سنن و نوافل کی نمازوں کا ثبوت اور اجر و ثواب
محترم قارئینِ کرام : اللہ عزوجل سورۂ مزمل میں ارشاد فرماتا ہے : اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًا ۔ اِنَّ لَكَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا ۔
ترجمہ : بیشک رات کا اٹھنا وہ زیادہ دباؤ ڈالتا ہے اور بات خوب سیدھی نکلتی ہے ۔ بیشک دن میں تو تم کو بہت سے کام ہیں ۔ (سورہ مزمل آیت نمبر 6 ، 7)
رات سونے کے بعد اٹھ کر عبادت کرنا دن کی نماز کے مقابلے میں زبان اوردل کے درمیان زیادہ مُوافقت کا سبب ہے اور اس وقت قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے اور سمجھنے میں زیادہ دل جمعی حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ وقت سکون اور اطمینان کا ہے ، شورو غُل سے امن ہوتا ہے ، کامل اخلاص نصیب ہوتا ہے ، ریا کاری اور نمود و نمائش کا موقع نہیں ہوتا ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۳۲۲)(تفسیر ابن کثیر جلد ۸ صفحہ ۲۶۳)
وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ۔ (الإسرائ آیت نمبر 79)
ترجمہ : اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کرو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔
وَالَّذِيْنَ یَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ۔ (سورہ الفرقان آیت نمبر 64)
ترجمہ : اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کےلیے سجدے اور قیام میں ۔
تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِـعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘ ۔ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ (السجدۃ آیت 16)
ترجمہ : اُن کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور اُمید کرتے اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ خیرات کرتے ہیں ۔
وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ ۔ (سورہ ق آیت نمبر 40)
ترجمہ : اور کچھ رات گئے اس کی تسبیح کرو اور نمازوں کے بعد ۔
کَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ ۔ وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ۔ (سورہ الذاریات آیت نمبر 17۔18)
ترجمہ : وہ رات میں کم سویا کرتے۔ اور پچھلی رات استغفار کرتے ۔
وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ ۔ (سورہ الطور آیت نبر 49)
ترجمہ : اور کچھ رات میں اس کی پاکی بولو اور تاروں کے پیٹھ دیتے ۔
یٰـٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ ۔ قُمِ الَّيْلَ اِلاَّ قَلِيْلاً ۔ نِّصْفَهٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا ۔ اَوْزِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلاً ۔ اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْکَ قَوْلًا ثَقِيْلًا ۔ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا ۔ اِنَّ لَکَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا ۔ (سورہ المزمل آیت نمبر 1۔7)
ترجمہ : اے جھرمٹ مارنے والے ۔ رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے ۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو ۔ یا اس پر کچھ بڑھاؤ اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ۔ بے شک عنقریب ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالیں گے ۔ بیشک رات کا اٹھنا وہ زیادہ دباؤ ڈالتا ہے اور بات خوب سیدھی نکلتی ہے ۔بیشک دن میں تو تم کو بہت سے کام ہیں ۔
اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّيْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآئِفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَکَ ۔ (سورہ المزمل آیت نمبر 20)
ترجمہ : شک تمہارا رب جانتا ہے کہ تم قیام کرتے ہو کبھی دو تہائی رات کے قریب کبھی آدھی رات کبھی تہائی اور ایک جماعت تمہارے ساتھ والی ۔
وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًا ۔ وَمِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًا ۔(سورہ الدّھر (الإنسان) آیت نمبر 25 ، 26)
ترجمہ : اور اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو ۔ اور کچھ رات میں اسے سجدہ کرو اور بڑی رات تک اس کی پاکی بولو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں : اللہ پاک نے فرمایا: جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے،اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا اور میرا بندہ کسی شے سے اس قدر تقرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض سے کرتا ہے اور نوافل کے ذریعے سے ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ اسے محبوب بنا لیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے،تو اسے دوں گا اور پناہ مانگے تو پناہ دوں گا ۔ (بخاری،کتاب الرقاق باب التواضع جلد 4 صفحہ 248 حديث نمبر 5602،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے : سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا ، اگر وہ کامل ہوئی تو کامل لکھ دی جائے گی اور اگر مکمل نہ ہوئی تو اللہ پاک اپنے فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا : کیا تم میرے بندے کے پاس کوئی نفل پاتے ہو ؟ تو وہ اس کے فرائض کو اس کے نوافل کے ذریعے پورا کر دیں گے پھر اسی طرح زکوٰۃ اور دیگر اعمال کا حساب لیا جائے گا ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلوۃ صفحہ 1287 حدیث نمبر 864)
رات میں بعد نمازِ عشا جو نوافل پڑھے جائیں ، ان کو صلوة اللیل کہتے ہیں اور رات کے نوافل دن کے نوافل سے افضل ہیں ۔ صحیح مسلم میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : افضل الصلوة بعد الصلوة المکتوبۃ الصلوة فی جوف اللیل ،، فرضوں کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے ۔ (صحیح مسلم باب فضل صوم المحرم صفحہ 431)
پانچوں نماز کے آگے پیچھے کچھ سنن و نوافل مقرر کیے گئے ہیں ، ذیل میں احادیثِ طیبہ کی روشنی میں اُن کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں : ⏬
سننِ مؤکّدہ کا ثبوت
مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الفَجْرِ ۔ (سنن ترمذی : 414)
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ اِرشاد مَروی ہے : جس نےبارہ رکعات سنت پر پابندی اختیار کی اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنّت میں محل بنا دے گا (اور وہ بارہ رکعات یہ ہیں ) چار رکعت ظہر سے پہلے ، دو رکعت ظہر کے بعد ، دو رکعت مغرب کے بعد ، دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے ۔
سننِ غیر مؤکّدہ اور نوافل کا ثبوت
أُمُّ حَبِيبَةَ زَوْج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:«مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ ۔ (جامع ترمذی:428،چشتی)
ترجمہ : حضرت امُ المؤمنین حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ اِرشاد نقل کرتی ہیں جس نے ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اُس کو جہنم کی آگ پر حرام کردیں گے ۔
اِس حدیثِ پاک سے ظہر کے بعد کی دو نفل نماز ثابت ہوتی ہے ۔
مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ وَفِي رِوَايَةٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ رُفِعَتْ صَلَاتُهُ فِي عِلِّيِّينَ ۔ (مشکوۃ شریف : 1184)
ترجمہ : حضرت مکحول رحمۃ اللہ علیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مُرسلاً نقل فرماتے ہیں : جس نے مغرب کے بعد بات کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھی اور ایک روایت میں چار پڑھنے کا ذکر ہے،اُس کی نماز علّیین میں اُٹھالی جاتی ہے ۔
اِس سے مغرب کے بعد کی دو نفل نماز ثابت ہوتی ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ المُزَنِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ، ثَلاَثًا لِمَنْ شَاءَ ۔ (صحیح بخاری شریف :624،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تین مرتبہ یہ اِرشاد فرمایا : ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اِقامت) کے درمیان نماز ہے ، جو پڑھنا چاہے ۔
مسند البزار میں حضرت بریدہ کی روایت ذکر کی گئی ہے جس میں اِس اصول سے مغرب کو مستثنیٰ کیا گیا ہے ، چنانچہ فرمایا : بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاةٌ إلاَّ الَمْغَرِبَ ۔
ترجمہ : مغرب کے علاوہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے ۔ (مسند البزار حدیث نمبر 7434
اِس سے عشاء سے پہلے کی سنت ِ غیر مؤکدہ ثابت ہوتی ہے ۔
أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ كَعِدْلِهِنَّ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَأَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ كَعِدْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔ (طبرانی اوسط : 2733)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں عشاء کے بعد کی چار رکعت کی طرح ہیں اور عشاء کے بعد کی چار رکعتیں ایسی ہیں جیسے اتنی ہی (یعنی چار رکعتیں ) لیلۃ القدر میں پڑھی جائیں ۔
مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ قَطُّ فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلَّا صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتَّ رَكَعَاتٍ ۔ (سنن ابوداؤد:1303)
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کبھی عشاء کی نماز پڑھ کرچار یا چھ رکعات پڑھے بغیر میرے پاس داخل نہیں ہوئے ۔
اِس سے عشاء کے بعد کی نفل نماز ثابت ہوتی ہے ۔
جمعہ والے دن نماز جمعہ سے پہلے چار ، فرضوں کے بعد چار اور پھر دو ، کل چھ رکعات سنتیں ہیں ، پہلے والی چار ملائیں تو جمعہ کی 10 سنتیں ہیں ۔ یہ تمام سنتیں موکدہ ہیں ، یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جن میں اللہ کے فضل سے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ، لہٰذا وہ نہیں چاہتا کہ کسی ایک مسئلہ میں بھی مسلمان متحد و متفوق رہیں ۔ شیطانی مشن ہی یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ، افتراق اور ذہنی انتشار پھیلایا جائے اور دشمن سے اس کے سوا توقع بھی کیا ہو سکتی ہے ؟
جمعہ کی سنتوں کا ثبوت
ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال من رکع اثنتی عشرة رکعه ، بنی له بيت فی الجنة ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جس نے (جمعہ کے دن) بارہ رکعات نماز ادا کی ، اس کےلیے جنت میں گھر تعمیر ہوگا ۔
عن عطاء انه رای ابن عمر يصلی بعد الجمعة قالفی نماز قليلا عن مصلاة فيرکع رکعتين ثم يمشی انفسی من ذلک ثم يرکع اربع رکعات ۔
ترجمہ : حضرت عطا رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا ، اپنی جگہ سے ذرا ہٹ کر، دو رکعت ادا کیں ۔ پھر وہاں سے دور جا کر چار رکعات ادا کیں ۔ عطا کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا ، جب نماز جمعہ سے فارغ ہوئے ، اپنے جائے نماز سے کچھ آگے ہوئے اور فرکع رکعتين ثم تقدم ايضاً فرکع اربعا ۔ پھر دو رکعات ادا کیں، پھر مزید آگے بڑھ کر چار رکعات نماز ادا کی ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے : کان يصلی قبل الجمعة اربع رکعات و بعدها اربع رکعات قال ابو اسحاق کان علی يصلی بعد الجمعة ست رکعات ۔
ترجمہ : جمعہ سے پہلے چار رکعات ، نماز جمعہ کے بعد چار رکعات ادا کرتے تھے، ابو اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جمعہ کے بعد چھ رکعات ادا کرتے تھے ۔
عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیں حکم دیتے تھے کہ : ان يصلی قبل الجمعة اربعا و بعدها اربعا. حتی جاء نا علی فامرنا ان نصلی بعدها رکعتين ثم اربعا ۔
ترجمہ : کہ ہم جمعہ سے پہلے چار رکعات پڑھیں اور بعد میں بھی چار ۔ یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے تو انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم بعد میں دو رکعتیں پڑھ کر پھر چار رکعتیں ادا کریں ۔ (باب الصلوٰة قبل الجمعه وبعدها، مصنف عبدالرزاق، 3 : 246-248،چشتی)
عن ابی هريرة رضی الله عنه قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم من کان منکم مصليا بعد الجمعة فليصل اربعا ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو نماز جمعہ کے بعد نماز پڑھے، وہ چار رکعات ادا کرے ۔ (سنن ترمذی جلد 1 صفحہ 69)
سالم عن ابيه عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه کان يصلی بعد الجمعة رکعتين.
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعات ادا فرماتے تھے ۔ (سنن ترمذی جلد 1 صفحہ 68)
عن عبدالله بن مسعود رضی الله عنه کان يصلی قبل الجمعة اربعا و بعدها اربعا، وروی عن علی بن ابی طالب انه امر ان يصلی بعد الجمعة رکعتين ثم اربعا ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ سے پہلے بھی چار رکعات پڑھتے تھے اور بعد میں بھی ۔ اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حکم دیا کہ جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھی جائیں ، پھر چار ۔ (سنن نسائی جلد 1 صفحہ 201)(سنن ابن ماجه جلد 1 صفحہ 79،چشتی)(سنن ترمذی جلد 1 صفحہ 69)(سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 167)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اذا صليتم بعد الجمعة فصلوا اربعا ۔
ترجمہ : جب نماز جمعہ کے بعد نماز پڑھو تو چار رکعات پڑھا کرو ۔ (صحيح مسلم جلد 1 صفحہ 288)
ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم کان يصلی بعد الجمعة رکعتين ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔ (صحيح بخاری جلد 1 صفحہ 128)(صحيح مسلم جلد 1 صفحہ 286)
فقہائے کرام علیہم الرّحمہ کے ارشادات : ⏬
فهذا البحث يفيد ان السنة بعدها ست ۔
ترجمہ : اس بحث سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے بعد چھ سنتیں ہیں ۔ اور نماز جمعہ سے پہلے چار ۔ (فتح القدير، 2 : 39، المغنی و الشرح الکبير لابن قدامه، 2 : 210، 220، البحر الرائق، 2 : 49، فتاویٰ عالمگيری، 1 : 112، رد المختار شرح درالمختار للشامی، 2 : 13، بدائع الصنائع، 1 : 23، کتاب الفقه علی المذاهب الاربعه للجزری، 1 : 327،چشتی)
عن ابی يوسف انه ينبغی ان يصلی اربعا ثم رکعتين ۔۔۔۔ والافضل عندنا ان يصلی اربعا ثم رکعتين ۔
یہ ہیں جمعہ کی پہلی اور پچھلی کل سنتیں جو الحمد للہ ہم نے کثیر کتب حدیث و فقہ سے با دلیل و حوالہ پیش کر دی ہیں ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ جس طرح نمازیں ادا کر رہے ہیں ، کرتے رہیں ۔ فرائض بھی ، واجبات بھی اور سنن و نوافل بھی اور کسی شیطانی آواز پر کان نہ دھریں ، شیطان انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے ، وہ نیکیوں سے روکتا ہے ، گناہوں کی ترغیب دیتا ہے ۔ مسلمان اپنے رب عزوجل ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور بزرگان دین سلف علیہم الرّحمہ کے راستے پر چلتے رہیں ۔ یہی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے اور یہی جنت کا راستہ ہے ۔ جو شیطانوں کے چکر میں پھنس گیا جہنم رسید ہوا ۔ اللہ تعالیٰ شیطانی شر سے بھی بچائے اور نفسانی سے بھی آمین ۔
جمعہ کا خطبہ ، نماز جمعہ کےلیے شرط ہے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عمر بھر کوئی بھی جمعہ خطبہ کے بغیر نہیں پڑھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دو خطبے ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : خطبہ ، نماز کی طرح ہے ، لہذا اس کو خاموشی کے ساتھ سننا واجب ہے اور کلام کرنا مکروہ ہے ، بلاعذر خطبہ ترک کرنا گویا سنت کو ترک کرنا ہے اور سنت موکدہ کو جان بوجھ کر ترک کرنے والا گہنگار ہوگا ۔ اور اس کا جمعہ تو ہو جائے گا مگر ایسا کرنا مکروہ ہے ۔
احتیاطی ظہر کہنا غلط ہے ، یہ کوئی اصطلاح نہیں ہے ، فتاویٰ رضویہ میں لکھا ہے کہ : نماز جمعہ کے بعد جو احتیاطی فرض پیش پڑھے جاتے ہیں ، یہ نہیں پڑھنے چاہئیں ، عام لوگوں کو احتیاطی ظہر کی کچھ ضرورت نہیں ۔ (فتاویٰ رضويه جلد 8 صفحہ 278)
جمعہ کا خطبہ پڑھنا اور سننا دونوں فرض ہیں ۔ لیکن شریعت نے اس میں تخفیف رکھی ہے جیسے بہت ساری عبادات میں رکھی ہے ، مثلاً تکبیر تحریمہ کہنا ، فاتحہ پڑھنا ، لیکن تخفیف رکھی ہے اگر کوئی لیٹ ہو جاتا ہے اور سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ، تو تب بھی اس کی نماز ہو جاتی ہے ، اسی طرح جمعہ کا خطبہ کا حکم ہے ، البتہ اسے معمول نہیں بنانا چاہیے ۔
پانچ وقت کی نمازوں کی رکعات کی تعداد
محترم قارئینِ کرام : فرض نمازوں میں سنتِ مؤکدہ کی تعداد بارہ ہے جن میں نماز فجر کی دو، ظہر کی چھ ، مغرب کی دو اور عشاء کی دو رکعات شامل ہیں جبکہ سنتِ غیر مؤکدہ کی تعداد آٹھ ہے جن میں نماز عصر کی چار اور نماز عشاء کی چار سنتیں شامل ہیں ۔ فرائض کی مندرجہ بالا تعدادِ رکعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے اب تک امت کے تواتر عملی سے ثابت ہے ۔ علاوہ ازیں کتب حدیث میں یہ تعداد مفصلاً مذکور ہے ۔
عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِنِالْاَنْصَارِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ جَائَ جِبْرَائِیْلُ اِلَی النَّبیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ قُمْ فَصَلِّ وَذٰلِکَ دُلُوْکُ الشَّمْسِ حِیْنَ مَالَتْ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّی الظُّھْرَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ کَانَ ظِلُّہٗ مِثْلَہٗ فَقَالَ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْعَصْرَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ لَہٗ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلَاثاً ثُمَّ اَتَاہٗ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ ۔ فَقَالَ لَہٗ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ الاِرَۃَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ بَرَقَ الْفَجْرُ فَقَالَ لَہٗ قُمْ ! فَصَلِّ ! فَقَامَ فَصَلَّی الصُّبْحَ رَکْعَتَیْنِ ۔ (مسند اسحاق بن راھویہ بحوالہ نصب الرایۃ جلد 1 صفحہ 223 باب المواقیت)(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 7 صفحہ 129,130 رقم 14143،چشتی)(السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 1 صفحہ 361 باب عدد رکعات الصلوات الخمس)
ترجمہ : حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز پڑھیں ۔ یہ سورج کے ڈھلنے کا وقت تھا ، جبکہ سورج ڈھل گیا تھا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور ظہر کی چاررکعات پڑھیں پھر ان کے پاس حضرت جبرئیل آئے ، جبکہ سایہ ایک مثل کے برابر ہو گیا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز ادا کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کی چار رکعات پڑھیں ۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب سورج غروب ہو گیا تھا ۔ توانہوں نے کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز پڑھیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مغرب کی تین رکعات پڑھیں ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب شفق غائب ہو گئی تھی اور کہا کہ نماز پڑھیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی چار رکعات پڑھیں ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب صبح طلوع ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ نماز ادا کریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی دو رکعت پڑھیں ۔
سنن مؤکدہ کی بارہ رکعتیں ہیں تفصیل درج ذیل ہے : ⏬
2 رکعات فجر سے پہلے ۔ 4 رکعات ظہر سے پہلے اور 2 رکعات ظہر کے بعد
2 رکعات مغرب کے بعد ۔ 2 رکعات عشاء کے بعد ۔
عَنْ اُمِّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ صَلّٰی فِیْ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ ثِنَتَیْ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً بُنِیَ لَہٗ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ اَرْبَعًا قَبْلَالظُّھْرِ وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَھَا وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَائِ وَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 94 باب ماجاء فی من صلی فی یوم ولیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ،چشتی)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دن رات میں بارہ رکعتیں پڑھے گا اس کےلیے جنت میں گھر بنا دیا جائے گا چار ظہر سے پہلے ، دو ظہر کے بعد، دو مغرب کے بعد ، دو عشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے ۔
فجر کی رکعات : 2 سنت (مؤکدہ) اور 2 فرض : ⏬
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلٰی شَیْئٍ مِنَ النَّوَافِلِ اَشَدَّ تَعَاھُدًا مِنْہُ عَلٰی رَکْْعَتَیِ الْفَجْرِ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 156 باب تعاھد رکعتی الفجر،چشتی)(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 251 باب استحباب رکعتی الفجر والحث علیھاالخ)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی نفل کی اتنی زیادہ پابندی نہیں فرماتے تھے جتنی فجر کی دو رکعتوں کی کرتے تھے ۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَاتَدَعُوْھُمَا وَاِنْ طَرَدَتْکُمُ الْخَیْلُ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 186 باب فی تخفیفھما رکعتی الفجر)(شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 209 باب القرأۃ فی رکعتی الفجر)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی دو رکعتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں ۔
نمازِ ظہر کی رکعات : 4 سنت (مؤ کدہ) 4 فرض 2 سنت (مؤکدہ) 2 نفل : ⏬
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ لَایَدَعُ اَرْبَعًا قَبْلَ الظُّھْرِوَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْغَدَاۃِ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 157 باب الرکعتین قبل الظھر)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے ۔
عَنْ اُمِّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ صَلّٰی قَبْلَ الظُّھْرِ اَرْبَعًا وَبَعْدَھَا اَرْبَعًاحَرَّمَہٗ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَی النَّارِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 98 باب اٰخر من سنن الظھر)
ترجمہ : حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعات پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام فرمادے گا ۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت میں دو رکعت سنت مؤکدہ کا ثبوت ملتا ہے اور اس روایت میں ظہر کے بعد چار رکعت کا تذکرہ ہے ۔ تو دو رکعت سنت مؤکدہ کے لاوہ یہ دو نفل ہیں ۔
نمازِ عصر کی رکعات : 4 سنت (غیر مؤکدہ) 4 فرض : ⏬
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ رَحِمَ اللّٰہُ امْرَأً صَلّٰی قَبْلَ الْعَصْرِاَرْبَعًا ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 98 باب ما جاء فی الاربع قبل العصر)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتا ہے ۔
نمازِ مغرب کی رکعات : 3 رکعات فرض ۔ 2 سنت مؤکدہ ۔ 2 نفل : ⏬
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ مَنْ رَکَعَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ کَانَ کَالْمُعَقِّبِ غَزْوَۃً بَعْدَغَزْوَۃٍ ۔ (مصنف عبدالرزاق جلد 2 صفحہ 415 باب الصلاۃ فیمابین المغرب والعشا رقم الحدیث 4740)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس نے مغرب کی نماز کے بعدچار رکعت پڑھیں تو وہ ایسا ہے جیسے ایک غزوے کے بعد دوسرا غزوہ کرنے والا ۔
عَنْ اَبِیْ مَعْمَرٍعَبْدِاللّٰہِ بْنِ سَنْجَرَۃَ رحمہ اللہ قَالَ کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ بَعْدَ الْمَغْرِبِ ۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی صفحہ 85 باب یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت ابو معمر عبداللہ بن سنجرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مغرب کے بعد چارکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔
نمازِ عشاء کی رکعات : ⏬
4 سنت غیر مؤکدہ ، 4 فرض ، 2 سنت مؤکدہ ، 2 نفل ، 3 وتر ، 2 نفل ۔
عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی اللہ عنہما کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَائِ الْاٰخِرَۃِ ۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی ص85 یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔
عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ اَوْفٰی رضی اللہ عنہما اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا سُئِلَتْ عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ صَلٰوۃَ الْعِشَائِ فِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی اَھْلِہٖ فَیَرْکَعُ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یَأوِیْ اِلٰی فِرَاشِہٖ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 197 باب فی صلوۃ اللیل)
ترجمہ : حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درمیانِ رات والی نماز کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر گھر تشریف لاتے تو چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے ۔
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہااَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُؤْتِرُبِثَلَاثٍ یَقْرَئُ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَااَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ وَالْمُعَوَّذَتَیْنِ ۔ (شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 200 باب الوتر،چشتی)(صحیح ابن حبان صفحہ 718 ذکر الاباحۃ للمرء ان یضم قراءۃ المعوذتین الخ رقم الحدیث 2448)(مصنف عبد الرزاق جلد 2 صفحہ 404 باب ما یقرء فی الوتر الخ، رقم الحدیث 1257)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ پڑھتے ، دوسری رکعت میں’’قل یا ایھا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں’’ قل ھو اللہ احد‘‘ اور معوذتین پڑھتے تھے ۔
عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یُوْتِرُ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 254 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی اللیل صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 155 باب المداومۃ علی رکعتی الفجر)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ پہلے آٹھ رکعت (تہجد) پڑھتے ، پھر وتر پڑھتے ، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے ۔
عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 108 باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ،چشتی)(سنن ابن ماجۃ جلد 1 صفح 83 باب ما جاء فی الرکعتین بعد الوتر جالساً)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔
نمازِ عشاء کی رکعتوں کی کل تعداد سترہ (17) ہے جس کی ترتیب اس طرح ہے : چار (4) سنت غیرمؤکدہ ۔ چار (4) فرض ۔ دو (2) سنت مؤکدہ ۔ دو (2) نفل ۔ تین (3) وتر ( واجب) ۔ دو (2) نفل ۔
عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی اللہ عنہما کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَائِ الْاٰخِرَۃِ ۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی صفحہ 85 یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔
عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ اَوْفٰی رضی اللہ عنہما اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا سُئِلَتْ عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ صَلٰوۃَ الْعِشَائِ فِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی اَھْلِہٖ فَیَرْکَعُ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یَأوِیْ اِلٰی فِرَاشِہٖ۔(سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 197 باب فی صلوۃ اللیل،چشتی)
ترجمہ : حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درمیانِ رات والی نماز کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر گھر تشریف لاتے تو چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے ۔
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہااَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کَانَ یُؤْتِرُبِثَلَاثٍ یَقْرَئُ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَااَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ وَالْمُعَوَّذَتَیْنِ ۔ (شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 200 باب الوتر،چشتی)(صحیح ابن حبان صفحہ 718 ذکر الاباحۃ للمرء ان یضم قراء ۃ المعوذتین الخ رقم الحدیث 2448)(مصنف عبد الرزاق جلد 2 صفحہ 404 باب ما یقرء فی الوتر الخ رقم الحدیث 1257)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ پڑھتے، دوسری رکعت میں’’قل یا ایھا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں’’ قل ھو اللہ احد‘‘ اور معوذتین پڑھتے تھے ۔
عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یُوْتِرُ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفخحہ 254 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل)(صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 155 باب المداومۃ علی رکعتی الفجر،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ پہلے آٹھ رکعت (تہجد) پڑھتے ، پھر وتر پڑھتے ، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے ۔
عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 108 باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ،چشتی)(سنن ابن ماجۃ جلد 1 صفحہ 83 باب ما جاء فی الرکعتین بعد الوتر جالساً)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔
نمازِ عشاء کی مذکورہ رکعات پڑھنے کا صحابہ کرام ضی اللہ عنہم کے یہاں معمول تھا ، اور ظاہر سی بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہوگا ، چناں جہ ”قیام اللیل للامام المروزی“ میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : عن سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کانوا یستحبون أربع رکعات قبل العشاء الآخرة ۔ (قیام اللیل لمحمد نصر المروزي جلد ۱ صفحہ ۸۸ مطبوعہ فیصل آباد پاکستان)
نیز ”الاختیار لتعللہ المختار“ جو فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہے ، اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت نقل کی گئی ہے ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے اورعشاء کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھتے تھے ، پھر آرام فرماتے ۔ عن عائشة أنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یصلي قبل العشاء أربعا ثم یصلي بعدہا أربعًا ثم یضطجع ۔ (۱/۶۶ الاختیار لتعلیل المختار، ط: بیروت،چشتی)
بخاری 1180، مسلم 1699 اور بخاری 697 میں دو سنت موکدہ اور دو نفل یعنی چار رکعت عشاء کے بعد ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے فرماتے ہیں : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی پھر گھر آئے تو چار رکعتیں ادا کیں , پھر سو گئے ۔ (صحیح البخاری : 697،چشتی)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ كُنَّ كَقَدْرِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : جس نے عشاء کے بعد چار رکعتیں ادا کیں , تو وہ لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہو جائیں گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : 7273)
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : أَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ يَعْدِلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : عشاء کے بعد چار رکعتیں لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث نمبر 7274،چشتی)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ، عَدَلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : جس نے عشاء کے بعد ایک سلام سے چار رکعتیں ادا کیں , تو وہ لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہو جائیں گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث نمبر 7275)
غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات کہتے ہیں عشاء کی پہلی چار سنت غیرمٶکدہ حدیث کی کس کتاب سے ثابت نہیں اور نہ ہی فقہ حنفی کےعلاوہ کسی اور فقہ میں یہ چار رکعت ہے ۔ سوچنے کی بات ہے نہ تو دنیا کی کسی حدیث سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھی ہوں ۔ اور نہ ہی کسی صحابی سے ثابت ۔ تو یہ سنت کیسے بن گئیں دنیا کا کوئی حنفی عالم ان چار رکعت کو سنت ثابت نہیں کر سکتا ۔ غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ فقہ حنفی قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ مرضی سے گھڑی گئی فقہ ہے جس میں نماز کی رکعتیں بھی گھر سے گھڑ لی جاتی ہیں ۔
جواب : پہلے فقہ حنفی سے اصل مسلہ سمجھیے : يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت اور کہا گیا ہے کہ دو رکعت مستحب ہیں یعنی سنت غیر موکدہ ہیں ۔ (رد المحتار جلد 2 صفحہ 13)
وَالْأَرْبَعُ قَبْلَ الْعِشَاء وَقِيلَ أَرْبَعًا عِنْدَهُ وَرَكْعَتَيْنِ عِنْدَهُمَا كَمَا فِي النِّهَايَة ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت مستحب ہیں سنت غیر موکدہ ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ امام اعظم کے نزدیک چار سنت غیر مؤکدہ ہیں اور صاحبین کے نزدیک دو رکعت سنت غیر موکدہ ہیں جیسے کہ نھایہ میں ہے ۔ (مجمع الأنهر جلد1 صفحہ 131 بحذف یسییر،چشتی)
غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات جو کہتے ہیں کہ کسی اور فقہ میں نہیں ہیں تو یہ صاف جھوٹ ، عدمِ توجہ یا کم علمی ہے : قَالَ فِي الْمَجْمُوعِ وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الْعِشَاءِ) أَيْ فَأَكْثَرُ؛ إذْ عِبَارَتُهُ ۔
(فَرْعٌ) يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْأَخِيرَةِ رَكْعَتَيْنِ فَصَاعِدًا انْتَهَتْ اهـ حَلَبِيٌّ..وَعِبَارَةُ الشَّوْبَرِيِّ قَالَ الشَّيْخُ وَفِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْأَخِيرَةِ رَكْعَتَيْنِ فَصَاعِدًا ثُمَّ اسْتَدَلَّ بِحَدِيثِ الصَّحِيحَيْنِ ۔
فقہ شافعی کی کتاب المجموع میں ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعت یا دو رکعت سے زیادہ سنت غیر موکدہ ہیں، المجموع کی عبارت یوں ہے کہ مستحب ہے یعنی سنت غیر موکدہ ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعتیں اور دو سے زیادہ رکعتیں پڑھے …الشوبری کی عبارت یوں ہے کہ شیخ نے فرمایا کہ (فقہ شافعی کی کتاب) شَرْحِ الْمُهَذَّبِ میں ہے کہ مستحب ہے سنت غیر موکدہ ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعت یا دو رکعت سے زیادہ پڑھے اس مسئلے پر صحیحین کی حدیث سے دلیل پکڑی (صحیحین کی حدیث نیچے آ رہی ہے)(حاشية الجمل على شرح المنهج فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب جلد 1 صفحہ 481،چشتی)
بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ»، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ : لِمَنْ شَاء ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا ہے ۔۔۔ اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا ہے پھر تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے پڑھے ۔ (صحيح البخاري جلد 1 صفحہ 128 حدیث نمبر 627)
اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان سنت نماز ہے ۔۔۔ لہٰذا عشاء کی اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے نماز پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہوگیا اور اس بات میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ دو رکعت ہو یا چار رکعت یا اس سے زیادہ لھٰذا چار بھی ثابت ہوگئ ۔
فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز (سنت غیرموکدہ) پڑھتے رہے عشاء کے فرض تک ۔ (أحمد بن حنبل ,مسند أحمد ط الرسالة ,38/430،چشتی) ۔ مسند احمد کےحاشیہ میں اس حدیث پاک کا حکم و تخریج یوں ہے کہ : إسناده صحيح . إسرائيل: هو ابن يونس السبيعي، والمنهال: هو ابن عمرو الأسدي مولاهم. وأخرجه ابن أبي شيبة 12/96، والنسائي في “الكبرى” (380) و (381) و (8365) ، وابن خزيمة (1194،چشتی) ، وابن حبان (6960) ، والحاكم 1/312-313، والبيهقي في “دلائل النبوة” 7/78 من طريق زيد بن الحباب، بهذا الإسناد. وبعضهم يرويه مطولاً بنحو الرواية السالفة برقم (23329)
اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز سے پہلے بہت سارے سنت غیر موکدہ پڑھے ۔ لھٰذا عشاء سے پہلے دو رکعت سنتیں غیر موکدہ بھی ثابت ہو گئیں عشاء سے پہلے چار رکعت سنت غیر مؤکدہ بھی ثابت ہوگئیں اور عشاء سے پہلے چار سے زیادہ بھی سنت غیر موکدہ ثابت ہو گئیں ۔
فَفِي سنَن سعيد بن مَنْصُور من حَدِيث الْبَراء رَفعه من صَلَّى قبل الْعشَاء أَرْبعا كَانَ كَأَنَّمَا تهجد من ليلته ۔
سنَن سعيد بن مَنْصُور میں حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھے گویا کہ اس نے اس رات کی تہجد نماز پڑھ لی ۔ (ابن حجر الدراية في تخريج أحاديث الهداية جلد 1 صفحہ 198)
ندب أربع قبل “العشاء” لما روي عن عائشة رضي الله عنها أنه عليه السلام كان يصلي قبل العشاء أربعا ۔
ترمہ : عشاء سے پہلے چار رکعت سنت غیر موکدہ ہیں کیونکہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے ۔ (مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح صفحہ 146)
نماز وتر جس کا ثبوت سنن ابو داٶد کی حدیث نمبر 1419 اور 1416میں موجود ہے ، اس لیے بخاری 541 کے مطابق وتر عشاء کی نماز کے ساتھ ، سونے سے پہلے ، سونے کے بعد ، فجر کی اذان سے پہلے ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ وتر کی نماز واجب ہے اگر نمازِ وتر چھوٹ جائے تو قضا کی جائے گی ۔
نمازِ وتر کی تین رکعات ہیں : ⏬
غیر مقلد وہابی حضرات اپنی ذمے لگائی گئی ڈیوٹی کے مطابق ہر اسلامی مسلے پر امتِ مسلمہ سے الگ تھلگ راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں میں سے ایک نمازِ وتر بھی ہے جس کے متعلق یہ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ نمازِ وتر ایک رکعت ہے ۔ دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں کہ نمازِ وتر کی کتنی رکعات ہیں ایک یا تین جب آپ مکمل دلائل پڑھ لیں تو سوچیے گا ضرور آخر غیر مقلد وہابی حضرات کا کیا بنے گا اور یہ کس کے مشن پر ہیں : ⏬
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وترکی تین رکعت ادا فرماتے تھے اور سلام آخر ہی میں پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی مترجم جلد اوّل کتاب قیام اللیل وتطوع النھار باب کیف الوتر بثلاث صفحہ نمبر 613 مطبوعہ ضیاء القرآن،چشتی)
جیسے اور نمازوں میں آخری رکعت میں سلام پھیرا جاتا ہے ویسے ہی وتر میں بھی آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے دو رکعت پر نہیں ۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم چار رکعت (تہجد) ادا کرتے پھر آپ تین رکعت (وتر) ادا فرماتے ۔ (بخاری کتاب التہجد جلد اول حدیث 1077 صفحہ 472 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)(مسلم شریف جلد اول کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرہا حدیث 1620 صفحہ 573 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ دو دو رکعت کرکے چھ رکعت (تہجد) پڑھی اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے تین رکعت وتر ادا کئے ۔ (مسلم شریف جلد اول کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا حدیث 1696 صفحہ 597 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
حضرت ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی ، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی، جلد اول کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، حدیث 1702 صفحہ 540 مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین رکعت و تر پڑھتے تھے ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کہا اہل علم صحابہ کرام و تابعین کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے ۔ (جامع ترمذی جلد اول، ابواب الوتر حدیث 448، ص 283، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)(زجاجۃ المصابیح باب الوتر جلد 2،ص 263)
حضرت انس رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہے ۔ (طحاوی شریف)
سیدنا عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما و ترکی تین رکعتوں میں تین سورتیں تلاوت فرماتے ۔ سبح اسم ربک الاعلیٰ اور قل یاایھا الکفرون اور قل ہو اﷲ احد ۔ (سنن نسائی ، جلد اول حدیث نمبر 1706، ص 541، مطبوعہ فرید بک لاہور پاکستان)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم وتروں میں کیا پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا ۔ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ ، دوسری میں قل یاایھا الکفرون اور تیسری میں قل ہو ﷲ احد پڑھتے تھے ۔ (سنن ابن ماجہ، جلد اول، باب ماجاء فیما یقرا فی الوتر، حدیث نمبر 1224، ص 336، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : وِتْرُ اللَّيْلِ ثَلَاثٌ، کَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ ۔
ترجمہ : دن کے وتروں یعنی نمازِ مغرب کی طرح رات کے وتروں کی بھی تین رکعات ہیں ۔ (سنن دار قطنی ، 2 : 27)
نام وَر تابعی اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَةً تُوتِرُ لَکَ مَا صَلَّيْتَ ۔
ترجمہ : رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی ۔ اِس کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ اپنا قول یوں بیان کرتے ہیں : وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَکْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ ۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے ۔ (صحيح بخاری ، کتاب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، 1 : 337، رقم : 948،چشتی)
مذکورہ احادیث سے احناف کے مذہب کی واضح تائید ہو رہی ہے کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں کیونکہ مذکورہ تمام احادیث میں تین تین سورتیں پڑھنا وارد ہوا ہے ۔
غیر مقلدین کے دلائل : ⏬
پہلی حدیث : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے ۔ پس جب تم لوٹنے کا ارادہ کرو تو ایک رکوع کرو۔ وتر کرو، جو تم پڑھ چکے (نسائی شریف)
دوسری حدیث : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رات میں گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے ۔ ان میں سے ایک کے ساتھ وتر کرے ۔ پھر اپنے سیدھے کروٹ لیٹ جاتے ۔ (نسائی شریف)
تیسری حدیث : حضرت نافع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما وتر میں ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اپنی بعض ضروریات کا حکم دیتے ۔
غیر مقلدین کے دلائل کا جواب
پہلی حدیث کا جواب : اس حدیث کا جواب خود اسی میں موجود ہے ۔ دو دو رکعت کرکے جب نماز پڑھیں گے اور ایک رکعت ملا کر وتر ادا کریں گے تو تعداد تین ہوگی ، کیونکہ یعنی جو تم پڑھ چکے ، اس کے ساتھ ایک ملالو ۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ تُوْتِر کا مصدر الایتار ہے ۔ اور یہ بابِ افعال سے ہے ۔ بابِ افعال کی خاصیت تعدی ہونا ہے ۔ لہٰذا تعدی اسی وقت ہوگی جب دو کے ساتھ ایک رکعت ملالی جائے ۔
دوسری حدیث کا جواب : احناف کے دلائل میں تیسری حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی روایت گزر چکی ہے ۔ چار چار رکعت پڑھنے کے بعد تین رکعت ادا فرمائی ۔ اس لئے دوسری حدیث کی تفسیر خود راوی کی طرف سے موجود ہے کہ گیارہ رکعت میں سے آٹھ رکعت صلوٰۃ اللیل (تہجد) ہے اور تین رکعت وتر ہے ۔
تیسری حدیث کا جواب : حضرت عقبہ بن مسلم نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے وتر سے متعلق سوال کیا ۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم دن کے وتر کو جانتے ہو ۔ آپ نے فرمایا جی ہاں ! نماز مغرب یہ سن کر حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما نے فرمایا کہ رات کے وتر بھی ایسے ہیں ۔ حضرت نافع علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا فعل ثابت ہو رہا ہے اور حضرت عقبہ علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا قول ثابت ہورہا ہے ۔ قاعدے کے مطابق حدیث قولی کو ترجیح ہوگی اور وتر کا طریقہ نماز مغرب کی طرح ایک سلام سے تین رکعت ہوگی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم کٹی (یعنی صرف ایک رکعت نماز) پڑھنے سے منع فر مایا : ⏬
حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم بریدہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا یعنی کوئی شخص ایک رکعت وتر پڑھے ۔ (اس حدیث کو علامہ ذیلعی نے نصب الرایہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۰،چشتی)(حافظ ابن حجر نے درایہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۴)(علامہ عینی نے عمدہ القاری جلد ۴ صفحہ ۴ پر بیان کیا ہے)
حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم کٹی (ایک رکعت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ۔ (نیل الاوطار مصنفہ قاضی محمد بن علی شوکانی)
بظاہر کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رکعت کے ذریعے اپنی نمازوں کو طاق بنایا ، ایسی تمام روایات اس معنیٰ پر محمول ہے کہ وہ ایک رکعت دو رکعات سے ملی ہوئی تھی ۔ کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے ۔ اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے کہ وتر کی نماز تین رکعات ہیں ۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اجمع المسلمون علے ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخر ھن‘‘ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں اور اس کی صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ صفحہ ۲۹۴،چشتی)
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : صَلُّوْا أَیُّهَا النَّاسُ، فِي بُیُوْتِکُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَکْتُوْبَةَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔
ترجمہ : حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو، کیونکہ افضل یہ ہے کہ آدمی فرض نمازوں کے علاوہ باقی نمازیں گھر میں ادا کرے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : ما یکره من کثرۃ السؤال وتکلف ما لا یعنیه، 6 / 2658، الرقم : 6860،چشتی،ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب الصلاۃ النافلۃ في بیته وجوازھا في المسجد، 1 / 540، الرقم : 781، والنسائي في السنن، کتاب : قیام اللیل، باب : الحث علی الصلاۃ في البیوت والفضل في ذلک، 3 / 197، الرقم : 1599)
عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إِذَا قَضَی أَحَدُکُمُ الصَّلَاةَ فِي مَسْجِدِهِ فَلْیَجْعَلْ لِبَيْتِهِ نَصِيْبًا مِنْ صَلَاتِهِ فَإِنَّ اللهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلَاتِهِ خَيْرًا ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ ۔
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنی مسجد میں نماز پڑھ لے تو وہ اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھر پڑھنے کےلیے بھی رکھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کی نمازوں کی وجہ سے اس کے گھر میں بہتری پیدا کر دے گا ۔ اس حدیث کو امام مسلم ، عبد الرزاق ، ابن ابی شیبہ اور احمد بن حنبل نے بیان کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب صلاۃ النافلۃ في بیته، 1 / 539، الرقم : 778،چشتی،وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 70، الرقم : 4837، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2 / 60، الرقم : 6450، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 315، الرقم : 14431)
عَنْ أَبِي مُوْسَی رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : مَثَلُ الْبَيْتِ الَّذِي یُذْکَرُ اللهُ فِيْهِ وَالْبَيْتِ الَّذِي لَا یُذْکَرُ اللهُ فِيْهِ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبَيْهَقِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس گھر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور جس گھر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ۔ اس حدیث کو امام مسلم اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب صلاۃ النافلۃ في بیته، 1 / 539، الرقم : 779، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 401، الرقم : 536، وأبو یعلی في المسند، 13 / 291، الرقم : 7306، وابن حبان في الصحیح، 3 / 135، الرقم : 854)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أَیُّمَا أَفْضَلُ : اَلصَّلَاةُ فِي بَيْتِي أَوِ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ؟ قَالَ : أَلَا تَرَی إِلَی بَيْتِي مَا أَقْرَبَهُ مِنَ الْمَسْجِدِ فَـلَأَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصَلِّيَ فِي الْمَسْجِدِ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ صَلَاةً مَکْتُوْبَةً۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وأَحْمَدُ وَالْبَيْهقِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : گھر میں ادا کی گئی نماز افضل ہے یا مسجد میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ میرا گھر مسجد کے کتنا نزدیک ہے، اس کے باوجود فرض نماز کے علاوہ گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے مجھے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ ، احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في التطوع في البیت، 1 / 439، الرقم : 1378، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 342، الرقم : 19029، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 411، الرقم : 3934، والدیلمي في مسند الفردوس، 5م172، الرقم : 7864،چشتی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہمارا ربّ کریم ہر رات آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، جب رات کا آخری تہائی حصّہ باقی رہ جاتا ہے ، وہ فرماتا ہے : کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں اور کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اس کو عطا کروں اور کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں ؟ ۔ (بخاری شریف حدیث : 6321 ، 1145)
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بندہ اپنے ربّ کے سب سے زیادہ قریب رات کے پچھلے حصّے میں ہوتا ہے ، اگر ہو سکے تو ان لوگوں میں سے ہو جاؤ ، جو اس لمحے میں اللہ کریم کو یاد کرتے ہیں ۔ (سنن ترمذی حدیث : 3579)
نمازِ تہجد کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : آدھی رات میں بندے کا دو رکعتیں نماز پڑھنا ، دنیا اور اس کی تمام اشیا سے بہتر ہے، اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں یہ دو رکعتیں ان پر فرض کردیتا ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ 554)
اسی طرح نمازِ چاشت کے متعلق فرمایا : جو چاشت کی دو رکعتیں پابندی سے ادا کرتا ہے ، اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔ (سنن ابن ماجہ،2/ 153،154، حدیث: 1382)
تہجد کی نماز کی فضیلت : ⏬
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یَقُوْمُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّی تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ : لِمَ تَصْنَعُ هَذَا یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ : أَفَـلَا أُحِبُّ أَنْ أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ فَلَمَّا کَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّی جَالِسًا فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْکَعَ قَامَ فَقَرَأَ ثُمَّ رَکَعَ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت اس درجہ قیام فرمایا کرتے کہ دونوں قدم مبارک پھٹ جاتے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض گزار ہوئیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ آپ کے سبب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا مجھے یہ پسند نہیں کہ میں شکرگزار بندہ بنوں؟ جب جسم مبارک قدرے بھاری ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ تہجد بیٹھ کر ادا فرمانے لگے اور جب رکوع کرنے کا ارادہ ہوتا تو کھڑے ہو کر قرأت کرتے اور پھر رکوع میں جاتے ۔ (بخاري في الصحیح، کتاب : التفسیر، باب : قوله لیغفرلک الله ما تقدم من ذنبک وما تأخر، 4 / 1830، الرقم : 4557،چشتی،ومسلم في الصحیح، کتاب : صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب : إکثار الأعمال والاجتهاد في العبادۃ، 4 / 2172، والترمذي عن المغیرۃ بن شعبۃ في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في الاجتهاد في الصلاۃ، 2 / 268، الرقم : 412)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَ : یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالَی کُلَّ لَيْلَةٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِيْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ یَقُوْلُ : مَنْ یَدْعُوْنِي فَأَسْتَجِيْبَ لَهُ، مَنْ یَسْأَلُنِي فَأُعْطِیَهُ، وَمَنْ یَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے : ہے کوئی جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں، ہے کوئی جو مجھ سے سوال کرے کہ میں اسے عطا کروں ، ہے کوئی جو مجھ سے معافی چاہے کہ میں اسے بخش دوں ۔ (بخاري في الصحیح، أبواب : التھجد، باب : الدُّعاءِ وَالصَّلَاةِ مِن آخِرِ اللَّيْلِ، 1 / 384، الرقم : 1094،چشتی،وفي کتاب : الدعوات، باب : الدُّعائُ نصفَ اللَّيْلِ، 5 / 2330، الرقم : 5962، وفي کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی : یریدونَ أَن یُبَدِّلُوْا کَلَامَ اللهِ ]الفتح : 15[، 6 / 2723، الرقم : 7056، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین، باب : الترغیب في الدعاء والذکر في آخر اللیل والإجابۃ فیه، 1 / 521، الرقم : 705)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيْضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے ۔ (مسلم في الصحیح، کتاب : الصیام، باب : فضل صوم المحرم، 2 / 821، الرقم : 1163، والترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في فضل صلاۃ اللیل، 2 / 301، الرقم : 438،والنسائي في السنن، کتاب : قیام اللیل وتطوع النهار، باب : فضل صلاۃ اللیل، 3 / 206، الرقم : 1613، وأبو یعلی في المسند، 11 / 280، الرقم : 6392، وابن حبان في الصحیح، 8 / 398، الرقم : 3636)
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ : عَلَيْکُمْ بِقِیَامِ الَّليْلِ، فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِيْنَ قَبْلَکُمْ، وَھُوَ قُرْبَةٌ إِلَی رَبِّکُمْ، وَمَکْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ، وَمَنْھَاةٌ لِلْإِثْمِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو کہ وہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لیے قربِ خداوندی کا باعث ہے ، برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : في دعاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 5 / 552، الرقم : 3549، والحاکم في المستدرک، 1 / 451، الرقم : 1156، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 502، الرقم : 4423، والطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 92، الرقم : 7766)
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الخُدْرِيِّ وَأَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنھما قَالاَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَ اللَّيْلِ وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّیَا رَکْعَتَيْنِ جَمِيْعًا کُتِبَا مِنَ الذَّاکِرِيْنَ اللهَ کَثِيْرًا وَالذَّاکِرَاتِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص خود رات کو بیدار ہو اور اپنی اہلیہ کو (بھی) بیدار کرے ، دونوں دو رکعت نماز مل کر ادا کریں تو ان کا شمار کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں اور (کثرت سے) ذکر کرنے والی عورتوںمیں ہو گا ۔ (أبو داود في السنن، کتاب : التطوع، باب : الحث علی قیام اللیل، 2 / 70، الرقم : 1451، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء فیمن أیقظ أھله من اللیل،1 / 423، الرقم : 1335، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 48، الرقم : 4738، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 413، الرقم : 1310، 11406، والحاکم في المستدرک، 1 / 461، الرقم : 189)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ یَقُوْلُ : قَالَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها : لَا تَدَعْ قِیَامَ اللَّيْلِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ لَا یَدَعُهُ، وَکَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ کَسِلَ صَلَّی قَاعِدًا ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابی قیس کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے نصیحت کی کہ قیام اللیل نہ چھوڑنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے نہیں چھوڑا کرتے تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہو جاتے یا کمزور ہو جاتے تو بیٹھ کر پڑھ لیتے ۔ (أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : قیام اللیل، 2 / 32، الرقم : 1307، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 249، الرقم : 26157، والحاکم في المستدرک، 1 / 452، الرقم : 1158، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 14، الرقم : 4498، والطیالسي في المسند، 1 / 214، الرقم : 1519، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 177، الرقم : 1137، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 279، الرقم : 800)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ لِسُلَيْمَانَ : یَا بُنَيَّ، لَا تُکْثِرِ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ، فَإِنَّ کَثْرَةَ النَّوْمِ بِاللَّيْلِ تَتْرُکُ الرَّجُلَ فَقِيْرًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَالْبَيْهَقِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کی ماں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا : اے میرے پیارے بیٹے ! رات کو زیادہ نہ سونا (بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور قیام کرنا) ، کیونکہ رات کو زیادہ سونے والا شخص قیامت کے دن فقیر بن کر آئے گا ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (ابن ماجه في السنن، کتاب : اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في قیام اللیل، 1 / 422، الرقم : 1332، والبیھقي في شعب الإیمان، 4 / 183، الرقم : 4746، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 210، الرقم : 337، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 197، الرقم : 4552)
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِيْدَ رضي الله عنهما عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : یُحْشَرُ النَّاسُ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیُنَادِي مُنَادٍ فَیَقُوْلُ : أَيْنَ الَّذِيْنَ کَانَتْ تَتَجَافَی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ؟ فَیَقُوْمُوْنَ وَھُمْ قَلِيْلٌ فَیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ ثُمَّ یُؤْمَرُ بِسَائِرِ النَّاسِ إِلَی الْحِسَابِ ۔
ترجمہ : حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ قیامت کے دن ایک میدان میں اکٹھے کئے جائیں گے اور ایک منادی اعلان کرے گا : جن لوگوں کے پہلو (اپنے رب کی یاد میں) بستروں سے جدا رہتے تھے، وہ کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے، ان کی تعداد بہت کم ہوگی اور وہ جنت میں بغیر حساب و کتاب کے داخل ہوجائیں گے پھر باقی (بچ جانے والے) لوگوں کے حساب وکتاب کا حکم جاری کر دیا جائے گا ۔ (بیهقي في شعب الإیمان، 3 / 169، الرقم : 3244،چشتی،والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 240، الرقم : 912، والحاکم في المستدرک، 2 / 433، الرقم : 3508، وابن المبارک في الزهد، 1 / 101، الرقم : 353)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : فَضْلُ صَلاَةِ اللَّيْلِ عَلَی صَلاَةِ النَّھَارِ کَفَضْلِ صَدَقَةِ السِّرِّ عَلَی صَدَقَةِ الْعَلاَنِیَةِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رات کی نماز دن کی نماز سے اتنی ہی افضل ہے جتنا پردہ میں صدقہ کرنا سرعام صدقہ کرنے سے افضل ہے ۔ (عبد الرزاق في المصنف، 3 / 47، الرقم : 4735، والطبراني في المعجم الکبیر، 9 / 205، الرقم : 8999، وأیضًا 10 / 179، الرقم : 10382، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 130، الرقم : 3098، والدیلمی في مسند الفردوس، 3 / 129، الرقم : 4348)
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَا خَيَّبَ اللهُ عَبْدًا قَامَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَافْتَتَحَ سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ وَآلِ عِمْرَانَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو کبھی ناکام نہیں کرتا جو رات کے وقت قیام کرتے ہوئے سورۂ بقرہ اور آل عمران سے آغاز کرتا ہے ۔ (طبراني في المعجم الأوسط، 2 / 214، الرقم : 1772، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 8 / 129، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 245، الرقم : 934، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 254، والمناوي في فیض القدیر، 5 / 444)
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : عَجِبَ رَبُّنَا عزوجل مِنْ رَجُلَيْنِ : رَجُلٌ ثَارَ عَنْ وِطَائِهِ وَلِحَافِهِ مِنْ بَيْنِ أَهْلِهِ وَحَيِّهِ إِلَی صَلَاتِهِ فَیَقُوْلُ رَبُّنَا : أَیَا مَـلَائِکَتِي، انْظُرُوْا إِلَی عَبْدِي ثَارَ مِنْ فِرَاشِهِ وَوِطَائِهِ مِنْ بَيْنِ حَيِّهِ وَأَهْلِهِ إِلَی صَلَاتِهِ رَغْبَةً فِيْمَا عِنْدِي وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي۔ وَرَجُلٌ غَزَا فِي سَبِيْلِ اللهِ عزوجل فَانْهَزَمُوْا فَعَلِمَ مَا عَلَيْهِ مِنَ الْفِرَارِ وَمَا لَهُ فِي الرُّجُوْعِ فَرَجَعَ حَتَّی أُهَرِيْقَ دَمُهُ رَغْبَةً فِيْمَا عِنْدِي وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي فَیَقُوْلُ اللهُ عزوجل لِمَلَائِکَتِهِ : اُنْظُرُوْا إِلَی عَبْدِي رَجَعَ رَغْبَةً فِيْمَا عِنْدِي وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي حَتَّی أُهَرِيْقُ دَمُهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہمارا پروردگار دو آدمیوں پر بڑا خوش ہے : ایک وہ شخص جو نرم و گرم بستر اور محبوب بیوی اور دیگر اہل خانہ کو چھوڑ کر نماز کےلیے کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے میرے فرشتو ! میرے بندے کو دیکھو نرم و گرم بستر اور محبوب بیوی اور دیگر اہل خانہ کو چھوڑ کر میری رحمت کی تلاش اور خوف عذاب کے باعث نماز کےلیے کھڑا ہو گیا ہے ۔ دوسرا وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں جنگ کی اور اس کے ساتھی شکست خوردہ ہوگئے اور وہ پسپائی کی ذلت اور ثابت قدمی کے ثواب کو مدنظررکھ کر تا دمِ زیست میری رحمت کی تلاش اور خوف عذاب کے باعث لڑتا رہا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے کو دیکھو ، میری رحمت کی امید سے ، میرے عذاب کے خوف کی وجہ سے خون کا آخری قطرہ بہنے تک لڑتا رہا ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 416، الرقم : 3949، وابن حبان في الصحیح، 6 / 298، الرقم : 2557،والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 179، الرقم : 10383،چشتی،والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 246، الرقم : 936، والهیثمي في موارد الظمآن، 1 / 168، الرقم : 643)
قال مالک بن دینار رَحِمَهُ الله : لم یبق من روح الدنیا إلا ثلاثۃ : لقاء الإخوان والتهجد بالقرآن وبیت خال یذکر الله فیه ۔
ترجمہ : حضرت مالک بن دینار رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دنیا کی راحت سے صرف تین چیزیں باقی ہیں : احباب کی زیارت، قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ تہجد ادا کرنا اور خالی گھر جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے ۔ (شعراني في الطبقات الکبری : 58)
عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : وضعَ الله تعالی خمسةَ أشیائَ في خمسةِ مواضعَ : العزّ في الطاعّۃ، والذلّ في المعصیةِ، والهیبۃ في قیامِ اللّیلِ، والحِکْمَۃ في البطن الخالي، والغِنی في القناعۃ ۔
ترجمہ : امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کو پانچ جگہوں پر رکھا ہے : عزت کو اطاعت میں ، ذلت کو معصیت میں، مصیبت کو قیام اللیل میں ، حکمت کو خالی پیٹ میں ، اور مالداری کو قناعت میں ۔ (قشیري في الرسالۃ : 161،چشتی)
قال إبراهیم الخواص رحمه الله : دواء القلب خمسۃ أشیاء : قرائۃ القرآن بالتدبر ، و خلاء البطن ، و قیام اللیل ، والتضرع عند السحر ، و مجالسۃ الصالحین ۔
ترجمہ : ابراہیم الخواص رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دل کی دواء پانچ چیزیں ہیں : غور و تدبر کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت کرنا ، پیٹ کو خالی رکھنا ، رات کو (عبادتِ الٰہی کےلیے) قیام کرنا ، سحری کے وقت گریہ زاری کرنا ، صالحین کی مجلس میں بیٹھنا ۔ (طبقات الصّوفیۃ : 286)
قال جعفر بن محمد : بت لیلۃ مع إبراهیم، فانتبهت، فإذا هو یناجي إلی الصباح ویقول : برح الخفاء، وفي التلاقي راحۃ هل یشفي خل بغیر خلیله ؟ ۔
ترجمہ : حضرت جعفر بن محمد خلدی بیان کرتے ہیں : میں نے ابراہیم الخواص رَحِمَهُ اللہ کے پاس رات گزاری میں اچانک جاگا تو سنا کہ وہ رات کو گریہ زاری کرتے ہوئے کہہ رہے تھے : ناراضگی دور ہو گئی اور محبوب کے وصال میں ہی راحت ہے کیا دوست اپنے دوست کے بغیر شفاء پا سکتا ہے ؟ ۔ (طبقات الصّوفیۃ : 285)
قال أبو العالیۃ رَحِمَهُ الله : من أعظم الذنوب أن یتعلم الرجل القرآن ، ثم ینام عنه ولا یتهجد به ۔
ترجمہ : حضرت ابو عالیہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : بہت بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ ایک شخص قرآن مجید کا علم حاصل کرے اور پھر سویا رہے اور اس کے ساتھ تہجد نہ پڑھے ۔ (شعراني في الطبقات الکبری : 55)
اشراق کی نماز کی فضیلت : ⏬
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَنْ صَلَّی الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُ اللهَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَيْنِ کَانَتْ لَهُ کَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز با جماعت پڑھ کر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا، اللہ کا ذکر کرتا رہا، پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لیے کامل (و مقبول) حج اور عمرہ کا ثواب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تامۃ ’’ کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الجمعۃ، باب : ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس، 2 / 481، الرقم : 586، والطبراني في مسند الشامیین، 2 / 42، الرقم : 885، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 138، الرقم : 9762، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 178، الرقم : 667)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِذَا صَلَّی الْفَجْرَ لَمْ یَقُمْ مِنْ مَجْلِسِهِ حَتَّی یُمْکِنَهُ الصَّـلَاةُ وَقَالَ : مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ ثُمَّ جَلَسَ فِي مَجْلِسِهِ حَتَّی یُمْکِنَهُ الصَّلَاةُ کَانَتْ بِمَنْزِلَةِ عُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ مُتَقَبَّلَتَيْنِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فجر کی نماز ادا فرماتے تو اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ اُٹھتے جب تک کہ دوسری نماز (اشراق) نہ پڑھ لیتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے صبح (فجر) کی نماز ادا کی ، پھر وہ اسی جگہ پر بیٹھا رہا یہاں تک کہ (جب سورج ایک نیزے کے برابر بلند ہوا اور) وہ دوسری نماز (یعنی نمازِ اشراق) پر قادر ہوا تو اس کا یہ عمل بمنزل ایک مقبول حج اور عمرہ کے ہو گا ۔ (طبراني في المعجم الأوسط، 5 / 375، الرقم : 5602، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 105، والشعراني في لواقح الأنوار القدسیۃ : 68)
{چاشت کی نماز کی فضیلت : ⏬
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ أَوْصَانِي خَلِيْلِي بِثَـلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّی أَمُوْتَ : صَوْمِ ثَـلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ وَصَلَاةِ الضُّحَی وَنَوْمٍ عَلَی وِتْرٍ ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے میرے خلیل (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے کہ مرتے دم تک انہیں نہ چھوڑوں : ہر مہینے میں تین روزے رکھنا، نماز چاشت پڑھنا اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا ۔ (بخاري في الصحیح، أبواب : التطوع، باب : صلاۃ الضحی في الحضر، 1 / 395، الرقم : 1124، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب صلاۃ الضحی، 1 / 499، الرقم : 721)
عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ : یُصْبِحُ عَلَی کُلِّ سُلَامَی مِنْ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ، فَکُلُّ تَسْبِيْحَةٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَحْمِيْدَةٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَهْلِيْلَةٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَکْبِيْرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ، وَیُجْزِیئُ مِنْ ذَلِکَ رَکْعَتَانِ یَرْکَعُهُمَا مِنَ الضُّحَی۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ۔
ترجمہ : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی شخص صبح اُٹھتا ہے تو اس کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے اور اس کا ایک بار سبحان اللہ کہہ دینا صدقہ ہے۔ ایک بار الحمد لله کہہ دینا صدقہ ہے، ایک بار لا الٰہ الا اللہ کہہ دینا صدقہ ہے، ایک بار اللہ اکبر کہہ دینا صدقہ ہے ۔ کسی شخص کو نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، کسی کو برائی سے روک دینا صدقہ ہے اور چاشت کی نماز پڑھ لینا ان تمام اُمور سے کفایت کر جاتا ہے ۔ (مسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب صلاۃ الضحی، 1 / 498، الرقم : 720،چشتی،وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : صلاۃ الضحی، 2 / 26، الرقم : 1285، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 167، الرقم : 12513)
3۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَنْ حَافَظَ عَلَی شُفْعَةِ الضُّحَی غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوْبُهُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص چاشت کی دو رکعات کی پابندی کرتا ہے، اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في صلاۃ الضحی، 2 / 341، الرقم : 476،چشتی،وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ الضحی، 1 / 440، الرقم : 1382، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 443، الرقم : 9714)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَنْ صَلَّی الضُّحَی ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً بَنَی اللهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَھَبٍ فِي الْجَنَّةِ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کےلیے جنت میں سونے کا ایک محل بنا دیتا ہے ۔
(ترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في صلاۃ الضحی، 2 / 337، الرقم : 473، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ الضحی، 1 / 439، الرقم : 1380)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّي أَرْبَعًا بَعْدَ أَنْ تَزُوْلَ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ وَقَالَ : إِنَّهَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيْهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَأُحِبُّ أَنْ یَصْعَدَ لِي فِيْهَا عَمَلٌ صَالِحٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور فرماتے : یہ وہ گھڑی ہے جس میں آسمانوں پر (رحمت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ اس میں میرے نیک اعمال اوپر اٹھائے جائیں ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الوتر، باب : ما جاء في الصلاۃ عند الزوال، 2 / 342، الرقم : 478)
عَنْ سَھْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : مَنْ قَعَدَ فِي مُصَلَّاهُ حِيْنَ یَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّی یُسَبِّحَ رَکْعَتَي الضُّحَی لَا یَقُوْلُ إِلَّا خَيْرًا غُفِرَ لَهُ خَطَایَاهُ وَإِنْ کَانَتْ أَکْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ ۔
ترجمہ : حضرت سہل بن معاذ بن انس الجہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز کے سلام پھیرنے سے لے کر چاشت کی دو رکعت پڑھنے تک اپنی نماز والی جگہ پر بیٹھا رہے، نیکی کے علاوہ کوئی بات نہ کرے ، اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔ (أبو داود في السنن، کتاب : التطوع، باب : صلاۃ الضحی، 2 / 27، الرقم : 1287، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 438،چشتی،والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 196، الرقم : 442، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 49، الرقم : 4686)
عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَهُ الضُّحَی، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ نَادَی مُنَادٍ : أَيْنَ الَّذِيْنَ کَانُوْا یُدِيْمُوْنَ عَلَی صَلَاةِ الضُّحَی ؟ هَذَا بَابُکُمْ فَادْخُلُوْهُ بِرَحْمَةِ اللهِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ضحی ہے ۔ جب قیامت کا دن ہو گا ، ایک آواز دینے والا آواز دے گا : نماز ضحی کی پابندی کرنے والو ! کہاں ہو ؟ یہ تمہارا دروازہ ہے ، اس میں اللہ کی رحمت سے داخل ہو جاؤ ۔ (طبراني في المعجم الأوسط، 5 / 195، الرقم : 5060، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 206، الرقم : 788، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 267، الرقم : 1009، والھیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 239)
اَوّابین کی نماز کی فضیلت : ⏬
1۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ لَمْ یَتَکَلَّمْ فِيْمَا بَيْنَھُنَّ بِسُوْءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَي عَشْرَةَ سَنَةً ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے، اس کے لئے یہ نفل بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في فضل التطوع وست رکعات بعد المغرب، 2 / 298، الرقم : 435، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في ست رکعات بعد المغرب، 1 / 369، الرقم : 1167، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 227، الرقم : 862)
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً بَنَی اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الجَنَّةِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مغرب کے بعد بیس رکعات پڑھتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کےلیے جنت میں گھر بنا دیتا ہے ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في فضل التطوع وست رکعات بعد المغرب، 2 / 298، الرقم : 435،چشتی،وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في الصلاۃ بین المغرب والعشائ، 1 / 437، الرقم : 1373، وأبو یعلی في المسند، 8 / 360، الرقم : 4948)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه فِي ھَذِهِ الآیَةِ : {تَتَجَافَی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ} [السجدۃ، 32 : 16] قَالَ : کَانُوْا یَتَیَقَّظُوْنَ مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ یُصَلُّوْنَ قَالَ : وَکَانَ الْحَسَنُ یَقُوْلُ : قِیَامُ اللَّيْلِ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس آیت : {ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور اُمید (کی ملی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رِزق میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں} کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : صحابہ کرام مغرب اور عشاء کے درمیان نفل پڑھا کرتے تھے ۔ حسن بصری کہا کرتے تھے کہ رات کو قیام کیا کرتے تھے ۔ (أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : وقت قیام النبي ﷺ من اللیل، 2 / 35، الرقم : 1321، 1322، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 19، الرقم : 4524، وفي السنن الصغری، 1 / 478، الرقم : 841)
عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ حَبِيْبِي رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ وَقَالَ : مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوْبُهُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ ۔
ترجمہ : حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتا ہے، اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں ۔ (طبراني في المعجم الأوسط، 7 / 191، الرقم : 7245، وفي المعجم الصغیر، 2 / 127، الرقم : 900، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 230، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 227، الرقم : 864)
عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّی إِلَی الْعِشَاءِ ۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء تک (نوافل) پڑھتے رہے ۔ (نسائي في السنن الکبری، 1 / 157، الرقم : 380، والحاکم في المستدرک، 1 / 457، الرقم : 1177، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 228، الرقم : 868)
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ یَدْخُلُ فَیُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ یَقُوْلُ فيْمَا یَدْعُوْ : یا مُقَلِّبَ القُلُوْبِ، ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا علَی دِيْنِکَ ۔
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز مغرب سے فارغ ہوتے تو گھر میں داخل ہو کر دو رکعت نماز نفل ادا فرماتے، پھر اپنی دعا میں یوں فرماتے : اے دلوں کو موڑنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ۔ (نسائي في عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 609، الرقم : 658،چشتی،والنّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 83)
تحیۃ الوضوء کی نماز کی فضیلت : ⏬
عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ لِبِلَالٍ رضی الله عنه عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ : یَا بِلَالُ، حَدِّثْنِي بِأَرْجَی عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْکَ بَيْنَ یَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ، قَالَ : مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَی عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَھَّرْ طَھُوْرًا فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَھَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِکَ الطُّھُوْرِ مَا کُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے نماز فجر کے وقت فرمایا : اے بلال! مجھے اپنا وہ اُمید افزا عمل بتاٶ جو تم نے زمانہ اسلام میں کیا ہو، کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے۔ عرض کیا : میرے نزدیک تو ایسا امید افزا کوئی عمل نہیں ہے ما سوائے اس کے کہ رات یا دن کی کسی بھی ساعت کے اندر میں نے جب بھی وضو کیا تو اس کے ساتھ نماز (تحیۃ الوضوئ) جو قسمت میں لکھی ہے ضرور پڑھتا ہوں ۔ (بخاري في الصحیح، أبواب : التطوع، باب : فضل الطھور باللیل والنھار وفضل الصلاۃ بعد الوضوء باللیل والنھار، 1 / 386، الرقم : 1098، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ ث، باب : من فضائل بلال رضی الله عنه، 4 / 1910، الرقم : 2458، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 333، الرقم : 8384)
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَتَوَضَّأُ فَیُحْسِنُ وُضُوْئَهُ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ مُقْبِلٌ عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ۔
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے اور پھر کھڑا ہو کر حضور قلب کے ساتھ دو رکعات نماز پڑھے اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی ۔ (مسلم في الصحیح، کتاب : الطھارۃ، باب : الذکر المستحب عقب الوضوئ، 1 / 209، الرقم : 234، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 153، والبیهقي في السنن الکبری، 1 / 78، الرقم : 373، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1 / 110، الرقم : 222)
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوْئَهُ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَيْنِ لَا یَسْهُوْ فِيْهِمَا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔
ترجمہ : حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر دو رکعتیں پڑھیں جن میں کوئی بھول چوک نہ ہو تو اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیے جاتے ہیں ۔ (أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : کراهیۃ الوسوسۃ وحدیث النفس في الصلاۃ، 1 / 238، الرقم : 905، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 117، والطبراني في المعجم الکبیر، 5 / 249، الرقم : 5242، والحاکم في المستدرک، 1 / 222، الرقم : 451، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 118، الرقم : 280)
تحیۃ المسجد کی نماز کی فضیلت : ⏬
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ، فَـلَا یَجْلِسْ حَتَّی یُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت(تحیۃ المسجد) پڑھے بغیر نہ بیٹھے ۔ (بخاري في الصحیح، أبواب : التطوع، باب : ما جاء في التطوع مثنی مثنی، 1 / 391، الرقم : 1110،چشتی،ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب تحیۃ المسجد برکعتین وکراهۃ الجلوس قبل صلاتهما وأنها مشروعۃ في جمیع الأوقات، 1 / 495، الرقم : 714)
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنه صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَ : دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جَالِسٌ بَيْنَ ظَھْرَانَي النَّاسِ قَالَ : فَجَلَسْتُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَا مَنَعَکَ أَنْ تَرْکَعَ رَکْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تَجْلِسَ؟ قَالَ : فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، رَأَيْتُکَ جَالِسًا وَالنَّاسُ جُلُوْسٌ۔ قَالَ : فَإِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَـلَا یَجْلِسْ حَتَّی یَرْکَعَ رَکْعَتَيْنِ ۔
ترجمہ : صحابی رسول حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے ۔ میں بھی بیٹھ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے سے تم کو کس نے روکا ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے آپ کو اور لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ فرمایا : تم میں سے جب کوئی شخص مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز (تحیۃ المسجد) پڑھنے سے پہلے نہ بیٹھے ۔ (مسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب تحیۃ المسجد برکعتین وکراھۃ الجلوس قبل صلاتھما وأنھا مشروعۃ في جمیع الأوقات، 1 / 495، الرقم : 714،چشتی،وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 305، الرقم : 22654، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 164، الرقم : 1829، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 346، الرقم : 1240)
نمازِ تسبیح کی فضیلت : ⏬
عَنْ أَبِي وَهْبٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْمُبَارَکِ عَنِ الصَّلَاةِ الَّتِي یُسَبَّحُ فِيْهَا فَقَالَ : یُکَبِّرُ ثُمَّ یَقُوْلُ : سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُکَ۔ ثُمَّ یَقُوْلُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً : سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرُ۔ ثُمَّ یَتَعَوَّذُ وَیَقْرَأُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ وَفَاتِحَةَ الْکِتَابِ وَسُوْرَةً ثُمَّ یَقُوْلُ عَشْرَ مَرَّاتٍ : سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرُ ثُمَّ یَرْکَعُ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا ثُمَّ یَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّکُوْعِ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا ثُمَّ یَسْجُدُ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا ثُمَّ یَرْفَعُ رَأْسَهُ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا ثُمَّ یَسْجُدُ الثَّانِیَةَ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا یُصَلِّي أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ عَلَی هَذَا فَذَلِکَ خَمْسٌ وَسَبْعُوْنَ تَسْبِيْحَةً فِي کُلِّ رَکْعَةٍ یَبْدَأُ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِيْحَةً ثُمَّ یَقْرَأُ ثُمَّ یُسَبِّحُ عَشْرًا۔ فَإِنْ صَلَّی لَيْلًا فَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ یُسَلِّمَ فِي الرَّکْعَتَيْنِ وَإِنْ صَلَّی نَهَارًا فَإِنْ شَائَ سَلَّمَ وَإِنْ شَاءَ لَمْ یُسَلِّمْ۔ قَالَ أَبُوْ وَهْبٍ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيْزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ أَنَّهُ قَالَ : یَبْدَأُ فِي الرُّکُوْعِ بِسُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ وَفِي السُّجُوْدِ بِسُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَی ثَـلَاثًا ثُمَّ یُسَبِّحُ التَّسْبِيْحَاتِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيْزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ قَالَ : قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَکِ : إِنْ سَهَا فِيْهَا یُسَبِّحُ فِي سَجْدَتَي السَّهْوِ عَشْرًا عَشْرًا؟ قَالَ : لَا إِنَّمَا هِيَ ثـَلَاثُ مِائَةِ تَسْبِیحَةٍ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه ۔ وَفِي رِوَایَةٍ : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ لِيَ النَّبِيُّ : فَإِنَّکَ لَوْ کُنْتَ أَعْظَمَ أَھْلِ الْأَرْضِ ذَنْبًا غُفِرَ لَکَ بِذَلِکَ قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أُصَلِّیَھَا تِلْکَ السَّاعَةَ۔ قَالَ : صَلِّھَا مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّھَارِ ۔
ترجمہ : ابو وہب کہتے ہیں میں نے حضرت عبد اللہ بن مبارک سے تسبیحات والی نماز کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا : تکبیر کہہ کر سبحانک اللہم الخ پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ سبحان اللہ والحمد لله ولا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر کہے، پھر أعوذ باللہ پڑھے، بسم اللہ پڑھے، سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھے اور پھر دس مرتبہ تسبیح (مذکورہ بالا) کہے، رکوع میں دس مرتبہ، رکوع سے اٹھ کر دس مرتبہ، سجدہ میں دس مرتبہ، سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ اور پھر دوسرے سجدہ میں دس مرتبہ یہی تسبیحات کہے، یوں چار رکعتیں پڑھے، اس طرح ہر رکعت میں پچھتر (75) تسبیحات ہوں گی، ہر رکعت کے شروع میں پندرہ مرتبہ اور پھر قرأت کے بعد دس دس مرتبہ پڑھے، اگر رات کو پڑھے تو ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرنا مجھے پسند ہے، اگر دن کو پڑھے تو چاہے سلام پھیرے چاہے نہ پھیرے۔ ابو وہب فرماتے ہیں : مجھے ابو رزمہ عبد العزیز نے بتایا کہ عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا : رکوع میں پہلے سبحان ربی العظیم کہے اور سجدے میں پہلے سبحان ربی الاعلیٰ کہے، پھر تسبیحات پڑھے۔ ابو رزمہ عبد العزیز فرماتے ہیں : میں نے عبد اللہ بن مبارک سے پوچھا، اگر سہو ہو جائے تو کیا سجدہ سہو میں بھی دس دس مرتبہ تسبیحات کہے، آپ نے فرمایا : نہیں یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارے گناہ تمام اہلِ زمین سے بھی زیادہ ہوں تب بھی اس (نماز) کے باعث معاف کر دیئے جائیں گے۔ میں نے عرض کیا : اگر اس وقت نہ پڑھ سکوں؟ فرمایا : رات اور دن میں جس وقت بھی پڑھ سکو (پڑھ لو) ۔ (ترمذي في السنن، أبواب : الوتر، باب : ما جاء في صلاۃ التسبیح، 2 / 350، الرقم : 481، وأبو داود في السنن، کتاب : التطوع، باب : صلاۃ التسبیح، 2 / 29، الرقم : 1297، و2 / 30، الرقم : 1298، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ التسبیح، 1 / 442،443، الرقم : 13860،1387)
نماز اِستخارہ کی فضیلت : ⏬
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُوْرِ کُلِّھَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ یَقُوْلُ : إِذَا ھَمَّ أَحَدُکُمْ بِالْأَمْرِ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيْضَةِ ثُمَّ لِیَقُلْ : اَللَّھُمَّ، إِنِّي أَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ۔ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ اَللَّھُمَّ، إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي۔ أَوْ قَالَ : عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَیَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِکْ لِي فِيْهِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي۔ أَوْ قَالَ : فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي ۔ قَالَ : وَیُسَمِّي حَاجَتَهُ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کرنا اسی طرح سکھایا کرتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت سکھاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نفل نماز پڑھے، پھر یوں کہے : اَللَّھُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ۔ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ اَللَّھُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي۔ أَوْ قَالَ : عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَیَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِکْ لِي فِيْهِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي۔ (أَوْ قَالَ : فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعے بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے سبب طاقت چاہتا ہوں اور تیرے عظیم فضل میں سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو چھپی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین، میری معاش، میرے اُخروی معاملے یا انجام کار میں میرے لیے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر فرما دیے اور میرے لیے آسان کر دے، تو اس میں مجھے برکت دے اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین، میری معاش، میرے اخروی معاملے یا انجام کار میں میرے لیے برا ہے تو اسے مجھ سے دور رکھ اور اس سے مجھے دور رکھ اور میرے لیے بھلائی کو مقرر فرما خواہ وہ کہیں ہو۔ پھر مجھے راضی کر دے۔‘‘ فرمایا : اور (پھر) اپنی حاجت کا نام لے ۔ (بخاري في الصحیح، أبواب : التطوع، باب : ما جاء في التطوع مثنی مثنی، 1 / 391، الرقم : 1113، وفي کتاب : الدعوات، باب : الدعاء عند الاستخارۃ، 5 / 2345، الرقم : 6019،چشتی،والترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في صلاۃ الاستخارۃ، 2 / 345، الرقم : 480، وقال الترمذي : حدیث صحیح، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في الاستخارۃ، 2 / 89، الرقم : 1538، والنسائي في السنن، کتاب : النکاح، باب : کیف الاستخارۃ، 6 / 80، الرقم : 3253، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ الاستخارۃ، 1 / 440، الرقم : 1383)
نمازِ حاجت کی فضیلت : ⏬
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَی رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَنْ کَانَتْ لَهُ إِلَی اللهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَی أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْیَتَوَضَّأْ وَلْیُحْسِنِ الْوُضُوْءَ ثُمَّ لِیُصَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ لِیُثْنِ عَلَی اللهِ، وَلْیُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ثُمَّ لِیَقُلْ : {لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِيْمُ الْکَرِيْمُ سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، الْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا ھَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً ھِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَھَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ}۔زَادَ ابْنُ مَاجَه : ثُمَّ یَسْأَلُ اللهَ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ مَا شَاءَ فَإِنَّهُ یُقَدَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو اللہ تعالیٰ یا کسی آدمی سے کوئی کام ہو ، اُسے چاہیے کہ وہ اچھے طریقے سے وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے ، پھر کہے : {لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِيْمُ الْکَرِيْمُ سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، اَلْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا ھَمَّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً ھِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَھَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ} ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بردبار بزرگی والا ہے ۔ پاک ہے اللہ اور عرش عظیم کا مالک ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کےلیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ اے اللہ! میں تجھ سے وہ چیزیں مانگتا ہوں جو تیری رحمت اور تیری بخشش کا سبب ہوتی ہیں اور میں ہر نیکی میں سے اپنا حصہ مانگتا ہوں اور ہر گناہ سے سلامتی طلب کرتا ہوں ۔ اے اللہ ! میرے کسی گناہ کو بخشے بغیر، میرے کسی غم کو دور کئے بغیر اور میری کسی حاجت کو جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو ، پورا کئے بغیر نہ چھوڑنا ۔ اے رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! (رحم فرما) ۔ امام ابنِ ماجہ نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : پھر دنیا اور آخرت کی کوئی چیز مانگے تو وہ اس کےلیے مقدر کر دی جائے گی ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 2 / 344، الرقم : 479، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1384، والحاکم في المستدرک، 1 / 466، الرقم : 1199)
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا ضَرِيْرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ : ادْعُ اللهَ لِي أَنْ یُعَافِیَنِي۔ فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ۔ وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ۔ فَقَالَ : ادْعُهُ۔ فَأَمَرَهُ أَنْ یَتَوَضَّأَ فَیُحْسِنَ وُضُوْئَهُ وَیُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ۔ وَیَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ۔ یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی، اَللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ ۔
ترجمہ : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لیے بینائی کی دعا فرمائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لیے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لیے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لیے دعا کر دوں ۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : (نماز کے بعد) یہ دعا کرنا : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی، اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ ۔ ’’ اے اللہ! میں نبیٔ رحمت (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ پوری ہو ۔ اے اللہ ! میرے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 119، 5 / 569، الرقم : 3578، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1385، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17240۔17242،چشتی،والنسائي في السنن الکبری، 6 / 168، الرقم : 10494۔ 10495، وفي عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 417، الرقم : 658۔660، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 225، الرقم : 1219، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180۔ 1909۔ 1929، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبیر، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6 / 209، الرقم : 2192، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 147، الرقم : 379)
توسل کی نماز کی فضیلت : ⏬
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا ضَرِيْرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ : ادْعُ اللهَ لِي أَنْ یُعَافِیَنِي۔ فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ۔ وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ۔ فَقَالَ : ادْعُهُ۔ فَأَمَرَهُ أَنْ یَتَوَضَّأَ فَیُحْسِنَ وُضُوْئَهُ وَیُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ۔ وَیَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ۔ یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی، اَللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ ۔
ترجمہ : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لیے بینائی کی دعا فرمائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لیے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لیے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لیے دعا کر دوں ۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : (نماز کے بعد) یہ دعا کرنا : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی، اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ ۔ ’’ اے اللہ! میں نبیٔ رحمت (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ پوری ہو ۔ اے اللہ ! میرے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما ۔ (ترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 119، 5 / 569، الرقم : 3578، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1385، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17240۔17242،چشتی،والنسائي في السنن الکبری، 6 / 168، الرقم : 10494۔ 10495، وفي عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 417، الرقم : 658۔660، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 225، الرقم : 1219، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180۔ 1909۔ 1929، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبیر، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6 / 209، الرقم : 2192، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 147، الرقم : 379)
نفلی نماز گھر میں ادا کرنے کی فضیلت : ⏬
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : صَلُّوْا أَیُّهَا النَّاسُ، فِي بُیُوْتِکُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَکْتُوْبَةَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔
ترجمہ : حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو، کیونکہ افضل یہ ہے کہ آدمی فرض نمازوں کے علاوہ باقی نمازیں گھر میں ادا کرے ۔ (بخاري في الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : ما یکره من کثرۃ السؤال وتکلف ما لا یعنیه، 6 / 2658، الرقم : 6860، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب الصلاۃ النافلۃ في بیته وجوازھا في المسجد، 1 / 540، الرقم : 781، والنسائي في السنن، کتاب : قیام اللیل، باب : الحث علی الصلاۃ في البیوت والفضل في ذلک، 3 / 197، الرقم : 1599،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے ، اس وقت منادی پکارے گا : کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے لیے حساب کا حکم ہوگا ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 169 حدیث نمبر 3244)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے فجر کی نمازِ جماعت کے ساتھ ادا کی،پھر وہ سورج طلوع ہونے تک بیٹھ کر اللہ پاک کا ذکر کرتا رہا،پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اسے حج اور عمرے کا پورا پورا ثواب ملے گا۔(ترمذی،کتاب السفر جلد 2 صفحہ 100 حدیث نمبر 585)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے چاشت کی نماز کی بار ہ رکعتیں پڑھیں ، اس کےلیے اللہ پاک جنت میں سونے کا محل بنا دے گا ۔ (سنن ترمذی کتاب الوتر باب ما جاء فی صلوۃ الضحی جلد 2 صفحہ 17 حدیث نمبر 472)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے جن کے درمیان کوئی بُری بات نہ کرے تو یہ بارہ برس کی عبادت کے برابر ہوں گی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور ظاہر و باطن کے ساتھ متوجہ ہو کر دو رکعت(نماز تحیۃ الوضوء) پڑھے اس کےلیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ صفحہ 144)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگو ! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو ، فرض نماز کے علاوہ مرد کی سب سے افضل نماز وہ ہوتی ہے جسے وہ اپنے گھر میں پڑھے ۔ (سنن نسائی کتا ب قیام اللیل الخ ۔ جلد 3 صفحہ 197)
رات میں بعد نمازِ عشا جو نوافِل پڑھے جائیں ان کو صلوۃُ اللیل کہتے ہیں اور رات کے نوافل دن کے نوافل سے افضل ہیں کہ مسلم شریف میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فرضوں کے بعد افضل نَماز رات کی نماز ہے ۔ (صحیح مسلم صفحہ 591 حدیث نمبر 1163)
اللہ پاک پارہ نمبر 21 سورہ السَّجدہ کی آیت نمبر 16 اور 17 میں ارشاد فرماتا ہے : تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنۡفِقُوۡنَ ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَاکَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ۔
ترجمہ : ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور اُمید کرتے اور ہمارے دیئے ہوئے سے کچھ خیرات کرتے ہیں تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لئے چھپارکھی ہے صلہ ان کے کاموں کا ۔
صلوۃُاللیل کی ایک قسم تَہَجُّد ہے کہ عشا کے بعد رات میں سو کر اٹھیں اور نوافِل پڑھیں ، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تَہَجُّد نہیں ۔ کم سے کم تَہَجُّد کی دو رکعتیں ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آٹھ تک ثابِت ۔ (بہارِشریعت حصّہ 5 صفحہ 27،26)
اِس میں قراءت کا اِختیار ہے کہ جو چاہیں پڑھیں ، بہتر یہ ہے کہ جتنا قرآن یاد ہے وہ تمام پڑھ لیجیے ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتِحہ کے بعد تین تین بارسورَۃُالْاِخلاص پڑھ لیجیے کہ اِس طرح ہر رکعت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کا ثواب ملے گا ، ایسا کرنا بہتر ہے ، بہرحال سورۂ فاتِحہ کے بعد کوئی سی بھی سورت پڑھ سکتے ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو نَمازِ فجر با جماعت ادا کر کے ذکرُاللہ کرتا رہے یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو گیا پھر دو رکعتیں پڑھیں تو اسے پورے حج و عمرے کاثواب ملےگا ۔(سنن ترمذی جلد 2 صفحہ 100 حدیث نمبر 586)
جو شخص نمازِ فجر سے فارغ ہونے کے بعد اپنے مُصلّے میں (یعنی جہاں نماز پڑھی وہیں) بیٹھا رہا حتّٰی کہ اِشراق کے نفل پڑھ لے صرف خیر ہی بولے تو اُس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگر چہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں ۔ (سنن ابو داود جلد 2 صفحہ 41 حدیث نمبر 1287)
حدیثِ پاک کے اس حصّے اپنے مصلّے میں بیٹھا رہےکی وضاحت کرتے ہو ئے حضرت امام مُلا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی مسجد یا گھر میں اِس حال میں رہے کہ ذِکر یا غوروفکرکرنے یا علمِ دین سیکھنے سکھانے یا ’’ بیتُ اللہ کے طواف میں مشغول رہے ‘‘ نیز ’’ صرف خیر ہی بولے ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : یعنی فجر اور اشراق کے درمیان خیر یعنی بھلائی کے سوا کوئی گفتگو نہ کرے کیونکہ یہ وہ بات ہے جس پر ثواب مُرتَّب ہوتا ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 3 صفحہ 396 تحت الحدیث : 1317،چشتی)
نمازِ اِشراق کا وقت : سورَج طُلُوع ہونے کے کم از کم بیس مِنَٹ بعد سے لے کر ضحو ہ کُبریٰ تک نَمازِ اِشراق کا وَقت رہتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو چاشت کی دو رَکعتیں پابندی سے ادا کرتا رہے اس کے گناہ مُعاف کردیے جاتے ہیں اگر چِہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔ (سنن ابنِ ماجہ جلد 2 صفحہ 154،153 حدیث نمبر 1382)
نَمازِ چاشت کاوَقت : اس کاوَقت آفتاب بلندہونے سے زَوال یعنی نِصفُ النہار شرعی تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے ۔ (بہار شریعت حصہ 4 صفحہ 25) ۔ نمازِ اِشراق کے فوراً بعد بھی چاہیں تو نمازِ چاشت پڑھ سکتے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ عزوجل نے فرمایا : جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا اور میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میرا قرب چاہتا ہے ان میں مجھے سب سے زیادہ فرائض محبوب ہیں ۔ اور نوافل کے ذریعے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسےاپنا محبوب بنا لیتا ہوں ۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور دوں گا اور پناہ مانگے تو ضرور اسے پناہ دوں گا ۔ (صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 248 حدیث نمبر 6502)
رات میں جو نوافل بعد نمازِ عشا پڑھے جائیں ان کو صلوۃ اللیل کہتے ہیں اور رات کے نوافل دن کے نوافل سے افضل ہیں ۔ مسلم شریف میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فرضوں کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے ۔ (صحیح مسلم صفحہ 591 حدیث نمبر 1163)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ ان کے درمیان کوئی بُری بات نہ کہے تو یہ چھ رکعتیں بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں گی ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 2 صفحہ 45 حدیث نمبر 1167)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور ظاہر و باطن کے ساتھ متوجہ ہوکر دو رکعت پڑھے اس کےلیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ (صحیح مسلم صفحہ 144 حدیث نمبر 234)
حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی بندہ گناہ کرے پھر وضو کر کے نماز پڑھے ، پھر اِستغفار کرے تو اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا پھر قرآنِ پاک کی یہ آیتِ مبارکہ پڑھی : وَالَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فٰحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوۡۤا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمْ۟ وَمَنۡ یَّغْفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَلَمْ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَھُمْ یَعْلَمُوۡنَ ۔ (سورہ الِ عمران : 135)(ترمذی،1/410،حدیث:406)
ترجمہ : اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اڑ نہ جائیں ۔
مسلم شریف میں ہےکہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص وُضو کرے اور اچھا وضو کرے اور ظاہر و باطن کے ساتھ متوجّہ ہوکر دو رکعت پڑھے،اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔(مسلم،کتاب الطہارۃ،باب الذکر المستحب عقب الوضو،حدیث نمبر1)
احمد و ترمذی و ابنِ ماجہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو چاشت کی دو رکعتوں پر محافظت کرے،اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔(بہار شریعت،جلد1ب،حصہ چہارم،ص 676)
مسلم شریف میں ابو ذر سے مروی ہے فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آدمی پر اس کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ ہے ، ہر تسبیح صدقہ ہے اور ہر حمد صدقہ ہے اور لا الہ الااللہ کہنا صدقہ ہے اور اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے ، اچھی بات کہنا صدقہ ہےاور بُری بات سے منع کرنا صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے دو رکعتیں چاشت کی کفایت کرتی ہیں ۔(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین باب استحباب صلاۃ الضحیٰ)
انسان دنیا میں جو کچھ کرتا ہے ، آخرت میں اس کا پھل پائے گا ، عبادات جو انسان پر فرض کی گئیں ، ان کے علاوہ چند عبادات بطورِ نفل بھی کرنے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائیں ، نفل نمازوں کی احادیث میں بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا : قیامت کے دن سب سے پہلے نمازکے بارے میں پوچھا جائے گا ، اگر نماز ٹھیک ہوئی تو کامیابی اور نجات ہے اور اگر خراب ہوئی تو ناکامی اور نامرادی ہے اور اگر فرض میں کچھ کمی رہ گئی تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا : کیا میرے بندے کی کوئی نفل نمازیں ہیں ؟ اگر ہوئیں تو ان سے فرائض کی کمی کو پورا کیا جائے گا ، پھر تمام اعمال کا یہی حال ہو گا ۔ (سنن ترمذی باب ماجاءان اول لما یحاسب صفحہ 192،چشتی)
نفل نمازیں دو طرح کی ہیں : ⏬
1 ۔ جس کےلیے خاص وقت مقرر نہیں ہے ، مکروہ اوقات کے علاوہ جب چاہیں ، جتنی چاہیں ، پڑھ لیں ، جس طرح بعض اکابر ایک ایک دن میں کئی کئی 100 رکعتیں پڑھا کرتے تھے ۔
2 ۔ دوسری قسم کےلیے وقت مقرر ہیں ، جیسے تہجد ، اشراق ، چاشت ، وغیرہ ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مامن مسلم یتوضا فیحسن وضوءہ ثم یقوم فیصلی رکعتیں مقبل علیھا بقلبہ ووجھہ الا وجببت لہ الجنۃ ۔ (صحیح مسلم صفحہ 122،چشتی)
ترجمہ : جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے اور ظاہر و باطن کے ساتھ متوجّہ ہو کر دو رکعت نماز نفل پڑھے ، اس کےلیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات کو بیدار ہو اور اپنے اہل کو جگائے بغیر دو دو رکعتیں نفل پڑھے تو کثرت سے یادِ خدا کرنے والوں میں لکھا جائےگا ۔ (سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مستدرک حاکم)
ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : اے انسان ! تو شروع دن میں میرے لیے چار رکعتیں پڑھ ، میں انہیں تیرے لیے آخری دن تک کفایت کروں گا ۔ (سنن ترمذی صفحہ 108)
اللہ عزوجل نے دن اور رات میں اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور بندہ فرائض کے علاوہ نوافل کے ذریعے اپنے ربّ کا قرب حاصل کرتا اور اس کا محبوب بندہ بنتا ہے ، چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت منقول ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رب کریم ارشاد فرماتا ہے : جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے ، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا اور میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے ، ان میں مجھے سب سے زیادہ فرائض محبوب ہیں اور نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں ، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور دوں گا اور پناہ مانگے تو اسے ضرور پناہ دوں گا ۔ (صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 248 حدیث نمبر 6502،چشتی)
احادیثِ مبارکہ میں نفل نمازوں کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں اور جن نفل نمازوں کے ذریعے وہ ربِّ کریم کا قرب حاصل کرتا ہے ، وہ یہ ہیں : نمازِ چاشت ، نمازِ اشراق ، صلوۃُ اللیل ، صلوۃُ التسبیح ، صلوۃُ الاوبین ، صلوۃُ الاسرار ، صلوۃُ الحاجات ، صلوۃُ التوبہ ، تحیۃُ الوُضو وغیرہا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو نمازِ فجر ادا کر کے ذکر اللہ کرتا رہے ، یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو گیا ، پھر دو رکعتیں پڑھے تو اسے پورے حج و عمرے کا ثواب ملے گا ۔ (سنن ترمذی جلد 2 صفحہ 100 حدیث نمبر 586)
حدیثِ مبارکہ میں ہے : جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد چار پر محافظت کی ، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا ۔ (سنن نسائی صفحہ 310 حدیث نبر 1813)
علامہ سیّد امام طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سِرے سے آگ میں داخل ہی نہ ہو گا اور اس کے گناہ مٹا دیے جائیں گے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے ، اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرما دے گا ۔ (معجم کبیر للطبرانی جلد 23 صفحہ 281 حدیث نمبر 611)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مغرب کے بعد چھ رکعت اس طرح پڑھے کہ اُن کے دوران کوئی بری بات نہ کہے تو تو یہ چھ رکعت بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 2 صفحہ 45 حدیث نمبر 1167)
محترم قارٸینِ کرام : آپ نے نفل نمازوں کے فضائل پڑھے ، تو آپ سب سے گذارش ہے کہ نوافل کی کثرت کریں اور اپنے انمول وقت کو بے کار ضائع نہ کریں اور ہماری زندگی کا مقصد صرف اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منانا ہے ، ایسے کام کریں جن سے اللہ عزوجل اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوں ، آپ سب احباب نیت کر لیجیے کہ آج سے کچھ نہ کچھ نوافل تو ضرور پڑھیں گے ۔ اللہ عزوجل ہم سب کو فرض نماز کے ساتھ ساتھ نوافل کی بھی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہِ نبیِ الکریم الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment