صدقہ فطر کے فضائل ، احکام و مسائل قرآن و حدیث اور فقہ کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : ہم میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی پونچی ایسی جگہ لگائے جہاں سے اسے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو ، اس میں کیا شک ہے کہ جس سرمایہ کاری کو اللہ تبارک و تعالی بہترین فرما دیں وہ ہی بہترین ہے ۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں : إِنْ تُقْرِضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّـهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ ۔ (سورہ التغابن)
ترجمہ : اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا ، اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا ۔ اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بردبار ہے ۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ ۔ وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى ۔ (سورہ الأعلی آیت نمبر 14-15)
ترجَمہ : بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی ۔
حضرت علّامہ سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خَزائِنُ العِرفان میں اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقۂِ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنا اور نماز سے نمازِ عید مراد ہے ۔ (خزائن العرفان صفحہ ۱۰۹۹)
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ ﷲِ وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَةً مِّنَ ﷲِط وَﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔ (سورہ التوبة آیت نمبر 60)
ترجمہ : زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھوڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ علم و حکمت والا ہے ۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَکِّیْهِمْ بِهَا َوصَلِّ عَلَیْهِمْط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّهُمْط وَ ﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ (سورہ التوبة آیت نمبر 103)
ترجمہ : اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انہیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے ۔
صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اس سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا ۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے ۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کےلیے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو اس لیے فرض قرار دیا ہے کہ یہ روزہ دار کے بیہودہ کاموں اور فحش باتوں کی پاکی اور مساکین کےلیے کھانے کا باعث بنتا ہے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الزکاة باب زکاة الفطر جلد 2 صفحہ 28 رقم : 1609)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما قَالَ : فَرَضَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے ۔ (بخاري في الصحیح، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/547، الرقم: 1432، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر علی المسلمین من التمر والشعیر، 2/677، الرقم: 984،چشتی،والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في صدقة الفطر، 3/61، الرقم: 676، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب فرض زکاة رمضان علی المسلمین دون المعاهدین، 5/48، الرقم: 2504، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب کم یؤدی في صدقة الفطر، 2/112، الرقم: 1612)
عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه یَقُوْلُ : کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صدقۂ فطر کا ایک صاع کھانا نکالا کرتے یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش میں سے ۔ (بخاري في الصحیح، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/548، الرقم: 1435، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر علی المسلمین من التمر والشعیر، 2/678، الرقم: 985، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في صدقة الفطر، 3/59، الرقم: 673، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب زیب، 5/51، الرقم: 2511، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر، 1/585، الرقم: 1829)
عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَمَرَ بِإِخْرَاجِ زَکَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کیا جائے ۔ (مسلم في الصحیح، کتاب الزکاة، باب الأمر بإخراج زکاة الفطر قبل الصلاة، 2/679، الرقم: 986،چشتی،وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب متی تؤدی، 2/111، الرقم: 1610، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب الوقت الذي یستحب أن تؤدی صدقة الفطر فیه، 5/54، الرقم: 2521، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/67، الرقم: 5345، وابن حبان في الصحیح، 8/93، الرقم: 3299)
عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُکُمْ فَلْیُفْطِرْ عَلَی تَمْرٍ فَإِنَّهُ بَرَکَةٌ فَإِنْ لَمْ یَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُوْرٌ وَقَالَ: اَلصَّدَقَةُ عَلَی الْمِسْکِیْنِ صَدَقَةٌ وَهِيَ عَلَی ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ ۔
ترجمہ : سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی (روزہ) افطار کرے تو کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاک ہے ، نیز فرمایا مسکین کو صدقہ دینا صرف صدقہ ہے لیکن رشتہ دار پر صدقہ دو چیزیں ہیں صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ۔ (ترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في الصدقة علی ذي القرابة، 3/46، الرقم: 658،چشتی،وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء علی ما یستحب الفطر، 1/542، الرقم: 1699، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/17، رقم: 16271، والنسائي في السنن الکبری، 2/254، الرقم: 3321)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَرَضَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاکِیْنِ. مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کےلیے ہے ۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا ۔ (أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2/111، الرقم: 1609، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر، 1/585، الرقم: 1827، والحاکم في المستدرک، 1/568، الرقم: 1488، والدارقطني في السنن، 2/138، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/296، الرقم: 3348)
عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ أَبِي صُعَیْرٍ عَن أَبِیْهِ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: أَدُّوْا صَاعًا مِنْ قَمْحٍ أَوْ صَاعًا مِنْ بِرٍّ عَنْ کُلِّ اثْنَیْنِ صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوْکٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی غَنيٍّ أَوْ فَقِیْرٍ أَمَّا غَنِیُّکُمْ فَیُزَکِّیْهِ ﷲُ وَأَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیُرَدُّ عَلَیْهِ أَکْثَرُ مِمَّا یُعْطِي ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابی صعیر رضی اللہ عنہ اپنے باپ رضی اللہ عنہ (سے) روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گندم کا ایک صاع (صدقہ فطر) تم میں سے ہر چھوٹے بڑے ، آزاد و غلام ، مرد و عورت ، غنی اور فقیر ہر ایک پر فرض ہے ۔ غنی کو اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعے) پاک کر دیتا ہے اور فقیر جتنا دیتا ہے اس کی طرف اس سے زیادہ اسے واپس لوٹا دیا جاتا ہے ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 5/432، الرقم: 23714، وعبد الرزاق في المصنف، 3/318، الرقم: 5785، والبیهقي في السنن الکبری، 4/163، الرقم: 7484، والدارقطني في السنن، 2/148، الرقم: 39، والمقدسي في الأحادیث المختاره، 9/120، الرقم: 108)
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : خَطَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَحِمَهُ ﷲُ فِي آخِرِ رَمَضَانَ عَلَی مِنْبَرِ الْبَصْرَةِ فَقَالَ: أَخْرِجُوْا صَدَقَةَ صَوْمِکُمْ فَکَأَنَّ النَّاسَ لَمْ یَعْلَمُوْا فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِیْنَةِ قُوْمُوْا إِلَی إِخْوَانِکُمْ فَعَلِّمُوْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ. فَرَضَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم هَذِهِ الصدقة صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِیْرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ عَلَی کُلِّ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوْکٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ. فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ رضی الله عنه رَأَی رُخْصَ السِّعْرِ قَالَ: قَدْ أَوْسَعَ ﷲُ عَلَیْکُمْ فَلَوْ جَعَلْتُمُوْهُ صَاعًا مِنْ کُلِّ شَيْئٍ ۔
ترجمہ : حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے آخر میں بصرے کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو ۔ لوگ کچھ نہ سمجھے تو انہوں نے فرمایا کہ جو یہاں مدینہ منورہ کے رہنے والے ہیں وہ اپنے بھائیوں کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقۂ فطر کو مقرر فرمایا ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا جَو اور نصف صاع گندم ہر آزاد ، غلام ، مرد ، عورت ، چھوٹے اور بڑے کی طرف سے ۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور غلے کی فراوانی دیکھی تو فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہیں وسعت دی ہے لہٰذا ہر چیز کا ایک صاع رکھ لو ۔ (أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب من روی نصف صاع من قمح، 2/114، الرقم: 1619، والنسائي في السنن الکبری، 2/28، الرقم: 2294، والبیهقي في السنن الکبری، 4/168، الرقم: 7501، والعیني في عمدة القاري، 9/114)
عَنْ عَوْفٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّهُ کَانَ یَأْمُرُ بِزَکَاةِ الْفِطْرِ یَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّيَ صَلَاةَ الْعِیْدِ وَیَتْلُوْ هَذِهِ الْآیَةَ {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ ۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰی ۔ (سورہ الأعلی آیت نمبر 14.15) ۔
ترجمہ : حضرت عوف رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید والے دن نمازِ عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیتے تھے، اور اس آیتِ کریمہ کی تلاوت فرماتے تھے : بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیا ۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا ۔ (بزار في المسند، 8/313، الرقم: 3383)
عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ : خَطَبَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم النَّاسَ قَبْلَ یَوْمَ الْفِطْرِ بِیَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ فَقَالَ: أَدُّوْا صَاعًا مِنْ بِرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَیْنَ اثْنَیْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ أَوْ شَعِیْرٍ عَنْ کُلِّ حُرٍّ وَ عَبْدٍ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الفطر سے ایک دن یا دو دن پہلے لوگوں سے یوں خطاب فرمایا: ایک صاع جَو یا ایک صاع گندم ہر دو میں تقسیم کرو یا ایک صاع کھجور یا جَو ہر آزاد اور غلام شخص کی طرف سے ادا کرو ۔ (عبد الرزاق في المصنف، 3/318، الرقم: 5785،چشتی،والدارقطني في السنن، 2/150، الرقم: 52)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَمَرَ صَارِخًا بِبَطَنِ مَکَّةَ یُنَادِي أَنَّ صَدَقَةَ الْفِطْرِ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ، ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی، حُرٍّ أَوْ مَمْلُوْکٍ، حَاضِرٍ أَوْ بَادٍ صَاعٌ مِنْ شَعِیْرٍ أَوْ تَمَرٍ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کرکم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وادی مکہ کے بیچ ایک پکارنے والے کو حکم دیا کہ وہ یہ ندا لگائے کہ صدقۂ فطر ہر مسلمان چھوٹے بڑے ، مرد و زن ، آزاد و غلام ، شہری و دیہاتی پر ایک صاع جَو اور ایک صاع کھجور واجب ہے ۔ (حاکم في المستدرک، 1/569، الرقم: 1492، والبیهقي في السنن الکبری، 4/172، الرقم: 7515،چشتی،والزیلعي في نصب الرایة، 2/441، وابن حجر العسقلاني في تلخیص الحبیر، 2/183، الرقم: 866)
عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَدَقَةُ الْفِطْرِ یَوْمَ الْفِطْرِ وَمَنْ أَعْطَاهَا بَعْدَ ذَلِکَ فَهِيَ صَدَقَةٌ ۔
ترجمہ : حضرت مجاہد علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ صرف وہی صدقہ فطرانہ کہلائے گا جو عید الفطر تک ادا کر دیا جائے گا اور جس نے اس عید کے بعد کچھ صدقہ دیا تو وہ (فطرانہ نہیں بلکہ صرف) صدقہ ہو گا ۔ (مصنف ابن أبي شیبة ، 2/395، الرقم: 10332)
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث : صدقة جارية ، أو علم ينتفع به ، أو ولد صالح يدعو له ۔ (رواه مسلم)
ترجمہ : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل بند ہو جاتا ہے ۔ مگر تین چیزیں : (1) ایک صدقہ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس سے زندہ لوگ نفع حاصل کرتے رہیں (2) دوسری ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں (3) تیسری ایسی نیک اولاد جو اپنے والدین کےلیے دعا کرتی رہے ۔
صدقۂ فطر واجب ہے : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکّۂ مُعَظّمہ کے گلی کوچوں میں اِعلان کر دو ، ’’صَدَ قَۂِ فِطْر واجب ہے ۔ (سنن تِرمذی جلد ۲ صفحہ ۱۵۱ حدیث نمبر ۶۷۴)
صدقہ فطر واجب ہے ، عمر بھر اس کا وقت ہے یعنی اگر ادا نہ کیا ہو تو اب ادا کر دے۔ ادا نہ کرنے سے ساقط نہ ہوگا، نہ اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے اگرچہ مسنون قبل نمازِ عید ادا کر دینا ہے ۔ (الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۲،چشتی)
صدقہ فطر شخص پر واجب ہے مال پر نہیں ، لہٰذا مر گیا تو اس کے مال سے ادا نہیں کیا جائے گا ۔ ہاں اگر ورثہ بطورِ احسان اپنی طرف سے ادا کریں تو ہو سکتا ہے کچھ اُن پر جبر نہیں اور اگر وصیّت کر گیا ہے تو تہائی مال سے ضرور ادا کیا جائے گا اگرچہ ورثہ اجازت نہ دیں ۔ (الجوہرۃ النیرۃ کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر صفحہ ۱۷۴)
عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے ، لہٰذا جو شخص صبح ہونے سے پہلے مر گیا یاغنی تھا فقیر ہو گیا یا صبح طلوع ہونے کے بعد کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہو گیا تو واجب نہ ہوا اور اگر صبح طلوع ہونے کے بعد مرا یا صبح طلوع ہونے سے پہلے کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہو گیا تو واجب ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
صدقۂ فطر لغو باتوں کا کفارہ ہے : ⏬
حضرت سَیِّدُنا اِبنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صَدَقَۂِِ فِطْر مقرر فرمایا تاکہ فضول اور بے ہودہ کلام سے روزوں کی طَہارت (یعنی صفائی) ہو جائے ۔ نیز مساکین کی خورِش (یعنی خوراک) بھی ہو جائے ۔ (سنن ابوداوٗد جلد ۲ صفحہ ۱۵۸ حدیث نمبر ۱۶۰۹)
حضرت اَنس بن مالِک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تک صَدَقَۂِ فِطْر ادا نہیں کیا جاتا ، بندے کا روزہ زَمین و آسمان کے درمیان مُعلَّق (یعنی لٹکا ہوا ) رہتا ہے ۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب جلد ۲ صفحہ ۳۹۵ حدیث نمبر ۳۷۵۴)
صَدَقَۂِ فِطْر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو ’’صاحبِ نصاب ‘‘ ہوں اور اُن کا نصاب ’’حاجاتِ اَصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی مَثَلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارِغ ہو ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۹۱)
جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا ساڑھے بَاوَن تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کامالِ تجارت ہو (اور یہ سب حاجاتِ اَصْلِیَّہ سے فارِغ ہوں) یا اتنی مالیَّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اُس کو صاحِبِ نِصاب کہا جاتا ہے ۔ (عامہ کتبِ فقہ)
صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہونے کےلیے ،’’عاقل وبالغ ‘‘ہونا شرط نہیں ۔ بلکہ بچہ یا مَجْنُون (یعنی پاگل ) بھی اگر صاحبِ نصاب ہوتو اُس کے مال میں سے اُن کا وَلی (یعنی سرپرست) ادا کرے ۔ (ردّالْمُحتار جلد ۳ صفحہ ۳۶۵)
صَدَقَۂِ فِطْر کےلیے مقدارِ نصاب تو وُہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے جیسا کہ مذکور ہوا لیکن فرق یہ ہے کہ صَدَقَۂِ فِطْر کےلیے مال کے نامی (یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (مَثَلاً عمومی ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہا) اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ۔ (وقار الفتاویٰ جلد ۲ صفحہ ۳۸۶،چشتی)
مالک نصاب مردپر اپنی طرف سے ، اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو) تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ، ہاں اگر وہ بچہ یا مَجْنُون خود صاحِب نصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فطرہ ادا کردے ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رِشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۹۳)
والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحِب کی جگہ ہیں ۔ یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے اُن پہصَدَقَۂِ فِطْر دینا واجِب ہے ۔ (دُرَّمُختار جلد ۳ صفحہ ۳۶۸)
ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجب نہیں ۔ (رَدُّ الْمُحتار جلد ۳ صفحہ ۳۶۸،چشتی)
باپ پر اپنی عاقِل بالِغ اولاد کا فِطْرہ واجِب نہیں ۔ (دُ رِّمُختار مع رَدِّالْمُحتار جلد ۳ صفحہ ۳۷۰)
کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکایا مَعَاذَ اللہ بغیر مجبوری کے رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے نہ رکھے اُس پر بھی صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں صَدَقَۂِ فِطْر واجِب ہے ۔ (رَدّالْمُحتار جلد ۳ صفحہ ۳۶۷)
بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذِمے ہے ، وہ اگر اِن کی اجازت کے بغیر ہی اِن کا فطرہ ادا کر دے تو ادا ہو جائے گا ۔ ہاں اگر نفقہ اُس کے ذِمے نہیں ہے مَثَلاً بالِغ بیٹے نے شادی کر کے گھر الگ بسا لیا اور اپنا گزارہ خود ہی کر لیتا ہے تو اب اپنے نان نفقے (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ) کا خود ہی ذِمے دار ہو گیا ہے ۔ لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہو گا ۔
بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا ۔ (بہار شریعت جلد ۱ صفحہ ۳۹۸)
عِیدُ الْفِطْر کی صبح صادِق طلوع ہوتے وَقت جو صاحبِ نصاب تھا اُسی پر صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ، اگر صبحِ صادِق کے بعد صاحبِ نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (فتاویٰ عا لمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرنے کا اَفضل وَقت تو یِہی ہے کہ عید کو صبح صادِق کے بعد عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے ، اگر چاند رات یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے کسی بھی دِن بلکہ رَمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کر دیا تب بھی فطرانہ ادا ہو گیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے ۔ (فتاویٰ عا لمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
اگر عید کا دِن گزر گیا اور فطرانہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرانہ ساقط نہ ہوا ، بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (فتاویٰ عا لمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
صَدَقَۂِ فِطْر کے مصا رِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔ یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فطرانہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کوفطرانہ بھی نہیں دے سکتے ۔ (فتاویٰ عا لمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۹۴)
سادات کرام کو صَدَقَۂِ فِطْر نہیں دے سکتے ۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931 پر ہے : بنی ہاشم کو زکاۃ (فطرہ) نہیں دے سکتے ۔ نہ غیر انہیں دے سکے ، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو ۔ بنی ہاشم سے ۔ مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم کی اولادیں ہیں ۔
صدقۂ فطر کی مقدار : ⏬
گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع (یعنی دو کلو میں 80 گرام کم) (یا ان کی قیمت) ، کھجور یا مُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع (یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مقدار ہے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۹۱،چشتی)(دُرِّمُختار جلد ۳ صفحہ ۳۷۲)
اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ : صاع کا وزن تین سو (۳۵۱) اِکاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک (۱۷۵) سو پَچھتَّر روپے اَٹھنی بھر اوپر ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۹۳۹،چشتی)
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے ، مثلاً چاول ، جوار ، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہو گا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو ، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۹۳۹)
قرآنی آیت اور احادیثِ مبارکہ سے یہ بات بخوبی معلوم ہو رہی ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اللہ تعالی کی راہ اور دین کے کاموں میں خرچ کیا جائے اور اپنے خرچ کیے ہوئے کو اللہ تعالی کے ہاں بے حد و حساب اضافے کے ساتھ وصول کر لیا جائے ۔ نیز دین کے کام عظیم صدقہ جاریہ ہیں ۔ مثلاً ، نادار و غریب بچوں کو دینی تعلیم دینا اور دلوانا ، دین کی نشر و اشاعت کرنا یا اس میں معاونت کرنا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)
اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ ادارہ پیغامُ القرآن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ، کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : بڑا بیٹے محمد جواد کا اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⏬
03009576666
03215555970
صدقہ فطر گندم یا گندم کا آٹا آدھا صاع اور جو یا جو کا آٹا یا کھجور ایک صاع دیں ۔ موجودہ وزن میں ایک صاع کا وزن چار کلو اور تقریباً چورانوے گرام ہے اور آدھا صاع دو کلو اور تقریباً پینتالیس گرام کا بنتا ہے ۔ اگر فطرانہ میں اس مقدار کے برابر قیمت دے دی جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ محتاجوں کو اس سے زیادہ فائدہ ہو گا ۔ صدقہ فطر اجتماعی طور پر کسی ایک محتاج کو بھی دیا جا سکتا ہے ۔ صدقہ فطر کی ادائیگی کا افضل وقت عید کی صبح صادق کے بعد اور نمازِ عید سے پہلے کا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ نماز کی طرف جانے سے پہلے زکوٰۃ و فطر ادا کر لی جائے ۔ (صحيح بخاری کتاب الزکاة باب الصدقة قبل العيد جلد 2 صفحہ 548 رقم : 1438)
لیکن اگر کوئی شخص صدقہ فطر کسی وجہ سے عید کے روز ادا نہ کر سکا اور بعد میں ادا کیا تو اس کا شمار قضا میں نہیں ہو گا ۔ صدقہ فطر کسی وقت بھی ادا کیا جائے وہ ادا ہی ہو گا ۔
صدقہ فطر ہر مسلمان آزاد مالکِ نصاب پر جس کی نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو واجب ہے ۔ اس میں عاقل بالغ اور مال نامی ہونے کی شرط نہیں ۔ (الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۲ ۔ ۳۶۵)
نابالغ یا مجنون اگر مالکِ نصاب ہیں تو ان پر صدقہ فطر واجب ہے ، اُن کا ولی اُن کے مال سے ادا کرے ، اگر ولی نے ادا نہ کیا اور نابالغ بالغ ہو گیا یا مجنون کا جنون جاتا رہا تو اب یہ خود ادا کر دیں اور اگر خود مالکِ نصاب نہ تھے اور ولی نے ادا نہ کیا تو بالغ ہونے یا ہوش میں آنے پر اُن کے ذمہ ادا کرنا نہیں ۔ الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۵)
ہر طبقہ کے لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کریں گے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : صرف مُسِنَّۃ کی قربانی کرو۔ لیکن اگر دنبوں میں مُسِنَّۃ کا ملنا دشوار ہو تو چھ ماہ کے دنبے کی قربانی بھی کر سکتے ہو ۔ (سنن نساٸی کتاب الضحايا باب المسنة والجزعة جلد 7 صفحہ 218 رقم : 4378)
بکرے ، گائے اور اونٹ میں مُسِنَّۃ اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ پینے کے دانتوں کی جگہ چرنے اور کھانے کے دانت نکل آئیں ۔ بکرے کی عمر ایک سال ہو تو اُس کی یہ دانت نکلتے ہیں جب کہ گائے دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہو جائے تو اُس کے کھانے کے دانت نکلتے ہیں ۔ شریعت میں اِجازت ہے کہ ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق بکروں ، دنبوں ، گایوں یا اونٹوں کی قربانی کرے ۔ اِسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کی بھی مختلف اَقسام کو اُمت کےلیے جائز فرمایا جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہم ایک صاع (چار کلو گرام) اناج (بطور صدقہ فطر) ادا کرتے تھے یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کشمش ادا کرتے تھے ۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو گندم کا آٹا آگیا ۔ جو کہ اُس وقت نسبتاً سب سے مہنگا تھا ۔ تو نصف صاع (دو کلو) گندم کو ان چیزوں کے چار کلو کے برابر قرار دے دیا گیا ۔ (صحيح بخاری کتاب صدقة الفطر باب صاع من زبيب جلد 2 صفحہ 548 رقم : 1437)
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ اَقدس میں ہم ایک صاع اناج بطور صدقہ فطر ادا کرتے تھے ۔ ہمارا اناج جَو ، کشمش ، پنیر اور کھجور پر مشتمل ہوتا تھا ۔ (صحيح بخاری کتاب صدقة الفطر باب الصدقة قبل العيد جلد 2 صفحہ 548 رقم : 1439)
لہٰذا مختلف آمدنی رکھنے والے طبقات اپنی اپنی آمدن اور مالی حیثیت کے مطابق دو کلو گندم کی قیمت سے لے کر چار کلو کشمش کی قیمت تک کسی بھی مقدار کو صدقۂ فطر کے طور پر ادا کریں گے تاکہ غرباء و مستحقین کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو ۔
صدقہ فطر ادا کرنے کےلیے مال کا باقی رہنا بھی شرط نہیں ، مال ہلاک ہونے کے بعد بھی صدقہ واجب رہے گا ساقط نہ ہو گا ، بخلاف زکاۃ و عشر کہ یہ دونوں مال ہلاک ہو جانے سے ساقط ہو جاتے ہیں ۔ (الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۶)
مرد مالکِ نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچہ کی طرف سے واجب ہے ، جبکہ بچہ خود مالکِ نصاب نہ ہو ، ورنہ اس کا صدقہ اسی کے مال سے ادا کیا جائے اور مجنون اولاد اگرچہ بالغ ہو جبکہ غنی نہ ہو تو اُس کا صدقہ اُس کے باپ پر واجب ہے اور غنی ہو تو خود اس کے مال سے ادا کیا جائے، جنون خواہ اصلی ہو یعنی اسی حالت میں بالغ ہوا یا بعد کو عارض ہوا دونوں کاایک حکم ہے ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۷،چشتی)
صدقہ فطر واجب ہونے کےلیے روزہ رکھنا شرط نہیں ، اگر کسی عذر ، سفر ، مرض ، بڑھاپے کی وجہ سے یا معاذ اللہ بِلاعذر روزہ نہ رکھا جب بھی واجب ہے ۔ (ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۷)
نابالغ لڑکی جو اس قابل ہے کہ شوہر کی خدمت کر سکے اس کا نکاح کر دیا اور شوہر کے یہاں اُسے بھیج بھی دیا تو کسی پر اس کی طرف سے صدقہ واجب نہیں ، نہ شوہر پر نہ باپ پر اور اگر قابل خدمت نہیں یا شوہر کے یہاں اُسے بھیجا نہیں تو بدستور باپ پر ہے پھر یہ سب اس وقت ہے کہ لڑکی خود مالکِ نصاب نہ ہو ، ورنہ بہرحال اُس کا صدقہ فطر اس کے مال سے ادا کیا جائے ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۸،چشتی)
باپ نہ ہو تو دادا باپ کی جگہ ہے یعنی اپنے فقیر و یتیم پوتے پوتی کی طرف سے اس پر صدقہ دینا واجب ہے ۔ (الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۸)
ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ دینا واجب نہیں ۔ (ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۸)
خدمت کے غلام اور مدبر و اُمِ ولد کی طرف سے ان کے مالک پر صدقہ فطر واجب ہے، اگرچہ غلام مدیُون ہو، اگرچہ دَین میں مستغرق ہو اور اگر غلام گروی ہو اور مالک کے پاس حاجتِ اصلیہ کے سوا اتنا ہوکہ دَین ادا کر دے اور پھر نصاب کا مالک رہے تو مالک پر اُس کی طرف سے بھی صدقہ واجب ہے ۔ (الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۹)(الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
تجارت کے غلام کا فطرہ مالک پر واجب نہیں اگرچہ اس کی قیمت بقدرِ نصاب نہ ہو ۔ (ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۹)
غلام اُدھار دے دیا یا کسی کے پاس امانۃً رکھا تو مالک پر فطرہ واجب ہے اور اگر یہ وصیت کر گیا کہ یہ غلام فلاں کا کام کرے اور میرے بعد اس کا مالک فلاں ہے تو فطرہ مالک پر ہے ، اُس پر نہیں جس کے قبضہ میں ہے ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۶۹)
بھاگا ہوا غلام اور وہ جسے حربیوں نے قید کر لیا ان کی طرف سے صدقہ مالک پر نہیں۔ یوہیں اگر کسی نے غصب کر لیا اور غاصب انکار کرتا ہے اور اس کے پاس گواہ نہیں تو اس کا فطرہ بھی واجب نہیں ، مگر جب کہ واپس مل جائیں تو اب ان کی طرف سے سالہائے گزشتہ کا فطرہ دے ، مگر حربی اگر غلام کے مالک ہو گئے تو واپسی کے بعد بھی اس کا فطرہ نہیں ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۷۰)
مکاتب کا فطرہ نہ مکاتب پر ہے ، نہ اس کے مالک پر ۔ یوہیں مکاتب اور ماذُون کے غلام کا اور مکاتب اگر بدلِ کتابت ادا کرنے سے عاجز آیا تو مالک پر سالہائے گزشتہ کا فطرہ نہیں ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳)
دو یا چند شخصوں میں غلام مشترک ہے تو اُس کا فطرہ کسی پر نہیں ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳)
غلام بیچ ڈالا اور بائع یا مشتری یا دونوں نے واپسی کا اختیار رکھا عیدُالفطر آ گئی اور میعاد اختیار ختم نہ ہوئی تو اُس کا فطرہ موقوف ہے ، اگر بیع قائم رہی تو مشتری دے ورنہ بائع ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳،چشتی)
اگر مشتری نے خیار عیب یا خیار رویت کے سبب واپس کیا تو اگر قبضہ کر لیا تھا تو مشتری پر ہے ، ورنہ بائع پر ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳)
غلام کو بیچا مگر وہ بیع فاسد ہوئی اور مشتری نے قبضہ کر کے واپس کر دیا یا عید کے بعد قبضہ کر کے آزاد کر دیا تو بائع پر ہے اور اگر عید سے پہلے قبضہ کیا اور بعد عید آزاد کیا تو مشتری پر ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳)
مالک نے غلام سے کہا جب عید کا دن آئے تو آزاد ہے ۔ عید کے دن غلام آزاد ہو جائے گا اور مالک پر اس کا فطرہ واجب ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳)
اپنی عورت اور اولاد عاقل بالغ کا فطرہ اُس کے ذمہ نہیں اگرچہ اپاہج ہو ، اگرچہ اس کے نفقات اس کے ذمہ ہوں ۔ (الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۷۰)
عورت یا بالغ اولاد کا فطرہ ان کے بغیر اِذن ادا کر دیا تو ادا ہوگیا، بشرطیکہ اولاد اس کے عیال میں ہو یعنی اس کا نفقہ وغیرہ اُس کے ذمہ ہو، ورنہ اولاد کی طرف سے بغیر اجازت ادا نہ ہوگا اور عورت نے اگر شوہر کا فطرہ بغیر حکم ادا کر دیا ادا نہ ہوا ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳،چشتی)(ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۷۰)
ماں باپ ، دادا دادی ، نابالغ بھائی اور دیگر رشتہ داروں کا فطرہ اس کے ذمہ نہیں اور بغیر حکم ادا بھی نہیں کر سکتا ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳)
صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے گیہوں یا اس کا آٹا یا ستّو نصف صاع، کھجور یا منقے یا جَو یا اس کا آٹا یا ستّو ایک صاع ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۱)(الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۷۲)
گندم ، جَو ، کھجوریں ، منقے دیے جائیں تو ان کی قیمت کا اعتبار نہیں ، مثلاً نصف صاع عمدہ جَو جن کی قیمت ایک صاع جَو کے برابر ہے یا چہارم صاع کھرے گندم جو قیمت میں آدھے صاع گندم کے برابر ہیں یا نصف صاع کھجوریں دیں جو ایک صاع جَو یا نصف صاع گندم کی قیمت کی ہوں یہ سب ناجائز ہے جتنا دیا اُتنا ہی ادا ہوا ، باقی اس کے ذمہ باقی ہے ادا کرے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
نصف صاع جَو اور چہارم صاع گند دیے یا نصف صاع جَو اور نصف صاع کھجور تو بھی جائز ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
گندم اور جَو ملے ہوئے ہوں اور گند زیادہ ہیں تو نصف صاع دے ورنہ ایک صاع ۔ (ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۷۳)
گندم اور جَو کے دینے سے اُن کا آٹا دینا افضل ہے اور اس سے افضل یہ کہ قیمت دیدے ، خواہ گیہوں کی قیمت دے یا جَو کی یا کھجور کی مگر گرانی میں خود ان کا دینا قیمت دینے سے افضل ہے اور اگر خراب گندم یا جَو کی قیمت دی تو اچھے کی قیمت سے جو کمی پڑے پوری کرے ۔ (ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۷۶)(الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۱ ۔ ۱۹۲)
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے ، مثلاً چاول ، جوار ، باجرہ یا اور کوئی غلّہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جَو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جَو کی ہو ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۱،چشتی)(الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۷۳)
اعلیٰ درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے، کہ صاع کا وزن تین سو اکاون (۳۵۱) روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک سو پچھتر ۱۷۵ روپے اٹھنی بھر اوپر ۔ (فتاوی الرضویۃ جلد ۱۰ صفحہ ۲۹۵)
فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے جب کہ وہ شخص موجود ہو ، جس کی طرف سے ادا کرتا ہو اگرچہ رمضان سے پیشتر ادا کر دے اور اگر فطرہ ادا کرتے وقت مالک نصاب نہ تھا پھر ہو گیا تو فطرہ صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے ۔ (الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۷۶)(الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر جلد ۱ صفحہ ۱۹۲)
ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین کو دینا بہتر ہے اور چند مساکین کو دے دیا جب بھی جائز ہے ۔ یوہیں ایک مسکین کو چند شخصوں کا فطرہ دینا بھی بلاخلاف جائز ہے اگرچہ سب فطرے ملے ہوئے ہوں ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر مطلب في مقدار الفطرۃ بالمد الشامی جلد ۳ صفحہ ۳۷۷)
شوہر نے عورت کو اپنا فطرہ ادا کرنے کا حکم دیا ، اُس نے شوہر کے فطرہ کے گیہوں اپنے فطرہ کے گیہووں میں ملا کر فقیر کو دے دیے اور شوہر نے ملانے کا حکم نہ دیا تھا تو عورت کا فطرہ ادا ہوگیا شوہر کا نہیں مگر جب کہ ملا دینے پر عرف جاری ہو تو شوہر کا بھی ادا ہو جائے گا ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر مطلب في مقدار الفطرۃ بالمد الشامی جلد ۳ صفحہ ۳۷۸)
عورت نے شوہر کو اپنا فطرہ ادا کرنے کا اذن دیا، اس نے عورت کے گیہوں اپنے گیہووں میں ملا کر سب کی نیّت سے فقیر کو دے دیے جائز ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الزکاۃ الباب الثامن في صدقۃ الفطر)
صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں یعنی جن کو زکاۃ دے سکتے ہیں ، انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنہیں زکاۃ نہیں دے سکتے ، انہیں فطرہ بھی نہیں سوا عامل کے کہ اس کےلیے زکاۃ ہے فطرہ نہیں ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر مطلب في مقدار الفطرۃ بالمد الشامی جلد ۳ صفحہ ۳۷۹)
اپنے غلام کی عورت کو فطرہ دے سکتے ہیں ، اگرچہ اُس کا نفقہ اُسی پر ہو ۔ (الدرالمختار کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر جلد ۳ صفحہ ۳۸۰)
فطرانہ کے مصارِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ، یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اُنہیں صدقہ فطر دے سکتے ہیں اور جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُنہیں فطرانہ بھی نہیں دے سکتے ، سوائے عامل کے کہ اُس کےلیے زکوٰۃ ہے فطرہ نہیں ۔ مصارِف میں سے بہتر یہی ہے کہ فقراء و مساکین کو ترجیح دی جائے ۔ اِس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے : أغْنُوْهُمْ فِیْ هَذَا الْيَوْمِ ۔ اس دن مساکین کو (سوال سے) بے نیاز کر دو ۔ (سنن دار قطنی جلد 2 صفحہ 152 رقم : 67) ۔ اللہ عزوجل ہمیں احکامِ شرع پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment