سیرت و تعلیمات حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی عبدالقادر ، کنیت : ابو محمد، لقب : محی الدین ، پیرانِ پیر دستگیر ، شیخ الشیوخ ، محبوبِ سبحانی ، قندیلِ لامکانی ، قطبِ ربانی وغیرہ ۔ عامۃ المسلمین میں آپ "غوث الاعظم" کے نام سے مشہور ہیں ۔ والد ماجد کا نام حضرت سیّد ابو صالح موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رحمۃ اللہ علیہا آپ "نجیب الطرفین" سیّد ہیں ۔ والد ماجد کی طرف سے سلسلۂ نسب سیدنا امام حسن بن علی المرتضیٰ سے اور والدہ ماجدہ کی طرف سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ملتا ہے ۔
تاریخِ ولادت : حضور سیّدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ یکم رمضان المبارک 471 ھجری میں عالم قدس سے عالم امکانی میں تشریف لائے ۔
تحصیلِ علم : اٹھارہ سال کی عمر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیلِ علم کےلیے بغداد تشریف لے گئے ۔ آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی ، علِم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیر کےلیے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے ۔
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پیشین گوئیاں
طبقات کبری ، بہجۃ الاسرار ، قلائد الجواہر ، نفحات الانس ، جامع کرامات اولیاء ، نزہۃ الخاطر الفاتر اور اخبار الاخیار کتب میں حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے واقعات اس طرح مذکور ہیں : ⬇
محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی ولادت کی شب مشاہدہ فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی مبارک جماعت کے ساتھ آپ کے گھر جلوہ افروز ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اولیاء کرام بھی حاضرہیں ، حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم انہیں اس خوشخبری سے سرفراز فرما رہے ہیں : یا ابا صالح ! اعطاک اللہ ابنا وھو ولیی ومحبوبی ومحبوب اللہ تعالی ، وسیکون لہ شان فی الاولیاء والاقطاب کشأنی بین الانبیاء والرسل ۔
ترجمہ : اے ابو صالح ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا فرزندِ صالح سرفراز فرمایا ہے جو میرا مقرب ہے ، وہ میرا محبوب اور اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور عنقریب اولیاء اللہ اور اقطاب میں ان کی وہ شان ظاہر ہوگی جو انبیاء اور مرسلین میں میری شان ہے ۔ (تفریح الخاطر،المنقبۃ الثانیۃ صفحہ 57)
حضرت ابو صالح موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ خواب میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے دیدار پرانوار سے مشرف ہوئے اور سبھی نے آپ کویہ بشارت دی کہ تمام اولیاء کرام تمہارے فرزندار جمند کے مطیع ہوں گے اور ان سب کی گردنوں پر ان کا قدم ہوگا ۔
جس کی منبر بنی گردن اولیاء
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام
حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے چھ سال قبل حضرت شیخ ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے کہ جس کا فرمان ہوگا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله . ترجمہ : میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔
حضرت شیخ عقیل سنجی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون ہیں ؟ فرمایا، اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے ۔ سوائے اولیاء اللہ کے اْسے کوئی نہیں جانتا ۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس طرف سے ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا ۔ وہ بغداد میں وعظ کرے گا۔ اس کی کرامتوں کو ہر خاص و عام جان لے گا اور وہ فرمائے گا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله ، میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔
سالک السالکین میں ہے کہ جب سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو مرتبہ غوثیت و مقام محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔ منادئ غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء اللہ اطاعتِ غوثِ پاک کریں ۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا پردہ کر چکے تھے سب نے گردنیں جھکا دیں ۔ (تلخيص بهجة الاسرار)
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بشارت : جن مشائخ علیہم الرحمہ نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قطبیت کے مرتبہ کی گواہی دی ہے “روضۃ النواظر” اور “نزہۃ الخواطر” میں صاحبِ کتاب ان مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آپ رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے کوئی بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا منکر نہ تھا بلکہ انہوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی بشارت دی ، چنانچہ حضرت سیدنا امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ مبارک سے لے کر حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانۂِ مبارک تک تفصیل سے خبر دی کہ جتنے بھی اللہ عزوجل کے اولیاء گزرے ہیں سب نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خبر دی ہے ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۸)
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت : آپ رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ مجھے عالم غیب سے معلوم ہوا ہے کہ پانچویں صدی کے وسط میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ایک قطبِ عالم ہوگا ، جن کا لقب محی الدین اور اسم مبارک سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ہے اور وہ غوث اعظم ہوگا اور جیلان میں پیدائش ہوگی ان کو خاتم النبیین ، رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ائمہ کرام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علاوہ اولین و آخرین کے ’’ہر ولی اور ولیہ کی گردن پر میرا قدم ہے کہنے کا حکم ہوگا ۔ ( سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۷)
شیخ ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت : شیخ ابوبکر بن ہوارا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روز اپنے مریدین سے فرمایا کہ “ عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہوگا اُس کا نام عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ہوگا اور بغداد شریف میں سکونت اختیار کرے گا، قَدَمِيْ هٰذِهٖ عَلٰي رَقَبَةِ کُلِّ وَلِيِّ اللّٰهِ ، یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کے فرمانبردار ہوں گے ۔ (بهجة الاسرار، ذکر اخبار المشايخ عنه بذالک صفحہ ۱۴)
بیعت وخلافت : حضورِ پرنور سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابو سعید مبارک مخزومی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور خرقۂ خلافت حاصل کیا ۔
سیرت و خصائص
امام الائمہ ، شیخ الاسلام ، محی الدین ،سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی قطبِ ربانی ، غوثِ صمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاقِ حسنہ اور فضائلِ حمیدہ کی تعریف و توصیف میں کل اولیاء اللہ کے تذکرے بھرے ہوۓ ہیں ۔ سیرت و کردار کے لحاظ سے کوئی بھی ولی اللہ آپ کا ہم پلہ نہیں ہوا ۔ قدرت نے آپ کو ایسے اعلیٰ اخلاق و محامد سے متصف فرمایا تھا کہ آپ کے معاصرین آپ کی تحسین کیے بغیر نہیں رہتے تھے ۔اپنے تو اپنے غیر مسلم بھی آپ کے حسنِ سلوک کےگرویدہ تھے ۔ آپ اسلامی اخلاق اور انسانی اوصاف کے پیکر تھے ۔ شیخ حراوہ فرماتے ہیں : میں نے اپنی زندگی میں آپ سے بڑھ کر کوئی کریم النفس ، رقیق القلب، فراخ دل اور خوش اخلاق نہیں دیکھا"۔آپ اپنے علوِّ مرتبت اور عظمت کے باوجود ہر چھوٹے بڑے کا لحاظ رکھتے تھے۔سلام کرنے میں ہمیشہ سبقت فرماتے تھے۔کمزوروں اور مسکینوں کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آتے۔لیکن اگر کوئی بادشاہ یا حاکم آجاتا توآپ مطلقاً تعظیم نہ فرماتے اور نہ ہی ساری عمر کسی بادشاہ یا وزیر کے دروازے پر گئے، نہ عطیات قبول کئے۔مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ مروت سے پیش آتے۔سچائی اور حق گوئی کادامن کبھی نہیں چھوڑا خواہ کتنے ہی خطرات کیوں نہ درپیش ہوتے، مگر سچ کہنے سے کبھی بھی چوکتے نہیں تھے۔ حاکموں کے سامنے بھی حق بات کہتے تھے اور کسی کی ناراضگی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ بلکہ مصلحت و خوف کو پاس تک بھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ آپ معروف کا حکم دیتے اور منکرات سے روکتے تھے۔آپ کے اعلائے کلمۃ الحق نے سلاطین اور امراء کے محلات میں زلزلہ ڈال دیا تھا۔حضور پرنور سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ مجسمہ ایثاروسخاوت تھے۔دریا دلی کا یہ عالم تھاکہ جوکچھ پاس ہوتاسب غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم فرمادیتے ۔
عفو و کرم کے پیکر جمیل تھے ۔ کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے اور فوراً امداد پر کمر بستہ ہوجاتے، مگر خود اپنے معاملے میں کبھی بھی غصہ نہیں آتا۔لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے۔نہایت رقیق القلب تھے۔حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ باتفاق علماء واولیاء مادرزاد یعنی پیدائشی ولی تھے۔ مناقب غوثیہ میں شیخ شہاب الدین سہروردی سے منقول ہے :کہ سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی ولادت کے وقت غیب سے پانچ عظیم الشان کرامتوں کا ظہور ہوا ۔
اوّل : شب ولادت آپ رضی اللہ عنہ کے والد سیّد ابو صالح نے خواب میں دیکھا کہ آقائے دو جہاں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ہیں ارشاد فرماہے ہیں : اے ابو صالح ! اللہ تعالیٰ نے تجھے فرزند عطا کیا ہے وہ میرا محبوب ہے اور خدا پاک و برتر کا محبوب ہےاور تمام اولیاء و اقطاب میں اس کامرتبہ بلند ہے ۔
دوئم : جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے شانہ مبارک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدم مبارک کا نقش موجود تھا، جو آپ رضی اللہ عنہ کے ولی ہونے کی دلیل ہے ۔
سوئم : آپ کے والدین کو اللہ تعالیٰ نے عالم خواب میں بشارت دی کہ جو لڑکا تمہارے ہاں پیدا ہوا ہے سلطانِ الاولیا ہوگا ۔
چہارم : آپ کی ولادت کی شب صوبہ گیلان میں تقریباً گیارہ صد لڑکے پیدا ہوئے جو سب کے سب مرتبہ ولایت پر فائز ہوئے ۔ اس رات تمام علاقہ گیلان میں کوئی لڑکی پیدا نہیں ہوئی ۔
پنجم : یہ کہ آپ رمضان المبارک کے مہینہ کی چاند رات کو پیدا ہوئے۔ دن کے وقت مطلق دودھ نہیں پیتے تھے البتہ افطار سے لے کر سحری تک والدہ ماجدہ کا دودھ پیتے تھے۔ ولادت کے دوسرے سال ابر (بادل) کی وجہ سے رویت ہلال کے متعلق کچھ شبہ پڑگیا تھا لیکن جب وقت سحرکے بعد جناب غوث الاعظم نے والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا تو آپ کی والدہ سمجھ گئیں کہ آج رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے انہوں نے لوگوں کو یہ خبر سنائی اور بعد میں معتبر شہادتوں سے اس قیاس کی تصدیق بھی ہو گئی ۔
جائے ولادت : حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مولد مبارک اکثر روایات کے مطابق قصبہ نیف علاقہ گیلان بلاد فارس ہے۔ عربی میں گیلان کے ’’گ‘‘ کو بدل کر جیلان لکھا جاتا ہے۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کو گیلانی یا جیلانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی قصیدہ غوثیہ میں اپنے آپ کو جیلی فرمایا ہے ۔ فرماتے ہیں : ⬇
انا الجيلی محی الدين اسمی
واعلامی علی راس الجبال
حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا سن ولادت و وصال : ⬇
حضرت قدس سرہ العزیز کی ولادت باسعادت کے متعلق تمام تذکرہ نویسوں اور سوانح نگاروں بلکہ جملہ محققین نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ آپ کی ولادت ملک ایران کے صوبہ طبرستان کے علاقہ گیلان (جیلان) کے نیف نامی قصبہ میں میں گیارہ ربیع الثانی 470 ھجری کو سادات حسنی و حسینی کے ایک خاندان میں ہوئی ۔ اس وجہ سے آپ گیلانی یا جیلانی کے لقب سے معروف ہوئے اور بغداد شریف میں گیارہ ربیع الثانی 561 کو 91 سال کی عمر پاکر واصل بحق ہوئے ۔
زمانۂ رضاعت
سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ مادر زاد ولی تھے۔ شب ولادت کی صبح رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کو اپنے جلو میں لئے ہوئے تھی گویا یکم رمضان المبارک اس دنیائے رنگ و بو میں آپ کی آمد کا پہلا دن تھا۔ حضرت نے روز اول ہی روزہ رکھ کر ثابت کردیا کہ آپ جن صلاحیتوں سے بہرہ مند تھے ان کی سعادت کسبی نہیں وہبی تھی۔ پورے رمضان شریف میں یہ حالت رہی کہ دن بھر دودھ نہیں پیتے تھے۔ جس وقت افطار کا وقت ہوتا دودھ لے لیتے۔ نہ وہ عام بچوں کی طرح روتے چلاتے تھے اور نہ کبھی ان کی طرف سے دودھ کے لئے بے چینی کا اظہار کرتے۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خود بھی ایک شعر میں اپنے زمانہ رضاعت کے روزوں کا ذکر کیا ہے : ⬇
بداية امری ذکره ملاء الفضا
وصومی في مهدی به کان
’’میرے زمانہ طفولیت کے حالات کا ایک زمانہ میں چرچا ہے اور گہوارہ میں روزہ رکھنا مشہور ہے‘‘۔
آغاز تعلیم
جیلان میں ایک مقامی مکتب تھا ۔ جب حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اس مکتب میں بٹھا دیا ۔ حضرت کی ابتدائی تعلیم اسی مکتب مبارک میں ہوئی۔ دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم میں کافی دسترس ہو گئی ۔ (تذکرہ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ طالب ہاشمی صفحہ 35 ، 36)
اعلیٰ تعلیم کا حصول
حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ 488 ھجری میں 18 سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے بغداد شریف لائے تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے راہ طریقت کی تلاش میں مسند تدریس سے علیحدگی اختیار کی اور بغداد کو خیر باد کہا ۔ گویا مشیت ایزدی یہ تھی کہ ایک سر بر آور دہ علمی شخصیت نے بغداد کو چھوڑا ہے تو نعم البدل کے طور پر بغداد کی سر زمین کو ایک دوسری نادر روزگار ہستی کے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمادیا جائے ۔ بغداد میں پہنچنے کے چند دن بعد سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہو گئے ۔ یہ مدرسہ دنیائے اسلام کا مرکز علوم و فنون تھا اور بڑے بڑے نامور اساتذہ اور آئمہ فن اس سے متعلق تھے ۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف اس جوئے علم سے خوب خوب سیراب ہوئے بلکہ مدرسہ کے اوقات سے فراغت پاکر اس دور کے دوسرے علماء سے بھی خوب استفادہ کیا ۔
علم قرات ، علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم لغت ، علم شریعت ، علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہو۔ غرض آٹھ سال کی طویل مدت میں آپ تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور جب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ماہ ذی الحجہ 496 ھجری میں ان علوم میں تکمیل کی سند حاصل کی تو کرہ ارض پر کوئی ایسا عالم نہیں تھا جو آپ کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے ۔ سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے عمر بھر دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا بھرپور کام کیا ۔ آپ علم کو اپنے مرتبہ کی بلندی کا راز گردانتے آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ⬇
درست العلم حتی صرت قطبا
ونلت السعد من مولی الموالی
ترجمہ : میں علم پڑھتے پڑھتے قطبیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گیا اور تائید ایزدی سے میں نے ابدی سعادت کو پالیا ۔
مسند تدریس
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی اپنے جدِّ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان : تعلموا العلم وعلموا الناس ۔ علم پڑھو اور لوگوں کو پڑھائو سے عبارت تھی ۔ تصوف و ولایت کے مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے اور خلقِ خدا کی اصلاح و تربیت کی مشغولیت کے باوصف آپ نے درس و تدریس اور کارِ افتاء سے پہلو تہی نہ کی ۔
آپ تیرہ مختلف علوم کا درس دیتے اور اس کےلیے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا ۔ اگلے اور پچھلے پہر تفسیر، حدیث، فقہ، مذاہب اربعہ، اصول اور نحو کے اسباق ہوتے۔ ظہر کے بعد تجوید و قرات کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم ہوتی۔ مزید برآں افتاء کی مشغولیت تھی ۔
شیخ موفق الدین ابن قدامہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے تدریسی انہماک کا حال یوں بیان کرتے ہیں : ہم 561ھ میں بغداد حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو علم، عمل اور فتویٰ نویسی کی اقلیم کی حکمرانی حاصل تھی۔ آپ کی ذات میں متعدد علوم ودیعت کئے گئے تھے۔ علم حاصل کرنے والوں پر آپ کی شفقت کے باعث کسی طالب علم کا آپ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اتباع شریعت
سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے تمام زندگی اپنے نانا جان حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں بسر کی ۔ آپ جاہل صوفیوں اور نام نہاد پیروں کی طرح طریقت و شریعت کو جدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی نظر میں راہ تصوف و طریقت کےلیے شریعت محمدیہ پر گامزن ہونا ضروری ہے، بغیر اس کے کوئی چارہ کار نہیں۔ سچ یہ ہے کہ آپ کی ذات بابرکات شریعت و طریقت کی مجمع البحرین ہے ۔
مسند وعظ و ارشاد
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس اور وعظ و ارشاد کی مسند کو زینت بخشی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ستر ستر ہزار افراد کا مجمع ہوتا۔ ہفتہ میں تین بار، جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح کو وعظ فرماتے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے۔ بادشاہ، وزراء اور اعیان مملکت نیاز مندانہ حاضر ہوتے۔ علماء و فقہاء کا جم غفیر ہوتا۔ بیک وقت چار چار سو علماء قلم دوات لے کر آپ کے ارشادات عالیہ قلم بند کرتے ۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : حضرت شیخ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی جس میں یہودی، عیسائی اور دیگر غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور جرائم پیشہ، بدکردار، ڈاکو، بدعتی، بد مذہب اور فاسد عقائد رکھنے والے تائب نہ ہوتے ہوں ۔
تمام مے کدہ سیراب کردیا جس نے
وہ چشم یار تھی، جام شراب تھا، کیا تھا ؟
آپ رضی اللہ عنہ کے مواعظ حسنہ توحید، قضا و قدر، توکل، عمل صالح، تقویٰ و طہارت، ورع، جہاد، توبہ، استغفار، اخلاص، خوف و رجاء، شکر، تواضع، صدق وراستی، زہد و استغنا، صبرو رضا، مجاہدہ، اتباع شریعت کی تعلیمات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آئینہ دار ہوتے ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حکمرانوں کو بلاخوف خطر تنبیہ فرماتے ۔ علامہ محمد بن یحییٰ حلبی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : ⬇
آپ رحمۃ اللہ علیہ خلفاء و وزراء، سلاطین، عدلیہ اور خواص و عوام سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرماتے اور بڑی حکمت و جرات کے ساتھ بھرے مجمع اور کھلی محافل و مجالس میں برسر منبر علی الاعلان ٹوک دیتے۔ جو شخص کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ملامت کی پرواہ نہ کرتے۔ (سفرِ محبت صفحہ 62 تا 64،چشتی)
سلسلہ
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات و افکارکی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مسلم دنیا میں غوثِ اعظم دستگیر کاخطاب دیا گیا ہے ۔
بچپن کے ایام
تمام علماء و اولیاء اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مادرزاد یعنی پیدائشی ولی ہیں ۔ آپ کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ آپ ماہِ رمضان المبارک میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کبھی بھی دودھ نہیں پیتے تھے اور یہ بات گیلان میں بہت مشہور تھی کہ ’’سادات کے گھر انے میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں دن بھر دودھ نہیں پیتا ۔
بچپن میں عام طور سے بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے لہو و لہب سے دور رہے ۔ آپ کا ارشاد ہے کہ : جب بھی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو میں سنتا تھا کہ کوئی کہنے والا مجھ سے کہتا تھا اے برکت والے ، میری طرف آ جا ۔
ولایت کا علم
ایک مرتبہ بعض لوگوں نے سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کو ولایت کا علم کب ہوا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دس برس کی عمر میں جب میں مکتب میں پڑھنے کےلیے جاتا تو ایک غیبی آواز آیا کرتی تھی جس کو تمام اہلِ مکتب بھی سْنا کرتے تھے کہ ’’اللہ کے ولی کےلیے جگہ کشادہ کر دو‘‘۔
پرورش وتحصیلِ علم
آپ کے والد کے انتقال کے بعد ،آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور آپ کے نانا نے کی۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہء نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور یوں آپ کا شجرہء نسب حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے ۔ اٹھارہ (18) سال کی عمر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیلِ علم کےلیے بغداد (1095ء) تشریف لے گئے ۔ جہاں آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی، علم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیرکےلیے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے ۔
ریاضت و مجاہدات
تحصیلِ علم کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بغدادشہر کو چھوڑا اور عراق کے صحراؤں اور جنگلوں میں 25 سال تک سخت عبادت و ریاضت کی ۔
1127ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ بغداد میں سکونت اختیار کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت و نیک نامی بغداد اور پھر دور دور تک پھیل گئی۔ 40 سال تک آپ نے اسلا م کی تبلیغی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیا۔ نتیجتاً ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس سلسلہ تبلیغ کو مزید وسیع کرنے کے لئے دور دراز وفود کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ خود سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام کےلیے دور دراز کے سفر کیے اور برِصغیر تک تشریف لے گئے اور ملتان (پاکستان) میں بھی قیام پذیر ہوئے ۔
حلیہ مبارک : جسم نحیف، قد متوسط، رنگ گندمی، آواز بلند، سینہ کشادہ، ڈاڑھی لمبی چوڑی، چہرہ خوبصورت، سر بڑا، بھنوئیں ملی ہوئی تھیں ۔
فرموداتِ غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
اے انسان! اگر تجھے محد سے لے کر لحد تک کی زندگی دی جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت و ریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام بسا لے تو ربِ تعالٰی کی عزت و جلال کی قسم یہ ممکن نہیں، اْس وقت تک کہ جب تک تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت وصحبت میسر نہ آجائے۔
اہلِ دل کی صحبت اختیار کر تاکہ تو بھی صاحبِ دل ہو جائے۔
میرا مرید وہ ہے جو اللہ کا ذاکر ہے اور ذاکر میں اْس کو مانتا ہوں، جس کا دل اللہ کا ذکر کرے۔
القاباتِ غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
غوثِ اعظم
پیران ِ پیر دستگیر
محی الدین
شیخ الشیوخ
سلطان الاولیاء
سردارِ اولیاء
قطب ِ ربانی
محبوبِ سبحانی
قندیل ِ لامکانی
میر محی الدین
امام الاولیاء
السید السند
قطب اوحد
شیخ الاسلام
زعیم العلماء
سلطان الاولیاء
قطب بغداد
بازِ اشہب
ابوصالح
حسنی اَباً
حسینی اْماً
حنبلی مذہبا ً
علمی خدمات : حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے طالبین ِ حق کےلیے گرانقدر کتابیں تحریرکیں، ان میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں : ⬇
الفتح الربانی والفیض ِ الرحمانی
ملفوظات
فتوح الغیب
جلاء الخاطر
ورد الشیخ عبدالقادر الجیلانی
بہجۃ الاسرار
آدابِ سلوک و التوصل الیٰ منازلِ سلوک
سیرت غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
بیشک خالقِ کائنات اللہ رب العالمین نے اِنس وجن کی رشد و ہدایت کےلیے مختلف وقتوں اور خطوں میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و مرسلین کو مبعوث فرمایا۔ہرنبی ورسول اللہ تعالی کی علیحدہ علیحدہ صفتوں کے مظہر بن کر آئے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنی کْل صفات ہی نہیں بلکہ ذات کا بھی مظہر بناکر اپنے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعْوث فرمایا تو مظہر ذات کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہ رہی باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا تو رْشدوہدایت اور احیا دین و ملت کےلیے مظہر ذات خدامحبوب رب العلیٰ نے غیبی خبر دی کہ ’’ ہر صدی کے اختتام پر ایک مجدد پیدا ہوگا ۔ (مشکوٰۃشریف) نیز فرمایاکہ ’’ اللہ کے نیک بندے دین کی محافظت کرتے رہیں گے ‘‘ (سنن ابوداود) حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ’’ علمائے دین بارش نبوت کا تالاب ہیں‘‘ ۔ (مشکوٰۃ شریف) نیز فرمایا کہ ’’چالیس ابدال (اولیا) کی برکت سے بارش اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوگی اور اِنہیں کے طفیل اہلِ شام سے عذاب دور رہے گا ۔ (مشکوۃشریف) آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’علماء کی زندگی کے لئے مچھلیاں دْعاکرتی ہیں‘‘ ۔ (مشکوٰۃ شریف) نیز فرمایا کہ ’’میری اْمت میں ہمیشہ تین سو اولیاء حضرت آدم علیہ السالم کے نقش ِ قدم پر رہیں گے اور چالیس حضرت موسیٰ علیہ السلام و سات حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پر ہونگے اور پانچ وہ رہیں گے کہ جن کا قلب حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرح ہوگا اور تین حضرت میکائیل علیہ السلام کے قلب پر اور ایک حضرت اِسرافیل کے قلب پر رہے گا جب اِس ایک کا انتقال ہوگا تو اِن تین میں سے کوئی قائم ہوگا اور اِن تین کی کمی پانچ میں سے اور پانچ کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی تین سو سے اور تین سو کی کمی عالم مسلمانوں سے پوری کردی جاتی ہے‘‘۔ (مرقاۃ ملاعلی قاری)
علما حق فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ رحمتیں دینے والا، سیدالانبیا رحمت عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے اور اْولیا و علما اِس کا ذریعہ ہیں ‘‘اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے ملت مصطفویہ کے سامنے علما و مشائخ نے ایک خوبصورت اور زریں اْصول یہ پیش کردیاہے بارگاہِ ربوبیت تک رسائی آقائے دوجہاں سیدعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اور بارگاہِ سرور ِ کائنات تک رسائی اْولیا اللہ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اِن اولیا اللہ کی صف ِ اول میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل ہیں اِن کے بعد تابعین، ائمہ مجتھدین، ائمہ شریعت وطریقت کے علاوہ صوفیاء اتقیاء اور دیگر اولیاء بھی شامل ہیں۔ اولیا کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن اِس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ علم و فضل، کشف و کرامات، مجاہدات وتصرفات اور حسب ونسب کی بعض خصوصیات کی وجہ سے حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو اولیاء کی جماعت میں جو خصوصی امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ یہ واضح رہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو جب ہم ولیوں کا تاجدار کہتے ہیں تو یہاں ولیوں کے عموم میں صحابہ کی جماعت کو شامل نہیں کرناچاہئے خالقِ کائنات اللہ رب العزت جن خوش نصیب بندوں کو مقام ولایت عطا فرماتا ہے اْن کی ولایت کو کبھی زائل نہیں فرماتا۔آپ غوث اعظم، غوث الثقلین، امام الطرفین، رئیس الاتقیائ، تاج الاصفیا، قطبِ ربانی، شہبازلامکانی، محی الملت والدین، فخرشریعت وطریقت، ناصرسْنت، عماد حقیقت، قاطع بدعت، سیدوالزاہدین، رھبرِ عابدین، کاشف الحائق، قطب الاقطاب، غوث صمدانی، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اْم الخیر رحمۃ اللہ علیہا بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اِس قدر احترام تھا کہ حضرت غوث اعظم رمضان میں دن بھر میں کبھی دودھ نہیں پیتے تھے۔ ایک مرتبہ اَبر کے باعث 29شعبان کو چاند کی رؤیت نہ ہوسکی لوگ تردوّمیں تھے لیکن اِس مادر زادولی حضرت غوث اعظم نے صبح کو دودھ نہیں پیا۔ بالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہواکہ آج یکم رمضان المبارک ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ کے پورے عہدِ رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودہ پیتے رہتے تھے لیکن جوں ہی رمضان شریف کا مبارک مہینہ آپ کایہ معمول رہتاتھا کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک قطعاََ دودہ نہیں پیتے تھے۔خواہ کتنی ہی دودہ پلانیکی کوشش کی جاتی یعنی رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ دن میں روزہ سے رہتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطارکرتے توآپ بھی دودہ پینے لگتے تھے۔ ابتدا ہی سے خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی نوازشات سرکارغوث اعظم کی جانب متوجہ تھیں پھر کیوں کوئی آپ کے مرتبہ فلک کو چھوسکتا یا اِس کااندازہ کرسکے چنانچہ سرکارِ غوث اعظم اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی دور میںجب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتاتو غیب سے آواز آتی تھی کہ لہو و لعب سے بازرہو۔جِسے سْن کر میں رُک جایا کرتا تھا اور اپنے گرد و پیش جو نظر ڈالتا تو مجھے کوئی آواز دینے والا نہ دِکھائی دیتا تھا جس سے مجھے دہشت سی معلوم ہوتی اور میں جلدی سے بھاگتا ہوا گھر آتا اور والدہ محترمہ کی آغوش محبت میں چھپ جاتا تھا ۔
اَب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سُنا کرتا ہوں اگر مجھ کو کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آکر کے مجھے متنبہ کر دیتی ہے کہ تم کو اِس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ تم سویا کرو ۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن کے زمانے میں غیر آبادی میں کھیل رہاتھا کہ ایک گائے کی دم پکڑ کر کھینچ لی فوراََاِس نے کلام کیا اے عبدالقادر! تم اِس غرض سے دنیا میں نہیں بھیجے گئے ہو تو میںنے اِسے چھوڑ دیا اور دل کے اْوپرایک ہیبت سی طاری ہوگئی۔ مشہور روایت ہے کہ جب سیدناسرکار غوث اعظم کی عمر شریف چارسال کی ہوئی تو رسم ورواج ِاسلامی کے مطابق والد محترم سیدنا شیخ ابوصالح رحمۃ اللہ علیہ جن کا لقب’’ جنگی دوست ‘‘ ہے اِس کی وجہ سے ’’قلائدالجواہر‘‘ میں بتائی گئی ہے کہ آپ جنگ کو دوست رکھتے تھے ریاض الحیات میں اِس لقب کی تشریح یہ بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہاد فرماتے تھے اور نفس کشی کو تزکیہ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ وہ آپ کو رسم بسم اللہ خوانی کی ادائیگی اور مکتب میں داخل کرنے کی غرض سے لے گئے اور اْستاد کے سامنے آپ دوزانوں ہوکر بیٹھ گئے اْستاد نے کہا! پڑھو بیٹے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آپ نے بسم اللہ شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ الم سے لے کر مکمل اٹھارہ 18 پارے زبانی پڑھ ڈالے۔ استاد نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ یہ تم نے کب پڑھا....؟ اور کیسے پڑھا...؟ تو آپ نے فرمایا کہ والدہ ماجدہ اٹھارہ سِپاروں کی حافظہ ہیں جن کا وہ اکثر وردکیاکرتی تھیں جب میں شکمِ مادر میں تھا تو یہ اٹھارہ سپارے سْنتے سْنتے مجھے بھی یاد ہو گئے تھے (یہ شان ہوتی ہے اللہ کے ولیوں کی حضور غوث اعظم آج سے کئی صدیوں قبل ہی اِس حقیقت کومن وعن سچ ثابت کر چکے ہیں کہ دورانِ حمل ماں جوکچھ بھی سوچ رہی ہوتی ہے اورپڑھ رہی ہوتی ہے تو اْس کااثر دونوں ہی صورتوں میں شکمِ مادر میں رہنے (پلنے) والے بچے پر ضرور پڑ رہا ہوتاہے اور آج چاند کو چھولینے اور اِس پر چہل قدمی کرنے کی دعویدار 21 اکیسویں صدی کی جدید سائنسی دنیا کے یورپ اور امریکا کے سائنسدان اپنی تحقیقوں سے یہ بتاتے پھر رہے ہیں کہ سائنس نے یہ ایک نئی تحقیق کرلی ہے کہ دورانِ حمل ماں جو کچھ بھی منفی یامثبت سوچ رکھتی ہے اِس کا اَثر آئندہ آنے والے بچے کی زندگی پر پڑتا ہے یہ بات سائنس نے آج دریافت کی ہے، جبکہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے صدیوں قبل اِس کا عملی ثبوت دنیاکے سامنے خود پیش کر دیا تھا اِس سے ہم اْمت مسلمہ کو فخرہوناچاہئے کہ موجودہ دنیا کی کوئی ترقی قرآن و سنت اور تعلیمات اسلامی کے دائرہ کار سے باہرنہیں ہوسکتی ۔(چشتی)
اور یوں آپ نے اپنے وطن جیلان ہی میں باضابطہ طور پر قرآن کریم ختم کیااور چند دوسری دینی کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں۔ حضرت غوث اعظم نے حضرت شیخ حماد بن مسلم ہی سے قرآن مجید فرقانِ حمید حفظ کیا اور برسوں خدمتِ حمادیہ میں رہ کر آپ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے۔ سرکارغوث اعظم نے528سنہ ھ میں درس گاہ کی تعمیر جدید سے فراغت پائی اور مختلف اطراف وجوانب کے لوگ آپ سے شرف تلمذ حاصل کرکے علوم دینیہ سے مالامال ہونے لگے آپ کی بزرگی وولادیت اِسقدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے غوث اعظم ہونے پر تمام اْمت کا اتفاق ہے حضرت کے سوانح نگار فرماتے ہیں کہ’’کسی ولی کی کرامتیں اِسقدار تواتر اور تفاصیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر حضرت غوث الثقلین کی کرامتیں تواتر سے منقول ہیں(نزہۃ الخاطر)۔خلق خدامیں آپ کی مقبولیت ایسی رہی ہے کہ اکبرواصاغرسب ہی عالم استعجاب میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ مشرق یا مغرب ہرایک غوث اعظم کا مداح اور آپ کے فیض کا حاجت مند نظرآتاہے۔ مقبولیت وہردلعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان شیریں بیانی اور کلام و وعظ میں اَثر آفرینی بھی حیران کن تھی۔اِسے آپ یوںبھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حیات مقدس کاایک ایک لمحہ کرامت ہے اور آپ کے علمی کمال کا تویہ حال تھاکہ جب بغدادمیں آپ کی مجالس وعظ میں ستر، ستر (70,70) ہزار سامعین کا مجمع ہونے لگا تو بعض عالموں کو حسدہونے لگاکہ ایک عجمی گیلان کا رہنے والا اِسقدر مقبولیت حاصل کرگیاہے۔
چنانچہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمدبغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن الجوزی جو دونوں اپنے وقت میں علم کے سمندر اور حدیثوں کے پہاڑ شمار کئے جاتے تھے آپ کی مجلس وعظ میں بغرض امتحان حاضرہوئے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے جب حضور غوث اعظم نے وعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے۔ پہلی تفسیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے کودیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردنیں ہلادیں۔ اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کراپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب حضور غوث اعظم نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تفسیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا منہ مبارک تکنے لگے اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بنے سنتے اور سردھنتے رہے پھر آخر میں آپ نے فرمایاکہ اب ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیں پھر بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مجلس میں ایک جوش کی کیفیت اور اضطراب پیداہوگیا اور علامہ ابن الجوشی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے ۔ (بہجتہ الاسرار) بغیر کسی مادی وسیلہ (یعنی ساؤنڈ سسٹم کے بغیر) ستر ہزار کے مجمع تک اپنی آواز پہنچانااور سب کا یکساں انداز میں سماعت کرنا آپ کی ایسی کرامت ہے جو روزانہ ظاہرہوتی رہتی تھی۔
سیدناعوث اعظم کے سوانح وحالات رقم کرنے والے تمام مصنفین وتذکرہ نگاروں کا اِس پر اتفاق ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے ایک مرتبہ بہت بڑی مجلس میں (کہ جس میں اپنے دور کے اقطاب وابدال اور بہت بڑی تعداد میں اولیاء وصلحاء بھی موجودتھے جبکہ عام لوگوں کی بھی ایک اچھی خاصی ہزاروں میں تعداد موجود تھی) دورانِ وعظ اپنی غوثیت کبریٰ کی شان کا اِس طرح اظہار فرمایا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله ۔
ترجمہ : میرایہ قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر ہے ‘‘ تو مجلس میں موجود تمام اولیاء نے اپنی گردنوں کو جھکا دیا اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے اولیاء نے کشف کے ذریعے آپ کے اعلان کو سنا اور اپنے اپنے مقام پر اپنی گردنیں خم کردیں ۔ حضرت خواجہ شیخ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے گردن خم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آقا آپ کا قدم میری گردن پر بھی اور میرے سر پر بھی‘‘ ۔ (اخبار الاخيار، شمائم امدادية، سفينة اوليا، قلائدالجواهرِ، نزهته الخاطر، فتاویٰ افريقه کرامات غوثيہ اعلی حضرت)
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ کا اکثر و بیشتر حصہ بغداد مقدس میں گزرا اور وہیں پر آپ کا وصال ہوا اور وہیں پر ہی آپ کا مزار مبارک ہے جس کے گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمالِ عقیدت کے ساتھ طوافِ زیارت کیا کرتے ہیں اور فیوض و برکات سمیٹتے ہیں ۔
حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ” ابو محمد “اور القابات” محی الدین ، محبوب سبحانی ، غوث الثقلین ، غوث الاعظم ” ہیں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ ٤٧٠ ھ میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور ٥٦١ ھ میں بغداد شریف ہی میں وصال فرمایا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار پر انوار عراق کے مشہور شہر بغداد میں ہے ۔ (بہجۃ الاسرار و معدن الانوار ذکرنسبہ و صفتہ صفحہ ۱۷۱)(الطبقات الکبرٰی للشعرانی ابو صالح سیدی عبدالقادر الجیلی جلد ۱ صفحہ ۱۷۸)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان صالحین کا گھرانا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نانا جان، دادا جان، والد ماجد، والدہ محترمہ ، پھوپھی جان ، بھائی اور صاحبزادگان سب متقی و پرہیزگار تھے ، اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدِ محترم حضرت ابوصالح سیّد موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ تھے ، آپ کا اسم گرامی “سیّد موسیٰ” کنیت “ابوصالح” اور لقب “جنگی دوست” تھا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ علیہم میں سے تھے ۔
جنگی دوست ” لقب کی وجہ : آپ رحمۃ اللہ علیہ کا لقب جنگی دوست اس لیے ہوا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ خالصۃً اللہ عزوجل کی رضا کےلیے نفس کشی اور ریاضت ِشرعی میں یکتائے زمانہ تھے ، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کےلیے مشہور تھے ، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے ، چنانچہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو توڑ دیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفۂ وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف خلیفہ کو ابھارا ، تو خلیفہ نے کہا : سیّد موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ کو فوراً میرے دربارمیں پیش کرو ۔ چنانچہ حضرت سیّد موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ و غضب سے کرسی پر بیٹھا تھا، خلیفہ نے للکار کر کہا : آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کو رائیگاں کر دیا ؟ ” حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے ۔ خلیفہ نے کہا : آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر کیے گئے ہیں ؟ حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے رعب دار لہجہ میں جواب دیا : جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقّت طاری ہوئی کہ سر بزانو ہو گیا (یعنی گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا : حضور والا ! امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے ؟ حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر ۔ خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمتِ اقدس میں عرض گزار ہوا : عالیجاہ ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامور ہیں ۔ حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے متوکلانہ انداز میں فرمایا : جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں تو پھر مجھے خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے ۔ اُسی دن سے آپ “جنگی دوست” کے لقب سے مشہور ہو گئے ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۲،چشتی)
حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ناناجان حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ جیلان شریف کے مشائخ میں سے تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نہایت زاہد اور پرہیزگار ہونے کے علاوہ صاحب فضل و کمال بھی تھے ، بڑے بڑے مشائخ کرام رحمہم اللہ علیہم اجمعین سے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شرف ملاقات حاصل کیا ۔
ایک مرتبہ جیلان میں قحط سالی ہوگئی لوگوں نے نماز استسقاء پڑھی لیکن بارش نہ ہوئی تو لوگ آپ کی پھوپھی جان حضرت سیدہ اُم عائشہ رحمۃ اللہ علیہا کے گھر آئے اور آپ سے بارش کےلیے دعا کی درخواست کی وہ اپنے گھر کے صحن کی طرف تشریف لائیں اور زمین پرجھاڑو دے کر دعا مانگی : اے رب العالمین ! میں نے تو جھاڑو دے دیا اور اب تو چھڑکاؤ فرما دے ۔ کچھ ہی دیر میں آسمان سے اس قدر بارش ہوئی جیسے مَشک کا منہ کھول دیا جائے ، لوگ اپنے گھروں کو ایسے حال میں لوٹے کہ تمام کے تمام پانی سے تر تھے اور جیلان خوشحال ہو گیا ۔ (بهجة الاسرار ذکر نسبه وصفته رحمة الله تعالیٰ عليه صفحہ ۱۷۳،چشتی)
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف “عوارف المعارف” میں تحریر فرماتے ہیں :
ایک شخص نے حضور سیدنا غوثُ الاعظم رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : یاسیدی ! آپ نے نکاح کیوں کیا ؟ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دوسرے کاموں میں خلل پیدا ہو جائے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ “ عبدالقادر ! تم نکاح کر لو ، اللہ عزوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے ۔ پھرجب یہ وقت آیا تو اللہ عزوجل نے مجھے چار بیویاں عطا فرمائیں ، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامل محبت رکھتی ہے ۔ (عوارف المعارف الباب الحادی و العشرون فی شرح حال المتجرد و المتاهل من الصوفية ۔ الخ صفحہ نمبر ۱۰۱،چشتی)
حضور سیدی غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بیویاں بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی کمالات سے فیض یاب تھیں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالجبار رحمۃ اللہ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ “ جب بھی والدہ محترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھیں ۔ ایک موقع پر میرے والد محترم رحمۃ اللہ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے ، جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اس روشنی پر پڑی تو وہ روشنی فوراً غائب ہو گئی ، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “ یہ شیطان تھا جو تیری خدمت کرتا تھا اسی لیے میں نے اسے ختم کر دیا ، اب میں اس روشنی کو رحمانی نورمیں تبدیل کیے دیتا ہوں ۔ اس کے بعد والدہ محترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نور ہوتا جو چاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا ۔ (بهجة الاسرار و معدن الانوار ذکر فضل اصحابه ۔ الخ صفحہ ۱۹۶،چشتی)
محبوبِ سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کی رات مشاہدہ فرمایا کہ نبی کریم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم بمع صحابہ کرام آئمۃ الہدیٰ اور اولیاء عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اِن کے گھر جلوہ افروز ہیں اوران الفاظ مبارکہ سے ان کو خطاب فرما کر بشارت سے نوازا : يَا اَبَا صَالِح اَعْطَاكَ اللّٰهُ اِبْنًا وَ هُوَ وَلِيٌّ وَ مَحْبُوْبِيْ وَ مَحْبُوْبُ اللّٰهِ تَعَالٰی وَ سَيَکُوْنُ لَهٗ شَانٌ فِي الْاَوْلِيَآءِ وَ الْاَقْطَابِ کَشَانِيْ بَيْنَ الْاَنْبِيَاءِ وَ الرُّسُلِ ۔
ترجمہ : اے ابو صالح ! اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے اور وہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اَقطاب میں ویسی شان ہو گی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۵ بحواله تفريح الخاطر)
غوث اعظم درمیان اولیاء
چوں محمد درمیان انبیاء
حضرت ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے یہ بشارت دی کہ “ تمام اولیاء اللہ تمہارے فرزند ارجمند کے مطیع ہوں گے اور ان کی گردنوں پر ان کا قدم مبارک ہوگا ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۵ بحواله تفريح الخاطر)
جس کی منبر بنی گردن اولیاء
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں ہوئی اور پہلے دن ہی سے روزہ رکھا ۔ سحری سے لے کر افطاری تک آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی والدہ محترمہ کا دودھ نہ پیتے تھے ، چنانچہ سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ “ جب میرا فرزند ارجمند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں دن بھر دودھ نہ پیتا تھا ۔ (بهجة الاسرار و معدن الانوار ذکر نسبه وصفته رضي الله تعاليٰ عنه صفحہ ۱۷۲،چشتی)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا ام الخیر فاطمہ بنت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہما فرمایا کرتی تھیں : جب میں نے اپنے صاحبزادے عبدالقادر کو جنا تو وہ رمضان المبارک میں دن کے وقت میرا دودھ نہیں پیتا تھا اگلے سال رمضان کا چاند غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا تو لوگ میرے پاس دریافت کرنے کےلیے آئے تو میں نے کہا کہ “ میرے بچے نے دودھ نہیں پیا ۔ پھر معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہے اور ہمارے شہر میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ سیّدوں میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتا ۔ (بهجة الاسرار ذکر نسبه وصفته رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۷۲)
شیخ محمد بن قائدا لأوانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ہم سے فرمایا کہ “ حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا : يَاعَبْدَالْقَادِرِمَا لِهٰذَا خُلِقْتَ ، یعنی اے عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ تم کو اس قسم کے کاموں کےلیے تو پیدا نہیں کیا گیا ۔ میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدانِ عرفات میں لوگ کھڑے ہیں ، اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : آپ رحمۃ اللہ علیہ مجھے راہِ خدا عزوجل میں وقف فرما دیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں ۔ والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کر دیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ۸۰ دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے ۴۰ دینار لے لیے اور ۴۰ دینار اپنے بھائی سید ابو احمد رحمۃ اللہ علیہ کےلیے چھوڑ دیے ، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہا نے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کےلیے تشریف لائیں اور فرمایا : اے میرے پیارے بیٹے ! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا ۔(بهجة الاسرار ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۶۷،چشتی)
آپ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا : آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا ؟ ارشاد فرمایا کہ “ میری عمر دس برس کی تھی میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کےلیے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ ” اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کےلیے جگہ فراخ کر دو ۔ (بهجة الاسرار ذکر کلمات اخبر بھا ۔ الخ صفحہ ۴۸)
حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ہم ۵۶۱ ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم ، عمل اور حال و فتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے ، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لیے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میں تمام علوم جمع ہیں اور جو آپ رحمۃ اللہ علیہ سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کے پڑھانے میں صبر فرماتے تھے ، آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے ، اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرما دیے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۲۵،چشتی)
امام ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی اور شیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمہم اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ : حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے ۔ ایک جگہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے تفسیر ، حدیث ، فقہ اور علم الکلام پڑھتے تھے ، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کو تفسیر ، حدیث ، فقہ ، کلام ، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه وتسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۲۵)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ “ ایک روز کسی قاری نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنیٰ پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیے اور پھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی ، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے ۔ (اخبارالاخيار صفحہ ۱۱)
بلادِ عجم سے ایک سوال آیا کہ “ ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کرے گا کہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کر رہا ہو ، اگر وہ ایسا نہ کر سکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی ، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہیے ؟ اس سوال سے علماء عراق حیران اور ششدر رہ گئے ۔ اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ “ وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لیے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کر کے اپنی قسم کو پورا کرے ۔ اس شافی جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہو گئے تھے ۔ (اخبارالاخيار)
حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضر رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اور سمندر کے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے صدر ہیں ، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضور غوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کے عمامہ شریف پر تین طرے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے) ہیں ۔ میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھا اور اسی حالت میں جب میں بیدار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ’’ خضر ! ایک طُرّہ علمِ شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علمِ حقیقت کی شرافت کا اور تیسرا شرف و مرتبہ کا طُرّہ ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعالیٰ عليه صفحہ ۲۲۶،چشتی)
حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ بقا بن بطو کے ساتھ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے روضۂِ اقدس کی زیارت کی ، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ قبر سے باہر تشریف لائے اور حضور سیدی غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے سینے سے لگا لیا اور انہیں خلعت پہنا کر ارشاد فرمایا : اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں علم شریعت ، علم حقیقت ، علم حال اور فعلِ حال میں تمہارا محتاج ہوں ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۲۶،چشتی)
حضرت قطبِ ربانی شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ثابت قدمی کا خود اس انداز میں تذکرہ فرمایا ہے کہ “ میں نے (راہِ خدا عزوجل میں) بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا ۔ (قلائد الجواهر صفحہ ۱۰)
حضرت شیخ عثمان الصریفینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے شہنشاہِ بغداد رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک سے سنا کہ ’’ میں شب و روز بیابانوں اور ویران جنگلوں میں رہا کرتا تھا میرے پاس شیاطین مسلح ہو کر ہیبت ناک شکلوں میں قطار در قطار آتے اور مجھ سے مقابلہ کرتے ، مجھ پر آگ پھینکتے مگر میں اپنے دل میں بہت زیادہ ہمت اور طاقت محسوس کرتا اور غیب سے کوئی مجھے پکار کر کہتا : اے عبدالقادر اُٹھو ان کی طرف بڑھو ، مقابلہ میں ہم تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اور تمہاری مدد کریں گے ۔ پھر جب میں ان کی طرف بڑھتا تو وہ دائیں بائیں یا جدھر سے آتے اسی طرف بھاگ جاتے ، ان میں سے میرے پاس صرف ایک ہی شخص آتا اور ڈراتا اور مجھے کہتا کہ “ یہاں سے چلے جاؤ ۔ تو میں اسے ایک طمانچہ مارتا تو وہ بھاگتا نظر آتا پھر میں ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ ، پڑھتا تو وہ جل کر خاک ہو جاتا ۔ (بهجة الاسرار ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۶۵،چشتی)
مفتی عراق محی الدین شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی توحیدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ جلد رونے والے ، نہایت خوف والے ، باہیبت ، مستجاب الدعوات ، کریم الاخلاق ، خوشبودار پسینہ والے ، بُری باتوں سے دُور رہنے والے ، حق کی طرف لوگوں سے زیادہ قریب ہونے والے ، نفس پر قابو پانے والے ، انتقام نہ لینے والے ، سائل کو نہ جھڑکنے والے ، علم سے مہذب ہونے والے تھے، آداب شریعت آپ کے ظاہری اوصاف اور حقیقت آپ کا باطن تھا ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من شرائف اخلاقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۰۱،چشتی)
حضرت قطب شہیر سیدنا احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ ، جس میں سے چاہیں پانی لیں ، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی ثانی نہیں ۔ (بهجة الاسرار ذکراحترام المشائخ والعلماء له ثنايهم عليه صفحہ ۴۴۴)
حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی ، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرما کر دو رکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر طريقه رحمة الله تعالیٰ عليه صفحہ ۱۶۴)
حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ پندرہ سال تک رات بھر میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه ۔ الخ صفحہ ۱۱۸) ۔ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر روز ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے ۔ (تفريح الخاطر صفحہ ۳۶)
روزانہ رات کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کا دسترخوان بچھایا جاتا تھا جس پر آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مہمانوں کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے ، کمزوروں کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے ، بیماروں کی عیادت فرماتے ، طلب علم دین میں آنے والی تکالیف پر صبر کرتے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من شرائف اخلاقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۰۰،چشتی)
حضرت شیخ عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ ایک مرتبہ حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ’’ میرے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق کامل زیادہ فضیلت والے اعمال ہیں ۔ پھر ارشاد فرمایا : میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا ، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک پیسہ بھی نہ بچے (کہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کردوں اور بھوکے لوگوں کو کھانا کھلادوں) ۔ (قلائد الجواهر صفحہ ۸)
ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو کچھ مغموم اور افسردہ دیکھ کر پوچھا : تمہارا کیا حال ہے ؟ اس نے عرض کی ’’ حضور والا ! دریائے دجلہ کے پار جانا چاہتا تھا مگر ملاح نے بغیر کرایہ کے کشتی میں نہیں بٹھایا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔ اتنے میں ایک عقیدت مند نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر تیس دینار نذرانہ پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تیس دینار اس شخص کو دے کر فرمایا : جاؤ یہ تیس دینار اس ملاح کو دے دینا اور کہہ دینا کہ “ آئندہ وہ کسی غریب کو دریا عبور کرانے پر انکار نہ کرے ۔ (اخبار الاخيار صفحہ ۱۸)
حضرت بزاز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کرسی پر بیٹھے فرما رہے تھے کہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے عرض کیا : اے میرے نانا جان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک عجمی مرد ہوں ، بغداد میں فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : بیٹا ! اپنا منہ کھولو ۔ میں نے اپنا منہ کھولا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے منہ میں سات بار لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ ’’ لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ ۔ پھر میں نے نمازِ ظہر ادا کی اور بیٹھ گیا ، میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے ، اس کے بعد میں نے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالٰی وجھہ الکریم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’ اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے عرض کیا : اے میرے والد لوگ مجھ پر چلاتے ہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا : اے میرے فرزند اپنا منہ کھولو ۔ میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ بار لعاب ڈالا ، میں نے عرض کیا کہ ’’ آپ نے سات بار کیوں نہیں لعاب ڈالا ؟ تو انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے ۔ پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور میں نے یہ شعر پڑھا : ⬇
ترجمہ : (۱) فکر کا غوطہ زن دل کے سمندر میں معارف کے موتیوں کےلیے غوطہ لگاتا ہے پھر وہ ان کو سینے کے کنارہ کی طرف نکال لاتا ہے ۔
(۲) اس کی زبان کے ترجمان کا تاجر بولی دیتا ہے پھر وہ ایسے گھروں میں کہ اللہ عزوجل نے ان کی بلندی کا حکم دیا ہے جو طاعت کی عمدہ قیمتوں کے ساتھ خرید لیتا ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعا بشي من عجائب صفحہ ۵۸،چشتی)
حضرت غوثِ اعظم حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا پہلا بیان اجتماعِ برانیہ میں ماہ شوال المکرم ۵۲۱ ہجری میں عظیم الشان مجلس میں ہوا جس پر ہیبت و رونق چھائی ہوئی تھی اولیاء کرام اور فرشتوں نے اسے ڈھانپا ہوا تھا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب و سنت کی تصریح کے ساتھ لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف بلایا تو وہ سب اطاعت و فرمانبرداری کےلیے جلدی کرنے لگے ۔ (بهجة الاسرار ذکر وعظه صفحہ ۱۷۴)
حضرت سیدی غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندِ ارجمند سیدنا عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ۵۲۱ھ سے ۵۶۱ھ تک چالیس سال مخلوق کو وعظ و نصیحت فرمائی۔(بهجة الاسرار ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۴)
حضرت ابراہیم بن سعد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ جب ہمارے شیخ حضورِ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ عالموں والا لباس پہن کر اونچے مقام پر جلوہ افروز ہو کر بیان فرماتے تو لوگ آپ کے کلام مبارک کو بغور سنتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ۔ (بهجة الاسرار ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۹،چشتی)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس مبارک میں باوجود یہ کہ شرکاء اجتماع بہت زیادہ ہوتے تھے لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آواز مبارک جیسی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی ویسی ہی دُور والوں کو سنائی دیتی تھی یعنی دور اور نزدیک والوں کےلیے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آوازمبارک یکساں تھی ۔(بهجة الاسرار ذکرو عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۱)
آپ رحمۃ اللہ علیہ شرکاء اجتماع کے دلوں کے مطابق بیان فرماتے اور کشف کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہو جاتے جب آپ رحمۃ اللہ علیہ منبر پر کھڑے ہو جاتے تو آپ کے جلال کی وجہ سے لوگ بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور جب آپ رحمۃ اللہ علیہ اُن سے فرماتے کہ ’’ چپ رہو ۔ تو سب ایسے خاموش ہو جاتے کہ آپ کی ہیبت کی وجہ سے ان کی سانسوں کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہ دیتا ۔ (بهجة الاسرار ذکرو عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۱)
حضرت شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف میں کل اولیاء علیہم الرحمہ اور انبیاء کرام علیہم السلام جسمانی حیات اور ارواح کے ساتھ نیز جن اور ملائکہ تشریف فرما ہوتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی تربیت و تائید فرمانے کےلیے جلوہ افروز ہوتے تھے اور حضرت سیدنا خضر علیہ السلام تو اکثر اوقات مجلس شریف کے حاضرین میں شامل ہوتے تھے اور نہ صرف خود آتے بلکہ مشائخ زمانہ میں سے جس سے بھی آپ علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو ان کو بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہونے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ ’’ جس کو بھی فلاح و کامرانی کی خواہش ہو اس کو غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف کی ہمیشہ حاضری ضروری ہے ۔ (اخبار الاخيار صفحہ ۱۳،چشتی)
حضرت شیخ ابو زکریا یحییٰ بن ابی نصر صحراوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے ایک مرتبہ عمل کے ذریعے جنات کو بلایا تو انہوں نے کچھ زیادہ دیر کر دی پھر وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’ جب شیخ سید عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرما رہے ہوں تو اس وقت ہمیں بلانے کی کوشش نہ کیا کرو ۔ میں نے کہا وہ کیوں ؟ انہوں نے کہا کہ ’’ ہم غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں ۔ میں نے کہا : تم بھی ان کی مجلس میں جاتے ہو ۔ انہوں نے کہا : ہاں ! ہم مردوں میں کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ، ہمارے بہت سے گروہ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور ان سب نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر توبہ کی ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۰)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکو ، چور ، فساق و فجار ، فسادی اور گمراہ لوگوں نے توبہ کی ۔ (بهجة الاسرار ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۴،چشتی)
ایک بار حضرت سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ دریا کی طرف تشریف لے گئے وہاں ایک ۹۰ سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رو رہی تھی ، ایک مریدنے بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ علیہ میں عرض کیا : مرشدی اس ضعیفہ کا اکلوتا خوبرو بیٹا تھا ، بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کر کے دلہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لا رہا تھا کہ کشتی الٹ گئی اور دولہا دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی ، اس واقعہ کو آج بارہ سال گزر چکے ہیں مگر ماں کا جگر ہے ، بے چاری کا غم جاتا نہیں ہے ، یہ روزانہ یہا ں دریا پر آتی ہے اور بارات کونہ پا کر رو دھو کر چلی جاتی ہے ۔ حضورِ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو اس ضعیفہ پر بڑا ترس آیا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیے ، چند منٹ تک کچھ ظہور نہ ہوا ، بے تاب ہوکر بارگاہِ الٰہی عزوجل میں عرض کی : یااللہ عزوجل ! اس قدر تاخیر کی کیاوجہ ہے ؟ ارشاد ہوا : اے میرے پیارے ! یہ تاخیر خلافِ تقدیر نہیں ہے ، ہم چاہتے تو ایک حکمِ ’’کُنْ‘‘ سے تمام زمین و آسمان پیدا کر دیتے مگر بمقتضائے حکمت چھ دن میں پیدا کیے ، بارات کو ڈوبے ہوئے بارہ سال ہو چکے ہیں ، اب نہ وہ کشتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سواری ، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھا چکے ہیں ، ریزہ ریزہ کو اجزائے جسم میں اکٹھا کروا کر دوبارہ زندگی کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے اب ان کی آمد کاوقت ہے ۔ ابھی یہ کلام اختتام کو بھی نہ پہنچا تھا کہ یکایک وہ کشتی اپنے تمام تر ساز و سامان کے ساتھ بمع دولہا ، دلہن و باراتی سطح آب پر نمودار ہو گئی اور چندہی لمحوں میں کنارے آلگی ، تمام باراتی آپ رحمۃ اللہ علیہ سے دعائیں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر پہنچے ، اس کرامت کو سن کر بے شمار کفّار نے آکر سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پراسلام قبول کیا ۔ (سلطان الاذکار في مناقب غوث الابرار)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کرامت اس قدر تواتر کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود برِصغیر پاک و ہند کے گوشے گوشے میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ (الحَمْدُ ِلله)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : اگرچہ (یہ روایت) نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امر خلافِ شرع نہیں ، اس کا انکار نہ کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضويه جديد صفحہ ۶۲ جلد ۲۹)
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ جب میں علم دین حاصل کرنے کےلیے جیلان سے بغداد قافلے کے ہمراہ روانہ ہوا اور جب ہمدان سے آگے پہنچے تو ساٹھ ڈاکو قافلے پر ٹوٹ پڑے اور سارا قافلہ لوٹ لیا لیکن کسی نے مجھ سے تعرض نہ کیا ، ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا اے لڑکے ! تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟ میں نے جواب میں کہا : ہاں ۔ ڈاکونے کہا : کیا ہے ؟ میں نے کہا : چالیس دینار ۔ اس نے پوچھا : کہاں ہیں ؟ میں نے کہا : گدڑی کے نیچے ۔
ڈاکو اس راست گوئی کو مذاق تصور کرتا ہوا چلا گیا ، اس کے بعد دوسرا ڈا کو آیا اور اس نے بھی اسی طرح کے سوالات کیے اور میں نے یہی جوابات اس کو بھی دیے اور وہ بھی اسی طرح مذاق سمجھتے ہوئے چلتا بنا ، جب سب ڈاکو اپنے سردار کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سردار کو میرے بارے میں بتایا تو مجھے وہاں بلا لیا گیا ، وہ مال کی تقسیم کرنے میں مصروف تھے ۔ ڈاکوؤں کا سردار مجھ سے مخاطب ہوا : تمہارے پاس کیا ہے ؟ میں نے کہا : چالیس دینار ہیں ، ڈاکوؤں کے سردار نے ڈاکوؤں کو حکم دیتے ہوئے کہا : اس کی تلاشی لو ۔ تلاشی لینے پر جب سچائی کا اظہار ہوا تو اس نے تعجب سے سوال کیا کہ ’’ تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ میں نے کہا : والدہ ماجدہ کی نصیحت نے ۔ سردار بولا : وہ نصیحت کیا ہے ؟ میں نے کہا : میری والدہ محترمہ نے مجھے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین فرمائی تھی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سچ بولوں گا ۔ توڈاکوؤں کا سردار رو کر کہنے لگا : یہ بچہ اپنی ماں سے کیے ہوئے وعدہ سے منحرف نہیں ہوا اور میں نے ساری عمر اپنے رب عزوجل سے کیے ہوئے وعدہ کے خلاف گزار دی ہے ۔ اسی وقت وہ ان ساٹھ ڈاکوؤں سمیت میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور قافلہ کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا ۔ (بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۶۸،چشتی)
حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد شریف کی طرف آرہے تھے کہ راستہ میں ایک چور کھڑا کسی مسافر کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کو لوٹ لے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ جب اس کے قریب پہنچے تو پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ “ دیہاتی ہوں ۔ مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کشف کے ذریعے اس کی معصیت اور بدکرداری کو لکھا ہوا دیکھ لیا اور اس چور کے دل میں خیال آیا : شاید یہ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیال کا علم ہو گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میں عبدالقادر ہوں ۔ تو وہ چور سنتے ہی فوراً آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک قدموں پر گر پڑا اور اس کی زبان پر يَا سَيِّدِيْ عَبْدَالْقَادِرِشَيْئًا لِلّٰهِ (یعنی اے میرے سردار عبدالقادر میرے حال پررحم فرمائیے) جاری ہو گیا ۔ آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اور اس کی اصلاح کےلیے بارگاہ الٰہی عزوجل میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی : اے عبدالقادر ! اس چور کو سیدھا راستہ دکھا دو اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اسے قطب بنا دو ۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ فیض رساں سے وہ قطبیت کے درجہ پر فائز ہوگیا ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۱۳۰،چشتی)
حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ قصیدہ غوثیہ شریف میں فرماتے ہیں : بلا دالله ملکي تحت حکمي ، یعنی اللہ عزوجل کے تمام شہر میرے تحت تصرف اور زیر حکومت ہیں ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعا ۔ الخ صفحہ ۱۴۷)
حضرت عبدالملک ذیال رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ میں ایک رات حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے میں کھڑا تھا آپ رحمۃ اللہ علیہ اندر سے ایک عصا دست اقدس میں لیے ہوئے تشریف فرما ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ “ کاش آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس عصا سے کوئی کرامت دکھلائیں ۔ ادھر میرے دل میں یہ خیال گزرا اور ادھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عصا کو زمین پر گاڑ دیا تو وہ عصا مثل چراغ کے روشن ہو گیا اور بہت دیر تک روشن رہا پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اکھیڑ لیا تو وہ عصا جیسا تھا ویسا ہی ہوگیا، اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بس اے ذیال ! تم یہی چاہتے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۵۰)
ایک مرتبہ رات میں حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ شیخ احمد رفاعی اور عدی بن مسافر رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرُ انوار کی زیارت کےلیے تشریف لے گئے ، مگر اس وقت اندھیرا بہت زیادہ تھا حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ان کے آگے آگے تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ جب کسی پتھر ، لکڑی ، دیوار یا قبر کے پاس سے گزرتے تو اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے تو اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ مبارک چاند کی طرح روشن ہو جاتا تھا اور اس طرح وہ سب حضرات آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ہاتھ کی روشنی کے ذریعے حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک تک پہنچ گئے ۔ (قلائد الجواهر صفحہ ۷۷،چشتی)
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے پروردگار عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “ جو مسلمان تمہارے مدرسے کے دروازے سے گزرے گا اس کے عذاب میں تخفیف فرماؤں گا ۔ (الطبقات الکبریٰ منهم عبدالقادر جيلاني جلد ۱ صفحہ ۱۷۹)(بهجة الاسرار ذکر فضل اصحابه و بشراهم صفحہ ۱۹۴)
ایک شخص نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ “ فلاں قبرستان میں ایک شخص دفن کیا گیا ہے جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اس کی قبر سے چیخنے کی آواز آتی ہے جیسے عذاب میں مبتلا ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : کیا وہ ہم سے بیعت ہے ؟ عرض کی : معلوم نہیں ۔ فرمایا : ہمارے یہاں کے آنے والوں میں تھا ؟ عرض کی : معلوم نہیں ۔ فرمایا : کبھی ہمارے گھر کا کھانا اس نے کھایا ہے ؟ عرض کی : یہ بھی معلوم نہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ فرمایا اور ذرا دیر میں سرِ اقدس اٹھایا ہیبت و جلال روئے انور سے ظاہر تھا ارشاد فرمایا : فرشتے ہم سے یہ کہتے ہیں کہ “ ایک بار اس نے ہم کو دیکھا تھا اور دل میں نیک گمان لایا تھا اس وجہ سے بخش دیا گیا ۔ پھر جو اس کی قبر پر جاکر دیکھا تو فریاد و بکا کی آواز آنا بالکل بند ہو گئی ۔ (الطبقات الکبریٰ منهم عبدالقادر جيلاني جلد ۱ صفحہ ۱۷۹،چشتی)(بهجة الاسرار ذکر فضل اصحابه و بشراهم صفحہ ۱۹۴)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایک جوان حاضر ہوا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کرنے لگا کہ “ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے میں نے آج رات ان کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ “ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جاؤ اور میرے لیے ان سے دعا کا کہو ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس نوجوان سے فرمایا : کیا وہ میرے مدرسہ کے قریب سے گزرا تھا ؟ نوجوان نے کہا : جی ہاں ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خاموشی اختیار فرمائی ۔ پھر دوسرے روز اس کا بیٹا آیا اور کہنے لگا کہ ’’ میں نے آج رات اپنے والد کو سبز حلہ زیبِ تن کیے ہوئے خوش و خرم دیکھا ہے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ’’ میں عذابِ قبر سے محفوظ ہو گیا ہوں اور جو لباس تو دیکھ رہا ہے وہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے مجھے پہنچایا گیا ہے پس اے میرے بیٹے ! تم ان کی بارگاہ میں حاضری کو لازم کرلو ۔پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “ میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر (تمہارے) مدرسۃ المسلمین پر ہو گا ۔ (بهجة الاسرار ذکر اصحابه وبشراهم صفحہ ۱۹۴،چشتی)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانۂِ مبارکہ میں ایک بہت ہی گنہگار شخص تھا لیکن اس کے دل میں سرکار بغداد رحمۃ اللہ علیہ کی محبت ضرور تھی ، اس کے مرنے کے بعد جب اس کو دفن کیا گیا اور قبر میں جب منکر نکیر نے سوالات کیے تو منکر نکیر کو اللہ عزوجل کی بارگاہِ عالیہ سے ندا آئی : اگرچہ یہ بندہ فاسقوں میں سے ہے مگر اس کو میرے محبوبِ صادق سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے محبت ہے پس اسی سبب سے میں نے اس کی مغفرت کردی اور حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کی محبت اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے حسن اعتقاد کی وجہ سے اس کی قبر کو وسیع کر دیا۔ (سيرت غوث الثقلين رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۸)
بغداد شریف کے محلہ باب الازج کے قبرستان میں ایک قبر سے مردہ کے چیخنے کی آواز سنائی دینے کے متعلق لوگوں نے حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا : کیا اس قبر والے نے مجھ سے خرقہ پہنا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : حضور والا ! اس کا ہمیں علم نہیں ہے ۔ پھر آپ نے پوچھا کہ “ اس نے کبھی میری مجلس میں حاضری دی تھی ؟ لوگوں نے عرض کیا : بندہ نواز اس کا بھی ہمیں علم نہیں ۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا کہ “ کیا اس نے میرے پیچھے نماز پڑھی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں جانتے ۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا : المفرط اولی بالخسارۃ ، یعنی بھولا ہوا شخص ہی خسارہ میں پڑتا ہے ۔ اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ فرمایا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک سے جلال ، ہیبت اور وقار ظاہر ہونے لگا ، آپ نے سر مبارک اٹھا کر فرمایا کہ ’’ فرشتوں نے مجھے کہا ہے : اس شخص نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے حسن ظن اور محبت رکھتا تھا تو اللہ عزوجل نے آپ کے سبب اس پر رحم فرما دیا ہے ۔ اس کے بعد اس قبر سے کبھی بھی آواز نہ سنائی دی ۔ (بهجة الاسرار ذکر فضل اصحابه و بشراهم صفحہ ۱۹۴)
ایک بی بی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئیں کہ “ اس کا دل آپ رحمۃ اللہ علیہ سے گرویدہ ہے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے اس کی تربیت فرمائیں ۔ آپ نے ا سے قبول فرما کر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز ان کی ماں آئیں دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہو گیا ہے اور اسے جو کی روٹی کھاتے دیکھا جب بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تناول فرمایا تھا ، عرض کی : اے میرے مولیٰ ! آپ تو مرغی کھائیں اور میرا بچہ جو کی روٹی ۔ یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا دستِ اقدس ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا : قُوْمِيْ بِاِذْنِ اللّٰهِ الَّذِيْ يُحْيِی الْعِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْم ” یعنی جی اُٹھ اس اللہ عزوجل کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائے گا ۔ یہ فرمانا تھا کہ مرغی فوراً زندہ صحیح سالم کھڑی ہو کر آواز کرنے لگی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۸،چشتی)
حضرت شیخ صالح ابوالمظفر اسماعیل بن علی حمیری زریرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حضرت سیدنا شیخ علی بن ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ جب بیمار ہوتے تو کبھی کبھی میری زمین کی طرف جو کہ زریران میں تھی تشریف لاتے اور وہاں کئی دن گزارتے ایک بار آپ وہیں بیمار ہو گئے تو ان کے پاس میرے غوث صمدانی ، قطب ربانی ، شیخ سیدعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بغداد سے تیمار داری کےلیے تشریف لائے ، دونوں میری زمین پر جمع ہوئے ، اس میں دو کھجور کے درخت تھے جو چار برس سے خشک تھے اور انہیں پھل نہیں لگتا تھا ہم نے ان کو کاٹ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک کے نیچے وضو کیا اور دوسرے کے نیچے دو نفل ادا کیے تو وہ سبز ہو گئے اور ان کے پتے نکل آئے اور اسی ہفتہ میں ان کا پھل آگیا حالانکہ وہ کھجوروں کے پھل کا وقت نہیں تھا میں نے اپنی زمین سے کچھ کھجوریں لے کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر کر دیں آپ نے اس میں سے کھائیں اور مجھ سے فرمایا : اللہ عزوجل تیری زمین ، تیرے درہم ، تیرے صاع اور تیرے دودھ میں برکت دے ۔ حضرت شیخ اسماعیل بن علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میری زمین میں اس سال کی مقدار سے دوسے چار گنا پیدا ہونا شروع ہوا ، اب میرا یہ حال ہے کہ جب میں ایک درہم خرچ کرتا ہوں تو اس سے میرے پاس دوسے تین گنا آجاتا ہے اور جب میں گندم کی سو (۱۰۰) بوری کسی مکان میں رکھتا ہوں پھر اس میں سے پچاس بوری خرچ کر ڈالتا ہوں اور باقی کو دیکھتا ہوں تو سو بوری موجود ہوتی ہے میرے مویشی اس قدر بچے جنتے ہیں کہ میں ان کا شمار بھول جاتا ہوں اور یہ حالت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے اب تک باقی ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۹۱)
حضرت ابو عبداللہ محمد بن ابوالعباس موصلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ : انہوں نے فرمایا کہ “ ہم ایک رات اپنے شیخ عبدالقادر جیلانی ، غوث صمدانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ بغداد میں تھے اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اس نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سلام کیا اور نصیحت کا خواست گار ہوا اور آپ کی خدمت میں دس تھیلیاں پیش کیں جو دس غلام اٹھائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا : میں ان کی حاجت نہیں رکھتا ۔ اور قبول کرنے سے انکار فرما دیا اس نے بڑی عاجزی کی ، تب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسری تھیلی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دونوں تھیلیوں کو ہاتھ سے دبا کر نچوڑا کہ وہ دونوں تھیلیاں خون ہوکر بہہ گئیں، آپ نے فرمایا : اے ابوالمظفر کیا تمہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو ۔ وہ آپ کی یہ بات سن کر حیرانی کے عالم میں بے ہوش ہو گیا ۔ پھر حضرت سیدنا حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اللہ عزوجل کی قسم ! اگر اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں خون کو اس طرح چھوڑتا کہ اس کے مکان تک پہنچتا ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۰)
راوی کا قول ہے کہ میں نے خلیفہ وقت کو ایک دن حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دیکھا کہ عرض کر رہا ہے کہ “ حضور میں آپ سے کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ میرا دل اطمینان پائے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا : میں غیب سے سیب چاہتا ہوں ۔ اور پورے عراق میں اس وقت سیب نہیں ہوتے تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو دو سیب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے ایک اس کو دیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو نہایت سفید تھا ، اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی اور المستنجد نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو اس میں کیڑے تھے وہ کہنے لگا : یہ کیا بات ہے میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ میں نہایت عمدہ سیب د یکھا ؟ آپ نے فرمایا : ابوالمظفر تمہارے سیب کو ظلم کے ہاتھ لگے تو اس میں کیڑے پڑ گئے ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۱،چشتی)
حضرت شیخ برگزیدہ ابوالحسن قرشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میں اور شیخ ابوالحسن علی بن ہیتی حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہما کی خدمت میں ان کے مدرسہ میں موجود تھے تو ان کے پاس ابو غالب فضل اللہ بن اسمعیل بغدادی ازجی سوداگر حاضر ہوا وہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کرنے لگا کہ : اے میرے سردار ! آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جدِ امجد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ “ جو شخص دعوت میں بلایا جائے اس کو دعوت قبول کرنی چاہیے ۔ میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میرے گھر دعوت پر تشریف لائیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر مجھے اجازت ملی تو میں آؤں گا ۔ پھر کچھ دیر بعد آپ نے مراقبہ کر کے فرمایا : ہاں آؤں گا ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے خچر پر سوار ہوئے ، شیخ علی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی دائیں رکاب پکڑی اور میں نے بائیں رکاب تھامی اور جب اس کے گھر میں ہم آئے دیکھا تو اس میں بغداد کے مشائخ ، علماء اور معززین جمع ہیں ، دسترخوان بچھایا گیا جس میں تمام شیریں اور ترش چیزیں کھانے کےلیے موجود تھیں اور ایک بڑا صندوق لایا گیا جو سربمہر تھا دو آدمی اسے اٹھائے ہوئے تھے اسے دستر خوان کے ایک طرف رکھ دیا گیا ، تو ابو غالب نے کہا : بسم اللہ اجازت ہے ۔ اس وقت حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مراقبہ میں تھے اور آپ نے کھانا نہ کھایا اور نہ ہی کھانے کی اجازت دی تو کسی نے بھی نہ کھایا ، آپ کی ہیبت کے سبب مجلس والوں کا حال ایسا تھا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ، پھر آپ نے شیخ علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ “ وہ صندوق اٹھا لائیے ۔ ہم اٹھے اور اسے اٹھایا تو وہ وزنی تھا ہم نے صندوق کو آپ کے سامنے لاکر رکھ دیا آپ نے حکم دیا کہ “ صندوق کو کھولا جائے ۔ ہم نے کھولا تو اس میں ابو غالب کا لڑکا موجود تھا جو مادر زاد اندھا تھا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے کہا : کھڑا ہو جا ۔ ہم نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ لڑکا دوڑنے لگا اور بینا بھی ہو گیا اور ایسا ہوگیا کہ کبھی بیماری میں مبتلا نہیں تھا ، یہ حال دیکھ کر مجلس میں شور برپا ہو گیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ اسی حالت میں باہر نکل آئے اور کچھ نہ کھایا ۔ اس کے بعد میں شیخ ابو سعد قیلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ “ حضرت سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ مادر زاد اندھے اور برص والوں کو اچھا کرتے ہیں اور خدا عزوجل کے حکم سے مردے زندہ کرتے ہیں ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۳،چشتی)
ایک دن میں حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت مجھے کچھ حاجت ہوئی تو میں فی الفور حاجت سے فراغت پاکر حاضر خدمت ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا : مانگ کیا چاہتا ہے ؟ میں نے عرض کیاکہ “ میں یہ چاہتا ہوں ۔ اور میں نے چند امور باطنیہ کا ذکر کیا آپ نے فرمایا : وہ امور لے لے ۔ پھر میں نے وہ سب باتیں اسی وقت پالیں ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۴)
ایک شخص حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا کہ “ میں اصبہان کا رہنے والا ہوں میری ایک بیوی ہے جس کو اکثر مرگی کا دورہ رہتا ہے اور اس پر کسی تعویذ کا اثر نہیں ہوتا ۔ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی ، غوث صمدانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’ یہ ایک جن ہے جو وادی سراندیپ کا رہنے والا ہے ، اُس کا نام خانس ہے اور جب تیری بیوی پر مرگی آئے تو اس کے کان میں یہ کہنا کہ ’’ اے خانس ! تمہارے لیے شیخ عبدالقادر جو کہ بغداد میں رہتے ہیں ان کا فرمان ہے کہ ’’ آج کے بعد پھر نہ آناورنہ ہلاک ہو جائے گا ۔ تو وہ شخص چلا گیا اور دس سال تک غائب رہا پھر وہ آیا اور ہم نے اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ “ میں نے شیخ کے حکم کے مطابق کیا پھر اب تک اس پر مرگی کا اثر نہیں ہوا ۔ جھاڑ پھونک کرنے والوں کا مشترکہ بیان ہے : حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی مبارک میں چالیس برس تک بغداد میں کسی پر مرگی کا اثر نہیں ہوا ، جب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وصال فرمایا تو وہاں مرگی کا اثر ہوا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۴۰)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک دن منبر پر بیٹھے بیان فرما رہے تھے کہ : بارش شروع ہو گئی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میں تو جمع کرتا ہوں اور (اے بادل) تو متفرق کر دیتا ہے ۔ تو بادل مجلس سے ہٹ گیا اور مجلس سے باہر برسنے لگا راوی کہتے ہیں کہ ’’ اللہ عزوجل کی قسم ! شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بارش ہم سے بند ہو گئی اور ہم سے دائیں بائیں برستی تھی اور ہم پر نہیں برستی تھی ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۴۷)
حضرت ابو عبداللہ محمد بن خضری کے والد فرماتے ہیں کہ : میں نے سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی تیرہ برس خدمت کی ہے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ میں بہت سی کرامات دیکھی ہیں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ جب تمام طبیب کسی مریض کے علاج سے عاجز آجاتے تو وہ مریض آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لایا جاتا آپ رحمۃ اللہ علیہ اس مریض کےلیے دُعائے خیر فرماتے اور اس پر اپنا رحمت بھرا ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے صحتیاب ہوکر آپ کے سامنے کھڑا ہو جاتا تھا ، ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں سلطان المستنجد کا قریبی رشتہ دار لایا گیا جو مرض استسقاء میں مبتلا تھا اس کو پیٹ کی بیماری تھی آپ نے اس کے پیٹ پر مبارک ہاتھ پھیرا تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے لاغر پیٹ ہونے کے باوجود کھڑا ہو گیا گویا کہ وہ پہلے کبھی بیمار ہی نہیں تھا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ نمبر ۱۵۳،چشتی)
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ابو المعالی احمد مظفر بن یوسف بغدادی حنبلی آئے اور کہنے لگے کہ ’’ میرے بیٹے محمد کو پندرہ مہینے سے بخار آرہا ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’ تم جاؤ اور اس کے کان میں کہہ دو ’’ اے ام ملدم ! تم سے عبدالقادر (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’ میرے بیٹے سے نکل کر حلہ کی طرف چلے جاؤ ۔ ہم نے ابو المعالی سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’ میں گیا اور جس طرح مجھے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا تھا اسی طرح کہا تو اس دن کے بعد اس کے پاس پھر کبھی بخار نہیں آیا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ نمبر ۱۵۳)
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ابو حفص عمر بن صالح حدادی اپنی اونٹنی لے کر آیا اور عرض کیا کہ ’’ میرا حج کا ارادہ ہے اور یہ میری اونٹنی ہے جو چل نہیں سکتی اور اس کے سوا میرے پاس کوئی اونٹنی نہیں ہے ۔ پس آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ایک انگلی لگائی اور اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا وہ کہتا تھا کہ ’’ اس کی حالت یہ تھی کہ تمام سواریوں سے آگے چلتی تھی حالانکہ وہ اس سے قبل سب سے پیچھے رہتی تھی ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب صفحہ ۱۵۳،چشتی)
حضرت شیخ ابو الفضل احمد بن صالح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میں حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مدرسہ نظامیہ میں تھا آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس فقہاء اور فقراء علیہم الرحمہ جمع تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے گفتگو کر رہے تھے اتنے میں ایک بہت بڑا سانپ چھت سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی گود میں آگرا تو سب حاضرین وہاں سے ہٹ گئے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ رہا ، وہ آپ کے کپڑوں کے نیچے داخل ہوا اور آپ کے جسم پر سے گزرتا ہوا آپ کی گردن کی طرف سے نکل آیا اور گردن پر لپٹ گیا ، اس کے باوجود آپ نے کلام کرنا موقوف نہ فرمایا اور نہ ہی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ سانپ زمین کی طرف اُترا اور آپ کے سامنے اپنی دُم پر کھڑا ہو گیا اور آپ سے کلام کرنے لگا آپ نے بھی اس سے کلام فرمایا جس کو ہم میں سے کوئی نہ سمجھا ۔ پھر وہ چل دیا تو لوگ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ’’ اس نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے کیا کہا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے کیا کہا ؟ آپ نے فرمایا کہ ’’ اس نے مجھ سے کہا کہ ’’ میں نے بہت سے اولیاء کرام کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم کسی کو نہیں دیکھا ۔ میں نے اس سے کہا : تم ایسے وقت مجھ پر گرے کہ میں قضا و قدر کے متعلق گفتگو کر رہا تھا اور تُو ایک کیڑا ہی ہے جس کو قضا حرکت دیتی ہے اور قدر سے ساکن ہو جاتا ہے ۔ تو میں نے اس وقت ارادہ کیا کہ میرا فعل میرے قول کے مخالف نہ ہو ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب صفحہ ۱۶۸،چشتی)
حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا ابو عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ میں ایک رات جامع منصور میں نماز پڑھتا تھاکہ میں نے ستونوں پر کسی شے کی حرکت کی آواز سنی پھر ایک بڑا سانپ آیا اور اس نے اپنا منہ میرے سجدہ کی جگہ میں کھول دیا ، میں نے جب سجدہ کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ سے اس کو ہٹا دیا اور سجدہ کیا پھر جب میں التحیات کے لئے بیٹھا تو وہ میری ران پر چلتے ہوئے میری گردن پر چڑھ کر اس سے لپٹ گیا ، جب میں نے سلام پھیرا تو اس کو نہ دیکھا ۔ دوسرے دن میں جامع مسجد سے باہر میدان میں گیا تو ایک شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں بلی کی طرح تھیں اورقد لمبا تھا تو میں نے جان لیا کہ یہ جن ہے اس نے مجھ سے کہا : میں وہی جن ہوں جس کو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کل رات دیکھا تھا میں نے بہت سے اولیاء کرام رحمہم اللہ علیہم اجمعین کو اس طرح آزمایا ہے جس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ کو آزمایا مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ان میں سے کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہا ، ان میں بعض وہ تھے جو ظاہر و باطن سے گھبرا گئے ، بعض وہ تھے جن کے دل میں اضطراب ہوا اور ظاہر میں ثابت قدم رہے ، بعض وہ تھے کہ ظاہر میں مضطرب ہوئے اور باطن میں ثابت قدم رہے لیکن میں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ آپ نہ ظاہر میں گھبرائے اورنہ ہی باطن میں ۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’ آپ مجھے اپنے ہاتھ پر توبہ کروائیں ۔ میں نے اسے توبہ کروائی ۔ (بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۶۸)
حضرت سیدنا عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں ہمدان میں ایک شخص سے ملا جو دمشق کا رہنے والا تھا اس کا نام ’’ظریف‘‘ تھا ان کا کہنا ہے کہ ’’میں بشر قرظی کو نیشاپور کے راستے میں ملا ۔۔ یا ۔۔ یہ کہا کہ خوارزم کے راستے میں ملا ، اس کے ساتھ شکر کے چودہ اونٹ تھے اس نے مجھے بتایا کہ ہم ایسے جنگل میں اترے جو اس قدر خوفناک تھا کہ اس میں خوف کے مارے بھائی بھائی کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتا تھا جب ہم نے شب کی ابتداء میں گٹھڑیوں کو اٹھایا تو ہم نے چار اونٹوں کو گم پایا جو سامان سے لدے ہوئے تھے میں نے انہیں تلاش کیا مگر نہ پایا قافلہ تو چل دیا اور میں اپنے اونٹوں کو تلاش کرنے کےلیے قافلے سے جدا ہو گیا ، ساربان نے میری امداد کی اور میرے ساتھ ٹھہر گیا ، ہم نے ان کو تلاش کیا لیکن کہیں نہ پایا ۔ جب صبح ہوئی تو مجھے حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان یاد آیا کہ ’’ اگر تُو سختی میں پڑے تو مجھ کو پکارنا تو تجھ سے مصیبت دور ہو جائے گی ۔ (میں نے یوں پکارا) اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ میرے اونٹ گم ہو گئے،اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ میرے اونٹ گم ہو گئے ۔ پھر میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو صبح ہو چکی تھی جب روشنی ہو گئی تو میں نے ایک شخص کو ٹیلے پر دیکھا جس کے کپڑے انتہائی سفید تھے اس نے مجھ کو اپنی آستین سے اشارہ کیا کہ ’’ اوپر آؤ ۔ جب ہم ٹیلے پر چڑھے تو کوئی شخص نظر نہ آیا مگر وہ چاروں اونٹ ٹیلے کے نیچے جنگل میں بیٹھے تھے ہم نے ان کو پکڑ لیا اور قافلے سے جا ملے ۔ (بهجة الاسرار ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۹۶)
حضرت امام شیخ ابو البقا مکبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں ایک روز حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا ، میں پہلے کبھی حاضرنہ ہوا تھا اور نہ ہی کبھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا کلام سنا تھا ، میں نے دل میں کہا کہ ’’ اس مجلس میں حاضر ہو کر اس عجمی کا کلام سنوں ؟ جب میں مدرسہ میں داخل ہوا اور دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا کلام شروع ہے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا کلام موقوف فرما دیا اور فرمایا : اے آنکھوں اور دل کے اندھے ! تو اس عجمی کے کلام کو کیا سنے گا ؟ تو میں نہ رہ سکا یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے منبر کے قریب پہنچ گیا پھر میں نے اپنا سر کھولا اور بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ علیہ میں عرض کیا : یا حضرت ! مجھے خرقہ پہنائیں ۔ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے خرقہ پہنا کر ارشاد فرمایا : اے عبداللہ ! اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے تمہارے انجام کی خبر نہ دی ہوتی تو تم ہلاک ہو جاتے ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۱۱،چشتی)
حضرت شیخ ابو نصر موسیٰ بن شیخ عبدالقادر جیلانی علیہما الرحمہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے ارشاد فرمایا : میں اپنے ایک سفر میں صحرا کی طرف نکلا اور چند دن وہاں ٹھہرا مگر مجھے پانی نہیں ملتا تھا جب مجھے پیاس کی سختی محسوس ہوئی تو ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا اور اُس میں سے مجھ پربارش کے مشابہ ایک چیز گری ، میں اس سے سیراب ہو گیا پھر میں نے ایک نور دیکھا جس سے آسمان کا کنارہ روشن ہو گیا اور ایک شکل ظاہر ہوئی جس سے میں نے ایک آواز سنی : اے عبدالقادر ! میں تیرا رب ہوں اور میں نے تم پر حرام چیزیں حلال کر دی ہیں ، تو میں نے اعوذ بالله من الشيطٰن الرجيم پڑھ کر کہا : اے شیطان لعین ! دور ہو جا ۔ تو روشن کنارہ اندھیرے میں بدل گیا اور وہ شکل دھواں بن گئی پھر اس نے مجھ سے کہا : اے عبدالقادر ! تم مجھ سے اپنے علم ، اپنے رب عزوجل کے حکم اور اپنے مراتب کے سلسلے میں سمجھ بُوجھ کے ذریعے نجات پاگئے اور میں نے ایسے سَتّر (۷۰) مشائخ کو گمراہ کر دیا ۔ میں نے کہا : یہ صرف میرے رب عزوجل کا فضل و احسان ہے ۔ شیخ ابو نصر موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ ’’ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کس طرح جانا کہ وہ شیطان ہے ؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : اُس کی اِس بات سے کہ ’’ بے شک میں نے تیرے لیے حرام چیزوں کو حلال کر دیا ۔ (بهجة الاسرار ذکر شي من اجوبته مما يدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۲۸)
حضرت شیخ ابو محمد الجونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ ایک روز میں حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت میں فاقہ کی حالت میں تھا اور میرے اہل و عیال نے بھی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ میں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سلام عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا : اے الجونی ! بھوک اللہ عزوجل کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اس کو عطا فرما دیتا ہے ۔ (قلائدالجواهر صفحہ ۵۷)
حضرت شیخ ابو القاسم عمر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جو کوئی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کردوں گا اور جو کوئی میرے وسیلے سے اللہ عزوجل سے اپنی حاجت طلب کرے گا تو اللہ عزوجل اس کی حاجت کو پورا فرما دے گا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فضل اصحابه و بشراهم صفحہ نمبر ۱۹۷)
ایک عورت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مرید ہوئی ، اس پر ایک فاسق شخص عاشق تھا ، ایک دن وہ عورت کسی حاجت کےلیے باہر پہاڑ کے غار کی طرف گئی تو اس فاسق شخص کو بھی اس کا علم ہو گیا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہولیا حتیٰ کہ اس کو پکڑ لیا ، وہ اس کے دامن عصمت کو ناپاک کرنا چاہتا تھا تو اس عورت نے بارگاہِ غوثیہ میں اس طرح استغاثہ کیا :
الغیاث یاغوث اعظم الغیاث یاغوث الثقلین
الغیاث یاشیخ محی الدین الغیاث یاسیدی عبدالقادر
اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مدرسہ میں وضو فرما رہے تھے آپ نے اس کی فریاد سن کر اپنی کھڑاؤں (لکڑی کے بنے ہوئے جوتے) کو غار کی طرف پھینکا وہ کھڑاویں اس فاسق کے سر پر لگنی شروع ہو گئیں حتیٰ کہ وہ مر گیا ، وہ عورت آپ کی نعلین مبارک لے کر حاضرِ خدمت ہوئی اورآپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں سارا قصہ بیان کردیا ۔ (تفريح الخاطر صفحہ ۳۷،چشتی)
حضرت ابوالحسن علی الازجی رحمۃ اللہ علیہ بیمار ہوئے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کے گھر ایک کبوتری اور ایک قمری کو بیٹھے ہوئے دیکھا ، حضرت ابوالحسن رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا : حضور والا رحمۃ اللہ علیہ یہ کبوتری چھ مہینے سے انڈے نہیں دے رہی اور قمُری (فاختہ) نو مہینے سے بولتی نہیں ہے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کبوتری کے پاس کھڑے ہو کر اس سے فرمایا : اپنے مالک کو فائدہ پہنچاؤ ۔ اور قمری سے فرمایا کہ ’’ اپنے خالق عزوجل کی تسبیح بیان کرو ۔ تو قمری نے اسی دن سے بولنا شروع کر دیا اور کبوتری عمر بھر انڈے دیتی رہی ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب صفحہ نمبر ۱۵۳)
حضرت شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اللہ عزوجل کے اذن سے مادر زاد اندھوں اور برص کے بیماروں کو اچھا کرتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرتے ہیں ۔ (بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۲۴)
حضرت شیخ خضر الحسینی الموصلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں تقریبا ۱۳ سال تک رہا ، اس دوران میں نے آپ کے بہت سے خوارق و کرامات کو دیکھا ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس مریض کو طبیب لاعلاج قرار دیتے تھے وہ آپ کے پاس آکر شفایاب ہو جاتا ، آپ اس کےلیے دعاء صحت فرماتے اور اس کے جسم پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرتے تو اللہ عزوجل اسی وقت اس مریض کو صحت عطا فرما دیتا ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب صفحہ ۱۴۷،چشتی)
ایک بار دریائے دجلہ میں زور دار سیلاب آگیا ، دریا کی طغیانی کی شدت کی وجہ سے لوگ ہراساں اور پریشان ہو گئے اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے مدد طلب کرنے لگے حضرت نے اپنا عصاء مبارک پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے اور دریا کے کنارے پر پہنچ کر آپ نے عصاء مبارک کو دریا کی اصلی حد پر نصب کر دیا اور دریا کو فرمایا کہ ’’ بس یہیں تک ۔ آپ کا فرمانا ہی تھا کہ اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہو گیا اور آپ کے عصاء مبارک تک آگیا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشی من عجائب صفحہ ۱۵۳)
حضرت شاہ ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ایک شخص نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر عرض کیا : آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس دربار میں حاجتیں پوری ہوتی ہیں اور یہ نجات پانے کی جگہ ہے پس میں اس بارگاہ میں ایک لڑکا طلب کرنے کی التجا کرتا ہوں ۔ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کر دی ہے کہ اللہ عزوجل تجھے وہ چیز عطا فرمائے جو تو چاہتا ہے ۔ وہ آدمی روزانہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف میں حاضر ہونے لگا ، قادر مطلق کے حکم سے اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ، وہ شخص لڑکی کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا : حضور والا (رحمۃ اللہ علیہ) ہم نے تو لڑکے کے متعلق عرض کیا تھا اور یہ لڑکی ہے ۔ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : اس کو لپیٹ کر اپنے گھر لے جاؤ اور پھر پردہ غیب سے قدرت کا کرشمہ دیکھوب۔ تو وہ حسبِ ارشاد اس کو لپیٹ کر گھر لے آیا اور دیکھا تو قدرت الٰہی عزوجل سے بجائے لڑکی کے لڑکا پایا ۔ (تفريح الخاطر صفحہ ۱۸،چشتی)
حضرت ابو السعود الحریمی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ : ابوالمظفرحسن بن نجم تاجر نے شیخ حماد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : حضور والا ! میرا ملک شام کی طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اور میرا قافلہ بھی تیار ہے، سات سو دینار کا مالِ تجارت ہمراہ لے جاؤں گا۔‘‘ تو شیخ حماد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر تم اس سال سفر کرو گے تو تم سفر میں ہی قتل کردیے جاؤ گے اور تمہارا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔ ‘‘وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد سن کر مغموم حالت میں باہر نکلا توحضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملاقات ہوگئی اس نے شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد سنایا تو آپ نے فرمایا اگر تم سفر کرنا چاہتے ہو تو جاؤ تم اپنے سفر سے صحیح و تندرست واپس آؤ گے، میں اس کا ضامن ہوں۔‘‘ آپ کی بشارت سن کر وہ تاجر سفرپر چلا گیا اور ملک شام میں جاکر ایک ہزار دینار کا اس نے اپنا مال فروخت کیا اس کے بعد وہ تاجر اپنے کسی کام کے لئے حلب چلاگیا، وہاں ایک مقام پر اس نے اپنے ہزار دینار رکھ دیئے اوررکھ کر دیناروں کو بھول گیا اور حلب میں اپنی قیام گاہ پر آگیا، نیند کا غلبہ تھا کہ آتے ہی سوگیا، خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ عرب بدوؤں نے اس کا قافلہ لوٹ لیا ہے اور قافلے کے کافی آدمیوں کو قتل بھی کر دیا ہے اور خود اس پر بھی حملہ کر کے اس کو مار ڈالا ہے، گھبرا کر بیدار ہوا تو اسے اپنے دینار یاد آگئے فورا ً دوڑتا ہوا اس جگہ پر پہنچا تو دینار وہاں ویسے ہی پڑے ہوئے مل گئے، دینار لے کر اپنی قیام گاہ پر پہنچا اور واپسی کی تیاری کرکے بغداد لوٹ آیا ۔ جب بغداد شریف پہنچا تو اس نے سوچا کہ پہلے حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ وہ عمر میں بڑے ہیں یا حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میرے سفر کے متعلق جو فرمایا تھا بالکل درست ہوا ہے اسی سوچ و بچار میں تھا کہ حسن اتفاق سے شاہی بازارمیں حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے اس کو ارشاد فرمایا کہ ’’پہلے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری دوکیوں کہ وہ محبوب سبحانی ہیں انہوں نے تمہارے حق میں سَتَّر (۷۰) مرتبہ دعا مانگی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے تمہارے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرما دیا اور مال کے ضائع ہونے کو بھول جانے سے بدل دیا۔ جب تاجر غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایاکہ ’’جو کچھ شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شاہی بازار میں تجھ سے بیان فرمایا ہے بالکل ٹھیک ہے کہ میں نے سَتَّر (۷۰) مرتبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہارے لیے دعا کی کہ وہ تمہارے قتل کے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادے اور تمہارے مال کے ضائع ہونے کو صرف تھوڑی دیر کے لئے بھول جانے سے بدل دے ۔ (بهجة الاسرار، ذکرفصول من کلامه مرصعابشي من عجائب صفحہ ۶۴)
ایک دن حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان فرما رہے تھے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کو نیند آگئی حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے اہل مجلس سے فرمایا خاموش رہو اور آپ منبر سے نیچے اتر آئے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے با ادب کھڑے ہوگئے اور ان کی طرف دیکھتے رہے ۔ جب شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خواب سے بیدار ہوئے تو حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان سے فرمایا کہ ’’آپ نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’میں اسی لیے بادب کھڑا ہوگیا تھا پھرآپ نے پوچھا کہ ’’ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو کیا نصیحت فرمائی؟‘‘ تو کہاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری کو لازم کر لو۔‘‘ بعد ازیں لوگوں نے شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دریافت کیا کہ ’’حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کا کیا مطلب تھا کہ ’’میں اسی لئے با ادب کھڑا ہوگیا تھا۔‘‘ تو شیخ علی بن ہیتی علیہ رحمۃ اللہ الباری نے فرمایا: ’’میں جو کچھ خواب میں دیکھ رہا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کو بیداری میں دیکھ رہے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعابشي من عجائب صفحہ ۵۸)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے، اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُس کا ادب کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے تمام کام صحیح ودرست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہیے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا ۔ بندے کا شجرِ ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجرِ ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال کی) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجرِ ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہلِ ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکرِ ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب العالمین عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو ۔(فتوح الغيب مع قلائد الجواهر صفحہ ۴۴)
حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان عالی شان ہے :’’محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگا دے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹا کر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضلِ عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اِس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کردے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تُو راحت و سکون پائے گا اور اگر تُو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اورتجھ سے فضلِ خداوندی رُک جائے گا ۔ تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ جب تک تُو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تَو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس ،محویت ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کرد ے تو تیرے دل میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل،ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کرے گا ۔
مزید فرماتے ہیں : تیرا نفس اور اعضاء غیر اللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں ۔ (فتوح الغيب مع قلائد الجواهر صفحہ ۱۰۳)
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد مبارک ہے : جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ، اور دنیا و آخرت کی آرزؤوں سے فنا ہو جاتا ہے تَو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تَو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کردیتا ہے ۔پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبیر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے ۔ (فتوح الغيب مع قلائد الجواهر المقاله السادسة والخمسون صفحہ ۱۰۰)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعتِ مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : وَمَآاٰتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَانَهٰكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۔
ترجمہ : اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔(پ۲۸،الحشر:۷) ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہیے، اس طرح تُو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہوجائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کیے جائیں گے اللہ عزوجل تیری حفاظت فرمائے گا، موا فقتِ خداوندی حاصل ہو گی ۔ اللہ عزوجل تجھے گناہوں سے محفوظ فرمائے گا اور تجھے اپنے فضل عظیم سے استقامت عطا فرمائے گا، تجھے دین کے تقاضوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریعت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان دنیوی نعمتوں سے تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حدودِ شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’خوشبو اور عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ (مشکوٰة المصابيح، کتاب الرقائق الفصل الثالث الحديث ۵۲۶۱ جلد ۲ صفحہ ۲۵۸،چشتی)
لہٰذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے ، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو نعمتِ الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اوروہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکامِ شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرتِ انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے ۔ (فتوح الغيب مترجم صفحہ ۷۲)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالیٰ سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتۂِ تقدیرنے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لیے قبول ہوجاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔(فتوح العيوب مع قلائد الجواهر، المقالة الثامنة والستون صفحہ ۱۱۵)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اورجگہ ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے، اللہ عزوجل جو چاہتا کرتا ہے، جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کر دے، عرش سے فرش اور تحت الثرٰی تک جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ عزوجل کے قبضے میں ہے، ساری مخلوق اسی کی ہے، ہر چیز کا خالق وہ ہی ہے، اللہ عزوجل کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے تو ان سب کے با وجود تُو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے؟‘‘
اللہ عزوجل جسے چاہے اور جس طرح چاہے حکومت و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اللہ عزوجل کی بہتری سب پر غالب ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے ۔ (فتوح الغيب مترجم صفحہ ۸۰)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا : پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اور موجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء وقدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضا مندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالیٰ نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظٖت کی دعا کر، کیونکہ تُو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے ،محتاجی و فقر فاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے ،یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتر ی کس میں ہے۔یہ بات اللہ تعالیٰ کی تدبیر پر رضا مندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی ۔ (فتوح الغيب مع قلائد الجوهر المقالة التاسعة والستون صفحہ ۱۱۷)
ایک مرتبہ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ ’’محبت کیا ہے؟‘‘ تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’محبت، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محوہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا ان ہیں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے ، وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اُس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته ممايدل علی قدم راسخ صفحہ ۲۲٩)
حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے توَکُّل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا کہ ’’توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا اور’’مذہب معرفت‘‘ میں دل کے یقین کی حقیقت کا نام اعتقاد ہے کیوں کہ وہ لازمی امور ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والانقص نہیں نکال سکتا۔(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ نمبر ۲۳۲)
حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’ دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرریعنی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ (بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۳۳)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اوراسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ نمبر ۲۳۴)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’ صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اُس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۳۴)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ : اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو ۔ اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجالائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہاہے اور خود کو بھول جائے ۔ احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعتِ انسانی ہمیشہ حالت ِحق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کاخوف ہویادوست کا ناحق مطالبہ ہو ۔ (بهجة الاسرار صفحہ نمبر ۲۳۵)
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا : وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں اِن کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اُس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته مما يدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۳۵،چشتی)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا : روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالیٰ کےلیے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ نمبر ۲۳۶)
حضرت محبوب سبحانی ، قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’ اس کی بہت سی قسمیں ہیں (۱) خوف ۔ یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے ۔ (۲) رہبہ ۔ یہ عابدین کو ہوتا ہے ۔ (۳) خشیت ۔ یہ علماء کو ہوتی ہے ۔ نیز ارشاد فرمایا : گنہگار کا خوف عذاب سے، عابد کا خوف عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک خفی سے ہوتا ہے ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیوں کہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پاجاتے ہیں ۔ (بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ صفحہ ۲۳۶،چشتی)
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہنا شرک ہے کا جواب : کچھ لوگ عقیدہ توحید کی غلط تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں : غوث اعظم صرف اللہ تعالیٰ ہے ، لہٰذا حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہنا شرک و کفر ہے ۔ العیاذبا اللہ من ذالک ۔
اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ غوث کا معنی مددگار ہے اور ولی کا ایک معنی بھی مددگار ہے ۔ لہٰذا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا معنی سب سے بڑا ولی اللہ ہے اور تمام سلاسل روحانیہ کے اولیاء علیہم الرّحمہ کا اتفاق ہے کہ امت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے بڑے ولی اللہ حضرت غوث اعظم شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔
غوثیت '' بزرگی کا ایک خاص دَرَجہ ہے ، لفظِ غوث کے لغوی معنیٰ ہیں ''فریادرس یعنی فریاد کو پہنچنے والا'' چونکہ حضرت شیخ سید ابومحمد عبدالقادر جیلانی حنبلی رحمۃ ﷲ علیہ غریبوں ، بے کسوں اور حاجت مندوں کے مدد گار ہیں اسی لیے آپ رحمۃ ﷲ علیہ کو غوث اعظم کے خطاب سےسرفرازکیا گیا ۔
لغوی معنی
غوث : فریاد کو پہنچانے والا ، اہل اسلام میں ولایت الہی کا ایک درجہ ۔
زمان : وقت ، زمانہ ، ساعت ۔
محبوب : پیارا، دوست ، محبت ، معشوق ، دلدار، منظور نظر ، دل ربا ۔
شہباز : بازوں کا بادشاہ ، شاہی باز ، بڑا باز ۔
لامکان : جہاں مکان بھی نہیں، عرش معلی سے بھی آگے۔
سبحان : پاک۔ اللہ تعالی کا صفاتی نام ۔
اصطلاحی معنی
غوث زمان زمانے کی فریاد کو پہنچنے والا ۔
محبوب سبحان اللہ تعالی کا پیارا ۔
شہباز لامکان عرش معلی سے بھی آگے پہنچ رکھنے والا ۔
اس وضاحت کے بعد واضح ہو گیا کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ ﷲ علیہ کو غوث اعظم رحمۃ ﷲ علیہ کہنے کا معنی یہ ہے کہ آپ اولیاء کرام علیہم الرّحمہ میں سے بڑے ولی ہیں جس طرح حضرت ابو بکر رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو فاروق اعظم کہا جاتا ہے ۔ یا جیسا کہ ائمہ مجتہدین میں امام ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ کو امام اعظم کہا گیا ہے اور تحریک پاکستان کے قائدین میں سے مسٹر محمد علی جناح کو قائد اعظم کہا جاتا ہے ، تو کیا اگر کوئی کہے کہ صدیق اکبر ، فاروق اعظم ، امام اعظم اور قائد اعظم تو ﷲ ہے ؟ تو ایسے قائل کو جو جواب دیا جائے گا وہی جواب غوث اعظم کے لفظ پر اعتراض کرنے والے کو دیا جائے گا ۔
بلکہ میں کہوں گا کہ جو الفاظ عرف میں بندگان خدا کے لئے بولے جاتے ہیں ان الفاظ کو ﷲ تعالیٰ کے لئے بولنا ﷲ تعالیٰ کو شان الوہیت سے نیچے لاکر بندو ں کی صف میں لانے کے مترادف ہو گا ۔
اب آئیے اس موضوع پر فریق مخالف کے اکابرین کے حوالہ جات کی روشنی میں اس مسلہ کو دیکھتے ہیں : ⬇
علاّمہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد کا عقیدہ : علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی اپنی فارسی زبان کی کتاب ’’بغيدالرائد فی شرح العقائد‘‘ سن اشاعت 1301ھ ہے یعنی آج سے تقریباً 128 سال پہلے کا یہ نسخہ ہے ۔ آئیے اسے کتاب کے ذریعے مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی کے عقائد کی طرف ایک نظر دوڑاتے ہیں ۔
علامہ بھوپالی اپنی اس مذکورہ کتاب کے ص 66 پر قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا ذکر کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام قیامت کے روز ظاہر ہوگا اور قیامت کے دن کا انعقاد ہی شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھانے کے لئے ہے۔ علامہ بھوپالی لکھتے ہیں :
’’آں روز روز اوست وجاہ جاہِ اوست‘‘ ۔
یعنی وہ دن تو دن ہی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوگا اور قیامت کے دن شان ہی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ہوگی وہی دیکھنے والی ہوگی۔ پھر لکھتے ہیں : اَللّٰهُمَّ بِحَقِّ جَاهِ مُحَمَّدٍ اِغْفِرْلَنَا.
’’اے اللہ، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے صدقے ہماری مغفرت فرما‘‘۔
آج علامہ بھوپالی کے ماننے والے غیر مقلد اہلحدیث حضرات اپنے عقیدے میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں اور ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک تھا بعد از وصال جائز نہیں اور یہ احباب حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی قائل نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی طور پر زندہ نہیں مانتے ۔
تعجب کی بات ہے کہ علامہ بھوپالی کے ماننے والوں میں یہ تبدیلی کس طرح آگئی کہ ان کے امام تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روز قیامت دکھائی جانے والی شان کے وسیلہ سے مغفرت طلب کر رہے ہیں جبکہ ان کے پیروکار اسی عقیدہ کو شرک قرار دے رہے ہیں ۔
اسی کتاب کے صفحہ 79 پر حیات انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ : ’’انبیاء اموات نبود، زندہ بود‘‘ ’’انبیاء مردہ نہیں ہوتے، زندہ ہوتے ہیں‘‘۔
پھر لکھتے ہیں کہ ’’ایک بار موت کے وقت ان کی روح جسم سے نکالی جاتی ہے اور اس کے فوری بعد روح، بدن میں لوٹا دی جاتی ہے اور وہ جسم اور روح کے ساتھ قبروں میں زندہ ہوتے ہیں‘‘۔
علامہ بھوپالی کے ذکر کردہ یہ الفاظ ہمارا عقیدہ ہیں جبکہ ان کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ (معاذاللہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب حیات نہیں ہیں ، جسمانی طور پر زندہ نہیں ہیں ، (معاذاللہ) مٹی ہوگئے صرف روح ہی روح ہے ۔ الغرض وہ کلیتاً موت کے قائل ہیں جبکہ مولانا بھوپالی اپنے ماننے والوں کے اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح جسم میں لوٹا دی گئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ہیں ۔
حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی کا عقیدہ : علامہ اشرف علی تھانوی صاحب نے ’’امداد المشتاق‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کو جمع کیا اور ان فرمودات کی شرح کی ۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد انبیٹھوی اور اکابر علمائے دیوبند کے بھی شیخ ہیں اور یہ سب ان کے خلفاء، مریدین اور تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ گویا آپ کُل کے شیخ ہیں اسی لئے ان کو شیخ الکل اور شیخ العرب والعجم بھی کہتے ہیں، حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ان سے خلافت حاصل ہے گویا آپ مرجع ہیں ۔
مولانا تھانوی صاحب امداد المشتاق کے صفحہ نمبر 44 پر حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کا قول بیان کرتے ہیں کہ حضور سیدنا غوث الاعظم کے کچھ مریدین کشتی میں سفر کر رہے تھے ، آپ اس وقت کچھ اولیاء کے ہمراہ بغداد میں موجود تھے، کشتی، طوفان میں غرق ہونے لگی تو حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے توجہ باطنی سے اس کشتی کو غرق ہونے سے بچا لیا ۔ تھانوی صاحب لکھتے ہیں ۔
’’ایک دن حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سات اولیاء اللہ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے، ناگاہ نظرِ بصیرت سے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جہاز قریب غرق ہونے کے ہے، آپ نے ہمت و توجۂ باطنی سے اس کو غرق ہونے سے بچا لیا‘‘۔
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی تالیف ہے اور وہ اپنے قلم سے حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کو ’’حضرت غوث الاعظم‘‘ لکھ رہے ہیں۔ کیا آج ان کے پیروکار حضور سیدنا غوث الاعظم کو غوث الاعظم کہنے کو تیار ہیں ؟ (چشتی)
اسی کتاب کے صفحہ نمبر 71 پر ایک سوال کا جواب دیتے ہیں کہ کسی نے کہا کہ یہ جو مشہور ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی مردوں کو کہتے ’’قُمْ بِاِذْنِیْ‘‘ ’’میرے حکم سے زندہ ہوجا‘‘، تو آپ کے حکم سے مردے زندہ ہوجاتے، کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے ؟
اپنی کتاب میں تھانوی صاحب بحوالہ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب لکھتے ہیں اور پھر اس کو رد نہیں کرتے بلکہ فائدہ میں اس کی تائید کرتے ہیں ۔
جواب لکھتے ہیں : ہاں یہ درست ہے اس لئے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ قربِ نوافل کے درجے میں تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه‘‘ (اللہ کے حکم سے زندہ ہوجا) کہہ کر مردہ زندہ کرتے اور آپ قربِ فرائض کے درجے میں تھے، آپ کا مرتبہ اونچا تھا۔ قربِ فرائض کے درجے میں قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه کہے تومردے زندہ ہوتے ہیں اور قربِ نوافل کے درجے میں ولی قُمْ بِاِذْنِیْ کہے تو مردے زندہ ہوتے ہیں۔ لہذا اس عقیدے کو کفر اور شرک کہنا جہالت ہے ۔
اسی طرح صفحہ نمبر 110 پر تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرماتے ہیں کہ ’’میں جب مکہ گیا (ان کی قبر مبارک بھی مکہ معظمہ، جنت المعلی میں ہے) تو میرے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا، فاقے آتے رہے، میں نے ایک دن کسی سے قرض مانگا، اس نے مجھے انکار کر دیا، پریشان تھا۔ (آپ چونکہ سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھے) ایک دن مکہ معظمہ میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری چشتی کی زیارت ہوئی اور فرمایا کہ امداد اللہ اب کسی سے قرض نہ مانگنا، آج کے بعد آپ کا خزانہ بھرا رہے گا۔ اس کے بعد کبھی فاقہ نہ آیا، خزانہ بھرا رہتا ہے، لنگر بھی چلتا ہے اور تقسیم بھی کرتا ہوں ۔
اسی طرح صفحہ نمبر 78 پر تھانوی صاحب، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’حضور غوث الاعظم پر ہمیشہ ایک بادل سایہ کئے رکھتا تھا اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ کی برکت تھی ۔
تھانوی صاحب یہ سب کچھ لکھ کر رد نہیں کرتے بلکہ فائدہ کے عنوان سے ہیڈنگ قائم کرکے اس کی تائید بھی کرتے ہیں ۔
اسی طرح صفحہ 92 پر لکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کے ایام اور عرس کے موقع پر نذر و نیاز کا طریقہ قدیم زمانے سے جاری ہے (حیرت ہے) اس زمانے کے لوگ انکار کرنے لگ گئے ہیں ۔
میلاد شریف کے حوالے سے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا قول تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ میلاد شریف کا انعقاد میں بھی کرتا ہوں ، شرکت بھی کرتا ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف میں سلام پر قیام بھی کرتا ہوں اور لذت بھی پاتا ہوں۔ کسی نے اس عمل کی دلیل پوچھی تو فرمایا : مولد شریف تمامی اہل حرمین شریفین کرتے ہیں ۔ ہمارے لئے تو حرمین شریفین کا عمل ہی کافی ہے اور حجت ہے۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے اہلِ حرمینِ شریفین کی بات کررہے ہیں)
یہ چند نمونے میں نے آپ کو مثا ل کے طور پر بیان کئے کہ ان مسالک و مکاتب فکر کے ائمہ کے اصل عقائد یہ تھے ۔ افسوس آج ان ہی کے پیروکار اپنے ائمہ ہی کی عقائد کی تردید کرتے نظر آتے ہیں ۔
تھانوی صاحب نے اپنے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے عربی زبان میں استغاثہ لکھا ہے یعنی ان کو مدد کے لئے پکارا اور یہ تھانوی صاحب کی کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ‘‘ میں درج ہے لکھتے ہیں :
يَا مُرْشَدِیْ يَا مَوْلَائِیْ يَا مَفْزَئِیْ
يَا مَلْجَیءِ فِی مَبْدَئِیْ وَمَعَادِیْ
اِرْحَمْ عَلَیَّ يَاغَيَاث فَلَيْسَ لِیْ
کَافِیْ سِوَا حُبُّکَ مِنْ ذالِیْ
يَاسَيِّدِی لِلّٰهِ شَيْئًا اِنَّه
اَنْتُمْ لِیْ مَجْدِیْ وَاِنِّیْ جَالِی
تھانوی صاحب اپنے مرشد کے بارے لکھ رہیں ہیں ۔ ’’اے میرے مرشد حاجی امداد اللہ شيئا للّٰه‘‘ مگر جب ہم ’’يا شيخ عبدالقادر جيلانی شيئا للّٰه‘‘ کہیں تو تھانوی صاحب کے پیروکار اسے شرک قرار دیتے ہیں۔ یہی جملے تھانوی صاحب اپنے مرشد کے لئے لکھ رہے ہیں تو اس کو شرک قرار نہیں دیا جاتا ۔ اگر یہ شرک ہے تو بشمول تھانوی صاحب سارے ہی مشرک ہیں، کوئی مسلمان نہیں بچتا اور اگر ’’يا حاجی امداد الله مهاجر مکی رحمة الله عليه شيئا للّٰه‘‘ کہنا جائز ہے تو دوسرے اکابر اولیاء کے لئے بھی جائز ہے ۔
پھر تھانوی صاحب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : ⬇
يَاشَفِيْعَ الْعِبَاد خُذْ بِيَدِیْ
اَنْتَ فِی الْاضْطِرَارِ مُعْتَمَدِیْ
’’اے لوگوں کی شفاعت کرنے والے میرے ہاتھ تھام لیجئے۔ مصائب و مشکلات میں آپ پر ہی میں اعتماد و بھروسہ کرتا ہوں‘‘۔
لَيْسَ لِیْ مَلْجَاءِ سِوَاکَ اَغِثْ
مَسَّنِیَ الضُّرُّ سَيِّدِیْ سَنَدِیْ
’’آپ کے سوا میرا کوئی ملجاء نہیں میری مدد کیجئے۔ میں تکلیف میں مبتلا ہوں میرے سردار میری مدد کو پہنچئے‘‘۔
غَشَّنِیَ الدَّهْر يَابن عَبْدِاللّٰه
قُمْ مُغِيْثًا فَاَنْتَ لِیْ مَدَدِیْ
’’یامحمد بن عبداللہ، میرے سرکار سارے زمانے نے مجھے گھیر لیا ہے میرے غوث بن جایئے، میری مدد کیجئے آپ ہی میری مدد ہیں، کوئی میرا نہیں جسے مدد کے لئے پکاروں‘‘۔
دیوبندیوں کا حاجت روا ، غوث اعظم ، دستگیر اور دیوبندی مولوی کے وسیلہ سے دعا
ایصال ثواب جائز،دیوبندی پیروں کے وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز، دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔ (فیوضات حسینی ص 68،چشتی)
قطب العالم دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ثانی ہے ہے ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن)
دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء:اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات روحانی و جسمانی گیا۔(مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)
دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136،چشتی) ۔ کیوں جی یہ شرک نہیں ہے ؟
ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز۔ تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2) کیوں جی دیوبندیو یہاں شرک ہوا کہ نہیں ؟
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ پر شیطان کے حملے کا مشہور واقعہ لکھتے ہوئے حکیم الامت دیوبند نے آپ کو غوث الاعظم لکھا ۔ (امداد المشتاق صفحہ نمبر 77 )
حکیم الامتِ دیوبند نے امداداد المشتاق کے صفحہ نمبر 44 پر تین بار حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ کو غوث اعظم ، غوث پاک لکھا ۔ کیا یہ بھی مشرک ہوئے ؟
امداد المشتاق کے صفحہ 45 پر حکیم الامتِ دیوبند نے تین بار شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ حضرت غوث پاک ، حضرت غوث لکھا ۔ یہ مشرک ہوئے کہ نہیں ؟
علامہ احتشام الاحسن کاندھلوی دیوبندی نے اپنی کتاب غوث اعظم کے صفحہ 5 اور صفحہ 8 اور ٹائیٹل پیج پر حضرت شیخ عبد القادری جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم اور قطب الاقطاب لکھا ۔ کیا یہ بھی مشرک ہوئے ؟
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃُاللہ علیہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ کو غوثُ الاعظم لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں آپ کی گیارہویں شریف منائی جاتی تمام بزرگ جمع ہوتے فاتحہ اور شیرنی تقسیم ہوتی ۔ (ملفوظات عزیزی)
اگر یہی الفاظ مسلمانان اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیئے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟ اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟ اصل اسکن پیش خدمت ہیں فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے ؟
اتحادِ امت کا تیر بہدف نسخہ : سوچیں اگر کم از کم برصغیر پاک و ہند کے لوگ سب کچھ بھلا کر ہر مسلک و مکتب فکر کے بانیان کے عقائد جن کا اوپر تذکرہ ہوا، ان پر اجماع کر لیں اور سارے اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو کیا امت میں کوئی تفرقہ باقی رہے گا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام یا ان کی کتب سے حوالے اس لئے نہیں دیئے کہ ان کے عقائد ہی یہ ہیں اور ان کے ماننے والے بھی انہی عقائد پر عمل پیرا ہیں ۔ پس اگر وہ خیالات جو خود وضع کر لئے گئے اور جن کی بناء پر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اگر تمام علماء ان خیالات کو چھوڑ کر اکابر کی اپنی تحریروں، عبارتوں، عقائد، تصریحات و تائیدات پر مجتمع ہو جائیں تو کم از کم برصغیر پاک و ہند کی حد تک امت مجتمع ہو جاتی ہے اور وحدت کی لڑی میں پروئی جاتی ہے ۔
کعبہ کرتا ہے طواف درِ والا تیرا ۔ اس شعر پر اعتراض کا جواب
امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر منقبت غوث اعظم رحمۃ اللہ میں ایک شعر ہے : ⬇
سارے اقطابِ جہاں کرتے ہیں کعبے کا طواف
کعبہ کرتا ہے طواف درِ والا تیرا
اس شعر میں جس بات پر ان جہلاء کو اعتراض ہے جس میں اعتراض کی کوئی تُک بنتی ہی نہیں آیئے جواب پڑھتے ہیں ۔
خانہ کعبہ بعض اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی زیارت کو جاتا ہے
خانہ کعبہ شریف کا بعض اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی زیارت کو جانا کرامت کے طور پر جائز ہے ۔ فقہاء علیہم الرّحمہ نے بھی اسکی تائید کی ہے ۔ چنانچہ امام حصکفی رحمتہ اللہ علیہ متوفیٰ 1088ھ در مختار مین فرماتے ہیں کہ مفتی جن و انس امام نسفی رحمۃ اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ سنا ہے خانہ کعبہ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی زیارت کو جاتا ہے ، کیا یہ کہنا شرعاً جائز ہے ؟
امام نسفی علیہم الرّحمہ نے فرمایا (خرق العادۃ علی سبیل الکرامۃ لا ھل الولایۃ جائز عند اھل السنۃ) یعنی۔ خرق عادت کرامت کے طور پر اولیاء اللہ کے لیئے اہلسنت کے نزدیک جائز ہے ۔ (الدُّرُّ المختار کتاب الطلاق صفحہ 253،چشتی)
مفتی بغداد امام سیّد محمود آلوسی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کعبۃ اللہ بعض اولیاء اللہ کی زیارت کو جاتا ہے اور یہ اہلسنت کے نزدیک جائز ہے ۔ (تفسیر روح المعانی جلد 13 صفحہ 14 امام آلوسی رحمۃُ اللہ علیہ)
امام غزالی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جن کا طواف بیت اللہ کرتا ہے ۔ (احیاء العلوم جلد اوّل صفحہ 450)
مشہور دیوبندی عالم علامہ محمد زکریا کاندہلوی صاحب لکھتے ہیں : بعض اللہ والے ایسے ہوتے ہیں کہ خود کعبہ ان کی زیارت کو جاتا ہے ۔ (فضائل حج صفحہ 93 دارالاشاعت) ۔ حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی صاحب بوادر النوادر میں یہی بات لکھی ہے ۔
ولایت و مقامِ حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ ۔ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ ۔ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا ۔ (سورہ الکہف آیت نمبر 28)
ترجمہ : اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا ۔
آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ : سردارانِ کفار کی ایک جماعت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمیں غُرباء اور شکستہ حالوں کے ساتھ بیٹھتے شرم آتی ہے ۔ اگر آپ انہیں اپنی صحبت سے جدا کردیں تو ہم اسلام لے آئیں اور ہمارے اسلام لانے سے خلقِ کثیر اسلام لے آئے گی ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر روح البیان الکہف الآیۃ : ۲۸، ۵ / ۲۳۸)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرمایا گیا کہ اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و شام اپنے رب عزوجل کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں یعنی جو اِخلاص کے ساتھ ہر وقت اللّٰہ عزوجل کی طاعت میں مشغول رہتے ہیں ۔
اِس آیتِ مبارکہ سے درج ذیل مسائل معلوم ہوئے : ⬇
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت خود ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے جیسے یہاں ہوا کہ ایک معاملہ در پیش ہوا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خود تربیت فرمائی اور آپ کی کمال کی طرف رہنمائی فرمائی ۔
(2) یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھوں کے ساتھ رہنا اچھا ہے اگرچہ وہ فُقراء ہوں اور بروں کے ساتھ رہنا برا ہے اگرچہ وہ مالدار ہوں ۔
(3) یہ بھی معلوم ہوا کہ صبح و شام خصوصیت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکرکرنا بہت افضل ہے ۔ قرآنِ پاک میں بطورِ خاص صبح و شام کے ذکر کو بکثرت بیان فرمایا ہے ، جیسے اِس آیت میں بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتوں میں ہے ۔
(4) یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صالحین سے بطورِ خاص محبت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کا حکم دیا گیا ہے ۔
(5) صالحین کی دو علامتیں بھی اس آیت میں بیان فرمائیں اوّل یہ کہ وہ صبح و شام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ ہر عمل سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔
(6) مزید اِس آیت میں دنیا داروں کی طرف نظر رکھنے اور ان کی پیروی سے ممانعت کے بارے میں حکم ہے ۔ اس حکم میں قیامت تک کے مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ غافلوں ، متکبروں ، ریاکاروں ، مالداروں کی نہ مانا کریں اور ان کے مال ودولت پر نظریں نہ جمائیں بلکہ مخلص ، صالح ، غُرباء و مَساکین کے ساتھ تعلق رکھیں اور ان ہی کی اطاعت کیا کریں ۔ دنیا کی محبت میں گرفتار مالداروں کی بات ماننا دین کوبرباد کر دیتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ مال اور مالدار فی نَفْسِہٖ نہ برے ہیں اور نہ اچھے بلکہ مال کا غلط استعمال اور ایسے مالدار برے ہیں اور چونکہ مالدار عموماً نفس پرستی میں پڑ جاتے ہیں اسی لیے ان کی مذمت زیادہ بیان کی جاتی ہے ۔ اسی سے ملتا جلتا ایک حکم حدیث ِ مبارک میں ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ میری امت میں سے کچھ لوگ علمِ دین سیکھیں گے ، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امیروں کے پاس اس لیے جاتے ہیں تاکہ ان سے دنیا حاصل کرلیں اور اپنے دین کو ان سے جدا رکھتے ہیں حالانکہ یہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ کانٹے والے درخت سے پھل توڑنے میں کانٹے ہی ہاتھ آتے ہیں اسی طرح وہ ان کے قرب میں گناہوں سے نہیں بچ سکتے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب السنّۃ باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ ۱ / ۱۶۶ الحدیث : ۲۵۵،چشتی)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ اگر علماء علم حاصل کرنے کے بعد اسے محفوظ رکھتے اور اسے اہل لوگوں کے سامنے پیش کرتے تو اہلِ زمانہ کے سردار بن جاتے لیکن انہوں نے اسے دنیا والوں پر اپنی دنیا حاصل کرنے کےلیے خرچ کیا اس وجہ سے ذلیل ہو گئے ۔ میں نے رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے ’’ جس شخص کی ساری فکر آخرت کے متعلق ہے تو اللّٰہ تعالیٰ دنیا کے غموں سے اس کی کفایت فرمائے گا اور جو شخص دنیاوی اُمور میں پریشان ہوتا رہے گا اللّٰہ تعالیٰ کو اس کی پروا نہیں چاہے وہ کسی وادی میں بھی گر کر مرے ۔(سنن ابن ماجہ کتاب السنّۃ باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ ، ۱ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۵۷)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص علم صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کےلیے نہیں بلکہ دنیاوی مَقاصد کےلیے حاصل کرے تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو ہر گز نہیں پائے گا ۔ (سنن ابوداؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللّٰہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۶۶۴،چشتی)
آیت کریمہ میں مذکور یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ کے دو معانی ہیں : ⬇
عالمانہ معنی تو یہ ہے کہ ان لوگوں کی رفاقت ، معیت اور سنگت میں جم کر بیٹھ جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے اور ہر وقت اُس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں ۔
عاشقانہ معنی یہ ہے کہ چونکہ ’وَجْہٌ‘ چہرے کو کہتے ہیں ، اس لیے صوفیاء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن لوگوں کی سنگت میں جم جا جو صبح شام رب کو یاد کرتے ہیں ، یہ لوگ رب کو دنیا اور جنت کےلیے یاد نہیں کرتے بلکہ صرف رب کے مکھڑے کے طلبگار ہیں ۔
پھر فرمایا : وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْهُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا ۔
ترجمہ : کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے ؟ ۔ (سورہ الکهف ، 18 : 28)
یعنی اُن کے چہرے پر توجہ مرکوز رکھ اور ان کی طرف سے نگاہیں نہ ہٹاؤ ۔ ایسے لوگوں کے چہروں سے اگر نگاہیں ہٹ گئیں تو دنیا کے طالب بن جاٶ گے ۔
آیت کریمہ کے آخری حصہ میں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ جن لوگوں کے دل ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیے ہیں، ان کی اطاعت نہ کریں۔ یہ آیت کریمہ ’عبارۃ النص‘ ہے، اس سے ’اشارۃ النص‘ یہ ہے کہ ُان کی اطاعت کر جن کے دل ذاکر ہیں۔ یعنی غافلوں کے پیچھے نہیں بلکہ ذاکروں کے پیچھے چلا کریں۔ جو رب کے ذکر سے غافل ہے، اس کا قلب مردہ ہے، اُس کے پیچھے نہ جاؤ بلکہ قلب حییّ کے پیچھے جاؤ ۔
قرآن مجید کے اس حکم کی تصریح فرماتے ہوئے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : ألا أنبئکم بخیارکم ’ کیا میں تمہیں’خیار‘ بھلے لوگوں (اونچے درجے کے حاملین) کی خبر نہ دے دوں ؟ ‘
یعنی جو تم میں بہت اچھے لوگ ہیں، میں تمہیں اُن کی پہچان نہ بتاؤں کہ یہ کون ہوتے ہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمایئے ۔ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : خیارکم الذین إذا رؤوا ذکر ﷲ ۔
’ اُن کی ایک پہچان یہ ہے کہ جب اُن کے چہروں کو دیکھو تو ﷲ یاد آجائے ‘ ۔ (سنن ابن ماجه، کتاب الزهد باب من لا یؤبه له جلد 2 صفحہ نمبر 1339 رقم الحدیث : 4119،چشتی)
جنہیں دیکھنے سے ﷲ یاد نہ آئے ، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ان کی عزت و احترام ضرور کریں ، سلام کریں لیکن ان سے مریدی کا تعلق نہ بنائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’خیار‘ کی جو پہچان بیان فرمائی ہے، آج اسے پیمانہ بنانے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ مقصود ﷲ کی یاد دلانا ہے ، اپنی یاد کرانا نہیں ۔
سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ’غنیۃ الطالبین‘ میں مرید کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جو ہر شے کو چھوڑ کر صرف ﷲ کا ارادہ کر لے، اُس کو مرید کہتے ہیں ۔
یعنی مرید وہ ہے جو خالصتاً اللہ کا ارادہ کرے اور شیخ و مرشد وہ ہے جو ہر شے سے بندے کے قلب کا دھیان ہٹا کر اس کے دل کا تعلق صرف ﷲ سے جوڑ دے ، جو شخص اللہ کے بجائے اپنا ارادہ کرائے ، وہ سیدنا غوث الاعظم کی مذکورہ تعریف کے مطابق نہ مرید ہے اور نہ ہی شیخ و مرشد ۔
افسوس ! ہمارے تصورات خراب ہیں ، ہمارا دھیان ﷲ کی طرف نہیں اور جس کی طرف ہم دھیان کرتے ہیں اُس کا دھیان ہماری جیب کی طرف ہوتا ہے ۔ پیسے والا ہو تو اُسے قریب بٹھاتے ہیں ، کھانے کھلاتے ہیں اور جب کوئی غریب مرید آجائے تو اس سے سلام لینا تک گوارا نہیں کرتے ۔
آج کل کثیر تعداد میں کئی مشائخ اور پیرانِ کرام ایسے ہیں کہ یہ لوگ اپنے ساتھ مارکیٹنگ مینجرز بھی رکھتے ہیں جو اپنے اپنے پیروں کی کرامتیں سناتے ہیں اور ہر ایک اپنے پیر کے غوث ، سلطان الفقر اور قطب ہونے کا دعویدار ہوتے ہیں ۔ سمجھ نہیں آتی کہ مردِ کامل کون ہوتا ہے اور پیر کامل کون ہے ؟ اور ان کی پہچان پہچان ۔
پیر کامل کی بڑی سادہ سی پہچان یہ ہے کہ پیر کامل وہ ہے جسے مریدوں کی تلاش نہ ہو ۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کہا : ⬇
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق
حرص و لالچِ دنیا ، عہدہ و منصب اور اس دنیا کے ٹکوں کے پیچھے مارے مارے پھرنا ، مومن کے شایانِ شان نہیں ۔ مومن اور دنیا کے رشتہ کی مثال بندے اور سائے کی سی ہے ۔ جس طرح سایہ بندے کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے ، اسی طرح بندۂ مومن جب دنیا کی طرف سے منہ موڑ کر چلتا ہے تو دنیا ایک سایہ کی طرح اس کے پیچھے چلتی ہے ۔ پس مرشدِ کامل اور پیرِ کامل کی علامت یہ ہے کہ جو مریدوں کی تلاش میں مارا مارا نہ پھرے ۔ جو مریدوں کی تلاش میں مارا مار ا پھرتا ہے وہ تو ابھی خود مریدوں کا مرید ہے ، شیخ و مرشد کیسے ہو سکتا ہے ؟ یعنی وہ تو ابھی مریدوں کا ارادہ کیے ان کے پیچھے پھرتا ہے ، رب کا مرید کب بنے گا ؟ اسے ابھی مریدوں کی تلاش ہے ، رب کی تلاش کا سفر کب شروع ہو گا ؟
ولایت اور ولی کا معنی و مفہوم
ولایت کے چار معنی ہیں اور اس رو سے ولی کے بھی چار معنی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں : ⬇
ولایت کا پہلا معنی ’محبت‘ ہے ۔ اس لحاظ سے ولی محبت کرنے والے کو کہتے ہیں ۔
ولایت کا دوسرا معنی ’قربت‘ ہے ۔ اس رو سے ولی ’اقرب‘ یعنی قریب والے کو کہتے ہیں ۔ ماں باپ ولی ہیں ، دادا ، نانا ولی ہیں ۔ اس لیے اقرباء کو اولیاء کہتے ہیں ۔
ولایت کا تیسرا معنی ’کفالت‘ ہے ۔ مثلاً : جب کوئی کہتا ہے کہ فلاں فلاں کی ولایت میں ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی نگرانی میں ہے ۔
ولایت کا چوتھا معنی مدد و نصرت بھی ہے ۔ اس معنی کی رو سے ولی ، مدد گار کو کہتے ہیں ۔
ولایت کے مذکورہ چار معانی کی روشنی میں ہی ولی کا معنی متعین ہوتا ہے ۔ ان معانی کی وضاحت : ⬇
1 ۔ ولی : اللہ کا محب و محبوب بندہ ۔ ولایت کے پہلے معنی ’محبت و مؤدت‘ کے لحاظ سے ولی وہ شخص ہے جس کی محبت خالصتاً ﷲ کےلیے ہو جائے اور نتیجتاً ﷲ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے فرمایا : یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ ’ وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔ (سورہ المائدة، 5: 54)
معلوم ہوا کہ جب تک دو طرفہ رشتۂ محبت بین العبد و المعبود ، بین الخالق و المخلوق قائم نہ ہو جائے ، اس وقت تک بندہ ﷲ کا ولی نہیں بنتا ۔ گویا جو بندہ خالصتاً ﷲ سے محبت کرے اور اس کی محبت کا مرکز و محور ﷲ کی ذات ہو جائے تو اس کو ولی کہتے ہیں ۔
2 ۔ ولی : اللہ کا مقرب ترین بندہ
ولایت کے دوسرے معنی ’قربت‘ کے تناظر میں ولی کا معنی یہ ہوگا کہ جس شخص کو ﷲ اپنے قریب کر لے اور وہ بندہ ﷲ کے قریب ہو جائے یعنی دنیا سے اس کا دل دور ہو جائے ، حرص ، لالچ ، دنیا کی رغبت ، دنیا کی ہوس ، حسد ، کبر ، بغض ، عناد ، دشمنیوں ، غیبتوں ، چغلیوں ، لوٹ مار ، گناہ ، فسق و فجور ، الغرض ہر شے سے اس کا دل دور ہو جائے اور ہر چیز سے دور ہو کر وہ ظاہراً و باطناً صرف ﷲ کے قریب ہو جائے ۔
جب بندے کو ظاہر و باطن میں ﷲ کا قرب مل جاتا ہے اور اس کا قلب ، نفس ، روح ، ظاہر ، باطن اللہ کے قریب ہو جاتا ہے تو وہ قربتِ الٰہیہ کی وجہ سے ﷲ کا ولی ہو جاتا ہے اور پھر ﷲ بھی اس کے قریب ہو جاتا ہے ۔ حدیث مبارک کے مطابق جب یہ بندہ ایک قدم اللہ کی طرف بڑھتا ہے تو ﷲ اس کی طرف اپنی شان کے لائق کئی قدم بڑھتا ہے ۔ پس ﷲ کے اس قرب کی وجہ سے وہ بندہ ولایت کے مقام پر فائز ہوتا ہے ۔
3 ۔ ولی : اللہ کی رضا پر راضی بندہ ۔ ولایت کا تیسرا معنی ’کفالت اور سپردگی‘ ہے ۔ اس معنی کی رو سے جو بندہ خود کو ﷲ کے سپرد کر دے، اپنی مرضی چھوڑ دے ، اﷲ کی مرضی کو اپنے اوپر نافذ کر دے ، اپنی ترجیحات کو ترک کر دے اور ﷲ کے امر اور شریعت کی ترجیحات کو غالب کردے ، حلال و حرام ، جائز و ناجائز اور اللہ کی رضا و ناراضی کو ہر قدم پر ملحوظ رکھے ، اسے ولی کہتے ہیں ۔
تمام امور میں ﷲ کے اوامر و نواہی اور معاملاتِ زندگی میں بندہ جب شریعت کے احکام کی پیروی اس طرح کرے کہ اپنی زندگی ﷲ کے امر کی نگرانی اور کفالت میں دے دے ، خود سے فناء ہو جائے اور خود کو ﷲ کے امر کے سپرد کر دے تو ﷲ اس کا کفیل بن جاتا ہے ۔
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بندے کو چاہیے کہ خود کو ﷲ کی کفالت ، نگرانی میں اس طرح دے دے جیسے مُردہ غسّال کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔
یعنی جس طرح غسّال میت کو نہلاتا ہے ، اسے الٹا سیدھا ، دائیں بائیں پلٹتا ہے ، اس وقت اس مُردے کی مرضی نہیں رہتی بلکہ وہ مکمل طور پر غسّال کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح بندہ بھی اپنے آپ کو اپنے مولیٰ کے سپرد کردے اور اُس کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اس کی تعلیمات و احکامات کو اپنے ہر معاملہ پر غالب کر دے ۔ اس لیے کہ مُردہ کہتے ہی اس کو ہیں جس کی مرضی نہ رہے ، جس کی اپنی حرکت اور ترجیح نہ رہے ، غسّال جیسے چاہے ، اپنی مرضی مُردے پر چلاتا ہے ۔ گویا جب تک بندہ بشکلِ مُردہ اپنے آپ کو ﷲ کے امر کے سپرد نہ کر دے ، ولایت تک نہیں پہنچ سکتا ۔
جب اللہ کا امر اس پر اس طرح چلے جیسے غسّال کا امر مُردے پر چلتا ہے تو اللہ کا امر چاہے اسے الٹائے یا پلٹائے ، بیمار کرے یا صحتمند کرے ، عزت دے یا عزت لے لے، نعمت دے یا چھین لے ، وہ جس حال میں رکھے ، بندہ اپنی مرضی کو فنا اور ﷲ کی مرضی کے ساتھ بقا ہو جائے تب وہ اللہ کی کامل کفالت اور نگرانی میں ہوتا ہے اور نتیجتاً کائنات کی ہر چیز اس بندے کی مطیع ہو جاتی ہے ۔
حدیثِ قدسی : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے : وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبه فاذا احببته کنت سمعه الذی یسمع به و بصره الذی یبصربه و یده التی یبطش بها ، ورجله التی یمشی بها ۔
ترجمہ : میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقائق، باب التواضع، جلد 5 صفحہ 2384 ، رقم : 6137،چشتی)
اب چونکہ اس کے اپنے کان اور سماعت نہ رہی ، لہذا اب وہ وہی کچھ سنتا ہے جو ﷲ اُسے سنانا چاہتا ہے اور جو بات ﷲ اُسے سنانا نہیں چاہتا ، اس سے وہ بہرہ ہو جاتا ہے۔ وہ وہی کچھ دیکھتا ہے جو ﷲ دکھانا چاہتا ہے اور جس کو دیکھنے سے ﷲ نے روکا ہے، اس سے اس کی آنکھ ہی بند ہو جاتی ہے ۔ الغرض اُس کے ہاتھ ، پاٶں اور دل تک اللہ کی رضا کے تابع ہوجاتے ہیں اور وہی امور سر انجام دیتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے ۔ جب بندہ اس طرح کاملاً ﷲ کی کفالت و نگرانی میں آجائے اور ﷲ تعالیٰ اسے اپنی نگرانی میں لے لے تو اس مقام کو ولایت اور اس بندے کو ولی کہتے ہیں ۔
4۔ ولی : اللہ کی مدد و نصرت کا حامل بندہ ۔ ولایت کا چوتھا معنی ’نصرت و مدد‘ کے ہیں اور ولی مدد گار کو کہتے ہیں ۔ ولی وہ ہوتا ہے جو اپنا مدد گار خود نہیں رہتا بلکہ ﷲ کی مدد سے جیتا ہے ، ﷲ کی مدد سے رہتا ہے اور ﷲ اس کا مدد گار ہو جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَهُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ ’ اور وہی صلحاء کی بھی نصرت و ولایت فرماتا ہے ۔ (الاعراف، 7: 196)
ایک اور مقام پر فرمایا : ذٰلِکَ بِاَنَّ ﷲَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ’ یہ اس وجہ سے ہے کہ ﷲ ان لوگوں کا ولی و مددگار ہے جو ایمان لائے ہیں ۔ (سورہ محمد ، 47 : 11)
اللہ جب اپنے ولی کا مدد گار ہو جاتا ہے تو پھر بندہ اپنی مدد آپ نہیں کرتا ۔ ﷲ جو چاہے کرے اور جو نہ چاہے ، نہ کرے ، بندہ کسی بھی حالت میں اس کا شکوہ نہیں کرتا ۔ ﷲ کے بندہ اور ولی کی مثال ایک کلہاڑے کی سی ہے ۔ کلہاڑا سارے جنگل کو کاٹتا ہے مگر اپنے دستے کو نہیں کاٹ سکتا ، اس لیے کہ جب تک دستہ اس کلہاڑے کے اندر ہے ، اُسے اس ہی کے ذریعہ نہیں کاٹا جا سکتا ۔ جس طرح کلہاڑا اپنا دستہ خود نہیں کاٹ سکتا ، اسی طرح ولی ﷲ باقی پورے عالم کا مددگار ہوتا ہے مگر اپنی ذات کا مدد گار نہیں رہتا ۔ وہ خود اگر بیمار ہو گا تو خود کو دم نہیں کرے گا بلکہ ﷲ کی مشیت پر چھوڑ دے گا اور طریقِ سنت پر عمل کرے گا اور علاج کروائے گا جبکہ باقی سارے بیماروں کو اس کے ایک دم سے اللہ شفا یابی دیتا رہے گا ۔ اسی طرح اگر وہ خود فاقے میں ہے تو کئی دن فاقے میں گزار دیتا ہے لیکن اپنے لیے روحانی توجہات سے اسباب حاصل نہیں کرے گا لیکن اگر لوگ فاقہ کی حالت میں اس کے پاس آئیں گے تو اس کی دعا سے ان کی تقدیریں بدلتی رہیں گی ۔ یعنی ولایت کا مطلب ہے کہ بندہ اپنا مدد گار خود نہیں رہتا ، بلکہ اللہ اس کا مددگار ہو جاتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں کوئی شخص سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہہ رہا تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ خاموشی سے بیٹھے رہے اور اس کو کوئی بھی جواب نہ دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سرِ انور نیچے کر کے مسکراتے رہے ۔ کچھ دیر گزری تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کی بات کا جواب دیا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس مجلس سے اٹھ کر گھر تشریف لے گئے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ شاید میرے جواب دینے کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ناگوار محسوس فرمایا ، اس لیے مجلس سے چلے گئے ہیں ۔ عرض کیا : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا ماجرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے آئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ابو بکر ! جب تک وہ شحص تمہیں گالیاں دے رہا تھا اور تم خاموش تھے ، یعنی اپنا دفاع خود نہیں کر رہے تھے ، اپنی مدد خود نہیں کر رہے تھے تو ﷲ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا تھا اور وہ تمہاری طرف سے جواب دے رہے تھے ۔ میں فرشتوں کے اس جواب کو سن کر مسکرا رہا تھا لیکن جب تم نے اس شخص کی ایک بات کا جواب دیا تو ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب یہ خود اپنا کفیل ہو گیا ہے ، اپنا دفاع خود کرنے لگ گیا ہے لہٰذا فرشتو ! تم واپس آجاؤ ۔ پس اس پر میں دُکھی ہو کر گھر چلا آیا ۔
سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ﷲ کا ولی اگر اپنا دفاع خود کرے تو ﷲ اس کے دفاع اور مدد سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے ۔ اس لیے ﷲ کا ولی اپنا دفاع اور مدد خود نہیں کرتا ، لوگ جو چاہیں کریں ، وہ خاموش رہتا ہے ۔ اس صورت حال میں رب خود اس کا دفاع بھی کرتا ہے اور اس کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کا اعلان بھی کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے ولی کا دل ہر وقت دعا گو ہی رہتا ہے ، ولی ہر ایک سے مسکرا کر ملتا ہے ، دعا دیتا ہے ، کسی سے غیض و غضب نہیں کرتا ۔
امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو علی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں : ولی وہ ہے جو اپنے حال اور جان سے فنا ہو جائے اور مشاہدۂ حق میں اس کو بقاء نصیب ہو جائے یعنی وہ اپنے معاملات کا خود حاکم اور متصرف نہیں ہوتا بلکہ توکل اور تفویض کے اس درجے پر پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے معاملات سے علی طریق التوکل ، علی طریق الرضا، علی طریق التفویض فنا ہو جاتا ہے ۔ اپنی پسند و نا پسند کو فنا کر دیتا ہے ، کسی کی کوئی چغلی ، شکایت ، نفس کی اشتعال انگیزی ، کسی پر کیچڑ اچھالنا ، کسی کے اوپر گفتگو اور نقدو جرح کرنا ، یہ صوفیا اور اولیاءاللہ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ نفس اور شیطان کا کام ہے ۔ جب ولی اپنے حال سے فانی ہو گیا تو اسے اب کسی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، وہ کسی کے بارے تجسس نہیں کرتا بلکہ اللہ کے مشاہدہ ، امر اور اس کی رضا میں باقی ہوتا ہے ۔
یہاں تک کہ اللہ اس کے تمام امور کی نگرانی اپنے ذمے لے لیتا ہے ۔ اللہ اس کے امور کی نگرانی اس طرح فرماتا ہے کہ اُسے اپنے احوال کی خبر نہیں رہتی اور وہ کسی اور جگہ قرار نہیں پاتا ، اس کی طبیعت پنجرے میں بند پرندے کی طرح تڑپتی رہتی ہے ۔
علاماتِ اولیاءاللہ
اولیاءاللہ و صوفیاء سے پوچھا گیا کہ ولی کی کیا علامت ہے ؟ تو کبار اولیاءاللہ نے فرمایا : علامة الولی ثلاثة: شغله باﷲ وفراره الی الله وهمه ﷲ ۔
ترجمہ : اولیاء کی علامتیں تین ہیں ۔ شغلہ باللہ : جس کا قلب و باطن، روح ، ارادہ ، خیال ، توبہ ، محبت اور دھیان ہر وقت ﷲ کے ساتھ مشغول رہے ۔ ﷲ کے سوا اس کا دل اور ذہن کسی اور سے مشغول نہیں ہوتا ۔ لہٰذا جب کسی سے مشغول نہیں ہوگا تو رذائلِ اخلاق غیبت ، چغلی ، حسد ، مسابقت ، نفرت ، تہمت ، الزام تراشی ، حرص ، طمع ، کبر ، نخوت ، لالچ سے محفوظ رہے گا ۔
و فرار الی ﷲ : اس کا دل زہد عن الدنیا سے ایسا مالا مال ہوتا ہے کہ دل ہر شے سے بھاگ کر ﷲ کی طرف راجع ہو جاتا ہے ۔ ﷲ کے تعلق کے سوا اسے سکون نہیں ملتا ، ﷲ کے انس کے سوا اسے قرار نہیں ملتا اور ﷲ کے وصال کے سوا اسے اطمینان نہیں ملتا ۔
وھمہ ﷲ : اس کا فکر و خیال اور ارادہ و ہمت ہر وقت خالصتاً ﷲ کےلیے رہتی ہے ۔
حضرت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بندہ اگر یہ مقام چاہتا ہے کہ اُسے ﷲ کی دوستی اور صفائے قلب نصیب ہوجائے تو : کن مع ﷲ بلا خلق و کن مع الخلق بلا النفس ’ تصوف میں اعلیٰ درجہ اور ولایت یہ ہے کہ ﷲ کے ساتھ معاملہ ایسا ہو کہ مخلوق درمیان میں نہ رہے اور مخلوق کے ساتھ معاملہ ایسا ہو کہ نفس درمیان میں نہ رہے ۔
یعنی ﷲ کے معاملے سے اگر مخلوق درمیان میں سے نکل جائے اور مخلوق کے ساتھ معاملے میں نفس ، ’میں‘ نکل جائے تو بندہ ولی ہو جاتا ہے ۔ اگر ﷲ کی رضا کےلیے ہم کسی پر احسان کریں تو درمیان سے مخلوق اس طرح نکل جائے کہ اب جس پر احسان کیا گیا ہے بھلے وہ ہمیں گالی دے لیکن ہماری طبیعت میں ملال نہ آئے ، اس لیے کہ ہم نے مخلوق کےلیے اس پر احسان نہیں کیا ۔ جب اللہ کی رضا کےلیے کسی کے ساتھ بھلائی کی تو اس کی زیادتی سے ہمیں رنج نہیں ہونا چاہیے ، اس لیے کہ ہم نے مخلوق کےلیے نہیں بلکہ ﷲ کےلیے اس پر احسان کیا ۔ الغرض ﷲ کے ساتھ جو معاملہ کیا ، اس میں مخلوق نظر نہ آئے اور اگر کوئی معاملہ مخلوق کے ساتھ کیا تو درمیان میں نفس نہ آئے تو اس کو ولایت کہتے ہیں ۔
جب ہم ولایت کے مذکورہ تمام معانی و مفاہیم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس حوالے سے حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ آسمانِ ولایت پر سب سے بلند و ارفع ستارے کی مانند چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہم اکثر حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے ان اقوال اور کرامات کو بیان کرتے ہیں جو صوفیاء و اولیاءاللہ کی کتابوں میں ہیں مگر یہ امر ذہن نشین رہے کہ محدثین ، فقہاء اور ائمہ علم نے بھی تواتر کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کے علمی و روحانی مقام کو بیان فرمایا ہے ۔ صرف عقیدت مندوں ہی نے آپ رضی اللہ عنہ کا یہ مقام نہیں بنارکھا بلکہ جلیل القدر ائمہ علم ، ائمہ تفسیر اور ائمہ حدیث نے بھی اسے بیان کیا ہے ۔
امام یافعی شافعی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی کرامات کے تواتر پر اجماع ہے اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔
اسی طرح امام ابو الحسن علی بن جریر شافعی ، امان ملا علی قاری ، امام ذہبی اور دیگر ائمہ علیہم الرحمہ نے بھی آپ کے علمی و روحانی مقام کو بیان کیا ہے : ⬇
حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نہ صرف خود محدث ، مفسر اور امام تفسیر ہیں بلکہ آپ کے دس کے دس صاحبزادے وقت کے عظیم محدث اور فقیہ ہوئے ۔ آپ کے نہ صرف صاحبزادے بلکہ پوتے ، پوتیاں اور پڑپوتے پڑپوتیاں بھی محدث ہیں ۔ صاحب قلائد الجواہر نے اپنی زندگی میں حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے 12 پشتوں تک کے احوال کا مطالعہ کیا ، وہ لکھتے ہیں کہ : آپ رضی اللہ عنہ کی بارہ پشتوں تک کے افراد میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی عظیم مفسرین ، محدثین ، فقہاء اور ائمہ علم ہوئی ہیں ۔ یعنی اتنا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سرکارِ غوث پاک کی اولاد نے ان کے فیض سے تقسیم کیا ہے ۔
آپ کی مجلسِ درس میں تین سو سے زائد کبار اولیاء موجود ہوتے اور سینکڑوں کی تعداد میں رجال الغیب موجود ہوتے۔ آپ نے امرِ الٰہی کے تحت جب یہ ارشاد فرمایا : قدمی هذه علی رقبة کل ولی ﷲ ’ میرا یہ قدم روئے زمین کے ہر ولی کی گردن پر ہے ۔
آپ رضی اللہ عنہ کے اعلان کے وقت جتنے اولیاء آپ کی مجلس میں موجود تھے انہوں نے نہ صرف اپنے سروں کو جھکا کر اطاعت کا اعلان و اظہار کیا بلکہ اس وقت روئے زمین پر جتنے بھی اولیاء و صلحاء موجود تھے، انہوں نے بھی اپنے اپنے مقامات پر آپ رضی اللہ عنہ کی ولایتِ کبریٰ کے سامنے سرِتسلیم خم کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے اس اعلان پر حضرت علی بن الحیطی رحمۃ اللہ علیہ نے عملاً اپنا سر نیچے کر کے آپ کا پائوں اپنی گردن پر رکھ لیا اور تمام اولیاء نے گردنیں جھکا دیں۔
امام علی بن البرکات بیان کرتے ہیں کہ میرے عم بزرگ امام عدی بن المسافر بیان کرتے تھے کہ اولین و آخرین اولیاء میں سے قدمی ہذہ علی رقبۃ کل ولی اﷲ کہنے کا امر سوائے حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی کو نہیں ہوا کیونکہ آپ کا ولایت میں مقام مقامِ فرد تھا۔
سلسلہ رفاعیہ کے شیخ امام رفاعی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحتاً فرمایا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے سواء کسی کو یہ امر نہ تھا۔ آپ جب امرِ الٰہی سے یہ اعلان فرما رہے تھے تو اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ کثرتِ کرامات میں آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی ثانی نہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کے طریق سے ہٹ کر کسی شخص کو ولایت نصیب نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کے جملہ طرق اور سلاسل حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے فیض سے فیضیاب ہوئے۔
اللہ کا ولی سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتا ’لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْن‘ کا فرمان الہٰی ان کی زندگی کے ہر پہلو پر نمایاں نظر آتا ہے۔ انہیں کسی کا طمع اور لالچ نہیں ہوتا۔حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بنو عباس کے خلفاء حکمران رہے۔ آپ ان حکمرانوں کے غلط کاموں پر فوراً گرفت فرماتے اور ان کی اصلاح فرماتے۔ ان حکمرانوں سے کسی بھی قسم کا کوئی خوف کبھی آپ کے دامن گیر نہ رہا۔ آپ خطاب کے دوران منبر پر ان خلفاء کو ’یا نخل‘، (اے کھجور کے تنے) کہہ کر مخاطب فرماتے، یعنی آپ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ آپ ان سے کلیتاً بےنیاز رہتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو کسی ایک دن بھی کسی بادشاہ یا حکمران کے در پر نہیں دیکھا گیا بلکہ خلفا آپ کی مجلس میں سائل بن کر بیٹھتے۔ آپ رضی اللہ عنہ ان حکمرانوں کی اصلاح کرتے ہوئے فرماتے:
یا نخل لا تتعدی، اقطع رأسک.
’اے کھجور کی شاخ! حد سے نہ بڑھ، میں تمہارا سر قلم کر دوں گا۔‘
آپ کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ خلیفہ المستنجد باللہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں آیا اور آپ کا وعظ سنتا رہا، جب اختتام ہوا تو آگے بڑھا اور بیس تھیلیاں دینار آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
انہیں لے جاؤ، مجھے ان کی حاجت نہیں ہے۔ اس نے جب بہت اصرار کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے دو تھیلیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور انہیں ہاتھ میں اٹھا کر نچوڑا تو دینار کی بھری ہوئی دونوں تھیلیوں سے خون ٹپکنے لگا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اگر مجھے کئی امور کا حیا نہ ہوتا تو میں انہیں اتنا نچوڑتا کہ یہ خون تمہارے محلات تک پہنچ جاتا۔ ظالم تم اللہ سے نہیں ڈرتے اور غریب لوگوں اور رعایا کا خون چوستے ہو، ان کا مال لوٹتے ہو اور ان کا نذرانہ بنا کر میرے پاس لے آتے ہو۔
یہ حضور غوثِ اعظمص کی ولایت کا مقام ہے کہ ماسوا اللہ سے بے نیازی اور بے خوفی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔
تعلیماتِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ ہم سابقہ مضامین میں بحوالہ عرض کر چکے ہیں انہیں کتب سے ماخوذ خلاصةً پیشِ خدمت ہیں : ⬇
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ تصوف کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:بندے تو شوق اور اشتیاق سے اللہ کو یاد کر، وہ تجھے تقرب اور وصال سے یاد کرے گا۔ تو حمد و ثنا سے اسے یاد کر، وہ تمہیں انعام و احسان سے یاد کرے گا۔ تو اسے توبہ سے یاد کر، وہ تجھے بخشش سے یاد کرے گا۔ تو اسے ترکِ غفلت سے یاد کر، وہ تجھے ترکِ مہلت سے یاد کرے گا۔ تو اسے ندامت سے یاد کر، وہ تجھے کرامت سے یاد کرے گا۔ تو اسے معذرت سے یاد کر، وہ تجھے مغفرت سے یاد کرے گا۔ تو اسے اخلاص سے یاد کر، وہ تجھے نفس سے خلاصی سے یاد کرے گا۔ تو اسے تنگ دستی میں یاد کر، وہ تجھے فراخ دستی سے یاد کرے گا۔ تو اسے فنا ہوکر یاد کر، وہ تجھے بقا دے کر یاد کرے گا۔ تو اسے صدق سے یاد کر، وہ تجھے رزق سے یاد کرے گا۔ تو اسے تعظیم سے یاد کر، وہ تجھے تکریم سے یاد کرے گا۔ تو اسے ترکِ خطا سے یاد کر، وہ تجھے بخشش و عطا سے یاد کرے گا۔
توکل کی تعلیم دیتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے بندے تو تمام اغیار کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ سے لو لگا لے اور ظاہری اسباب کو بھول کر مسبب میں گم ہو جا۔ وہ مسبب تجھے اسباب سے بالاتر و بے نیاز کر دے گا‘۔
یہ مقامِ توکل ہے اور توکل کا مقام حقیقتِ اخلاص کے بغیر نہیں ملتا اور حقیقتِ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ بندہ عمل کرے مگر کسی عمل کا معاوضہ اور اجر و جزا طلب نہ کرے۔ بندہ جب تک دنیا اور آخرت کے ہر معاوضے سے آزاد نہ ہوجائے، اس کا قلب و باطن اللہ تعالیٰ سے متصل نہیں ہوتا۔
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے الفتح الربانی میں ارشاد فرمایا:
لوگو! تمہارے اندر نفاق بڑھ گیا ہے اور اخلاص کم ہو گیا، اقوال بڑھ گئے اور اعمال کم ہو گئے ہیں اور جس میں نفاق بڑھ جائے، اخلاص کم ہو جائے تو وہ بندے قربِ حق کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں‘۔
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے بغداد کے منبر پر ستر ہزار افراد، صلحا اور سامعین کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’لوگو! یہ دنیا ایک بازار ہے تھوڑی دیر کے بعد اس بازار میں کوئی باقی نہیں رہے گا۔ دکانیں بند ہونے کو ہیں، یہ جو چہل پہل بازارِ دنیا میں نظر آ رہی ہے، نہیں رہے گی۔ لوگو! تم اس دنیا کے بازار سے وہ سودا خریدو جس کی آخرت کے بازار میں ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس بازار کے بند ہونے کے بعد ایک اگلا بازار کھلنے والا ہے‘۔
اس دنیاوی بازار میں کہیں شہواتِ نفسانی کا سامان پڑا ہے، کہیں لذاتِ بدنی کے سامان ہیں، کہیں تکبر، حرص، نفس، لالچ، طمع، بغض اور عداوت کی دکان ہے اور کہیں غیبت، نفاق، دنیا طلبی، فسق و فجور، بربادی، زنا، چوری، گناہ، کذب اور منافقت کی دکانیں ہیں۔ الغرض یہاں ساری نافرمانیوں، معاصی اور گناہوں کی دکانیں سجی ہیں۔
آج انسان اِن کی خریداری کرتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ جب اگلے بازار میں جائے گا اور اس سودے کو بیچنا چاہے گا تو وہاں تو خریدار اللہ ہے، یہ سودا وہاں فروخت نہیں ہوگا اس لیے کہ اللہ کو یہ سودا نہیں چاہیے۔
وہاں کا سودا یہ ہے کہ وہ خریدار (اللہ) یہ چاہتا ہے کہ دنیا سے قیام اللیل اور رات کے اندھیرے میں سجدوں کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ توبہ، گریہ و زاری، تقویٰ، زہد اور ورع کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ یقین، توکل، اللہ کی اطاعت، عبادت بندگی، پرہیزگاری، ترکِ گناہ و معصیت کا سودا لے کر جاؤ ۔۔۔ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی، اتباع، متابعت اور محبت کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ الغرض وہ سودے خریدو اور وہ سامان لے کر جاؤ کہ اگلے بازار کے کھلتے ہی وہاں کا خریدار اسے لے لے، ورنہ حسرت کے ساتھ تکتے رہ جاؤ گے اور سودا نہیں بکے گا۔
حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:لوگو! اپنے قلوب کی اصلاح کر لو۔ افسوس! تم وعظ اور ذکر کی مجلسوں میں سیر کرنے کے لیے آتے ہو، علاج و معالجہ کے لیے نہیں آتے۔ مذاق اڑانے، ہنسنے اور کھیلنے آتے ہو، رونے نہیں آتے‘۔
ایک اور مقام پر فرمایا:اپنی عادت کے قیدی نہ بنو، یہ قید تمہیں آزادی کے مرتبے سے دور لے جائے گی۔ پہلے اپنے نفس کو نصیحت کرو تاکہ دوسروں کو نصیحت کرنے کے قابل ہو سکو‘۔
خود جو ڈوبا جا رہا ہو وہ کسی اور کو کیا بچائے گا۔ جو خود نابینا و اندھا ہو، وہ راہ دکھانے کے لیے کسی اور کا ہاتھ کیا تھامے گا۔ دریا سے ڈوبنے والوں کو وہی نکال سکتا ہے جو خود ڈوبنے سے بچا ہوا ہو۔ اللہ کی طرف لوگوں کو وہی پہنچا سکتا ہے جو خود معرفت حاصل کر چکا ہو۔ راستہ وہی بتا سکتا ہے جو سیدھے راستے پر خود جا رہا ہو۔
توحید و شرک کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:بندے تجھ پر افسوس کہ تیری زبان پر توحید ہے اور تیرے قلب کے کوٹھے میں شرک ہے۔ تیری زبان پر تقویٰ ہے اور تیرے دل کے کوٹھے کے اندر فسق و فجور ہے۔ ظاہر و باطن کو ایک کر لے۔ اگر ظاہر و باطن ایک ہو جائے تو اس ظاہر و باطن کی موافقت کا نام ولایت ہے۔ اسی موافقت کا نام تصوف اور فقر ہے۔
حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص آپ رضی اللہ عنہ کا مرید بھی نہ ہو، آپ سے بیعت بھی نہ کر سکا ہو، آپ سے خرقہ بھی نہ پہن سکا ہو یعنی یہ تقاضا بھی پورا نہ کیا ہو مگر آپ سے محبت کرے اور آپ کا ارادہ رکھے تو اس کا حال کیا ہو گا ؟ فرمایا:جس نے میرے ہاتھ پر بیعت بھی نہیں کی اور جس نے میرا خرقہ بھی نہیں پہنا مگر مجھ سے محبت اور اخلاص کے ساتھ اور میری تعلیمات پر عمل کے ساتھ میری طرف ارادہ کیا، قیامت کے دن وہ میرے مریدوں میں شامل ہو گا‘۔
صاحب قلائد الجواہر فرماتے ہیں کہ : حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے یہاں تک فرمایا کہ کوئی میرے مدرسہ کے سامنے سے گزر جائے اور محبت کی ایک نگاہ سے میرے مدرسہ کے در و دیوار کو دیکھ لے تو قیامت کے دن اللہ اس کے عذاب میں بھی تخفیف کر دے گا۔
اپنے ساتھ محبت کرنے والوں اور مریدین کی دست گیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لو کان مریدی فی المشرق وانا بالمغرب لسترته.
’اگر میرا مرید مشرق میں ہو اور اس کا ستر کھل جائے اور میں مغرب میں ہوں تو میں مغرب میں ہو کر بھی مشرق میں موجود اپنے مرید کی ستر پوشی کروں گا‘۔
ایک اور مقام پر فرمایا:جو میرے ساتھ منسلک ہیں اور میرے ساتھ ان کی نسبت ہے اور میرے طریق پر چلتے ہیں، میری تعلیم پر عمل کرتے ہیں تو میں ہمہ وقت ان کی بخشش اور مغفرت کے لیے اللہ کے حضور التجائیں کرتا رہتا ہوں اور ان کے لیے وسیلہ بنتا رہتا ہوں‘۔
حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور جمیع اولیاء و صوفیاء کے اقوال، تلقینات اور تعلیمات کا مضمون اصلاحِ ظاہر و باطن ہی ہے۔ اس لیے کہ ایک ہی نور سے یہ ساری شمعیں روشن ہیں۔
حقیقتِ ولایت اور تعلیماتِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے حوالے جو کچھ تمام مضامین میں بیان کیا گیا ، یہ کل تصوف کا نچوڑ ہے اور تمام اولیاءاللہ علیہم الرحمہ خواہ اُن کا تعلق کسی بھی سلسلۂ طریقت سے ہو ، اسی تصوف و روحانیت کے امین ہیں اور تمام حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فیض سے ہی مستفیض ہو رہے ہیں ۔ اللہ عزوجل ہمیں بھی حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فیض سے مستفیض فرماۓ آمین ۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ کی نظر میں
حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و مرتبہ کا ایک عظیم اظہار ’’علم‘‘ کے باب میں بھی ہمیں نظر آتا ہے ۔ عِلمِ شریعت کے باب میں ان سے متعلقہ بہت سے اقوال صوفیاء و اولیاء کی کتابوں میں ہیں اور ہم لوگ بیان کرتے رہتے ہیں مگر اس موقع پر میں حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مقامِ علم صرف آئمہ محدثین اور فقہاء کی زبان سے بیان کروں گا کہ آئمہ علم حدیث و فقہ نے ان کے بارے کیا فرمایا ہے، تاکہ کوئی رد نہ کر سکے۔ اس سے یہ امر واضح ہوجائے گا کہ کیا صرف عقیدت مندوں نے ہی آپ کا یہ مقام بنا رکھا ہے یا جلیل القدر آئمہ علم ، آئمہ تفسیر ، آئمہ حدیث نے بھی ان کے حوالے سے یہ سب بیان کیا ہے ؟
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ آپ علم میں بھی غوث الاعظم تھے ۔ اگر آپ کے علمی مقام کے پیش نظر آپ کو لقب دینا چاہیں تو آپ امام اکبر تھے ۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدر آئمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ ، علم الفقہ ، تصوف ، معرفت ، فنی علوم ، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے ۔ حضور غوث الاعظم ص ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور 90 سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیتِ مبارکہ (الکہف:18) میں بیان کردہ علم لدنی کا اظہار آپ کی ذات مبارکہ میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ بغداد میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپ کو منتقل کیا ۔ آپ کے مدرسہ میں سے ہر سال 3000 طلبہ جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔ میں آج آپ کے متعلقہ وہ باتیں اور میادین بیان کروں گا جو آپ نے پہلے نہیں سنے اور جو بیان بھی نہیں کئے جاتے ۔
بہت عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید پہلی بار آئے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکر (Army) کے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس آرمی میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کی تھی۔ گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف متہجد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم مدرسہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیدنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپ براہِ راست حضور غوث پاک کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کیا وہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فیض تھا ۔
امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی اور ان کے کزن امام عبد الغنی المقدسی الحنبلی دونوں حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں فقہ حنبلی کے جلیل القدر امام اور تاریخ اسلام کے جلیل القدر محدث ہیں۔
امام ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں کہ جب میں اور میرے کزن (امام عبدالغنی المقدسی) حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں کسبِ علم و فیض کے لئے پہنچے تو افسوس کہ ہمیں زیادہ مدت آپ کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ ملا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 90 برس تھی، یہ آپ کی حیات ظاہری کا آخری سال تھا۔ اسی سال ہم آپ کی خدمت میں رہے، تلمذ کیا، حدیث پڑھی، فقہ حنبلی پڑھی، آپ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ خلافت و مریدی پہنا۔
امام الذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ امام ابن قدامہ الحنبلی المکی المقدسی فرماتے ہیں : حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات جتنی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں اور جتنی متواتر النقل ہیں، ہم نے پہلے اور بعد میں آج تک روئے زمین کے کسی ولی اللہ کی کرامتوں کا اتنا تواتر نہیں سنا۔ ہم آپ کے شاگرد تھے اور آپ کے مدرسہ کے حجرہ میں رہتے تھے۔ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیٹے یحییٰ بن عبد القادر کو بھیجتے اور وہ ہمارے چراغ جلا جاتا تھا۔ یہ تواضع، انکساری، ادب، خلق تھا کہ بیٹا چراغ جلا جاتا اور گھر سے درویشوں کے لیے کھانا پکا کر بھیجتے تھے۔ نماز ہمارے ساتھ آ کر پڑھتے اور ہم آپ سے اسباق پڑھتے تھے ۔
علامہ ابن تیمیہ بارے ایک غلط فہمی کا ازالہ : امام ابن قدامہ المقدسی ایک واسطہ سے علامہ ابن تیمیہ کے دادا شیح ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ کے عقائد کے بعض معاملات میں بعد میں انتہاء پسندی آگئی۔ مجموعی طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ منکرِ تصوف تھے، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ ان کے بعض معاملات میں، تشریحات و توضیحات میں انتہاء پسندی تھی، جن سے ہمیں اختلاف ہے مگر مجموعی طور پہ وہ منکرِ تصوف نہیں تھے، وہ تصوف کے قائل تھے، تصوف پر ان کا عقیدہ تھا، اولیاء، صوفیاء کے عقیدتمند تھے اور طریقہ قادریہ میں بیعت تھے ۔
علامہ ابن تیمیہ کے شیح کا نام الشیخ عزالدین عبداللہ بن احمد بن عمر الفاروثی ہے۔ بغداد میں انہوں نے سیدنا شیح شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت کا خرقہ پہنا۔ گویا ایک طریق سے ان کا سلسلۂ طریقت سہروردیہ ہو گیا۔ شیخ عزالدین الفاروثی، امام موفق الدین ابی محمد بن قدامہ المقدسی کے خلیفہ اور مرید بھی ہیں اور ابن قدامہ المقدسی، حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور شاگرد ہیں۔ جنہوں نے طریقہ قادریہ میں خود غوث الاعظم سے خرقہ پہنا ۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ علامہ ابن تیمیہ کو ان کی وصیت کے مطابق دمشق میں صوفیاء کے لئے وقف قبرستان مقابرالصوفیہ میں دفنایا گیا۔ اس کو امام ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘، امام ابن حجر عسقلانی نے ’’الدرر الکاملہ‘‘، امام ذہبی نے ’’العبر‘‘ اور کل محدثین جنہوں نے علامہ ابن تیمیہ کے احوال لکھے، تمام نے بلا اختلاف اس کو بیان کیا ہے۔ یہ قبرستان صرف صوفیائے کرام کے لئے وقف تھا، وہاں دیگر علماء کی تدفین نہیں ہوتی تھی۔ آج کے دن تک علامہ ابن تیمیہ کی قبر مقابر صوفیا میں ہے۔ بعد ازاں ان کے بیٹے کی وفات ہوئی تو وہ بھی مقابر صوفیا میں دفن ہوئے ۔
علامہ ابن تیمیہ کا حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے اظہار عقیدت : علامہ ابن تیمیہ کے شیح، امام ابن قدامہ کے شاگرد تھے اور امام ابن قدامہ، حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ علامہ ابن تیمیہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم عقیدت مندوں میں سے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ کی کتاب الاستقامۃ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں اولیاء و صوفیاء میں سے سب سے زیادہ محبت و عقیدت سے جس شخصیت کا نام علامہ ابن تیمیہ نے لیا وہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ غوث، قطب، ابدال کے ٹائٹل ہمارے من گھڑت ہیں اور اکابر علماء، محدثین ان کو مانتے نہیں تھے۔ سن لیں! علامہ ابن تیمیہ، حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا نام اس طرح لکھتے ہیں : قطب العارفين ابا محمد بن عبد القادر بن عبد اﷲ الجيلی .
ترجمہ : قطب العارفین (سارے عارفوں کے اولیاء کے قطب) سیدنا شیح عبد القادر الجیلانی ۔
یعنی وہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کو اس طرح القاب کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جبکہ باقی کسی صوفی اور اولیاء میں سے کسی کا نام اس کے ٹائٹل کے ساتھ بیان نہیں کرتے۔ جس کا بھی ذکر کریں گے تو صرف اس صوفی یا ولی کا نام لکھ کر ان کی کسی بات کو نقل کریں گے۔ مثلاً : نقل الشيح شهاب الدين ابو حفص عمر بن محمد السهروردي... نقل ابو القاسم القشيري... نقل ابو عبد الرحمن السلمي... نقل بشر الحافي... قال الحارث المحاسبي... قال الجنيد البغدادي ...
مگرحضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بات آئے تو ’’الشیح‘‘ لکھیں گے یا ’’قطب العارفین‘‘ لکھیں گے یعنی ٹائٹیل کے ساتھ نام لکھیں گے۔
حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک کشف اور کرامت علامہ ابن تیمیہ الاستقامۃ کے صفحہ 78 پر بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ : شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ اوائل عمر میں ہی علوم کی کتب پڑھ لینے کے بعد میں علم الکلام، فلسفہ، منطق وغیرہ پڑھنا چاہتا تھا۔ اس حوالے سے میں متردد تھا کہ کس کتاب سے آغاز کروں؟ امام الحرمین الجوینی کی کتاب ’’الارشاد‘‘ پڑھوں یا امام شھرستانی کی کتاب ’’نہایۃ الاقدام‘‘ پڑھوں؟ یا اپنے شیخ ابو نجیب سہروردی (اپنے وقت کے کامل اقطاب اور اولیاء میں سے تھے، یہ ان کے چچا بھی تھے اور شیخ بھی تھے) کی کتاب پڑھوں؟ میری یہ متردد صورتِ حال دیکھ کر میرے شیخ امام نجیب الدین سہروردی مجھے شیح عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئے۔ میرے شیخ حضرت ابو نجیب سہروردی، حضور غوث پاک کی بارگاہ میں جا کر ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے۔ خیال تھا کہ نماز سے فارغ ہو کر جب مجلس ہوگی تو ہم حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کریں گے اور رہنمائی لیں گے اور پھر آپ جو فرمائیں گے وہ کتاب میں شروع کروں گا۔ ابھی ہم حاضر ہی ہوئے تھے، نماز بھی نہ ہوئی تھی اور مجلس بھی نہ ہوئی تھی، صرف خیال دل میں تھا۔ فرماتے ہیں کہ مجھے دیکھتے ہی غوث الاعظم میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے فرمایا : يا عمر ما هو من زاد القبر ما هو من زاد القبر .
جو کتابیں تم پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہو کیا یہ قبر میں بھی کام نہیں آئیں گی۔ یعنی جو علم الکلام، منطق، فلسفہ، کلام کی کتابیں تم پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہو اور تم پوچھنے آئے ہو، یہ قبر میں کام نہیں آئیں گی ۔
شيخ شہاب الدی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہيں : فرجعت عن ذالک. میں سمجھ گیا کہ حضور غوث الاعظم کو کشف ہوگیا ہے اور میرے قلب کا حال جان کر تصحیح کر دی۔ پھر میں نے اس علم کے حصول سے توبہ کرلی ۔
اس واقعہ کو روایت کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ان الشيخ کاشفه بما کان فی قلبه .
ترجمہ : جو ان کے دل میں تھا، شیخ عبد القادر جیلانی کو اس کا کشف ہوگیا‘‘۔
ایک مقام پر علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ : کان شيخ عبد القادر الجيلی أعظم مشائخهم، مشائخ زمانهم أمرا بالالتزام بالشرع والأمر والنهی وتقديمه علی الذوق والقدر ومن أعظم الشيخ من ترک الهواء والارادة النفسه .
امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ : محدثین اور آئمہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں بیٹھ کر آپ سے تلمذ کرتے۔ ستر ہزار حاضرین ایک وقت میں آپ کی مجلس میں بیٹھتے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے ’مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی میں لکھا ہے کہ ستر ہزار کا مجمع ہوتا، (اس زمانے میں (لاؤڈ سپیکر نہیں تھے) جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی صف کے لوگ سنتے اتنی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔ اس مجلس میں امام ابن جوزی (صاحبِ صفۃ الصفوہ اور اصول حدیث کے امام) جیسے ہزارہا محدثین، آئمہ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی، مفسر بیٹھتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے ۔
حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھے۔ امام ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو امام ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔ امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک ’’نہ‘‘ ہی کہتے رہے یعنی پہلی گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ امام ابن جوزی کا شمار صوفیاء میں نہیں ہے بلکہ آپ جلیل القدر محدث ہیں، اسماء الرجال، فن اسانید پر بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ چالیس تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا : الآن نرجع من القال إلی الحال .
ترجمہ : اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں کی طرف آتے ہیں ۔
جب حال کی پہلی تفسیر بیان کی تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام ابن جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ محدث زماں نے اپنے کپڑے پکڑ کر پرزے پرزے کر دیئے اور وجد کے عالم میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نیچے گر پڑے۔ یہ امام ابن جوزی کا حال ہے ۔
امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ : امام یافعی (جن کی کتاب کی امام ابن حجر عسقلانی نے التلخیص الخبیر کے نام سے تلخیص کی) فرماتے ہیں : اجتمع عنده من العلماء والفقهاء والصلحا جماعة کثيرون انتفعوا بکلامه وصحبته ومجالسته وخدمته وقاصد إليه من طلب العلم من الآفاق .
ترجمہ : شرق تا غرب پوری دنیا سے علماء، فقہاء، محدثین، صلحا اور اہل علم کی کثیر جماعت اطراف و اکناف سے چل کر آتی اورآپ کی مجلس میں زندگی بھر رہتے، علم حاصل کرتے۔ حدیث لیتے، سماع کرتے اور دور دراز تک علم کا فیض پہنچتا ۔
امام یافعی فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قبول عام اتنا وسیع تھا اور آپ کی کراماتِ ظاہرہ اتنی تھیں کہ اول سے آخر کسی ولی اللہ کی کرامات اس مقام تک نہیں پہنچیں ۔
امام یافعی شعر میں اس انداز میں حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ :
غوث الوراء، غيث النداء نور الهدی
بدر الدجی شمس الضحی بل الانور
(يافعی، مرأة الجنان، 3: 349،چشتی)
بعض لوگ نادانی میں کہتے ہیں کہ آپ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث الاعظم کہتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔ غوث، اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ غور کریں کہ امام، محدث اور امام فقہ ان کو غوث کہتے تھے۔ غوث الوریٰ کا مطلب ہے ساری خلق کے غوث۔ اسی طرح غیث النداء، نور الہدیٰ بدر الدجیٰ، شمس الضحیٰ یہ تمام الفاظ ان آئمہ کی حضور غوث الاعظم سے عقیدت کا مظہر ہیں ۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد، حافظ ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ جلد 12 ص 252 پر کہتے ہیں کہ حضور غوث اعظم سے خلقِ خدا نے اتنا کثیر نفع پایا جو ذکر سے باہر ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ آپ کے احوال صالحہ تھے اور مکاشفات و کرامات کثیرہ تھیں ۔
امام ابن قدامہ اور ابن رجب حنبلی وہ علماء ہیں جو علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم کے اساتذہ ہیں اور ان کو سلفی شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سلفی نہیں بلکہ غوث پاک کے مرید ہیں۔ لوگوں کے مطالعہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ غلط مباحث جنم لیتی ہیں۔ امام ابن رجب الحنبلی کو بھی پوری سلفیہ لائن کا امام سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے زیل الطبقات الحنابلہ میں سیدنا غوث اعظم کے حوالے سے بیان کیا کہ : کان هو زاهد شيخ العصر وقدوة العارفين وسلطان المشائخ وسيد اهل الطريقه محی الدين ابو محمد صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاحوال المشهوره . (ابن رجب الحنبلي، زيل الطبقات الحنابله، 2: 188،چشتی)
یہ صرف نام کے القاب نہیں بلکہ یہ حضور غوث الاعظم کا مقام ہے جسے امام ابن رجب حنبلی نے بیان کیا ہے ۔
امام ذہبی (جلیل القدر محدث) سیر اعلام النبلاء میں بیان کرتے ہیں کہ : ليس في کبائر المشائخ من له احوال وکرامات اکثر من الشيخ عبد القادر الجيلانی .
ترجمہ : کبائر مشائخ اور اولیاء میں اول تا آخر کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس کی کرامتیں شیخ عبد القادر جیلانی سے بڑھ کر ہوں ۔
شافعی مذہب میں امام العز بن عبد السلام بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ان کا نام حجت مانا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جن کو رد کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ امام العز بن عبد السلام کا قول امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں : ما نقلت إلينا کرامات أحد بالتواتر إلا شيخ عبد القادر الجيلانی .
ترجمہ : آج تک اولیاء کرام کی پوری صف میں کسی ولی کی کرامتیں تواتر کے ساتھ اتنی منقول نہیں ہوئیں جتنی حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں اور اس پر اتفاق ہے ۔
امام یحییٰ بن نجاح الادیب رحمۃ اللہ علیہ : جلیل القدر علماء آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر تائب ہوتے۔ ابو البقا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نحو، شعر، بلاغت اور ادب میں اپنے وقت کے امام یحییٰ بن نجاح الادیب سے سنا کہ میں حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں گیا، ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق جاتا تھا، میں گیا اور میں نے چاہا کہ میں دیکھوں کہ غوث الاعظم اپنی گفتگو میں کتنے شعر سناتے ہیں۔ وہ چونکہ خود ادیب تھے لہذا اپنے ذوق کے مطابق انہوں نے اس امر کا ارادہ کیا۔ صاف ظاہر ہے حضور غوث الاعظم اپنے درس کے دوران جو اشعار پڑھتے تھے وہ اپنے بیان کردہ علم کی کسی نہ کسی شق کی تائید میں پڑھتے تھے۔ درس کے دوران اکابر، اجلاء، ادبا اور شعراء کو پڑھنے سے مقصود بطور اتھارٹی ان کو بیان کرنا تھا تاکہ نحو دین، فقہ، بلاغت، لغت، معانی کا مسئلہ دور جاہلیت کے شعراء کے شعر سے ثابت ہو، یہ بہت بڑا کام ہے ۔
امام النحو والادب یحییٰ بن نجاح الادیب بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کی مجلس میں گیا اور سوچا کہ آج ان کے بیان کردہ اشعار کو گنتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں دھاگہ ساتھ لے گیا کہ ہاتھ پر گنتے گنتے بھول جاؤں گا۔ جب آپ ایک شعر پڑھتے تو میں دھاگہ پر ایک گانٹھ دے دیتا تاکہ آخر پر گنتی کر لوں۔ جب آپ اگلا شعر پڑھتے تو پھر دھاگہ پر گانٹھ دے لیتا۔ اس طرح میں آپ کے شعروں پر دھاگہ پر گانٹھ دیتا رہا۔ اپنے کپڑوں کے نیچے میں نے دھاگہ چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے دھاگہ پر کافی گانٹھیں دے دیں تو سیدنا غوث اعظمص ستر ہزار کے اجتماع میں میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے دیکھ کر فرمایا : انا احل و انت تاکد .
ترجمہ : میں گانٹھیں کھولتا ہوں اور تم گانٹھیں باندھتے ہو ۔
(ذهبی، سير اعلام النبلاء، 20: 448،چشتی)
یعنی میں الجھے ہوئے مسائل سلجھا رہا ہوں اور تم گانٹھیں باندھنے کے لیے بیٹھے ہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت کھڑے ہو کر توبہ کر لی۔ اندازہ لگائیں یہ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں آئمہ کا حال تھا ۔
امام الحافظ عبد الغنی المقدسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس دور کے بغداد کے نحو کے امام ابو محمد خشاب نحوی سے کہتے ہوئے سنا کہ میں نحو کا امام تھا، غوث اعظم کی بڑی تعریف سنتا تھا مگر کبھی ان کی مجلس میں نہیں گیا تھا۔ یہ نحوی لوگ تھے، اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔ ضرب یضرب میں لگے رہتے ہیں، انہیں ایک ہی ضرب آتی ہے، دوسری ضرب یعنی ضرب قلب سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ ایک دن خیال آیا آج جاؤں اور سنوں تو سہی شیخ عبد القادر جیلانی کیا کہتے ہیں؟میں گیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر انہیں سننے لگا ۔
میں نحوی تھا، اپنے گھمنڈ میں تھا لہذا مجھے ان کا کلام کوئی بہت زیادہ شاندار نہ لگا ۔ میں نے دل میں کہا : ’’آج کا دن میں نے ضائع کر دیا‘‘۔
بس اتنا خیال دل میں آنا تھا کہ منبر پر دوران خطاب سیدنا غوث الاعظم ص مجھے مخاطب ہو کر بولے : اے محمد بن خشاب نحوی! تم اپنی نحو کو خدا کے ذکر کی مجلسوں پر ترجیح دیتے ہو۔ یعنی جس سیبویہ (امام النحو، نحو کے موضوع پر ’’الکتاب‘‘ کے مصنف) کے پیچھے تم پھرتے ہو، ہم نے وہ سارے گزارے ہوئے ہیں۔ آؤ ہمارے قدموں میں بیٹھو تمہیں نحو بھی سکھا دیں گے۔ امام محمد بن خشاب نحوی کہتے ہیں کہ میں اسی وقت تائب ہو گیا۔ آپ کی مجلس میں گیا اور سالہا سال گزارے۔ خدا کی قسم ان کی صحبت اور مجلس سے اکتساب کے بعد نحو میں وہ ملکہ نصیب ہوا جو بڑے بڑے آئمہ نحو کی کتابوں سے نہ مل سکا تھا ۔
آئمہ حدیث و فقہ علیہم الرّحمہ نے حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مقام و مرتبہ کو نہ صرف بیان کیا بلکہ آپ کو علم میں اتھارٹی تسلیم کیا ہے۔ مذکورہ جملہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کل امام کرامتوں کو ماننے والے تھے، اولیاء کو ماننے والے تھے اور حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مند تھے۔ یہ کہنا کہ حضور غوث الاعظم کے مقام و مرتبہ اور ان کے القابات کو اعلیٰ حضرت نے یا ہم نے گڑھ لیا ہے، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حدیث، فقہ، تفسیر اور عقیدہ کے کل آئمہ نو سو سال سے ان کی شان اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں ۔
میرا یہ قدم اللہ تعالیٰ کے ہر ولی کی گردن پر ہے
حضور غوث اعظم طریقت و حقیقت میں اتنےبلند مقام پر فائز ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ”قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ” میر ایہ قدم اللہ تعالیٰ کے ہر ولی کی گردن پر ہے ۔ حافظ ابوالعز عبدالمغیث بن ابوحرب البغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ بغداد میں حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی رباط حلبہ میں حاضر تھے اس وقت ان کی مجلس میں عراق کے اکثر مشائخ رحمہم اللہ علیہم حاضر تھے ۔ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ ان سب حضرات کے سامنے وعظ فرما رہے تھے کہ اسی وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ''قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہ'' یعنی میرایہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے ۔ یہ سن کر حضرت سیدنا شیخ علی بن الہیتی رحمۃ اللہ علیہ اٹھے اور منبر شریف کے پاس جا کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قدم مبارک اپنی گردن پر رکھ لیا ۔ بعد ازیں (یعنی ان کے بعد) تمام حاضرین نے آگے بڑھ کر اپنی گردنیں جھکا دیں ۔ (بہجۃالاسرار ذکرمن حضر من المشائخ ۔ الخ صفحہ ۲۱)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ جس وقت حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد مقدس میں ارشاد فرمایا : قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ ۔ یعنی میرا یہ قدم اللہ عزوجل کے ہر ولی کی گردن پر ہے ۔ تو اس وقت حضرت خواجہ سیدنا معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی جوانی کے دنوں میں ملک خراسان کے دامن کوہ میں عبادت کرتے تھے وہاں بغداد شریف میں ارشاد ہوتا ہے اور یہاں غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا سر جھکایا اور اتنا جھکایا کہ سر مبارک زمین تک پہنچا اور فرمایا : بَلْ قَدَمَاکَ عَلٰی رَاْسِیْ وَعَیْنِیْ ۔ بلکہ آپ کے دونوں قدم میرے سرپرہیں اور میری آنکھوں پرہیں ۔ (سیرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ صفحہ ۸۹)
معلوم ہوا کہ حضور غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ سلطان الہند ہوئے اور یہاں تمام اولیائے عہد و مابعد آپ رحمۃ اللہ علیہ کے محکوم اور حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ان پر سلطان کی طرح حاکم ٹھہرے ۔
نہ کیوں کر سلطنت دونوں جہاں کی ان کوحاصل ہو
سروں پراپنے لیتے ہیں جوتلواغوث اعظم کا
حضرت شیخ احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ جب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِ اللہِ ۔ فرمایا تو شیخ احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گردن کو جھکا کر عرض کیا : عَلٰی رَقَبَتِیْ ۔ یعنی میری گردن پر بھی آپ کاقدم ہے ۔ حاضرین نے عرض کیا : حضور والا ! آپ یہ کیا فرما رہے ہیں ؟ '' تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ '' اس وقت بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ قَدَمِیْ ھٰذَہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِ اللہِ ۔ کا اعلان فرمایا ہے اور میں نے گردن جھکا کر تعمیل ارشاد کی ہے ۔ (بہجۃالاسرار ذکر من حناراسہ من المشایخ عند ماقال ذلک صفحہ ۳۳،چشتی)
سروں پر لیتے ہيں جسے تاج والے
تمہارا قدم ہے وہ یاغوث اعظم
حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ سے حضورِ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے قول : قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِکُلِّ وَلِیِّ اللہِ ۔ کے متعلق دریافت کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : بَلْ عَلٰی عَیْنِیْ ۔ یعنی گردن تو درکنار آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قدم مبارک تومیر ی آنکھوں پر ہے ۔ (تفریح الخاطر صفحہ ۲۰)
حضرت شیخ ماجد الکردی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : جب سید نا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِکُلِّ وَلِیِّ اللہِ ۔ ارشاد فرمایا تھا تو اس وقت کوئی اللہ عزوجل کا ولی زمین پر ایسا نہ تھا کہ جس نے تواضع کرتے ہوئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اعلیٰ مرتبے کا اعتراف کرتے ہوئے گردن نہ جھکائی ہو تمام دنیائے عالَم کے صالح جنات کے وفد آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر حاضر تھے اور سب کے سب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ مبارک پر تائب ہو کر واپس پلٹے ۔ (بہجۃالاسرار ذکر اخبار المشایخ بالکشف عن ہیئۃ الحال صفحہ ۲۵،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق : حضرت شیخ خلیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور عرض کیا کہ '' حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ ۔ کا اعلان فرمایا ہے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صَدَقَ الشَّیْخُ عَبْدُالْقَادِرِفَکَیْفَ لَاوَھُوَ الْقُطَبُ وَاَنَا اَرْعَاہُ ۔ یعنی شیخ عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سچ کہا ہے اور یہ کیوں نہ کہتے جب کہ وہ قطب زمانہ اور میری زیر نگرانی ہیں ۔ (بہجۃالاسرار ذکر اخبار المشایخ بالکشف عن ہیئۃ الحال صفحہ ۲۷)
حضرت شیخ حیات بن قیس الحرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ۳ رمضان المبارک ۵۷۹ء میں جامع مسجد میں ارشاد فرمایا کہ '' جب حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ ۔ کا اعلان فرمایا تو اللہ عزوجل نے تمام اولیاء اللہ کے دلوں کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کی تعمیل پر گردنیں جھکانے کی برکت سے منور فرما دیا اور ان کے علوم اور حال و احوال میں اسی برکت سے زیادتی اور ترقی عطا فرمائی ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرمن حناراسہ من المشایخ عندماقال ذلک صفحہ ۳۰)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے”قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ”بامرالہی فرمایا تھا اب بحث اس میں ہےکہ آپ کےاس ارشاد کا صحیح مطلب کیاہے ؟ کیا حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا قدم آپ کےپیر کی بھی گردن پر ؟ کیا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی گردن پر؟ جبکہ حضرت جنید بغدادی کے مقام کوحضرت بابا فرید الدین گنج رحمۃ اللہ علیہ شکریوں بیان فرماتے ہیں کہ آپ کا مقام اولیاء اللہ میں ایساہی ہے جیسا کہ فرشتوں میں سیدالملائکہ جبریل امین علیہ السلام کا ۔ بعض لوگ اولیائے متقدمین و متأخرین کو اس حکم میں داخل کرتے ہیں جو خلاف صواب ہے بلکہ یہ حکم اولیائے وقت کے ساتھ مخصوص ہے ، اولیائے متقدمین کےحق میں کیسے جائز ہو سکتا ہے جن میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں اور اولیائے متأخرین میں بھی مطلقاً کیسے جائز ہو سکتا ہے جن حضرت مہدی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں ۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے”شرح فتوح الغیب فارسی” کے دیباچہ میں تحریر فرمایا ہے کہ یہ حکم صرف اولیائے وقت کے ساتھ مخصوص ہے ۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں رقم طراز ہیں “بایددانست کہ ایں حکم مخصوص باولیائے آں وقت است اولیائے ماتقدم و ماتأخر ازیں حکم خارج اند ۔ (مکتوبات دو صد و نو دو سیوم جلداول)
حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ : طبقات الصوفیہ ” میں شیخ ابوالحسن قزوینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مذکور ہے کہ : مشائخ کبار میں سے پانچ مشائخ کو میں جانتا ہوں جو اپنی قبروں سے تصرت فرماتے ہیں بالکل ویسا ہی جیسا کہ وہ زندگی میں تصرف کرتے تھے یعنی (1) حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ (1) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (3)شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ (4) شیج عقیل منبجی رحمۃ اللہ علیہ اور (5) شیخ حیات حرّانی رحمۃ اللہ علیہ ۔ یہ سن کر حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ حضرت شیخ کبیر عباسی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ حضور ! یہ حضرات تو بیرونی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں دوسری ولایتوں کے ہیں ، آپ یہ فرمائیں کہ ہندوستان کے مشائخ میں وہ کون سے حضرات ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ان کے تصرفات باقی ہیں تب حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : مشائخ ہند کے مابین فرق مراتب کرنا سوئے ادب ہے خصوصاً خانوادہ چشتیہ کے مشائخ میں جو ہمارے پیرو مرشد ہیں یہ فرق مراتب بے ادبی ہے ۔ اس خانواده ”چشتیہ” عالیہ کے اکثر و بیشتر اولیا میں پوری پوری قوت تصرت عالم ممات میں باقی ہے خصوصاً (1) سیدی مرشدی حضرت علا الحق والدین”علاء الحق پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ” (2) حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ (3) حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ (4) حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ ۔ (لطائف اشرفی مترجم جلد ١ صفحہ ٦٩ لطیفہ نمبر ٢ مترجِم شمس بریلوی علیہ الرحمہ ناشر نذر اشرف شیخ محمد ہاشم رضا اشرفی دائرکٹر کمرشل بینک لمیٹڈ پاکستان،چشتی)
اسی طرح حضرت قدرة الکبرا سید مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : میں نے ”طبقات الصوفیہ” میں دیکھا ہے کہ : حضرت غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا تصرف ممات میں حیات سے زیادہ ہے کہ حیات میں تھوڑی سی کثافت بشری اور کچھ خبث طبعی باقی تھا جو آپ کے بعض کمالات کے ظہور و صدور میں مانع آتا تھا ۔ حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ کے کلمات ”قدمى هذه على رقبه کل ولی اللہ” کے سلسلہ میں منقول ہے کہ ایک دن جوانی کی عمر میں آپ رحمۃ اللہ علیہ حضرت شیخ حماد دبّاس رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بڑے ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تو حضرت شیخ دبّاس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : اس عجمی کا قدم ایک دن تمام اولیا کی گردن پر ہوگا وہ یقیناً اس پر مامور ہو گا بلکہ کہے گا : قدمی هذه على رقبة كل ولی الله ” میرا یہ قدم سب اولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے جب یہ کہے گا تو تمام اولیا اس وقت اپنی اپنی گردنیں جھکادیں گے چنانچہ ایک عرصہ کے بعد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی خانقاہ میں وعظ فرما رہے تھے اور اس وقت مشائخ زمانہ میں سے تقریباً پچاس حضرات وہاں موجود تھے ۔ ان مشائخ میں شیخ علی ہیتی ، شیخ بقا ابن بطو ، شیخ ابوسعید قیلوی ، شیخ ابوالنجیب سہروردی ، شیخ قضیب البان موصلی اور شیخ أبوالمسعود رحمہم اللہ علیہم اجمعین بھی موجود تھے جیسے ہی اثناء وعظ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : “قدمى هذه على رقبه كل ولی الله” تو شیح علی ہیتی رحمۃ اللہ علیہ منبر کے قریب گئے اور آپ کا قدم مبارک پکڑ کر اپنی گردن پر رکھ لیا اور شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دامن کے نیچے آ گئے اسی طرح تمام مشائخ عظام نے اپنی گردنیں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کر دیں ۔ شیخ ابوسعید قیلوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جس وقت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے : قدمى هذه على رقبۃ كل ولی الله ” فرمایا حق سبحانہ تعالیٰ نے میرے دل میں تجلی فرمائی اور میں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملائکہ مقربین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لائے ”ہیں” اور تمام متقدین اور متاخرین جو حیات تھے وہ اپنے اجساد کے ساتھ اور جو انتقال کر چکے تھے وہ اپنے ارواح کے ساتھ وہاں موجود ہیں ، اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مثالی خلعت آپ رحمۃ اللہ علیہ کو پہنائی ، ملائکہ رجال الغیب نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس کو اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ اور فضا میں ان کی صفیں ایستادہ کی گئیں اور روئے زمین پر کوئی ولی ایسا نہیں رہا جس نے اپنی گردن اس وقت نہ جھکائی ہو بعض حضرات کا قول ہے کہ ملک عجم میں ایک ولی نے اپنی گردن نہیں جھکائی اس کی شامت اعمال کے باعث اس کا حال چھین لیا گیا ۔ حضرت شیخ ابو مدین رحمۃ اللہ علیہ اس زمانہ میں دیار مغرب کا سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک روز اثنائے سفر میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گردن جھکائی اور کہا کہ ” اے اللہ میں تیری ذات اور تیرے فرشتوں کو اس پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے سنا اور اس کی اطاعت کی ” آپ کے ہمراہیوں نے دریافت کیا آپ یہ کس وجہ سے کہہ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ : آج ابھی ابھی شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد میں ”قدمي هذه علیٰ رقبة کل ولی الله” فرمایا ہے میں نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے ، کچھ عرصہ کے بعد حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب جب بغداد سے آئے تو انہوں نے تصدیق کی کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت وہ کلمات ادا کیے تھے جس وقت یہاں شیخ ابومدین رحمۃ اللہ علیہ نے گردن جھکا کر اقرار کیا تھا ۔ (لطائف اشرفی مترجم جلد ١ صفحہ ٧٠ لطیفہ نمبر ٢)
یہ مقدس ارشاد” قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ“ یعنی میرا یہ قدم اللہ تعالی کے ہرولی کی گردن پر ہے ، حضرت غوث اعظم سید شیخ عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سےسند محدثانہ کے ساتھ بہ تواتر منقول ہے ، جس کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ جماہیر اولیائے عظام علیہم الرحمہ زمانہ مبارکہ سے آج تک اس فرمان والاکوتسلیم کرتے ہیں ، بلکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فرمانے سے پہلے بلکہ ولادت مقدسہ سے بھی پہلے حضرات اولیائے کرام علیہم الرحمہ کی پیشینگوئیوں سے روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکا تھا اوریہ بھی مسلمات محققہ سے ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کایہ فرمانا اپنی طرف سے ہرگز ہرگز نہیں ، بلکہ حضرت رب العالمین جل وعلا کے حکم خاص سے فرمایا ، لہٰذا جو جہلا یہ کہتے ہیں کہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان کی کوئی حیثیت نہیں ، وہ سخت بدباطن ، خبیث ہیں اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس فضل کا انکار ان کے دین و ایمان کےلیے زہرِ قاتل ہے ۔ اندیشہ ہے کہ ایسوں کا خاتمہ بالخیر نہ ہو ۔
حضرت امام ابوالحسن علی بن یوسف بن حمریر لخمی بن شطنوفی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار شریف میں بسند مسلسل دو اکابر اولیاء اللہ معاصرین حضورغوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت سیدی احمد ابن ابی بکرحریمی وحضرت ابوعمروعثمان ابن صریفینی رحمہما اللہ علیہما سے دو قول روایت فرمائے ۔ پہلے کی سندیہ ہے : اخبرنا ابوالمعالی صالح بن احمد بن علی البغدادی المالکی سنۃ احدی وسبعین وستمائۃ قال اخبرنا الشیخ ابوالحسن البغدادی المعروف بالخفاف قال اخبرنا شیخنا الشیخ ابوالسعود احمدبن ابی بکرن الحریمی بہ سنۃ ثمانین وخمسامئۃ ۔
اور دوسری سندیہ ہے : اخبرنا ابوالمعالی قال اخبرنا شیخ ابومحمد عبداللطیف البغدادی المعروف الصریفینی ۔
اور ان دونوں اقوال کا متن یہ ہے کہ دونوں حضرات کرام نے فرمایا : وﷲ ما اظھر ﷲ تعالی ولایظھر الی الوجود مثل الشیخ محی الدین عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ۔ یعنی خدا کی قسم اللہ تعالی نے حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مانندنہ کوئی ولی عالم میں ظاہر کیا نہ ظاہر کرے ۔ (بھجۃ الاسرار ذکرفصول من کلام بشیء من عجائب احوالہ الخ ، صفحہ 25 مصر)
حضرت امام ابوالحسن علی بن یوسف بن حمریر لخمی بن شطنوفی رحمۃ اللہ علیہ کتاب مذکور میں حضرت سیدی ابومحمدبن عبد بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سیدنا خضرعلیہ السلام کوفرماتے سنا : مااوصل ﷲ تعالی ولیا الی مقام الاوکان الشیخ عبدالقادر اعلاہ ولاسقی ﷲ حبیبا کاساً من حبہ الاوکان الشیخ عبدالقادر اھناہ ، ولا وھب ﷲ لمقرب حالاالاوکان الشیخ عبدالقادر اجلہ ، وقد اودعہ ﷲ تعالی سرّا من اسرارہ سبق بہ جمھور الاولیاء ومااتخذ ﷲ ولیا کان اویکون الاوھو متادب معہ الی یوم القیمۃ ۔
ترجمہ : اللہ تعالی نے جس ولی کوکسی مقام تک پہنچایا ، شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا مقام اس سے اعلیٰ ہے اور جس پیارے کو اپنی محبت کا جام پلایا ، شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کےلیے اس سے بڑھ کر خوشگوار جام ہے اور جس مقرب کوکوئی حال عطا فرمایا ، شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا حال اس سے اعظم ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنے اسرار سے وہ راز ان میں رکھا ہے جس کے سبب ان کو جمہور اولیاء پر سبقت ہے اور اللہ تعالی کے جتنے ولی ہو گئے یا ہوں گے ، قیامت تک سب شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا ادب کریں گے ۔ (بھجۃ الاسرار ذکرابو محمد القاسم بن عبدالبصری صفحہ 173مصر،چشتی)
حضرت امام ابن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۹۷۴ھ) اپنے فتاویٰ حدیثیہ میں فرماتے ہیں : انھم قد یؤمرون تعریفا لجاھل او شکرا وتحدثا بنعمۃ اللہ تعالی کما وقع الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالی عنہ انہ بینما ھو بمجلس وعظہ واذا ھو یقول قدمی ھٰذہٖ علی رقبۃ کل ولی اللہ تعالی فاجابہ فی تلک الساعۃ اولیاء الدنیا قال جماعۃ بل واولیاء الجن جمیعھم وطأطئوا رء وسھم وخضعوالہ واعترفوابماقالہ الارجل باصبھان فابی فسلب حالہ ۔
ترجمہ : کبھی اولیاء کو کلمات بلند کہنے کا حکم دیا جاتا ہے کہ جو ان کے مقاماتِ عالیہ سے ناواقف ہے اسے اطلاع ہو یا شکرِ الہٰی اور اس کی نعمت کا اظہار کرنے کےلیے جیسا کہ حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کےلیے ہوا کہ انہوں نے اپنی مجلس وعظ میں دفعۃً فرمایا کہ میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ، فورًا دنیا کے تمام اولیاءاللہ علیہم الرحمہ نے قبول کیا ۔ ایک جماعت کی روایت ہے کہ جملہ اولیائے جن نے بھی اور سب نے اپنے سر جھکا دیے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے حضور جھک گئے اور ان کے اس ارشاد کا اقرار کیا مگر اصفہان میں ایک شخص منکر ہوا ، فورًا اس کا حال سلب ہو گیا ۔ (الفتاوی الحدیثیۃ مطلب فی قول الشیخ عبدالقادر قدمی ھذہ الخ صفحہ 414 داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)
فتاوی رضویہ میں ایک مقام پر سوال ہوا کہ بعض مداریوں نے حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان قدمی ھذہ علی رقبۃ ولی اللہ ۔ الخ پربحث کی ، کیا حضرت شاہ بدیع الدین مدار رحمۃ اللہ علیہ کی گردن پر بھی یہ قدم ہے یانہیں ؟
حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا : عوام کو ایسے امور میں بحث کرنا سخت مضرت کا باعث ہوتا ہے ۔ مبادا کسی طرف گستاخی ہو جائے تو عیاذاً باﷲ سخت تباہی و بربادی ، بلکہ اس کی شامت سے زوالِ ایمان کااندیشہ ہے ، حضرت شاہ بدیع الدین مدار رحمۃ اللہ علیہ ضرور اکابر اولیاء سے ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مرتبہ بہت اعلیٰ و افضل ہے ۔ غوث اپنے دَور میں تمام اولیائے عالم کا سردار ہوتا ہے ۔ اور ہمارے حضور امام حسن عسکری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سے سیدنا امام مہدی رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری تک تمام عالم کے غوث اور سب غوثوں کے غوث اور سب اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کے سردار ہیں اور ان سب کی گردن پر ان کاقدم پاک ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 26 صفحہ 560 رضافاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
حضرت علامہ ابولخیر مفتی نوراللہ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کایہ مقدس ارشاد قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ کہ میرایہ قدم اللہ تعالی کے ہرولی کی گردن پر ہے ، بالتواترثابت ہے ۔ جماہیر اولیائے عظام زمانہ مبارکہ سے آج تک تسلیم کرتے ہیں بلکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فرمانے سے پہلے بلکہ ولادت مقدسہ سے بھی پہلے حضرات اولیائے کرام کی پیشینگوئیوں سے روزروشن کی طرح واضح و ہُویدا ہوچکا تھا اوریہ بھی مسلمات محققہ سے ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمانا اپنی طرف سے ہرگز ہرگز نہیں بلکہ حضرت رب العالمین جل و علا کے حکم خاص سے فرمایا ۔ (فتاوی نوریہ جلد 5 صفحہ 166 دارالعلوم حنفیہ فریدیہ،بصیرپور)
فتاوی شارح بخاری میں ہے : قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ بلاشبہہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشادہے جو سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے سند محدثانہ کے ساتھ بہ تواتر منقول ہے ۔ جس میں کوئی شبہہ نہیں ۔ جس جاہل نے یہ کہاکہ یہ سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد نہیں ، وہ سخت بدباطن خبیث ہے ۔ اندیشہ ہے اس کا خاتمہ بالخیرنہ ہو ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 121 مکتبہ برکات المدینہ کراچی)
فتاوی شارح بخاری میں ہے : سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : انکاری سم قاتل لادیانکم “ میرا انکار تمہارے دینوں کےلیے زہرِ قاتل ہے ۔ اور اس پر تجربہ شاہد ہے ۔ جس نے بھی سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا انکار کیا یا ان کے ارشادات کو جھٹلایا ، وہ دنیا سے ایمان سلامت نہیں لے گیا خود حدیث میں فرمایا گیا : من عادلی ولیا فقد اذنتہ بالحرب “ یعنی جس نے میرے کسی ولی سے عداوت کی اس سے میں نے اعلان جنگ کر دیا ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 145 برکات المدینہ کراچی)
بعض کتابوں میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے وقت کے اولیاء اللہ علیہم الرحمہ سے لے کر قیامت تک کے اولیاء اللہ سوائے حضرت عیسیٰ و امام مہدی علیہماالسلام کے اس حکم میں داخل ہیں ۔
قطب الاقطاب ، فرد الافراد ، قطب ربانی ، محبوب سبحانی ، غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر محی الدین جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی اپنے فضائل و مناقب اور کمالات کی بنا پر جماعت اولیا میں انفرادی حیثیت کی حامل ہے ، غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ تمام اولیاے متقدمین و متاخرین سے افضل و اعلیٰ واکمل ہیں ۔
حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ⬇
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
تمام اولیاے کرام علیہم الرحمہ خواہ آپ کے قبل کے ہوں یا آپ کے ہم عصر یا آپ کے عہد مبارک کے بعد کے ہوں گے سب آپ کے مداح اور آپ کی نظر کرم کے امیدوار ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جب بحکم خداوندی غوثیت کبریٰ کا اظہار فرمایا ” قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ” یعنی میرایہ قَدم ہروَلی کی گردن پرہے ۔ تو دربارِ خداوندی اور بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض کرم اور رحمت و نور کی بارش کا جو عالم تھا اس کے متعلق اس عہد کے مشہور بزرگ امام ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب حضرت سید شیخ عبد القادر نے فرمایا میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے تو اس وقت اللہ عزوجل نے ان کے قلب مبارک پر تجلی فرمائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملائکہ مقربین کے ایک گروہ کے ہاتھ ان کےلیے خلعت بھیجی اور تمام اولیاے اولین و آخرین کا مجمع ہوا جو زندہ تھے وہ جسم کے ساتھ حاضر ہوئے اور جو دار فانی سے کوچ کر گئے تھے ان کی ارواح طیبہ آئیں اور ان سب کے سامنے وہ خلعت حضرت غوث اعظم کو پہنائی گئی ، ملائکہ اور رجال الغیب کا اس وقت اس قدر ہجوم تھا کہ فضا میں پرے( صفیں) باندھے کھڑے تھے ، تمام افق ان سے بھر گیا تھا اور روے زمین پر کوئی ایسا ولی نہ تھا جس نے گردن نہ جھکائی ہو ۔ (بہجۃ الاسرار مکمل حوالہ جات ہم سابقہ مضمون میں پیش کر چُکے ہیں)
” قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ” حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر بعض حضرات نے کہا کہ اس عموم میں اگلے پچھلے تمام اولیاے کرام علیہم الرحمہ شامل نہیں اس لیے کہ اگلے اولیا میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہیں جن کی افضلیت سب پر مسلم ہے اور متاخرین میں سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ ہیں جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت ہے لہٰذا ارشاد مذکور کا مطلب یہ ہے کہ صرف زمانہ غوثیت کے ہر ولی کی گردن پر قدم غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔
حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے : ⬇
(1) تخصیص بلا ضرورت نہیں کی جاتی ، اور کی جاتی ہے تو بقدرِ ضرورت ۔
(2) عُرْفاً لفظ اولیا کا اطلاق غیر صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم پر ہوتا ہے ، لہٰذا فرمان غوثیت "کل ولی اللہ” کے زیر اطلاق وہ نہیں آئیں گے کہ حاجت تخصیص ہو ۔
(3) کسی کی افضلیت دلیل سمعی سے ثابت ہوتی ہے ۔ سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی تفضیل پر جب کوئی دلیل نہیں تو ان افضلیت کا دعویٰ بے جا ہے ۔
(4) محض بشارت آمد ، دلیل افضلیت نہیں ورنہ بشارت تو غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کےلیے بھی ہے ۔
(5) مفضل بشارت ہونی بھی افضلیت کی مقتضیٰ نہیں ، ورنہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو ان ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ماننا پڑے گا جن کے متعلق کوئی تفصیلی بشارت مسموع نہیں ۔
(6) امام مہدی رضی اللہ عنہ کا خلیفة اللہ ہونا بھی ان کی افضلیت کا مقتضیٰ نہیں ۔ کیوں کہ یہ خلافتِ الٰہیہ براہ راست تو ہے نہیں ، بوسائط ہے ۔ یہ سرکار غوثیت کو بھی حاصل ہے ۔
(7) بر سبیل تنزل اگر مان لیا جائے کہ سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت ہے اور لفظ اولیا کا اطلاق صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کےلیے عام ہے ، اور اس بنا پر غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ میں تخصیص کی جائے ، تو صرف بقدرِ ضرورت تخصیص کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ سرکار غوثیت مآب رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد مذکور سے صحابہ و تابعین اور سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہم مستثنیٰ کیے جائیں گے ۔ نہ یہ کہ تخصیص کا دائرہ اتنا عام کر دیا جائے کہ تمام اولیاے متقدمین و متاخرین علیہم الرحمہ کو محیط ہو جائے اور حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان صرف ان کے اہلِ زمانہ کےلیے محدود کر دیا جائے ۔ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ ضرورت کے تقاضے پر اگر کہیں تخصیص کی جائے تو بس بقدرِ ضرورت اور اس سے زیادہ تجاوز ناروا ۔ (مقالات مصباحی صفحہ 206)
حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ہمارے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ امام حسن عسکری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سے سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری تک تمام عالم کے غوث اور سب اولیا اللہ کے سردار ہیں اور ان سب کی گردن پر ان کا قدم پاک ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 26)
بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین و حریم
کہ ہوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا
فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۸ (کتاب الشتّٰی)
رسالہ فتاوٰی کرامات غوثیہ
مسئلہ اولٰی : از اوجین ریاست گوالیار مرسلہ جناب محمد یعقوب علی خاں صاحب ۱۷ربیع الآخر ۱۳۱۰ھ
مسئلہ ۱۲:کیافرماتے ہیں علمائے حق الیقین اورمفتیان پابند شرع متین اس مسئلہ میں کہ عبارت نظم "شام ازل اورصبح ابد"سے بیٹھ جانا براق کا وقت سواری آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ثابت ہے۔
"مقولۂ جبرئیل علیہ السلام"
نظم
مسند نشین عرش معلٰی یہی تو ہے
مفتاح قفل گنج فاوحٰی یہی تو ہے
مہتاب منزل شب اسرٰی یہی تو ہے
خورشید مشرق فتدلّٰی یہی تو ہے
ہمراز قرب ہمدم اوقاتِ خاصہ ہے
ہژدہ ہزار عالمِ رب کا خلاصہ ہے
سن کر یہ بات بیٹھ گیا وہ زمیں پر
تھامی رکاب طائرسدرہ نے دوڑکر
رونق افزائے دیں ہوئے سلطان بحروبر
کی عرض پھر براق نے یا سید البشر
محشرکو جب قدم سے گہر پوش کیجیے
اپنے غلام کو نہ فراموش کیجیے
خیرالورٰی نے دی اسے تسکیں کہا کہ ہاں
خوش خوش وہ سوئے مسجداقصٰی ہوا رواں
صاحبِ "تحفہ قادریہ" لکھتے ہیں کہ براق خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اتنا بڑا اور اونچا ہوگیا کہ صاحب معراج کا ہاتھ زین تک اور پاؤں رکاب تک نہ پہنچا۔ ارباب معرفت کے نزدیک اس معاملہ میں عمدہ ترحکمت یہ ہے کہ جس طرح آج کی رات محبوب اپنا دولت وصال سے فرح (خوشحال ) ہوتاہے اسی طرح محبوب کا محبوب بھی نعمت قرب خاص اور دولت اختصاص اورولایت مطلق اورغوثیت برحق اورقطبیت اصطفاء اورمحبوبیت مجدوعلاسے آج مالا مال ہی کردیاجائے۔
چنانچہ صاحب "منازل اثنا عشریہ" "تحفہ قادریہ سے لکھتاہے کہ اس وقت سیدی ومولائی مرشدی وملجائی ، قطب الاکرم، غوث الاعظم، غیاث الدارین وغوث الثقلین، قرۃ العین مصطفوی نوردیدۂ مرتضوی ، حسنی حسینی سروحدیقہ مدنی، نورالحقیقت والیقین حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح پاک نے حاضرہوکر گردن نیاز صاحب لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اوراس طرح عرض کیا: (بیت)
برسرودیدہ ام بنہ اے مہ نازنین قد بودبسر نوشت من فیض قدم ازیں قدم
(اے نازنین میرے سر اورآنکھوں پرقدم رکھئے تاکہ اس کی برکت سے میری تقدیر پر فیضان قدم ہو۔ت)
خواجہ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم گردن غوث الاعظم پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہوئے اوراس روح پاک سے استفسار فرمایا کہ تو کون ہے؟عرض کیا : میں آپ کے فرزندان ذریات طیبات سے ہوں اگر آج نعمت سے کچھ منزل بخشئے گا توآپ کے دین کو زندہ کروں گا۔فرمایا : تو محی الدین ہے اورجس طرح میرا قدم تیری گردن پر ہے کل تیرا قدم کُل اولیاء کی گردن پر ہوگا۔
بیت قصیدہ غوثیہ : ⬇
وکل ولی لہ قدم وانی علٰی قدم النبی بدرالکمال۱
(ہرولی میرے قدم بقدم ہے اورمیں حضورسید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پرہوں جو آسمان کمال کے بدرکامل ہیں۔ت)
(۱فتوح الغیب علی ھامش بہجۃ الاسرارالقصیدۃ الغوثیۃ مصطفٰی البابی مصرص۲۳۱)
پس ان دونوں عبارت کتب سے کون سی عبارت متحقق ہے ؟ کس پر عمل کیا جائے ؟ یا دونوں ازروئے تحقیق کے درست ہیں ؟ بیان فرمائیے ۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ۔
الجواب : حضورپرنورسیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کے وقت براق کا شوخی کرنا ، جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسے تنبیہ فرمانا کہ : اے براق! کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ یہ برتاؤ! واللہ !تجھ پرکوئی ایسا سوار نہ ہوا جو اللہ عزوجل کے حضوران سے زیادہ رتبہ رکھتا ہو ۔ اس پر براق کا شرمانا، پسینہ پسینہ ہوکر شوخی سے باز رہنا، پھر حضور پرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ کا سوار ہونا، یہ مضمون تو ابوداود وترمذی ونسائی وابن حبان وطبرانی وبیہقی وغیرہم اکابر محدثین کی متعدد احادیث صحاح وحسان وصوالح سے ثابت ۔ کما بسط اکثرھا المولی الجلال السیوطی قدس سرہ فی خصائصہ الکبرٰی۱ وغیرہ من العلماء الکرام فی تصانیفھم الحسنٰی ۔
جیسا کہ اس میں سے اکثرکی تفصیل امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "الخصائص الکبرٰی "میں اوردیگر علماء کرام نےاپی شاندار تصانیف میں فرمائی ہے ۔ (ت) ۔ (الخصائص الکبری باب خصوصیتہ صلی اللہ علیہ وسلم بالاسراء حدیث ام سلمہ مرکز اہل سنت برکات رضا گجرات ہند ۱/۱۷۹)(المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت۳/ ۴۱)(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر الاسراء والمعراج دارابن کثیر بیروت الجزأین، الاول والثانی ص۳۹۸)
اوراس کا حیا کے سبب براہ تذلل وانقیادپست ہوکر لپٹ جانا بھی حدیث میں وارد ہے ۔
ففی روایۃ عند ابن اسحٰق رفعا الی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال فارتعشت حتی لصقت بالارض فاستویت علیہا ۔
اورایک روایت میں ابن اسحٰق سے مرفوعًا مروی ہے کہ حضور پرنورصلوات اللہ وسلامہ علیہ فرماتے ہیں : جب جبریل نے اس سے کہا تو براق تھراگیا اورکانپ کر زمین سے چسپاں ہوگیا،پس مٰیں اس پر سوار ہوگیا۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہ وبارک وسلم ۔ (المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ / ۳۹)
اوریہ روایت کہ سوال میں تحفہ قادریہ سے ماثور،اس کی اصل بھی حضرات مشائخ کرام قدست اسرارہم میں مذکور ۔۔۔۔۔فاضل عبدالقادر قادری (عہ) بن شیخ محی الدین اربلی، تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ میں لکھتے ہیں کہ جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کتاب حرزالعاشقین میں فرماتے ہیں : ان لیلۃ المعراج جاء جبرئیل علیہ السلام ببراق الٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسرع من البرق الخاطف الظاھر،ونعل رجلہ کالھلال الباھر،ومسمارہ کالانجم الظواھر،ولم یأخذ ہ السکون والتمکین لیرکب علیہ النبی الامین، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، لم لم تسکن یابراق حتی ارکب علٰی ظھرک ، فقال روحی فداءً لتراب نعلک یارسول اللہ اتمنی ان تعاھدنی ان لاترکب یوم القٰیمۃ علٰی غیر حین دخولک الجنۃ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یکون لک ماتمنیت ، فقال البراق التمس ان تضرب یدک المبارکۃ علٰی رقبتی لیکون علامۃ لی یوم القٰیمۃ ، فضرب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یدہ علٰی رقبۃ البراق، ففرح البراق فرحا حتی لم یسع جسدہ روحہ ونمٰی اربعین ذراعامن فرحہ وتوقف فی رکوبہ لحظۃ لحکمۃ خفیۃ ازلیۃ ،فظھرت روح الغوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وقال یا سیدی ضع قدمک علٰی رقبتی وارکب،فوضع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدمہ علٰی رقبتہ ورکب، فقال قدمی علٰی رقبتک وقدمک علٰی رقبۃ کل اولیاء اللہ تعالٰی انتہٰی ۔ (تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادرالمنقبۃ الاولی سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ فیصل آباد ص۲۵ ،۲۴) ۔ نوٹ : زیر نظرنسخہ حضرت مولانا ابوالمنصورمحمد صادق قادری فاضل جامعہ رضویہ فیصل آبادکے ترجمہ کے ساتھ شائع ہوا ہے) ۔
یعنی شب معراج جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام خدمت اقدس حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں براق حاضر لائے کہ چمکتی اُچک لے جانیوالی بجلی سے زیادہ شتاب روتھا،اوراس کے پاؤں کا نعل آنکھوں میں چکا جوند ڈالنے والا ہلال اوراس کی کیلیں جیسے روشن تارے ۔ حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کےلیے اسے قراروسکون نہ ہوا، سیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے سبب پوچھا: بولا: میری جان حضور کی خاکِ نعل پر قربان، میری آرزو یہ ہے کہ حضور مجھ سے وعدہ فرمالیں کہ روز قیامت مجھی پر سوارہوکر جنت میں تشریف لے جائیں ۔ حضور معلّٰی صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ نے فرمایا : ایسا ہی ہوگا ۔ براق نے عرض کی: میں چاہتاہوں حضور میری گردن پر دست مبارک لگادیں کہ وہ روز قیامت میرے لیے علامت ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ دست اقدس لگتے ہی براق کو وہ فرحت وشادمانی ہوئی کہ روح اس مقدار جسم میں نہ سمائی اورطرب سے پھول کر چالیس ہاتھ اونچا ہوگیا۔حضورپُرنورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک حکمت نہانی ازلی کے باعث ایک لحظہ سواری میں توقف ہوا کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح مطہر نے حاضر ہوکر عرض کی : اے میرے آقا ! حضور اپنا قدم پاک میری گردن پر رکھ کر سوار ہوں ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گردن مبارک پر قدم اقدس رکھ کر سوارہوئے اورارشاد فرمایا : "میرا قدم تیری گردن پر اور تیرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر۔"
عہ : حضرت علامہ عبدالقادرقادری بن محی الدین الصدیقی الاربلی رحمۃ اللہ علیہ جامع علوم شریعت وحقیقت تھے ۔ علماء کرام اورصوفیہ عظام میں عمدہ مقام پایا ۔ آپ کے اساتذہ میں الشیخ عبدالرحمن الطالبانی جیسے اجلّہ فضلاء علیہم الرحمہ شامل ہیں ۔ اورفہ میں ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء میں وصال پایا ۔ آپ کی تصانیف میں سے مشہور کتابیں یہ ہیں : ⬇
۱۔ آداب المریدین ونجاۃ المسترشدین
۲۔تفریح الخاطرفی مناقب الشیخ عبدالقادر
۳۔ النفس الرحمانیۃ فی معرفۃ الحقیقۃ الانسانیہ
۴۔الدرالمکنون فی معرفۃ السرالمصون
۵۔ حدیقۃ الازھار فی الحکمۃ والاسرار
۶۔شرح الصلاۃ المختصرۃ للشیخ اکبر
۷۔ الدررالمعتبرۃ فی شرح الابیات الثمانیہ عشرہ
۸۔ شرح اللمعات للفخرالدین العراقی
۹۔القواعد الجمعیۃ فی الطریق الرفاعیۃ
۱۰۔ مجموعۃ الاشعارفی الرقائق والاثار
۱۱۔مرآۃ الشہودفی وحدۃ الوجود
۱۲۔مسک الختام فی معرفۃ الامام ، مختصرفی کراستہ
۱۳۔الالہامات الرحمانیہ فی مراتب الحقیقۃ الانسانیۃ
۱۴۔حجۃ الذاکرین وردالمنکرین ۔
۱۵۔الطریقۃ الرحمانیہ فی الرجوع والوصول الی الحضرۃ العلیۃ ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : ⬇
ا ۔ معجم المولفین،عمر رضاکحالہ ، الجزء الخامس ص۳۵۴
ب ۔ ہدیۃ العارفین ، اسماعیل باشاالبغدادی جلد اول ص۶۰۵
حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر قدم شریف رکھ کر براق پر سوار ہونا : اعلی حضرت امامِ اہلسنت رحمہ اللہ کا اس روایت سے متعلق موقف یہ ہے کہ یہ روایت اگرچہ حدیث میں مذکور نہیں ہے مگرمشائخ صوفیہ نے اسے ذکر کیا ہے اور بیان کیا کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے شبِ معراج حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کو اپنی گردن پر رکھا ۔ یہ بات عقلا و شرعا کسی طرح محال نہیں ۔ احادیثِ کریمہ سے ایسےاحوال کی تائید ہوتی ہے۔
ہم فتاوی رضویہ شریف جلد 28 کے رسالہ کراماتِ غوثیہ سے چیدہ چیدہ ابحاث یکجا کر کے پیش کر رہے ہیں جو کہ بہت ہی تحقیقی ابحاث پر مشتمل ہے اور عام و خاص سب کےلیے مفید ہے۔
اعلی حضرت قدس سرہ ارقام فرماتے ہیں ، کتب احادیث وسِیَرمیں اس روایت کا نشان نہیں ۔
پھر اس روایت کی تخریج فرماتے ہوئے ارقام کرتے ہیں ،
فاضل عبدالقادر قادری بن شیخ محی الدین اربلی، تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ میں لکھتے ہیں کہ،
جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کتاب حرزالعاشقین میں فرماتے ہیں :
ان لیلۃ المعراج جاء جبرئیل علیہ السلام ببراق الٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسرع من البرق الخاطف الظاھر،ونعل رجلہ کالھلال الباھر،ومسمارہ کالانجم الظواھر،ولم یأخذ ہ السکون والتمکین لیرکب علیہ النبی الامین، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، لم لم تسکن یابراق حتی ارکب علٰی ظھرک ، فقال روحی فداءً لتراب نعلک یارسول اللہ اتمنی ان تعاھدنی ان لاترکب یوم القٰیمۃ علٰی غیر حین دخولک الجنۃ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یکون لک ماتمنیت ، فقال البراق التمس ان تضرب یدک المبارکۃ علٰی رقبتی لیکون علامۃ لی یوم القٰیمۃ ، فضرب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یدہ علٰی رقبۃ البراق، ففرح البراق فرحا حتی لم یسع جسدہ روحہ ونمٰی اربعین ذراعامن فرحہ وتوقف فی رکوبہ لحظۃ لحکمۃ خفیۃ ازلیۃ ،فظھرت روح الغوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وقال یا سیدی ضع قدمک علٰی رقبتی وارکب،فوضع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدمہ علٰی رقبتہ ورکب، فقال قدمی علٰی رقبتک وقدمک علٰی رقبۃ کل اولیاء اللہ تعالٰی انتہٰی۔ یعنی شب معراج جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام خدمت اقدس حضور پرنورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں براق حاضر لائے کہ چمکتی اُچک لے جانیوالی بجلی سے زیادہ شتاب روتھا،اوراس کے پاؤں کا نعل آنکھوں میں چکا جوند ڈالنے والا ہلال اوراس کی کیلیں جیسے روشن تارے ۔ حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کے لئے اسے قراروسکون نہ ہوا، سیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے سبب پوچھا: بولا: میری جان حضور کی خاکِ نعل پر قربان، میری آرزو یہ ہے کہ حضور مجھ سے وعدہ فرمالیں کہ روز قیامت مجھی پر سوارہوکر جنت میں تشریف لے جائیں ۔ حضور معلّٰی صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ نے فرمایا : ایسا ہی ہوگا ۔ براق نے عرض کی: میں چاہتاہوں حضور میری گردن پر دست مبارک لگادیں کہ وہ روز قیامت میرے لیے علامت ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ دست اقدس لگتے ہی براق کو وہ فرحت وشادمانی ہوئی کہ روح اس مقدار جسم میں نہ سمائی اورطرب سے پھول کر چالیس ہاتھ اونچا ہوگیا۔حضورپُرنورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک حکمت نہانی ازلی کے باعث ایک لحظہ سواری میں توقف ہوا کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح مطہر نے حاضر ہوکر عرض کی : اے میرے آقا ! حضور اپنا قدم پاک میری گردن پر رکھ کر سوار ہوں ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گردن مبارک پر قدم اقدس رکھ کر سوارہوئے اورارشاد فرمایا : "میرا قدم تیری گردن پر اور تیرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر ۔ (تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر۔ المنقبۃ الاولی۔ سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ ۔فیصل آباد۔صفحہ 24 ۔ 25)
اس کے بعد فاضل عبدالقادر اربلی فرماتے ہیں : فایاک یااخی ان تکون من المنکرین المتعجبین من حضور روحہ لیلۃ المعراج لانہ وقع من غیرہ فی تلک اللیلۃ کما ھو ثابت بالاحادیث الصحیحۃ کرؤیتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارواح الانبیاء فی السمٰوٰت وبلالا فی الجنۃ واویسا القرنی فی مقعدالصدق وامرأۃ ابی طلحۃ فی الجنۃ ، وسماعہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خشخشۃ الغمیصاء بنت ملحان فی الجنۃ کما ذکرنا قبل ھذا ۔
یعنی اے برادر! بچ اور ڈر اس سے کہ کہیں تُو انکار کر بیٹھے اورشعب معراج حضورغوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حاضری پر تعجب کرے کہ یہ امر توصحیح حدیثوں میں اوروں کے لئے وارد ہواہے ، مثلاً حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آسمانوں میں ارواح انبیاءعلیہم الصلوٰۃ والسلام کو ملاحظہ فرمایا، اورجنت میں بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھا اورمقعد صدق میں اویس قرنی اوربہشت میں زوجۂ ابوطلحہ کو اورجنت میں غمیصاء بنت ملحان کی پہچل سنی، جیسا کہ ہم اس سے قبل ذکر کرچکے ہیں ۔
وذکرفی حرز العاشقین وغیرہ من الکتب ان نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقی لیلۃ المعراج سیدنا موسٰی علیہ السلام فقال موسٰی مرحبابالنبی الصالح والاخ الصالح انت قلت علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل، ارید ان یحضراحد من علماء امتک لیتکلم معی فاحضر النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روح الغزالی رحمہ اللہ تعالٰی الٰی موسٰی علیہ السلام (وساق القصۃ ثم قال)، وفی کتاب رفیق الطلاب لاجل العارفین الشیخ محمد الجشتی نقلا عن شیخ الشیوخ قال قال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انی رأیت رجالا من امتی فی لیلۃ المعراج ارانیھم اللہ تعالٰی (الخ ثم قال) وقال الشیخ نظام الدین الکنجوی کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راکبا علی البراق وغاشیتہ علی کتفی انتھی ۔
اور حرز العاشقین وغیرہ کتابوں میں کہ حضرت سیدنا موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی درخواست پر حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روح امام غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو حکم حاضری دیا ۔ روحِ امام نےحاضرہوکر موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کلام کیا۔ اورعارف اجل شیخ محمد چشتی نے کتاب رفیق الطلاب میں حضرت شیخ الشیوخ قدست اسرارہم سے نقل کیاکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے شب معراج کچھ لوگ اپنی امت کے ملاحظہ فرمائے اورشیخ نظام الدین گنجوی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے تھے: جب حضورپُرنورصلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ رونق افروز پشت براق پر تھے اوربراق کا زین پوش میرے کندھے پرتھا۔(تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر۔ المنقبۃ الاولی۔ سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ ۔فیصل آباد۔صفحہ 28 تا 25)
یعنی جب معراج میں اتنے لوگوں کی ارواح کا حاضر ہونااحادیث واقوال علماء واولیاء سے ثابت ہے تو روح اقدس حضور پرنورسید الاولیاء غوث الاصفیاء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حاضری، کیا جائے تعجب وانکار ہے بلکہ ایسی حالت میں حاضرنہ ہونا ہی محل استعجاب ہے اک ذرا انصاف واندازہ قدرقادریت درکار ہے ۔
یہاں ایک سوال قائم ہوتا ہے کہ جب ایسی کوئی روایت حدیث میں موجود نہیں تو محض مشائخ کرام کے اقوال کو بنیاد بناکر اس کی تشہیر کیوں کی جائے ؟؟
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس پر ایک دلیل ذکر فرماتے ہیں کہ ایسی روایات اگرچہ احادیث کی کتب میں موجود نہیں مگر یہ لازم نہیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہی نہ ہوا ہو۔۔ اس کے لئے صرف اتنی سند کافی ہے کہ مشائخ کرام نے اسے بیان کیا اور جب یہ قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو تو اس کا کلیۃً انکاردرست نہیں ۔
اعلی حضرت ارقام کرتے ہیں : امام خاتمۃ المحدثین جلال الملۃ والدین سیوطی قدس سرہ الشریف نے "مناھل الصفاء فی تخریج احادیث الشفاء "میں اس روایت کی نسبت کہ امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضو رپُرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ کے وصال اقدس کے بعد کلام طویل میں حضور کو ہرجملہ پر بکلمہ "بابی انت وامی یارسول اللہ"(یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ت) نداکرکے فضائل جلیلہ وخصائص جمیلہ بیان کئے ، تحریر فرمایا :
لم اجدہ فی شیئ من کتب الاثرلکن صاحب اقتباس الانوار وابن الحاج فی مدخلہ ذکراہ فی ضمن حدیث طویل وکفٰی بذلک سندا لمثلہ فانہ لیس ممایتعلق بالاحکام۔
یعنی میں نے یہ روایت کسی کتابِ حدیث میں نہ پائی مگر صاحب اقتباس الانوار اورامام ابن الحاج نے اپنی مدخل میں اسے ایک حدیث طویل کے ضمن میں ذکر کیا اورایسی روایت کو اسی قدر سند کفایت کرتی ہے کہ انہیں کچھ باب احکام سے تعلق نہیں انتہٰی۔
علامہ شہاب الدین خفاجی مصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض میں نقل کیا اور مقرر رکھا ۔ (نسیم الریاض بحوالہ مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء۔ الفصل السابع ۔برکات رضا ۔گجرات ۔ہند۔ جلد 01۔صفحہ 248)
رہ گئی یہ بات کہ کیا احادیث سے ایسے احوال کی تائید ہوتی ہے تو اس پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل ذکر کے واضح فرمایا کہ بلاشبہ اس طرح کے احوال و واقعات احادیث سے ثابت ہے تو اس روایت کا سرے سے انکار کردینا کہ ایسا واقعہ ہی نہ ہوا ، درست نہیں۔
اعلی حضرت ارقام کرتے ہیں ،
اصل کلمات بعض مشائخ میں مسطور ، اس میں عقلی وشرعی کوئی استحالہ نہیں، بلکہ احادیث واقوال اولیاء وعلماء میں متعددبندگان خدا کے لئے ایسا حضور روحانی وارد۔
(1،2) مسلم اپنی صحیح اورابوداود طیالسی مسند میں جابر بن عبداللہ انصٓاری اورعبد بن حمید بسند حسن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی ، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ودخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ فقلت ماھذہ قالواھذا بلال ثم دخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ فقلت ماھذہ قالوا ھذہ الغمیصاء بنت ملحان۔ میں جب جنت میں داخل ہوا تو ایک پہچل سنی،میں نے پوچھا : یہ کیاہے؟ ملائکہ نے عرض کی: یہ بلال ہیں۔ پھر تشریف لے گیا، پہچل سنی، میں نےپوچھایہ کیاہے؟عرض کیا: غمیصاء بنت ملحان ، یعنی ام سلیم مادرِ انس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔(کنزالعمال بحوالہ عبد بن حمید عن انس والطیالسی عن جابر۔ حدیث #33161 ۔ موسسۃ الرسالہ بیروت۔ جلد 11۔ صفحہ 653)
(مسندابی داودالطیالسی عن جابر۔ حدیث # 1719 ۔ دارالمعرفۃ بیروت ۔ الجز ء السابع ۔ صفحہ 238)(صحیح مسلم ۔ کتاب الفضائل ۔ باب من فضائل ام سلیم الخ ۔ قدیمی کتب خانہ ۔ کراچی۔ جلد 02 ۔ صفحہ 292)
ان کا انتقال خلافت امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہوا کما ذکرہ الحافظ فی التقریب (جیسا کہ حافظ نے تقریب میں اس کو ذکر کیا ۔ت)
(تقریب التہذیب۔ ترجمہ8780 ۔ ام سلیم بنت ملحان ۔ دارالکتب العلمیہ۔ بیروت۔جلد 02۔صفحہ 688)
(3) امام احمدوابویعلٰی بسند صحیح حضرت عبداللہ بن عباس اور
(4)طبرانی کبیر اورابن عدی کا مل بسندحسن ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روای، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
دخلت الجنۃ فسمعت فی جانبھا وجسافقلت یا جبرئیل ماھذا قال ھذا بلال المؤذن۔
میں شب معراج جنت میں تشریف لے گیا اس کے گوشہ میں ایک آواز نرم سنی ، پوچھا: اے جبریل ! یہ کیا ہے ؟ عرض کی : یہ بلال مؤذن ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ (کنزالعمال ۔ حدیث # 33162 ۔ 33163 ۔ مؤسسۃ الرسالہ۔ بیروت ۔ جلد 11۔ صفحہ 653)(الکامل لابن عدی ۔ترجمہ یحیٰی بن ابی حبۃ ابن جناب الکلبی۔ دارالفکر ۔بیروت۔ جلد 07 ۔ صفحہ 2670)
(5) امام احمد ومسلم ونسائی انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور والا صلوات اللہ تعالٰی وسلامہٗ علیہ فرماتے ہں : دخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ بین یدی، فقلت ماھذہ الخشفۃ، فقیل الغمیصاء بنت ملحان۔ (میں بہشت میں رونق افروز ہوا ، اپنے آگے ایک کھٹکا سنا، پوچھا: اے جبریل!یہ کیا ہے ؟عرض کی گئی: غمیصاء بنت ملحان ۔ (صحیح مسلم ۔کتاب الفضائل ۔باب من ام سلیم الخ۔ قدیمی کتب خانہ ۔کراچی ۔ جلد 02 ۔ صفحہ 292)
سبحان اللہ! جب احادیث صحیحہ سے احیائے عالم شہادت کا حضور ثابت تو عالم ارواح سے بعض ارواح قدسیہ کا حضور کیا دور۔
بالجملہ روح مقد س کا شب معراج کوحاضر ہونا اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حضرت غوثیت کی گردن مبارک پر قدم اکرم رکھ کر براق یا عرش پر جلوہ فرمانا، اورسرکارابدقرارسے فرزند ارجمند کو اس خدمت کے صلہ میں یہ انعام عظیم عطاہونا ۔۔۔۔ ان میں کوئی امر نہ عقلاً اورشرعاً مہجور اورکلماتِ مشائخ میں مسطور وماثور،کتبِ حدیث میں ذکر معدوم ، نہ کہ عدم مذکور، نہ روایات مشائخ اس طریقہ سند ظاہری میں محصور، اورقدرت قادر وسیع وموفور، اورقدر قادری کی بلندی مشہور پھر ردوانکارکیا مقتضائے ادب وشعور۔
ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں : رہا شب معراج میں روح پر فتوح حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حاضر ہوکر پائے اقدس حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نیچے گردن رکھنا، اوروقتِ رکوب براق یا صعودعرش زینہ بننا، شرعاً وعقلاً اس میں کوئی بھی استحالہ نہیں۔
سدرۃ المنتہٰی اگر منتہائے عروج ہے تو باعتبار اجسام نہ بنظرارواح۔ عروج روحانی ہزاروں اکابر اولیاء کو عرش بلکہ مافوق العرش تک ثابت وواقع ، جس کا انکار نہ کرے گا مگر علوم اولیاء کا منکر۔ بلکہ باوضو سونے والے کے لئے حدیث میں وارد کہ :
"اس کی روح عرش تک بلند کی جاتی ہے۔"
ایک مقام پر خاص اس روایت کی تائید ایک حدیث سے ذکر فرماتے ہیں کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے شبِ معراج بیت المعمور میں حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا فرمائی ، ملاحظہ فرمائیں ۔
اعلی حضرت ارقام کرتے ہیں ،
ثم اقول وباللہ التوفیق (پھر میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے)کیوں راہ دور سے مقصد قرب نشان دیجئے، فیض قادریت جوش پر ہے، بحر حدیث سے خاص گوہر مراد حاصل کیجئے۔ حدیث مرفوع مروی کتب مشہورہ ائمہ محدثین سے ثابت کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ مع اپنے تمام مریدین واصحاب وغلامان بارگاہ آسمان قباب کے شب اسرٰی اپنے مہربان باپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحضور اقدس کے ہمراہ بیت المعمور میں گئے حضور پرنورکےپیچھے نماز پڑھی، حضور کے ساتھ باہر تشریف لائے۔
والحمدللہ رب العٰلمین اب ناظر غیروسیع النظرمتعجبانہ پوچھے گاکہ یہ کیونکر؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہم سے سنے۔
واللہ الموفق۔ ابن جریروابن ابی حاتم وابویعلٰی وابن مردویہ وبیہقی وابن عساکر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث طویل معراج میں راوی، حضور اقدس سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ثم صعدت الی السماء السابعۃ فاذاانا بابراھیم الخلیل مسندا لظھرہ الی البیت المعمور(فذکرالحدیث الی ان قال) واذابامتی شطرین شطرعلیھم ثیاب بیض کانھاالقراطیس وشطرعلیھم ثیاب رمد فدخلت البیت المعمور ودخل معی الذین علیھم الثیاب البیض وحجب الاخرون الذین علیھم ثیاب رمد وھم علی خیر فصلیت انا ومن معی من المومنین فی البیت المعمورثم خرجت انا ومن معی (الحدیث)
پھر میں ساتویں آسمان پر تشریف لے گیا،ناگاہ وہاں ابراہیم خلیل اللہ ملے کہ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے تشریف فرماہیں اورناگاہ اپنی امت دوقسم پائی،ایک قسم کے سپید کپڑے ہیں کاغذکی طرح، اوردوسری قسم کا خاکستری لباس۔میں بیت المعمورکے اندر تشریف لے گیااورمیرے ساتھ سپیدپوش بھی گئے، میلے کپڑوں والے روکے گئے مگرہیں وہ بھی خیر وخوبی پر۔پھر میں نے اورمیرے ساتھ کے مسلمانوں نے بیت المعمورمیں نماز پڑھی ۔ پھر میں اورمیرے ساتھ والے باہر آئے ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ۔باب ذکر عروجہ الی السماء الخ ۔داراحیاء التراث العربی ۔بیروت۔ جلد 03 ۔ صفحہ 294،چشتی)(دلائل النبوۃ للبیہقی باب الدلیل علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عرج بہ الی السماء دارالکتب العلمیۃ ۔بیروت۔ جلد 02۔ صفحہ 393۔394)
ظاہر ہے کہ جب ساری امت مرحومہ بفضلہ عزوجل شریف باریاب سے مشرف ہوئی یہاں تک کہ میلےلباس والے بھی۔ تو حضور غوث الورٰی اورحضور کے منتسبان باصفا تو بلاشبہہ ان اجلی پوشاک والوں میں ہیں ، جنہوں نے حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ بیت المعمورمیں جاکر نماز پڑھی، والحمدللہ رب العالمین۔
اب کہاں گئے وہ جاہلانہ استبعاد کہ آج کل کے کم علم مفتیوں کے سدراہ ہوئے، اور جب یہاں تک بحمداللہ ثابت تو معاملۂ قدم میں کیاوجہ انکارہے کہ قولِ مشائخ کو خواہی نخواہی رد کیاجائے۔
ہاں سند محدثانہ نہیں ۔۔۔۔۔پھر نہ ہو۔۔۔۔۔اس جگہ اسی قدربس ہے۔سند معنعن کی حاجت نہیں،
کما بیناہ فی رسالتنا "ھدی الحیران فی نفی الفئی عن سیدالاکوان " جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ"ہدی الحیران فی نفی الفیئی عن سیدالاکوان " میں اسے بیان کیا ہے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جس فتاویٰ پر امام اہلسنت کی تصدیق ہو گئی اب اس میں شکوک وشبہات کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لہٰذا جب امام اہلسنت نے فتاویٰ افریقہ میں فرمایا ہے تو درست ہی ہے، مزید قوت کیلئے فقیر آپ کو فتاویٰ رضویہ سے حوالہ دے رہا ہے وہاں پر آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں جس کتاب سے مذکورہ روایت کو نقل کیا گیا ہے اس عظیم ہستی (مصنف) کی بھی وضاحت آپ نے فرمائی ہے کہ کتنے قابل رہے ہیں، آپ فرماتے ہیں : اس پر براق کا شرمانا،پسینہ پسینہ ہوکر شوخی سے باز رہنا،پھر حضور پرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ کا سوار ہونا،یہ مضمون تو ابوداود وترمذی ونسائی وابن حبان وطبرانی وبیہقی وغیرہم اکابر محدثین کی متعدد احادیث صحاح وحسان وصوالح سے ثابت۔
*" کما بسط اکثرھاالمولی الجلال السیوطی قدس سرہ فی خصائصہ الکبرٰی وغیرہ من العلماء الکرام فی تصانیفھم الحسنٰی۔*
جیسا کہ اس میں سے اکثر کی تفصیل امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب *"الخصائص الکبرٰی "* میں اور دیگر علماء کرام نے اپنی شاندار تصانیف میں فرمائی ہے،
اوراس کا حیا کے سبب براہ تذلل وانقیادپست ہوکر لپٹ جانا بھی حدیث میں وارد ہے۔
*" ففی روایۃ عند ابن اسحٰق رفعا الی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال فارتعشت حتی لصقت بالارض فاستویت علیہا "*
اور ایك روایت میں ابن اسحٰق سے مرفوعًا مروی ہے کہ حضور پر نور صلوات اللہ و سلامہ علیہ فرماتے ہیں:جب جبریل نے اس سے کہا تو براق تھرّا گیا اور کانپ کر زمین سے چسپاں ہو گیا، پس مٰیں اس پر سوار ہوگیا۔صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ و صحبہ و بارك وسلم۔
اوریہ روایت کہ سوال میں تحفہ قادریہ سے ماثور،اس کی اصل بھی حضرات مشائخ کرام قدست اسرارہم میں مذکور۔۔۔۔۔ فاضل عبدالقادر قادری عــــــہ بن شیخ محی الدین اربلی،تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ میں لکھتے ہیں کہ جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کتاب حرزالعاشقین میں فرماتے ہیں : ان لیلۃ المعراج جاء جبرئیل علیہ السلام ببراق الٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسرع من البرق الخاطف الظاھر، و نعل رجلہ کالھلال الباھر، و مسمارہ کالانجم الظواھر، ولم یأخذہ السکون و التمکین لیرکب علیہ النبی الامین، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، لم تسکن یا براق حتی ارکب علٰی ظھرک، فقال روحی فداءً لتراب نعلك یارسول اللہ اتمنی ان تعاھدنی ان لا ترکب یوم القٰیمۃ علٰی غیر حین دخولك الجنۃ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یکون لك ماتمنیت، فقال البراق التمس ان تضرب یدك المبارکۃ علٰی رقبتی لیکون علامۃ لی یوم القٰیمۃ، فضرب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یدہ علٰی رقبۃ البراق، ففرح البراق فرحا حتی لم یسع جسدہ روحہ و نمٰی اربعین ذراعا من فرحہ و توقف فی رکوبہ لحظۃ لحکمۃ خفیۃ ازلیۃ، فظھرت روح الغوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وقال یا سیدی ضع قدمك علٰی رقبتی و ارکب، فوضع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدمہ علٰی رقبتہ و رکب، فقال قدمی علٰی رقبتك و قدمك علٰی رقبۃ کل اولیاء اللہ تعالٰی انتہٰی۔*
یعنی شب معراج جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام خدمت اقدس حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں براق حاضر لائے کہ چمکتی اُچك لے جانیوالی بجلی سے زیادہ شتاب رو تھا، اور اس کے پاؤں کا نعل آنکھوں میں چکا جوند ڈالنے والا ہلال اور اس کی کیلیں جیسے روشن تارے۔حضور پُر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کے لئے اسے قرار و سکون نہ ہوا، سیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے سبب پوچھا: بولا: میری جان حضور کی خاك نعل پر قربان، میری آرزو یہ ہے کہ حضور مجھ سے وعدہ فرمالیں کہ روز قیامت مجھی پر سوار ہوکر جنت میں تشریف لے جائیں۔حضور معلّٰی صلوات اللہ تعالٰی و سلامہ علیہ نے فرمایا: ایسا ہی ہوگا۔براق نے عرض کی: میں چاہتا ہوں حضور میری گردن پر دست مبارك لگادیں کہ وہ روز قیامت میرے لیے علامت ہو۔حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔دست اقدس لگتے ہی براق کو وہ فرحت و شادمانی ہوئی کہ روح اس مقدار جسم میں نہ سمائی اور طرب سے پھول کر چالیس ہاتھ اونچا ہوگیا۔حضور پُر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایك حکمت نہانی ازلی کے باعث ایك لحظہ سواری میں توقف ہوا کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح مطہر نے حاضر ہوکر عرض کی : اے میرے آقا ! حضور اپنا قدم پاك میری گردن پر رکھ کر سوار ہوں۔سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گردن مبارك پر قدم اقدس رکھ کر سوار ہوئے اور ارشاد فرمایا : میرا قدم تیری گردن پر اور تیرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر ۔ (تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادرالمنقبۃ الاولی صفحہ ۲۴ / ٢٥ سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ فیصل آباد)(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد (۲۸) ص (۴۰۵/۴٠٧) مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛ شب معراج میں حضور غوث اعظم رضی الله تعالی عنہ کی روح پاک حاضر ہوئی اور اپنا کندھا پیش کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے کاندھے پر قدم رکھا اور براق سے عرش پر تشریف لے گئے اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا میرا قدم تیری گردن پر اور تمہارا قدم سارے اولیاء الله کی گردن پر ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد ۱ صفحہ ۳۱۲،چشتی)
تعلیماتِ حضرت سیدنا شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
جب بھی امت مسلمہ علمی ، عملی ، روحانی اور سیاسی زوال کا شکار ہوئی ، اللہ تعالیٰ نے مسلم امہ کو کسی ایسے فرد سے نوازا جس کے وجود نے صحرائوں کو گلشن بنادیا اور مسلمانوں کو سر اٹھا کر جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ۔ اس بات کی نشاندہی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرماگئے ہیں : إِنَّ ﷲَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم جلد 4 صفحہ 109، الرقم : 4291)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ اس امت کی (سربلندی کےلیے) ہر صدی کے آغاز میں ایسی شخصیت کو پیدا فرماتا ہے جس کے ذریعے تجدید و احیائے دین کا فریضہ سرانجام پاتا ہے ۔
قطب ربانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایسی ہی حیات آفرین شخصیتوں میں سے ایک ہیں ۔ جن کی کتاب زیست کا ایک ایک ورق خزاں رسیدہ چمن کےلیے باد بہاری کا ایک خوشگوار جھونکا ہے ۔ آپ کی تعلیمات نے عالم اسلام کے مرکز بغداد میں ٹوٹ پھوٹ کے شکار معاشرے کو حیات نو کا مژدہ سنا کر مسلم امہ کے نحیف و ناتواں بدن میں نئی روح پھونک دی ۔ تب سے اب تک آپ کی تعلیمات امت مسلمہ کو روح کی غذا فراہم کررہی ہیں ۔ عصر حاضر میں آپ کی نورانی تعلیمات ماضی کی نسبت زیادہ اہم ہو گئی ہیں کیونکہ مادیت بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ قوت کے ساتھ انسانیت اور اخلاقی اقدار کے ساتھ نبرد آزما ہے ۔ ایسے حالات میں سکون نا آشنا دلوں سے خود غرضی ، لالچ اور مال کی محبت کو نکال کر محبت، ایثار اور سکون سے ہمکنار وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دل و دماغ قرآن و حدیث کی روح سے آشنا ہوں ۔ آج بھی اگر مسلم امہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ان حیات آفرین تعلیمات کو اپنالے جو قرآن و حدیث کے صحیح فہم پر مبنی ہیں تو آج بھی عالم اسلام اپنی تمام محرومیوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے ۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے تقریباً چونتیس سال بعد چھٹی صدی کے آغاز میں رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دینے کےلیے میدان کارزار میں اتر چکے تھے ۔ آپ کا دور مسلمانوں کے سیاسی نشیب و فراز ، مذہبی کشمکش ، مادیت پرستی اور اخلاقی بے راہ روی کا دور تھا ۔ ان حالات میں آپ نے علم کی ترویج اور امت کی روحانی تربیت کے ساتھ ایک خاموش انقلاب بپا کر دیا ۔ آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کو عیاں کیا اور فکر آخرت کو اجاگر کیا ۔ تجدید و احیائے دین کےلیے آپ کی کوششوں کی وجہ سے ہی آپ کو محی الدین کے لقب سے یاد کیا گیا ۔
ملک شام کے ایک سکالر ڈاکٹر عبدالرزاق الگیلانی اپنی کتاب الشیخ عبدالقادر الجیلانی الامام الزاہد القدوۃ کے صفحہ 102 پر لکھتے ہیں : ہم بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں : پہلا حصہ 488ھ میں آپ کی بغداد آمد سے 521ھ میں مسند تدریس پر فائز ہونے تک ہے ۔ دوسرا حصہ 521ھ سے لے کر 562ھ میں آپ کے وصال تک ہے اور یہ علم کے چراغ جلانے، تعلیم دینے اور وعظ و ارشاد کا مرحلہ ہے ۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کے اخلاقی زوال پر بہت دلگیر ہوتے اور مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے بہت خوبصورت اور بلیغ انداز میں دین کے دامن سے وابستہ ہونے کی تلقین فرماتے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے : فاجروں ، فاسقوں ، ریا کاروں ، بدعات میں مبتلا گمراہوں اور خوبیوں سے محروم مدعیوں کے باعث اسلام گریہ کناں ہے اور مدد کو پکار رہا ہے ۔ کتا اپنے مالک کو اس کی حفاظت ، شکار، زراعت اور جانوروں کے معاملے میں نفع دیتا ہے ۔ حالانکہ اس کتے کا مالک اسے رات کے وقت ایک لقمہ یا چند چھوٹے چھوٹے لقمے کھلاتا ہے اور اے انسان تو اپنے رب کی نعمتیں پیٹ بھر کر کھاتا ہے اور ان نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی منشاء کو پورا نہیں کرتا اور ان نعمتوں کا حق ادا نہیں کرتا ، اس کے احکام کو بجا نہیں لاتا اور اس کی حدود کا خیال نہیں رکھتا ۔ (الفتح الربانی صفحه31،چشتی)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں اسلامی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور آپ اپنے وابستگان کے دل میں بھی یہی غیرت و حمیت دیکھنا چاہتے تھے ۔ آپ کے یہ جذبات اور احساسات الفتح الربانی میں منقول درج قول سے عیاں ہیں : تیرا برا ہو ، تیرے اسلام کی قمیض تار تار ہے ، تیرے ایمان کا کپڑا ناپاک ہے ، تو برہنہ ہے ، تیرا دل جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے ، تیرا باطن مکدر ہے ، تیرا سینہ اسلام کےلیے کشادہ نہیں ۔ تیرا ظاہر آراستہ اور باطن خراب ہے ، تیرے صحیفے سیاہ ہو چکے ہیں اور تیری دنیا جو تجھے بہت عزیز ہے تیرے ہاتھوں سے نکلنے والی ہے ، قبر اور آخرت تیرے سامنے ہیں ۔ اپنے حال کی آگہی رکھ ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے وعظ میں کچھ ایسی تاثیر رکھ دی تھی جس کی مثال بہت کم ملے گی ۔ غنیۃ الطالبین کی چودہ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کا مطالعہ کرنے سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ جب بولنے والے کی زبان کے پیچھے احوال بھی موجود ہوں تو ایک ایک بات دلوں میں اترتی جاتی ہے ۔
ڈاکٹر عبدالرزاق الگیلانی حضرت غوث صمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ کی تاثیر کے بارے میں لکھتے ہیں : وعظ و ارشاد کے منصب پر فائز ہونے والوں کو بہت ہی کم بیان کی وہ قوت عطا ہوئی ہو گی جو حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو مرحمت ہوئی ۔ آپ حضرت کے مواعظ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر ورق اور ہر صفحہ پر گفتار کی تاثیر اور قوت واضح طور پر محسوس کریں گے بلکہ آپ اس بات کو بلا تخصیص کسی مجلس کی چند سطور پر پڑھ کر بھی محسوس کرسکتے ہیں ۔ (الشيخ عبدالقادر الجيلانی صفحہ 46)
شہباز لامکانی حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ کی اہمیت اور وسیع افادیت کا ذکر کرتے ہوئے ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں : الشیخ عبدالقادر 520ھ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد لوگوں کے سامنے (معلم و مربی کی حیثیت سے) ظاہر ہوئے تو آپ کو لوگوں میں عظیم مقبولیت حاصل ہوئی ۔ آپ کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں نے اپنے عقائد کو درست کیا اور آپ سے عظیم نفع حاصل کیا۔ آپ کے دم قدم سے (معتزلی اور اسماعیلی مذہب کے مقابلے میں) مذہب اہل سنت کو تقویت ملی ۔ (قلائد الجواهر علامه الشيخ محمد بن يحيیٰ صفحه 33،چشتی)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ آپ ہفتے میں تین دن وعظ فرمایا کرتے ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالوہاب گیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے والد ہفتے میں تین دن وعظ فرمایا کرتے تھے ۔ جمعہ اور منگل کی صبح کو اپنے مدرسہ میں جبکہ اتوار کی صبح کو اپنی خانقاہ میں وعظ فرمایا کرتے تھے ۔ (شذرات الذهب فی اخبار من ذهب امام عبدالحی بن احمد الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ جلد 6 صفحہ 332)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ حسنہ نے جہاں معصیت کا شکار مسلمانوں کو شریعت کی پیروی پر ابھارا وہیں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد کو بھی متاثر کرکے ایمان کی چاشنی سے آشنا کیا ۔ آپ کے ہاتھ پر اہل بغداد کی بڑی تعداد تائب ہوئی اور بغداد کے اکثر یہودی اور عیسائی آپ کے دست حق پرست پر ایمان لائے ۔ (الفتح الربانی صفحہ 220)
آج جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں ، اسے علمی ترقی کا دور کہا جاتا ہے ۔ سائنسی انکشافات ، برقی ذرائع علم (انفارمیشن ٹیکنالوجی) نے قرب و بعد کے فاصلے سمیٹ دیئے ہیں۔ ڈگریوں کی صورت کاغذ کے پرزے اٹھائے ہر کوئی خواندگی کے گیت آلاپ رہا ہے مگر اس کے باوجود معاشرہ روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کا سبب علم و عمل کی دوئی ہے ۔ آج علم برائے عمل حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ علم برائے معاش حاصل کیا جاتا ہے ۔ علم و عمل کی اس دوئی نے تہذیب و اخلاق کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے حالانکہ دونوں کے اجتماع سے انسان اور معاشرے میں تہذیب پیدا ہوتی ہے ۔ قرآن مجید نے بے عمل عالم کو ایسے گدھے سے تشبیہہ دی ہے جس پر کتابیں لاد دی جائیں لیکن اس کے اخلاق و عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس شخص کا علم زیادہ ہو اسے چاہئے کہ خوفِ خدا اور عبادت بھی زیادہ کرے ۔ علم کے مدعی ! خوفِ خدا سے تیرا رونا کہاں ہے ۔۔۔ ؟ تیرا ڈر اور وہشت کہاں ہے ۔۔۔ ؟ گناہوں کا اقرار کہاں ۔۔۔ ؟ رات اور دن عبادت میں ایک کر دینا کہاں ۔۔۔ ؟ نفس کو باادب بنانا اور الحب للہ والبغض للہ کہاں ۔۔۔ ؟ تمہاری ہمت جبہ و دستار ، کھانا ، نکاح ، دکان ، خلقت کی محفل اور ان کا انس ہے ، اپنی ان تمام چیزوں سے خود کو الگ کر ۔ یہ چیزیں اگر تمہارے نصیب میں ہیں تو اپنے وقت پر مل جائیں گی اور تمہارا دل انتظار کی کوفت سے آرام پائے گا ۔ (فتح الربانی صفحه 82،چشتی)
دین اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ انسان جو بھی عمل کرے وہ اخلاص کے ساتھ کرے ۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا عمل بارگاہ الہٰی میں درجہ قبولیت پانے سے محروم رہتا ہے ، اگر وہ ریاکاری اور دنیا والوں کے دکھاوے کےلیے کیا جائے ۔ جبکہ اخلاص سے کیا گیا کم تر عمل بھی حضورِ حق میں بڑی قدرو منزلت کا حامل ہوتا ہے ۔ صوفیاء کرام کی حیاتِ طیبہ کا اہم ترین پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر عمل خالص اللہ کی رضا کےلیے کرتے ہیں اور اپنے مریدین اور مخلصین کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ اخلاصِ عمل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضرت سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تجھ پر افسوس ! تو مشرک ، منافق ، بے دین ، مرتد ہے ۔ تجھ پر افسوس ! ملمع کس کو دکھاتا ہے ، جو آنکھوں کی خیانت اور سینے کے رازوں سے واقف ہے ۔ تجھ پر افسوس ! نماز میں کھڑا ہوکر اللہ اکبر کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے ۔ تیرے دل میں مخلوق ، اللہ سے بڑی ہے ۔ اللہ کے سامنے توبہ کر ۔ نیک عمل غیر کےلیے نہ کر اور نہ دنیا اور نہ آخرت کےلیے کر بلکہ خاص اللہ کی ذات کا ارادہ رکھ ۔ ربانی پرورش کا حق ادا کر ۔ تعریف اور صفتِ عطا اور بے عطا کےلیے عمل نہ کر ۔ تجھ پر افسوس ! تیرا رزق کم زیادہ نہ ہوگا ، نیکی اور بدی کا تجھ پر حکم لگ چکا ہے ، وہ ضرور آئے گی ۔ جس چیز میں فراغت ہے ، اس میں مشغول نہ ہو ۔ اس کی عبادت میں لگا رہ ، حرص کم ، امید کو تاہ اور موت آنکھوں کے سامنے رکھ ، ضرور نجات حاصل کرے گا ۔ تمام احوال میں شریعت کی پابندی کر ۔ (فتح الربانی صفحه 167)
نفاق ، ریاکاری ، غرور و تکبر ، حسد بغض ، کینہ ایسے باطنی امراض ہیں کہ جو بڑے سے بڑے عمل کو بھی خاکستر کر دیتے ہیں لیکن یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان ان سے نجات نہیں پاتا ، اس وقت تک نہ وہ روحانی مقام حاصل کر سکتا ہے اور نہ اس میں ترقی و کمال حاصل کر سکتا ہے ۔ اگرچہ یہ باطنی بیماریاں ہیں مگر ان کے تباہ کن اثرات انسان کی ظاہری شخصیت پر بھی پڑتے ہیں اور یوں وہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے ایک قابلِ رحم مریض کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے ۔ مگر حکیمِ حاذق جو ان روحانی امراض کا ماہر معالج ہو اس کو تلاش کرنا پڑتا ہے ۔ وہ شیخِ کامل اور مردِ خدا ہوتا ہے جو اپنی نگاہِ کیمیا ساز سے باطن کی بیماریوں کا علاج کر کے مریض کو روحانی حیاتِ نو سے بہرہ یاب کر دیتا ہے ۔ وہ معالج کون اور کہاں سے دستیاب ہوتے ہیں ؟ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ریا کار ! تجھ پر افسوس ، اللہ کو دھوکہ نہ دے ، عمل کرکے ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کےلیے ہے حالانکہ مخلوق کےلیے ہے ۔ ان کو دکھاتا ہے اور ان سے نفاق کرکے چاپلوسی کرتا ہے اور اپنے رب کو بھلا دیتا ہے ۔ تو عنقریب دنیا سے مفلس ہو کر نکلے گا ۔ باطن کے بیمار ! اس مرض کا علاج کر ، اس کی دوا اللہ کے بندوں ، صالحین کے سوا اور کہیں نہ ملے گی ۔ ان سے دوا لے کر استعمال کرے گا تو ہمیشہ کےلیے تندرستی اور صحتِ ابدی حاصل ہو گی ۔ تیرا دل ، باطن اور خلوت اللہ کے ساتھ ہو جائے گی ۔ تیرے دل کی آنکھیں کھلیں گی اور تو اپنے رب کو دیکھے گا ۔ تیرا شمار محبین میں ہو گا جو اس کے دروازے پر کھڑے ہیں اور اللہ کے سوا غیر کو نہیں دیکھتے ہیں ۔ تیرا دل تو بدعت سے پُر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار کس طرح کر سکتا ہے ؟ ۔ (فتح الربانی صفحه 253،چشتی)
آج کے معاشرہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ الوہی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے بالعموم شکوہ کناں رہتے ہیں ، جس کے باعث لوگ بہت سی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خالق کا شکوہ مخلوق سے نہ کر بلکہ خالق ہی سے کر ، اسی نے سب اندازے لگائے ہیں ، دوسرے نے نہیں ۔ (فتح الربانی صفحه 839)
آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : غیر اللہ کے پاس گلہ اور شکایت نہ کرو کیونکہ اس سے تم پر اور بلا بڑھے گی بلکہ خاموش اور ساکن اور گم ہو رہو ۔ اس کے سامنے ثابت قدم رہو اور دیکھو کہ وہ تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان کیا کرتا ہے اور اس کے تصرفات پر اظہارِ خوشی کرو ۔ اگر تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آئو گے تو ضرور وحشت کو انسیت سے اور رنج و تنہائی کو خوشی سے بدل دے گا ۔ (فتح الربانی صفحه 66،چشتی)
آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : خلقت کی شکایت کرنے سے اپنی زبان کو روک ۔ رضائے الہٰی کے لیے اپنے نفس اور مخلوق کا دشمن بن جا ۔ اس کی تابع فرمانی کا حکم کر اور گناہ سے روک ۔ ان کو گمراہی و بدعت ، حرص اور موافقتِ نفس سے باز رکھ ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابع فرمانی کا حکم کر ۔ (فتوح الغیب صفحه 133)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ تربیت یہ تھا کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں نہ صرف روحانی امراض کی نشاندہی کی بلکہ ان بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے نسخہ بھی تجویز کیا اور علاج بھی بتایا کہ کس طرح ان سے خلاصی پاکر قربِ الہٰی حاصل کیا جاسکتا ہے ؟
روحانی مقامات کی ترقی و کمال میں رزقِ حلال کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام کے مال سے ہوئی ہو گی ۔ پس جس پیٹ میں حرام کا لقمہ ہے ، اس کے منہ سے نکلنے والی دعا کب قبول ہوسکتی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی آداب و اخلاق کے اندر کسبِ حلال پر بڑا زور دیا گیا ہے ۔ حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے افکار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں کسبِ حلال کی اہمیت کو نہ صرف واضح کیا ہے بلکہ اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ بارگاہِ الہٰی کے قرب کے لیے پیٹ میں جانے والے ہر لقمے کا حلال اور پاکیزہ ہونا بھی شرط ہے ۔ بصورتِ دیگر اس راہ کا مسافر منزلِ مراد تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس سلسلہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نیک کمائی اور سبب سے تعلق لازم کرو یہاں تک کہ ایمان قوی ہو جائے ، پھر سبب کو چھوڑ کر مسبب کی طرف چلا آ ۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اپنے ابتدائی احوال میں کسب کرتے ، قرض لیتے اور پابندِ اسباب رہتے ہیں اور آخر میں توکل کرتے ہیں ۔ کسب اور توکل کو شروع اور اخیر میں شریعۃً اور حقیقۃً جمع کر لیتے ہیں ۔ بیٹا ! نفس کو خواہشوں اور لذتوں سے روکو ، اس کو پاک روزی کھلاٶ ، نجس نہ بنو ، پاک حلال ہے اور حرام نجس ہے ۔ نفس کو غذائے حلال دو تاکہ اترائے نہیں اور ناک منہ چڑھا کر گستاخ نہ بنے ۔ (فتح الربانی صفحه 165،چشتی)
دل کی زندگی اور موت کی وضاحت میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بیٹا ! حرام کی روزی سے تیرا دل مرتا ہے اور حلال کی روزی سے زندہ ہوتا ہے ۔ ایک لقمہ تیرے دل کو منور کرتا ہے اور ایک لقمہ سیاہ کرتا ہے ۔ ایک لقمہ دنیا میں اور ایک لقمہ آخرت میں مشغول کرتا ہے ۔ ایک لقمہ دونوں سے بے رغبت کرتا ہے اور ایک لقمہ خالق میں مشغول کرتا ہے۔ حرام کی روزی دنیا میں مشغول کراتی ہے اور گناہوں سے پیار کراتی ہے ۔ حلال طعام آخرت میں لگاتا ہے ، اطاعتِ الہٰی سے محبت کراتا ہے اور دل کو مولیٰ سے قریب کرتا ہے ۔ کیا تو نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا : من لم یبال من این مطعمه ومشربه لم یبال اللہ من ای باب من ابواب النار ادخله ۔
ترجمہ : جو شخص اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کا کھانا پینا کہاں سے ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ دوزخ کے دروازوں میں سے اس کو کس دروازے میں سے داخل کرے ۔ (فتح الربانی صفحه 232،چشتی)
آج عدمِ برداشت کے کلچر نے پوری دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانی کا امن خاک میں ملا دیا ہے ۔ دہشت گردی کا فروغ اسی کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔ اسلام اخوت و محبت ، تحمل و بردباری کا علمبردار دین ہے مگر آج کچھ نادان دوستوں کی غلط کاریوں اور خود تراشیدہ تصورات کی وجہ سے ادیانِ عالم میں محبتوں کے امین اس دین کو دہشتگرد اور امن دشمن قرار دیا جارہا ہے ۔ صوفیائے کرام علیہم الرحمہ کی تعلیمات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں مذہب کے نام پر انسانوں میں دوریاں پیدا نہیں کیں بلکہ مخلوقِ خدا ہونے کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا ۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل سے گلشنِ اسلام میں بہار آئی اور لوگ ایسے مخلص مبلغینِ اسلام کے طرزِ عمل ، سیرت و کردار سے متاثر ہو کر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگے اور اس طرح اسلام انسانیت کے خیر خواہ ہونے کے باعث ایک آفاقی دین بن گیا اور چہار دانگِ عالم میں دینِ محمدی کا پھریرا لہرانے لگا ۔ برداشت کا درس دیتے ہوئے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بیٹا ! برداشت کو اپنے اوپر لازم پکڑ اور شر کو دور کر ۔ کلموں کے بہت سے ساتھی ہیں ۔ جب تم سے کسی نے ایک کلمہ شرارت کا کہا اور تم نے اس کا جواب دیا تو اس کلمۂ بد کے اور شریر ساتھی آجائیں گے حتی کہ تم دونوں کلام کرنے والوں کے درمیان شرارت قائم ہوجائے گی ۔ (فتح الربانی صفحه 109،چشتی)
قطب الاقطاب حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ عزیمت کی راہ پر چلنے والوں میں ایک نمایاں شخصیت تھے ۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ کے محببین بھی رخصت کے متلاشی نہ بنیں بلکہ عزیمت کی اسی راہ پر چلیں جس پر چلنے والے پچھتائے نہیں بلکہ خوش ہی رہے ۔ الفتح الربانی صفحہ 142 میں درج ہے کہ : پاک ہے وہ ذات جس نے میرے دل میں مخلوق کو نصیحت کرنے کا جذبہ ڈال دیا اور اسے میری زندگی کا مقصد بنا دیا ۔ اے لوگو ! رخصت کی تلاش سے گریز کرو اور عزیمت کی راہ کو اپناٶ جس نے رخصت کو اپنا کر عزیمت کو چھوڑ دیا اس کا ایمان خطرے میں ہے ۔ عزیمت کی راہ مَردوں کےلیے ہے کیونکہ وہ انتہائی کٹھن اور تلخ ہے اور رخصت عورتوں اور بچوں کے لیے ہے کیونکہ وہ انتہائی آسان ہے ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدین اور شاگردوں کو فقہ و تصوف کی تلقین فرمایا کرتے اور خصوصی طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے کہ جو تصوف ، فقہ کے تابع نہیں وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا نہیں ۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے : شریعت جس حقیقت کی گواہی نہ دے وہ زندیقیت ہے۔ اپنے رب کی بارگاہ کی طرف کتاب و سنت کے دو پروں کے ساتھ پرواز کرو ۔ اپنا ہاتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں دے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دو ۔ فرض عبادتوں کا ترک زندیقیت اور گناہوں کا ارتکاب معصیت ہے ۔
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ہمہ جہت تعلیمات ہر دور میں مسلمانوں کےلیے مشعل راہ رہی ہیں اور یہ تعلیمات آج بھی اہل اسلام کےلیے نشان راہ ہیں اور آنے والے کل میں بھی اپنی اہمیت کو منواتی رہیں گی ۔
ارشاداتِ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ
اللہ عزوجل کی اطاعت کرو
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ، اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے ، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا ادب کرنا چاہئیے کیونکہ اس کے تمام کام صحیح درست ہوتے ہیں ، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہیے ۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت سے عطا فرمانے والا ہے ، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کےلیے کیا کچھ چھپا رکھا ہے ، اس لیے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہیے ، اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا ۔ بندے کا شجر ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے ، شجر ایمانی کی پرورش ضروری ہے ، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو ، اسے (نیک اعمال) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجر ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہلِ ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکر ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے ، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلٰی مقام عطا فرماتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کی نافرمانی نہیں کر ، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر ، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹاکر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو ۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر صفحہ 44)
ایک مومن کو کیسا ہونا چاہیے ؟
حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے : محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگادے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے ، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹاکر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا ، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضل عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کر دے گا ، عطائے الٰہی عزوجل سے تو راحت و سکون پائے گا اور اگر تو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اور تجھ سے فضل خداوندی رک جائے گا ۔ تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ ، جب تک تو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی ، توحید ، قضائے نفس، محویت ، ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کردے تو تیرے دل میں اللہ تعالٰی کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل ، ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کر دے گا ۔ مذید فرماتے ہیں : تیرا نفس اور اعضاء غیراللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالٰی کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں ۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر صفحہ 103)
اللہ عزوجل کے ولی کا مقام
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد مبارک ہے : جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ اور دنیا و آخرت کی آرزوؤں سے فنا ہو جاتا ہے تو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔ پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالٰی کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے ۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر المقالہ السادستہ و الخمسون صفحہ 100،چشتی)
طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعت مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:وما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا ۔(پ28، الحشر: 7) ۔ ترجمہ : اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔کیونکہ سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہیے، اس طرح تو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہو جائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کئے جائیں گے اللہ عزوجل تیرے حفاظت فرمائے گا، موافقت خداوندی حاصل ہو گی۔اللہ عزوجل کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہئیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریقت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ان دینوی نعمتوں سے تو حضور تاجدار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بھی حداد شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : خوشبودار عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرقائق، الفصل الثالث، الحدیث 5261، جلد 2 صفحہ 258چشتی) ۔ لہٰذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمھم اللہ تعالٰی کو نعمت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکام شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرت انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے ۔ (فتوح الغیب مترجم صفحہ 72)
رضائے الٰہی عزوجل
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : جب اللہ تعالٰی اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالٰی سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتہء تقدیر نے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالٰی کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لیے قبول ہو جاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے ۔ (فتوح العیوب مع قلائد الجواہر المقالۃ الثالمنۃ والستون صفحہ 115،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے، اللہ عزوجل جو چاہتا کرتا ہے، جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کردے، عرش سے فرش اور تحت الثرٰی تک جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ عزوجل کے قبضے میں ہے، ساری مخلوق اسی کی ہے، ہر چیز کا خالق وہ ہی ہے، اللہ عزوجل کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے تو ان سب کے باوجود تو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے ؟ ۔ اللہ عزوجل جسے چاہے اور جس طرح چاہے حکومت و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اللہ عزوجل کی بہتری سب پر غالب ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے ۔ ( فتوح الغیب مترجم صفحہ 80 )
ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو
حضرت سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اورموجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء و قدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالٰی سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضامندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالٰی نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظت کی دعا کر، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے، محتاجی و فقرفاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالٰی نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے۔امیر الؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے، یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتری کس میں ہے۔ یہ بات اللہ تعالٰی کی تدبیر پر رضامندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی ۔ (فتوح الغیب، مع قلائد الجواہر المقالۃ التاسعۃ والستون صفحہ 117)
محبت کیا ہے ؟
ایک مرتبہ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ “محبت کیا ہے ؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : محبت ، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محو ہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا انہیں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے، وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ صفحہ 229)
توکل کی حقیقت
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے توکل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ : دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔“ نیز ارشاد فرمایا کہ “ توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا اور “مذہب معرفت“ میں دل کے یقین کی حقیقت کا نام اعتقاد ہے کیونکہ وہ لازمی امور ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والا نقص نہیں نکال سکتا ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ صفحہ 232،چشتی)
توکل اور اخلاص
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ “توکل کیا ہے ؟“ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : توکل کی حقیقت اخلاص کی حقیقت کی طرح ہے اور اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عمل، عوض یعنی بدلہ حاصل کرنے کے لئے نہ کرے اور ایسا ہی توکل ہے کہ اپنی ہمت کو جمع کرکے سکون سے اپنے رب عزوجل کی طرف نکل جائے ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ صفحہ 233)
دنیا کو دل سے نکال دو
حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ “ دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرر یعنی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ ص 233)
شکر کیا ہے ؟
سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اور اسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ صفحہ 234،چشتی)
صبر کی حقیقت
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ “ صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کردے ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ صفحہ 234)
صدق کیا ہے ؟
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ (1) ۔ اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو ۔
(2) ۔ اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجا لائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہا ہے اور خود کو بھول جائے ۔
(3) ۔ احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعت انسانی ہمیشہ حالت حق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کا خوف ہو یا دوست کا ناحق مطالبہ ہو ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ صفحہ 235)
وفا کیا ہے ؟
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے ؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں ان کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ صفحہ 235)
وجد کیا ہے ؟
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالٰی کے لئے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ ص 236)
خوف کیا ہے ؟
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ “ اس کی بہت سی قسمیں ہیں : ⬇
(1) ۔ خوف ۔ ۔ ۔ یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے ۔
(2) ۔ رہبہ ۔ ۔ ۔ یہ عابدین کو ہوتا ہے ۔
(3) ۔ خشیت ۔ ۔ ۔ یہ علماء کو ہوتی ہے ۔
نیز ارشاد فرمایا : گنہگار کا خوف عذاب سے ، عابد کا خود عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک حنفی سے ہوتا ہے ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا : عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پا جاتے ہیں ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ صفحہ 236)
یا اللہ عزوجل ہمیں حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاداتِ مبارکہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے دلوں میں غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی محبت کو مذید پختہ فرما دے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment