Sunday 3 March 2024

حروف تہجی اور حروف مقطعات کے مقاصد و حکمتیں

0 comments

حروف تہجی اور حروف مقطعات کے مقاصد و حکمتیں

محترم قارئینِ کرام : حروف تہجی سے قرآن حکیم کی انتیس (۲۹)سورتوں کا آغاز فرمایا هے جنہیں حروف مقطعات بھی کہتے ہیں ان کو سورتوں کا نقطہ آغاز یافواتح السوُّر کہا جاتا ہے سورتوں کے یہ فواتح پانچ اقسام پر آتے ہیں جو درج ذیل ہیں : ⏬

۱۔ بسیط مقطعات : یہ حروف کی وہ قسم هے جو صر ف ایک حرف پر مشتمل هے اور یہ تین سورتیں ہیں ۔

سورہ ص : ص والقرآن ذی الذکر ۔ (۲۰)

سورہ ق : ق والقرآن المجید ۔ (۲۱)

سورہ القلم : ن والقلم ومایسطرون ۔ (۲۱)

۲ دو حروف سے مرکب مقطعات : ⏬

ایسے مقطعات قرآن حکیم کی دس سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں جو یہ ہیں ۔

سورہ طٰہٰ : طہ o مانزلنا علیک القرآن لتشقی (۲۲)

سورہ النمل : طس o تلک آیت القرآن وکتاب مبین (۲۳)

سورہ یس : یس o والقرآن الحکیم(۲۴)

سورہ مومن : حم o تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم (۲۵)

سورہ حم السجدہ : حم o تنزیل من الرحمن الرحیم (۲۶)

سورہ الزخرف : حم o والکتب المبین (۲۸)

سورہ الدخان : حم o والکتب المبین (۲۹)

سورہ الجاثیہ : حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم (۳۰)

سورہ الاحقاف : حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم (۳۱)

۳ تین حروف سے مرکب مقطعات : ⏬

اس نوع میں قرآن حکیم کی تیرہ سورتیں آتی ہیں ۔

سورہ البقرة : الم o ذالک الکتاب لاریب فیہ (۳۲)

سورہ ال عمران : الم o اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم (۳۴)

سورہ یونس : الرا oتلک آیٰت الکتب الحکیم (۳۴)

سورہ ھود : الر o کتٰبٌ اُحْکمت اٰیٰتةُ (۳۵)

سورہ یوسف : الر o تلک ایت الکتب المبین (۳۶)

سورہ ابراہیم : الر o کتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ (۳۷)

سورہ الشعراء : طسم o تلک ایت الکتب المبین (۳۸)

سورہ القصص : طسم o تلک ایت الکتب المبین (۳۹)

سورہ الحجر : الر o تلک ایت الکتب و قرآن مبین (۳۷ا)

سورہ العنکبوت : الم o احسب الناس ان یترکوا (۴۰)

سورہ الروم : الم o غلبت الروم (۴۱)

سورہ لقمن : الم o تلک ایت الکتب الحکیم (۴۲)

سورہ السجدة : الم o تنزیل الکتب لا ریب فیہ من رب العلمین (۴۳)

۴ چار حروف سے مرکب مقطعات : ⏬

قرآن کریم کی دو سورتیں چار حروف سے مرکب مقطعات سے شروع هوئی ہیں ۔

سورہ الاعراف : المص o کتٰب انزل الیک (۴۴)

سورہ الرعد : المر o تلک ایت الکتب (۴۵)

۵ پانچ حروف سے مرکب مقطعات :

صرف دو سورت کا آغاز پانچ حروف پر مشتمل مقطعات سے ہوتا ہے ۔

سورہ مریم : کھیعص ہ ذکر رحمت ربک عبدہ ذکریا (۴۶)

سورہ الشوری : حم o عسق کذالک یو حی الیک (۲۷)

حروف مقطعات کی حکمت : ⏬

مفسرین حروف مقطعات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذکر سے یہ فائدہ مقصود هے کہ یہ قرآن، حروف تہجی یعنی ا،ب،ج، د ہی سے مرکب اور مرتب هونے پر دلالت کرتا هے کیونکہ قرآن مجید کاکچھ حصہ مقطع (جدا جدا)حروف میں آیا هے اور باقی تمام مرکب الفاظ ہیں غرض یہ تھی کہ جن لوگوں کی زبان میں قرآن حکیم کانزول هوا هے وہ معلوم کرلیں کہ قرآن انہی کی زبان میں هے اور انہی حروف میں نازل هوا هے جن کو وہ جانتے اور اپنے کلام میں برتتے ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے قائل کرنے اور ان کے قرآن حکیم کے مثل لانے سے عاجز هونے کا ثبوت دینے کے لیے ایک زبردست دلیل هے کیونکہ اہل عرب باوجود یہ معلوم کرلینے کے کہ قرآن حکیم انہی کی زبان میں اترا اور انہی حروف تہجی کے ساتھ نازل هوا جس سے وہ اپنے کلام کو بناتے ہیںپھر بھی قرآن کی اس تحدی (چیلنج) کو قبول کرنے سے عاجز رهے کہ اس کے مثل کوئی سورہ یا کم از کم ایک آیت ہی پیش کر سکیں ۔ ( الفوز الکبیر )

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی مقطعات کی حکمت بیان کرتے هوئے لکھتے ہیں” حروف مقطعات کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی حیثیت ان سورتوں کے نام یاعنوان کی سی هے جس سورة سے اس کا تعلق هوتا هے چنانچہ جو باتیں سورة میں تفصیلی طور پرموجودهوتی ہیں وہ اجمالی طور پر حروف مقطعات میں بھی مضمر هوتی ہیں مثلاً جب کوئی کتاب لکھی جاتی هے تو اس کا ایک نام رکھا جاتا هے لیکن نام رکھنے میں ہمیشہ کتاب کے مضمون کی مناسبت کا خیال رکھا جاتا هے اور ایک ایسانام تجویز کیاجاتا هے جس کے سنتے ہی کتاب کی حقیقت اور اس کا مفهوم سننے والے کے ذہن میں آ جائے مثلاً امام بخاری نے اپنی حدیث کا نام”الجامع الصحیح المسند فی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا هے اس نام کے سنتے ہی یہ علم هو جاتا هے کہ اس کتاب میں آنحضرت کی احادیث صحیحہ کو جمع کیاگیاهے ۔ ( الفوز الکبیر )

حضرت شاہ ولی اللہ کی بحث سے یہ بات واضح هو تی هے کہ سورتوں کے آغاز میں آنے والے حروف تہجی دراصل اس سورة میں مذکورہ مضامین کی مناسبت سے آتے ہیں ۔

حروف مقطعات کا اسرار

حروف مقطعات کی تعداد 14 ہے ۔ حروف مقطعات سے شروع ہونے والی سورتوں کی تعداد 29ہے۔ 29کا یہ ہندسہ بلاجواز نہیں بلکہ اس کو اگر ہم جمع کریں تو دوجمع نوبرابر گیارہ (2+9=11) بنتا ہے ۔ روحانیت میں گیارہ کے ہندسے کو ایک جمع (1+1)کرکے ایک ہندسے میں تبدیل نہیں کرتے بلکہ گیارہ کا مطلب ہے 1+1یعنی پہلا ایک اللہ کو اور دوسرا ایک آپ صلی اللہ علیہ کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک بنانے والا اور دوسرا بننے والا۔ اسی طرح چودہ (14)حروف مقطعات کا ٹوٹل پانچ (5)بنتا ہے۔ اسلام کے رکن بھی پانچ ہیں۔ اسی طرح اس پانچ کے ہندسے کو ہم یوں بھی بیان کرتے ہیں۔ 1۔نورالقاء 2۔ نورالمروارید 3۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک 4۔کتاب کل 5۔ علم کل یا علم باطن یا علم لدنی اس لیے حروف مقطعات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام کا جوCode of Conduct یا Log bookہے، حروف مقطعات اس کی Key ہیں اور یہی وہ اسماء الحسنیٰ ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کو سکھائے گئے اور یہی وہ اسماء الحسنیٰ ہیں جن کی حفاظت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء نے کی تھی ۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری پیغام لے کر تشریف لائے ، پیغام مکمل کردیا گیا تھا ۔ قرآن پاک جامع کتاب تھی جو کل اسلام کے Total کو بیان کرتی ہے جب کہ پہلے کی تمام الہامی کتابیں اسلام کے ایک حصہ یا جزو کو بیان کرتی تھیں جب قرآن پاک کل کو بیان کرتا ہے۔ اسی لیے اسے ’’کتاب کل‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی Key بھی حروف مقطعات کی صورت قرآن پاک میں بیان کردی گئی لیکن ان کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ حروف مقطعات کا علم اہل علم تک محدود ہے اور انہیں اس علم کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ۔ اس میں مسئلہ صرف یہی ہے کہ جب تک ان کے اسرار کو کھل کر بیان نہ کیا جائے، یہ سمجھ نہیں آ سکتے ، کھل کر بیان کرنے کی اجازت نہیں ۔ اتنا عرض کر دیتا ہوں کہ علم لدنی تمام علوم پرمحیط ہے ، تمام علوم اس کے اندر سمٹے ہوئے ہیں ۔ اس لیے اسے علم کل بھی کہا جاتا ہے جس شخص کو علم لدنی حاصل ہوتا ہے وہ حروف مقطعات کی وضاحت بھی جان لیتا ہے ۔

حروف مقطعات اور ان کے معنی

الم جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالٰی ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے ہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابو حاتم بن حبان کو بھی اسی سے اتفاق ہے بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں الم السجد اور ہل اتی علی الانسان پڑھتے تھے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں الم اور حم اور المص اور ص یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ الم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ حضرت قتادہ اور حضرت زید بن اسلم کا قول بھی یہی ہے کہ اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو حضرت عبدالرحمن بن زید اسلم فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لئے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام المص ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورہ المص پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورہ اعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن واللہ اعلم۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی کے نام ہیں۔ حضرت شعب سالم بن عبد اللہ اسماعیل بن عبدالرحمن سدی کبیر یہی کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ الم اللہ تعالٰی کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ حم ، طس اور الم یہ سب اللہ تعالٰی کے بڑے نام ہیں۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس دونوں سے یہ مروی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے یہ اللہ تعالٰی کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی انا اللہ اعلم ہیں یعنی میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالٰی کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابوالعالیہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف الف اور لام اور میم انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالٰی کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالٰی کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ الف سے اللہ کا نام اللہ شروع ہوتا ہے اور لام سے اس کا نام لطیف شروع ہوتا ہے اور میم سے اس کا نام مجید شروع ہوتا ہے اور الف سے مراد آلا یعنی نعمتیں ہیں اور لام سے مراد اللہ تعالٰی کا لطف ہے اور میم سے مراد اللہ تعالٰی کا مجد یعنی بزرگی ہے۔ الف سے مراد ایک سال ہے لام سے تیس سال اور میم سے چالیس سال (ابن ابی حاتم) امام ابن جریر نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالٰی کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالٰی کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔ جیسے لفظ امتہ کہ اس کے ایک معنی ہیں۔ دین جیسے قرآن میں ہے آیت(انا وجدنا ابائنا علی امتہ) ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا۔ دوسرے معنی ہیں۔ اللہ کا اطاعت گزار بندہ۔ جیسے فرمایا آیت(ان ابراھیم کان امتہ) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالٰی کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ تیسرے معنی ہیں جماعت، جیسے فرمایا آیت(وجد علیہ امتہ) یعنی ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا۔ اور جگہ ہے آیت(ولقد بعثنا فی کل امتہ رسولا) یعنی ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقینا بھیجا۔ چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ۔ فرمان ہے آیت(وادکر بعد امتہ) یعنی ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں۔ امام ابن جریر کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آئے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے واللہ اعلم۔ دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی ہی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو تو مقدر ماننے سے نہ ضمیر دینے سے نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لئے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لئے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں واللہ اعلم قرطبی کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے مطلب یہ ہے کہ اقتل پورا نہ کہے بلکہ صرف اق کہے مجاہد کہتے ہیں۔ سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً ق، ص، حم، طسم الر وغیرہ یہ سب حروف ہجا ہیں۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا اب ت ث لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتدا کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں۔ ا ل م ص و ک ہ ی ع ط س ح ق ن ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ نص حکیم قاطع لہ سر تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لئے یہ آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو، بیہودہ، بیکار، بے معنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا اور علماء کا بھی اس میں بے حد اختلاف ہے۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے۔ دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں؟ پھر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟ امام ابن جریر نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لئے انہیں سنانے کے لئے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لئے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتدا انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں۔ پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورہ بقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورہ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔ مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔ شیخ ابن تیمیہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر اور المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص اور حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے سنئے فرمان ہے آیت(الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا آیت(الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم نزل علیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ) وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ اور جگہ فرمایا آیت(المص کتاب انزل الیک) الخ یعنی یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ اور جگہ فرمایا آیت (الر کتاب انزلنا الیک) الخ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت(الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین) اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ فرماتا ہے آیت(حم تنزیل من الرحمن الرحیم) بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے آیت(حمعسق کذلک یوحی الیک) الخ یعنی اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالٰی غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے، اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بہ غور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ واللہ اعلم۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ ابویاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت سورہ بقرہ کی شروع آیت (الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ) الخ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا؟ اس نے کہا ہاں میں نے خود سنا ہے۔ حی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے۔ اس نے کہا سنئے! آپ سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو! الف کا عدد ہوا ایک ، لام کے تیس، میم کے چالیس۔ کل اکہتر ہوئے۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں المص ۔ کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے۔ الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس، صواد کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ "الر" کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے۔ الف کا ایک ، لام کے تیس اور رے کے دو سو۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے۔ آپ نے فرمایا "المر" ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس ، رے کے دو سو، سب مل کر دو سو اکہتر ہوگئے۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی۔ لوگو اٹھو۔ ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا۔ " کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ہو اکہتر ایک، سو ایک، سو اکتیس ایک، دو سواکتیس ایک، دو سو اکہتر ایک، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں آیت(ھوالذی انزل علیک الکتاب منہ ایات محکمات) الخ یعنی وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں۔ اس حدیث کا دار و مدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی ۔ (ماخوخذ : تفسیر کبیر ، تفسیر روحُ المعانی ، تفسیر روحُ البیان ، تفسیر ابن کثیر ، تفسیر ابن جریر ، تفسیر کشاف) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔