العِلْمِ عَلٰی مَا رُوِيَ عَن عَلِّيٍ وَ عُمَرَ وَغَیْرِھِمَا مِنْ أصحابِ النبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عِشْرِینَ رَکْعَۃً وَ ھُوَ قَولُ الثَّوريِّ وَ ابْنِ المبارَکِ و الشَّافَعيِّ وقالَ الشافِعيُّ وَ ھَکذا أدْرکْتُ بِبَلَدِنَا مَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً ۔ (ترمذی صفحہ 104)
ترجمہ : تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ : علامہ ابن تیمیہ رقمطراز ہیں قَدْ ثَبَتَ أنَّ اُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ کانَ یَقُوْمُ بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً فِي قِیَامِ رَمَضانَ یُوتِرُ بِثَلاثٍ فَرَأی کَثِیْرٌ مِنْ العُلَمَاءِ أنَّ ذَلِکَ ھُوَ السُنَّۃُِ لأنَّہُ أقَامَہُ بَیْنَ المُھَاجِرِیْنَ وَالأنْصَارِ وَلَمْ یُنْکِرْہُ مُنْکِرٌ ۔
ترجمہ : علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ (صحابی) لوگوں کو قیام رمضان ( نماز تراویح) کے بیس (20) رکعات پڑھاتے اور وتر تین رکعات پڑھاتے تھے ، کثرت سے علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ بیس رکعات ہی سنت ہیں کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کرام اور انصار صحابہ کے درمیان بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی اور ان میں سے کسی نے بھی اسکا انکار نہیں کیا ۔(فتاوی ابن تیمیہ ص 112 ج 23)
علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : اگرکوئی نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزیادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگی ۔ (الاختیارات 64 ،چشتی)
غنیۃ الطالبین یں ہے : وَصَلاۃُ التَراویْحِ سُنَّۃُ النَّبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، وَھِيَ عِشْرُونَ رَکْعَۃً یَجْلِسُ عَقِبَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَ یُسَلِّمُ ۔
ترجمہ : نماز تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت ہے اور یہ بیس رکعات ہے ہر دو رکعت کے بعد بیٹھے اور سلام پھیرے ۔ (غنیۃالطالبین صفحہ 567)
امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام صاحب کے مایہ ناز شاگرد امام ابو یوسف رحمۃ اللہ نے امام صاحب سے دریافت کیا ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیس رکعات کے بارے میں کو ئی بات معلوم تھی ۔ امام صاحب نے فر مایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کو ایجاد کر نے والے نہ تھے (یعنی بلا شبہ حضرت عمر کو بیس رکعت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کوئی بات ضرور معلوم تھی ورنہ وہ اپنی طرف سے بیس کی تعین نہ کر دیتے ) ۔ (فیض الباری شرح بخاری ،العرف الشذی ، بحر الرائق ، طحاوی)
آثار امام ابو یوسف میں ہے ۔ یوسف اپنے والد امام ابو یوسف سے وہ امام ابو حنیفہ سے وہ حماد سے وہ ابرا ہیم نخعی رحمہم اللہ سے وایت کر تے ہیں کہ لوگ (صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم) رمضان میں پانچ ترویحات پڑھتے تھے (واضح ہو ہر ترویحہ چار رکعت کا ہوتا ہے ، اس طرح پانچ ترویحات ، بیس رکعتں ہوگئیں)
امام شمس الائمہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ امام سرخسی اپنی شہرہ آفاق کتاب “ مبسوط “ جو کہ امام محمد رحمہ اللہ علیہ کی ظاہر الروایات پر مشتمل ہے ۔میں فر ماتے ہیں ۔
تراویح ہمارے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعتیں ہیں اور مام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ سنت اس میں چھتیس رکعتیں ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ جو شخص امام مالک کے قول اور مسلک پر عمل کر نا چاہے ، اسے مناسب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے بیان کے مطابق عمل کرے ۔ یعنی جماعت کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھے کیونکہ یہی سنت ہے ، پھر (16 رکعتیں) تنہا پڑھے ، ہر چار رکعات میں دو سلام ہوں (یعنی دو دو رکعتیں کر کے) اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے فر مایا کہ کل کی کل 36 رکعتیں جماعت کے ساتھ ادا کر نے میں کوئی حرج نہیں ۔ (کتاب المبسوط جلد 2)
ملک العلماء علامہ علاء الدین ابی بکر بن مسعود کاسانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : تراویح کی مقدار بیس رکعات ہے دس سلاموں سے ، پانچ ترویحات میں ، ہر دو سلام میں ایک ترویحہ ہوگا، یہی عالم علماء کا قول ہے ۔ اور امام مالک نے ایک قول میں چھتیس رکعات اور ایک قول میں چھبیس رکعات بیان فر مائی ہے ۔اور صحیح عام علماء کا ہی قول ہے اس لئے کہ روایت کیا گیا ہے حضرت عمر نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو رمضان المبارک میں حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا ، پس انہوں نے ان کو ہر رات میں بیس رکعتیں پڑھائیں اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔ پس صحابہ کرام کی طرف سے بیس رکعات پر اجماع ہو گیا ۔ (بدائع الصنائع جلد 1،چشتی)
علامہ بر ہان الدین مر غینانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب ہدایہ علامہ بر ہان الدین مر غینای نے بھی بیس رکعات تراویح کو سنت قرار دیا ہے اور یہ بھی فر مایا کہ امام حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے بیس رکعات تراویح کا مسنون ہو نا روایت کیا ہے ۔ والاصح انھا سنۃ کذا روی الحسن عن ابی حنیفہ ۔ ( ہدایہ ج1 ص 151،چشتی)
علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله علیه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه، امام شافعی رحمة الله علیه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات تراویح سنت ہے ۔ (بدایة المجتہد)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ : تراویح کی بیس (20) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ادا فرمایا ۔ (کتاب المغنی)
علامہ نووی شافعی رحمة الله علیه لکھتے ہیں ۔ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (20) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (4) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اورامام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله علیه نے بیس (20) رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ (المجموع)
جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین بیس (20) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے ، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے ۔ جب انھوں نے بیس (20) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (20) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (8) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے ، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے ۔
امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔ (المبسوط 2 / 145)
اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں ابوعبداللہ (یعنی امام احمد) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہیں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔ (المغنی لابن قدامہ المقدسی 1 / 457)
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائیگی باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔ (المجموع للنووی 4 / 31)
قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی 595ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں : واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث۔” رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، امام مالک رحمہ اللہ نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد رحمہم اللہ اور داوٴد رحمہ اللہ نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے، اور ابنِ قاسم رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے ۔ (بدایة المجتہد ص 156، مکتبہ علمیہ لاہور)
مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی 1201ھ) لکھتے ہیں : وھی (ثلاث وعشرون) رکعة بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل (ای عمل الصحابة والتابعین، الدسوقی)۔(ثم جعلت) فی زمن عمر بن عبدالعزیز (ستًا وثلاثین) بغیر الشفع والوتر لٰکن الذی جری علیہ العمل سلفًا وخلفًا الأوّل ۔
ترجمہ : اور تراویح ، وتر سمیت 23 رکعتیں ہیں ، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا) عمل تھا ، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر) ۔ (شرح الکبیر الدردیر مع حاشیة الدسوقی ص 315،چشتی)
امام محی الدین نووی رحمہ اللہ (متوفی 676ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداوٓد وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بنیزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر ۔
ترجمہ : رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ ، علاوہ وتر کے ۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب ، امام احمد رحمہ اللہ اور امام داوٴد رحمہ اللہ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ، اور قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں ۔ (مجموع شرح مہذب جلد 4 صفحہ 32،چشتی)
حافظ ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی 620ھ) المغنی میں لکھتے ہیں : والمختار عند ابی عبدالله رحمہ الله فیھا عشرون رکعة وبھٰذا قال الثوری وابوحنیفة والشافعی، وقال مالک ستة وثلاثون ۔” امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک تراویح میں بیس رکعتیں مختار ہیں ۔ امام ثوری ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور امام مالک رحمہ اللہ چھتیس کے قائل ہیں ۔ (مغنی ابنِ قدامہ ج ص 798، 799، مع الشرح الکبیر)
تراویح کی ابتدا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہوئی، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہوجائیں تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو دو ، چار چار آدمی جماعت کرلیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عام جماعت کا رواج ہوا ، اور اس وقت سے تراویح کی بیس ہی رکعات چلی آرہی ہیں ، اور بیس رکعات ہی سنتِ مٶکدہ ہیں ۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دن کی عبادت روزہ ہے اور رات کی عبادت تراویح، اور حدیث شریف میں دونوں کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہےجعل الله صیامہ فریضة وقیام لیلہ تطوعًا اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا ہے ۔ (مشکوٰة صفحہ 173،چشتی)
اس لئے دونوں عبادتیں کرنا ضروری ہیں، روزہ فرض ہے، اور تراویح سنتِ موٴکدہ ہے ۔ تہجد الگ نماز ہے، جو کہ رمضان اور غیرِ رمضان دونوں میں مسنون ہے ، تراویح صرف رمضان مبارک کی عبادت ہے، تہجد اور تراویح کو ایک نماز نہیں کہا جا سکتا ، تہجد کی رکعات چار سے بارہ تک ہیں ، درمیانہ درجہ آٹھ رکعات ہیں ، اس لیے آٹھ رکعتوں کو ترجیح دی گئی ہے ۔
جو شخص روزے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ بھی تراویح پڑھے۔جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے، اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہیے ، تراویح مستقل عبادت ہے ، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔رمضان شریف میں مسجد میں تراویح کی نماز ہونا سنتِ کفایہ ہے، اگر کوئی مسجد تراویح کی جماعت سے خالی رہے گی تو سارے محلے والے گناہگار ہوں گے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا، بلکہ لوگ تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے، سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک امام پر جمع کیا ۔ (صحیح بخاری صفحہ 269 باب فضل من قام رمضان) ۔ اور یہ خلافتِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے دُوسرے سال یعنی 14ھ کا واقعہ ہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 121)(تاریخ ابنِ اثیر صفحہ 189،چشتی)
نماز تراویح بیس رکعات ہیں اور اہل سنت و جماعت کی علامت ہیں
تراویح ترویحة کی جمع ہے ۔ یعنی اطمینان سے پڑھی جانے والی نماز ، ہر چار رکعات کو ایک ترویحہ کہتے ہیں ۔ پانچ ترویحہ یعنی بیس (20) رکعات تراویح دس سلاموں کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وامام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ، امام مالک رحمة الله عليه ، امام شافعی رحمة الله عليه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه ، وجمہور علماء اہل سنت و جماعت کے نزدیک سنت موکدہ ہے ۔
فقہِ شافعی اور بیس (20) رکعت تراویح : وقد قال الشافعي رحمه الله في كتابه الأم:ج1ص142 ما نصه؛"ورأيتهم بالمدينة يقومون بتسع وثلاثين، وأحب إلى عشرين لأنّه روي عن عمر، وكذلك يقومون بمكة، ويوترون بثلاث" ۔
ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : میں نے مدینہ والوں کو دیکھا کہ وہ (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) انتالیس (39) رکعت پڑھتے ہیں اور مجھے بیس (20) رکعت (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) پسند ہے بیشک وہ حضرت عمرؓ سے مروی ہے. اور اسی طرح مکّہ والے بھی قیام کرتے، اور وتر پڑھتے تین (رکعت).(كتاب الأم للإمام الشافعي : كتاب الصلوة باب في الوتر صفحه ١٠٥)
محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں : “(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداود وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بن یزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر ۔ (مجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲،چشتی)
ترجمہ : رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام احمد اور امام داوٴد وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور قاضی عیاض نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک فرماتے ہیں کہ: تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں ۔
(امام غزالی علیہ الرحمہ (450 - 505 ھ) تراویح کی نماز ٢٠ رکعت سنّت موکدہ فرماتے ہیں ۔ [احیاء العلوم : ١/٣٦٨)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاامیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے (یعنی باجماعت تراویح) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، تو انھوں نے (حضرت ابی بن کعب رضى الله عنه نے) بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی ۔ (اسنادہ حسن المختارہ للضیاء المقدسی ۱۱۶۱،چشتی)
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھتے تھے اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے اورامیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے ۔ (الصیام للفریابی مخرج ۱۷۶، وسنن بیہقی۴۸۰۱، اس حدیث کے صحیح ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه امام مالک کی روایت نقل کرتے ہیں۔ اور امام مالک رحمة الله عليه نے یزید بن خصیفہ رحمة الله عليه کے طریق سے حضرت سائب بن یزید رضى الله عنه سے بیس (۲۰) رکعات نقل کی ہے ۔ (فتح الباری)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه تلخیص الحبیر میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان المبارک کی ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی، دوسری رات بھی صحابہ جب جمع ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو بیس رکعات تراویح پڑھائی اور جب تیسری رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد مسجد میں جمع ہوئی تو آپ صلى الله عليه وسلم تشریف نہیں لائے پھر صبح میں ارشاد فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز (تراویح) تم پر فرض کردی جائے اور تم کر نہ سکو ۔
بیس (۲۰) رکعات تراویح پر صحابہ و علماء امت کا اجماع ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں لوگوں کو تراویح باجماعت پڑھنے کا فیصلہ فرمایا ۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه و آلہ وسلم کے بعد تراویح کی پہلی عام جماعت تھی ۔ (صحیح ابن حبان)
حضرت یزید بن رومان رحمة الله عليه (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ تیئس (۲۳) رکعات پڑھا کرتے تھے ۔ (موطا امام مالک ۲۵۲، اسنادہ مرسل قوی آثار السنن ۶/۵۵)
امام شافعی رحمة الله عليه (تبع تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکّہ مکرمہ میں بیس (۲۰) ہی رکعات تراویح پڑھتے دیکھا ہے ۔ (الاُم و سنن ترمذی)
امام ترمذی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (۲۰) رکعات ہے ۔ (سنن ترمذی)
علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی۔ تو یہ صحابہ کی طرف سے اجماع تھا ۔ (بدائع الصنائع)
علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله عليه (متوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله عليه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ، امام شافعی رحمة الله عليه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات تراویح سنت ہے ۔ (بدایة المجتہد جلد ١ صفحہ ۱۵۶ مکتبہ علمیہ لاہور،چشتی)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (۲۰) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ادا فرمایا ۔ (المغني لابن قدامة)
علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں : تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات کا ہے ، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (۲۰) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (۴) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه نے بیس (۲۰) رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ (المجموع)
بیس (٢٠) رکعت تراویح پر اجماع
علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں : تو نماز تراویح سنّت ہے اجماع علماء سے ، اور ہمارا (شافعی) مذھب (بھی) یہ ہے کہ وہ بیس (٢٠) رکعت ہے دس (١٠) سلام سے اور جائز ہے انفرادی طور پر اور جماعت سے بھی. اور ان دونوں میں افضل کیا ہے ؟ ... (صحیح قول کے مطابق) ساتھیوں کے اتفاق سے جماعت افضل ہے ۔ [المجموع شرح مہذب : ٣/٥٢٦]
علامہ ابن تیمیہ اور مسئلہ تراویح
جب رافضیوں (شیعہ) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی جماعت قائم کر کی بدعت کا ارتکاب کا ہے ، تو امام ابن تیمیہ نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دفاع میں یہ جواب دیا کہ : ترجمہ : اگر عمر (رضی اللہ عنہ) کا بیس رکعت تراویح کو قائم کرنا قبیح اور منھی عنہ (جس سے روکا جانا چاہیے) ہوتا تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اس کو ختم کر دیتے جب وہ کوفہ میں امیر المومنین تھے ۔ بس جب ان کے دور میں بھی حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا یہ طریقہ جاری رہا تو "یہ اس عمل کے اچھا ہونے پر دلالت کرتا ہے" بلکہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی قبر کو روشن کرے جس طرح انہوں نے ہمارے لیے ہماری مسجد کو روشن کردیا ۔ (اسد الغابہ:٤/١٨٣؛ غنیۃ الطالبین:۴۸۷۔ موطا محمد،باب قیام شھر رمضان:۱/۳۵۵شاملہ،چشتی)
ابو عبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) نے رمضان میں قاریوں کو بلاکر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس (٢٠) رکعت پرھاۓ (اور) وہ کہتے ہیں سیدنا علی انھیں وتر پڑھایا کرتے تھے ۔ (السنن الکبریٰ البیہقی: ٢/٤٩٦) (منہاج السنّہ : ٢/٢٢٤، اردو ترجمہ پروفیسر غلام علی الحریری)
ترجمہ : تحقیق کہ بلا شبہ حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو بیس (٢٠) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھائیں، اسی وجہ سے جمہور امت کا مسلک یہی ہے کہ یہ "سنّت" ہے ، اس لیے کہ یہ فعل مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کے سامنے کیا گیا اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی ۔ (مجموع فتاویٰ ابن_تیمیہ: ٢٣/١١٢ و ١١٣، نزاع العلماء في مقدار قيام رمضان، الطبعة الأولى من مطابع الرياض)
بیس (20) ركات تراويح پر اجماع صحابہ غیر مقلد اہل حدیث حضرات کے گھر کی گواہی ۔ (فتاویٰ نذیریہ : 1/634]
جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم بیس (۲۰) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے ، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہو سکتی ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلى الله عليه و آلہ وسلم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرات تھے ۔ جب انھوں نے بیس (۲۰) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (۲۰) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (۸) رکعات تراویح کہتے ہیں ، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے ، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے ۔
معترضین کے دلائل کی حیثیت
آٹھ رکعت تراویح سنّت نبوی نہیں ۔ آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو ٨ رکعت تراویح کے لیے پیش کرتے ہیں : ⬇
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ، قَالَ : يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ".[صحيح البخاري » رقم الحديث: 1883 ؛ صحيح مسلم » رقم الحديث: ١٢٢٥،چشتی]
ترجمہ : حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے ؟ ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر (رمضان) میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے آپ چار رکعت پڑھتے تھے اس کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو پھر چار رکعت نماز پڑھتے تھے تم ان کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعت پڑھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں۔ فرمایا میری آنکھ سو جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے ۔
یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں ؛ اس لیے کہ (١) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں رمضان (اور غیر رمضان) میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کا ذکر ہے چار، چار اور تین ۔ [بخاري : 1883 ؛ مسلم : 1225] ۔ اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،[مسلم : 1228] اور ایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳) رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسلم : 1223] اور ایک صحیح حدیث میں نو (۹) رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔[مسلم : 1226] حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض (باہم ٹکراتی) ہیں۔ ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کا ترک لازم آئے گا؛ لہٰذا ان حدیثوں کی توجیہ و تاویل کرنی ضروری ہوگی ۔ علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲) رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔ اورایک مرسل حدیث میں سترہ (۱۷) رکعات پڑھنا مذکور ہے۔(مصنف عبدالرزاق: ۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پر اصرار کرنا اور باقی حدیثوں کا ترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔ (۲) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں "أتنام قبل أن توتر" کے الفاظ ہیں ۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم سو کراٹھنے کے بعد نماز ادا فرماتے تھے ، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے ، جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ : إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بستر کے قریب نہیں آتے تھے) ۔ [صحيح ابن خزيمة : 2070] ۔ نیز حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھانا ثابت ہے ؛ لہٰذااس حدیث کو تراویح پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے ۔ (۳) حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادا فرما کر آرام فرمایا، جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثر مسجد میں (جماعت) سے نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ (۱۱) رکعات کی اس حدیث کو تراویح سے جوڑنا، اور بیس (۲۰) رکعات کی نفی میں اس حدیث کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ۔ (۴) حدیث کے مطابق اس نماز کے بعد وتر بھی اسی کی طرح اکیلے ہی پڑھتے ، جبکہ یہ لوگ اسی حدیث کے خلاف خود وتر بھی جماعت سے پڑھتے ہیں، کیوں ؟؟؟ (٥) حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱) رکعات کی روایت کے اخیر میں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیر آپ سو گئے تھے ؟) کے الفاظ قابلِ غور ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ نماز وتر ہو ؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث ۔ (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو (۹) رکعات وتر پڑھ کر دو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ (٦) اس حدیث میں (فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ) کے الفاظ یعنی رمضان اور غیر (رمضان) میں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نماز تہجد ہے، چونکہ یہ آپ رمضان میں بھی پڑھتے تھے، اسی لئے اس حدیث کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ (كتاب التهجد) میں بھی لائیں ہیں اور (كِتَاب : صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ) میں بھی لائیں ہیں ، کیونکہ آپ بھی ان دونوں کو الگ الگ نماز سمجھتے جو آپ کے عمل سے بھی واضح ہوتا ہے ۔
امام بخاری رحمة الله علیہ بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھتے : چناچہ امام ابن حجر العسقلاني (773 هـ - 852 هـ) رحمة اللہ علیہ [هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥] میں لکھتے ہیں، اور جسے غیرمقلد (اہل_حدیث) علامہ وحید الزمان بھی اپنی کتاب [تیسیر الباری شرح بخاری: ١/٤٩] نقل کرتے ہیں کہ : "امام حاکم ابو عبدالله نے بسند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمّد بن اسماعیل "بخاری" جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے، وہ نماز_تراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس (٢٠) آیات یہاں تک کے کہ قرآن ختم کرتے پھر سحر کو (نمازِ تہجد میں) نصف سے لیکر تہائی قرآن تک پڑھتے اور تین راتوں میں قرآن ختم کرتےاور دن کو ایک قرآن ختم کرتے اور وہ افطار کے وقت ختم ہوتا تھا ۔ (هدي الساري مقدمة فتح الباري- شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥، ذکر و سيرته و شمائله و زهده و فضائله]
ویسے تو یہ بخاری بخاری چلاتے ہیں، لیکن اپنا مسلک ثابت کرنے کےلیے بخاری کو چھوڑ کر (مسلم) کی طرف چلے، مسلم کی اس حدیث میں سرے سے تراویح کا ذکر ہی نہیں ، تہجد کا ذکر ہے جس کا کون منکر ہے؟ لہذا موضوع سے ہی خارج ہے ۔
اور اس حدیث پر خود ان کا بھی عمل نہیں اس لیے کہ خود ترجمہ یہ کیا ہے کہ "فجر کی اذان تک" یہ نماز جس کو خود تراویح کہہ رہے ہیں کہ آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم پڑھتے تھے ، جبکہ آج خود عشاء کی نماز کے فوراً بعد آٹھ (٨) رکعت پڑھ کر نیند کے مزے لیتے ہیں ۔ صحیح حدیث پر تو ان کا بھی عمل نہیں ہم سے گلا کس بات کا ؟
تہجد کو محدثین نے کتب حدیث میں (قیام الیل) یعنی رات کی نماز، اور تراویح کو (قیام الیل فی رمضان) یعنی رمضان میں رات کی نماز ، کے الگ الگ ابواب سے ذکر کیا ہے ، اور یہ دونو جدا جدا نمازیں ہیں. چناچہ مشھور غیرمقلد اہلحدیث علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : "وأما قيام اليل فهو غير قيام رمضان" يعني: قیام الیل، قیام رمضان کے علاوہ ہے ۔ (نزل الأبرار: ص ٣٠٩)
تراویح اور تہجد کا وقت بھی جدا جدا ہے ، چناچہ فتاویٰ علماۓ حدیث (٦:٢٥١) میں ہے کہ: تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد "اول" شب کا ہے اور تہجد کا "آخر" شب کا ہے ۔
غیرمقلد عالم ثناء الله امرتسری لکھتے ہیں : تہجد کا وقت صبح سے پہلے کا ہے، اول وقت میں تہجد نہیں ہوتی ۔ (فتاویٰ ثناءیہ: ١/٤٣١)
محدثین کی طرح فقہاء کرام بھی تراویح اور تہجد کو علیحدہ علیحدہ نماز سمجھتے اور کتبِ حدیث کی طرح کتبِ فقہ میں بھی الگ الگ ابواب میں ذکر کرتے ہیں ۔
تہجد اور تراویح میں فرق کا ثبوت : تراویح سنّت ہے اور تہجد نفل نماز ہے ۔
تہجد کی مشروعیت قرآن سے "نفل" ثابت ہے : "اور کچھ رات جاگتا رہ قرآن کے ساتھ یہ نفل (زیادتی/اضافی) ہے تیرے لیے " (١٧:٧٩) جبکہ نمازِ تراویح کی : مشروعیت "سنّت" ہونا حدیث سے ثابت ہے ، حدیث : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ ، وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ ، فَمَنْ صَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا ؛ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔ [امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص287 مکتبہ امداىہ]
ترجمہ : رسول ﷲ صلى الله عليه و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہىں اور میں نے تمہارے لیے اس کے قیام کو (تراویح) سنت قرار دیا ہے پس جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور قیام کرے (تراویح پڑھے) ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ بخشش دئىے جائىں گئے ۔
فائدہ : یہ سنّت نماز (تراویح) بھی روزہ کی طرح رمضان کی خاص عبادات میں سے ہے ۔
قرآن : یعنی اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو ۔ (٥٩/٧)
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ سَمَّاهُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِؓ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ کعبؓ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا ، قَالَ : " مَا هُوَ ؟ " ، قَالَ : نِسْوَةٌ مَعِي فِي الدَّارِ قُلْنَ لِي : إِنَّكَ تَقْرَأُ وَلَا نَقْرَأُ ، فَصَلِّ بِنَا ، فَصَلَّيْتُ ثَمَانِيًا وَالْوَتْرَ ، قَالَ : فَسَكَتَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فَرَأَيْنَا أَنَّ سُكُوتَهُ رِضًا بِمَا كَانَ " ۔ (مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 20626)
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ سے بحوالہ ابی بن کعب مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلى الله عليه و آلہ وسلم آج رات میں نے ایک کام کیا ہے ، نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم نے پوچھا وہ کیا ؟ اس نے کہا میرے ساتھ گھر میں جو خواتین تھیں وہ کہنے لگیں کہ آپ قرآن پڑھنا جانتے ہو ہم نہیں جانتیں لہٰذا آپ میں نماز پڑھاؤ چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیے اس پر نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم خاموش رہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم کی خاموشی مذکورہ واقعے پر رضا مندی کی دلیل تھی ۔
حقیقت : "قیام اللیل" کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ ، قمي اور عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ضعیف ہیں ؛ اور "مسند احمد" مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ تو نہیں رَجُلٌ سَمَّاهُ ہے یعنی مبہم (نہ معلوم) راوی ہے اور باقی وہی دونوں قمي اور عِيسَى یھاں بھی ہیں، پس اصولِ حدیث کے اعتبار سے یہ حدیث نہایت ضعیف ہے، اور ہیثمی کا اسے حسن کہنا خلافِ دلیل ہے ۔
یہ روایت تین کتابوں میں ہے : "مسند احمد" میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں، "ابو یعلیٰ" کی روایت میں (یعنی رمضان) کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ فہمِ راوی ہے نہ کہ روایتِ راوی ، "قیام اللیل" میں فی رمضان کا لفظ ہے جو کسی راوی تحتانی کا ادراج ہے، جب اس حدیث میں فی رمضان کا لفظ ہی مُدرج ہے تو اس کو تراویح سے کیا تعلق رہا ۔
"ابو یعلیٰ" اور "قیام اللیل" سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ خود حضرت ابی بن کعب کا ہے ، مگر "مسند احمد" سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی اور شخص کا ہے اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ راوی اس واقعہ کو کماحقہ ضبط نہیں کر سکے ۔ (یعنی ضبط راوی میں بھی ضعف ثابت ہوا)
پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ رکعت پڑھنے والا (قيام الليل کی روایت میں) کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ اور (مسند احمد کی روایت میں کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسی ایک رات اس نے آٹھ پڑھی تھیں پہلے کبھی یہ عادت نہ تھی اسی لیے وہ کہتا ہے کہ یہ انوکھا کام میں نے آج رات ہی کیا ہے ورنہ آٹھ میری عادت نہیں اور نہ میں اسے سنّت سمجھتا ہوں. حضور صلى الله عليه و آلہ وسلم خاموش رہے ورنہ آٹھ رکعت سنّت ہوتی تو آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم خاموش کیوں رہتے ، فرماتے تم گھبرا کیوں رہے ہو یہ تو سنّت ہے ۔ معلوم ہوا کہ عہدِ نبوی صلى الله عليه و آلہ وسلم میں کوئی شخص بھی آٹھ رکعت تراویح کو سنّت نہیں سمجھتا تھا ، آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم نے خاموش رہ کر آٹھ کے سنّت نہ ہونے کی تقریر فرمادی جس سے کسی خاص حالت میں نفس جواز (اس کا صرف جائز ہونا) معلوم ہوا وہ بھی بعد میں اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ختم (منسوخ) ہوگیا ۔
نوٹ : ہم اس آٹھ (٨) رکعت والی حدیث جابر سے زیادہ بہتر اور مضبوط سند بیس (٢٠) رکعت تراویح کے ثبوت میں حضرت جابر سے ہی دوسری حدیث نبوی بیان کر چکے ہیں، لہذا جب صحیح سند اس کے خلاف وہ بھی ان ہی صحابی سے مروی حدیث ثابت ہے تو آٹھ (٨) رکعت کو سنّت اور بیس (٢٠) رکعت کو بدعت کہنا بلا دلیل ہی نہیں بلکہ خلاف (صحیح) دلیل ہے ۔
بیس (20) رکعت تراویح کا ثبوت کتب شیعہ سے : حضرت سیدنا علی المرتضى، حضرت سیدنا عثمان غنی ذو النورین کے دور خلافت میں گھر سے نکلے مسجد میں لوگوں کو جمع ہوکر نماز تراویح پڑھتے ہوۓ دیکھ کر ارشاد فرمایا : اے الله حضرت عمر کی قبر انور کو منور فرما جس نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا ۔ [شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید: ٣/٩٨]
حضرت سیدنا امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز کو بڑھا دیتے تھے ۔ عشاء کی (فرض) نماز کے بعد نماز کےلیے کھڑے ہوتے، لوگ پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ، اس طرح کے کچھ وقفہ کیا جاتا ۔ پھر اس طرح حضور سید عالم صلى الله عليه و آلہ وسلم نماز پڑھاتے ۔ [فروع کافی : ١/٣٩٤ - طبع نولکشور، ٤/١٥٤ - طبع ایران]
شیعہ کی کتاب من لایحضر الفقیہ میں بھی بیس (٢٠) رکعت تراویح کا ذکر ہے ۔ [من لایحضر الفقیہ : ٢/٨٨]
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز میں اضافہ کردیتے تھے، اور روزانہ معمول کے علاوہ بیس رکعت نماز نوافل (مزید) ادا فرماتے تھے ۔ [الاستبصار ١/٢٣١-طبع نولکشور، ١/٤٦٢-طبع ایران]
اسی لیے امام قرطبی علیہ الرحمہ (المتوفى : 463هـ) (اس حدیث کا حکم) فرماتے ہیں : قال القرطبي : أشكلت روايات عائشة على كثير من العلماء حتى نسب بعضهم حديثها إلى الاضطراب ، وهذا إنما يتم لو كان الراوي عنها واحداً أو أخبرت عن وقت واحد ۔ [فتح الباری شرح صحیح البخاری ، لامام ابن حجر : ٣/١٧، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، علامہ عینی : 11/294 ، شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك: ، شرح الزرقاني علي المواهب اللدنيه : 1/549،چشتی]
ترجمہ : مشتبہ ہوئیں حضرت عائشہ کی روایات بہت ہی زیادہ علماء پر حتاکہ منسوب کیا ان میں سے بعض نے اس حدیث کو اضطراب کی طرف (یعنی مضطرب حدیث کہا)
مضطرب حدیث : جو ثقہ (قابل اعتماد) راویوں کی صحیح سند (راویوں کے سلسلہ) سے مذکور تو ہو ، لیکن اس کی سند (راویوں کے سلسلہ) یا متن (الفاظ حدیث) میں ایسا اختلاف ہو کہ اس میں کسی کو ترجیح یا تطبیق (جوڑ) نہ دی جا سکے ۔
بیس (20) رکعات نماز تراویح پر علمائے امت کا اجماع ہے
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد : ترمذی شریف میں بابُ مَاجَاءَ فِي قِیَامِ شَھْرِ رَمضان کے تحت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے قیام رمضان یعنی تراویح کے باب میں احادیث پیش کرتے ہوئے فرمایا : واختلف اھل العلم فی قیام رمضان فرأی بعضھم ان یصلی احدی واربعین رکعة مع الوتر وھو قول اھل المدینة والعمل علی ھٰذا عندھم بالمدینة وَأ کْثرُ أھلِ العِلْمِ عَلٰی مَا رُوِيَ عَن عَلِّيٍ وَ عُمَرَ وَغَیْرِھِمَا مِنْ أصحابِ النبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عِشْرِینَ رَکْعَۃً وَ ھُوَ قَولُ الثَّوريِّ وَ ابْنِ المبارَکِ و الشَّافَعيِّ وقالَ الشافِعيُّ وَ ھَکذا أدْرکْتُ بِبَلَدِنَا مَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً ۔ (ترمذی جلد ص 104)
ترجمہ : تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے ، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں ، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے ، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں ، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ سفیان ثوری ، عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ : علامہ ابن تیمیہ رقمطراز ہیں قَدْ ثَبَتَ أنَّ اُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ کانَ یَقُوْمُ بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً فِي قِیَامِ رَمَضانَ یُوتِرُ بِثَلاثٍ فَرَأی کَثِیْرٌ مِنْ العُلَمَاءِ أنَّ ذَلِکَ ھُوَ السُنَّۃُِ لأنَّہُ أقَامَہُ بَیْنَ المُھَاجِرِیْنَ وَالأنْصَارِ وَلَمْ یُنْکِرْہُ مُنْکِرٌ ۔
ترجمہ : علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ (صحابی) لوگوں کو قیام رمضان ( نماز تراویح) کے بیس (20) رکعات پڑھاتے اور وتر تین رکعات پڑھاتے تھے ، کثرت سے علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ بیس رکعات ہی سنت ہیں کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کرام اور انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی اور ان میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا ۔(فتاوی ابن تیمیہ ص 112 ج 23) علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : اگر کوئی نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزیادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگی ۔ (الاختیارات صفحہ 64 ،چشتی)
غنیۃ الطالبین یں ہے : وَصَلاۃُ التَراویْحِ سُنَّۃُ النَّبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، وَھِيَ عِشْرُونَ رَکْعَۃً یَجْلِسُ عَقِبَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَ یُسَلِّمُ ۔
ترجمہ : نماز تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت ہے اور یہ بیس رکعات ہے ہر دو رکعت کے بعد بیٹھے اور سلام پھیرے ۔ (غنیۃالطالبین صفحہ 567)
امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام صاحب کے مایہ ناز شاگرد امام ابو یوسف رحمۃ اللہ نے امام صاحب سے دریافت کیا ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیس رکعات کے بارے میں کو ئی بات معلوم تھی ۔ امام صاحب نے فر مایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کو ایجاد کر نے والے نہ تھے (یعنی بلا شبہ حضرت عمر کو بیس رکعت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کوئی بات ضرور معلوم تھی ورنہ وہ اپنی طرف سے بیس کی تعین نہ کر دیتے) ۔ (فیض الباری شرح بخاری العرف الشذی بحر الرائق طحاوی،چشتی)
آثار امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ میں ہے ۔ یوسف اپنے والد امام ابو یوسف سے وہ امام ابو حنیفہ سے وہ حماد سے وہ ابرا ہیم نخعی رحمہم اللہ سے وایت کر تے ہیں کہ لوگ (صحابہ وتابعین) رمضان میں پانچ ترویحات پڑھتے تھے (واضح ہو ہر ترویحہ چار رکعت کا ہوتا ہے ، اس طرح پانچ ترویحات ، بیس رکعتں ہوگئیں)
امام شمس الائمہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ امام سرخسی اپنی شہرہ آفاق کتاب “ مبسوط “ جو کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہر الروایات پر مشتمل ہے میں فرماتے ہیں : تراویح ہمارے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعتیں ہیں اور مام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ سنت اس میں چھتیس رکعتیں ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ جو شخص امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول اور مسلک پر عمل کر نا چاہے ، اسے مناسب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے بیان کے مطابق عمل کرے ۔ یعنی جماعت کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھے کیونکہ یہی سنت ہے ، پھر ( 16 رکعتیں ) تنہا پڑھے ، ہر چار رکعات میں دو سلام ہوں ( یعنی دو دو رکعتیں کر کے ) اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فر مایا کہ کل کی کل 36 رکعتیں جماعت کے ساتھ ادا کر نے میں کوئی حرج نہیں۔(مبسوط جلد 2)
ملک العلماء علامہ علاء الدین ابی بکر بن مسعود کاسانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : تراویح کی مقدار بیس رکعات ہے دس سلاموں سے ، پانچ ترویحات میں ، ہر دو سلام میں ایک ترویحہ ہوگا ، یہی عالم علماء کا قول ہے ۔ اور امام مالک نے ایک قول میں چھتیس رکعات اور ایک قول میں چھبیس رکعات بیان فر مائی ہے ۔ اور صحیح عام علماء کا ہی قول ہے اس لیے کہ روایت کیا گیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو رمضان المبارک میں حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا ، پس انہوں نے ان کو ہر رات میں بیس رکعتیں پڑھائیں اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے بیس رکعات پر اجماع ہو گیا ۔ ( بدائع الصنائع جلد 1)
علامہ بر ہان الدین مر غینانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب ہدایہ علامہ بر ہان الدین مر غینای نے بھی بیس رکعات تراویح کو سنت قرار دیا ہے اور یہ بھی فر مایا کہ امام حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بیس رکعات تراویح کا مسنون ہو نا روایت کیا ہے ۔ والاصح انھا سنۃ کذا روی الحسن عن ابی حنیفہ ۔ (ہدایہ ج1 ص 151،چشتی)
علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله علیه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه ، امام شافعی رحمة الله علیه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات تراویح سنت ہے ۔ (بدایة المجتہد)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (20) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ادا فرمایا ۔ (المغنی)
علامہ نووی شافعی رحمة الله علیه لکھتے ہیں ۔ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات کا ہے ، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (20) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (4) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اورامام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله علیه نے بیس (20) رکعات تراویح کو جمہو رعلماء سے نقل کیا ہے ۔ (المجموع)
امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔ (المبسوط 2 / 145)
اورابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ابوعبداللہ (یعنی امام احمد) رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہیں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اور امام مالک رحمہم اللہ تعالی علیہم کہتے ہیں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔ (المغنی لابن قدامہ المقدسی 1 / 457)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اور ہمارے مذہب میں یہ دس سلام کے ساتھ دو دو رکعت کر کے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائیگی باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔ (المجموع للنووی 4 / 31)
قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی 595ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں ۔ واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث ۔ رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ ، شافعی ، احمد رحمہم اللہ اور داوٴد رحمۃ اللہ علیہ نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے ، اور ابنِ قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے ۔ (بدایة المجتہد ج ص 156، مکتبہ علمیہ لاہور)
مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی 1201ھ) لکھتے ہیں
“وھی (ثلاث وعشرون) رکعة بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل (ای عمل الصحابة والتابعین، الدسوقی)۔(ثم جعلت) فی زمن عمر بن عبدالعزیز (ستًا وثلاثین) بغیر الشفع والوتر لٰکن الذی جری علیہ العمل سلفًا وخلفًا الأوّل۔” اور تراویح، وتر سمیت 23 رکعتیں ہیں، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا) عمل تھا ، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں ، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر) ۔ (شرح الکبیر الدردیر مع حاشیة الدسوقی ص 315،چشتی)
امام محی الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 676ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں (فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداوٓد وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بنیزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر ۔” رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام داوٴد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ، اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے ، اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تراویح نو ترویحے ہیں ، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں ۔ (مجموع شرح مہذب جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 32،چشتی)
حافظ ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی 620ھ) المغنی میں لکھتے ہیں“والمختار عند ابی عبدالله رحمہ الله فیھا عشرون رکعة وبھٰذا قال الثوری وابوحنیفة والشافعی، وقال مالک ستة وثلاثون ۔” امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تراویح میں بیس رکعتیں مختار ہیں ۔ امام ثوری ، ابوحنیفہ اور شافعی رحمہم اللہ علیہم بھی اسی کے قائل ہیں ، اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ چھتیس کے قائل ہیں ۔ (مغنی ابنِ قدامہ صفحہ 798 ، 799 ، مع الشرح الکبیر)
تراویح کی ابتدا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہوئی ، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہوجائیں تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو دو ، چار چار آدمی جماعت کر لیتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عام جماعت کا رواج ہوا ، اور اس وقت سے تراویح کی بیس ہی رکعات چلی آرہی ہیں ، اور بیس رکعات ہی سنتِ موٴکدہ ہیں ۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دن کی عبادت روزہ ہے اور رات کی عبادت تراویح ، اور حدیث شریف میں دونوں کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے ۔ جعل الله صیامہ فریضة وقیام لیلہ تطوعًا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا ہے ۔ (مشکوٰة صفحہ 173،چشتی)
اس لیے دونوں عبادتیں کرنا ضروری ہیں ، روزہ فرض ہے، اور تراویح سنتِ موٴکدہ ہے ۔ تہجد الگ نماز ہے ، جو کہ رمضان اور غیرِ رمضان دونوں میں مسنون ہے ، تراویح صرف رمضان مبارک کی عبادت ہے ، تہجد اور تراویح کو ایک نماز نہیں کہا جا سکتا ، تہجد کی رکعات چار سے بارہ تک ہیں ، درمیانہ درجہ آٹھ رکعات ہیں ، اس لیے آٹھ رکعتوں کو ترجیح دی گئی ہے ۔
جو شخص روزے کی طاقت نہ رکھتا ہو ، وہ بھی تراویح پڑھے ۔ جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے، اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔رمضان شریف میں مسجد میں تراویح کی نماز ہونا سنتِ کفایہ ہے، اگر کوئی مسجد تراویح کی جماعت سے خالی رہے گی تو سارے محلے والے گناہگار ہوں گے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا ، بلکہ لوگ تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے ، سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک امام پر جمع کیا ۔ (صحیح بخاری صفحہ 269، باب فضل من قام رمضان،چشتی)
اور یہ خلافتِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے دُوسرے سال یعنی 14ھ کا واقعہ ہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ نمبر 121)(تاریخ ابنِ اثیر جلد صفحہ 189)
ائمہ احناف آٹھ تراویح کے قائل تھے کا جواب
فقیر کی ایک پوسٹ پر ایک پُر جوش کاپی پیسٹر غیر مقلد وہابی نے وہابیہ کے ایک فورم سے ایک مضمون کاپی کر کے کمنٹ میں پیسٹ کیا ہوا تھا جسے فقیر نے دیکھا وہ یہ کہ : امام اعظم ابو حنیفہ ، امام ابن ہمام ، علامہ ابن نجیم حنفی ، امام طحطاوی ، ملا علی قاری ، علامہ سیوطی علیہم الرّحمہ یہ تمام حضرات آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے ۔ ان غیر مقلدین کے مکّاری اور جھوٹ کا پردہ ہم کئی بار چاک کر چکے ہیں مگر یہ لوگ یہودیانہ فطرت سے باز نہیں آتے آدھے حوالے دینا حوالہ جات میں کتر و بیونت کرنا جھوٹ بولنا غیر مقلد وہابی مذہب کی کی گھٹی میں شامل کیا جاتا ہے اگر یہ لوگ جھوٹ نہ بولیں تو غیر مقلدیت اپنی موت آپ مر جائے گی آیئے ان کے جھوٹ و مکّاری کے پرخچے اڑتے اور منافقت عیاں ہوتے دیکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں اصل حقائق و دلائل ۔
غیر مقلدین کے اعتراض جھوٹ اور مکر و فریب کا جواب
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : مسند امام اعظم سے جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نقل کی ہے وہ تہجد کے متعلق ہے نہ کہ تراویح کے ۔خود حدیث میں صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باللیل کے الفاظ موجود ہیں جن کا معنیٰ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعات ہوتی تھی اور رات کی نماز سے مراد تہجد ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز تہجد تیرہ رکعات ہوتی تھی وتر بھی اس میں شامل ہوتے تھے ۔
حدیث مبارک میں لفظ صلوۃالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باللیل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام صاحب تو نماز تہجد کی رکعات ثابت کر رہے ہیں نہ کہ نماز تراویح کی ۔
مناسب ہے کہ آپ کے سامنے امام صاحب رحمہ اللہ کا مسلک بھی نقل کر دیا جائے تاکہ بات کھل کر سامنے آجائے ۔ کتاب الآثار لابی یوسف میں روایت موجود ہےابو حنیفۃ عن حماد عن ابراھیم ان الناس کا نو ایصلون خمس ترویحات فی رمضان ۔
ترجمہ : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حماد سے وہ ابراھیم سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک لوگ رمضان میں پانچ ترویحے یعنی بیس رکعات پڑھاتے ۔
فتاوی قاضی خان میں ہے : التراویح سنۃ مؤکدۃ للرجال والنساء توارثھا الخلف عن السلف من لدن تاریخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیٰ یومنا و ہٰکذا رویَ الحسن عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ انہا سنۃ لاینبغی ترکھا ۔۔۔۔وقد واظب علیھا الخلفاء الراشدون رضی اللہ عنہم وقال علیہ السلام علیکم بسنتی وسنۃالخلفاء من بعدی ۔ (فتاویٰ قاضی خان برھامش فتاویٰ عالمگیریہ جلد 1 صفحہ 332،چشتی)
ترجمہ: نماز تراویح مردوں اور عورتوں کےلیے سنت مؤکدہ ہےحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک ہر دور کے اخلاف) بعد والوں (نے اپنے اسلاف) پہلے والوں (سے اس کو توارث سے پایا ہے اور اسی طرح حسن رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ بے شک تراویح سنت ہے اس کو چھوڑنا ، نا مناسب ہے ، پھر لکھتے ہیں : مقدار التراویح عند اصحابنا والشافعی رحمہ اللہ ماروی الحسن عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ قال القیام فی شھر رمضان سنۃ لاینبغی ترکھا یصلی اھل کل مسجد فی مسجد ھم کل لیلۃ سوی الوتر عشرین رکعۃ خمس ترویحات بعشر تسلیمات یسلم فی کل رکعتین ۔ (فتاویٰ قاضی خان ص234)
ترجمہ : تراویح کی مقدار ہمارے اصحاب وامام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو حسن رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کی ہے فرمایا قیام رمضان (تراویح) سنت ہے اس کو ترک کرنا، نا مناسب ہے ۔ہر مسجد والے اپنی مسجد میں ہر رات وتروں کے علاوہ بیس رکعات تراویح پڑھیں ۔پانچ ترویحے ۔دس سلاموں کے ساتھ اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیں ۔
بدایۃ المجتہد میں ہے : فاختار مالک فی احد قولیہ وابو حنیفۃ والشافعی و احمد وداؤد رحمہم اللہ القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر ۔ (بدایۃ المجتہد جلد نمبر 1 صفحہ 210،چشتی)
ترجمہ : امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے دو قولوں میں سے ایک میں اور امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد اور داؤد ظاہری نے بیس رکعات تراویح کا قیام پسند کیا ہے ، سوائے وتر کے ۔
رحمۃالامۃ میں ہے : فالمسنون عند ابی حنیفۃ والشافعی و احمد رحمہم اللہ عشرون رکعۃً ۔ (رحمۃالامۃ صفحہ 23)
ترجمہ : امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مسنون تراویح بیس رکعات ہیں ۔
محترم قارئینِ کرام : فقہ حنفیہ کے تمام متون اور شروحات میں التراویح عشرون رکعات اور خمس ترویحات کی تصریح موجود ہے لیکن اتنی بڑی تصریحات کے باوجود معترضین کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نام پر عوام الناس کو دھوکہ دینا اور ان کی طرف آٹھ رکعات تراویح کی جھوٹی نسبت کرنا نہایت تعجب خیز ہے اور حیران کن ۔
امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کا شاذ قول : محترم قارئین مذکرہ بالا امام ابن ہمام کے قول کی حیثیت شاذ اور مرجوح ہے اور ان کا ذاتی تفرد ہے ہمارے علماء اہل السنت اس کی تصریح بارہا کر چکے ہیں کہ شاذ اور تفرادت کا کوئی اعتبار نہیں چنانچہ امام ابن ہمام رحمہ اللہ کے عظیم شاگرد علامہ قاسم بن قطلوبغا فرماتے ہیں: لاعبرۃ بابحاث شیخنا یعنی ابن الہمام التی خالفت المنقول یعنی فی المذہب ۔ (شامی جلد 1 صفحہ 225،چشتی)
ترجمہ : ہمارے شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ کی وہ بحثیں جن میں منقول فی المذہب مسائل کی مخالفت ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
باقی معترضین کا یہ کہنا کہ امام ابن رحمۃ اللہ علیہ ہمام آٹھ رکعات تراویح کے قائل ہیں یہ بات سراسر بددیانتی ہے ہے کیونکہ امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل نہیں بلکہ وہ بھی پوری امت کی طرح بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں : چنانچہ لکھتے ہیں :ثم استقر الامر علی العشرین فانہ المتوارث ۔ (فتح القدیر جلد 1 صفحہ 407)
یعنی بالآخر تراویح کے مسئلہ نے بیس رکعات پر استقرار پکڑا پس عمل توارث کے ساتھ چلا آرہاہے ۔
امام ابن ہمام رحمہ اللہ بیس رکعات تراویح کے ہی قائل ہیں البتہ ان کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو مستحب سمجھنا او رتہجد وتراویح کی الگ الگ حدیثوں کو ایک دوسرے کا معارض سمجھنا شاذ، خلافِ اجماع ہے اور تفرد ہے۔
اہل سنت و جماعت کا اصول ہے:وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جھل وخرق للاجماع . (درمختارج1ص31،چشتی)
یعنی قاضی کا حکم کرنا یا مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت اور اجماع کی مخالفت ہے ۔ یعنی باطل اور حرام ہے ۔
امام ابنِ نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ کے بارے میں بھی معترضین ان کی ایک عبارت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں کہ وہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے حالانکہ امام ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قولہ عشرون رکعۃ‘‘بیان لکمیتھا وھو قول الجمھور لما فی المؤطا عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بثلاث وعشرین رکعۃ و علیہ عمل الناس شرقاً و غرباً۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق جلد 2 صفحہ 66،چشتی)
ترجمہ : مصنف کا قول ہے کہ تراویح بیس رکعات ہےیہ نماز تراویح کے عدد کا بیان ہے کہ وہ بیس رکعات ہے اور یہی جمہور کا قول ہے اس لئے کہ مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ 23رکعات پڑھتے تھے (بیس رکعات تراویح اورتین رکعات وتر) مشرق اور مغرب میں لوگوں کا اسی پر عمل ہے۔
امام طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : امام طحطاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ آٹھ رکعات تراویح کےقائل نہیں بلکہ وہ بھی دوسرے علماء احناف کی طرح بیس کے قائل ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پر توارث کے ساتھ اجماع ہے ۔ (طحطاوی جلد 1 صفحہ 468)
ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : ملا علی قاری رحمہ اللہ کے نام سے جو عبارت پیش کی گئی وہ عبارت ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ انہوں نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے۔ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ بذات خود بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : لکن اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃً ۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے ۔ (مرقاۃ جلد 3 صفحہ 194،چشتی)
اسی طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح نقایہ صفحہ 104 میں بھی بیس رکعات تراویح پر اجماع نقل کیا ہے ۔
امام سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ، چنانچہ امام موصوف ؛ علامہ سبکی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ومذھبنا ان التراویح عشرون رکعۃلما روی البیہقی وغیرہ بالا سناد الصحیح عن السائب بن یزید الصحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال کنا نقوم علی عہد عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعشرین رکعۃ والوتر ۔ (الحاوی للفتاویٰ ج1ص350)
اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ نماز تراویح بیس رکعات ہے اس لیے کہ بیہقی وغیرہ نے صحیح اسناد کے ساتھ حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہم لوگ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑھتے تھے ۔پھر لکھا ہے :استقر العمل علی ہذا ۔یعنی بالآخر بیس رکعات تراویح پر عمل پختہ ہوا یعنی خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیس رکعات پر اتفاق اور اجماع کیا ہے ۔
اور پھربعض لوگ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا ہم خیال سمجھ کر ان کی یہ عبارت نقل کر دیتےہیں : واما ما رواہ ابن ابی شیبۃمن حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃً والوترفاسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ ھذاالذی فی الصحیحین مع کو نھا اعلم بحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلامن غیرھا واللہ اعلم۔ (فتح الباری جلد 4 صفحہ 319)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ تراویح میں امام شافعی رحمہ اللہ کے سچے پیروکار تھے اور شافیعہ کا بیس رکعات تراویح پر اتفاق چلاآرہا ہے ۔
امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ ؛ امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے نقل کرتے ہیں : انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی بالناس عشرین رکعۃ لیلتین فلما کان فی اللیلۃالثالثۃ اجتمع الناس فلم یخرج الیھم ثم قال من الغد خشیت ان تفرض علیکم فلا تطیقو نہا ۔
اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ”متفق علی صحتہ“اس کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ (تلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافع الکبیر ج1ص540)
معلوم ہوا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیس رکعات تراویح پڑھنا ثابت ہے اس کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے ۔
علامہ عبد الحئی لکھنوی حنفی کا مسلک : آپ کے مجموعہ فتاویٰ سے سوال اور جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
سوال : حنفیہ بست رکعت تراویح سوائے وتر میخوانند و در حدیث صحیح از عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وارد شدہ ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ پس سند بست رکعت چیست ؟
جواب : روایت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محمول بر نماز تہجد است کہ در رمضان و غیر رمضان یکساں بود و غالباً بعد یازدہ رکعت مع الوتر بر سند و دلیل بریں محل آنست کہ راوی ایں حدیث ابو سلمہ است درنیہ ایں حدیث میگویدقالت عائشہ رضی اللہ عنہا فقلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنام قبل ان توتر قال یا عائشۃ ان عینی تنامان ولا ینام قلبیکذا رواہ البخاری ومسلم و نماز تراویح در عرف آں وقت قیام رمضان مےگفتند و حد صحاح ستہ بروایات صحیحہ مرفوعہ الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعین عدد قیام رمضان مصرح نشدہ این قدر ہست کہقالت عائشہ کان رسول اللہ یجتہد فی رمضان مالا یجتہد فی غیرہ رواہ مسلم لیکن در مصنف ابن ابی شیبہ و سنن بیہقی بروایت ابن عباس وارد شدہکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یصلی فی رمضان جماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر و رواہ البیہقی فی سننہ باسناد صحیح عن السائب بن یزید قال کانو ا یقومون فی عہد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ ۔ (مجموعہ فتاوی مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ ص 59,58،چشتی)
اس عبارت میں وضاحت کے ساتھ مولانا عبد الحئی لکھنوی فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے اور امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی روایت تہجد پر محمول ہے پھر بھی ان کے نام لے کر یہ کہنا کے وہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے بہر حال ہماری سمجھ سے دور ہے ۔
علامہ موصوف اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں : ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ موکدۃ لانہ مما واظب علیہ الخلفاء وان لم یواظب علیہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقد سبق ان سنۃ الخلفاء ایضاً لازم الاتباع وتارکھا آثم و ان کان اثمہ دون اثم تارک السنۃ النبویۃ فمن اکتفٰی علی ثمان رکعات یکون مسیئاً لترکہ سنۃ الخلفاء وان شِئت ترتیبہ علی سبیل القیاس فقل عشرون رکعۃ فی التراویح مما واظب علیہ الخلفاء الراشدون وکل ما واظب علیہ الخلفاء سنۃ موکدۃ ثم تضمہ مع ان کل سنۃ موکدۃ یاثم تارکھا فینتبع عشرون رکعۃ یا ثم تارکھا و مقدمات ھذا القیاس قدا ثبتنا ھا فی الاصول السابقہ ۔ (تحفۃ الاخیار فی احیاء سنۃ سید الابرار صفحہ 209،چشتی)
ترجمہ : تراویح میں بیس رکعات سنت مؤکدہ ہیں اس لئے کہ اس پر خلفائے راشدین نے مداومت کی ہے اگرچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مداومت نہیں کی اور پہلے بتایا جا چکا ہے کہ خلفاء راشدین کی سنت بھی واجب الاتباع ہے اور اس کاچھوڑنے والا گنہگار ہے اگرچہ اس کا گناہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ترک کرنے والے سے کم ہے لہٰذا جو شخض آٹھ رکعات پر اکتفاء کرے وہ برا کام کرنے والا ہے کیونکہ اس نے خلفا راشدین کی سنت ترک کر دی اگر تم قیاس کے طریقے پر اس کی ترتیب سمجھنا چاہو تو یوں کہو بیس رکعات تراویح پر خلفاء راشدین نے مواظبت کی اور جس پر خلفاء راشدین نے مواظبت کی ہو وہ سنت مؤکدہ ہے لہٰذا بیس رکعات تراویح بھی سنت مؤکدہ ہے پھر اس کے ساتھ یہ بھی ملاؤ کہ سنت مؤکدہ کا تارک گنہگار ہوتا ہے لہٰذا بیس رکعات کا تارک بھی گنہگار ہو گا۔ اس قیاس کے مقدمات ہم اصول سابقہ میں ثابت کر چکے ہیں ۔
محترم قارئینِ کرام : علامہ عبد الحئی لکھنوی تو فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھ کر باقی رکعتوں کو چھوڑنے والا گناہ گار ہے کیونکہ بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔ علامہ عبد الحئی لکھنوی رقمطراز ہیں : فمودی ثمان رکعات یکون تارکا للسنۃ المؤکدہ ۔ (حاشیہ ہدایہ جلد 1 صفحہ 131مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان،چشتی)
یعنی صرف آٹھ رکعات تراویح ادا کرنے والا سنت مؤکدہ کا تارک (گناہ گار) ہے کیونکہ سنت مؤکدہ کو ترک کرنا گناہ ہے ۔
علاوہ ازیں علامہ عبدالحئی لکھنوی نے مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ پر لکھا : بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے اور نمازتراویح سنت مؤکدہ ہے ۔
مندرجہ بالا دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ علمائے اہل سنت و جماعت بالخصوص علمائے احناف کو آٹھ رکعات تراویح کا قائل ماننا سراسر نا انصافی ہے ۔ تمام علمائے احناف کثراللہ سوادھم امت مرحومہ کی اجماعیت کو تسلیم کرتے ہوئے 20 رکعات تراویح ہی ادا کرتے ہیں ۔
جیسا کہ اوپر تفصیل سے عرض کیا جا چکا ہے کہ تہجد اور تراویح الگ الگ نمازیں ہیں ۔ اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعات ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزا پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے۔مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا مگر آٹھ رکعات نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا ، کیوں کہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعات پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعات وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کےلیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کےلیے اختیار کر لیا ۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد سوجاتے ، پھر وتر پڑھتے تھے ، حالاں کہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور چھوڑ نا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا ، حالانکہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ و آلہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً، ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَاء بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ۔ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) ۔ یعنی اللہ کے رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعات پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعات ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت) ۔ غور فرمائیں کہ گیارہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعات والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعات والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑ دیا ، حالاں کہ تیرہ رکعات والی حدیث میں کان کالفظ استعمال کیا گیا ہے ، جو عربی زبان میں ماضی استمراری کےلیے ہے یعنی آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا تیرہ رکعات پڑھنے کا معمول تھا ۔ نمازِ تہجد اور نماز تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں ۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آٹھ رکعات والی حدیث میں تو چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے ، لیکن عمل دو دو رکعات پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے : ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَ ۔ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعات ادا کی ، پھر دو رکعات ادا کی ، پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی ، پھر دورکعات ادا کی ، پھر وتر پڑھے ۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعات کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے ۔ آٹھ رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ غرضیکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے دو دو رکعات پڑھنے کو لیا تو نہ تو حضرت عائشہ کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث پرعمل ہوا ، بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی ، حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے ، کیوں کہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ چاروں آئمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے ۔ امام بخاری تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے ، امام بخاری تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے ، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے ۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کےلیے صحیح بخاری کی سب سے مشہور و معروف شرح ”فتح الباری“ کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)
بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں ، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے ، سورہٴ المزمل کی ابتدائی آیات (یَااَیَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا ......) پڑھ لیں ۔ جب کہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے ، جیساکہ آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ ۔ (سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
نوٹ : یاد رہے غیر مقلدین نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی پر ایک بھت بڑا الزام لگاتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے رمضان المبارک میں تہجد نہیں پڑھی حالانکہ تہجد نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم پر فرض تھی اور تراویح نفلی عبادت بھلا ان گستاخوں کو کون سمجھائے کہ اس طرح کے جاھلانہ فتوؤں سے تم نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو تارکِ فرض قرار دے رہے ہو اور یہ اتنی بڑی گستاخی ہے نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی کی کاش تمہارے ہی لوگوں کو سمجھ آجائے جو اندھے مقلد ہیں اپنی مساجد کے ملاّؤں کے اور خود کو غیر مقلد کہتے وہی تمہیں مساجد و بازاروں میں گھسیٹیں گے کہ نعوذ بااللہ تم نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو تارک فرض قرار دیتے ہو اور شرم پھر بھی نہیں آتی ؟
آخری میں ایک سوال اے گروہ آلِ نجد غیر مقلدین کیا نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم تہجد فرض چھوڑ دیتے تھے یا نفلی عبادت تراویح نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے نہیں پڑھی اس سوال کا جواب علمی دلائل سے دو ؟
اور ہاں تہجد اور تراویح نبی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کےلیے کس حیثیت میں مانتے ہو ؟
بیس رکعت نماز تراویح کے منکرین سے کچھ سوالات
بر صغیر اور اس سے ملحقہ کچھ ممالک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی کچھ شریر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے امت کو تقسیم کرنے میں پورا زور لگاتے ہیں ، ایمان تازہ کرنے اور نیکیوں کے اس موسم میں نت نئی خرابیوں کے علاوہ ایک اہم مسئلہ نماز تراویح کی رکعات کا ہے ۔ شروع سے ہی امت میں متفقہ طور پر بیس رکعات تراویح ادا کی جاتی رہیں مگر ہندوستان کے کچھ لوگوں نے ماضی قریب میں اسے بھی متنازعہ بنا دیا ۔ حرمین شریفین ، بلاد عرب ، شرق و غرب اور کرہ ارض پر موجود امتِ مسلمہ کی اکثریت بیس رکعات ادا کرتی ہے اور یہ جمہور کا مذہب ہے ۔ عوام الناس کے ذہنوں میں موجود غلط فہمی اور ان لوگوں کی جہالت کو روکنے کی نیت سے پہلے کچھ روایات مستند کتبِ حدیث سے پیشِ خدمت ہیں جو کہ بیس ترایح پر دلیل و ثبوت ہیں : ⬇
امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، ابن مبارک رضی اللہ عنہم وغیرہ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : و اکثر اهل العلم علی ماروی عن علی و عمر غيرهما من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم عشرين رکعت و هو قول سفيان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی و قال الشافعی هکذا ادرکت ببلد مکتة يصلون عشرين رکعت ۔ (جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی قيام شهر رمضان،چشتی)
تجمہ : اکثر اہل علم کا عمل اس پر ہے جو حضرت علی و حضرت عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، بیس رکعت ۔ یہی حضرت سفیان ثوری ، ابن مبارک ، امام شافعی کا قول ہے ، امام شافعی علیہ الرحمہ نے فرمایا ، میں نے شہر مکہ میں یہی عمل پایا کہ لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں ۔
یہ روایت کس واضح اور روشن انداز میں بیان کر رہی ہے کہ امت کے جلیل القدر ائمہ کرام رضی اللہ عنہم متفقہ طور پر تراویح کی بیس رکعات کے قائل ہیں۔ اس روایت میں ائمہ اربعہ میں سے ایک امام سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کا نام شامل نہیں لیکن انہوں نے الگ سے احادیث شریف پر عظیم کتاب "موطا امام مالک" میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت نقل فرما کر اس فتنے کو لگام ڈال دی ۔
کنا نقوم فی عهد عمر بعشرين رکعت ۔ (مؤطا امام مالک)
ترجمہ : ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھتے تھے ۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق میں امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم منقول ہے : یحی بن سعید کہتے ہیں کہ : ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان يصلی بهم عشرين رکعة ۔ (مصنف ابن ابی شيبه، 1 : 393، مصنف عبد الرزاق، 1 : 262)
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا ۔
قارئینِ کرام توجہ فرمائیے وہ لوگ جو آٹھ تراویح کا شور کرتے ہیں ان کے پاس کوئی ایک ضعیف حدیث بھی نہیں ہے جس میں صراحت ہو کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھو اور یہاں اللہ کے حبیب صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ جناب عمر رضی اللہ عنہ حکماً فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پڑھو ۔
اس کے علاوہ تراویح کی بیس رکعات پر علماء کرام کی تصانیف اور تحقیقات کا ایک ذخیرہ موجود ہے ۔ یہاں فقیر چند سوالات درج کر رہا ہے ، جو لوگ آپ کے آس پاس میں آٹھ رکعات پڑھنے کے قائل ہیں ان سے یہ سوالات کیجیے ان شاء اللہ حق واضح ہو جائے گا ۔ ⬇
1 ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حرم مکہ اور حرم مدینہ میں کبھی آٹھ رکعات نماز تراویح با جماعت ادا کی گئی ہو ؟
2 ۔ شریعت اسلامیہ میں عمل کی ایک شرعی حیثیت ہوتی ہے ، عمل یا تو غلط ہوتا ہے یا درست ، اگر آپ کے نزدیک آٹھ تراویح درست ہیں تو حرمین شریفین میں آج بھی بیس رکعات با جماعت ادا کی جاتی ہیں ۔ آپ دونوں میں سے کون غلط ؟ حرمین شریفین والے یا آپ ؟
3 ۔ ملتِ اسلامیہ میں اس وقت تقریباً ستاون اسلامی ممالک ہیں ، کیا آپ بتا سکتے ہیں کسی ایک ملک میں سرکاری سطح پر آٹھ رکعات تروایح ادا کی جاتی ہیں ؟
4 ۔ تروایح کی رکعات میں ہند و پاک کے علماء پر ہی کیوں اعتراض ، آٹھ تراویح کی وکالت سعودی علماء کے سامنے کیوں نہیں کرتے ؟ اور سعودی عرب میں آٹھ تراویح پڑھانے کےلیے وہاں کے علماء پر کیوں زور نہیں دیتے ؟
5 ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیس تراویح کا حکم جاری فرمایا ، کیا آپ کوئی ایک ضعیف روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں دورِ عمر رضی اللہ عنہ یا ان کے بعد کے ائمہ و مشائخ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے ذرہ برابر اختلاف کیا ہو ؟
6 ۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے علماء و اسلاف اور قرنِ اولٰی کے ائمہ کو اختلاف نہیں تھا تو آپ کل کی پیداوار ہیں ، آپ کس بنیاد پر اختلاف کر رہے ہیں ؟
7 ۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین اور تمام بڑی مساجد میں با جماعت بیس رکعات تروایح ادی کی جاتی ہیں ، ہندوستانی و پاکستانی غیر مقلد وہابی علماء وہاں موجود ہوتے ہیں ، جب آپ کے سامنے ایک غیر شرعی عمل ہو رہا ہوتا ہے تو آپ کلمہ حق کیوں بلند نہیں کرتے اور ان لوگوں کو بیس رکعات کی ادائیگی سے کیوں نہیں روکتے ؟
8 ۔ عالمِ اسلام کی عظیم درسگاہ جامعۃ الازہر کے مفتی ، علماء اور فضلاء بیس رکعات پڑھتے ہیں ، کیا آپ نے ہندوستان و پاکستان سے باہر نکل کر کبھی ان علماء کو بھی دعوتِ مناظرہ دی یا صرف ہند و پاک میں ہی فرقہ پرستی پھیلانا مقصود ہے ؟
9 ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں تراویح کا با جماعت عمل شروع کیا ، بیس رکعات بھی انہیں سے ثابت ، آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان حیات و موجود تھے ، کسی ایک صحابی نے بیس رکعات پر اعتراض نہیں کیا ، کسی ایک کتاب سے کوئی ایک اعتراض ثابت نہیں ۔۔۔ تو اب ہم اصحابِ رسول کے قول و فعل کا اعتبار کریں گے یا آپ کی تاویلات مبنی بر جہالت مانیں ؟
10 ۔ ہم سابقہ مضامین میں لکھ چکے اور مزید ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مستند احادیثِ مبارکہ سے بیس رکعات ثابت ہیں اور یہی چاروں امام امت اسلامیہ کےلیے رہنماء ہیں ، حرمین شریفین میں بھی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی جاتی ہے تو اس قدری وزنی دلائل اور ائمہ امت کے اقوال کی موجود گی میں کیا یہ ضرورت باقی رہتی ہے کہ ہم ہندوستان میں پیدا ہونے والی کسی مولوی کی بات پر یقین کر کے تراویح کی رکعات آٹھ مان لیں ؟
سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لک ھی ہے ۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہو رہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے ، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں ۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ، لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں ؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہو جائے ۔ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں : اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں ؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو ؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ ۸ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ۔
11 ۔ سعودی عالمِ دین جو کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے امام و شیخ تھے ، انہوں نے آٹھ تروایح کو غلط سمجھا اور اس پر مکمل کتاب لکھ ڈالی اور کتاب بھی چیلنج سے بھر پور ۔ آٹھ تراویح پڑھنے والوں نے آج تک اس کتاب کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ آپ دونوں میں سے کون غلط ؟ امام مسجد نبوی یا آپ ؟
صبحِ قیامت تک ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہو گا ۔ فقیر کی گزارش ہے کہ تقسیم در تقسیم اس قوم پر رحم کیجیے اور امت کے متفقہ مسائل میں شرانگیزی نہ کیجیے ۔ اس قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اس لیے اگر آپ عملِ خیر نہیں کر سکتے تو ماہِ مقدس میں اپنی شرارتوں سے دوسروں کو اذیت بھی نہ دیجیے ۔ تمام قارئینِ کرام سے گزارش ہے کہ تروایح کی بیس رکعات مکمل ادا کیجیے ۔ اس سے کم نوافل ہو سکتے ہیں تراویح نہیں ہو گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment