Thursday 28 March 2024

علمائے کرام سے معاشرے کا رویہ اور ان کی تنخواہیں

0 comments

علمائے کرام سے معاشرے کا رویہ اور ان کی تنخواہیں

محترم قارئین کرام : مسجد کو آباد کرنا بڑا عظیم کام ہے اللہ عزوجل کا ارشادِ مبارک ہے ‏: اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ۔ (سورہ توبۃ آیت نمبر 18)‏
ترجمہ : اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نما ز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں ‏۔

مسجد کی آباد کاری میں سب سے بڑا کردار امام مسجد کا ہے اور امامت ایسا عظیم منصب ہے کہ ‏ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، اولیائے کرام ، علمائے کرام ، بزگانِ دین علیہم الرحمہ نے امامت فرمائی ۔ حدیث مبارکہ میں فرمایا : ثلاثةٌ على كُثبانٍ من المسك يوم القيامة ، و ذُكر أنّ منهم رجلا أم قومًا و هم به راضون ۔
ترجمہ : روزِ قیامت تین قسم کے آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس ‏نے قوم کی امامت کی اور وہ اس (امام) سے خوش تھے ۔ (سنن ترمذی البر والصلۃ باب ماجاء فی فضل المملوک الصلح حدیث نمبر 1986)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام کےلیے دعا فرمائی (الإمام ضامن ، والمؤذِّنُ مؤتَمنٌ ، اللہمَّ أرشِدِ الأئمَّةَ واغفِر للمؤذِّنينَ) ۔
ترجمہ : امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے ، اے اللہ! تو اماموں کو راہِ راست پر رکھ اور مؤذنوں کی ‏مغفرت فرما ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 6996)‏

‏اس سے امامِ مسجد کی اہمیت و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و توقیر کے بجائے ایک ملازم کی ‏حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ امام مسجد کا مقام مرتبہ بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ امام مسجد اپنے علاقے کا وہ معزز شخص ہوتا ہے جس کی اقتدا میں ہر بڑے سے بڑا ‏عہدے والا بھی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے اور امام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا ضامن تسلیم کرتا ہے ۔ امامت کا منصب کوئی عام منصب نہیں یہ وہ خاص و اعلیٰ منصب ہے جس پر انبیا علیہم ‏السلام اور اصحابِ رسول و اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم فائز رہے ۔ اور شبِ معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام انبیا علیہم السّلام ‏کے درمیان امامت کروائی ۔ اس منصب کا حق ادا کرنا بہت ضروری ہے اور امام مسجد کو سنتوں کا ایسا عامل ہونا چاہیے کہ عوام امام کو ‏دیکھ کر سنتوں کے عامل بن جائیں ۔ امامِ مسجد کا کردار ، رہن سہن ، بول چال اور عادات ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ اس سے متاثر ہو کر دینِ اسلام کی طرف آئیں ۔ ‏ہمارے معاشرے میں امام مسجد کو بہت عزت و احترام دیا جاتا ہے ۔ اور امام مسجد کو علمِ فقہ پر اور خصوصاً نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل بھر پور مہارت ہونی چاہیے کہ یہ روز مرہ کے معاملات میں پیش ‏آنے والے مسائل ہیں ۔ اسی کے پیشِ نظر امام کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہم ان پر عمل کرکے ‏بہتری لا سکیں ‏: ⏬

امام کی عزت کرنا :‏ عن ابن عمر : أكرموا حملة القراٰن ، فمن أكرمهم فقد أكرم اللّٰہ ‏ ۔
ترجمہ : حاملینِ قرآن (حفاظ و علمائے کرام) کا اکرام کرو ، جس نے ان کا اکرام کیا ، اس نے اللہ کا اکرام کیا ۔ (كنز العمال جلد 1 صفحہ 523 حديث نمبر 2343،چشتی)‏

عن أبي أمامة : حامل القراٰن حامل راية الإسلام ، من أكرمه فقد أكرم الله ، ومن أهانه فعليه لعنة الله ۔
ترجمہ : حاملینِ قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں ، جس نے ان کی تعظیم کی ، اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی ، اس ‏پر اللہ تعالی کی لعنت ہے ۔ (كنز العمال جلد 1 صفحہ 523 حديث نمبر 2344)‏

آج کے اس پُرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں ‏اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا علیہم السلام سمجھے اور ادب و ‏احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے ۔‏ جو لوگ عالمِ دین امام کو تنخواہ مقرر کر کے اس کو اپنا نوکر اور خادم سمجھتے ہیں اور اس پر حکومت دکھاتے ہیں ، ایسے لوگ عند اللہ کیسے ہیں اور اس کے پیچھے ان کی نماز ہوگی یا نہیں ؟

جواب : یہ لوگ انتہائی بد تمیز ، بے ہودے ، ناخدا ترس ہیں جو عالم کو اپنا نوکر سمجھتے ہیں ۔ اس کا اندیشہ ہے کہ یہ لوگ دنیا سے اپنا ایمان سلامت نہ لے جا سکیں ۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے : من أبغض عالما من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر ۔ نماز بہر حال ان کی بھی اس امام کے پیچھے ہو جائے گی ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ جلد نمبر ۵)(فتاوی شارح بخاری)

امام کی ٹوہ میں پڑنا :‏ بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ‏ہے : قَالَ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ ، وَلَا اللَّعَّانِ ، وَلَا الْفَاحِشِ ، وَلَا الْبَذِيءِ ۔
ترجمہ : مسلمان لعن طعن کرنے والا ، ‏فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا ۔ ‏ (سنن ترمذی باب ما جاء فی اللعنۃ حدیث نمبر 1977)‏

امام کی تنخواہ ‏: امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کے منصب اور معاشرے میں موجود مہنگائی کا لحاظ کرتے ہوئے مقرر کرنی چاہیے جائزہ لیجیے کہ ‏ایک شخص 20 / 30 ہزار میں کیا کر سکے گا فیملی کے خرچے ، بچوں کی فیس ، دودھ ، راشن ، شادی بیاہ میں جانا ، عید کی شاپنگ ، بیماری میں دوائیاں لینا ‏اور کئی ضروریات ہیں جن کو پورا کیے بغیر انسان بڑی مشکل سے زندگی گذارے گا کم از کم اتنی تنخواہ رکھیں جو آپ اپنی اولاد کےلیے ‏چاہتے ہیں ایک واقعہ ہے ایک شخص امام صاحب کے پاس آیا اور دعا کےلیے کہا کہ میرے بیٹے کےلیے دعا کریں کہ جاب اچھی لگے ‏امام صاحب نے دعا کی یا اللہ اِن کے بچے کی اتنی تنخواہ والی جاب ملے جتنی میری تنخواہ ہے وہ کہنے لگے امام صاحب یہ کیسی دعا ہے ۔ لہٰذا ‏ مساجد سے منسلک افراد کے مشاہرہ و تنخواہ مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک ملازم و نوکر کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ‏یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں ، گرمی ، سردی ، طوفان و آندھی اس ‏طرح موسم کی تبدیلی کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ، لہٰذا ان امام و مؤذن و خادم کا معقول ‏وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ‏۔

امام کو تحفہ ، تحائف دینا اور اچھے کاموں کی تعریف : تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی تحفہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راوی کہ فرمایا : ہدیہ کا لین دین کرو ہدیہ عداوتوں کو مٹا دیتا ہے ۔‏ (مرآۃ المناجیح جلد 4 حدیث نمبر 2327،چشتی)‏

اسی طرح اگر امام صاحب کی قرأت یا بیان اچھا لگے یا کوئی خوبی نظر آئے تو اس کو ان کے سامنے بیان کیا جائے اس سے بھی آپس میں ‏محبت بڑھے گی دوریاں ختم ہونگی ۔

امام کی ذمہ داری کا احساس ہونا ‏۔ ‏ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ امام صاحب کا کام صرف نماز پڑھانا ہے پھر تو 24 گھنٹہ فارغ ہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ سخت ‏ڈیوٹی امام مسجد کی ہے کیونکہ امام صاحب کسی بھی جگہ کام سے جائیں تو ٹینشن یہی ان کو رہتی ہے کہ واپس جاکر اسی مسجد میں نماز ‏پڑھانے جانا ہے یوں وہ دور دراز سفر کرنے سے پرہیز کرتا ہے اور بھی اپنے کئی پرسنل کام ایسے وقت میں کرتا ہے کہ واپس آکر اسی ‏مسجد میں نماز پڑھانے جانا ہے یہ بہت بڑی قربانی ہے ورنہ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ امام صاحب کو صرف نماز ہی تو پڑھانی ‏ہے جو اس پر فرض ہے پھر تنخواہ کیوں لیتا ہے تو ایسے شخص کو یہی جواب دیا جائے کہ ٹھیک ہے نماز پڑھنا فرض ہے لیکن اسی مسجد ‏میں تو پڑھنا فرض نہیں پھر تو امام صاحب کسی بھی مسجد ، کہیں بھی پڑھ سکتا ہے پھر ایک ہی مسجد میں نماز پڑھانے کا پابند کیوں ؟

امام کی بات بری لگے تو درگذر کرنا اور مناسب حل نکالنا :‏ ‏ اگر امام صاحب کا کوئی رویہ نامناسب ہے تو یا کوئی غلطی ہو گئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپس میں گروپ بندی کر کے ہجوم بنا کر امام ‏کی غیبتیں کی جائیں بلکہ الگ سے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے امام صاحب کو غلطیوں کی نشاندھی کروائی جائے کیونکہ شور مچانے ‏سے ، غیبتیں کرنے سے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا بلکہ ہم کئی گناہوں میں ملوث ہو جائیں گے ‏۔

امام کی ضروریات کا خیال کرنا اور اچھی رہائش کا انتظام کرنا ۔ عام معاشرے میں ایک انسان کےلیے جو ضروری سہولیات ہوتی ہیں وہ سب اچھے انداز میں امام صاحب کو بھی سہولیات دی جائیں ‏عموماً مساجد کی تعمیرات و رنگ و روغن وغیرہ میں تو کثیر خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ بسا اوقات اس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن امام ‏صاحب کا ہجرہ خستہ حالت میں ہوتا ہے کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کمرے میں مسجد کی دریاں ، پنکھے ، اسپیکر وغیرہ سامان ہوتا وہیں امام صاحب کی رہائش ہوتی ہے ۔ یہ بھی بالکل نامناسب کام ہے اسی طرح عرف کے مطابق کھانا وغیرہ کا ‏اہتمام کرنا اور اگر امام صاحب بیمار ہو جائیں تو حسبِ حیثیت مالی تعاون کرنا اور تعزیت کےلیے ان کے پاس جانا ۔

امام کو مقرر کرنے میں خیال کرنا :‏ امام کو مقرر کرنے سے پہلے مستقبل کے اعتبار سے خوب سوچ کر پلاننگ کی جائے ، یہ مناسب نہیں کہ ابھی اگر مسجد زیرِ تعمیر ‏ہے یا مسجد کی آمدن کم ہے تو گزارہ کرنے کےلیے کسی غریب ، مالی اعتبار سے حاجت مند کو رکھ کر گزارہ کر لیا جائے اور جب مسجد ‏عالیشان تعمیر ہو جائے تو اس بے چارے کو نکال دیں ، اگر مسجد تعمیر ہونے کے بعد کسی بڑے عالمِ دین ہی کو لانا ہے تو شروع ہی سے ‏طے کرلیں اور ابتداءً رکھے جانے والے امام صاحب کو بتادیں کہ ہم مسجد کی تعمیر تک آپ کی خدمات حاصل کریں گے اس طرح ‏ایک مسلمان کی دل آزاری سے ہم بچ جائیں گے ۔

مسجد کے امام کو امامتِ صغریٰ  کا درجہ حاصل ہے اور اس امامت (یعنی مسجد کے امام) کا مطلب یہ ہے کہ : دوسرے کی نماز کا اس کے ساتھ وابستہ ہونا ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ 560 )

بے شک امامت ایک بڑی سعادت ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امامت کو سر انجام دیا ۔ اس کی چھ شرائط ہیں : اسلام ، بلوغ ، عاقل ہونا ، مرد ہونا ، قرائت ، معذورِ (شرعی) نہ ہونا (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ 561،چشتی)

اگر کسی مسجد میں امام معین (مقرر) ہے تو امامِ معین امامت کا حق دا رہے اگرچہ حاضرین میں کوئی اس سے زیادہ علم والا اور زیادہ تجوید والا ہو ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ 567)

جہاں امامِ معین (مسجد کے امام) کے اتنے مسائل اور اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی ہیں جو کہ مقتدیوں پر لازم ہیں : ⏬

امام کا حق یہ ہے کہ اس کو امام تسلیم کیا جائے اگر کسی میں امامت کی جامع شرائط پائی جا رہی ہیں اور مسجد انتظامیہ متفقہ فیصلے سے اس کو امام منتخب کرچکی ہے تو اس کو امام تسلیم کر لینا چاہیے خواہ مخواہ اس کی ذات پر کیچڑ نہ اُچھالا جائے جب تک شریعت اس کی اجازت نہ دے ۔

امام کی غیبت ، چغلی وغیرہ سے بچا جائے کیونکہ غیبت کرنا ویسے ہی بُرا کام ہے کہ غیبت کرنے والا گویا اپنے مردار بھائی گوشت کھاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پیش امام کی غیبت کرنا کس قدر بُرا ہوگا لہٰذا اپنے مسجد کے امام کی غیبت وغیرہ کرنے سے بچنا چاہیے ۔

امام کی عزّت کی جائے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ ہماری نمازیں اس امام کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک امام نماز شروع نہ کرے ہم نماز شروع نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پیش امام کی عزّت کریں اور طعنہ زنی کا نشانہ نہ بنیں ۔

جہاں امام کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے وہیں امام کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی بھی کی جائے امام کو پریشان دیکھ کر اس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور ہمت بڑھائی جائے حوصلہ دیا جائے ۔

مسجد کمیٹی پر یہ لازم ہے کہ امام کی معقول تنحواہ مقرر کی جائے اور اس کی ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ۔ جس طرح ہمارے دیگر طبقے کے ملازمین کی تنخوائیں (Salary) ہوتی ہیں اسی طرح مسجد کے امام کی بھی معقول تنخواہ ہونی چاہیے کیونکہ یہ امام مسجد کا حق ہے ۔

مقتدیوں کو چاہیے کہ جہاں امام مسجد کی تنخواہ مقرر ہوتی ہے اسی کے ساتھ اس کی ذاتی طور پر بھی مالی خدمت (خیر خواہی ) کرتے رہنا چاہیے ۔

امام مسجد کا حق ہے کہ اہلِ محلّہ اس کو اپنی خو شی غمی کے معاملات میں یاد رکھیں ہمارے ہاں غمی کے مواقع پر تو امام صاحب کو فاتحہ وغیرہ کےلیے بلایا جاتا ہے لیکن خوشی (مثلاً شادی بیاہ) کے مواقع میں امام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔

جس طرح کئی یا تقریباً تمام ہی نوکری کرنے والے افراد کےلیے ہفتے میں ایک دن چھٹی مقرر ہوتی ہے اسی طرح مسجد کا امام جب چھٹی پر جائے تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں مسجد کمیٹی خوش الحان قاری صاحب کو بطورِ نائب مقرر کرے ۔

امام صاحب اگر کسی نماز میں لیٹ ہو جائیں تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کو سُست ، کاہل ، کام چور وغیرہ کہہ کر اس کی دل آزاری نہ کی جائے کہیں یہ دل آزاری کرنے والے کو آخرت میں رسواء نہ کر دے ۔

جن مساجد میں امام صاحب اپنی فیملی کو ساتھ رہائش پزیر ہیں اُس علاقے کے اہلِ محلہ کو چاہیے کہ وہ امام صاحب کے اہلِ خانہ کا بطورِ خاص خیال رکھیں ، ان کو احساسِ محرومی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔

فی زمانہ  امامت  ، اذان دینے ، قرآن و حدیث اور  دیگر دینی علوم پڑھانے پرتنخواہ لینا جائز ہے ، البتہ اگر کوئی فقط پیسے کمانے کےلیے یہ کام کرتا ہے توان امور کا جو ثواب بیان ہوا ، وہ اسے حاصل نہ ہو گا ہاں اگر اصل مقصد دین کی خدمت ہے تنخواہ اس لیے لیتا ہے کہ اپنا اور اہل و عیال کا گزر بسر کر سکے اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو فی سبیل اللہ کام کرتا اس صورت میں اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ ثواب کا بھی حقدار ہو گا ۔

سنن ابوداؤشریف میں حدیث مبارکہ ہے : عن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول : العامل علی الصدقۃ   بالحق  کالغازی  فی سبیل اللہ حتی یرجع الی بیتہ ۔
ترجمہ : رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل کی رضا کی کےلیے حق کے مطابق صدقہ وصول کرنے والااپنے گھر لوٹنے تک اللہ عزوجل کی راہ ميں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے ۔ (سنن ابوداؤد جلد 2 صفحہ 59 مطبوعہ لاہور،چشتی)

اس حدیثِ مبارکہ کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں : اس  حدیث سے معلوم ہوا اگر نیت خیر ہو تو دینی خدمت پر تنخواہ لینے کی وجہ سے اس کا ثواب کم نہیں ہوتا ، دیکھو ان عاملوں کو پوری اُجرت دی جاتی تھی مگر ساتھ میں یہ ثواب بھی تھا ۔ چنانچہ مجاہد کو غنیمت بھی ملتی ہے اور ثواب بھی ، حضرات خلفائے راشدین سوائے حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہم) کے سب نے خلافت پر تنخواہیں لیں مگر ثواب کسی کا کم نہیں ہوا ، ایسے ہی وہ علماء یا امام و مؤذن جو تنخواہ لے کر تعلیم ، اذان ، امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اگر ان کی نیت خدمت دین کی ہے ان شاءاللہ عزوجل ثواب بھی ضرور پائیں گے ۔ (مراۃ المناجیح جلد 3 صفحہ 18 مطبوعہ ضیاء القران)

علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ رد  المحتار میں اجرت لینے والے مؤذن کو اذان دینے کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کی بحث میں فرماتے ہیں : قد يقال إن كان قصده وجه الله تعالى لكنه بمراعاته للأوقات والاشتغال به يقل اكتسابه عما يكفيه لنفسه وعياله فيأخذ الأجرة لئلا ليمنعه الاكتساب عن إقامة هذه الوظيفة الشريفة ولولا ذلك لم يأخذ أجرا فله الثواب المذكور بل يكون جمع بين عبادتين وهما الأذان والسعي على العيال وإنما الأعمال بالنيات ۔
ترجمہ : یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ (مؤذن) رضائے الہٰی کا قصد کرے لیکن اوقات کی پابندی اور اس کام میں مصروفیت کی بنا پر اپنے عیال کےلیے قدرِ کفایت روزی نہ کما سکے ۔ چنانچہ وہ اس لیے اجرت لے کہ روزی کمانے کی مصروفیت کہیں اسے اِس سعادتِ عظمیٰ سے محروم نہ کروا دے اور اگر اسے مذکورہ مجبوری نہ ہوتی تو وہ اجرت نہ لیتا تو ایسا شخص بھی مؤذن کےلیے ذکر کردہ ثواب کا مستحق ہو گا بلکہ وہ دو عبادتوں کا جامع (یعنی جمع کرنے والا) ہو گا ، ایک اذان دینا اور دوسری عیال کی کفالت کےلیے سعی کرنا ، اور اعمال کا ثواب نیتوں کے مطابق ہوتا ہے ۔ (رد المحتار مع درمختار جلد 2 صفحہ 74 مطبوعہ کوئٹہ،چشتی)


فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ذاتی طور پر کتنے ہی علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کو جانتا ہے جن کی تنخواہ صرف پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ ہے ، حالانکہ یہ وہ اہلِ علم ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال مختلف علوم حاصل کرنے میں گذار دیے دوسری جانب سرکاری اداروں کے ایک ناخواندہ ، ناتراش چپراسی کی تنخواہ اور مراعات ان محترم علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین سے کئی گنا زیادہ ہیں ، اس کے ساتھ بے شمار مراعات ، سہولیات الگ ہیں ، مثلاً علاج معالجہ کی مفت سہولت ، رہائش گاہ، مختلف الاؤنسز ، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور بچوں کی ملازمت وغیرہ وغیرہ ۔ ایک اسلامی مملکت میں جسے دعویٰ ہے کہ وہ ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے ، اس عظیم اسلامی مملکت میں علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی یہ توقیر اور ایک جاہل کی یہ عزت ۔ اکیسویں صدی میں پندرہ بیس ہزار روپے میں گذارا کرنے والے اتنے بڑے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین سے بڑا درویش صوفی اور اللہ کا ولی کون ہو سکتا ہے ، جو مدرسے اور مسجد کو خیر آباد کہہ کر کسی سرکاری کثیرالقومی ادارے میں ملازمت کرے تو اسے نہایت آرام سے ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ ، شاندار رہائش گاہ ، ائیرکنڈیشنڈ کمرہ ، دیگر بے شمار سہولیات مل سکتی ہیں ۔ کہیں اس سب اسلام سے لوگوں کو دور کرنے کی سوچی سمجھی سازش تو نہیں ؟ ۔ لیکن علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین اپنے مدرسے ، مسجد کو چھوڑ کر کسی سرکاری ادارے ، کارپوریشن یا کسی ملٹی نیشنل میں فرائض انجام دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ اس توکل ، بے نیازی اور دنیا سے بے پروائی کا راز ان کے اس ایمان و یقین میں پوشیدہ ہے جو اسلامی علمیت نے عطا کیا ہے ۔


لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے معاوضے کیوں اتنے کم ہیں ؟ علما اتنے کم معاوضوں کے باوجود شب و روز دین کی خدمت میں مصروف ہیں ، وہ کبھی ان قلیل معاوضوں پر کوئی احتجاج یا حرف شکایت تک زبان پر نہیں لاتے ، آخر کیوں ؟ توکل ، صبر و شکر کی اصطلاحات کا عملی نمونہ کیا عہد حاضر میں ان قلیل المشاہیرہ علما کے سوا کوئی اور ہو سکتا ہے ؟ لوگ درویش ، صوفی ، اللہ کے ولیوں کا پوچھتے ہیں کہ عصر حاضر میں اللہ والے نہیں ملتے ، وہ جا کر ان علما کو دیکھ لیں ، اکثر علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین آپ کو اسی حال میں ملیں گے ۔ یہی علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین جو شب و روز دین کی نشر و اشاعت میں مصروف ہیں ۔ یہ اللہ کے کام میں ایسے مشغول ہیں کہ معاش کمانے کے لیے فرصت نہیں ۔ یہ خود دار ہیں سوالی نہیں ۔ ان علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین سے محبت ، ان کی تقلید ، ان کی خدمت دین کا تقاضا ہے ، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی ضرورت دین میں شامل ہے ، انہیں دنیا کی مصروفیات ، مشاغل سے فارغ کر کے فارغ البال ، مرفع الحال اور خوش حال رکھنا اس امت کی ذمے داری ہے اور ہر اسلامی حکومت کی اساسی ذمے داری ہے ۔ کیا ہماری ریاست یہ کام کر رہی ہے ؟


اس سلسلے میں ہماری ریاست اور ذمہ داران کیا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ہماری ریاست اور ذمے داروں کا کردار اس وقت نہ تو ایک اسلامی ریاست والا ہے ، نہ ہی لبرل ہے ، یہ تو عوام ہیں جو ریاست کے مقابلے میں اپنی ذمے داری کسی حد تک پوری کرتے ہیں اور اپنے جید علما کو نہ صرف احترام دیتے ہیں بلکہ ہمہ وقت خدمت کےلیے تیار بھی رہتے ہیں ۔ گو کہ ایسا مظاہرہ نچلی سطح پر کم نظر آتا ہے ، مثلاً ہم اپنے بچے کے ٹیوشن کےلیے فی مضمون ہزار ، دو ہزار ، پانچ ہزار روپے سے زائد دینے میں ذرا نہیں سوچتے ، مگر ایک قاری کو جو بچوں کو گھر قرآن پاک کی تعلیم دینے آتا ہو ، یہ سوچتے ہیں کہ مفت میں ہی پڑھا دے تو بہتر ہے ، دو بچوں کی فیس دے کر دو بچے مفت میں پڑھانے کا سوچتے ہیں ۔


معاشرے میں مساجد ، مدارس ، علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کا کردار نہایت اہم رہا ہے ، مساجد کے ذریعہ معاشرے کو صحیح رخ پر ڈھالنے کی  ذمہ داری ائمہ نے سر انجام دی ہے ۔ لہٰذا مساجد اور ائمہ مساجد دونوں مسلمانوں کی اہم دینی ضروریات میں سے ہیں ۔ مساجد میں باصلاحیت افراد کا تقرر اور ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو مدِ نظر رکھ کر ان کےلیے معقول وظیفہ مقرر کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے ۔ ائمہ مساجد ، موذنین اور خدام کے وظائف میں وقتا فوقتاً مہنگائی کی شرح اور ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب شرح کے ساتھ اضافہ بھی لازمی ہے ۔ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے وظائف مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی  ضرورت کو پورا کر رہے ہیں ، موسم  کے تفاوت اور حالات کی تفریق سے قطع نظر ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں ، لہٰذا ان سے متعلق یہ جذبہ بھی سامنے رکھاجائے ، نیز  ان افراد کے  معقول وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا  یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔


اس سلسلہ میں مسجد کے فنڈ کی بات زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ، اس لیے کہ مساجد عموماً عوام اور دینی جذبہ رکھنے والے افراد ہی کے تعاون سے چلتی ہیں ، ان کےلیے حکومتوں کی جانب سے کوئی فنڈ مختص نہیں ہوتا ، بلکہ موقع محل کی مناسبت سے عوام مساجد کے چندہ میں بھر پور حصہ لیتے ہیں ، مساجد سے متعلقہ ضروریات کی تکمیل کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ، لہٰذا اگر کہیں مسجد کے فنڈ کامسئلہ ہو بھی تو عوام کے سامنے مناسب انداز میں مسجد کی ضروریات رکھی جائیں تو یہ مسئلہ بسہولت ختم ہو جاتا ہے ۔ مساجد کے ائمہ ، مؤذنین اور خدام کے وظائف ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے طے کرنے چاہئیں اور ان ہی امور کو مدنظر رکھ کر وقتاً فوقتاً ان وظائف میں معقول اضافہ بھی کرنا چاہیے ۔


اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے ، یہ ایک باعزت باوقار اور باعظمت اہم دینی شعبہ ہے ، یہ مصلّٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصلّٰی ہے ، امام نائب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے اور امام اللہ عزوجل اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی ہوتا ہے ، اس لیے جو سب سے بہتر ہو اسے امام بنانا چاہیے ، ہمارے معاشرے میں امام و خطیب کے انتخاب کےلیے جہلا پر مشتمل کمٹیاں ہوتی جو انتخاب کرتے وقت علم کی باۓ سرتال اور گانوں کی طرز پر پڑھنے والوں کو ترجیح دیتی ہے جو عموماً کیسٹوں سے رٹے رٹاۓ بیان کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کےلیے ناسور اور تباہی کا سبب ہیں ۔ حدیث میں ہے : اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کر ے کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے : ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤ مکم علماء کم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبرانی وفی روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ ۔ (شرح نقایہ جلد ۱ صفحہ ۸۶ والاولی بالا مامۃ،چشتی)


دوسری حدیث میں ہے کہ تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے ۔ (شرح نقایہ جلد ۱ صفحہ ۸۶ والاولی بالا مامۃ)


فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے : فالا علم احق بالا مامۃ ثم الا قرأ ثم الاورع ثم الا سن ثم الا حسن خلقاً ثم الا حسن وجھا ثم للاشراف نسباًثم الا حسن صوتا ثم الا نظف ثوباً ۔ (نور الا یضاح صفحہ ۸۳،۸۴ باب الامامۃ)


 امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو دین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو (خصوصاً نماز سے متعلق مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو) یعنی عالمِ دین ۔ پھر وہ شخص جو تجوید سے پڑھنے میں زیادہ ماہر ہو ، پھر جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو ، پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ، پھر وہ جو اچھے اخلاق والا ہو ، پھر وہ جو خوبصورت اور با وجاہت ہو ، پھر وہ جونسباً زیادہ شریف ہو پھر وہ جس کی آواز اچھی ہو پھر وہ جو زیادہ پاکیزہ کپڑے پہنتا ہو ۔ فی زماننا یہ ذمہ داری متولیان مساجد اور محلہ وبستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ، ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں ، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے ، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے ، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام ، وقار ، عزت اور عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔امام مسجد اگر حقیقتاً ضرورت مند اور معقول مشاہرہ کے بغیر اس کا گذر بسر مشکل ہو رہا ہو تو مناسب انداز سے متولیان مسجد اور محلہ کے با اثر لوگوں کے سامنے اپنا مطالبہ بھی پیش کر سکتا ہے اور ذمہ دارانِ مساجد اور بااثر لوگوں پر ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے ، اس صورت میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے منصب امامت کی توہین لازم آتی ہو ہرگز جائز نہ ہو گا ، امام منصب امامت کے وقار عظمت اور قدرو قیمت کا محافظ اور امین ہے ، ایسا طریقہ جس سے منصب امامت کی تذلیل تنقیص لازم آتی ہو ہر گز اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔


حدیث شریف میں ہے : اعطوا الا جیر قبل ان یجف عرقہ ۔ (سنن ابن ماجہ،مشکوٰۃ شریف صفحہ ۲۵۸ باب الاجارۃ)

ترجمہ : مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ، ا ن میں سے ایک ’’رجل استاجراجیراً فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ‘‘ وہ شخص ہے جو کسی کو مزدوررکھے اور اس سے پور اکام لے لے مگر مزدوری پوری نہ دے ۔ (بخاری شریف،بحوالہ مشکوٰۃ شریف صفحہ ۲۵۸،چشتی)


مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کام کی ملنی چاہیے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پر کام لے لے ۔ فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے تصرح کی ہے : ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اللہ علیہ حسیباً ۔ یعنی متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے ۔ اور متولی و مہتمم اللہ عزوجل کے جواب دہ ہوں گے ۔


ایک جانب مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ، روپے کی قیمت دن بہ دن گرتی جارہی ہے ، دوسری جانب علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کی تنخواہوں میں کمی ہو رہی ہے ، ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ انسان چند ہی روپیوں میں گذر بسر کر لیا کرتا تھا ، لیکن دورِ حاضر میں ایک متوسط درجے کے فرد کےلیے ضروریاتِ زندگی کی تکمیل عقدئہ لا ینحل بن چکا ہے ، ایسے میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو ادنیٰ شخص ہو گا ، وہ کیسے اپنے لیے دو وقت کی روٹی مہیا کر سکے گا ؟


مہنگائی کی روز افزوں بگڑتی صورتِ حال نے گھروں کے نگراں افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کےلیے انتھک جدوجہد کے باوجود کوئی سبیل نظر نہیں آتی ، اس صورتِ حال کے باوجود جو علماءِ کرام و اٸمہ مساجد اپنے آپ کو قلیل تنخواہوں پر دینی خدمات سے وابستہ کیے ہوئے ہیں ، مہنگائی کے اس دور میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کےلیے مشاہرہ وتنخواہ کا کیا معیار ہونا چاہیے ، جس سے وہ اپنا گذر بسر کر سکیں اور موجودہ معیار تنخواہوں کا کیا ہے ، اور نظامِ تنخواہ میں بے اعتدالی کے جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس پر کیسے قابو پایا جائے ؟


فقہ حنفی کی رو سے دینی خدمت پر اجرت درست نہیں ، اکابر فقہاءِ احناف نے یہی مسئلہ لکھا ہے ، یہ اس دور کی بات ہے جب علماء کی کفالت بیت المال سے ہوتی تھی ، جب اسلامی نظامِ حکومت کے ساتھ بیت المال کا نظم ختم ہو گیا ، تو متاخرین فقہاءِ احناف نے دینی خدمت پر اجرت کو درست قرار دیا جیسا کہ ہم سابقہ مضمون میں عرض کر چکے ہیں ، اور اب بھی یہی مسئلہ معمول بہا ہے ، حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اساتذہ کرام مدینہ منورہ میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ان میں سے ہر ایک کو ہر مہینہ پندرہ درہم عطا کرتے تھے ۔ (تاریخ دمشق جلد ۲۴ صفحہ ۳۵،چشتی)


علامہ نووی نے خطیب علیہما الرحمہ کی بات نقل کرتے ہوئے اجرت کی مقدار ذکر کی ہے : حاکم پر یہ بات لازم ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو فقہ و فتاویٰ کےلیے فارغ کرے ، اس کےلیے اتنی اجرت مقرر کرے جو اُسے دیگر پیشوں کے اختیار کرنے سے بے نیاز کر دے ، اور یہ بیت المال سے مقرر کرے ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول نقل کیا کہ جو شخص فتویٰ دینے کا اہل ہوا کرتا تھا ، اسے سال بھر میں سو دینار حضرت عمر رضی اللہ عنہ عطا فرماتے تھے ۔ (مقدمہ رسم المفتی صفحہ۱۵)


پندرہ (۱۵) ھجری میں جب تمام لوگوں کے روزینے مقرر ہوئے تو اور اکابرِ صحابہ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہم کےلیے بھی پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر کیے گئے ۔ (الفاروق جلد ۲ صفحہ ۲۹۸،چشتی)


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خرچ کےلیے باضابطہ ایک فہرست تھی ، جس میں ان کے علم و فضل کاکیا جاتا تھا ، اگر کوئی بدری صحابی ہو تو ان کا وظیفہ زیادہ ہوتا تھا ، ان کے مقابلے میں جو بعد کے مسلمان ہیں ، ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے افراد کو زیادہ نفقہ عطا کیا تو صاحب زادہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اعتراض ہوا ۔ (الفاروق)


جامع صغیر میں منقول ہے : کتاب اللہ کے حامل کو بیت المال سے ہر سال دو سو دینار دیے جائیں گے ۔ (الجامع الصغیر جلد ۱ صفحہ ۳۳۶)


علامہ مناوی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر یہ مقدار اس کے خرچ کےلیے کافی ہو تو ورنہ اگر کم ہو جائے تو اس مقدار میں اضافہ کیا جائے گا ۔ (تیسیر بشرح الجامع الصغیر جلد ۱ صفحہ ۹۹۹)


ایک دینار عموماً ایک مثقال سونے کا ہوتا تھا ۔


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگوں کو ایک دن کا نفقہ ملتا تھا تو اس کی مقدار یہ ہوتی کہ ہر آدمی کو نصف بکرا دیا جاتا ، یہ ابتدائی دور کی چند جھلکیاں تھیں ، جس میں خدامِ دین کی ہمت افزائی کا سلسلہ تھا اور خدامِ دین کی اتنی رعایت کی جاتی کہ وہ مکمل توجہ کے ساتھ دینی خدمت میں مشغول و مصروف رہیں ۔


آج ایسے کئی افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے جو اس قابل تھے کہ وہ علمی میدان کے شہسوار ہوتے تو گراں قدر کارنامے انجام دے سکتے ، لیکن اسی تنخواہوں کے عدمِ توازن نے انہیں اس راہ کو خیرباد کہنے پر مجبور کر دیا ، بلکہ بعضے دینی طلبا ابتداء ہی سے یہ ذہن بناتے ہیں کہ فراغت کے بعد دوسری لائن کو اختیار کرنا ہے ، یورپی ملک یا کسی خلیجی ملک کا سفر کرنا ہے ، ورنہ مدارس و مساجد کی تنخوہوں پر گذر بسر کیسے ممکن ہے ؟ نیز علمی کاموں کےلیے یکسوئی درکار ہوتی ہے ، لیکن جب ایک شخص کو وسائل ہی میں مصروف کیا جائے گا اور اسی کی فکر میں اس کی صبح و شام ہو گی تو وہ علمی کام کےلیے کب اپنے آپ کو فارغ کرے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ آج علم و تحقیق کے میدان کے شہسواروں کی روز بہ روز قلت ہوتی جارہی ہے ، اور قابل افراد کی ناقدری تحقیقی کام کےلیے سمِ قاتل بنتی جارہی ہے ، اگر ذمہ دارانِ مدارس و مساجد اس مقام پر غور کریں اور اساتذہ ، اٸمہ و علما کی قدردانی کریں اور انہیں وسائل سے مستغنی کرنے کی سعیِ مسعود کریں ، انہیں معاشی تنگیوں سے آزاد کرنے و چھٹکارا دلانے کی کوشش کریں اور تحقیقی و تصنیفی کام اور افراد سازی کی جانب ان اساتذہ کی توجہ مبذول کریں تو کیا آج گزشتہ تاریخ نہیں دہرائی جا سکتی ؟ تعلیم و تدریس میں کمی و کوتاہی کا ایک بنیادی سبب تنخواہوں میں عدمِ توازن بھی ہے ، ہر ذمہ دار کی دلی خواہش ظاہراً یہ ہوتی ہے کہ تعلیم میں ترقی ہو ، ان کا مدرسہ علاقہ کا مثالی مدرسہ بنے ، ان کی جانب بچوں کا رجوع بڑھتا چلا جائے ، ان کی تعلیم کا ہر جگہ چرچا ہو ، یہ باتیں اور خیالات تو دلفریب ہیں ، لیکن اس کےلیے مطلوبہ محنت ندارد ، مطلوبہ وسائل کا استعمال نہیں ، جس کے نتیجے میں اساتذہ طلبہ پر محنت کرنے سے قاصر ہیں اور وقتی طور پر ایک آدھ اردو شرح پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے ، بالآخر ناکارہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان مدارس سے فارغ ہوکر عوام تک پہنچ رہی ہے ، جو دینی خدمت کے قابل نہیں ہوتی ۔


علما و اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ان کی حاجت ، علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے مشاہرہ دینا چاہیے ، مسجد سے متعلق وقف کی آمدنی میں گنجائش ہو تو اس میں سے اور اگر گنجائش نہ ہوتو مسلمانوں سے چندہ کر کے ان کی ضرورت کے مطابق مشاہرہ کا انتظام کرنا چاہیے ۔ جب مسجد کی آمدنی کافی ہے اور امام و خطیب صاحب ماشاء اللہ مدت سے امامت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ، جمعہ کے دن بیان بھی کرتے ہیں ، نیک اور متقی بھی ہیں اور صاحبِ عیال بھی ہیں تو منتظمین پر لازم ہے کہ ان کی تنخواہ میں گرانی کے پیش نظر رکھتے ہوئے اضافہ کریں ، مسجد کی آمدنی ہونے کے باوجود امام صاحب کے گھریلو اخراجات کے مطابق تنخواہ نہ دینا ظلم ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ذمہ دارانِ مساجد و مدارس حقائق سے آگاہ ہوں ، حالات سے باخبر ہوں ، تنخواہ میں توازن پیدا کریں ، اور ایسی مقدار مقرر کریں کہ جس سے ایک متوسط خاندان بہ آسانی اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کر سکے اور تنخواہوں میں اضافہ کے ذریعہ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو وسعت و فراخی اور آزادی کے ساتھ کام کے مواقع عطا کریں ، اور اتنی تنخواہ ہو کہ انہیں ذہنی سکون و یکسوئی حاصل ہو جائے ، جو کسی بھی دینی خدمت کےلیے ناگزیر ہے ۔


برِ صغیر اور دنیا کے دیگر ممالک میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے معاوضوں کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دین کو کوئی بھی ریاست علم نہیں سمجھتی ، لہٰذا اس علم کے حامل کو عالم نہیں سمجھتی ۔ جدید ریاست صرف دنیاوی علم کی اور علومِ عقلیہ کے عالم کی سرپرستی کرتی ہے ، کیونکہ کانٹ کی فکر پھیلنے کے بعد علم وہ ہے جو عقلیت (ریشنل ازم) اور تجربیت (امپیریل ازم) کے پیمانوں پر پورا اتر سکے اور اس کو ریاضی کی زبان میں بیان کیا جا سکے ۔ لہٰذا اصل العلوم (سپریم نالج) اور العلم صرف سائنس ہے ۔ یوں کانٹ کے بعد دنیا کے ہر علم کو صرف اور صرف سائنس کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے ۔ عہدِ حاضر میں اگر کوئی علم سائنس سے کمتر ہے ، تب بھی وہ اپنے ساتھ سائنس کا سابقہ لاحقہ لگا کر ہی عزت حاصل کر سکتا ہے ، لہٰذا ہیومینٹیز کے مضامین کو اب سوشل سائنس ، علم کتاب خانہ کو لائبریری سائنس ، انسانی مزاج ، رویوں کو بیہیویئر سائنس کہہ کر ان علوم کا درجہ بلند کر دیا جاتا ہے ۔ چونکہ مذہبی علوم جنہیں بعض جدیدیت پسند علما اسلامک سائنس کہتے ہیں ، ان کو کوئی سائنس نہیں مانتا ۔ لہٰذا ریاست ان علوم سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے ۔ عالمِ اسلام مغرب کے سامنے احساسِ کمتری کا شکار ہے ، لہٰذا وہ ہر جدید عقلی علم کے ساتھ اسلام کا ٹکڑا لگا کر مغرب سے اپنے تعلق کو ظاہر کرتا ہے ۔ اسلامک سائنس ، اسلامک سوشل سائنس ، اسلامک پولیٹیکل سائنس وغیرہ کو مغرب میں کوئی تسلیم نہیں کرتا ، نہ ہی ان کی تدریس وہاں کی جامعات میں ہوتی ہے ۔ ہمارا عرض کرنے کا مقصد ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ دلانا ہے ، جس پر ریاست اور دیگر ذمے داران کی تو کوئی توجہ ہی نہیں ہے یا اب ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں ، تاہم یہ جملہ اہلِ اسلام کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اس رویے کی طرف توجہ دیں اور اپنے علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے مسائل کو بھی سمجھیں ، ان کی ہر طرح سے مدد کریں تاکہ وہ دین اور اس امت کی اور تندہی سے خدمت کریں اور ان کی مصروفیات دیگر مسائل کے بجائے خالص دین اور امت کےلیے وقف رہیں ۔ امید ہے کہ جملہ اہلِ اسلام اس اہم مسئلے پر غور کریں گے ۔


علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی تنخواہ کے بارے میں مت پوچھیے جناب ۔ آج کے زمانے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ سستی ہے تو وہ ہے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی ذات اقدس ہے ، عالم ہو ، حافظ بھی ہو ، اور قاری صاحب بھی ہوں ، تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتے ہوں ، اور تنخواہ کتنی ؟ ۔ بس حسبِ لیاقت وہی پندرہ ، بیس ہزار ، علما ، قاری و حافظ ، مدرسین اگر امام مسجد ہیں تو ان کی ذات اور بھی سستی ، جو چاہے دوچار سنا دے ، الیکشن میں کسی ایک گروپ کا ساتھ دیں تو علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین نے رشوت لی ہو گی ، ساتھ نہ دیں تو گھمنڈ آگیا ہے ، ہمارے مخالف نے خرید لیا ہو گا ، زنا کے خلاف جمعہ میں بول دیا تو نوجوان ناراض ، رشوت خوری کے خلاف زبان کھولی تو سرکاری افسران چراغ پا ، سود کی حرمت پر لب کشائی کی تو سرمایہ دار نے آستینیں چڑھالی ، فرض نماز کی اہمیت بتلائی تو آٹھویں دن (جمعہ) پڑھنے والے ناراض ، شراب نوشی کو چھیڑا تو ساقیان میخانہ کی دھمکی ملی ، نماز تھوڑی طویل ہو گئی تو امام صاحب سو جاتے ہیں ، جلدی پڑھی تو مولانا کو مسجد سے باہر نکلنا ہو گا تبھی ، سیاست میں حصہ نہیں لیا تو علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین ناکارہ ہیں جی ، انہیں کچھ نہیں آتا ہے ، اگر حصہ لے لیں تو دیکھو بِک گئے ہیں جی ، چندہ کر کے بچوں کو پڑھائے تو بھیک مانگتے ہیں جی ، اپنی تجارت کریں تو علم کو ضائع کر دیا ، سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں گیا تو دیکھو سرکاری لقمہ خور بن گیا ، مدرسہ میں پندرہ ، بیس ہزار پر کام کرے تو ارے اس کو بیٹی کون دے گا ؟ (سچ مچ) ۔

موٹر سائیکل یا گاڑی لے کر اُس پر سوار ہو تو ضرور اس نے گھپلہ کیا ہو گا ، پیدل چلے تو پھٹیچر ہے ، غلط باتوں پر ٹوکے تو دقیانوس اور سرخاو ہے ، نہ ٹوکے تو ساری خرابیوں کے ذمہ دار علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین ہیں جی ، قیامت کی بات کریں تو ترقی کے دشمن ہیں جی ، دنیا کی بات کریں تو دنیا داری آگئی جی ، بیچارے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کو تقریر بھی سوچ کر کرنی پڑتی ہے کہ نہ جانے کون سی خرابی ہمارے سامعین میں ہو اور ان کو برا نہ لگ جائے ، افسوسناک بات تو یہ ہے کہ تنخواہ تو دیتے ہیں پندرہ ، بیس ہزار اور ہر پسماندگی اور کمزوریوں کا ٹھیکرا پھوڑتے ہیں علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے سر ، لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے ڈاکٹرز ، انجینئرز ، لیکچرار ، آئی پی ایس افسران ، ججز ، فوجی افسران ، بیورکریٹس نے اپنی محنت سے اپنے ہی جیسا ایک بھی فرد بنانے کی ذمہ داری آج تک نہیں لی ۔ لیکن سینکڑوں اور ہزاروں افراد کو کم از کم اپنے جیسا بنادینے والے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین پر امت کی ساری خرابیوں کا ٹھیکرا پھوڑتے ہیں ، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جن صاحب کی باتوں کا معمولی اثر ان کی بیگم پر ظاہر بھی نہیں ہوتا ، جن کے غصے سے ان کے اپنے صاحبزادے بھی نہیں ڈرتے وہ بھی علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین پر آنکھ غراتے نظر آئیں گے ۔ اب قارئین ہی بتائیں کہ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین سے سستا کون ہے ؟

علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین سستے ہونے چاہٸیں آخر کیوں جناب ؟

دین اسلام میں تعلیم و تعلم کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے ، اللہ عزوجل نے سب سے پہلے جس چیز کی وحی کی وہ تعلیم کی تھی ، اور اس میں پڑھنے کی سخت تاکید کی فرمائی جو بلا کسی شک و شبہ کے تعلیم و تعلم کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے ، اس سلسلے میں بہت ساری قرآن کی آیات اور احادیث وارد ہیں ۔ جب تعلیم کی اتنی زیادہ فضیلت ہے تو تعلیم دینے والے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی کتنی فضلیت ہو گی ؟

آئیے دو تین دلائل آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں (1) قل هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون ۔ (2) يرفع الله الذين آمنوا والذين اوتوأ العلم درجات ۔ اور ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من سلك طريقاً يلتمس فيه علما سهل الله له به طريقاً إلى الجنة ۔ یہ حدیث علم اور اہلِ علم کی فضیلت پر بہت بہترین دلیل ہے ۔ اس موضوع پر ہم الگ سے لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔

افسوس کہ جس دین میں سب سے زیادہ تعلیم کو اہمیت دی گئی آج اسی دین کے ماننے والے تعلیم سے دور ہیں ، آج اسی دین کے ماننے والے علم اور اہلِ علم کو حقیر سمجھتے ہیں ، علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی قدر و منزلت کو بالاٸے طاق رکھ کر ان پر ظلم و جور اور ان کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے ، وہ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین جو ان کو دنیا و آخرت میں کامیابی پانے کا طریقہ بتاتے ہیں ، وہ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین جو ان کو جنت میں لے جانے کےلیے پریشان رہتے ہیں ، وہ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین جو ان کے بچوں کے مستقبل کو سنوارتے اور مزین کرتے ہیں ، وہ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین جن کے بغیر نماز نہیں پڑھ سکتے ، جن کے بغیر شادی نہیں کر سکتے جن کے بغیر جنازے کی نماز ادا نہیں کر سکتے آج انہیں علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے ساتھ ایسا نا روا سلوک کیا جاتا ہے کہ سن اور دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ، اللہ جو قوم اپنے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین اور رہبروں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے گی وہ کیسے کامیاب ہو سکتی ہے ؟

آج علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی زندگی اتنی سستی ہو گئی کہ پندرہ ، بیس ہزار میں خرید لاؤ اور جس طرح چاہو ان کے ساتھ برتاؤ کرو ، جو چاہے کہدو (گالیاں دو ، طعن و تشنیع کرو ، الزام لگاؤ ، عیب جوئی کرو) کچھ نہیں ہوگا کیونکہ وہ تو حقیر ہیں نا ۔

حقیر سمجھ کر بھجا دیا جنہیں تم نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے ، اس کی زندگی تو بس اسی لیے ہے تاکہ غلام بنا کر جیسا چاہو سلوک کرو ، پورے علاقے والوں کے سامنے ان کی توہین کرو ، ان کی عزت کو نیلام کرو ، جب چاہے بلا لو جب چاہے بھگا دو ، واہ رے امت کے لوگو بڑی عزت کرتے ہو اپنے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی ، ہم مبارک باد پیش کرتے ہیں ایسے کارنامے پر فقیر چشتی ایک سوال یہ کرنا چاہتا ہے کہ ذرا خود اس بات کو دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ جو آپ اپنے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے ساتھ کر رہے ہیں یہ صحیح ہے ؟ ۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی عزت ہو کیا نہیں چاہتے کہ آپ کی کمائی زیادہ ہو ؟ پھر علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے ساتھ ایسا کیوں ؟ ۔ آپ کے گھر میں ایک لاکھ روپیہ مہینہ آتا ہے تب بھی ضرورت پوری نہیں ہوتی ہے ، لوگوں سے کہتے پھرتے ہو کہ بہت خرچ ہے گھر میں ، یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے وغیرہ ، تو یہ بتائیے کہ پندرہ ، بیس ہزار میں علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی ضرورت کیسے پوری ہو سکتی ہے ؟ ۔ کیا علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے گھر کا خرچہ نہیں ہوت ؟ کیا علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین آرام کی زندگی نہیں چاہتے ؟ ۔ کیا علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے گھر بیٹیاں نہیں ہیں ؟ ۔ کیوں کیوں کیوں اپنے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے ساتھ یہ نا انصافی کرتے ہو کیوں ان کی زندگی کو اتنا سستا سمجھتے ہو ؟ ۔ آپ کہتے ہو یہ ثواب کا کام کرتے ہیں کیا کریں گے پیسہ ، واہ جناب ایسے ہی موقع پر آپ کو ان کے ثواب کی فکر ہوتی ہے ، کاش یہ سوچ لیتے کہ : ہماری اور ہماری اولاد کی دنیا و آخرت سنوارتے ہیں اور زیادہ پیسے دینا چاہیے ان علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کو ۔ تو کتنا اچھا ہوتا ؟

بنا تعلیم کے ترقی ممکن نہیں ہے ، بنا تعلیم کے جنت ممکن نہیں ہے ، بنا تعلیم کے سکون اور امن و سلامتی ممکن نہیں ہے ، بنا تعلیم کے اللہ دزوجل کی معرفت ممکن نہیں ہے علم کی اہمیت کو سمجھیں اور علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی قدر کریں ، علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی زندگی کی اہمیت کو سمجھیں ، علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی بقا پر دنیا کی بقا ہے ، علماء روشن چراغ کی طرح ہیں جو آپ کو اندھیرے میں روشنی کا راستہ دکھاتے ہیں ، ان چراغوں کو اگر بجھا دو گے تو نقصان تمھارا ہوگا ان چراغوں کا نہیں ۔ ایک بار پھر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پندرہ ، بیس ہزار میں کسی کی زندگی اس تیز رفتار دور میں بسر نہیں ہو سکتی ہے ۔ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی بھی کچھ ضروریات ہوتی ہیں جو اس پیسے میں پوری نہیں ہو سکتی ہیں ، علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کو اچھی تنخواہ دیجیے اور اچھے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کا انتخاب کیجیے ، اور فقیر چشتی یقین کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اگر اچھی تنخواہ دی جائے گی تو تعلیم بھی اچھی ملے گی ان شاء اللہ ۔

محترم قارئین کرام : ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ جس کو اپنا امام ، بڑا ، لیڈر یا امیر مان لیا جائے پھر اس کا ادب واحترام بھی کرنا چاہیے ، لہٰذا آپ اپنی نمازیں خراب نہ کیا کریں ۔ امام صاحب کے بارے میں برا بھلا کہنا چھوڑ دیں ۔ شریعت میں امام کا بڑا مقام و مرتبہ رکھا گیا ہے، وہ قوم کا مقتدا ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ادب واحترام اور اکرام کا معاملہ کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے ، مسجد کا متولی یا ذمہ دار بھی امام صاحب کے اکرام کا مکلف ہوتا ہے ، وہ اگر اپنی جہالت یاتکبر کی وجہ سے امام صاحب کے ساتھ بے ادبی کا معاملہ کرتا ہے یا امام صاحب پر صحیح غلط حکم رانی کرتا ہے تو سب نمازیوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پر روک لگائیں ؛ بلکہ جو شخص جاہل وناخواندہ ہو اور امام کے مقام ومرتبہ سے ناواقف ہو ، اسے مسجد کا ذمہ دار ہی نہیں بناناچاہیے ، مسجد کا ذمہ دار تو اسے بنانا چاہیے کہ جو نماز ، روزہ کا پابند ، دین دار ، امانت دار اور باشرع ہو اور امام اور موٴذن وغیرہ کے مقام سے واقف ہوکر ان کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے اور وہ خود کو مسجد کا خادم سمجھے ، حاکم نہ سمجھے ۔

پیچھے اِس امام کے : ⏬

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ایک دن سوچ رہا تھا کہ آخر ، پیچھے اس امام کے ، اس کا مطلب عوام کیا سمجھتی ہے ۔ شاید عوام سوچتی ہے کہ "پیچھے اس امام کے" کا مطلب ہے اس امام کے پیچھے پڑ جاؤ ہے ۔

کہاں جاتا ہے ؟

کیا کرتا ہے ؟

کب سوتا ہے ؟

اکثر یہ سنت پڑھتا نظر نہیں آتا ، اس سے پہلے کہاں نماز پڑھاتا تھا  ؟

وہاں سے کیوں نکالا گیا ؟

اب وہاں کیوں جاتا ہے ؟

فلاں سے کیوں بات کرتا ہے ؟

نمازیوں کے ساتھ کیوں بیٹھتا ہے ؟

نمازی بالخصوص نوجوان اس سے ملنے کیوں آتے ہیں ؟

اس کے پاس موبائل کون سا ہے ؟

گاڑی بہت تیز چلاتا ہے ؟

اس کے پاس گاڑی کہاں سے آگئی ؟

کھا کھا کر موٹا ہوگیا ہے ، جب آیا تھا تو پتلا تھا ۔ اس کو چربی چڑھ گئی ہے ، یہ بازار ۔ مارکیٹ کیوں جاتا ہے ؟

اگر محفل ، میلاد ، جلسہ ، پروگرام میں یا کسی ضروری کام سے چلا جائے تو کہا جاتا ہے : یہ امام بہت غیر حاضر ہونے لگا ۔

ابھی جماعت کھڑی ہو نے میں 3 / 4 منٹ باقی ہوتے ہیں لوگ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے کہ امام آیا یا نہیں ! سالوں سال گھر نہ جائے اپنے والدین ، بیوی بچوں سے دور رہے اگر مہینے دو مہینے بعد دوچار دن اپنے گھر ، گاؤں چلا جاۓ تو بعض فتنہ پرور شور مچاتے ہیں : لو جی امام صاحب بڑے غیر ذمہ دار ہوگئے ہیں ۔ خود کو مہینے میں چار یا آٹھ چھٹیاں درکار مگر امام بندہ بشر تھوڑی ہے اسے چھٹی کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ خود روز گھر جائیں مگر امام ؟ نہ بھئی نہ ، امام کبھی بیمار ہوجاۓ تو بجاۓ عیادت و بیمار پرسی کے اس پر بھی اعتراضات شروع کردیے جاتے ہیں ، بس جی ان کو تو کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

آج  اکثر جگہ اماموں کو حسد ، بغض ، ذاتی انتقام کی وجہ سے نکالا جاتا ہے ، امام بیچارہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑتا ہے ۔ وہ اپنا دکھڑا کہیں تو کس سے کہیں ، ان کا کوئی حامی اور مدد گار نہیں ، قوم جب چاہتی ہے اماموں کو نکال دیتی ہے ۔

یاد رکھیں مصلے پر کھڑا ہو کر ہمیں نمازیں پڑھانے والا ہمارے اور رب تعالی کے درمیان "سفیر اورنمائندہ" ہوتا ہے اور یہی وہ عظیم شخصیت ہوتا ہے جسے ہم نائب رسول کہتے ہیں ۔

دوسری طرف امام حضرات بھی اپنے منصب کے ساتھ پوری وفاداری کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو حتی الامکان پورا کریں ۔ کیونکہ امام اپنے علاقے کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے ۔

آپ اگر کسی مسجد کے امام ہیں اور امامت کے منصب پر فائز ہیں ، لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں ، آپ کی اقتدا میں لوگ نماز پڑھتے ہیں ، تو یہ آپ کےلیے بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی بارگاہ میں روزانہ پانچ مرتبہ سر بسجود ہونے والوں کا رہبر و امام بنایا ہے ۔ یقینا امامت کا منصب ملنا من جانب اللّہ ایک نعمتِ عظمی سے سرفراز ہونا ہے ۔
اور یہ امامت امام الانبیاء نائبِ خالقِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیاری سنت بھی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا امام و مؤذن کو ان کے برابر ثواب ہے جنہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے ۔ (بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٥٥٨ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ،چشتی)

مذکورہ حدیث سے اندازہ لگائیں اور تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ شریعت میں امام کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے ! کوئی شخص اگر نماز پڑھتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو صرف اور صرف وہی عابد اور صالح نیکی و ثواب سے ہمکنار ہوتا ہے مگر امامت ایک ایسا نیک عمل  ہے کہ جس کے کرنے سے صرف اپنی ہی نماز کا ثواب نہیں  بلکہ سب نمازیوں کے برابر کا ثواب ملتا ہے اور اللّہ تعالٰی اس کے نامہ اعمال میں بے حساب نیکیوں کا اضافہ فرماتا ہے ، اور  ان شاء اللہ امام بروزِ قیامت ضرور کامیابی سے سرفراز ہوگا ، جنت الفردوس میں اعلی مقام کا مستحق ہوگا ۔

اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ صَلَّی خَلْفَ عَالِمٍ تَقِیٍ فَکَانَّمَا صَلّی خَلْفَ نَبِیٍ ۔ جس نے کسی پرہیزگار عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے کسی نبی کے پیچھے نماز پڑھی ۔ (بدائع الصنائع جلد ١ صفحہ ٢٣٥)(امام اور مقتدی صفحہ ١٣ مطبوعہ اسلامی کتب خانہ بریلی شریف،چشتی)

دیکھیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کتنا عظیم درجہ سے نوازا ہے امام کو ، ایک متقی ، پرہیزگار ، باعمل عالم دین امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کو انبیائے کرام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے جیسا بتادیا ۔ حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ امام کا مقام و مرتبہ شریعت میں بہت ہی ارفع و اعلی ہے ۔

فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں کہ : اگر امام فاسقِ معلن نہیں ہے تو برائی کرنے والا سخت گنہگار حق العباد میں گرفتار ہوگا ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد ١ صفحہ ٢٧٢)
آپ ہی سے سوال ہوا کہ : امام کیسا ہونا چاہئے ؟خوبی بتلائیے ۔ تو آپ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : امام سنی صحیح العقیدہ ہو ، وہابی دیوبندی وغیرہ بد مذہب نہ ہو ، صحیح الطھارہ یعنی وضو ، غسل اور کپڑے وغیرہ کی طہارت رکھتا ہو ، صحیح القراءت ہو مثلاً ا ، ع ، ت ، ط ، ث ، س ، ش ، ص ، ہ، ح ، ذ ، ض اور ز ، ض ، میں فرق کرتا ہو فاسقِ معلن نہ ہو اسی طرح اور امور جو منافی امامت ہیں ان سے پاک ہو ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد ١ صفحہ ٢٦٧)

مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہی شخص امامت کے لائق ہوں گے جن کے اندر مذکورہ خوبیاں موجود ہوں گی اور الحمد للہ ! ہمارے اکثر ائمہ کرام کے اندر  یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں اور یقینا جو ان خوبیوں کا حامل ہوگا وہ ضرور متقی و پرہیز گار اور مکرم ہوگا ۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت مکرمین و متقین لوگوں سے متعلق ارشاد فرماتا ہے : اِنَّ اَکْرَمَکُمُ عِنْدَ اللّہِ اَتْقَاکُمْ ۔ بےشک تم میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم وہ ہیں جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔
اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے : اِنْ اَوْلِیا٘ءہ اِلا الْمُتقُون ۔ یعنی اللہ کے محبوب صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو متقی و پرہیزگار ہوا کر تے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : میں جنت میں گیا ، اس میں موتی کے گنبد دیکھے ، اس کی خاک مشک کی ہے ، فرمایا "اے جبریل! یہ کس کےلیے ہے ؟ عرض کی حضور کی امت کے مؤذنوں اور اماموں کےلیے ۔ (بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٤٦٠ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ)

مذکورہ بالا دونوں آیات اور حدیث سے یہ بات امس و شمس کی طرح لائح ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک امام کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے ، ان کی حقیقی شان و عظمت کیا ہے ؟ اسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے میں کتنا ثواب ہے ، تو اس پر باہم تلوار چلتی ۔ (بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٤٦٠ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ)

اس حدیث سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اذان دینے میں اتنا ثواب تو امامت میں کتنا ثواب ملتا ہوگا!  اور امامت کا رتبہ کتنا ارفع و اعلی  ہوگا ! بلا ریب جو لوگ منصب امامت کی اہم ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادار کر رہے ہیں وہ قابل مبارکباد بھی ہیں اور لائق صد توقیر و تعظیم بھی اور عند اللہ با کرامت و با عظمت ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار اجر کے مستحق بھی ہوں گے ۔

مزید مرتبہ امامت کی وضاحت فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : کوئی شخص کسی مقرَرہ امام کے ہوتے ہوئے امام نہ بنے اور کسی کے گھر میں اس کی مسند پر نہ بیٹھے ہاں جب کہ اجازت دے ۔ (صحیح مسلم جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٢٣٦،چشتی)

اس حدیث کی شرح میں امام نوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وَاِنْ کَانَ ذلِکَ الْغَیْرُ افقہُ وَ اقراءُ وَ اَورَعُ وَ اَفضَلُ مِنہُ ۔ اگر چہ یہ دوسرا شخص اس سے علم و قراءت ، پرہیزگاری اور فضیلت میں زیادہ ہو ۔ (امام اور مقتدی صاحب صفحہ ٢٣)

فتاوی بحر العلوم جلد اول صفحہ ٣٥٧ میں ہے : امام کی اجازت کے بغیر امامت کرنا مقررہ امام کی حق تلفی اور غلط ہے ۔

آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی  باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ۔ ایسے جاہل ، احمق اور بے ہودہ لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا اور ایک عالمِ دین سمجھے اور ادب و احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے ۔

اس تعلق سے فتاوی فقیہ ملت جلد ١ صفحہ ١٤٧ پر ایک فتوی ہے جس کو پڑھ کر ایسے لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے ۔
کتاب مذکور میں سوال ہوا کہ : بعض لوگ عوام میں ایسے پائے جاتے ہیں جو امام صاحب کی بلاوجہ خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور کوئی کمی نظر نہیں آتی تو صرف اتنی ہی بات پر کہ امام صاحب اگر ہفتہ یا عشرہ میں گھر یا کہیں اور اپنی ضرورت سے چلے گئے تو اس بات کو لے کر مسجد یا دوکان یا روڈ پر چند لوگوں کی جمی مجلس میں امام صاحب کو برا بھلا کہنا اور اس طرح بولنا کہ یہ بہت آزاد ہوگئے ہیں یا یہ شخص رکھنے کے قابل نہیں ہے اسی طرح بعض نازیبا کلمات بکنا کیا شرعاً یہ باتیں درست ہیں ؟ اگر نہیں تو جو لوگ افعال مذکورہ کے مرتکب ہیں ان کےلیے شرعاً کیا حکم ہے ؟
اور ظاہر ہے امام صاحب انسان ہیں ان کی اپنی ذاتی گھریلو وغیرہ بہت سی ضروریات ہیں کیا ان کی فراہمی کےلیے ان کا ناغہ کرنا شرعاً گرفت کا سبب ہے ؟ اگر نہیں تو جو لوگ اس بنیاد پر امام کو ہدف ملامت یا مورد طعن و تنقید بنائیں ان کےلیے شریعت مطہرہ کیا حکم رکھتی ہے ؟
تو شاگردِ حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی حبیب اللّہ مصباحی صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا خصوصاً بر سرِبازار فسق و گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ لیس المؤمن بالطعان و لا اللعان و لا الفاحش و لا البذا ۔ یعنی مسلمان لعن طعن کرنے والا ، فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا ۔ (ترمذی شریف جلد ٢ صفحہ ١٨،چشتی)

اور جو شخص مسجد کا امام ہے ظاہر ہے کہ وہ بھی انسان ہی ہے اس کی اپنی بھی کچھ ضروریات ہیں جن کے لیے اسے گھر جانا ہوگا اس پر لوگوں کا برا بھلا کہنا بد تمیزی سے پیش آنا قطعاً درست نہیں بلکہ ایک مسلمان کو تکلیف دینا ہے اور مسلمان کو تکلیف پہونچانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکلیف پہونچانا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ مَنْ اَذی مسلماً فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللّہ ۔ ہاں اگر امام مسجد کے متولی کو آگاہ کیے بغیر ناغہ کرے تو اسے پوچھنے کا حق ہے نہ کہ ہر شخص کو ۔ اور امام کو رسوا کرنے والے یہ جان لیں کہ وہ جیسا امام کے ساتھ کریں گے اللّہ تعالٰی ان کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کرے گا ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ کَما تدینُ تدان ۔ یعنی جیسا تو دوسرے کے ساتھ کرے گا ویسا ہی اللّہ تیرے ساتھ کرے گا ۔ (کنزالعمال جلد ١٥ صفحہ ٧٧٢)

لہٰذا عوام پر لازم ہے کہ وہ امام کو رسوا کرنے او اس کو برا بھلا کہنے سے باز آئیں اور اس سے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کریں ۔


منصبِ امامت ایک جلیل القدر منصب ہے جو گویا کہ نیابتِ رسالت (یعنی انبیاء علیہم السلام کے نائب) ہیں ، جس کی بناء پر ائمہ حضرات کا کرام و احترام لازم ہے ۔ امامت ، موذنی اور علمِ دین کی تدریس اللہ عزوجل کے نزدیک نہایت مؤقر عمل ہے ، اور ان لوگوں کےلیے اللہ عزوجل کی خاص رحمت و انعام مقدر ہے ۔ ان فضائل کو جان لینے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں بلاشبہ یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی امام ، موذن یا مدرس ہوتا لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ دور میں اپنے معاشرے کے ائمہ اور موذنین ، و مدرسین کے حالات اور ان کے ساتھ لوگوں کے سلوک و رویوں کا جائزہ لیں تو بہت افسوس اور تکلیف ہوتی ہے ، آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ دیندار اور باشعور سمجھے جانے والے مسلمان بھی امامت بالخصوص موذنی اور مکاتب کی مدرسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بعض مساجد و مدارس کے ذمہ داران مختلف طریقوں سے ان حضرات کو ہراساں کرتے رہتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگانا ، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے ، خصوصاً موذنین کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ، بلاشبہ ان سے غلطیاں و کوتاہیاں بھی ہوتی ہوں گی ، لیکن ایسے وقت میں ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں تنہائی میں تنبیہ کی جائے ، لوگوں کے سامنے ان سے سخت کلامی کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے ، ذمہ داران کے علاوہ اکثر نمازی حضرات بھی موذنین سے الجھ جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جن کی گھر میں نہیں چلتی وہ مسجد میں آ کر اپنی چلاتے ہیں ، چنانچہ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک عام مسلمان ، امام بالخصوص موذن اور مکتب کا مدرس بننے کی حسرت اور خواہش کو دل میں ہی دبا دیتا ہے ۔ اور دیگر دنیاوی مشاغل کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنے اِس غیر شرعی فعل سے باز آجانا چاہیے ، ورنہ ان سے بروزِ حشر سخت مواخذہ ہوگا ، جہاں ان کی ایک ایک زیادتی کا حساب چُکتا کیا جائے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : تمہارے امام تمہارے سفارشی ہیں یا یوں فرمایا : تمہارے امام اللہ عزوجل کے یہاں تمہارے نمائندہ ہیں ۔ (اتحاف السادة المتقین،چشتی)

ذخیرہ احادیث میں مؤذن کی بہت فضیلت آئی ہے ، مثال کےلیے دو حدیثیں پیشِ خدمت ہیں : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : اگر تمہیں اذان دینے کی فضیلت اور خیروبرکت کا علم ہو جائے تو تم مؤذن بننے کےلیے قرعہ اندازی کرنے لگو ۔ (صحیح بخاری)

یعنی ہر ایک اذان دینے کا اتنا شوقین ہو جائے گا کہ جھگڑے کو ختم کرنے کےلیے قرعہ کی ضرورت پیش آئے گی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : مؤذن کو الله کے راستہ میں شہید کی طرح ثواب ملتا ہے اور دفن کے بعد اس کا جسم کیڑوں کی غذا نہیں بنتا ۔ (طبرانی کبیر)

امام اور مؤذن صاحبان کو نوکر سمجھنا یا نوکروں جیسا برتاؤ ان کے ساتھ کرنا بہت غلط بات ہے اور ان کی حق تلفی ہے ۔ یہ خیال تکبر سے پیدا ہوتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ، جب تک اس کو دوزخ میں جلا کر نکال نہ دیا جائے گا، وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔ (صحیح مسلم)

اس لیے جو حضرات ایسا کرتے ہیں ان کےلیے ضروری ہے کہ وہ اس سے باز آئیں اور اپنی اصلاح کریں اور آئندہ امام و مؤذن صاحبان کا اکرام و احترام کریں ۔
دینِ اسلام میں امامت کا منصب بڑا ہی معزز و محترم منصب ہے ۔ امامت وہی کرتا ہے جو قوم کا معزز اور صاحب علم شخص ہوتا ہے۔ اس بات سے بلکل واضح ہے کہ امامت اس دنیا کا ایک عظیم نصب ہے ، اس لیے کہ یہ منصب بڑا نازک اور حساس ہے ۔ اس کے تقاضے بہت اہم ہیں اور توقعات بہت زیادہ ۔ اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے وہ ائمہ کرام میں اقدار مفقود نظر آتی ہے جو اس منصب کے لیے نہایت ضروری ہے تاہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عہدے کو جو عزت بخشی اور اس کی جو راہ عمل متعین کی ہے اس نے اس کی عظمت کو ختم نہیں ہونے دیا ۔ اسلام نے اس کے شرائط و ضوابط متعین کردیے تاکہ ہر کوئی اسے اپنا حق نہ سمجھے ۔

لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی منصب کیسا بھی جلیل القدر ہو اس کی عظمت خود عہدیدار کو ہی قائم رکھنی پڑتی ہے۔ اس سے جڑا ہوا انسان اس کی عظمت سے اسی وقت معظم بن سکتا ہے کہ وہ خود اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو وہ خود اگر اس عہدے کے تقاضوں اور نزاکت کا خیال نہیں کرتا تو اس منصب کی عظمت بلکہ اندیشہ ہے کہ وہ اپنی کوتاہی اور بے حسی سے اس منصب کی اقدار کو ہی پامال کردے گا ۔

امام کو لازمی طور پر ان خامیوں کو جاننا ہوگا جن کی وجہ سے مقتدیوں کی نگاہ میں اس کی عظمت میں کمی آئی ہے اور مقتدی حضرات اپنے آپ کو امام کا آقا و مولا سمجھتے ہیں ۔ مقتدی حضرات کو بھی امام کا حق جاننا چاہیے اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔ امامت کا منصب بےحد بزرگی والا ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا جس نے لوگوں کی امامت کی اور وقت پر اسے اچھی طرح ادا کیا تو اسے بھی اس کا ثواب ملے گا اور مقتدیوں کو بھی اور جس نے اس میں کچھ کمی کی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہوگا یعنی ان (مقتدیوں) پر نہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ۹۸۳)

آج ائمہ مساجد کے ساتھ عوام کے رویوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ حالات کتنے افسوسناک ہیں ۔ وہ شخص جو لوگوں کی نمازوں کی قبولیت کا وسیلہ و ذریعہ ہے ، آج وہ مسجد میں ایک نوکر کی زندگی گزار رہا ہے ۔ جس کی تنخواہ محض چند ہزار ہوتی ہے اور وہ بھی اتنی دھونس کی کہ وہ نمازوں کے ساتھ ساتھ نیاز، دسویں کی فاتحہ ، نماز جنازہ ، نکاح ، مسجد کی صفائی وغیرہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ مسجد کے باہر تھڑوں پر اور بازاروں بیٹھنے والے لوگ جن کو نماز سے کوئی سروکار نہیں اماموں کے حالات پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

نئے نئے مشورے کرتے ہیں کہ امام صاحب کو ایسا کرنا چاہیے ، ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے ، امام صاحب کی ذمہ داری ہے وغیرہ ۔ بہت سی جگہوں پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اماموں پر دباؤ بناتے ہیں جس کی وجہ سے ائمہ مساجد حق گوئی سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ شخص بھی جس کے اپنے بچے نہیں سنتے ہو وہ بھی امام صاحب پر فرمانروا ہوتا ہے ۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ امام صاحب کو کوئی پریشانی تو نہیں ۔ انہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ ان تمام چیزوں کی پرواہ بھی نہیں ہوتی ۔ جو بھی آتا ہے وہ اعتراض اور زبان طعن دراز کرتے ہے ۔

اب بات کرتے ہیں امام صاحب کی تنخواہ پر جو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔ اس تنخواہ میں ایک عام آدمی زندگی گزار نہیں سکتا اور اتنے اخراجات ہوتے ہیں جو اتنی مختصر سی تنخواہ میں ممکن نہیں ۔ اماموں کے معاملات پر تو بہت بڑے زورشور پر ہوتی ہے ۔ ان کی غلطیوں کو اجاگر کرنے کےلیے تو بڑی محفل منعقد ہوتی ہیں۔ کیا کبھی اس بات کو لے کر کوئی سنجیدہ ہوا کہ امام صاحب کو نذرانہ کتنا دینا چاہیے ؟ ۔

کیا کسی نے اس بات کو اٹھایا کہ امام صاحب نے یہاں ایک عرصہ گزار دیا سب تعاون کرکے ان کو گھر مہیا کروا دیں ؟ مسجدوں میں لاکھوں کروڑوں لگانے کے لئے تو تیار رہتے ہیں کہ مسجد طرح طرح کے نقش و نگاری سے مزین ہو جائے کیوں کہ یہ اللہ کا گھر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ائمہ مساجد کے احوال سدھارنے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ اس لیے کہ وہ مسجد کا ایسا ستون ہیں جن کے بغیر جماعت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت ممکن نہیں ۔ اور معاشرے میں امامت کی اہمیت کو اتنا کم سمجھا جاتا ہے کہ امام صاحب کا نام لیتے ہیں ایک عجیب و غریب تصور ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے ۔ کہ امام وہی ہوتا ہے جو غریب ہوتا ہے ۔ سادہ زندگی گزارنے والا جس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا ۔ جو ساری زندگی ایک چھوٹے سے حجرے میں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ان کا بچہ امام بن گیا تو کھائے گا کیا وہ اپنے بچے کو غربت کے سمندر میں دھکیلتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔ کہ وہ اپنے مسجد کے امام کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں ۔

اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ منصب جو نیابت رسول سے منسلک ہے، اس کےلیے ہم نے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے ۔ امامت کے مسائل پر گفتگو ہونی چاہیے اس کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بٹھانی چاہیے ۔ غرض اس مضمون سے یہ ہے کہ ائمہ کرام کے مسائل حل کیے جائیں ۔ ان کو معاشی طور پر مضبوط بنایا جائے ۔ ان کو تجارت کے مواقع فراہم کیے جائیں ، تاکہ وہ خوش دلی سے اس منصب کی انجام دہی کریں ۔ ائمہ حضرات کو بھی چاہیے کہ دین کی تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کریں ، نوجوانوں کو دینی مسائل سے آگاہ کریں ۔ ان کو دین پڑھانا بھی بہت بڑی تبلیغ ہے ۔ جب ائمہ حضرات ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو حالات بدل جائیں گے ان شاء اللہ ۔ اس سے اصلاح کی امید ہے اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔

فقہائے کرام رحمہم الله علیہم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ :
مسجد کے متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمانِ مساجد اور مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بُری بات ہے اور متولی خدا کے یہاں جواب دہ ہوں گے ۔ (درمختار و شامی،چشتی)

صرف امامت کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی ذمہ داری ڈالنا ، ان سے جھاڑو دینے ، نالیاں صاف کرنے وغیرہ امور کی خدمت لینا ظلم شدید اور توہین ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) کی تعظیم کرو ، بےشک جس نے ان کی تکریم کی اس نے میری تکریم کی ۔ (الجامع الصغیر)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) اسلام کے علمبردار ہیں اور اسلام کا جھنڈا اُٹھانے والے ہیں ۔ جس نے ان کی تعظیم کی اس نے الله کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی اس پر الله کی لعنت ہے ۔ (کنز العمال و مشکواة،چشتی)

مسجد کی انتظامیہ کو اس کا بھی خیال رکھا چاہیئے کہ امام و مؤذن کی شکل و صورت مسنون ہو اور ان کا تلفظ بھی تجوید کے مطابق درست ہو ۔

آٸمہ و مٶذننین کا تنخواہوں کے ذریعے بھی استحصال کیا جارہا ہے ، خطیر رقم مسجد و مدرسے میں جمع ہونے اور آمدنی کے متعدد ذرائع ہونے کے باوجود قلیل تنخواہیں دی جارہی ہیں ، بعض ذمہ داران اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ تنخواہ کم دے کر ہم مسجد ، مدرسہ کا پیسہ بچا رہے ہیں ، جب کہ یہ حضرات سخت غلطی پر ہیں، اس طرح وہ ان حضرات کا استحصال کرکے مسجد کا پیسہ نہیں بچا رہے ہیں بلکہ اپنے لیے آخرت کی مصیبت مول لے رہے ہیں ، ان حضرات کو احمقوں کی جنت سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ چندہ دہندگان چندہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کےلیے دیتے ہیں جن میں سرِ فہرست امام و مؤذن کی تنخواہ ہوتی ہے ، اور اکثر چندہ دہندگان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ امام و مؤذن کی تنخواہ بہتر سے بہتر ہو ، چنانچہ ان رقومات پر ذمہ داران کا سانپ بن کر بیٹھ جانا اور غیر معقول تنخواہ دینا قطعاً ناجائز ہے ، انہیں اپنی اس روِش کو ترک کرنا ضروری ہے ۔

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے لاہو شہر میں دیکھا ہے کہ ایسے بھی ذمہ دارانِ مساجد ہیں جو خود امام و مؤذن کی مکمل اور معقول تنخواہ کا نظم کرتے ہیں ، یا تنخواہ کا ایک حصہ اپنی جیبِ خاص سے ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ، اور دیگر ذمہ داران کےلیے انہیں مشعلِ راہ بنائے آمین ۔ (چشتی)

لیکن فقیر نے دیگر مختلف شہروں و قصبوں  کی تمام مساجد اور مکاتب کا پروگرانوں کے سلسلے میں جا جا کر مشاہدہ کیا ہے تو وہاں ائمہ و مؤذنین کی ہفتہ واری تنخواہیں بارہ سو سے دو ہزار کے درمیان ہیں ، چند مساجد ہوں گی جہاں معقول یعنی دو ہزار سے پچیس سو تک تنخواہ دی جاتی ہیں ۔ اکثر مضافاتی شہروں اور گاٶں کی مساجد کی حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے ، وہاں اب تک ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں ماہانہ تین ہزار تا پانچ ہزار ہیں ۔ وہاں کے لوگوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

مدارس و مکاتب میں پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے مدرسین کی تنخواہیں عموماً تین ہزار تا پانچ ہزار دی جارہی ہیں ۔ حیرت اور درد کا ایک جھٹکا آپ کو اس وقت بھی لگے گا جب آپ دینی مکاتب و مدارس میں خدمات انجام دینے والی معلمات یہاں تک کہ فقہ اور حدیث شریف کا درس دینے والی جید عالمات کی تنخواہوں کے متعلق معلومات حاصل کریں گے ، پانچ سے سات گھنٹہ تعلیم دینے والی ان معلمات کی تنخواہیں ماہانہ دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہیں ۔

کیا اسے استحصال نہیں کہا جائے گا ؟

اب آپ خود موازنہ کرلیں کہ ایک مزدور بھی کم از کم بیس سے تیس سے چالیس ہزار ماہانہ کما لیتا ہے ، جبکہ دینِ متین کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت اور امت کی آخرت سنور جائے اس کوشش میں اپنا بچپن اور جوانی کے ایام جھونک دینے والے ان سعادت مند نفوس کے ساتھ امت کا کیا سلوک ہے ؟ ۔ اس امت کے بعض افراد نے آج اسے ایک مزدور کے مقام سے بھی نچلے مقام پر کھڑا کر دیا ہے ۔ لہٰذا ذمہ دارانِ مساجد و مدارس کو اس پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے ، اسی طرح نوجوانانِ ملت کو بھی محلہ کی مسجد کے امام و مؤذن و مدرسین کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے ، اور مسجد مدرسے کی آمدنی کے سلسلے میں ذمہ داران کا تعاون بھی کرتے رہنا چاہیے ، تب جا کر یہ معاملہ قابو میں آئے گا ، اور ان حضرات کی تنخواہوں کا معیار بلند ہوگا ان شاءاللہ ۔

مسجد کے احترام کے ساتھ ساتھ امام مسجد کا احترام بھی ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے ۔ امام مسجد ہمارا مذہبی لیڈر ہوتا ہے ۔ جس طرح ہم دنیاوی لیڈروں کا ادب کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہم کو ہمارے مذہبی لیڈر کا ادب کرنا ضروری ہے ۔ پیدایش ، ختنہ ، عقیقہ ، قربانی ، موت میت ، شادی بیاہ ، قرآن خوانی اور بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت غرض پیدائش سے موت تک یہاں تک کہ موت کے بعد بھی ضروری کاموں کے دوران ہمیں قدم قدم پر امام مسجد کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم امام مسجد کا اچھی طرح سوچ سمجھ کر انتخاب کریں ، افضل شخص ہی کو امام مسجد بنائیں کیوں کہ وہ ہماری نمازوں کا ذمہ دار بھی ہے اور ہمارے عقائد کی اصلاح کرنے والا بھی ۔ یاد رکھیں کہ جب ہم نے اس شخص کو اپنی نماز جیسی اہم عبادت کےلیے امام تسلیم کر لیا تو پھر اس کے خلاف بے کار کے جملے ، اس کےسامنے طنزیہ باتیں ، اور اس کی غیر حاضری میں اس کی غیبت کیا معنی رکھتی ہے ؟

اِس دور میں مساجد کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر جگہوں پر اٸمہ حضرات کی ناقدری اور بے عزتی ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے ، کتنی عجیب بات ہے کہ ایک شخص کو امام بھی بنایا جا رہا ہے اور اس کی ناقدری بھی کی جا رہی ہے ، امام کی عزت اور احترام مسجدوں کے ذمہ داروں کےلیے بہت زیادہ ضروری ہے تاکہ ذمہ داروں سے دوسرے لوگ بھی سبق سیکھیں ، اگر امام صاحب مسجد کے بنائے گئے قاعدوں کے مطابق خدمت کےلیے آمادہ نہ ہوں تو انہیں باعزت طریقے سے علیحدہ کر دیا جائے نہ کہ انہیں ذلیل اور رسوا کیا جائے ۔

اس زمانے میں تو اٸمہ حضرات ماضی کی طرح صرف قاریِ قرآن نہیں ہوتے بلکہ اکثر جگہوں پر امامت کا فریضہ انجام دینے والے حافظِ قرآن اور عالم اور کہیں کہیں مفتی صاحبان بھی ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ تو غلط رویہ اور نازیبا حرکت یا ان کی بے عزتی تو بہت زیادہ بُری بات ہے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو ان حضرات کی خدمت میں مصروف ہوتے جو قرآن کریم کی تلاوت یا نماز میں مشغول ہوتے ، امام ابوداٶد رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک شخص کی بڑی تعریف کر رہے تھے ، اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے ان جیسا آدمی نہیں دیکھا ، جب سفر میں ہوتے تو قرأتِ قرآن میں مصروف ہیں ، اور جب سواری سے اترتے ہیں ، نماز میں مصروف ہیں ، تو ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا گیا کہ اس شخص کا سامان کون اٹھائے گا ؟ اس کے جانور کون چرائے گا ؟ تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہم کریں گے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سب خیر پر ہو ۔ (یہ تیرے پراسرار بندے طالب الہاشمی مقدمہ)

پہلے پہل امام مسجد کی تقرری کے بعد ان کے ساتھ اعزاز اور اکرام کا معاملہ ہوتا ہے ، لیکن دھیرے دھیرے امام مسجد کی خامیوں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے ، امام کی غلطیو ں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے ، مستحبات کے ترک پر اعتراض کیا جاتا ہے ، اس کی منہ بھر کر غیبت کی جاتی ہے ، حالانکہ یہ اعتراض درست نہیں ، قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتاہے : وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَاتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ ۔ (الحجرات آیت 12)
ترجمہ : اور عیب نہ ڈھونڈواور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔

یہ آیت نہ صرف امام مسجد بلکہ عام مسلمان بھائیوں کے عیب ڈھونڈنے والوں اور غیبت کرنے والوں کےلیے ایک عبرت کا پیغام ہے ، اس بات کا مکمل خیال رکھیں کہ امام مسجد بھی انسان ہی ہیں کوئی معصوم فرشتہ نہیں ۔ امام مسجد کے اپنے مسائل بھی ہیں اور ضروریات بھی ۔ ان کا گھر بار بھی ہے اور بیوی بچے بھی ۔ ان کی معاشی اور مالی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جائے اس زمانے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے ذمہ داروں کو چاہیے کہ ان کی تنخواہ مناسب رکھیں تاکہ انہیں کسی بھی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ بعض لوگ امام مسجد کو اپنا مزدور و نوکر سمجھ لیتے ہیں اور بہت ہی زیادہ خراب لب و لہجے میں بات چیت کرتے ہیں ، یاد رہے ایسا کرنے والے دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اٹھا سکتے ہیں ۔ مسجد کے ذمہ داروں اور علاقے کے بااثر لوگوں پر یہ فرض ہے کہ وہ امام مسجد کے مسائل اور ضروریات پر پوری توجہ دیں ، ان کے ساتھ عزت اور احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی لیڈر اور پیشوا سمجھیں ، ان کو اپنا سردار مانیں ، ان کو اپنے دوسرے نوکروں اور ملازمین کی طرح حقارت سے نہ دیکھیں ایسا کرنا امامت جیسے مبارک اور بڑے مرتبے کی سخت توہین ہے ۔ امامت کا عہدہ بڑا اہم دینی رتبہ ہے پیشہ ور ملازمت کی طرح یہ کوئی عام ملازمت یا نوکری نہیں ہے ۔ امام صاحبان بھی اپنے مرتبے اور مقام کا لحاظ رکھیں اور ذمہ داران کے ساتھ تعاون کریں ، سکّے کے دونوں رُخ اگر ایک جیسے اور پُر امن ماحول میں معاملات کریں گے تو کہیں بھی کوئی بدامنی اور نوک جھونک کی باتیں سامنے نہیں آئیں گی ۔ کسی کی عزت اور احترام کے بدلے میں ہمیں بھی عزت اور احترام ملے گا اس قاعدے کی روشنی میں زندگی بسر کریں ۔

امام صاحبان کے ساتھ ساتھ مؤذن حضرات (اذان دینے والوں) کی عزت اور احترام بھی ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔ حدیث پاک میں آتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : روز محشر لوگوں میں گردن کے اعتبار سے لمبے مٶذن حضرات ہوں گے ، ایک اور حدیث میں فضیلت والی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : اگر پہلی صف اور اذان دینے کی فضیلت کا علم ہو جائے تو آپس میں قرعہ اندازی کی نوبت آجائے گی ۔ ایک جانب مٶذن کی یہ فضیلت ہے ، دوسری جانب ذمہ داروں کا رویہ ہے کہ وہ مٶذن حضرات کے ساتھ آبائی و خاندانی ملازمین کا سا برتاٶ کرتے ہیں ، انہیں تنخواہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کے زر خرید غلام ہیں ، اگر اسلامی حکومت ہوتی تو بیتُ المال ان کا کفیل ہوتا ، اب چوں کہ بیتُ المال کا وجود نہیں ، اس لیے عوام ان کی تنخواہوں کے ذ مہ دار ہیں ، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مٶذن اور امام دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ، ان کے ساتھ حسنِ اخلاق کا معاملہ کریں ، غیر اخلاقی رویہ سے مکمل پرہیز کریں ۔ کئی مٶذن حضرات اپنے ذمہ داروں کے رویوں سے دل برداشتہ رہتے ہیں ، بعض دفعہ ذمہ داروں کے ہراساں کرنے سے مٶذن حضرات اس عظیم خدمت سے دستبردار ہو جاتے ہیں ، ذمہ دار مٶذن حضرات کی معاش کی بنا پر انہیں تنگ نہ کریں ، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ و طفیل ہمیں مسجد ، امام مسجد اور مؤذن حضرات کا ادب اور احترام کرنے والا بنائے مسجدوں کے ذمہ داران کی اصلاح فرمائے اور سچی نیت و خُلوص کے ساتھ صحیح طرز پر مساجد کا نظام سنبھالنے کی توفیق نصیب فرمائےآمین ۔ اللہ عزوجل ہم سب اہلِ اسلام کو ان نفوسِ قدسیہ کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے ، اور بقدرِ استطاعت ان حضرات کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔