Sunday 3 March 2024

فضائل و مسائل ماہِ رمضانُ المبارک

0 comments

فضائل و مسائل ماہِ رمضانُ المبارک

محترم قارئینِ کرام : استقبال کے معنی ہیں کسی آنے والے کو خوش آمدید کہنا ‘ اگر وہ محبوب ہے تو اس کےلیے دیدہ ودل فرشِ راہ کرنا ‘ عربی زبان میں اس کےلیے ”اَھْلاًوَّ سَھْلاً‘‘ اور ”مَرْحَبًا بِکُمْ‘‘ کے کلمات استعمال ہوتے ہیں ۔ ”رَحْب‘‘ کے معنی کشادگی کے ہیں اور کسی کو ”مَرْحَبًابِکُمْ‘‘ کہنے کا مطلب ہے : آپ کےلیے ہمارے دل میں بڑی کشادگی ہے ، کوئی انقباض نہیں ہے  ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا ۔ یہ بات طے ہے کہ جو موقع ۔ جو دن ۔ جو تہوار ۔ جتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اُسی قدر زیادہ اس کے استقبال کی تیاری کی جاتی ہے ۔ مثلاً شادی بیاہ ۔ عید یا دوسرے خوشی کےمواقع ۔ چناچہ رمضان کے استقبال کے حوالے سے بھی یہ حقیقت بھی ذہین نشین کر لینی جاہیے کہ جب تک ہم رمضان کی اہمیت و فضیلت اور اس کی فوائد و ثمرات کا شعوری طور پر ادراک اور احساس نہ کریں گے ۔ اس وقت تک ہم نہ اس کا استقبال اور نہ اس کے استقبال کی تیاری اس کے شایانِ شان کر پائیں گے ۔ اور نہ ہی رمضان المبارک سے اس طرح مستفید ہو سکیں گے جیسا کہ مستفید ہونے کا حق ہے ۔ سبھی لوگوں کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے آنے والے مہمان کی عزت و تکریم حسب حیثیت کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے ۔ مہمانوں کا استقبال اور مہمان نوازی رب تعالیٰ کو بھی پسند ہے قرآن پاک میں مہمان نوازی کے احکام مختلف اندازسے 15 جگہوں میں بیان کیے گئے ہیں ۔

اسلام میں مہمان نوازی کی بہت تاکید کی گئی ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مہمانوں کی بہت عزت وتکریم فر ماتے اور مہمانوں کی آمد سے خوش ہوتے ۔ مہمان نوازی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیاے کرام کا بھی پسندیدہ عمل اور طریقہ رہا ہے ۔ چنانچہ ابوا لضَّیفان حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے آپ بغیر مہمان کے کھانا تنا ول نہ فر ماتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فر ماتے ہیں جس گھر میں مہمان ہو اس میں خیر وبرکت اُونٹ کی کوہان (اونٹ کی پیٹھ کی بلندی) سے گر نے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 4 صفحہ51 حدیث نمبر 3351)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ معمول رہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اکٹھا فر ماتے اور خطبہ دیتے جس میں انہیں رمضان کے فضائل بیان فر ماتے، رمضان کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کی جانب متوجہ فر ماتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے آمدِ رمضان کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس کی تیاری کریں لوگوں تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فر مان و عمل کو پہنچائیں ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کی مبارک باد دینے سے کیا رمضان المبارک کا حق ادا ہو جائے گا ؟ ۔ ہرگز نہیں قطعی نہیں ۔ انسانوں کی بخشش و مغفرت کےلیے رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رمضان المبارک نعمت کے طور پر عطا فر مایا ۔ ماہ رمضان آیا نہیں کہ ابھی سے آمدِ رمضان کی مبارک با دکی جھڑی سوشل میڈیا پر شروع ہے کیا یہ عبادت کے تقاضوں کو پوری کرتی ہے۔فجر کی نمازِ جماعت میں اول صف نمازیوںسے پوری نہیں ہوتی ، مسجد بھر نے کی بات تو بہت دور ہے ۔ لیکن صبح ہوتے ہی سوشل میڈیا پر دینی پیغامات کی جھڑی لگ جاتی ہے کیا یہی اسلام ہے نماز نہ ادا کرو اور دینی پیغامات بھیجو۔ پلیز آپ سوچیں ضرور سوچیں ہم رمضان المبارک کے تقا ضوں کو کیسے پورے کریں ۔ کیا رمضان میں ہم افطار پارٹیاں کرا کر تصویریں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے اخبارت میں تشہیر کرا کر رمضان کا حق ادا کر رہے ہیں ؟ ۔ کیا ہم صرف 5 دن یا 8 دن یا 15 دن کی تراویح میں قرآن سن کر پڑھ کر بعد میں آزاد ہو جائیں تو کیا رمضان اور قرآنِ مقدس کا حق ادا کردیں گے ؟ ۔ کیا صرف طرح طرح کی افطاری بنا کر سجا کر اس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کر کے رمضان کا حق ادا کر دیں گے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ نہیں ہرگز نہیں قطعی نہیں ۔ یہ سب نام و نمود دکھاوا ہے ایسی عبادتیں منہ پر ماردی جائیں گی خدارا خدارا س سے خود بچیں اپنوں کو بچائیں ۔

ابھی سے ہم رمضان کے استقبال کی تیاریاں شروع نہیں بلکہ چالو کر دیں پورے رمضان کا شڈول بنائیں جیسے ہم کوئی بھی بڑا کام کرنے سے مہینوں پہلے پروگرام بناتے ہیں، شادی بیاہ ، مکان کی تعمیر بچے کی پیدائش کے بعد اُس کی پر ورش اور تعلیم کا پروگرام بناتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ استقبالِ رمضان آپ اس طرح کریں اپنی بھوک اور پیاس کو جانتے ہوئے بھو کوں کو کھا نا کھلائیں ، پیاسوں کو پانی پلائیں ، ضرورت مندوں کی حا جتیں (حسبِ حیثیت) پوری کریں اپنی مسجدوں ۔ مدرسوں سے بلا تفریق مذ ہب و ملت لوگوں کو پانی پلائیں ، حسبِ حیثیت غریبوں ، محتاجوں ، مسکینوں کےلیے سحری کا انتظام کریں نہ کہ افطار کی بڑی بڑی پارٹیاں کریں اور لیڈروں کو بلائیں اس کا اعلان کرائیں ، اگر امام اعلان کرنا بھول جائے تو اس کی بے عزتی کر دی ۔

دکھاوا شہرت سے عبادتیں بربا د کردی جاتی ہیں،دکھاوا صرف اور صرف نفس کا دھو کا ہے رب تعالیٰ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔جن پڑوسیوں کو آپ جانتے ہیں کہ غریب ہیں روزہ رکھتے ہیں اُن کو چھپ چھپاکر افطار بھجیں مدد کریں ۔ اس وقت جلسوں کا خوب زور ہے علماے کرام آمدِ رمضانُ المبارک ، استقبال رمضانُ المبارک کے سلسلے میں عوام تک پیغام پہنچائیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔ ائمہ کرام جمعہ کے خطبہ میں اس جانب توجہ دلائیں،محلوں میں جو خواتین کے اجتماعات ہوتے ہیں مبلغات بھی اس طرف خواتین کی توجہ مبذول کرائیں۔پورے ماہ میں نماز کی پابندی ، قرآن پاک کی تلاوت، توبہ اسغفار اور ذکر و اذکار پر پوری توجہ مرکوز رکھیں ۔

یاد رہے کہ خوشخبری سننے والوں کے اندر خوشی اور سرور پیدا کرنے کا نام ہے اور رمضان جو نیکیوں کا موسم بہار ہے ۔ اس کے قریب آنے کی خوش خبری سے بڑھ کر اور کون سی خوشخبری ہو سکتی ہے ؟ چناچہ آپ اور آپ کے صحابہ ایسی ہی سچی خوشی سے سرشار رمضانُ المبارک کے منتظر ہوتے ۔ گویا پورے انہماک ۔ جوش و جذبے اور ولولے و بے تابی کے ساتھ رمضانُ المبارک کا انتظار اور استقبال سنتِ نبوی ہے ۔ لہٰذا شعبانُ المعظم میں ۔ اسی سنتِ نبوی کی تجدید ہمارا مقصدِ اولین ہے اور فلاح و کامیابی انہی کا مقدر بنتی ہے ۔ جو اس مہینے کی ویسے ہی قدر کرتے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جو اسوۂ رسول کے مبارک نقشِ قدم پر چل کر اس ماہِ عظیم کی رحمتوں و برکتوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی جھولیاں بھر لینے کےلیے پہلے ہی سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں ۔ تاکہ اس عظمت و بزرگی والے مہینے کی قیمتی گھڑیوں کی ایک ساعت بھی ضائع نہ جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑے شوق و محبت سے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے ۔ قمری سال کے مہینوں میں ”رمضان‘‘ ہی ایسا عظیم المرتبت مہینہ ہے جس کی شان قرآنِ کریم میں بیان کی گئی ہے ۔ اور اس کی بابت ایک مفصَّل استقبالی خطبہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے‘ جو درج ذیل ہے : ⬇

حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں : (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو ! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے‘ (یہ) مبارک مہینہ ہے ، اس میں ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، ﷲ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (نوافل کےلیے) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے ، سو جو (خوش نصیب) اس مہینے میں کوئی نفلی عبادت انجام دے گا ، تو اُسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا ، تو اسے (اسی نوع کے) غیرِ رمضان کے سترفرائض کے برابر اجر ملے گا ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ، یہ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے دکھوں کے مداوے کامہینہ ہے ، یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ، جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے گا ، تویہ اس کےلیے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا ، اس کے سبب اس کی گردن نارِ جہنّم سے آزاد ہوگی اور روزے دار کے اجر میں کسی کمی کے بغیر اسے اس کے برابر اجر ملے گا ۔ (حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں : ) ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہر ایک کو اتنی توفیق نہیں ہے کہ وہ روزے دارکو روزہ افطار کرائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : یہ اجر اسے بھی ملے گا ، جو دودھ کے ایک گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی پلا کر ہی کسی روزے دارکو روزہ افطار کرائے اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے‘ تواللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) میرے حوضِ (کوثر) سے ایسا جام پلائے گا کہ (پھر) وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا ۔ یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ (باعثِ نزولِ) رحمت ہے اور اس کا دوسرا عشرہ وسیلۂ مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ نار (جہنم) سے آزادی کاسبب ہے ۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت (خدام اور ملازمین) کے کام میں تخفیف کرے ‘ تواللہ تعالیٰ اسے بخش دے گااور اسے نار (جہنم) سے رہائی عطا فرمائے گا ۔ (شُعَبُ الایمان لِلبَیہقی حدیث 3336)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے : مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ ؟ ۔ کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو ؟ ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کوئی وحی اترنے والی ہے ؟ فرمایا : نہیں ۔ عرض کیا : کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : نہیں ۔ عرض کیا : پھر کیا بات ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ ﷲَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ ۔ (الترغيب والترهيب، 2 : 64، رقم : 1502) ۔ ترجمہ : بے شک ﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے : اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ ۔ (حلية الأولياء جلد 6 صفحہ 269،چشتی)
ترجمہ : اے اللہ! ہمارے لیے رجب ، شعبان اور (بالخصوص) ماہ رمضان کو بابرکت بنا دے ۔

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ ؟ قَالَ : ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ۔ (نسائي السنن کتاب الصيام، باب صوم النبي ﷺ بأبي هو وأمّي وذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک، 4 : 201، رقم : 2357،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 201، رقم : 21801)
ترجمہ : حضرت اُسامہ بن زید رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں ۔

اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا ۔ (نسائي، السنن، کتاب الصيام، ذکر حديث أبی سلمه فی ذلک، 4 : 150، رقم : 2175،چشتی)

ماہِ شعبان ماہِ رمضان کےلیے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہییں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن حکیم ۔ علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ’ لطائف المعارف صفحہ 258 ‘ میں لکھتے ہیں : ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کےلیے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس ، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوها، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ ۔ (لطائف المعارف : 258)
’’شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں ۔

حضرت عبدُاللہ بِن عُکَیْم جُہَنِی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کی آمد ہوتی توامیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یکم رمضان المبارک کی شب نمازِ مغرب کے بعد لوگوں کو نصیحت آموز خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے : اے لوگو بیٹھ جاؤ ! بے شک اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں ، البتہ اس میں نوافل کی ادائیگی فرض نہیں ہے ، لہٰذا جو بھی نوافل ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ نوافل ادا کرے کیونکہ یہ وہی بہترین نوافل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے اور جو نوافل کی ادائیگی کی اِستطاعت نہیں رکھتا اُسے چاہیے کہ اپنے بستر پر سو جائے ۔ تم میں سے ہر بندہ یہ کہتے ہوئے ڈرے کہ اگر فُلاں شخص روزہ رکھے گا تو میں روزہ رکھوں گا ، اور اگر فُلاں شخص نوافل ادا کرے گا تو میں بھی نوافل پڑھوں گا ۔ جوبھی روزہ رکھے یا  نوفل ادا کرے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے کرے ۔ تم میں سے ہر شخص کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جب تک وہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہے درحقیقت نماز ہی میں ہوتا ہے ۔ آپ نے دو تین  مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے گھر میں فضول باتیں کرنے سے بچتے رہو ۔ پھر تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا : خبردار ! تم میں سے کوئی بھی ہرگز اس مبارک مہینے کو  فضول نہ گزارے ۔ جب تک چاند نہ دیکھ لو اس وقت تک روزہ نہ رکھو اگر چاند (Moon) مشکوک ہو جائے تو تیس (30) دن پورے کرو اور جب تک اندھیرا (یعنی سورج کے ڈوب جانے کا یقین)نہ ہو اس وقت تک افطار نہ کرو ۔ (مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلوٰۃ،باب قیام رمضان جلد ۴ صفحہ ۲۰۴ حدیث نمبر ۷۷۷۸،چشتی)

حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ماہِ غُفران کی اہمیت و فضیلت سے کس قدر واقف  تھے اور اس مبارک مہینے سے کیسی والہانہ عقیدت و محبت کرتے تھے کہ جیسے ہی یہ مبارک مہینہ جلوہ گر ہوتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی ، آپ آمدِ رمضان پر نہ صرف خود نیکیوں میں مشغول ہو جاتے بلکہ مسلمانوں میں عبادت کا ذوق و شوق بیدار کرنے کےلیےانہیں بھی اس مقدَّس مہینے میں اخلاص کےساتھ کثرت سے نفل عبادت کی ترغیب دلاتے اور آمدِ ماہِ رمضان کے پُرنور موقع پر چراغاں کے ذریعے مساجد کو روشن کرنا بھی آپ کے مبارک معمولات میں شامل تھا جیسا کہ حضرت ابواسحاق ہَمدانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ رَمضانُ المبارک کی پہلی رات (First Night) باہر نکلے تو دیکھا کہ مساجد پر قندیلیں چمک رہی ہیں اور لوگ کتابُ اللہ کی تلاوت کر رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا : نَوَّرَاللہُ لِعُمَرَ فِيْ قَبْرِہٖ كَمَا نَوَّرَ مَسَاجِدَ اللہِ بِالْقُرْآنِ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی قبر کو ویسا ہی منوَّر کر دے جیسا آپ نے (رمضانُ المبارک میں) مساجد کو قرآن سے منوَّر کیا ۔ (الریاض النضرہ)

ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس مقدَّس مہینےکو عظیم الشّان طریقے سےخوش آمدیدکہنے کی تیَّاری شروع کر دیں ، اسےفضولیات اور غفلت میں گزارنے کے بجائے اخلاص کے ساتھ نیک اَعمال مثلاً فرائض و واجبات ، سنن و مستحبات ، نوافل ، ذکر و اذکار ، تلاوتِ قرآن ، زکوۃ و فطرات ، صدقہ و خیرات ، عشر و عطیات ، تہجد ، اشراق و چاشت ، غرباء و مساکین کی اِمداد ، شب بیداری ، توبہ و استغفار اور دعا و مناجات ، دُرُود و سلام کی کثرت ، حمد و نعت جیسی نیکیوں میں مشغول رہیں بلکہ ہر وہ نیک و جائز کام کرنے کی کوشش کریں کہ جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے مَحبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رِضا ہو ۔ ہمارے کریم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس مبارک مہینے کی آمدہوتے  ہی عِبادتِ الٰہی میں بہت زیادہ مشغول ہو جایا کرتے تھے : اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرت عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں : جب ماہِ رَمَضان آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کےلیے کَمر بَستہ ہو جاتے اور سارا مہینہ اپنے بِستر مبارک پر تشریف نہ لاتے ۔ (تفسیر درِ منثور،۱ / ۴۴۹) ۔ مزید فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رَمَضان تشریف لاتا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کارنگ مبارَک تبدیل (ہو کر پیلا یا لال) ہو جاتا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نَماز کی کثرت فرماتے ، خوب گِڑ گڑا کر دُعا ئیں مانگتے اور اللہ تعالیٰ کا خوف آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر طاری رہتا ۔ (شُعَبُ الْایمان،۳  / ۳۱۰ ،حدیث: ۳۶۲۵)

ہر مسلمان کےلیے اللہ تعالے کی طرف سے رمضانُ المبارک کا مہینہ ایک گراں قدر تحفہ اور عظیم نعمت ہے ، زندگی کے نشیب و فراز سے گذارتے ہوئے اللہ عزوجل نے ہمیں رمضانُ المبارل کے دہانے تک پہنچایا ہے ، اس لیے ہمیں سب سے پہلے اس رب کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ اور محض زبانی شکر کافی نہیں ہے ، بلکہ اپنے اعمال و کردار سے بھی اس کا اظہار کریں ۔ شکر نعمت میں پائداری اور زیادتی کے اسباب میں سے ہے ۔ شعبان کا مہینہ چونکہ طہارت کا مہینہ ہے ، اس لیے اہل ایمان کو اس ماہ فضیلت میں خاص اہتمام سے گناہوں سے توبہ کرلینی چاہیے تاکہ ان کے باطن کا خوب تزکیہ ہو تاکہ وہ ماہِ رمضان کا استقبال بہتر کیفیات کے ساتھ کرسکیں ۔ ان مبارک ایام میں اپنے لیے ، پوری امت مسلمہ کےلیے جملہ خیرات کی دعا کریں اور دیگر راہِ ہدایت سے بھٹکی انسانیت کےلیے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں ۔در اصل یہی ان ایام کا وہ مبارک ثمرہ ہے جس کی لذت سے ہمیں محظوظ ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ٰسے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے عظیم الشان مہمان کی آمد سے پہلے پہلے عمدہ اخلاق اور عالی صفات سے مزین فرما دے کہ ہم خوب سیرت ہو کر اپنے اس محترم و قدس مہمان کا استقبال کریں جس کی آمد کے ہم منتظر ہیں اور زبان سے دعا گو ہیں کہ : اے اللہ تُو ہمارے ماہِ شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں صحت و عافیت سے ماہِ رمضان تک پہنچا آمین ۔

رمضان ، قرآن ، انسان اور مسلمان

رمضان ، قرآن ، انسان اور مسلمان یہ چاروں الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط و تعلق رکھتے ہیں ۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہمیں یہ پتہ دیتا ہے کہ اس کی مبارک ساعتوں میں نزول قرآن ہوا ہے ۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے اور یہ اعزاز و شرف اسے فطرتاً ودیعت کردیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عملی زندگی میں کیا ہر انسان اشرف المخلوقات ہے ؟ اگر نہیں تو پھر انسان اشرف المخلوقات کیسے بن سکتا ہے ؟

انسان کا شرف اللہ کی اطاعت میں ہے : انسان اگر اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کا تاج پہنچانا چاہتا ہے تو اُسے اس امر کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ انسان کا شرف اللہ کی اطاعت میں ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن یوں متوجہ کرتا ہے کہ اشرف المخلوقات انسان وہی ہو سکتا ہے جو اس ارشاد باری تعالیٰ پر پورا اُترے : مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ ِﷲِ ۔
ترجمہ : جس نے اپنا چہرہ ﷲ کے لیے جھکا دیا (یعنی خود کو ﷲ کے سپرد کر دیا) ۔ (البقرة، 112)

جو انسان اپنے رب کے سامنے جھک گیا ، اس کا فرمانبردار ہو گیا ، زندگی میں رب کی اطاعت آگئی ، اپنے وجود پر اللہ کے احکامات کو نافذ کر لیا ، جبینِ نیاز اللہ کے حضور جھک گئی ، الغرض جس کا سارا وجود ، قول اور عمل اللہ کے حکم کے تحت آگیا اور وہ سراپا تسلیم و رضا بن گیا ، ایسا انسان قرآن کے نزدیک اشرف المخلوقات کے اعزا زکا مستحق ہے اور حقیقی معنوں میں اسلام کے دائرہ میں داخل ہو گیا ۔

رمضان اور مسلمان : اشرف المخلوقات کے اعزاز کے حصول کےلیے ماہ رمضان المبارک ایک مسلمان کو ایک خاص قسم کا ماحول اور روحانی کیفیت عطا کرتا ہے جس بناء پر اس منزل کے حصول کےلیے اس کا سفر آسان ہو جاتا ہے ۔ ایک مسلمان کی زندگی میں جب رمضان کا بابرکت مہینہ آتا ہے تو اس مسلمان کو اپنی زندگی میں کیا کچھ اہتمام کرنا ہے۔۔ اپنے قول کو کس سطح پر قائم کرنا ہے ۔ اپنے فعل کو کسی معیار پر استوار کرنا ہے ۔ اپنے وجود سے کیا چیز ظاہر ہونے دینی ہے اور کیا نہیں ؟ اگر ہم نے اپنے آپ کو مثالی انسان اور ارفع مسلمان بنانا ہے تو اس حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار اور ارشادات و فرمودات سے رہنمائی لینا ہوگی ۔

رمضان المبارک کی فضیلت کا اظہار باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ۔
ترجمہ : رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے ۔ (سورہ البقرة، 185)

پس نزولِ قرآن کی وجہ سے ماہ رمضان دوسرے مہینوں سے ممتاز اور منفرد ہے ۔ اللہ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی سب سے بڑی علامت ، صداقت و حقانیت خود قرآن ہے۔ گویا قرآن ایک طرف اللہ کی کتاب اور اُس کا کلام ہے تو دوسری طرف رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کا ایک زندہ معجزہ بھی ہے ۔

روزوں کی فرضیت : اللہ رب العزت نے روزوں کی فرضیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا : يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔ (سورہ البقرة: 183)

اس آیت مبارکہ میں روزوں کی فرضیت کے مقصد ’’تقویٰ کا حصول‘‘ کو بیان فرمایا گویا جو روزہ انسان کو تقویٰ و پرہیزگاری سے آشنا نہ کرے اور اس کی عملی زندگی میں اللہ رب العزت کے احکامات کی بجا آوری اور منع کردہ اشیاء سے رُکنے پر آمادگی پیدا نہ کرے ، وہ روزہ بے روح اور بے مقصد ہوگا۔ ان روزوں کا دوسرا مقصد قرآن میں یوں بیان فرمایا گیا:لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔
ترجمہ : اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ ۔ (سورہ البقرة: 185)

قرآن اور صاحب قرآن کی صورت میں گویا ایک مہینے کے روزے کوئی زیادہ نہیں ۔ جتنی بڑی نعمت ہمیں میسر ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر شکر بھی اسی قدر بڑا ہونا چاہیے ۔ گویا یہ روزے ایک طرف ہمیں تقویٰ کی جانب راغب کرتے ہیں اور دوسری طرف ہمیں قرآن و صاحب قرآن کی صورت میں ملنے والی نعمت کی قدر و قیمت سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ نیز نعمت عطا کرنے والے رب کے ساتھ بھی ہمارے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں ۔

پس 30/29 دن کوئی زیادہ نہیں ہیں ۔ اس لیے جب رمضان المبارک ہماری زندگی میں آئے تو اسے اپنے رب کی طرف سے خیر جاننا ہوگا ۔ اس کی بارگاہ میں شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ ان روزوں کو رکھنا ہوگا ، موسموں کی شدت و حدت اور نفسانی خواہشات کو اپنے راستے کی رکاوٹ بننے سے روکنا ہوگا ۔ ہماری تعیشات بھری زندگی اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ نہ بنیں ۔ حالات کی سختیاں ہمیں روزہ رکھنے کے عمل سے دور نہ کریں ۔ ہماری صحت کے چھوٹے موٹے مسائل بھی ہمیں روزہ کا عمل اختیار کرنے میں مزاحم نہ ہوں ۔ غرضیکہ تمام تر حالات و واقعات میں ہمارے لیے روزہ رکھ لینا زیادہ بہتر ہے اور اسی عمل میں ہمارے لیے خیر ہی خیر ہے ۔ ارشاد فرمایا کہ بیماری اگر شدید نہیں بلکہ قابل برداشت ہے تو ایسی صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ : وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو ۔ (سورہ البقرة: 184)

رمضان المبارک نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں : ⬇

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے روزوں کا خاص اہتمام فرماتے ۔ اس ماہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادات اور معمولاتِ صالح میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ۔ وہ ذاتِ مبارکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر کا مژدہ سنایا ہو کہ آپ کے صدقے سے اللہ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ فرمادیئے۔ اگر وہ ہستی رمضان المبارک میں رب کائنات کی بارگاہ میں اس حد تک نیاز مندانہ اظہار فرمائے تو ہمیں بھی اپنے اعمال کی اصلاح اور صفائے قلب و باطن کی طرف متوجہ ہونا ہوگا ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ يَاْتِ فِرَاشَهُ حَتَّی يَنْسَلِخَ ۔
ترجمہ : جب ماهِ رمضان شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا ۔ (ابن خزيمة في الصحيح، 3/ 342، الرقم: 2216،چشتی)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَغَيَرَ لَوْنُهُ وَکَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي الدُّعَاءِ وَاَشْفَقَ مِنْهُ ۔
ترجمہ : جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازوں کی (مزید) کثرت کر دیتے اور ﷲ تعالیٰ سے عاجزی و گڑ گڑاکر دعا کرتے اور اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے ۔ (شعب الإيمان، 3/ 310، الرقم: 3625)

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی فضیلت اور اہمیت کو اپنی متعدد احادیث میں اجاگر فرمایا ہے تاکہ رمضان کے ساتھ وابستگی ایمان میں اضافہ کا باعث بن جائے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔
ترجمہ : جو شخص رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کےلیے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔(بخاری الصحيح کتاب الصوم، 1/ 22، الرقم: 38،چشتی)

ہماری خوش نصیبی ہے کہ رمضان المبارک ہماری زندگیوں میں آیا ہے ۔ ہمیں رمضان المبارک کی آمد کا استقبال کیسے اور کس طرح کرنا چاہیے یہ عمل بھی ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اقدس سے سیکھتے ہیں ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : هَذَا رَمَضَانَ قَدْ جَاءَ تُفْتَحُ فِيْهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ النَّارِ وَتُغَلُّ فِيْهِ الشَّيَاطِيْنُ. بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ إِذَا لَمْ يُغْفَرْلَهُ فِيْهِ فَمَتَی ؟
ترجمہ : رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اس میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی ؟ ۔ (طبرانی، المعجم الاوسط، 7: 323،چشتی)

جہنم کے دروازے بند کردیے جانے سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو جہنم کی طرف لے جاتی ہے انسانی طبیعت میں فطرتاً اس کی رغبت کم کردی جاتی ہے ۔ نیکی کے فروغ اور بدی کے سدباب کا ماحول بنادیا جاتا ہے ۔ برائی کی طرف آمادہ کرنے والے شیاطین اور اس کے کارندوں کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے ۔ آسمانی اور زمینی فضائیں اللہ کی رحمت سے معمور ہوجاتی ہیں ۔ ہر طرف ایک نورانی اور روحانی ماحول کارفرما دکھائی دیتا ہے ۔ اللہ کی شانِ رحمت اپنے جوبن اور کمال پر دکھائی دیتی ہے ۔ اس مہینے میں باری تعالیٰ اپنی رحمتیں سب سے زیادہ بانٹتا ہے اور ان رحمتوں کو لینے اور پانے کا طریق اس کے حضور عبادت گزاری، مغفرت طلبی اور دعا طلبی میں ہے ۔ اس مہینے میں ایک سعید روح کو باری تعالیٰ اپنی ساری نعمتوں سے نوازتا ہے اور اس مہینے میں اللہ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں سے محرومی صرف اور صرف شقی اور بدبخت کےلیے ہے ۔

حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی آمد پر ارشاد فرمایا : اَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَکَةٍ يَغْشَاکُمُ ﷲُ فِيْهِ فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَيَحُطُّ الْخَطَايَا، وَيَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ، يَنْظُرُ ﷲُ تَعَالَی إِلَی تَنَافُسِکُمْ فِيْهِ، وَيُبَاهِي بِکُمْ مَـلَائِکَتَهُ فَاَرُوا ﷲَ مِنْ اَنْفُسِکُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ ﷲِ ۔
ترجمہ : تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ آگیا اس میں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے اور اپنی رحمت نازل فرماتا ہے ، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے اور تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اس لیے تم اپنے قلب و باطن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیکی حاضر کرو اس لیے کہ وہ شخص بدبخت ہے جو اس ماہ مبارک میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہا ۔ (الترغيب والترهيب، 2/ 60، الرقم: 1490،چشتی)

اس مہینے میں اللہ رب العزت کا کرم اس حد تک بندے پر نازل ہوتا ہے کہ اس کی بارگاہ میں جھولی پھیلانے والا نامراد نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی شان کے لائق بندے کو اس کی طلب سے کئی بڑھ کر عطا کرتا ہے ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ذَاکِرُ ﷲِ فِي رَمَضَانَ مَغْفُورٌ لَهُ، وَسَائِلُ ﷲِ فِيْهِ لَا يَخِيْبُ ۔
ترجمہ : ماہِ رمضان میں ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں ﷲ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا ۔ (المعجم الاوسط، 6/ 195، الرقم: 6170،چشتی)

گویا یہ مہینہ جنت میں داخلے اور جنت کو پانے کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں رب اپنے بندوں کے دلوں کو اپنا خصوصی مسکن اور ٹھکانہ بناتا ہے ۔ مانگنے والے کو نامراد نہیں کرتا ۔ اور وہ اپنے بندوں کے دلوں کو اپنی معرفت ، محبت اور قربت کی خیرات عطا کرتا ہے ۔

اسلام کی عبادات کا مقصد تشکیلِ کردار : روزے دار کےلیے لازم ہے کہ کھانے ، پینے اور نفسانی خواہشات کی ہر چیز سے رک جائے ۔ اکل وشرب اور ہوائے نفس سے رکنے کا یہ عمل ہی صوم ہے لیکن اس صوم کی تکمیل کےلیے حالت روزہ میں ایک صائم کو روزے کے کچھ آداب و تقاضوں کو بھی بجا لانا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وَإِذَا کَانَ يَوْمُ صَوْمِ اَحَدِکُمْ فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ اَحَدٌ اَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ ۔
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس کے ساتھ لڑے تو یہ کہہ دے میں روزے سے ہوں ۔ (بخاری الجامع الصحيح، کتاب الصوم، 2: 673، الرقم: 1805،چشتی)

ایک اور مقام پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ لَمْ يَدَعْ قَولَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ ِﷲِ حَاجَةٌ فِي اَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ ۔
ترجمہ : جو شخص بحالت روزہ جھوٹ بولنا اور اس کے ساتھ برے عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو (روزے کی حالت میں) اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحيح البخاری، کتاب: الصوم، 2/ 673، الرقم: 1804،چشتی)

اسلام کی ہر عبادت کا مقصد تقویٰ کی صورت میں انسان کو ایک کردار عطا کرنا ہے ۔ روزے کے عمل کی وسعت ان احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ روزہ سارے اعضاء کا ہونا چاہیے ۔ زبان سب و شتم اور فحش کلامی سے پاک ہو ، کسی کو گالی گلوچ نہ کرے ، نفرت و حقارت کا اظہار نہ کرے ، کسی کے جذبات کو مجروح نہ کرے اور کسی بھی قسم کی کسی کو بھی کوئی تکلیف و اذیت نہ دے ۔ الغرض مسلمان کا وجود ، وجود خیر ہو، لڑائی جھگڑے، فتنہ و فساد ، جھوٹ سے ہر ممکن اجتناب کرے ۔ نیز اسی طرح اس کا وجود بھی بُرے عمل کی آماجگاہ بننے سے محفوظ ہو جائے ۔

اگر نفس شر کی ہر چیز میں مصروف نظر آئے ، اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرے ، اللہ کی نافرمانی اور معصیت کی طرف بڑھے لیکن ظاہر داری میں روزے رکھتا پھرے ، دن بھر بھوکا پیاسا رہے تو اس کا یہ عمل کچھ فائدہ نہ دے گا ، اس لیے کہ ایسے روزے کا نہ رب نے حکم دیا تھا اور نہ یہ اسلام میں مقصود ہے ۔

فلیس للہ حاجۃ ۔ اللہ کو ایسے روزوں کی ضرورت نہیں جو اس کے اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور تعلیمات کی صریح خلاف ورزی میں رکھے جائیں ۔ پس جس طرح ہر عمل اپنی ادائیگی کے لئے کچھ قواعد و ضوابط رکھتا ہے اسی طرح روزے کی ادائیگی کے مذکورہ ضابطوں پر عمل پیرا ہونا ہی روزے کو اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت تک لے جاتا ہے ۔

روزہ ڈھال ہے : روزہ ڈھال اور دوزخ سے بچاٶ کے لیے قلعہ اس وقت بنتا ہے جب روزے کا عمل اپنے تمام تر ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ ادا کیا جائے ۔ روزہ میں ایک مکمل عمل اطاعت نظر آئے اور کسی بھی وقت اس میں معصیت و نافرمانی کا کوئی رجحان دکھائی نہ دے ۔ ایسا روزہ ہی مکمل طہارت کے ساتھ ساتھ اکمل اطاعت بنتا ہے ۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَحِصْنٌ حَصِيْنٌ مِنَ النَّارِ ۔
ترجمہ : روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچاٶ کےلیے محفوظ قلعہ ہے ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2: 402، الرقم: 9214،چشتی)

روزے کا جہنم سے بچاٶ کےلیے ایک قلعہ ، ایک ڈھال اور ایک مکمل حفاظت ہونا اس طرح ہے کہ اگر روزہ دار خود کو ان برائیوں سے بچالیتا ہے تو اس کا یہ سارے کا سارا عمل ایک ڈھال بن جاتا ہے ۔

قیامِ رمضان : رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں صحابہ کرام رضی الکہ عنہم کو نماز تراویح ادا کرنے کی ترغیب دیتے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حوالے سے بیان کرتے ہیں : يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ ۔ ترجمہ : رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے ۔ (صحيح بخاری، کتاب صلاة التراويح، 2: 707 الرقم: 1905،چشتی)

حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ قَامَ رَََمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ۔
ترجمہ : جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا ۔ (سن نسائی کتاب الصيام 4: 158، الرقم: 2208،چشتی)

ان احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تراویح کی وہ نماز جو کیفیت ایمان کے ساتھ ادا کی جائے ، جس میں ثواب ، اپنے اعمالِ نفس کے احتساب و محاسبہ کی کیفیات اور اللہ کی اطاعت میں دائمی رہنے کا جذبہ بھی ہو ، ان کیفیات سے معمور اور بھرپور صلاۃ التراویح ایک مسلمان و مومن کے حق میں سراسر مغفرت و بخشش کی خیرات بن جاتی ہے ۔ باری تعالیٰ اپنے بندہ کے طویل قیام کے ذریعے اس مغفرت طلبی کے عمل کو اجابت کی شان عطا کرتا ہے۔ بندے کو بخشش و مغفرتِ ذنب کا مژدہ جانفزا سنادیا جاتا ہے ۔ یوں بندہ اپنے سفرِ اطاعت میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔

روزے کا اجرو ثواب : رمضان المبارک میں بندہ مومن کو اللہ کی بارگاہ میں ملنے والی سب سے بڑی نعمت مغفرت اور عطائے عفو ہے ۔ یقینا ایک بندے کےلیے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں کہ رب بندے کو مغفرت کی بشارت عطا کردے ۔

روزہ کے اس مکمل عمل کا اللہ کی بارگاہ میں اجرو ثواب کیا ہے ؟ ⬇

حدیث قدسی ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرماتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے فرمایا : کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ فَالْحَسَنَهُ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا إِلَی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي وَ اَنَا اَجْزِي بِهِ إِنَّهُ يَتْرُکُ الطَّعَامَ وَشَهَوَتَهُ مِنْ اَجْلِي وَيَتْرُکُ الشَّرَابَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ اَجْلِي فَهُوَ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِهِ ۔
ترجمہ : آدمی کا ہر عمل اس کے لئے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں، یقینا وہ (روزہ دار) کھانا اور شہوت نفسانی کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے اور اپنا پینا اور شہوت میری وجہ سے ترک کرتا ہے، پس وہ (روزہ) میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں۔ (سنن الدارمي ، 2/40، الرقم:1770،چشتی)

نہ صرف یہ کہ روزے کا اجرو ثواب اللہ تعالیٰ نے محدود نہ فرمایا بلکہ روزے کے مکمل آداب و تقاضوں کو ملحوظ رکھنے والا روز قیامت روزے کی شفاعت سے بھی بہرہ مند ہوگا ۔

حضرت عبد ﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. يَقُوْلُ الصِّيَامُ: اَي رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ فَيُشَفَّعَانِ ۔
ترجمہ : روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندہ مومن کےلیے شفاعت کریں گے ۔ روزہ عرض کرے گا : اے اللہ ! دن کے وقت میں نے اس کو کھانے اور شہوت سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے رات کو اسے جگائے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ، پس دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی ۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/ 174، الرقم: 6626)

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادات میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ روزے کو تمام عبادات پر ترجیح اور فضیلت دیتے ہوئے باری تعالیٰ نے اس کا انتساب الصوم لی وانا اجزی بہ کے کلمات کے ساتھ اپنی طرف کیا ہے ۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادتیں تو ساری اسی کےلیے ہیں مگر جو اہمیت روزے کو دی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہے ۔ اس لیے بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلسل اور باقاعدگی سے رمضان المبارک کے روزے رکھ کر اپنے رب کی معرفت اور قربت حاصل کریں ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلْیَصُمْہُؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ یُرِیۡدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۫ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 185)

ترجمہ : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کےلیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں ۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔


اس آیتِ مبارکہ میں ماہِ رمضان کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے اوراس کی دو اہم ترین فضیلتیں ہیں ، پہلی یہ کہ اس مہینے میں قرآن اترا اور دوسری یہ کہ روزوں کےلیے اس مہینے کا انتخاب ہوا ۔ اس مہینے میں قرآن اترنے کے یہ معانی ہیں : (1) رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت کے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا ۔ (2) قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان میں ہوئی ۔ (تفسیر کبیر سورہ البقرۃ الآیۃ : ۱۸۵، ۲/۲۵۲-۲۵۳،چشتی) ۔ (3) مکمل قرآن کریم رمضان المبارک کی شب ِقدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا ، (تفسیر خازن سورہ البقرۃ الآیۃ : ۱۸۵،۱/۱۲۱)


یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فَوقتاً حکمت کے مطابق جتنا جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام لاتے رہے اوریہ نزول تیئس سال کے عرصہ میں پورا ہوا ۔


عظمت والی چیز سے نسبت کی برکت


رمضانُ المبارک وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کا نام قرآن پاک میں آیا اورقرآن مجید سے نسبت کی وجہ سے ماہِ رمضان کو عظمت و شرافت ملی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس وقت کو کسی شرف و عظمت والی چیز سے نسبت ہو جائے وہ قیامت تک شرف والا ہے ۔ اسی لیے جس دن اور گھڑی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور معراج سے نسبت ہے وہ عظمت و شرافت والے ہو گئے ، جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی روزِ جمعہ پیدائش پر جمعہ کا دن عظمت والا ہو گیا ۔ (مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ صفحہ ۴۲۵، الحدیث: ۱۷(۸۵۴)،چشتی)


حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر قرآن میں سلام فرمایا گیا ۔ (مریم: ۱۵) اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام فرمانا قرآن میں مذکور ہے ۔ (سورہ مریم آیت نمبر ۳۳)


زیرِ تفسیر آیت میں قرآن مجید کی تین شانیں بیان ہوئیں : (۱) قرآن ہدایت ہے ، (۲) روشن نشانیوں پرمشتمل ہے اور ، (۳) حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے ۔ قرآن شریف کے 23 نام ہیں اور یہاں قرآن مجید کا دوسرا مشہور نام فرقان ذکر کیا گیا ہے ۔


اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہم پر فرض فرمائی لیکن اپنی رحمت سے ہم پرتنگی نہیں کی بلکہ آسانی فرماتے ہوئے متبادل بھی عطا فرما دیے ۔ روزہ فرض کیا لیکن رکھنے کی طاقت نہ ہو تو بعد میں رکھنے کی اجازت دیدی، بعض صورتوں میں فدیہ کی اجازت دیدی ، کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی اجازت دیدی، ایک مہینہ روزہ کا حکم فرمایا تو گیارہ مہینے دن میں کھانے کی اجازت دیدی اور رمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اجازت دی بلکہ سحری و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا ۔ گنتی کے چند جانوروں کا گوشت حرام قرار دیا تو ہزاروں جانوروں ، پرندوں کا گوشت حلال فرما دیا ۔ کاروبار کے چند ایک طریقوں سے منع کیا تو ہزاروں طریقوں کی اجازت بھی عطا فرمادی ۔ مرد کو ریشمی کپڑے سے منع کیا تو بیسیوں قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت دیدی ۔ الغرض یوں غور کریں تو آیت کا معنیٰ روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ ہم پر تنگی نہیں چاہتا ۔


گنتی پوری کرنے سے مراد رمضان کے انتیس یا تیس دن پورے کرنا ہے اور تکبیر کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے دین کے طریقے سکھائے تو تم اس پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو اور ان چیزوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ۔


حافظ ابن عساکر علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ابراہیم پر صحائف رمضان کی پہلی شب میں نازل کیے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات رمضان کی چھٹی شب میں نازل کی ‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل رمضان کی اٹھارویں شب میں نازل ہوئے ۔ (تاریخ ابن عساکر ج 3 ص 195‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ 1404 ھ،چشتی)


امام رازی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مجاہد نے کہا : کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور رمضان کے مہینہ کا معنی ہے : اللہ کا مہینہ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے روایت ہے کہ یہ نہ کہو کہ رمضان آیا اور رمضان گیا ‘ بلکہ یہ کہو کہ رمضان کا مہینہ آیا اور رمضان کا مہینہ گیا ‘ کیونکہ رمضان ‘ اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے ۔


دوسرا قول یہ ہے کہ رمضان مہینہ کا نام ہے جیسا کہ رجب اور شعبان مہینوں کے نام ہیں۔ خلیل سے منقول ہے : رمضان ‘ رمضاء سے بنا ہے اور رمضاء خریف کی اس بارش کو کہتے ہیں جو زمین سے گرد و غبار کو دھو ڈالتی ہے ‘ اس طرح رمضان بھی اس امت کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے اور ان کے دلوں کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ رمضان رمض سے بنا ہے اور رمض سورج کی تیز دھوپ کو کہتے ہیں اور اس مہینے میں روزہ داروں پر بھوک اور پیاس کی شدت بھی تیز دھوپ کی طرح سخت ہوتی ہے ‘ یا جس طرح تیز دھوپ میں بدن جلتا ہے اسی طرح رمضان میں گناہ جل جاتے ہیں اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : رمضان اللہ کے بندوں کے گناہ جلا دیتا ہے ۔


رمضان کے مہینہ میں نزول قرآن کی ابتداء اس وجہ سے کی گئی کہ قرآن اللہ عزوجل کا کلام ہے اور انوار الہیہ ہمیشہ متجلی اور منکشف رہتے ہیں ‘ البتہ ارواح بشریہ میں ان انوار کے ظہور سے حجابات بشریہ مانع ہوتے ہیں اور حجابات بشریہ کے زوال کا سب سے قوی سبب روزہ ہے ‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کشف کے حصول کا سب سے قوی ذریعہ روزہ ہے ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اگر بنی آدم کے قلوب میں شیطان نہ گھومتے تو وہ آسمانوں کی نشانیوں کو دیکھ لیتے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں اور رمضان میں عظیم مناسبت ہے ‘ اس لیے نزول قرآن کی ابتداء کے لیے اس مہینہ کو خاص کرلیا گیا ۔ (تفسیر کبیر ج 2 ص 121۔ 120 مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ 1398 ھ،چشتی)


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں موجود ہو وہ ضرور اس ماہ کے روزے رکھے ۔ (سورہ البقرہ : 185)


بہ ظاہر اس آیت میں یہ اشکال کہ اس آیت سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس مہینہ سے غائب بھی ہوسکتا ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ پہلے یہ بات عجیب معلوم ہو لیکن اب جب کہ یہ محقق ہوگیا کہ قطبین میں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے تو وہاں کے رہنے والے رمضان کے مہینہ میں حاضر نہیں ہوتے ‘ اس لیے قطبین کے رہنے والوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں ہیں ‘ البتہ جب باقی دنیا میں رمضان کا مہینہ ہو ان دنوں میں کسی قریبی اسلامی ملک کے حساب سے وہاں کے رہنے والے طلوع فجر اور غروب آفتاب کے اوقات کا اپنے علاقہ کی گھڑیوں کے وقت سے ایک نظام الاوقات مقرر کرلیں اور اتنا وقت روزہ سے گزاریں تو بہت بہتر ہے ‘ اور جب کہ تمام دنیا کاٹائم بتانے والی گھڑیاں ایجاد ہوچکی ہیں ‘ یہ ایسا مشکل بھی نہیں ہے ‘ وہاں کے رہنے والے اگر گھڑیوں کے حساب سے نمازیں پڑھیں تو یہ بھی بہت بہتر ہے ہرچند کہ سورج کے طلوع اور غروب کے لحاظ سے ان پر ایک سال میں صرف ایک دن کی نمازیں فرض ہوں گی ۔


سعودی عرب کے حساب سے روزے رکھتا ہوا پاکستان آیا تو عید کس حساب سے کرے گا ؟


پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ سعودی عرب سے ایک یا دو روز پہلے روزے رکھتے ہوئے آتے ہیں اور ان کے تیس روزے پورے ہوجاتے ہیں اور یہاں ہنوز رمضان ہوتا ہے تو چونکہ مذاہب اربعہ کے محققین فقہاء کے نزدیک بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے اس کو روزے رکھنے چاہئیں ‘ نیز قرآن مجید میں ہے : (آیت) ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “۔ (البقرہ : 185) تم میں سے جو اس مہینے میں موجود ہو تو وہ ضرور اس کے روزے رکھے “۔ اور اس شخص نے اس صورت میں رمضان کا مہینہ پایا ہے اس لیے وہ سب کے ساتھ روزے رکھے ‘ نیز امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ” الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون “۔ جس دن لوگ روزہ رکھیں اس دن روزہ ہے اور جس دن لوگ عید کریں اس دن عید ہے۔ (جامع ترمذی ص 124) اس حدیث کا بھی یہ تقاضا ہے کہ جو شخص پاکستان میں آگیا وہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ روزے رکھے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ عید کرے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر اس کے تیس روزے پورے ہوچکے ہیں تو اس پر اب روزے لازم نہیں ‘ کیونکہ حدیث کے اعتبار سے مہینہ انتیس یا تیس دنوں کا ہوتا ہے اور وہ ایک مہینہ کے روزے رکھ چکا ہے ‘ لیکن پہلی رائے کے دلائل زیادہ قوی ہیں۔

پاکستان سے روزے رکھتا ہوا سعودی عرب گیا تو عید کس حساب سے کرے گا ؟


بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے پاکستان میں چاند دیکھ کر روزے رکھنے شروع کیے اور اثناء رمضان میں سعودی عرب چلا گیا جہاں جہاں لوگوں نے ایک یا دو روز پہلے روزے رکھنے شروع کیے تھے اور ابھی اس کے اٹھائیس یا انتیس روزے ہوئے تھے کہ انہوں نے عید کرلی اس صورت کے بارے میں علامہ نووی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ایک شخص نے ایک ایسے شہر سے سفر کیا جنہوں نے رمضان کا چاند نہیں دیکھا اور اس شہر میں پہنچا جس میں (اس کے حساب سے) ایک دن پہلے چاند دیکھ لیا گیا تھا اور ابھی اس نے انتیس روزے رکھے تھے کہ انہوں نے عید کرلی۔ اب اگر ہم عام حکم رکھیں یا یہ کہیں کہ اس کے لیے اس شہر کا حکم ہے تو وہ عید کرلے اور ایک دن کے روزے کی قضاء کرے ‘ اور اگر ہم حکم عام نہ رکھیں اور یہ کہیں کہ اس کے لیے پہلے شہر کا حکم ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس دن روزہ رکھے ۔


چونکہ مذاہب اربعہ کے محققین فقہاء کے نزدیک بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے پاکستان سے سعودی عرب پہنچنے کے بعد اس شخص پر سعودی عرب کے مطلع کے احکام لازم ہوں گے وہ اس کے حساب سے روزے رکھے گا اور ان کے حساب سے عید کرے گا ‘ لیکن اس کے روزے تیس سے کم ہیں تو وہ کم دونوں کی احتیاط قضا کرلے ۔


سعودی عرب سے عید کے دن سوار ہو کر پاکستان پہنچا اور یہاں ہنوز رمضان ہے۔ ایسی صورت کے بارے میں علامہ نووی لکھتے ہیں : اگر ایک شخص نے ایک شہر میں چاند دیکھا تو صبح عید کی اور وہ کشتی کے ذریعہ کسی دو دراز شہر میں پہنچا جہاں لوگوں کا روزہ تھا۔ شیخ ابو محمد نے کہا : اس پر لازم ہے کہ وہ بقیہ دن کھانے پینے سے اجتناب کرے۔ یہ اس صورت میں ہے جب ہم یہ کہیں کہ اس پر اس شہر کا حکم لازم ہے اور اگر ہم حکم عام رکھیں یا اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کریں تو اس پر افطار کرنا لازم ہے ۔


چونکہ بلادِ بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے جو شخص سفر کر کے دور دراز علاقہ میں پہنچے گا اس پر وہاں کے جغرافیائی حالات کے اعتبار سے شرعی احکام لازم ہوں گے ۔


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو مریض یا مسافر ہو (اور روزے نہ رکھے) تو وہ دوسرے دنوں سے (مطلوبہ) عدد پورا کرے ۔ (سورہ البقرہ : 185)


اس حکم کو دوبارہ ذکر فرمایا تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ یہ رخصت منسوخ ہوگئی ہے۔ کتنی مسافت کے سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے ؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے ‘ داؤد ظاہری کے نزدیک مسافت کم ہو یا زیادہ اس پر شرعی سفر کے احکام نافذ ہوجاتے ہیں ‘ خواہ ایک میل کی مسافت کا سفر ہو ‘ امام احمد کے نزدیک دو دن کی مسافت کا اعتبار ہے ‘ امام شافعی کے نزدیک بھی دو دن کی مسافت کا اعتبار ہے ‘ امام مالک کے نزدیک ایک دن کی مسافت معتبر ہے ‘ امام ابوحنفیہ سفر شرعی کے لیے تین دن کی مسافت کا اعتبار کرتے ہیں ‘ ان کی دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کوئی عورت بغیر محرم کے تین دن کا سفر نہ کرے۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 147‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1381 ھ،چشتی)


جمہور فقہاءِ احناف علیہم الرحمہ نے تین دن کی مسافت کا اندازہ اٹھارہ فرسخ کیا ہے ۔ (ردالمختار ج 1 ص 527۔ 526) اٹھارہ فرسخ ‘ 54 شرعی میل کے برابر ہیں جو انگریزی میلوں کے حساب سے اکسٹھ میل ‘ دو فرلانگ ‘ بیس گز ہے اور 724۔ 98 کلومیٹر کے برابر ہے ۔ مسافت قصر کی پوری تفصیل اور تحقیق ہم نے ” شرح صحیح مسلم “ جلد ثانی میں بیان کی ہے ۔


جو شخص فوت ہوگیا اور اس نے رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں تو امام مالک ‘ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک کوئی شخص اس کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا ‘ ان کی دلیل یہ آیت ہے : ولا تزروازۃ وزر اخری ۔ (سورہ الانعام : 164)

ترجمہ : کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔


علامہ مرداوی حنبلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جب کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس پر نذر کے روزے ہوں تو صحیح مذہب یہ ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ سکتا ہے اور صحیح مذہب یہ ہے کہ ایک جماعت میت کی طرف سے روزے رکھ سکتی ہے ‘ نیز صحیح مذہب یہ ہے کہ ولی کا غیر بھی میت کی طرف سے اس کی اجازت سے اور اس کی اجازت کے بغیر روزے رکھ سکتا ہے ‘ اگر ولی روزے نہ رکھے تو میت کے مال سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔ (الانصاف ج 3 ص 337۔ 336‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،چشتی)


علامہ سرخسی حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے موقوفا روایت ہے کہ کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ نہ رکھے اور نہ کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے۔ (موطا امام مالک ص 245‘ مطبوعہ لاہور)


دوسرے دلیل یہ ہے کہ زندگی میں عبادات کی ادائیگی میں کوئی شخص کسی کا نائب نہیں ہوسکتا ‘ لہذا موت کے بعد بھی نہیں ہوسکتا ‘ کیونکہ عبادت کا مکلف کرنے سے یہ مقصود ہے کہ مکلف کے بدن پر اس عبادت کی مشقت ہو اور نائب کے ادا کرنے سے مکلف کے بدن پر کوئی مشقت نہیں ہوئی ‘ البتہ اس کی طرف سے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا ‘ کیونکہ اب اس مکلف کا خود روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے تو فدیہ اس کے روزہ کا قائم مقام ہوجائے گا جیسا کہ شیخ فانی کی صورت میں ہے اور اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو اس کے تہائی مال سے کھانا کھلانا لازم ہے اور امام شافعی کے نزدیک وہ وصیت کرے یا نہ کرے اس کی طرف سے کھانا کھلانا لازم ہے ‘ فدیہ کی مقدار ہمارے نزدیک دو کلو گندم ہے اور امام شافعی کے نزدیک ایک کلو گندم ہے ۔ (المبسوط جلد 3 صفحہ 37 مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ‘ 1398 ھ،چشتی)


روزہ چھ چیزوں کا ہے


(1) آنکھ کا بدنظری اور تاک جھانک سے بچے ۔


(2) کانوں کا کہ جھوٹ ، غیبت اور گانے بجانے کے سننے سے بجائے ۔


(3) زبان کا کہ جھوٹ، غیبت، گالیوں، فضول اور بے ہودہ بکواس سے بچائے ۔


(4) باقی بدن کا کہ ہاتھوں سے چوری اور ظلم نہ کرے اور پیروں سے چل کر کسی بری اور گناہ کی جگہ نہ جائے ۔


(5) حرام غذا کا کہ اس سے پرہیز کرے اور حلال بھی جہاں تک ہو، کم کھائے تاکہ روزے کے انوار اور برکات حاصل ہوں ۔


(6) پھر ڈرتا رہے کہ خدا جانے یہ روزہ قبول بھی ہوگا یا نہیں کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہو مگر اس ڈر کے ساتھ کریم پروردگار کے کرم کے بھروسہ پر امید بھی رکھے ۔


اور خاص بندوں کے لئے ان 6 کے ساتھ ایک ساتویں چیز اور ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا ہر چیز کی طرف سے دل کو ہٹالے یہاں تک کہ افطاری کا سامان بھی نہ کرے ۔


احیاءالعلوم کی شرح میں بعض بزرگوں کا قصہ آیا ہے کہ اگر کہیں سے افطاری آجاتی تو اس کو خیرات کر ڈالتے تاکہ دل اس میں مشغول نہ رہے ۔


مفسرین لکھتے ہیں کہ کتب علیکم الصیام میں انسان کی ہر چیز پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ پس زبان کا روزہ، جھوٹ اور غیبت سے بچنا ہے اور کان کا روزہ ناجائز چیزوں کے سننے سے پرہیز ہے اور آنکھوں کا روزہ کھیل تماشے سے بچنا ہے اور نفس کا روزہ حرص اور خواہشوں سے اور دل کا روزہ دنیا کی محبت سے بچنا ہے اور روح کا روزہ یہ ہے کہ آخرت کی لذتوں کی بھی خواہش نہ ہو اور سر خاص کا روزہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا کسی پر بھی نظر نہ ہو ۔


ایک اہم بات : واضح ہو کہ اگر ان فضیلتوں اور برکتوں کو سن کر روزے کو ضروری اور برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے تو نماز کا خیال اس سے کہیں بڑھ کر ہونا چاہئے کیونکہ وہ روزے اور زکوٰۃ اور حج سب سے افضل ہے اور سب کی اصل ہے اور یہ سب عبادتیں اس میں موجود ہیں ۔ چنانچہ :


(1) ذکر و تلاوت اور تسبیح اور کلمہ شہادت تو زبانی عبادتوں کی اصل الاصول ہیں ۔


(2) اور اس میں حج کا نمونہ بھی ہے کہ پہلی تکبیر احرام کے اور قبلہ کی طرف منہ کرنا طواف کے اور کھڑا ہونا عرفات میں ٹھہرنے کے اور رکوع اور سجود اور رکعتوں کے لئے اٹھنا، بیٹھنا صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کے قائم مقام ہے ۔


(3) نیز اس میں ہر چیز کا روزہ بھی پایا جاتا ہے کہ نظر کو دوست کے سوا غیر پر ڈالنے سے اور زبان کو ذکر اور تلاوت کے سوا باتیں کرنے سے اور ہاتھوں کو لینے دینے سے اور پائوں کو چلنے پھرنے سے اور دل کو خیالات کے میدان میں دوڑنے سے اور چیزوں میں غوروفکر کرنے سے روکتا ہے حالانکہ روزے میں اتنی پابندی نہیں ہیں۔


(4) اور اس میں زکوٰۃ بھی ہے کہ ستر چھپانے کے لئے کپڑا اور پاکی کے لئے برتن اور پانی خریدنے میں مال خرچ کرتا ہے نیز اپنے وقت کو تمام ضروریات سے اﷲ کے لئے فارغ کرتا ہے جس طرح زکوٰۃ کے لئے مال کی ایک مقدار کو علیحدہ کرتا ہے ۔


(5) نیز اس میں ہر مخلوق کی عبادت بھی پائی جاتی ہے چنانچہ کھڑا ہونے میں درختوں اور ذکرو تلاوت میں اڑنے والے خوش آواز جانوروں کی اور رکوع میں چرنے والے جانوروں کی اور سجدے میں بے ہاتھ پائوں کے جانوروں کی اور بیٹھنے میں پتھروں اور پہاڑوں وغیرہ تمام چیزوں کی عبادت موجود ہے ۔


(6) اور حق تعالیٰ کی معرفت و ذات میں استغراق ’’کروبیوں‘‘ یعنی فرشتوں کی عبادت ہے ۔ غرض نماز میں تمام مخلوقات کی عبادتیں موجود ہیں اسیلئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل کون سا عمل ہے؟ تو آپ نے فرمایا ’’الصلوٰۃ لوقتھا‘‘ (نماز کا اسکے وقت پڑھنا) اور اسی لئے ارشاد ہوا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔


(7) اور نماز کوثر سے بھی مشابہت رکھتی ہے اس لئے کوثر کو عطا کرنے کے شکریہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نماز ادا کرنے کا حکم ہوا کیونکہ: (1) نماز میں جو ہمکلامی ہوتی ہے وہ شہد سے زیادہ میٹھی ہے (2) اور اس میں جو غیبی انوار نمازی کے دل کو منور کرتے ہیں وہ دودھ سے زیادہ سفید ہے (3) اور اس میں جو یقین کو ترقی ہوتی ہے وہ برف سے زیادہ ٹھنڈی ہے (4) اور جو لطف و چین نماز میں نصیب ہوتا ہے وہ مکھن سے زیادہ نرم ہے (5) اور جو سنت ومستحب چیزیں نماز کو گھیرے ہوئے ہیں اور باطنی زندگی کو سرسبز کرتی ہیں وہ زمرد کے درختوںکی طرح ہیں جو کوثر کے کناروں پر ہیں (6) اور ذکروتسبیحات سونے چاندی کے گلاس ہیں جن سے محبت الٰہی کی شراب گھونٹ گھونٹ ہوکر باطن میں پہنچتی ہے اور روح کو سیراب کرتی ہے اور کوثر میں بھی یہی چھ صفتیں پائی جاتی ہیں (تفسیر عزیزیزی پارہ الم اور عم)


پس نماز کی قدر اور محبت روزے سے اور سب عبادتوں سے زیادہ ہونی چاہیے ۔


(8) اور بڑی قدر یہ ہے کہ اس کو نہایت عاجزی کے ساتھ باجماعت ادا کیا جائے کیونکہ جماعت کے بغیر ادا کرنے کو اصول فقہ میں ناقص ادا بتایا ہے ۔


مراۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہ جو نماز جماعت کے بغیر پڑھی جائے ، وہ ادا تو ہوجاتی ہے لیکن اس پر ثواب نہیں ملتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والوں کی نماز مسجد کی بغیر گویا ہوتی ہی نہیں اور اس سے بڑھ کر کون سی تاکید ہوگی کہ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جماعت ترک کرنے والوں کے گھروں میں آگ لگا دینے کی خواہش ظاہر فرمائی ۔


روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک عظیم رکن ہے ، اللہ تعالی نے امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے روزوں کو فرض کیاہے ۔ جیسا کہ سبل الہدی والرشاد میں ہے : وفی السنۃ الثانیۃ فرض شہر رمضان ۔ (سبل الہدی والرشاد جماع ابواب سیرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الصوم والاعتکاف، الباب السادس فی صومہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم التطوع)


اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد ربانی ہے : یاایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ۔

ترجمہ : اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔ (سورۃ البقرہ ۔ 183)


اِس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایا ہے ۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ (سورۃ البقرۃآیت نمبر 185)

تَرجَمَہ : رَمضان کا مہینا ، جس میں قرآن اُترا ، لوگوں کےلیے ہدایت اور رَہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ،تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اُتنے روزے اور دِنوں میں ۔ اللہ عزوجل تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دُشواری نہیں چاہتا اور اِس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ عزوجل کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔


رَمضان، یہ ’’ رَمَضٌ ‘‘ سے بنا جس کے معنٰی ہیں ’’ گرمی سے جلنا ۔ کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کیے گئے تو اس وَقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دیے گئے اِتفاق سے اس وَقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لیے یہ نام رکھ دیا گیا ۔ (اَلنِّہَایَۃ لِابْنِ الْاَثِیر جلد ۲ صفحہ ۲۴۰)


حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض مفسرین علیہم الرحمہ نے فرمایا کہ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینہ تھا اُسی سے اُس کا نام ہوا ۔ جو مہینہ گرمی میں تھا اُسے رَمضان کہہ دیا گیا اور جو موسم بہار میں تھا اُسے ربیعُ الْاَوّل اور جو سردی میں تھا جب پانی جم رہا تھا اُسے جُمادَی الْاُولٰی کہا گیا ۔ (تفسیر نعیمی جلد ۲ صفحہ ۵ ۲۰،چشتی)


حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب ماہِ رَمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور آخری رات تک بند نہیں ہوتے ۔ جو کوئی بندہ اس ماہِ مبارَک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے تَو اللہ عَزّوَجَلَّ اُس کے ہر سجدے کے عوض (یعنی بدلے میں) اُس کےلیے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اُس کےلیے جنت میں سُرخ یا قوت کا گھر بناتا ہے ۔ پس جو کوئی ماہِ رَمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ، اور اُس کےلیے صبح سے شام تک 70 ہزار فرشتے دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔ رات اور دِن میں جب بھی وہ سجدہ کرتاہے اُس کے ہر سجدے کے بدلے اُسے (جنت میں ) ایک ایک ایسا دَرَخت عطا کیا جاتا ہے کہ اُس کے سائے میں (گھوڑے) سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے ۔ (شُعَبُ الایمان جلد ۳ صفحہ ۳۱۴ حدیث نمبر ۳۶۳۵،چشتی)


حضرت جابر بن عبداللّٰہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں : {۱} جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ عزوجل ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ عزوجل نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا {۲} شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تَعَالٰی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے {۳} فرشتے ہر رات اور دن ا ن کےلیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں {۴} اللہ تَعَالٰی جنت کو حکم فرماتاہے : میرے (نیک ) بندوں کیلئے مُزَیَّن (مُ۔زَ۔یَّن۔یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے‘‘ {۵} جب ماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ عزوجل سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی : یَارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا وہ لَیلَۃُ الَقَدْر ہے ؟ ارشاد فرمایا : ’’نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجاتے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جاتی ہے ۔ (شُعَبُ الایمان جلد ۳ صفحہ ۳۰۳ حدیث نمبر ۳۶۰۳)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رَمضان اگلے ماہِ رَمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے ۔ (مسلِم ص۱۴۴حدیث۲۳۳)


روزہ عرف شرع میں مسلمان کا بہ نیّت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنا ، عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم الباب الأول جلد ۱ صفحہ ۱۹۴،چشتی)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: قَالَ ﷲ: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهٗ إِلَّا الصِّیَامَ، فَإِنَّهٗ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهٖ، وَالصِّیَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَـلَا یَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهٗ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهٗ فَلْیَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَخُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ ﷲِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ یَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهٗ فَرِحَ بِصَوْمِهٖ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اُسی کے لیے ہے سوائے روزے کے، کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور اُس کی جزاء میں ہی دیتا ہوں۔ روزہ ڈھال ہے اور جس روز تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش باتیں کرے اور نہ جھگڑے۔ اگر اُسے کوئی گالی دے یا لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پیاری ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے اُسے فرحت ہوتی ہے۔ جب افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کے(عظیم اجر کے) باعث خوش ہو گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب هل یقول إني صائم إذا شتم، 2/673، الرقم: 1805، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، 2/807، الرقم: 1151، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، 4/163، الرقم: 2216، وفي السنن الکبری، 2/90، الرقم: 2525، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/323، الرقم: 7174، والبزار في المسند، 3/129، الرقم: 915)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَة رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: یَقُوْلُ ﷲ تَعَالَی: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصِّیَامَ هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ. إِنَّهُ یَتْرُکُ الطَّعَامَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي وَیَتْرُکُ الشَّرَابَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي فَهُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَ أَحْمَدُ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آدمی کا ہر عمل اس کے لئے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں، یقینا وہ (روزہ دار) کھانا اور شہوت نفسانی کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے اور اپنا پینا اور شہوت میری وجہ سے ترک کرتا ہے، پس وہ (روزہ) میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی اور احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الدارمي في السنن، 2/40، الرقم: 1770، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/443، الرقم: 9712، وابن خزیمة في الصحیح، 3/197، الرقم: 1898، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/47، الرقم: 1442)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔

(أخرجه البخاري في الصحیح،کتاب الإیمان، باب تطوع قیام رمضان من الإیمان، 1/22، الرقم: 37، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب الترغیب في قیام رمضان، 1/523، الرقم: 759، والنسائي في السنن، کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، باب ثواب من قام رمضان إیمانا واحتسابا، 3/201، الرقم: 1602.1603، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/408، الرقم: 9277، وابن خزیمة في الصحیح، 3/336، الرقم: 2203، والدارمي في السنن، 2/42، الرقم: 1776،چشتی)


عَنْ سَهْلٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَهُ الرَّیَّانُ، یَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَا یَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَیْرُهُمْ. یُقَالُ: أَیْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَیَقُوْمُوْنَ لَا یَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَیْرُهُمْ. فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقَ، فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ ۔

ترجمہ : حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَّان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے روز اُس سے (صرف) روزہ دار داخل ہوں گے اور اُن کے سوا اُس سے کوئی داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ (اس دروازہ میں سے داخل ہونے کے لئے) روزے دار کھڑے ہو جائیں گے۔ اس دروازہ میں سے ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ پھر جب وہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی دوسرا اُس سے داخل نہیں ہو گا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب الریان للصائمین، 2/671، الرقم: 1797، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، 2/808، الرقم: 1152، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي یعقوب في حدیث أبي أمامة في فضل الصائم، 4/168، الرقم: 2236، وابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء في فضل الصیام، 1/525، الرقم: 1640)


عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ. قَالَ: عَلَیْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهٗ لَا عِدْلَ لَهُ. قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ. قَالَ: عَلَیْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهٗ لَا عِدْلَ لَهؤٗ ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَأَحْمَدُ ۔

ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کسی عمل کے کرنے کا حکم فرمائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روزہ ! اس کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کسی عمل کے کرنے کا حکم فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ رکھو، اس کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہے ۔ اس حدیث کو امام نسائی، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصیام، باب في فضل الصیام، 4/165، الرقم: 2223، وعبد الرزاق في المصنف، 4/308، الرقم: 7899، وابن أبي شیبة في المصنف، 2/273، الرقم: 8895، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/249، الرقم: 22203، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/91، الرقم: 7464، والحاکم في المستدرک، 1/582، الرقم: 1533)


عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَکَرَ رَمَضَانَ یُفَضِّلُهٗ عَلَی الشُّهُوْرِ فَقَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهٗ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی دوسرے مہینوں پر فضلیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک میں ایمان و اخلاص کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہو ۔ اس حدیث کو امام نسائی، ابن ماجہ، اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر اختلاف یحیی بن أبي کثیر والنضر بن شیبان، 4/158، الرقم: 2208، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في قیام شهر رمضان، 1/421، الرقم: 1328، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/314، الرقم: 3635، وابن خزیمة في الصحیح، 3/335، الرقم: 2201،چشتی)


عَنِ النَّضْرِ بْنِ شَیْبَانَ قَالَ: لَقِیتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي بِحَدِیْثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِیْکَ یَذْکُرُهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: نَعَمْ، حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَکَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَقَالَ: شَهْرٌ کَتَبَ ﷲ عَلَیْکُمْ صِیَامَهُ وَسَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِیْمَاناً وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَأَبُو یَعْلَی وأَبُوْدَاوُدَ الطَّیَالِسِيُّ ۔

ترجمہ : نضر بن شیبان سے مروی ہے کہ میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو ان سے کہا: آپ مجھے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیے جو آپ نے اپنے والد ماجد سے رمضان کے متعلق سماعت کی ہو، آپ نے فرمایا: اچھا! مجھے میرے والدِ گرامی نے حدیث بیان کی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماهِ رمضان کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام (نمازِ تراویح) کو سنت قرار دیا ہے، پس جو شخص ایمان اور حصولِ ثواب کی نیت کے ساتھ ماهِ رمضان کے روزے رکھتا ہے اور اس کی راتوں میں قیام کرتا ہے وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور ابو داود طیالسی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ماجاء في قیام شهر رمضان، 1/421، الرقم: 1328، وابن أبي شیبة في المصنف، 2/165، الرقم: 7705، وأبو یعلی في المسند، 2/170، الرقم: 865، وأبوداود الطیالسي في المسند: 30، الرقم: 224، والشاشي في المسند، 1/273، الرقم: 241)


عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ، فَإِنَّهٗ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلٰی رَبِّکُمْ، وَمَکْفَرَةٌ لِلسَّیِّئَاتِ، وَمَنْهَاةٌ لِلْإِثْمِ ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ أَصَحُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ ۔

ترجمہ : حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو کہ وہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لیے قربِ خداوندی کا باعث ہے، برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ امام ترمذی اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب في دعاء النبي صلی الله علیه وآله وسلم ، 5/552، الرقم: 3549، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/92، الرقم: 7766، والحاکم في المستدرک، 1/451، الرقم: 1156، والبیهقي في السنن الکبری، 2/502، الرقم: 4423،چشتی)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ یُصَلُّوْنَ فِي نَاحِیَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَائِ؟ فَقِیْلَ: هَؤُلَائِ نَاسٌ لَیْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَأُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ یُصَلِّي وَهُمْ یُصَلُّوْنَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: أَصَابُوْا وَنِعْمَ مَا صَنَعُوْا ۔ رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ خَزَیْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔ وفي روایة للبیهقي: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوْا أَوْ قَدْ أَصَابُوْا وَلَمْ یَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ) رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا : یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں ۔ حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انہوں نے کیا ۔ اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن خزیمہ، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے، فرمایا : ’’اُنہوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند نہیں فرمایا ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/50، الرقم: 1377، وابن خزیمة في الصحیح، 3/339، الرقم: 2208، وابن حبان في الصحیح، 6/282، الرقم: 2541، والبیهقي في السنن الکبری، 2/495، الرقم: 4386. 4388، وابن عبد البر في التمهید، 8/111، وابن قدامة في المغني، 1/455)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: لِکُلِّ شَيْئٍ زَکَاةٌ وَزَکَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ. زَادَ مُحْرِزٌ فِي حَدِیْثِهٖ: وَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: اَلصِّیَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کی کوئی نہ کوئی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے محرز نے اپنی روایت میں یہ اِضافہ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ آدھا صبر ہے ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب في الصوم زکاة الجسد، 1/555، الرقم: 1745، والطبراني في المعجم الکبیر، 6/193، الرقم: 5973، وعبد بن حمید في المسند، 1/423، الرقم: 1449، وأبو نعیم في حلیة الأولیائ، 7/136، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/292، الرقم: 3578،چشتی)


عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ: اَلصِّیَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ، قَالَ: وَصِیَامٌ حَسَنٌ صِیَامُ ثَـلَاثَةِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَاللَّفْظُ لَهٗ ۔

ترجمہ : حضرت عثمان ابن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جیسے تم میدانِ جنگ میں (دشمن سے بچاؤ کے لیے) ڈھال استعمال کرتے ہو ایسے ہی روزہ دوزخ سے (بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے۔ بہتر (طریقہ) ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا ہے ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابن خزیمہ کے ہیں ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء في فضل الصیام، 1/525، الرقم: 1639، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي یعقوب في حدیث أبي أمامة في فضل الصائم، 4/167، الرقم: 2231، والطبراني في المعجم الکبیر، 9/51، الرقم: 8360، وابن خزیمة في الصحیح، 3/193، الرقم: 1891)


عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: الصِّیَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ فَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلَا یَجْهَلْ یَوْمَئِذٍ وَإِنْ امْرُؤٌ جَهِلَ عَلَیْهِ فَلَا یَشْتُمْهُ وَلَا یَسُبَّهُ وَلْیَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَخُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ ﷲِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ ۔

ترجمہ : اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روزہ آگ سے بچنے کی ڈھال ہے جو شخص صبح کے وقت روزہ دار اٹھے اور اس دن وہ بدتمیزی نہ کرے، اگر کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ بدتمیزی کرے تو وہ اسے گالی نہ دے، برا نہ کہے بلکہ یوں کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! بے شک روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔ اِس حدیث کو امام نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي بعقوب في حدیث أبي امامة في فضل الصائم، 4/167، الرقم: 2234، وفي السنن الکبری، 2/240، الرقم: 3258، والطبراني في المعجم الأوسط، 4/273، الرقم: 4179)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: اَلصِّیَامُ جُنَّةٌ، وَحِصْنٌ حَصِیْنٌ مِنَ النَّارِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔ وفي روایة: عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِنَّمَا الصِّیَامُ جُنَّةٌ یَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنَ النَّارِ ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔ 

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے لئے محفوظ قلعہ ہے ۔ اس حدیث کو امام احمد نے سندِ حسن کے ساتھ اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ اور ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے اس کے ساتھ بندہ خود کو دوزخ کی آگ سے بچاتا ہے ۔ اِس حدیث کو امام احمد نے سندِ حسن کے ساتھ اور بزار، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه حنبل في المسند، 2/402، الرقم: 9214، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/289، الرقم: 3571، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/50، الرقم: 1451، وقال: إسنادہ حسن، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1/271، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/180، وقال: إسنادہ حسن.أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/396، الرقم: 15299، والبزار عن ابن أبي الوقاصص، 6/309، الرقم: 2321، والطبراني في المعجم الکبیر، 9/58، الرقم: 8386، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/294، الرقم: 3582، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/50، الرقم: 1452، وقال: إسناد حسن، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1/271، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/180، وقال: رواہ أحمد وإسنادہ حسن،چشتی)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي ﷲ عنهما: أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِیْهِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِي فِیْهِ. قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: صَحِیْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہش نفس سے روکے رکھا لہٰذا اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما اورقرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے رات کے وقت نیند سے روکے رکھا (اور قیام اللیل میں مجھے پڑھتا یا سنتا رہا) لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی ۔ اِس حدیث کو امام احمد، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے ، نیز امام حاکم نے اِسے مسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/174، الرقم: 6626، والحاکم في المستدرک، 1/740، الرقم: 2036، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/346، الرقم: 1994، وابن المبارک في المسند، 1/59، الرقم: 96، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/408، الرقم: 3815)


عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ یَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّی یَنْسَلِخَ. رَوَاهُ ابْنُ خُزَیْمَةَ وَأَحْمَدُ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب ماهِ رمضان شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمرِ ہمت کس لیتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا ۔ اِس حدیث کو امام ابن خزیمہ، احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن خزیمة في الصحیح، 3/342، الرقم: 2216، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/66، الرقم: 24422، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/310، الرقم: 3624، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/143، الرقم: 211،چشتی)


عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَغَیَّرَ لَوْنُهُ وَکَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي الدُّعَائِ وَأَشْفَقَ مِنْهُ ۔ رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازوں کی (مزید) کثرت کر دیتے اور ﷲ تعالیٰ سے عاجزی و گڑ گڑاکر دعا کرتے اور اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے ۔ اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/310، الرقم: 3625، وفي فضائل الأوقات، 1/191، الرقم: 67، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/143، الرقم: 212)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ فِي رَمَضَانَ یُنَادِي مُنَادٍ بَعْدَ ثُلُثِ اللَّیْلِ الْأَوَّلِ أَوْ ثُلُثِ اللَّیْلِ الْآخِرِ أَلَا سَائِلٌ یَسْأَلُ فَیُعْطَی، أَلَا مُسْتَغْفِرٌ یَسْتَغْفِرُ فَیُغْفَرُ لَهُ، أَلَا تَائِبٌ یَتُوْبُ فَیَتُوْبُ ﷲ عَلَیْهِ. رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنھما نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک رمضان المبارک میں رات کے پہلے تیسرے پہر کے بعد یا آخری تیسرے پہر کے بعد ایک ندا کرنے والا ندا کرتا ہے: ہے کوئی سوال کرنے والا کہ وہ سوال کرے تو اسے عطا کیا جائے؟ کیا ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ وہ مغفرت طلب کرے تو اسے بخش دیا جائے؟ کیا ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ وہ توبہ کرے تو ﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے؟‘‘ اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/311، الرقم: 3628)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ أَبِي قَیْسٍ یَقُوْلُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رضي ﷲ عنها: لَا تَدَعْ قِیَامَ اللَّیْلِ فَإِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ لَا یَدَعُهٗ، وَکَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ کَسِلَ صَلّٰی قَاعِدًا. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابی قیس کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا نے مجھے نصیحت کی کہ قیام اللیل نہ چھوڑنا، کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہو جاتے یا کمزور ہو جاتے تو (نماز)بیٹھ کر پڑھ لیتے ۔ اِس حدیث کو امام ابو داود اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے ۔

(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب قیام اللیل، 2/32، الرقم: 1307، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/249، الرقم: 26157، والحاکم في المستدرک، 1/452، الرقم: 1158، والبیهقي في السنن الکبری، 3/14، الرقم: 4498، والطیالسي في المسند، 1/214، الرقم: 1519، وابن خزیمة في الصحیح، 2/177، الرقم: 1137، والبخاري في الأدب المفرد، 1/279، الرقم: 800)


قَالَ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ حَفْصٍ رَحِمَهٗ ﷲ: ذُکِرَ لِيْ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَصُوْمُ الصَّیْفَ وَیُفْطِرُ الشِّتَاءَ ۔

ترجمہ : حضرت ابو بکر بن حفص رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت ابوبکر گرمیوں میں روزے سے ہوتے اور سردیوں میں افطار کرتے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد/167)


قَالَ رَبِیْعُ بْنُ خِرَاشٍ رَحِمَهٗ ﷲ: اَلْجُوْعُ یُصُفِّي الْفُؤَادَ وَیُمِیْتُ الْهَوٰی وَیُوْرِثُ الْعِلْمَ ۔

ترجمہ : حضرت ربیع بن خراش رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھوک دل کو صاف کرتی ہے، خواہش نفس کو تباہ کرتی ہے اور علم کا وارث بناتی ہے ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری: 67)


قَالَ سَهْلٌ بْنُ عَبْدِ ﷲِ التُّسْتَرِيُّ رحمه ﷲ لِأَصْحَابِهٖ: مَا دَامَتِ النَّفْسُ تَطْلُبُ مِنْکُمْ الْمَعْصِیَةَ فَأَدِّبُوْهَا بِالْجُوْعِ وَالْعَطَشِ، فَإِذَا لَمْ تُرِدْ مِنْکُمُ الْمَعْصِیَةَ فَأَطْعِمُوْهَا مَا شَائَ تْ، وَاتْرُکُوْهَا تَنَامُ مِنَ اللَّیْلِ مَا أَحَبَّتْ ۔

ترجمہ : حضرت سہل بن عبد ﷲ تستری رحمۃ اللہ علیہ اپنے خدام سے فرماتے: جب تک تمہارا نفس گناہ طلب کرتا ہے اسے بھوک اور پیاس کے ذریعے ادب سکھاؤ (یعنی بھوک اور پیاس کے ساتھ اس کی تہذیب و اصلاح کرو)۔ پھر جب تم سے گناہ کی طلب نہ کرے تو جو چاہے اسے کھلاؤ اور اسے رات کو جب تک چاہے سویا رہنے دو ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری: 119)


قَالَ سُفْیَانُ رحمة ﷲ: إِیَّاکُمْ وَالْبِطْنَةَ، فَإِنَّهَا تُقْسِي الْقَلْبَ، وَاکْظِمُوْا الْعِلْمَ، وَلَا تُکْثِرُوْا الضَحِکَ فَتَمُجُّهُ الْقُلُوْبُ ۔

ترجمہ : حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : کثرتِ طعام سے بچو کہ یہ دل میں سختی پیدا کرتا ہے اور علم سے اپنے آپ کو سیراب کرو، اور کثرت سے نہ ہنسو کہ دلوں کو ناگزیر لگنے لگے ۔ (أخرجه ابن المبارک في الزہد: 114، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 7/36،چشتی)

روزہ اور موجودہ سائنس : ⏬

آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے ۔ جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبعی معجزہ ہے ۔ اب سائنسی تناظر میں دیکھیں کہ کس طرح روزہ ہماری صحت مندی میں مدد دیتا ہے ۔

روزہ کا نظام ہضم پر اثر

نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان ، گلا ، مقوی نالی (limentary Canal) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی ۔ معدہ ، بارہ انگشتی آنت ، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں ۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب سے پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل پذیر ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح سے گِھس جاتا ہے ۔ روزہ ایک طرح اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے ۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی ہوتے ہیں ۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کےلیے پہرے پر کھڑا ہو ۔ اسی کی وجہ سے صفرا کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کےلیے ہوتا ہے مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتی ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔

دوسری طرف روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے ۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہو جاتا ہے ۔ سائنسی نکتہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ توہونا ہی چاہیے ۔

جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے سے ہی کرسکتے ہو ۔

جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے ۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے ۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہو کر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن (Globulin) (جو جسم کے محفوظ رکھنے والے Immune سسٹم کو تقویت دیتا ہے) کی پیداوار پر صرف کر سکتا ہے ۔ روزے کے ذریعے گلے کو اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس حصے ہیں جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی ۔

انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں ۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت (cidity) جمع نہیں ہوتی اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے ۔ اس طریقہ سے معدہ کے پٹھے اور معدہ کی رطوبت پیدا کرنے والے خلیے رمضان کے مہینے میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں ۔ جولوگ زندگی میں روزے نہیں رکھتے ، ان کے دعوؤں کے برخلاف یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام سرانجام دیتا ہے ۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے ۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے ۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال ، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں ۔ (چشتی)

روزے کے دوران خون پر فائدہ مند اثرات : دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے ۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے ۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیلوں کے (Intercellular) درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہو جاتا ہے ۔ پٹھوں پر دباؤ یا عام فہم ڈائسٹالک (Diastolic) دباؤ دل کےلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے ۔ مزید برآں ، آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائی پرٹینشن (Hypertension) کا شکار ہے ۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں ۔ روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے ۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا ۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے ۔ اس طرح شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں ۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جس میں شریانوں کی دیواروں (rterioscleresis) کی سختی نمایاں ترین ہے سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے کیونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے ۔ آرام کی حالت میں ہوتے ہیں تو انسانی جسم کے ان اہم اعضاء کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے ۔

خلیہ ، سیل (Cell) پر روزے کا اثر

روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے ۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال ، مقدار میں کم ہوجاتے ہیں ۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں ۔ (چشتی)

روزے کا اعصابی نظام پر اثر : اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روزے کے دوران چند لوگوں میں چڑ چڑا پن اور بے دلی کا اعصابی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ اس قسم کی صورت حال ان انسانوں کے اندر انانیت (Egotistic) یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے ۔ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح آج کے دور کے شدید مسائل جو اعصابی دباؤ کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں ۔

روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ۔ اندرونی غدودوں کو جو آرام اور سکون ملتا ہے وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثر پذیر ہوتا ہے جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے ۔ انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادت کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ خون کی تشکیل اور روزے کی لطافتیں : خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (Stimulate) کردیتا ہے اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے ۔

روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں ۔ ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی پڑے گا چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے یہ ہڈی کے گودے کےلیے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے آسانی سے اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہو سکے ۔ اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا و دبلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کرسکتے ہیں ۔

روزہ قیام صحت کا ایک بے نظیر طریقہ

اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کا ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک اسے آب و دانہ مناسب مقدار میں بروقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام مشکل ہوتا ہے۔ جس نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقعہ ہوگی اسی نسبت سے اس کی صحت متاثر ہو گی ۔ ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے پابند رہتے ہیں ۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات کے طریق کے برعکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کرجاتا ہے اور اپنے بدنی نظام کے بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے ۔ مگر انسان اپنی خداداد عقل کے ذریعہ اپنے امراض کے مقابلہ یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع ، طریق اور علاج اختیار کرتا ہے ۔ ان نقائص و امراض کےلیے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب تک تجویز کرسکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کر کے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت و ثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے تاکہ بھوک سے اس کے مواد فاسدہ جل کر اسے صاف کردیں اور پھر وہ اپنا کام صحیح طو رپر کر سکے ۔ علاوہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے اسلامی روزہ معدی امراض اور بدن کے گندے مواد کےلیے جھاڑو کا کام دیتا ہے ۔ ضبط نفس ، بھوک اور پیاس کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ کھولتے وقت کھانے پینے سے جس طرح ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ (چشتی)

اطباء اور موجودہ زمانہ کے ڈاکٹر اسلامی طریق روزہ داری کی قیام صحت کےلیے اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ بعض امراض میں علاج تجویز کرتے ہوئے اسلامی طریق کا روزہ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں ۔

روسی ماہر الابدان پروفیسر وی ۔ این نکیٹن نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیر د وا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22 مارچ 1960ء کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی میں اپنا لیے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں ۔

اول خوب محنت کیا کرو ۔ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں ترو تازگی پیدا کرتا ہے ۔ جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں ۔ بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو ۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہیے ۔

دوئم ۔ کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہیے ۔

سوئم ۔ غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علاوہ سال کے ایک ماہ مسلسل روزوں کے ہر ماہ از خود تین نفلی روزے رکھا کرتے اور فرمایا کرتے صوموا تصحوا روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کی تاکید تھی ۔

کھجور سے افطار اور جدید سائنس

جسے کھجور میسر ہو وہ اس سے روزہ افطار کرے جسے وہ نہ ملے وہ پانی سے کھول لے کیونکہ وہ بھی پاک ہے ۔ (سنن نسائی)

روزے کے بعد توانائی کم ہو جاتی ہے اس لیے افطاری ایسی چیز سے ہونی چاہیے جو زود ہضم اور مقوی ہو ۔

کھجور کا کیمیائی تجزیہ

پروٹین 2.4

نشاشتہ 2.0

کاربوہائیڈریٹس 24.0

کیلوریز 2.0

سوڈیم 4.7

پوٹاشیم 754.0

کیلشیم 67.9

میگنیشیم 58.9

کاپر 0.21

آئرن 1.61

فاسفورس 638.0

سلفر 51.6

کلورین 290.0

اس کے علاوہ اور جوہر (Peroxides) بھی پایا جاتا ہے ۔ صبح سحری کے بعد شام تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا اور جسم کی کیلوریز (Calories) یا حرارے مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اس کے لئے کھجور ایک ایسی معتدل اور جامع چیز ہے جس سے حرارت اعتدال میں آجاتی ہے ار جسم گونا گوں امراض سے بچ جاتا ہے ۔ اگر جسم کی حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں ۔

لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressue) فالج (Paralysis) لقوہ (Facial Paralysis) اور سر کا چکرانا وغیرہ ۔

غذائیت کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کے مریضوں کےلیے افطار کے وقت فولاد (Iron) کی اشد ضرورت ہے اور وہ کھجور میں قدرتی طور پر میسر ہے ۔

بعض لوگوں کو خشکی ہوتی ہے ایسے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے اس کے لئے کھجور چونکہ معتدل ہے اس لئے وہ روزہ دار کے حق میں مفید ہے ۔ گرمیوں کے روزے میں روزہ دار کو چونکہ پیاس لگی ہوتی ہے اور وہ افطار کے وقت اگر فوراً ٹھنڈا پانی پی لے تو معدے میں گیس، تبخیر اور جگر کی ورم (Liver Inflamation) کا سخت خطرہ ہوتا ہے اگر یہی روزہ دار کھجور کھا کر پھر پانی پی لے تو بے شمار خطرات سے بچ جاتا ہے ۔

روزہ کے ان فضائل کو اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ایک مسلمان اصول ضوابط کے ساتھ روزہ رکھے اور اگر اصول وضوابط کو پامال کر دیا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور اللہ پاک کو صرف بھوک اور پیاس سے کوئی غرض نہیں ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر1903)

روزہ کی نیت

نیت کا معنیٰ ارادہ ہے لہذا اگر کسی نے دل میں ہی ارادہ کیا کہ روزہ رکھوں گا تو اس کاوہی ارادہ نیت کہلائے گا اور نیت کا وقت روزے سے پہلی شام کے غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے رمضان کے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ’’درمختار‘‘ میں ہے : ویحتاج صوم کل یوم من رمضان الی نیۃ ۔ (در مختار جلد 2 صفحہ 379)

لہٰذا یہ نیت ہر روز کی جائے بیشک وہ دل کے ارادے ہی کی صورت میں ہو ۔

سحری کے احکام و مسائل

سحری کھانا سنت ہے اگر دل نہ چاہے تب بھی سنت کو پورا کرنے کی غرض سے کچھ نہ کچھ کھالینا چاہئے کیونکہ سحری کے کھانے کو بابرکت کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان مبارک ہے : تسحروا فان فی السحور برکۃ ۔ (صحیح بخاری،حدیث 1923) ۔ سحری کھایا کرو اس لئے کہ اس کھانے میں برکت ہے ، دوسری حدیث مسند احمد کے حوالے سے ’’ردالمحتار ‘‘میں یوں ہے کہ : السحور کلہ برکۃ فلاتدعوہ ولو ان یجرع احدکم جرعۃ من ماء ۔ (ردالمحتار، جلد2صفحہ419) ۔ سحری تمام تر برکت ہے ، لہذا اسے مت چھوڑو اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی کی صورت میں سحری ہو ۔

سحری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ضروری ہوگا سحری چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

روزے کےلیے دل کی نیت اور سحری کھانا ہی اس روزے کے آغاز کی علامت ہے البتہ یہ دعا بھی پرھ لی جائے تودرست ہے ،سحری کی دعا یہ ہے : وبصوم غدٍ نویت من شھر رمضان ۔

سحری میں تاخیر (آخری وقت میں کھانا) باعث خیر و برکت ہے ۔ (عالمگیری،جلد1صفحہ200)

یہ سوچ کر سحری میں مصروف رہاکہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی بعد میں پتہ چلا کہ صبح صادق ہو چکی ہے تو ایسی صورت میں روزہ نہیں ہوا،غروب تک کھانا پینا جائز نہیں اور اس روزہ کی قضاء بھی ضروری ہے۔(فتاویٰ عالمگیری جلد1 نمبر صفحہ نمبر 194)

اگر غسل فرض ہے اور صبح صادق سے پہلے غسل کرنے کی صورت میں سحری رہ جاتی ہے تو ناپاکی کی حالت میں ہی سحری کھانا اور روزہ رکھ لینا جائز ہے ،البتہ غسل میں اتنی تاخیر ناپسندیدہ ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 200)

صبح صادق کا وقت ختم ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لیے اس کے بعد کھانے سے روزہ نہیں ہوگا اگرچہ ابھی تک اذان نہ ہوئی ہو ۔ (عالمگیری جلد1 صفحہ 194،چشتی)

سحری کے بعد کلی کرنا اور دانتوں کو صاف کر لینا بہتر ہے ۔ (بہار شریعت)

افطاری کے احکام و مسائل

یقینی طور پر سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کا وقت شروع ہوجاتا ہے،اسی ابتدائی وقت میں افطار کرنا پسندیدہ اور بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔ (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ ,175)(بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 105)

افطاری کھجور ، چھوہارے یا کسی بھی میٹھی چیز سے کی جائے اگر کوئی میٹھی چیز نہ ہو تو پانی سے افطاری کر سکتے ہیں ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : عن انس رضی اللہ عنہ انہ علیہ السلام کان یفطر علی رطبات قبل ای یصلی فان لم تکن رطبات فتمرات فان لم تمرات حسا حسوات من ماء ۔ (الزیلعی جلد 1 صفحہ 443،چشتی)

احادیث مبارکہ میں افطاری کے وقت کی مختلف دعائیں موجود ہیں جو درجہ ذیل ہیں : ⬇

اول

اَلّٰلھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ ، اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دئیے ہوئے رزق سے میں افطار کرتا ہوں ۔ (سنن أبي داود | كِتَابٌ : الصَّوْمُ | بَابٌ : الْقَوْلُ عِنْدَ الْإِفْطَارِ الجزء رقم :2، الصفحة رقم:531 رقم الحديث 2358،چشتی)(سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 294)

دوم

اللهم لك صمت، و عليك توكلت و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨)

سوم

الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت ۔ (شعب الایمان باب فی الصیام حدیث ۳۹۰۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۴۰۶)

چہارم

اللھم لک صمنا وعلی رزقک افطر نا فتقبل منا انک انت السمیع العلیم ۔ (کتاب عمل الیوم و اللیلۃباب مایقول اذاافطر حدیث۴۸۰ معارف نعمانیہ حیدر آباد دکن ص ۱۲۸)

پنجم

ذھب الظمأ و ابتلت العروق ویثبت الاجران شاء اﷲتعالی ۔ (سنن ابی داؤد باب القول عندالافطار)

ششم

بسم ﷲ والحمدﷲ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت وعلیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۲۳۸۷۳ مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)

نوٹ : یہ چھ دعائیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہیں ۔

ہفتم

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي ۔ (سنن ابن ماجه كِتَابُ الصِّيَامِ بَابٌ : فِي الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ)

نوٹ : یہ دعا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔

اب احادیث سے یہ الفاظ ثابت ہیں ۔ عام طور پر جو الفاظ مشہور ہیں اللھم لك صمت و بك امنت و عليك توكلت و علي رزقك افطرت بعینہ ان الفاظ کے ساتھ افطار کی یہ دعا ثابت نہیں اگر چہ اس کا معنی صحیح ہے ۔

ملا علی القاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وأما ما اشتهر على الألسنة ” اللهم لك صمت وبك آمنت وعلى رزقك أفطرت ” فزيادة ، ( وبك آمنت ) لا أصل لها وإن كان معناها صحيحا ، وكذا زيادة ۔ وعليك توكلت ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح كتاب الصوم باب في مسائل متفرقة من كتاب الصوم رقم الحدیث 1994،چشتی)

لیکن یہ دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے اللهم لك صمت ، و عليك توكلت، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ ملا علی القاری کا و عليك توكلت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ یہی اضافہ دو احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔

اول ایک طویل حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مختلف وصیتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وصیت ہے۔ کہ علی جب تم رمضان میں روزے سے ہو تو افطار کے بعد یہ پڑھو ۔

اللهم لك صمت، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨،چشتی)

دوسری حضرت انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے پاس کھانا لایا جائے اور تم حالتِ روزہ میں ہوتو یہ کلمات کہو “بسم ﷲ والحمد للہ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت و علیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافرادحدیث ۲۳۸۷۳مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)
لہذا و عليك توكلت کی زیادت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ مشہور دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے ۔ اللهم لك صمت ، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ اگر کوئی پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں البتہ افضل و بہتر یہی مسنون دعا ہے ۔

کسی کو روزہ افطار کرانا انتہائی اجرو ثواب کا باعث ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : من فطّر صائما کان مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ . (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ 173)
روزہ دار کو افطار کرانے سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،جہنم سے نجات ملتی ہے ، روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے ۔

وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ توڑا جا سکتا ہے

روزہ دار اچانک ایسا بیمار ہو گیا کہ روزہ برقرار رکھنے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے یا بیماری خطرناک حد تک جاسکتی ہے تو روزہ توڑنا اور دوا استعمال کر لینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281،چشتی)

سانپ بچھو یا کسی بھی ایسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا کہ دوا نہ لینے کی صورت میں موت کا خطرہ ہے یا شدید نقصان کا خطرہ ہے تو بھی دوا کھانا اور روزہ توڑ دینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281)

اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس لگی کہ پانی نہ پینے کی صورت میں موت یقینی ہے تو بھی پانی پینا اور روزہ توڑنا جائز ہے اور یہی مسئلہ شدید بھوک کی صورت میں بھی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 207،چشتی)

حاملہ عورت کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ پیش آجائے جس سے اس کی اپنی جان یا بچہ کی جان جانے کا خطرہ ہو تو بھی روزہ توڑنا درست بلکہ افضل ہے ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 207)

اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا جیسے ایکسیڈینٹ ہو جانا ، کسی بلندی سے گرنا ، کسی بھاری چیز کے نیچے دب جانا یا ان جیسا کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے جس میں جان پر بن جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ281،چشتی)

وہ تمام صورتیں جن میں روزہ مجبوراً توڑنا پڑا بعد میں صرف ان کی قضاء کرنا ہوگی کفارہ نہیں ۔ (ردالمحتار،جلد2صفحہ402)

وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائزلیکن بعد میں قضاکرناضروری ہے

کوئی شخص بیمار ہے اور کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر و طبیب کے بقول روزہ رکھنے سے اسے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے یا موت واقع ہو سکتی ہے تو اس کے لئے روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد2صفحہ442)

اگر بیمار کو ڈاکٹر و طبیب نے روزہ سے منع نہیں کیا لیکن خود ماہر ہے اور تجربہ کار ہے تو اپنے غالب گمان پر عمل کر کے روزہ چھوڑ سکتا ہے ، البتہ اگر خود ماہر و تجربہ کار نہ ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422،چشتی)

اگر فی الوقت بیمار نہیں مگر پہلے گذری بیماری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہے اور اس بیماری کی وجہ سے ضعف باقی ہے روزہ رکھنے کی صورت میں بیماری کے دوبارہ شروع ہوجانے کا یقینی خطرہ ہے تو بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)

اگرعورت حاملہ ہو اور روزے کی وجہ سے اپنی جان یا بچے کی جان کو خطرہ ہو تو اس حاملہ کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

اگر عورت بچے کو دودھ پلاتی ہے اور بچہ اس دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ یا دوسری کوئی خوراک نہیں کھا سکتا ایسی حالت میں دودھ پلانے سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو تو یہ مرضِعہ (دودھ پلانے والی) روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

مسافر (جوکم ازکم 48 میل کی مسافت کاسفر کر رہا ہو) سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور اگر سفر ذیادہ دشوار نہیں جس میں روزہ رکھنے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی تو روزہ رکھنا ہی افضل ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر421 - 423)

ایسا مسافر جو صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو دن کے وقت اگرچہ سفر کا پختہ ارادہ ہو اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)

ایسا مسافر جس نے دوران سفر پندرہ دن یا اس سے ذیادہ قیام کا ارادہ کرلیا اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 431،چشتی)

اگر کوئی مسافر زوال سے پہلے مقیم ہو گیا اور اس سے روزے کے منافی کوئی کام سرزد نہیں ہوا تو اسی وقت سے روزہ رکھنا لازم ہوگا افطار کرنا شرعا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)

ایسا آدمی جو کسی بیماری میں تو مبتلا نہیں لیکن عمر ذیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوری اس حد تک ہوچکی ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسا شخص بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

شوگر کے مریض اگر واقعتا روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں ، روزہ رکھنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہو تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)

لیکن اس میں حتی الامکان استقامت کی کوشش کی جائے اور رمضان المبارک کی رحمتوں سے رو گردانی نہ کی جائے نیز یہ بھی کہ فدیہ دینے کے بجائے مناسب وقت پر اپنے روزے کی قضاء کریں،تفصیل درج ذیل ہے ۔

نوٹ : مذکورہ بالا وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جب وہ عذر ختم ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ء ضروری ہے اور جب تک روزہ رکھنے کی طاقت موجود ہو یا طاقت کا پایا جانا متوقع ہو فدیہ نہیں دے سکتے قضاء ہی ضروری ہوگی ۔ (بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 265،چشتی)

اگرعذر کی وجہ سے روزہ چھوڑا گیا اور بعد میں روزہ رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا جیسے اسی رمضان میں معذور فوت ہو گیا تو اس پر فدیہ بھی نہیں ہوگا اور اگر موقع ملا لیکن روزے رکھنے سے پہلے قریب الموت ہوگیا تو اسے فدیہ کی وصیت لازماً کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوگا ۔ (عالمگیری ، جلد1صفحہ207،چشتی)(فتاویٰ شامی، جلد2 صفحہ 423- 424- 425)

مفسدات روزہ

وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد ہوتا (ٹوٹتا) ہے دو طرح کی ہیں

(1) روزہ ٹوٹنے کی صورت میں قضاء اور کفارہ دونوں ہیں ۔

(2) صرف قضاء ہے کفارہ نہیں ۔

وہ مفسدات جن کی وجہ سے قضاء اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں

جان بوجھ کر کھانا ، پینا یا جماع کرنا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 205)

لواطت (غیر فطری فعل،ہم جنس پرستی) ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 406)

وہ چیز جو عادتاً دوا یا غذا ہے اسے جان بوجھ کر استعمال کرنا ۔ (شامی جلد2 صفحہ409-410)

جو چیز عادتاً غذا نہیں لیکن اسے کسی نے اپنی عادت بنا لیا تو اسے جان بوجھ کر استعمال کرنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا،جیسے مٹی وغیرہ کھانے کی عادت بنا لینا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 202،چشتی)

روزے کا کفارہ

مذکورہ صورتیں وہ ہیں جن میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں ، یعنی ایک روزہ توڑنے کی صورت میں بطور کفارہ غلام آزاد کرنا ، لگاتار ساٹھ (60) روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (ان تین میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا ) اور روزے رکھنے کی صورت میں اکسٹھ (61) روزے لگاتاربغیر فاصلے کے رکھنا ہونگے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ412)(ھندیہ جلد1صفحہ215،چشتی)

اگر کفارے کے روزے رکھتے ہوئے ایک دن کا ناغہ بھی کرلیا تو دوبارہ شروع کرنا پڑے گا اور پہلے والے روزے کالعدم ہوجائیں گے ۔ (شامی جلد 2صفحہ412)
البتہ اگر عورت کفارے کے روزے رکھ رہی ہو اور اس کے ’’ایام‘‘ شروع ہو جائیں تو اتنے دن کا ناغہ معاف ہے ’’ایام‘‘ کے بعد وہیں سے شمار کرے گی جہاں چھوڑا تھا ۔ (البحرالرائق ،جلد2صفحہ277)

اگر کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں :

بھوکے اور خالی پیٹ مسکینوں کا انتخاب کیا جائے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 479)

اگر ایک ساتھ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جا رہا ہے تو صبح و شام دونوں وقت کھانا کھلانا ہوگااور جنہیں ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی انھیں کو کھلائے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 514،چشتی)

روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھلانا بھی ٹھیک اور ساٹھ دنوں میں ہر روز نئے مسکین کو کھلانا بھی درست ہے ۔ (البحرالرائق جلد 4 صفحہ 109)

وہ مفسدات جن کی وجہ سے صرف قضاء لازم ہے کفارہ نہیں

اگر منہ بھر کر قصداً قے کردی یا قے خود بخود آئی تھی لیکن اسے واپس حلق سے نیچے اتار دیا (خواہ وہ چنے کے برابر ہی ہو) اور اس وقت روزہ یاد تھا تو اس کیفیت میں روزہ ٹوٹ گیا ۔ (ردالمحتارجلد2صفحہ414)

کان میں دوائی یا کوئی بھی تر چیز ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)

ناک میں دوائی یا کوئی بھی تر چیزڈالنے سے روز ہ ٹوٹ جائے گا ،اگر کلی کرتے وقت پانی حلق سے نیچے چلا گیا اور اس حال میں روزہ یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا ۔ (عالمگیری جلد1صفحہ202)

البتہ اگر کلی کرتے وقت روزہ یاد نہیں تھا تو فاسد نہیں ہوگا۔*بھول کر کھایا ، پیا ، جماع کرلیا ، احتلام ہوگیا ، تھوڑی مقدار میں قے ہوگئی یا شہوت کی حالت میں دیکھنے و چھونے سے انزال ہو گیا تو روزہ نہیں ٹوٹا مگر روزہ دار نے ان حالتوں میں یہ گمان کر کے کھانا پینا شروع کردیا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو اب واقعتاً روزہ ٹوٹ چکا ہے صرف اس کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402،چشتی)

نسوار اور سگریٹ استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس یا بھوک لگی کہ پانی نہ پینے اورکھانانہ کھانے کی صورت میں موت یقینی ہے ، پھر اس نے کھالیا یا پی لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 207)

غروبِ آفتاب سے پہلے دی گئی اذان سن کر یا کسی اور طرح غلطی سے غروبِ آفتاب سے پہلے افطار کر لیا تو روزہ مکمل ہونے کے بجائے ٹوٹ گیا ۔ (ہدایہ جلد 1 صفحہ 207،چشتی)

اور پہلے دی گئی اذان پر وقت ہونے یا نہ ہونے کا شک تھایقین نہیں تھا اس کے باوجود افطار کرلیا توبھی روزہ ٹوٹ گیا قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا ۔ (الاشباہ والنظائر،صفحہ60)

اگر کسی بھی وجہ سے خون تھوک پر غالب آکر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 203)

سحری کا وقت ختم ہونے کے باوجود(یہ سمجھ کر کہ وقت ختم نہیں ہوا) سحری کھانے میں مشغول رہنے سے روزہ نہیں ہوا افطار تک کھانا پینا منع ہے اور قضاء لازم ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 194،چشتی)

دانت میں پھنسی چیز اگر نگل لی اور وہ چنے سے ذیادہ تھی یا دانتوں سے باہر نکال کر دوبارہ نگل لی تو کم ہو یا ذیادہ ہر صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 202)

کسی بیماری میں مبتلا ہونے والے یا حادثے کا شکار ہونے والے کو دوائی یا پانی پلانے سے روزہ ٹوٹ گیا فقط قضاء لازم آئے گی کفارہ نہیں،اورایسی دوا جو دماغ یا پیٹ کے زخم پر لگانے کی صورت میں دماغ یا پیت تک سرایت کر جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)

ایسی دوا جو ناک سے سونگھی جائے اس کے اثرات دماغ تک پہنچنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،اور دمہ کے مریض جو وینٹولین استعمال کرتے ہیں اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

اگر روزہ دار کو روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے اور جان جانے کا خطرہ سمجھ کر روزہ دار روزہ توڑ دے تو بھی شرعاً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (مبسوط سرخسی جلد 3 صفحہ 98)

مسافر نے صبح صادق سے روزہ رکھا تھا پھر کچھ کھایا پی لیا تو روز ہ ٹوٹ گیا قضاء لازم ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 431)

یہ اور ان جیسی دیگر صورتیں وہ ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کفارہ لازم نہیں آتا فقط قضاء کرنا ہوگی ۔ (عالمگیری،جلد 1 صفحہ 207،چشتی)(فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 384)

وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا

جسم کے بالوں میں تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

آنکھوں میں سرمہ یا دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

مسواک تر ہو یا خشک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

کسی بھی قسم کی خوشبو لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ417)

ٹیکہ (رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں) لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (ردالمحتار جلد 2صفحہ395)

بھول کر کھانے اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم کھایا یا ذیادہ ۔ (شامی جلد 2صفحہ394،چشتی)

کان میں پانی جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ396)

خود بخود قے ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کم ہو یا ذیادہ ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ92)

احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ91)

حلق میں گردو غبار دھواں یا مکھی و مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

پچھنا ، سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بہار شریعت)

مجبوراً کسی چیز کو چکھا حلق سے نیچے نہیں اتارا تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، جیسے بدمزاج و سخت طبیعت شوہر کی سختی اور ناراضگی سے بچنے کے لئے عورت نے کھانا یوں چکھا کہ حلق تک اس کا اثر نہیں پہنچا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 380)

ایسا آپریشن جو پیٹ اور دماغ کے علاوہ کسی اور عضوِ جسم کا ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

اگر دوچار قطرے پسینہ روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاویٰ تاتار خانیہ جلد 2صفحہ369،چشتی)

البتہ اگرپسینہ ذیادہ ہو اور حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا ، اگر ماں نے اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلایا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (البحرالرائق جلد 2 صفحہ 278)

مکروہاتِ روزہ

بلا عذر کوئی چیز چکھنے یا چبانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ199)

منہ میں جمع شدہ لعاب کو نگل لینے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ199)

روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور اگر حلق سے نیچے اتر جائے تو فاسد ہو جاتا ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 416)

ناک میں پانی ڈالنے یا کلی کرنے میں پانی بہت ذیادہ استعمال کرنا یا بار بار کلی کرنا مبالغہ میں آتا ہے اور یہ مکروہ ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 199)

روزے کی حالت میں اتنا خون دینا جس سے کمزوری آجائے مکروہ ہے ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ200)

ضرورتِ شدیدہ کے بغیر روزے کی حالت میں دانت یا داڑھ نکلوانا مکروہ ہے ۔ (شامی جلد 2صفحہ 396)

جماع کے محرکات یعنی شہوت کے ساتھ بوسہ لینا ، شہوت کے ساتھ دیکھنا و چھونا ، فحش مناظر دیکھنا وغیرہ یہ سب کام مکروہ ہیں ۔ (حجۃ اللہ البالغہ جلد 2 صفحہ 141)

غیبت کرنے ، چغلخوری کرنے ، دھوکہ دینے ، جھوٹی قسم کھانے ، جھوٹی گواہی دینے ، ظلم کرنے ، فحش گوئی کرنے اور بے پردگی کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ نمبر 141،چشتی)

اِفطار کی دعا کب پڑھنی چاہیے : ⏬

بہتر یہی ہے کہ افطار کرنے سے پہلے دعا پڑھی جائے ؛ کیوں کہ یہ دعا ہی افطار کے کھانے کے لئے بسم ﷲ کے حکم میں ہے اور ہر کھانے کی ابتدا بسم ﷲ سے کرنا مسنون ہے ، بریں بنا دعا پڑھ کر افطار کرنے کو خلافِ سنت نہیں کہہ سکتے ، باقی اگر کوئی شخص افطار کر کے مذکورہ دعا پڑھے تب بھی دعاء افطار کی سنت ادا ہو جائے گی ۔ اس کے متعلق دونوں قسم کے اقوال ملتے ہیں لہٰذا اس پر بحث مباحثہ نہ کیا جائے اگر کوئی پہلے پڑھے یا بعد میں سنت ادا ہو جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے افطار کے وقت پڑھی جانے والی تین دعائیں احادیث کی کتابوں میں وارد ہیں : ⬇

(1) اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ۔ ( ابوداود2358)

(2) ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ۔ ( ابوداود2357)

(3) أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ ۔ ( ابو داود 3854 وابن ماجہ 1747)

عن معاذ بن زُهْرة، أنه بلغه أن النبيَّ صلَّى الله عليه وسلم كان إذا أفطر،قال : "اللَهُمَّ لك صُمْتُ،وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ"۔ ( ابوداود2358،چشتی) ۔ دارقطنی نے "سنن" 3/ 156 میں، اورحافظ ابن حجر نے"التلخيص الحبير" 2/ 202،میں سند کی تحسین کی ہے ۔ اور اس روایت میں راوی کے مشہور الفاظ اسی طرح ہیں (كان إذا أفطر) البتہ بعض کتب حدیث میں (إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ) کے الفاظ سے مروی ہے ، جیسے:محمد بن فضیل کی (کتاب الدعا 66) اورابن المبارک کی (کتاب الزہد1411) میں اس طرح ہے : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ قَالَ : «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» ۔ دعا کے بھی مذکورہ بالاالفاظ ہی زیادہ مشہور و معروف ہیں ، لیکن ابن السنی نے (عمل الیوم واللیلہ 479،چشتی) میں قدرے اختلاف کے ساتھ ذکر کئے ہیں : عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَانَنِي فَصُمْتُ، وَرَزَقَنِي فَأَفْطَرْتُ» ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، تَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» ۔(الدعاء للطبرانی 918) ۔ ابن الشجری نے (الامالی 1213،چشتی) میں شروع میں بعض الفاظ کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت اس طرح ذکر کی ہے : عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قُرِّبَ إِلَى أَحَدِكُمْ طَعَامٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: بِاسْمِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، تَقَبَّلْهُ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْنَا وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْنَا فَتَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (سنن الدارقطنی 2280 ،ابن السني 481)۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (المعجم الکبیر للطبرانی 12720)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ، قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 9744)

عن معاذ بن زہرۃ أنہ بلغہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا أفطر قال: اللّٰہم لک صمت وعلی رزقک أفطرت۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۲۱)۔ ومن السنۃ أن یقول عند الإفطار: اللّٰہم لک صمت وبک آمنت وعلیک توکلت وعلی رزقک أفطرت ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۰۰،چشتی)

(اذا افطر) سے مراد: اذا اراد الافطارہے، جیساکہ اس طرح کی روایات میں تاویل کی جاتی ہے ، ماضی کی اصل دلالت مراد نہیں ہوتی ہے۔

روزہ دار کی دعا کی قبولیت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے، روایتیں اس سلسلہ میں تین طرح کی ہیں : روزہ دار کی مطلقا دعا قبول ہوتی ہے: عن أبي هريرة رضي الله عنه قَالَ: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: ( ثلاث دعوات مستجابات: دعوة الصائم، ودعوة المظلوم، ودعوة المسافر ). رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الدعاء(رقم1313)، وَالبَيْهَقِيُّ فِي الشعب (7463)

روزہ دار کی دعا افطار تک قبول ہوتی ہے: عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ثلاثة لا ترد دعوتهم: الصائم حتى يفطر، والإمام العادل، ودعوة المظلوم؛ يرفعها الله فوق الغمام، ويفتح لها أبواب السماء، ويقول الرب: وعزتي لأنصرنك ولو بعد حين) الترمذي في سننه (رقم 3598)، وابن ماجه (رقم 1752،چشتی)

روزہ دار کی عین افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے : عن عبدالله بن عمرو بن العاص يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( إن للصائم عند فطره لدعوة ما ترد ).قال ابن أبي مليكة: سمعت عبدالله بن عمرو يقول إذا أفطر : " اللهم إني أسألك برحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي" .رَوَاهُ ابن مَاجَهْ(1753) ، وابن السني فِي عمل اليوم والليلة (481) ۔ مالکیہ کی بعض کتابوں میں ہے کہ: قبولیت کی یہ گھڑی لقمہ منھ کی طرف اٹھانے اور منھ میں ڈالنے کے درمیان ہے، انظر الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني (1/ 305،چشتی) ۔ تعامل بھی اسی پر ہے ، اور افطار کے ہنگامہ میں دعا بھول جانا بھی بہت ممکن ہے ، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے پڑھ لی جائے ۔

عبداللہ بن عَمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے رِوایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا : اِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدِ فِطْرِہٖ لَدَعْوَۃً مَّا تُرَدُّ ۔
ترجمہ : بے شک روزہ دار کے لئے اِفْطَار کے وَقْت ایک ایسی دُعاء ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جاتی ۔ (الترغیب و الترہیب، ج٢، ص٥٣،حدیث٢٩،چشتی)

حضرت ابُوہرَیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا تین شخصوں کی دُعاء رَدّ نہیں کی جاتی : ⬇

(1) ایک روزہ دار کی بَوَقتِ اِفْطَار ۔ (2) دُوسرے بادشاہِ عادِل کی اور ۔ (3) تیسرے مظلُوم کی۔اِن تینوں کی دُعاء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بادَلوں سے بھی اُوپر اُٹھا لیتا ہے اور آسمان کے دروازے اُس کیلئے کُھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے ، مجھے میری عِزّت کی قَسَم!میں تیری ضَرور مَدَد فرماؤں گااگرچِہ کچھ دیر بعد ہو ۔

محترم قارئینِ کرام : اِفْطَار کے وَقْت جو کچھ دُعاء مانگیں گے وہ دَرَجہ قَبولِیَّت تک پَہُنچ کر رہے گی ۔ مگر افسوس کہ آج کل ہماری حالت کچھ ایسی عجیب ہوچُکی ہے کہ نہ پُوچھو بات ! اِفطَار کے وَقت ہمارا نَفس بڑی سَخت آزمائش میں پڑجاتا ہے ۔ کیونکہ عُمُوماً اِفطَار کے وَقت ہمارے آگے اَنواع واَقسام کے پَھلوں ، کباب، سَمَوسَوں ، پکوڑوں کے ساتھ ساتھ گرمی کا موسم ہو تو ٹھنڈے ٹھنڈے شَربت کے جام بھی مَوجود ہوتے ہیں ۔ بُھوک اور پیاس کی شِدَّت کے سَبَب ہم نِڈھال تو ہوہی چکے ہوتے ہیں۔ بس جیسے ہی سُورج غُروب ہوا، کھانوں او رشربت پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ دُعاء یادہی نہیں رہتی! دُعاء تَو دُعاء ہمارے بے شُمار اِسلامی بھائی اِفطَار کے دَوران کھانے پینے میں اس قَدَر مُنْہَمِک ہوجاتے ہیں کہ ان کو نَمازِ مغرب کی پُوری جَماعت تک نہیں مِلتی۔بلکہ مَعَاذَ اللّٰہ بَعْض تَو اِس قَدَرْ سُستی کرتے ہیں کہ گھر ہی میں اِفطَار کرکے وَہیں پر بِغیر جَماعت نَماز پڑ ھ لیتے ہیں ۔ تَوبہ ، تَوبہ ۔

جنّت کے طلبگارو : اتنی بھی غفلت مت کرو نَمازِ باجَماعت کی شَریعت میں نِہایت ہی سَخت تاکید آئی ہے ۔اور ہمیشہ یا د رکھو!بِلا کسی صحےح شَرعی مجبوری کے مسجِد کی پنج وَقْتہ نَماز کی جَماعت تَرک کردینا گُناہ ہے ۔

افطار کی احتیاطیں : بہتر یہ ہے کہ ایک آدھ کھجور سے اِفطار کر کے فوراً اچّھی طرح مُنہ صاف کر لے اور نَمازِ باجماعت میں شریک ہوجائے ۔ آج کل مسجِد میں لوگ پھل پکوڑے وغیرہ کھانے کے بعد مُنہ کو اچّھی طرح صاف نہیں کرتے فوراًجماعت میں شریک ہو جاتے ہیں حالانکہ غِذا کا معمولی ذرّہ یا ذائِقہ بھی مُنہ میں نہیں ہونا چاہئے کہ ایک فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ بھی ہے: کِراماً کاتِبِین ( یعنی اعمال لکھنے والے دونوں بُزُرگ فِرِشتوں) پر اس سے زےادہ کوئی بات شدید نہیں کہ وہ جس شخص پر مقرَّر ہیں اُسے اِس حال میں نَماز پڑھتا دیکھیں کہ اسکے دانتوں کے درمِیان کوئی چیز ہو ۔ (طبَرانی کبیر ،ج ٤، ص ١٧٧، حدیث٤٠٦١،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : مُتَعَدَّد احادیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جب بندہ نَماز کو کھڑا ہوتا ہے فِرِشتہ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھتا ہے یہ جو پڑھتا ہے اِس کے منہ سے نکل کر فِرِشتے کے منہ میں جاتا ہے اُس وَقت اگر کھانے کی کوئی شے اُس کے دانتوں میں ہوتی ہے ملائکہ کو اُس سے ایسی سَخت اِیذ ا ہوتی ہے کہ اور شے سے نہیں ہوتی ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی رات کو نَماز کیلئے کھڑا ہو تو چاہئے ،کہ مِسواک کرلے کیونکہ جب وہ اپنی نَماز میں قرا ء ت(قِرَا۔ءَ ت) کرتا ہے تو فِرِشتہ اپنا منہ اِس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اِس کے منہ سے نکلتی ہے وہ فرشتہ کے منہ میں داخِل ہوجاتی ہے ۔ (کنزُ العُمّال ،ج ٩، ص ٣١٩ ) ۔ اور طَبرانی نے کَبِیر میں حضرت ِ سیِّدُناابو ایُّوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ دونوں فِرِشتوں پر اس سے زِیادہ کوئی چیزگِراں نہیں کہ وُہ اپنے ساتھی کو نَماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے رَیزے پھنسے ہوں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ١ صفحہ ٦٢٤ تا ٦٢٥،چشتی)

مسجد میں افطار کرنے والوں کو اکثر مُنہ کی صفائی دشوار ہوتی ہے کہ اچّھی طرح صفائی کرنے بیٹھیں تو جماعت نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا مشورہ ہے کہ صرف ایک آدھ کھجور کھا کرپانی پی لیں ۔ پانی کو مُنہ کے اندر خوبجُنبِش دیں یعنی ہلائیں تا کہ کھجور کی مٹھاس اور اس کے اجزا چھوٹ کر پانی کے ساتھ پیٹ میں چلے جائیں ضَرورتاً دانتوں میں خِلال بھی کریں ۔ اگر مُنہ صاف کرنے کا موقع نہ ملتا ہو تو آسانی اسی میں ہے کہ صِرف پانی سے افطار کر لیجیے ۔ مجھے اُن روزہ داروں پر بڑا پیار آتا ہے جو طرح طرح کی نعمتوں کے تھالوں سے بے نیاز ہو کر غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِد کی پہلی صف میں کھجور ، پانی لیکر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اِس طرح افطار سے جلدی فراغت بھی ملے، منہ کو صاف کرنا بھی آسان رہے اور پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نَماز بھی نصیب ہو ۔

افطار کی دعاء : ایک آدھ کَھجور وغیرہ سے روزہ اِفطَار کرلیں اور پھر دُعاء ضَرور مانگ لیا کریں۔کم ازکم کوئی ایک دُعائے ماثُورَہ (قراٰن وحدیث میں جو دعائیں وارد ہو ئی ہیں انہیں دعائے ماثورہ کہتے ہیں) ہی پڑھ لیں ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے جو مختلف اَوْقات پر جُدا جُدا دُعائیں مانگی ہیں اُن میں سے کم ازکم کوئی ایک دُعاء تَو یاد کرہی لینی چائیے ۔ اِسی کو پڑھ لینا چائے ۔ اِفطَار کے بعد کی ایک مشہُور دُعاء اوپر گُزر چُکی ہے ۔ اِس ضمن میں ایک اور رِوایَت مُلاحَظہ فرمائیے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم بَوَقتِ اِفطَار یہ دُعاء پڑھتے : اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ ترجَمہ : اے اللہ عزوجل میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ رِز:ق سے اِفْطَار کیا ۔ (سنن ابوداود جلد ٢ صفحہ ٤٤٧ حدیث نمبر ٢٣٥٨،چشتی)

احادیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ : اِفطَار کے وَقت دُعاء رَدّ نہیں کی جاتی ۔ بعض اَوقات قَبُولِیَّتِ دُعاء کے اظہار میں تاخِیر ہوجاتی ہے تَو ذِہن میں یہ بات آتی ہے کہ دُعاء آخِر قَبول کیوں نہیں ہوئی ، جبکہ حدیثِ مُبارَک میں تَو قَبولِ دُعاء کی بِشَارت آئی ہے ۔ بظاہِر تاخِیر سے نہ گھبرائے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدِ گِرامی حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیِن علامہ نَقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (اَحسَنُ الْوِعاءِ لِاٰدَابِ الدُّعائِ، ص ٧) پر نَقْل کرتے ہیں : دعاء کے تین فوائد ۔نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم فرماتے ہیں : دُعاء بندے کی ، تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی : (2) یا اُس کا گُناہ بخشا جاتا ہے ۔ یا (2) اُسے فائِدہ حاصِل ہوتا ہے ۔ یا (3) اُس کے لئے آخِرت میں بَھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ آخِرت میں اپنی دُعاؤں کا ثواب دیکھے گاجو دُنیا میں مُسْتَجاب (یعنی مَقبول ) نہ ہوئی تھیں تمنّا کرے گا ، کاش دُنیا میں میری کوئی دُعاء قَبول نہ ہوتی اورسب یہیں(یعنی آخِرت ) کے واسِطے جمع ہوجاتیں ۔ (اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرْھِیْب جلد ٢ صفحہ ٣١٥)

دمہ کے مریض کا روزہ کی حالت میں انہیلر اور آکسیجن لینے کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : روزہ کی حالت میں آکسیجن کے استعمال سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ وہ وہی کچھ ہے جو انسان اپنے پھپھڑوں کی مدد سے فضا سے اندر لے جاتا ہے اور پھپھڑوں کی کمزوری کی وجہ سے آکسیجن کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ اور روزہ کی حالت میں انہیلر کا استعمال کرنا پڑے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ کیونکہ انہیلر میں دوائی کے ذرات ہوتے ہیں جس کے ذریعے مریض کے پھیپھڑوں کے اندروہ دوا پہنچائی جا تی ہے جس کی وجہ سے وہ مریض آسانی سے سانس لینا شروع کردیتا ہے ۔

طحطاوی علی المراقی میں ہے : أودخل حلقہ غبار،ا لتعقید بالدخول الاحتراز عن الادخال ولھذاصرّحوا بانّ الاحتواء علی المبخرۃمفسد ۔
ترجمہ : ہواداخل ہوئی اس کے حلق میں ،داخل ہو نے کی قید لگائی احترا ز ہے داخل کرنے سے اسی لئے فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ خوشبو داربھاپ کواندر لے جاناروزے کو توڑدیتا ہے ۔ (حاشیہ طحطاوی علی المراقی،کتا ب الصوم ، باب فی بیان ما لایفسد الصوم،ص: ۶۶۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی،چشتی)

اورجب مریض کا مرض اس قدر بڑھ جائے کہ وہ ایک پورے روزے کا وقت انہیلر استعمال کئے بغیر نہیں گزار سکتا تو وہ معذور شرعی ہے اس پر عذر کی وجہ سے روزہ نہیں بلکہ وہ اپنے روزے کا فدیہ ادا کرے گا ۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اگر کوئی شخص دن میں انہیلر استعمال کیئے بغیرنہیں رہ سکتا اور آئندہ بھی صحتیابی کی کوئی امید نہیں ہے تو وہ معذور شرعی ہیں اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر (دوکلو آٹا یا اس کی قیمت) کی مقدار فدیہ دینا لازم ہے ۔ اور اگر فدیہ دینے کے بعد اللہ تعالی نے صحت عطاء فرمائی کہ روزہ رکھنے کے قابل ہوگئے تو دیا ہوا فدیہ نفل ہو جائے گا اور روزے دوبارہ رکھنے ہوں گے ۔ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں َ اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے تو فدیہ صدقہ نفل ہو کررہ گیا ان روزوں کی قضا رکھے ۔ (بہار شریعت ،ج۱،حصہ ۵، ص۳۸۸، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرّحمٰن صاحب لکھتے ہیں : ڈاکٹر صاحبا ن سے ہم نے اس سلسلے میں جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق سانس کے مریض کے پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں تکلیف اور دشواری محسوس ہوتی ہے انہیلر کے ذریعے ایسے کیمیکلز گیس یا ما ئع بوندوں کی شکل میں ان کے پھیپھڑے میں پہنچتے ہیں جن کی بنا پر ان کے پھیپھڑے کھل جاتے ہیں اور وہ دوبا رہ آسانی سے سانس لینے لگتاہے تو چونکہ مریض کے بدن کے اندر ایک مادی چیز جاتی ہے لہٰذا اس کا روزہ ٹوٹ جا تا ہے اور اگر مرض اس درجے کا ہے کہ پورے روزے کا وقت انہیلر کے استعمال کے بغیر مریض کے لئے گزارنا مشکل ہے تو پھر وہ معذور ہے بربنا ء عذرو بیماری روزہ نہ رکھے اور فدیہ ادا کرے ۔ (تفہیم المسائل، ج۲،ص۱۹۰،مطبوعہ ضیا ء القرآن،چشتی)

عام انہیلر کے بارے میں ماہرین فن یہ کہتے ہیں کہ اس کےا سپرے کے ذرات حلق تک پہنچ جاتے ہیں اور چونکہ حالت روزہ میں دوا یا غذا حلق تک پہنچنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس لیے ایسے انہیلر کے اسپرے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (التبویب 836/7)

اگر مریض کو دی جانے والی مصنوعی آکسیجن ، عام ہوا میں پائی جانے والی آکسیجن پر ہی مشتمل ہوا وراس میں کسی شکل میں کوئی دوا یا مادی چیز بالکل شامل نہ ہو تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا اوراگراس میں کسی بھی شکل میں کوئی دوا یا مادی چیز شامل ہو تو روزہ فاسد ہوجائیگا ۔ (التبویب بتصرف یسیر 515/75 )

انہیلر کے استعمال سے چونکہ دوا کے ذرات حلق تک پہنچ جاتے ہیں لہذا اس کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا ، چاہےاس کا استعمال دمہ کے مریض کے واسطے ہو یا کسی اور مقصد سے ہو۔ البتہ اگر روزہ کی حالت میں دمہ کے مرض کی وجہ سے انہیلر کا استعمال کرنا پڑجائے تواس کی وجہ صرف قضاء لازم ہوگی کفارہ واجب نہیں ہوگا ۔ واضح رہے کہ بھاپ خود پانی ہے لہذاروزہ کی حالت میں بھاپ خود بزریعہ ناک لی جائے یا بذریعہ منہ ، دونوں صورتوں میں اگر پانی حلق تک پہنچ گیا توروزہ فاسد ہوجائیگا ۔ (التبویب 452/ 40)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ آکسیجن کے استعمال سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جبکہ انہیلر کے استعمال کرنے سے روز ٹوٹ جاتا ہے اگر انسان کی حالت ایسی ہو کہ کوئی دن انہیلر کے استعمال کے بغیر نہیں گزرتا تو ایست افراد کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار (دوکلو آٹا یا اس کی قیمت) فدیہ دے دیں ۔

رمضان المبارک کے اہم تاریخی واقعات : ⏬

رمضان المبارک ، دینی و روحانی حیثیت سے سال کے بارہ مہینوں میں سب سے مبارک اور افضل مہینہ ہے ۔ رمضان المبارک انفرادی و اجتماعی تربیت کا ایسا عملی نظام ہے جس میں رضائے الہٰی کےلیے ایثار و قربانی ، برداشت ، صبر ، حوصلہ ، استقامت اور بھوک ، پیاس میں غرباء و مساکین کے ساتھ شرکت کا احساس جاگزیں ہوتا ہے ۔ یہی وہ اوصاف ہیں جب ایک مومن کی شخصیت کا خاصہ بنتی ہے اور بندے کا خالق و مخلوق سے رشتہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہوتا ہے ۔ رمضان المبارک کا مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ہے ۔ اس مبارک مہینے میں عام معمول سے زیادہ نیک اعمال کرنے چاہئیں ۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مہینے کے اندر کئے گئے اعمال کا اجر ستر گنا دیئے جانے کی خوشخبری دی ہے ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہوجائے ۔ محققین ، مورخین اور بزرگان دین نے لفظ رمضان کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں ۔ ان میں سے ایک دلنشیں وضاحت یہ بھی ہے کہ رمض موسم برسات کی تیز بارش کو بھی کہا جاتا ہے ۔ گویا رمضان المبارک انوار و تجلیات سے معمور روحانی بارشوں کا مہینہ ہے ۔ جہاں یہ ماہ مقدس روحانی اعتبار سے اس قدر ومنزلت کا حامل ہے وہاں تاریخی اعتبار سے بھی اس میں تاریخ اسلام کے بے مثال لمحات چھپے ہوئے ہیں ۔ ذیل میں اس ماہِ مقدس سے جڑے ہوئے چند اہم تاریخی واقعات کا ذکر کیا جائے گا ہم نے اپنی حد تک کوشش کی ہے کہ تمام اہم واقعات کا ذکر کیا جائے یہ حرفِ آخر نہیں یقینناََ بہت سے واقعات رہ گئے ہونگے اہلِ علم سے گذارش ہے کہیں غلطی پائیں تو آگاہ فرمائیں تاکہ اصلاح کر دی جائے ۔ ہماری کوشش ہو گی ان شاء اللہ ان میں سے چند اہم واقعات پر جلد تفصیل سے مضامین لکھیں اور پوسٹ کر دیں دعاؤں کی درخواست ہے : ⬇

تین (3) رمضان المبارک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یوم وفات ہے ۔

دس (10) رمضان المبارک ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا یوم وفات ہے ۔

پندرہ (15) رمضان المبارک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا یوم ولادت ۔

سترہ ()17 رمضان المبارک حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یوم وصال ہے ۔ اس کے علاوہ غزوہ بدر بھی 17 رمضان المبارک کو ہوا تھا ۔

اکیس (21) رمضان المبارک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے ۔

ستائیس (27) رمضان المبارک (شب قدر) کو قرآن مجید نازل ہوا اور ہمارا پیارا پاکستان معرض وجود میں آیا ۔

تیسری تاریخ رمضان المبارک میں سیدنا حضرت ابراہیمں پر صحائف نازل ہوئے ۔ * چھٹی رمضان المبارک کو سیدنا موسیٰ ں پر توریت نازل ہوئی۔ * اٹھارویں رمضان المبارک میں سیدنا حضرت داؤد ں پر زبور شریف نازل ہوئی ۔ * تیرہویں رمضان المبارک کو سیدنا حضرت عیسیٰ ں پر انجیل نازل ہوئی* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہجرت ۔۔۔۔۔۔ پہلی صدی ھ/ ٩مارچ ٦٢٢ء اور وصال ١٧ رمضان* ولادت حضرت حسن رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔ ٣ھ/١٥ فروری ٦٦٤ء * فتح مکہ ۔۔۔۔۔۔٢٠ رمضان المبارک٨ھ، ٢٣دسمبر ٦٢٩ء * آیت ربوا(حرمت سود)۔۔۔۔۔۔ ٩ھ* حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہادت کا جام پلانے والے حضرت وحشی وفد طائف کے ہمراہ آ کر مسلمان ہوئے۔۔۔۔۔۔٩ھ * غزوہ تبوک۔۔۔۔۔۔١٠ھ/یکم دسمبر ٦٣١ء * وفات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔١١ھ /٢٠نومبر، ٦٣٢ء * وفات سہل بن عمرو رضی اللہ عنہ، ۔۔۔۔۔۔١٨ھ /٥دسمبر ٦٣٩ء * توسیعِ مسجد نبوی شریف۔۔۔۔۔۔٢٦ھ/١٠جون ٦٦٤ء * وفات حضرت عباس رضی اللہ عنہ، ۔۔۔۔۔۔ ٣٢ ھ / ١٥ اپریل ٦٥٢ء * وفات مقداد بن الاسود رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٣ھ/٢٦ ماچ ٦٥٣ء * بغاوتِ اہلِ کوفہ۔۔۔۔۔۔٣٤ھ/ ١٥ مارچ ٦٥٤ء * جلسہئ حکمین ۔۔۔۔۔۔٣٧ھ/١٠ فروری ٦٥٧ء * جنگ خوارج۔۔۔۔۔۔٣٨ھ/٣١جنوری ٦٥٨ء * وفاتِ زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٣ھ/٢٠ اگست ٦٧٢ء * وفاتِ حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٤ھ/١٩ اگست ٦٧٣ء * وفاتِ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔۔۔۔۔۔٥٧ھ/٨جولائی، ٦٧٦ء * خلافتِ عبدالملک بن مروان۔۔۔۔۔۔٦٥ ھ/گیارہ اپریل، ٦٨١ء * وفاتِ عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٨٨ھ/٥اگست، ٧٠٦ء * وفاتِ سہل بن سعید رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔ ٩١ھ/٥جولائی، ٧٠٩ء * فتحِ اندلس۔۔۔۔۔۔ ٩٢ھ/٧١٠ء * محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا ٩٣ھ/٧١٢ء* وفاتِ عمرہ بن عبدالرحمن(معروف عالمہ و محدثہ، کئی علماء کئی استاد)۔۔۔۔۔۔٩٨ھ* جنگ آرمینیہ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥ھ/یکم فروری ٧٢٣ء * فتحِ قیساریہ۔۔۔۔۔۔١٠٧ھ/١٠جنوری، ٧٢٦ء * سمرقند کی تیسری جنگ۔۔۔۔۔۔١١٣ھ (چشتی)* ابو مسلم خراسانی کا اعلانِ بغاوت۔۔۔۔۔۔١٢٩ھ/١٦مئی ٧٤٦ء* عبدالرحمن اموی تیونس آیا۔۔۔۔۔۔١٣٤ھ * وفاتِ حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا۔۔۔۔۔۔ ١٣٥ھ* مہدی نفس ذکیہ کا قتل۔۔۔۔۔۔١٤٥ھ/٢٣نومبر٧٦٢ء * مرو میں بغاوت۔۔۔۔۔۔١٩١ھ * عباس بن المامون مدعی خلافت ہوا۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ* فتحِ صقلیہ ۔۔۔۔۔۔٢١٩ھ* بغاوتِ زنگیانِ بصرہ۔۔۔۔۔۔ ٢٥٥ھ* وفات امام العتبی فقیہ الاندلس ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ھ* امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے صالح قاضی اصفہان کا انتقال ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٦ ھ * قرامطیوں نے مکہ میں حج کیلئے آنے والوں کا قتل عام کیا۔۔۔۔۔۔٢٨٧ھ/٣٠اگست، ٩٠٠ء * عراق میں مظالم قرامطہ۔۔۔۔۔۔٢٩٣ھ* حضرت منصور حلاج کا نعرہئ ”انا الحق” اور گرفتاری۔۔۔۔۔۔٣٠١ھ(جبکہ شہادت ذیقعد٣٠٩ ھ میں ہوئی) * بغداد میں فاقہ سے اموات۔۔۔۔۔۔٣٣٣ھ* وفات عبدالناصر و خلافت مستنصرالاموی ٣٥٠ھ * معروف عربی ادیب و شاعر مُتبّی کا قتل۔۔۔۔۔۔٣٥٤ھ * راجہ جے پال اور سبکتگین کی پہلی جنگ ٣٨٠ھ* وفات ابو نصر الکلاباذی البخاری حنفی (معروف صوفی، اصطلاحِ تصوف کے موجد)٣٨٥ یا ٣٩٨ھ* وفات ابوالطیب صعلوکی(چوتھی صدی کے معاون مجدد) ٤٠٤ھ/١٠١٤ء ٨خلافت عبدالرحمن الرابع(اندلس)۔۔۔۔۔۔٤٠٨ھ* رحلت معروف محدث حافظ ابو بکر بن مردویہ الاصبہانی ٤١٠ھ* رحلت ھبۃ اللہ محدث بغداد ٤١٨ھ ٨بغداد پر اوباشوں کا تسلط۔۔۔۔۔۔٤٢٦ھ* وفات بو علی سینا ٤٢٨ھ* فتنہئ البساسیری۔۔۔۔۔۔٤٥٠ھ * سلطنت عباسیہ کے باغی طغرل بک کی وفات اور اس کی جگہ اس کا بھتیجا الپ ارسلان سلجوقیوں کا حکمران بنا ٤٥٥ھ* وفات ابو الحسن الفقیہہ الامدی ٤٦٥ھ* یوسف بن تاشفین کی فتح عیسائیوں پر ۔۔۔۔۔۔٤٧٩ھ* وفات ابو داؤد اندلسی ٤٩٦ھ * صیدا پر صلیبیوں کا قبضہ اور پسپائی ۔۔۔۔۔۔٥٠١ھ * بیروت اور صیدا پر فرنگیوں کا قبضہ۔۔۔۔۔۔٥٠٤ھ * وفات ابو الفتوح الغزالی (برادر امام محمد غزالی)٥٢٠ھ* مصر و عراق میں ٣٠ رمضان کو بھی شوال کا چاند نظر نہیں آیا ٥٣١ھ * وفات ابو عبداللہ المازری شارح مسلم ٥٣٦ھ * حکومتِ صلاح الدین ایوبی ۔۔۔۔۔۔٥٦٤ھ/مئی ١١٦٨ء * خلافتِ ابو نصر الطاہر العباسی۔۔۔۔۔۔٦٢٢ھ * وفاتِ بہاؤ الدین بلخی (پدر مولانا رومی)۔۔۔۔۔۔٦٢٨ھ ٨معرکہ ”عینِ جالوت”اور تاتاریوں کی فوج کی بربادی ۔۔۔۔۔۔ ٦٥* ھ * وفات فیروز تغلق و تخت نشینی محمد تغلق ٧٩٠ھ* وفات علامہ ابن خلدون ٨٠٨ھ ٨وفات حافظ ولی الدین ابن زرعہ ٨٢٦ھ * وفات ابن البزاری صاحب فتاوٰی ٨٢٧ھ * وفات شمس الدین سعدی ٨٢٨ھ* وفات شمس الدین الغنام مالکی ٨٤٢ھ * وفات احمد بن ارسلان المقدسی ٨٤٤ہجری* وفات تقی الدین المقریزی ٨٤٥ھ ٨قتل الوغ بیگ بن شاہ رخ بن تیمور ٨٥٣ھ* مکۃ المکرمہ میں سیلاب ٨٥٩ھ* ١٤ رمضان ٨٨٦ھ مدینہ منورۃ پر آسمانی بجلی گری * ایران میں صفوی حکومت کا آغاز ٩٠٧ھ * وفات مخدوم ابراہیم بن ادھم سلطان بلخی ٩١٤ھ * وفات احمد شاہ گجراتی ٩١٦ھ* انڈونیشیا ،سماٹرامیں مسلم حکومت کا آغاز علی شاہ نے کیا ٩٢٠ھ * خلافت المتوکل (ثالث)٩٢٢ھ * وفات تقی الدین بن قاضی عجلون ٩٢٨ھ * وفات امام محی الدین القرمانی حنفی ٩٤٢ھ * وفات سعدی چلپی ٩٤٥ھ٨ہمایوں کی سلطنت کی بحالی ٩٦٢ھ/١٥٥٥ء ٨خلافتِ مراد ثالث ۔۔۔۔۔۔٩٨٢ھ ٨شہادت ملک المحدثین محمد طاہرپٹنی الہندی۔۔۔۔۔۔٩٨٦ھ٨اکبر نے کشمیر فتح کیا ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٥ھ/٥اگست ١٥٨٦ء * وفات محمد قاسم فرشتہ مؤرخ ١٠٢١ھ * معزولی شاہجہاں و حکومت عالمگیر (اول) ۔۔۔۔۔۔ ٦* ١٠ ھ/١٦٥٧ء * وفات شائستہ خان امیر الامرأ * وفات مجاہد تحریکِ آزادی ، علامہ کفایت علی کافی شہید امیر شریعت ، تلمیذ شاہ ابو سفینہ مجددی رامپوری١٢٧٤ھ/١٨٥٨ء * ندوۃ العلماء کا پہلا اجلاس (کانپور) ۔۔۔۔۔۔١٣١١ھ/٨مارچ، ١٨٩٣ء (چشتی)* پہلی جنگ عظیم ۔۔۔۔۔۔١٣٣٢ھ/٢٤جولائی، ١٩١٣ء * وفات سید سلیمان اشرف بہاری خلیفہ اعلیٰ حضرت ۔۔۔۔۔۔١٣٥٢ھ* قیامِ پاکستان جمعۃ الوداع ،٢٧رمضان۔۔۔۔۔۔١٣٦٦ ھ / ١٤ اگست ١٩٤٧ء* آزادی موریطانیہ ۔۔۔۔۔۔ ١٣٧٨ھ /١١ مارچ ، ١٩٥٨ء * یمن میں امامت کا خاتمہ۔۔۔۔۔۔١٣٨١ھ ۔

حضرت شیخ سعید بن عفیر ٢٢٦ھ ٭ حضرت طلحہ بن محمد خراسانی ٣٢٠ھ ٭ حضرت شاہ الہداد عارف ٩١٤ھ ٭ حضرت اخون شہباز قلندر سداسہاگ ١٠٣٣ھ (سومان) ٭ حضرت خواجہ شمس الدین حبیب اللہ ملکی ١١٦٧ھ (سرہند) ٭ حضرت علامہ سید عبداللہ بلگرامی ١٣٠٥ھ ٭ استاذ العلماء علامہ ہدایت اللہ خاں رامپوری(مناظر اہلسنّت، فاتح مناظرہ رُشدآباد بنگال) یکم رمضان١٣٢٦ھ ٭ حضرت سید ظہور الحسنین شاہ قادری علیہ الرحمۃ(اولاد حضرت سخی عبدالوہاب شاہ) ١٤٠١ھ ٭ پیر طریقت حضرت محمد قاسم مشوری ١٤١٠ھ(درگاہ عالیہ مشوری شریف لاڑکانہ، رہنما تحریک پاکستان،چشتی)

حضرت خواجہ عبدالحق جامی ١٠٢٩ھ (برہان پور) ٭ حضرت شیخ اسماعیل چشتی اکبر آبادی١٠٦٦ھ ٭ حضرت شاہ دولہ دریائی گجراتی ۔

سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ١١ھ ٭ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا ٦٢ھ ٭ حضرت فضیل بن عیاض۔۔۔۔۔۔١٨٧ھ ٭ حضرت شیخ سری سقطی شیخ سلسلہ قادریت ٢٠٥ھ (بغدادشریف) ٭ حضرت شاہ زین الدین ٣٥٥ھ (دمشق) ٭ حضرت سید قطب الدین محمد چشتی مدنی ثم الکڑوی ٦٦٧ھ ٭ حضرت مظفر بلخی (خلیفہ مخدوم یحییٰ منیری) ٧٨٨ھ ٭ مخدوم راجی سید پور مانکپوری ٩٤٧ھ ٭ حضرت میر عبدالواحدبلگرامی ١٠١٧ھ(گیارہویں صدی میں معاون تجدید دین ، مصنف ”سبع سنابل”) ٭ حضر ت شیخ حاجی رمضان چشتی ١٢٨٢ھ(لاہور) ٭ حضرت سید عقیل ٭ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی ۔۔۔۔۔۔١٣٩١ھ ۔

حضرت شاہ عبدالہادی صابری ١١٩٠ھ (امروہہ) ٭ حضرت شاہ نبی بخش رامپوری ٭ حضرت علامہ قاضی محمد حسن محدث خانپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٠١ھ ٭ حضرت الحاج بخشی مصطفی علی بنگلوری ١٣٩١ھ (مدینہ منورہ) ۔

سید عبد الہادی جمیل شاہ گرناری کاظمی (پیر پٹھہ)۔۔۔۔۔۔٦٤٢ھ ٭ حضرت شیخ صدر الدین عرف شاہ سیدو٩٣٣ھ (جونپور) ٭ حضرت شیخ محمد داؤد گنگوہی ١٠٩٥ھ ٭ حضرت میران بھیکہ سید محمد سعید ١١٣٥(خلیفہ شاہ ابو المعالی لاہوری)ھ ٭ حضرت شاہ عنایت جیو ذوقوۃ المتین ۔۔۔۔۔۔١١٩٥ھ (بہاولپور) ٭ حضرت سید صبغت اللہ شاہ اول ولد پیر سید محمد راشد روضے دھنی المعروف پیر پگارو اول ١٢٤٦ھ/٨فروری ١٨٣١ئ ٭ علامہ شائستہ گل مردانی قادری (خلیفہ مانکی شریف ١٤٠١ھ / ١٩٨١ء ٭ خواجہ محمد عبد الحکیم قادری نقشبندی شہداد کوٹ لاڑکانہ ۔

حضرت شیخ داؤد گنگوہی رحیم دل ١٠٨٠ھ (گنگوہ) ٭ حضرت سید عبدالباری اویسی ١٣١٨ھ ٭ علامہ عبدالشکور شیوہ مردانی قادری ۔۔۔۔۔۔١٤٠٣ھ/١٧جون ١٩٨٣ء ٭ حضرت عبداللہ سری سقطی ٭ بابا ابولخیر نولکھ ہزاری شاہ کوٹی٭حضرت میاں نثار احمد امیری ۔

حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام ٭ حضرت شیخ عبدالقدوس صوفی ٢٩٩ھ (سوس) ٭ حضرت ابو بکر محمد سلمی مدنی ٣٢٧ھ (مدینہ) ٭ حضرت سید عصمت قادری ٩٩٩ھ ٭ مولانا سید محمد ناصر جلالی تلمیذ فرنگی محل لکھنؤ۔۔۔۔۔۔١٣٨٥ھ/٣١دسمبر ١٩٦٥ئ ٭ حضرت مولانا بدرالدین قادری ٭ حضرت سید ہاشم پیر دست گیر بیجا پوری ٭ حضرت شیخ عثمان بن اسحق ۔۔۔۔۔۔٥٤٥ھ(مکہ،چشتی)

حضرت شیخ عماد الدین رفیقی ١٣٠٠ھ (کشمیر) ٭ حضرت بیدم شاہ وارثی۔

حضرت شیخ حبیب عجمی ١٥٦ھ (تابعی۔۔بصرہ) ٭ حضرت ابو علی شفیق بلخی١٩٤ھ (ختلان) ٭ حضرت سیدنا داؤد طائی ١٦٥ھ ٭ قطب الاقطاب شیخ عبدالرشید شمس الحق فیاض دیوان (مصنف مناظرہ رشیدیہ) ١٠٨٣ھ ٭ حضرت مولانا شمس الحق عبدالرشید عرف دیوان رشید جونپوری ١٢٨٣ھ ٭ حضرت سید عبدالعزیز چشتی صابری(سادات و پیرزادگان سہارنپور انبیٹھہ) ١٣٤٤ ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی۔

اُم المومنین سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ٭ حضرت خواجہ نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلی ٭ حضرت سید جان محمد حضوری قادری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٦٤ھ ۔

حضرت ابو صالح حمدون قصار ٢٧١ھ (ہرات) ٭ حضرت اسحق بن عمر مدنی ٥٣٠ھ ٭ حضرت منصور ابو القاسم کرمانی کشمیری ٥٦٩ھ ٭ حضرت میاں محمد امین ڈار کشمیری ١٠٩٨ھ ٭ حضرت قطب الدین کمال واحدیت ١١٢١ھ(نارنول) ٭ حضرت محمد حنیف ١٢٥٩ھ ٭ حضرت علامہ عبد الغفور ہمایونی شکارپوری (صاحب فتاوی ہمایونی) ١٣٣٦ھ ٭ شاہ مصباح الحسن پھپھوندوی(خلیفہ شاہ امتیاز احمد خیر آبادی) ١٣٨٤ھ ٭ مادھو لال حسین لاہور ٭ قاضی حمید الدین ناگوری ٭ حضرت سید محمد معصوم قادری ۔

حضرت ابو عبداللہ مختار ہروی ٢٧٧ھ (ہرات) ٭ حضرت ابو الخیر حمصی ٣١٠ھ ٭ حضرت شاہ ابو العباس ادریس ٣٤٩ھ ٭ حضرت شاہ قدرت اللہ نیشاپوری٤٥٦ھ ٭ حضرت شیخ شریف عبدالسلام بن شیت طرطوسی ٥٧٢ھ ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی ترحم بغدادی ٥٩٨ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی بن محمد٦٥٧ھ ٭ حضرت شیخ نظام فرقی ٦٧٧ھ (فیروز پور) ٭ حضرت شاہ شرف الدین بغدادی ٧١٤ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندری پانی پتی ٧٢٤ھ ٭ حضرت سید حسن شاہ خندہ روح ٩٠٣ھ ٭ حضرت شیخ سید عصمت قادری ٩٩٩ھ(دہلی) ٭ حضرت شاہ زاہد چشتی ١٠٩٥ھ (صفی پوری) ٭ مولانا معشوق علی جونپوری (استاذ شاہ غلام معین الدین جونپوری) ١٢٦٨ھ ٭ حضرت میاں راج شاہ قادری صاحب(سوندھ شریف گوڑ گانواں) ١٣٠٦ھ ٭ حضرت سیدنا سری سقطی ۔

حضرت شیخ ابو داؤد مدنی ۔۔۔۔۔۔٤٠٠ھ ٭ حضرت سید یحییٰ بن احمد طوری دہلوی ۔۔۔۔۔۔٦٠٣ھ ٭ حضرت سید محمد سعید مصطفائی صفات پشاوری ۔۔۔۔۔۔١٠٨٤ھ ٭ مولانا شاہ محمد نور اللہ فریدی ملقب زبدۃ الموحدین، بہادر مناظر جنگ (مصنف ہدایۃ الوہابین)١٢٦٧ھ ٭ حضرت مولوی محمد جعفر سندیلی ۔۔۔۔۔۔١٢٦١ھ ٭ حضرت محمد فارق چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٠ھ(رامپور) ٭ حضرت شیخ محمد امیر کوہاٹی ۔۔۔۔۔۔١٣٨٨ھ ٭ حضرت صوفی قمر الدین قادری نوشاہی ۔۔۔۔۔۔١٣٩٩ھ ۔

حضرت ابو محمد نافع ۔۔۔۔۔۔١٢١ھ(مکہ) ٭ حضرت شیخ عاصم بن عبدالصمد ۔۔۔۔۔۔٢٤٧ھ (مکہ) ٭ حضرت شیخ القوام ابو الکایک جنیدن حرّازی ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٥ھ (کوہ تبت) ٭ حضرت سید تاج الدین بغدادی ۔۔۔۔۔۔٦٩٩ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی خیار عراقی ۔۔۔۔۔۔٦٥٦ھ ٭ حضرت شاہ احمد بن شہاب الدین دہلوی ۔۔۔۔۔۔٧٨٤ھ ٭ حضرت خواجہ مخدوم نصیر الدین خاکی ۔۔۔۔۔۔٨١٧ھ(فتح پور سیکری) ٭ حضرت بہاء الدین باغی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٨٣٠ھ ٭ حضرت شیخ حسام الحق عرفان الکوثر مانکپوری ۔۔۔۔۔۔٨٥٣ھ ٭ حضرت بہاؤ الدین پیران شاہ ۔۔۔۔۔۔٩٠٣ھ (جدّہ) ٭ حضرت شیخ محمد اسمٰعیل اودہی ۔۔۔۔۔۔١١١٧ھ (فیض آباد) ٭ علامہ الحاج ابو الشاہ محمد عبدالقادر قادری شہید۔۔۔۔۔۔رمضان ١٣٨٣ھ/ ٣٠ جنوری، ١٩٦٤ء ٭ حضرت سیدنا طیفور بایزید بسطامی ٭ حضرت حافظ عبدالوہاب سچّل سرمست فاروقی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٢ھ ۔

حضرت شاہ ابو العباس ادریس ۔۔۔۔۔۔٣٤٩ھ ٭ حضرت خواجہ ابو علی بن مطرف اندلسی ۔۔۔۔۔۔٧٠٧ھ ٭ حضرت شاہ محمد گوشہ نشین احمد آبادی ۔۔۔۔۔۔٩٠٠ھ ٭ حضرت میر سید علی قوام سوانی الاصل ۔۔۔۔۔۔٩٥٠ھ ٭ حضرت محمد غوث گوالیاری ۔۔۔۔۔۔٩٧٠ھ ٭ صوفی سید اکرم علی شاہ قادری چاٹگامی ابن سید رحمت علی شاہ قادری ١٣٨٨ھ/٧ستمبر ١٩٦٨ء (کراچی،چشتی)

حضرت عمرو صدیقی بصری ۔۔۔۔۔۔٦٩٢ھ ٭ حضرت ابو المظفرترک طوسی۔۔۔۔۔۔٧٩٨ھ ٭ حضرت شاہ اسحق بن شمس الدین قریشی خراسانی ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٦ھ ٭ حضرت سید عقیل کوکانی ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭ حضرت شاہ عبداللہ بن احمد ۔۔۔۔۔۔٨٩٧ھ (بخارا) ٭ حضرت شاہ احمد محی الخلیقۃ بغدادی ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ شمس الدین محمد رومی ۔۔۔۔۔۔٩٠٤ھ (ہرات) ٭ حضرت سیدشاہ حسین خدانما ۔۔۔۔۔۔٩١٥ھ (برہان پور) ٭ حضرت شیخ ابی الصلاح علی بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٥٧ھ ٭ حضرت سید آل محمد مارہروی۔۔۔۔۔۔١١٦٤ھ ٭ حضرت حافظ موسیٰ چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٧ھ ( مانکپور) ٭ حضرت مناظر اہلسنت شاہ امانت اللہ فصیحی۔۔۔۔۔۔١٣١٥ھ (غازی پور)

شہدائے بدر ٭ سیدہ رقیہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٢ ھ ٭ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٦٢ھ ٭ حضرت شیخ محمدطائی ۔۔۔۔۔۔ ٣٠٠ ھ (حلہ) ٭ حضرت ملا حامد قادری ۔۔۔۔۔۔١٠٤٤ھ (لاہوری) ٭ حضرت سید اخلاص احمد پھپھوندوی بدایونی ۔۔۔۔۔۔١٣٣٨ھ ٭ حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی۔۔۔۔۔۔١٤٠١ھ (رہنما تحریک پاکستان)

حضرت عبداللہ محض مدنی بن حسن مثنی بن امام حسن مجتبیٰ ۔۔۔۔۔۔١٣٧ھ ٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی نیشاپوری ۔۔۔۔۔۔٢٥٨ھ ٭ حضرت خواجہ نصیر الدین محمود اودہی روشن چراغ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٧ھ(دہلی) ٭ حضرت شاہ بہاؤالدین (قلعہ تمنی)۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭ حضرت سید عابد سنامی دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٦٠ھ ٭ حضرت مولانا محمد عابد لاہوری ۔۔۔۔۔۔١١٦٠ھ ٭ حضرت شاہ ابو صالح پیر محمد پناہ چشتی نظامی ۔۔۔۔۔۔١١٩٣ھ (سیون) ٭ حضرت حافظ شاہ محمد عبداللہ قدوسی ۔۔۔۔۔۔١٢٥٤ھ (جے پور) ٭ مناظر اسلام قاطع شدھی تحریک حضرت علامہ غلام قطب الدین برہمچاری (ماہر علوم اساطیریات، خلیفہ قطب المشائخ شاہ علی حسین اشرفی میاں ١٣٥٠ھ ٭ حضرت مولانا ریحان رضا خاں رحمانی میاں ٭ حضرت یحییٰ بن معاویہ ٭ پیر نوازش علی چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١٣٦٧ھ ۔

حضرت سید عماد الدین ابو الصمصام حسینی ۔۔۔۔۔۔٥٤٣ھ (صمصام) ٭ ابو شامّہ عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسی (معروف عرب مؤرخ ) ٦٦٥ھ ٭ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل دہلوی ۔۔۔۔۔۔٦٧١ھ ٭ حضرت شاہ قطب المزار بینا دل ۔۔۔۔۔۔ ٦٧٧ھ (مرزاپور) ٭ حضرت شاہ عمر کابلی ۔۔۔۔۔۔١٢٠٣ھ ٭ حضرت میاں غلام حسین ۔۔۔۔۔۔١٢٥٩ ھ(کانپور) ٭ حضرت علامہ شیخ محمد حسن امروہوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٣ھ(مؤلف تفسیر غایت البرہان) ٭ شیخ طریقت سائیں قمر الدین قادری نوشاہی لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٨٩ھ / ٣٠نومبر١٩٤٩ئ ۔

حضرت ابو بکر طوسی قلندری ٭ حضرت شیخ قطب الدین چشتی جونپوری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٦ھ ٭ حضرت شاہ رکن الدین ابو الحسن اول ۔۔۔۔۔۔١١٨٣ھ ٭ شاہ حبیب الرحمن کانپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٢٦ھ ۔

حضرت امیر المؤمنین سیدنا ابو تراب علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔۔۔۔۔۔٤٠ھ (نجف شریف) ٭ حضرت سیدی عبداللہ بن مبارک ۔۔۔۔۔۔١٨١ھ ٭ حضرت شیخ ابو عبداللہ حسین جوہری ۔۔۔۔۔۔٣٢٢ (مکہ) ٭ حضرت شیخ علی بازیاری ۔۔۔۔۔۔٣٨٩ھ ٭ حضرت ابو العباس خراسانی ۔۔۔۔۔۔٤٦٤ھ ٭ حضرت خواجہ عارف پارسائے نجد ۔۔۔۔۔۔٧١٥ھ ٭ حضرت امام الدین ابدال مثالی ۔۔۔۔۔۔٧٥٤ھ(طوسی) ٭ حضرت شاہ داؤد قریشی ۔۔۔۔۔۔٨١٩ھ (کوہ قرشی) ٭ پیر سید علی گوہر شاہ ۔۔۔۔۔۔٨٢٥ھ(خاندان سادات اُچ شریف) ٭ حضرت سید مکارم میرٹھی ۔۔۔۔۔۔٨٨٥ھ ٭ حضرت غیاث الدین گیلانی لاہوری ۔۔۔۔۔۔٩٩٠ھ ٭ حضرت شاہ مرتضیٰ آنند ۔۔۔۔۔۔١٠٣٧ھ ٭ حضرت حجۃ اللہ غیب اللسان دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٧٦ھ ٭ حضرت شاہ عبدالرحیم چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١٢٤٦ھ (ادّہ) ٭ حضرت امام علی موسیٰ رضا ٭ حضرت شاہ علی حسین باقی(پٹنہ) ٭ علامہ پیر محمد ہاشم جان سرہندی (اولاد مجدد الف ثانی ، رہنما تحریک پاکستان)۔۔۔۔۔۔١٣٩٥ھ ۔

امام ابو عبد اللہ محمد ابن ماجہ قزوینی ربعی۔۔۔۔۔۔٢٧٣ھ ٭ حضرت شیخ ابو القاسم محمد سراجی ۔۔۔۔۔۔٣٩٩ھ (حلّہ) ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی بن محمود زوری ۔۔۔۔۔۔٤٥١ھ (کرشک) ٭ حضرت شاہ عبداللہ صفات الاکبر ۔۔۔۔۔۔٩٥٥ھ ٭ حضرت بندگی شیخ فخر الدین فخر عالم سہروردی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٩٩٥ھ ٭ حضرت شیخ فصیح الدین لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠١٩ھ ٭ حضرت علامہ شیخ محمد حسین فقیر حنفی شاذلی دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٤ھ ٭ حضرت مولانا حسن رضا بریلوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٦ھ(امام السخن، برادرِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ) ٭ حضرت مو لوی پیر محمد ہاشم جان سرہندی ثم ٹھٹھوی۔۔۔۔۔۔١٣٩٥ھ ٭ حضرت ولایت حکیم امر الحسن سہارن پوری ۔

حضرت ابو مصعب احمد زہری ۔۔۔۔۔۔٢٤٢ھ ٭ حضرت سیدی یحییٰ زاہد بغدادی ۔۔۔۔۔۔٤٣٠ھ ۔ ٭ مفتی سعد اللہ رامپوری ۔۔۔۔۔۔١٢٩٤ھ ۔

حضرت سیدتنا ام کلثوم بنت رسول اللہا وَرضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٩ھ ٭ حضرت سلطان الدین علاؤ الدولہ سمنانی ۔۔۔۔۔۔٧٦٦ھ ٭ حضرت قاضی سید عبد الملک شاہ اجمل (خلیفہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت)۔۔۔۔۔۔٨٦٤ھ ٭ شیر بیشہئ سنّت مولانا ہدایت رسول رامپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٣٠ھ(جمعۃ الوداع ) ٭ غزالی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی۔

حضرت خواجہ محمد حسن انداقی ۔۔۔۔۔۔٥٥٢ھ (بخارا) ٭ حضرت شیخ قلندر شاہ قریشی حارثی ہنکاری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٢٤٤ھ ٭ حضرت مولانا آل احمد پھلواری ١٢٩٥ھ (بقیع) ٭ علامہ لمعان الحق انصاری لکھنوی١٣٢٥ھ ٭ حضرت مولانا سید ایوب علی رضوی قادری (تربیت یافتہ بارگاہِ اعلیٰ حضرت)١٣٩٠ھ، جمعۃ الوداع/٦نورمبر، ١٩٧٠ئ۔

حضرت شیخ ابو العطا نفیس عجمی ٢٢٧ھ (کوہِ عطا قیس) ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد ابن ماجہ قزوینی (صاحبِ سنن) ٢٧٣ھ ٭ حضرت شیخ حماد دیاس بن مسلم ٥٢٥ھ (شام) ٭ حضرت خواجہ صدرالدین محمد روز بہاں بصری ٦١١ھ ٭ حضرت شمس الدین محمد حنبلی٧١١ھ (مرشد آباد) ٭ حضرت دیوان محمد نور الدین اجودہنی ٨٢٤ھ ٭ حضرت محمد سلیم چشتی صابری لاہوری ١٠٣٠ھ ٭ حضرت خواجہ ابولعلاسر ہندی ١١٣٩ھ ٭ حضرت ابو الشرف شاہ پیر محمد اشرف سلونی وجدانی ولایت ١١٦٧ھ (سیلون) ٭ حضرت مولانا عبدالغنی بدایونی (خلیفہ شاہ آل احمد اچھے میاں)١٢٠٩ھ ٭ حضرت علامہ شاہ قیام الدین اصدق قادری قمیصی، چشتی، فخری١٣٠١ھ ٭ حضرت مخدوم امین محمد بن مخدوم محمد زماں ثالث ہالائی۔۔۔۔۔۔١٣٠٣ھ ٭ حضرت محمد اسماعیل کرمانوالہ١٣٨٥ھ ٭ حضرت خواجہ عزیز ۔

حضرت شیخ محمود کانپوری ۔۔۔۔۔۔٧٠٣ھ ٭ حضرت خواجہ غلام رسول ٭ مفتی زمن علامہ سید ریاض الحسن جیلانی (حیدرآباد، مصنف ریاض الفتاویٰ) ۔۔۔۔۔۔١٣٨٨ھ ۔

حضرت شیخ الہند بہاؤالدین سلیم چشتی ۔۔۔۔۔۔٩٧٩ھ (فتح پور سیکری) ٭ حضرت شاہ ہدایت اللہ سرست ۔۔۔۔۔۔٨٨٧ھ (سیتا پور) ٭ خواجہ خدا بخش نقشبندی ۔۔۔۔۔۔١٣٥٩ھ ٭ حضرت علامہ سید قمر الہدٰی مونگیری١٣٨٥ھ ٭ حضرت شیخ جمال الاولیاء

حضرت ابو عثمان سعید بن منصور مروزی ۔ ٢٢٩ ھ (مکہ)٭حضرت شیخ جمال اولیا ۔ ١٠٤٧ ھ (کوڑہ) ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم و رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ ادارہ پیغامُ القرآن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : بڑا بیٹے محمد جواد کا اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⏬
03009576666
03215555970
(دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔