Monday, 4 March 2024

تابعی رسول ﷺ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ

تابعی رسول ﷺ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ
حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تابعی ہیں : تابعي اس شخص كو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی ہو ۔ (معرفۃ علوم الحدیث صفحہ 42)

اصول حدیث میں جمہورمحدثین اورفقہاء علیہم الرّحمہ نے تابعی کی تعریف یہی کی ہے اس نے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کودیکھا ہو ، ہاں کچھ علمائ کی شاذ رائے یہ ضرور ہے کہ وہ صحابی کی طویل صحبت اٹھائے یاروایت کرے ۔ الکمال فی اسمائ الرجال ، للمزی، تہذیب الکمال للحافظ الذہبی ، یاحافظ ذہبی کی سیرت پر لکھی گئی کوئی بھی کتاب حافظ ابن حجر کی تہذیب التہذیب سب میں اس بات کا ذکرملے گاکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس کو دیکھاہے اور اورجب جمہور محدثین اورفقہاء کے نزدیک محض دیکھنے سے ہی تابعیت ثابت ہوتی ہے تواس لحاظ سے وہ تابعی ہیں ۔ جیساکہ حافظ زین الدین عراقی اورحافظ ابن حجر کے فتوی اورجواب سے بھی ظاہر ہوتاہے جوکہ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تبییض الصحیفہ میں ذکر کیا ہے ۔

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ''سیر أعلام النبلاء''(٦/٣٩٠) میں خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب "تاریخ بغداد" کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کو جب وہ کوفہ آئے تھے تو انہیں دیکھا تھا ۔

علاّمہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 463ھ) لکھتے ہیں کہ : حضرت نعمان بن ثابت ، ابو حینفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا ہے اور عطاء بن ابی رباح سے (روایات وغیرہ کو) سنا ہے ۔ (بحوالہ : تاریخ بغداد ، جلد 13 ، صفحہ 323 ،چشتی)

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے تابعی ہونے پر ان آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ نے لکھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تابعی ہیں ۔ (ابو نعیم،مسند ابی حنیفۃ 186)(موفق، مسند ابی حنیفۃ 25:1)(قزوینی، الےدوین فی اخبار قزوین 153:3)(ذھبھی ، تذکرۃالحافظ 168:1)(ابن عبدالبر، جامع بیان العلم و فضللہ 101:1)(ابن ندیم، الفھرست 255)(ابن جوزی، العل المتنا ھیۃ 136:1)(سیوطی، تبییض الصحیۃ بمنا قب ابی حنیفۃ 34)(خطیب بغدادی، تاریخ بغداد 324:13)(سمعانی، الانساب 37:3)(ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الموک والامم 129:8)(ابن حلکان، وفیات الدعیان 406:5)(ذھبی، سیراعلام انبلاء 391:6)(ذھبی، الکاشف فی معرفۃ من لہ رویۃ فی الکتب السنۃ 322:2،چشتی)(ذھبی، مناقب الام ابی حنیفۃ وصاحبہ ابی یوسف و محمد بن الحسن :7)(صفدی، الوافی بالوفیات 89:27)(یافعی، مرآۃ الجنان والیقظان 310:1)(ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ 107:10)(زین الدیدین عراقی، التقییدو الایضاح :332،چشتی)(عسقلانی، تھذیب التھذیب 401:10)(بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البحاری کتاب البیوع،باب مایکرہ من الحلف فی البیع 206:11)(بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البحاری کتاب الحج، باب متی یحل المعتمر 128: 10،چشتی)(بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البحاری کتاب الزکاۃ، باب صلوۃ الامام ودعائہ الصاحب الصدقۃ 95:9)(سخاوی، فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث للعراقی 337:3)(سیوطی، طبقات الحفاظ 80:1 رقم 152)(قسطلانی، ارشاد الساری صحیح البخاری کتاب الوضوء باب من لم یرالوضوءالدمن المخرجین)(قسطلانی، ارشاد الساری صحیح البخاری کتاب الصلوۃ، باب الصوۃ فی الثوب الواحد 390:1)(دیار بکری، تاریخ الخمیس فی مناقب الامام اعظم ابی حینفۃ : 32)(ابن حجر مکی، الخیرات الحسان فی مناقب الامام اعظم ابی حینفۃ النعمان : 32)(ابن حجر ھیتمی، الخیرات الحسان:33)(ابن عماد، شذرات الذھب فی اخبار من ذھب 227:1)۔

حافظ المزی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات بہتر (٧٢) صحابہِ کرام سے ہوئی ہے ۔ (معجم المصنفین : ٢/٢٣)

حافظ ذہبی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ٧٤٨ھ) اپنی كتاب "تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں : ١/١٦٨" میں پانچویں طبقہ کے حفاظِ حدیث میں امام صاحب کا ذکر "ابو حنيفة الإمام الأعظم" کے عنوان سے کرتے ہیں : مولدہ سنۃ ثمانین رای انس بن مالک غیرمرۃ لماقدم علیہم الکوفۃ ۔
ترجمہ : حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کی پیدائش سنہ ٨٠ھ میں ہوئی ، آپ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ (٩٣ھ) کوجب وہ کوفہ گئے توکئی دفعہ دیکھا ۔
آگے لکھتے ہیں : وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير..... وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابوعاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير، وكان اماما ورعا عالماً عاملاً متعبدا کبیرالشان ۔
ترجمہ : امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے عطاء، نافع ، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہ امام تھے اور زاہد پرہیزگار عالم، عامل، متقی اور بڑی شان والے تھے ۔ 

قرآن و حدیث کی فقہ (سمجھ) میں امام اعظم رضی اللہ عنہ کی عظمت

حضرت ضرار بن صرد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوری رضی اللہ عنہ ہیں یا امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ؟ تو انہوں نے کہا کہ : ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیان رضی اللہ عنہ (ثوری) تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں ۔

حضرت عبدللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) رکھنے والے تھے ۔

حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے عیال (محتاج) ہیں ۔

محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔
ترجمہ : بے شک ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (حديث میں) امام تھے ۔ (تذكرة الحفاظ، دار الكتب العلمية : صفحة نمبر ١٦٨، جلد نمبر١، طبقه ٥، بيان : أبو حنيفة إمامِ أعظم،چشتی)

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرسورہ جمعہ (کی یہ آیت) نازل ہوئی ’’اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لئے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے۔ ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول ﷲ ! وہ کون حضرات ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب ارشاد نہ فرمایا تو میں نے تین مرتبہ دریافت کیا اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے درمیان موجود تھے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس حضرت سلمان رضی اللہ عنہ (کے کندھوں) پر رکھ کر فرمایا : اگر ایمان ثریا (یعنی آسمان دنیا کے سب سے اونچے مقام) کے قریب بھی ہوا تو ان (فارسیوں) میں سے کچھ لوگ یا ایک آدمی (راوی کو شک ہے) اسے وہاں سے بھی حاصل کر لے گا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، 16 / 298، کتاب : التفسير / الجمعة، باب : قوله : وآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ : 3، 4 / 1858، الرقم : 4615، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل فارس، 4 / 1972، الرقم : 2546، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل العجم، 5 / 725، الرقم : 3942،چشتی،وفي کتاب : تفسير القرآن عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : وَمِنْ سُورَةِ محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 384، الرقم : 3260. 3261، وفي باب : ومِنْ سَوْرةِ الجُمَعَةِ، 5 / 413، الرقم : 3310، وابن حبان في الصحيح، 16 / 298، الرقم : 7308، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 367، الرقم : 7060، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 64، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 642، الرقم : 4615، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 170، الرقم : 1399، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 364، الرقم : 4797، والطبراني في جامع البيان، 28 / 96، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 18 / 93)

حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب " تنییض الصحیفۃ میں امام اعظم کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کے بارے میں عنوان باندھا ہے جس میں انھوں نے لکھا ھے کہ " اس حدیث میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بشارت دی گئی ہے ۔ (تبییض الصحیفۃ بمناقب ابی حنیفۃ 33:31)

امام ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " الخیرات الحسان " میں باب باندھا ہے جیس کا عنوان ہے " امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حق میں وارد ہونے والی حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خوش خبری" امام ہیتمی نے اس باب کے ابتدائیہ میں امام جلال الدین سیوطی کی درج بالا تحقیق درج کرکے لکھا ہے کہ " یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث پاک سے امام ابو حنیفہ مراد ہیں کیونکہ آپ کے زمانے میں اہل فارس سے کوئی شخض بھی آپ کے مبلغ علم اور آپ کے شاگردوں کے درجہ علم تک نہیں پہنچا ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 24،چشتی)

اس حدیث کے اولین مصداق صرف امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں ۔کیونکہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اہل فارس سے کوئی بھی آپ کے علم وفضل تک نہ پہونچ سکا ۔ (تذکرۃ المحدثین صفحہ نمبر ٤٨)

غیر مقلد وھابی حضرات کے امام نواب صدیق حسن خاں بھوپالوی کو بھی اس امر کا اعتراف کرناپڑا ۔ لکھتے ہیں : ہم امام دراں داخل ست ۔ ترجمہ : امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی اس حدیث کے مصداق ہیں ۔ ( اتحاف النبلائ ٢٢٤ )

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و دیگر محدثین علیہم الرّحمہ کی اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیلئے یہ بشارت نہ تھی کہ آیت میں ،لمایلحقوبہم ،کے بارے میں سوال تھا اورجواب میں آئندہ لوگوں کی نشاندھی کی جارہی ہے ، لہٰذا وہ لوگ غلط فہمی کا شکارہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حدیث تو حضرت سلمان فارسی کیلئے تھی اوراحناف نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر چسپاں کردی ۔ غور کریں کہ یہ دیانت سے کتنی بعید بات ہے ۔

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے شرف ملاقات بھی حاصل تھا ، آپ کے تمام انصاف پسند تذکرہ نگار اور مناقب نویس اس بات پر متفق ہیں اور یہ وہ خصوصیت ہے جو ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ میں کسی کو حاصل نہیں ۔ بلکہ بعض نے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کابھی ذکر کیا ہے ۔

علامہ ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو پایا ۔ آپ کی ولادت ٨٠ھ میں ہوئی ، اس وقت کوفہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت تھی ۔ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ٨٨ھ کے بعد ہواہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بصرہ میں موجود تھے اور 95ھ میں وصال فرمایا ۔ آپ نے انکو دیکھا ہے ۔ ان حضرات کے سوا دوسرے بلاد میں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی موجود تھے ۔ جیسے :حضرت واثلہ بن اسقع شام میں ۔وصال ٨٥ھ ۔ حضرت سہل بن سعد مدینہ میں ۔وصال ٨٨ھ ۔ حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ مکہ میں ۔وصال ١١٠ھ ۔ یہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں آخری ہیں جنکا وصال دوسری صدی میں ہوا ۔اور امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٩٣ھ میں انکو حج بیت اللہ کے موقع پر دیکھا ۔

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے خود امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے سنا کہ : میں 93 ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گیا ،اس وقت میری عمر سولہ سال کی تھی ۔میں نے ایک بوڑھے شخص کودیکھا کہ ان پر لوگوں کا ہجوم تھا ،میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ بوڑھے شخص کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابی ہیں اور ان کا نام عبد اللہ بن حارث بن جز رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے ، پھر میں نے دریافت کیا کہ ان کے پاس کیا ہے ؟ میرے والد نے کہا : ان کے پاس وہ حدیثیں ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنی ہیں ۔ میں نے کہا : مجھے بھی ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں بھی حدیث شریف سن لوں ، چنانچہ وہ مجھ سے آگے بڑھے اور لوگوں کو چیرتے ہوئے چلے یہاں تک کہ میں ان کے قریب پہونچ گیا اور میں نے ان سے سنا کہ آپ کہہ رہے تھے ۔ قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : من ثفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ وھمہ ورزقہ من حیث لایحسبہ ۔ (الخیرات الحسان،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دین کی سمجھ حاصل کرلی اس کی فکروں کا علاج اللہ تعالیٰ کرتاہے اوراس کو اس طرح پر روزی دیتاہے کہ کسی کو شان و گمان بھی نہیں ہوتا۔علامہ کوثری کی صراحت کے مطابق پہلا حج ٨٧ھ میں سترہ سال کی عمر میں کیا ،اور دوسرا '٩٦'ھ میں ٢٦سال کی عمرمیں ۔ اور متعدد صحابہ کرام سے شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ درمختار میں بیس اور خلاصہ اکمال میں چھبیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ملاقات ہونا بیان کی گئی ہے ۔ بہر حال اتنی بات متحقق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ملاقات ہوئی اور آپ بلاشبہ تابعی ہیں اوراس شرف میں اپنے معاصرین واقران مثلا امام سفیان ثوری ،امام اوزاعی ،امام مالک،اور امام لیث بن سعد پر آپ کو فضیلت حاصل ہے ۔ (قلائد العقیان)

لہذا آپ کی تابعیت کا ثبوت ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔ بلکہ آپ کی تابعیت کے ساتھ یہ امر بھی متحقق ہے کہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے احادیث کا سماع کیا اورروایت کیاہے ۔ تو یہ وصف بھی بلاشبہ آپ کی عظیم خصوصیت ہے ۔ بعض محدثین ومورخین نے اس سلسلہ میں اختلاف بھی کیا ہے لیکن منصف مزاج لوگ خاموش نہیں رہے ، لہذا احناف کی طرح شوافع نے بھی اس حقیقت کو واضح کردیا ہے ۔

علامہ عینی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی صحابی رسول کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : ھواحد من راٰہ ابوحنیفۃ من الصحابۃ وروی عنہ ولا یلتفت الی قول المنکر المتعصب وکان عمر ابی حنیفۃ حینئذ سبع سنین وھو سن التمییز ہذاعلی الصحیح ان مولد ابی حنیفۃ سنۃ ثمانین وعلی قول من قا ل سنۃ سبعین یکون عمر ہ حینئذ سبع عشرۃ سنۃ ویستبعدجدا ان یکون صحابی مقیما ببلدۃ وفی اہلہا من لارأہ واصحابہ اخبر بحالہ وہم ثقاۃ فی انفسہم ۔ (الفوائد المہمہ علامہ عمر بن عبدالوہاب عرضی شافعی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
ترجمہ : عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ہیں جن کی امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیارت کی اور ان سے روایت کی قطع نظر کرتے ہوئے منکر متعصب کے قول سے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اس وقت سات سال کی تھی کیونکہ صحیح یہ ہے کہ آپ کی ولادت 80 ھ میں ہوئی اور بعض اقوال کی بنا پر اس وقت آپکی عمر سترہ سال کی تھی۔ بہر حال سات سال عمر بھی فہم وشعور کاسن ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صحابی کسی شہر میں رہتے ہوں اور شہر کے رہنے والوں میں ایسا شخص ہو جس نے اس صحابی کو نہ دیکھا ہو۔ اس بحث میں امام اعظم کی تلامذہ کی بات ہی معتبر ہے کیونکہ وہ ان کے احوال سے زیادہ واقف ہیں اور ثقہ بھی ہیں ۔ (الفوائد المہمہ علامہ عمر بن عبدالوہاب عرضی شافعی رحمۃ اللہ علیہ)

ملاعلی قاری امام کردری علیہما الرّحمہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں :  قال الکردری جماعۃ من المحدثین انکر واملاقاتہ مع الصحابۃ واصحابہ اثبتوہ بالاسانید الصحاح الحسان وہم اعرف باحوالہ منہم والمثبت العدل اولی من النافی ۔
ترجمہ : امام کردری فرماتے ہیں کہ محدثین کی ایک جماعت نے امام اعظم کی صحابہ کرام سے ملاقات کا انکار کیا ہے اور انکے شاگردوں نے اس بات کو صحیح اور حسن سندوں کے ساتھ ثابت کیا ۔ (مرآۃ الجنان امام یافعی شافعی رحمۃ اللہ علیہ) ۔ اور ثبوت روایت نفی سے بہتر ہے ۔ 

مشہور محدث شیخ محمد طاہر ہندی نے کرمانی کے حوالہ سے لکھا ہے : واصحابہ یقولون انہ لقی جماعۃ من الصحابۃ وروی عنہم ۔ (تذکرۃ الحفاظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ)

امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے اور ان سے سماع حدیث بھی کیا ہے ۔

امام ابو معشر عبدالکریم بن عبدالصمد طبری شافعی نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مرویات میں ایک مستقل رسالہ لکھا اور اس میں روایات مع سند بیان فرمائیں ۔ نیز ان کو حسن وقوی بتایا ۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات کو تبییض الصحیفہ میں نقل کیا ہے جن کی تفصیل یوں ہے ۔ عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ۔  امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ حدیث پچاس طرق سے مجھے معلوم ہے اور صحیح ہے ۔ (تہذیب التہذیب)

حضرت امام ابو یوسف حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : الدال علی الخیر کفاعلۃ ۔ (الکاشف) ۔ اس معنی کی حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔

حضرت امام ابو یوسف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورانہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : نیکی کی رہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کے مثل ہے ۔ عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : ان اللہ یحب اغاثۃ اللہفان ۔(تہذیب الکمال) ۔ضیاء مقدسی نے مختارہ میں اسکو صحیح کہا ۔ 

حضرت امام ابویوسف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا : بیشک اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ کی دست گیری کو پسند فرماتاہے ۔عن یحی بن قاسم عن ابی حنیفۃ سمعت عبداللہ بن ابی اوفی یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : من بنی للہ مسجدا ولو کمفحص قطاۃ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ ۔ (جامع الاصول،چشتی) ۔ امام سیوطی فرماتے ہیں ،اس حدیث کا متن صحیح بلکہ متواتر ہے ۔

حضرت یحیی بن قاسم حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے سنا کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : جس نے اللہ کی رضا کیلئے سنگ خوار کے گڑھے کے برابر بھی مسجد بنائی تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں گھر بنائے گا ۔عن اسمعیل بن عیاش عن ابی حنیفۃ عن واثلۃ بن اسقع ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال :دع مایریبک الی مالا یریبک ۔ (احیاء العلوم) ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصحیح فرمائی ۔

حضرت اسمعیل بن عیاش حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شک وشبہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ان چیزوں کو اختیار کرو جو شکوک وشبہات سے بالاتر ہیں ۔

ان تمام تفصیلات کی روشنی میں یہ بات ثابت ومتحقق ہے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رویت وروایت دونوں سے مشرف ہوئے ۔یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام اعظم کے بعض سوانح نگا راپنی صاف گوئی اور غیر جانب داری کا ثبوت دیتے ہوئے وہ باتیں بھی لکھ گئے ہیں جن سے تعصب کا اظہار ہوتاہے ۔ان کے پیچھے حقائق تو کیا ہوتے دیانت سے بھی کام نہیں لیا گیا ۔اس سلسلہ میں علامہ غلام رسول سعیدی کی تصنیف تذکرۃ المحدثین سے ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو لکھتے ہیں : شبلی نعمانی نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت کے انکار پر کچھ عقلی وجوہات بھی پیش کئے ہیں لکھتے ہیں ۔ میرے نزدیک اس کی ایک اور وجہ ہے ۔ محدثین میں باہم اختلاف ہے کہ حدیث سیکھنے کیلئے کم از کم کتنی عمرشرط ہے ؟ اس امر میں ارباب کوفہ سب سے زیادہ احتیاط کرتے تھے یعنی بیس برس سے کم عمر کا شخص حدیث کی درسگاہ میں شامل نہیں ہوسکتا تھا ، ان کے نزدیک چونکہ حدیثیں بالمعنی روایت کی گئی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ طالب علم پوری عمر کو پہنچ چکا ہوورنہ مطالب کو سمجھنے اوراس کے اداکرنے میں غلطی کا احتمال ہے ،غالباً یہی قید تھی جس نے امام ابوحنیفہ کو ایسے بڑے شرف سے محروم رکھا ۔

(1) ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اہل کوفہ کایہ قاعدہ کہ سماع حدیث کیلئے کم ازکم بیس سال عمر درکار ہے ، کونسی یقینی روایت سے ثابت ہے ؟ امام صاحب کی مرویات صحابہ کیلئے جب یقینی اورصحیح روایت کامطالبہ کیاجاتاہے تواہل کوفہ کے اس قاعدہ کو بغیر کسی یقینی اور صحیح روایت کے کیسے مان لیا گیا  ؟

(2) یہ قاعدہ خود خلاف حدیث ہے کیونکہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے متی یصح سماع الصغیر کاباب قائم کیا ہے اس کے تحت ذکرفرمایاہے کہ محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پانچ سال کی عمر میں سنی ہوئی حدیث کو روایت کیاہے ،اس کے علاوہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی عمر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کے وقت چھ اورسات سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت تیرہ سال تھی ،اور یہ حضرات آپ کے وصال سے کئی سال پہلے کی سنی ہوئی احادیث کی روایت کرتے تھے ۔ پس روایت حدیث کیلئے بیس سال عمرکی قید لگانا طریقہ صحابہ کے مخالف ہے اور کوفہ کے ارباب علم وفضل اوردیانت دار حضرات کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے اتنی جلدی صحابہ کی روش کو چھوڑدیاہوگا ۔ 

(3) برتقدیر تسلیم گزارش یہ ہے کہ اہل کوفہ نے یہ قاعدہ کب وضع کیا ،اس بات کی کہیں وضاحت نہیں ملتی ۔اغلب اورقرین قیاس یہی ہے کہ جب علم حدیث کی تحصیل کاچرچا عام ہوگیا اور کثرت سے درس گاہیں قائم ہوگئیں اوروسیع پیمانے پر آثار وسنن کی اشاعت ہونے لگی ،اس وقت اہل کوفہ نے اس قید کی ضرورت کو محسوس کیاہوگا تاکہ ہرکہ ومہ حدیث کی روایت کرنا شروع نہ کردے ،یہ کسی طرح بھی باور نہیں کیاجاسکتا کہ عہد صحابہ میں ہی کوفہ کے اندر باقاعدہ درس گاہیں بن گئیں اوران میں داخلہ کیلئے قوانین اورعمر کا تعین بھی ہوگیا تھا ۔

(4) اگریہ مان بھی لیاجائے کہ ٨٠ھ ہی میں کوفہ کے اندر باقاعدہ درسگاہیں قائم ہوگئی تھیں اوران کے ضوابط اورقوانین بھی وضع کئے جاچکے تھے توان درس گاہوں کے اساتذہ سے سماع حدیث کیلئے بیس برس کی قید فرض کی جاسکتی ہے مگر یہ حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی وغیرہ ان درس گاہوں میں اساتذہ تو مقررتھےنہیں کہ ان سے سماع حدیث بھی بیس سال کی عمر میں کیا جاتا ۔

(5) بیس برس کی قید اگر ہوتی بھی توکوفہ کی درس گاہوں کے لئے اگر کوفہ کاکوئی رہنے والا بصرہ جاکر سماع حدیث کرے تویہ قید اس پر کیسے اثر انداز ہوگی ؟ حضرت انس بصرہ میں رہتے تھے اورامام اعظم ان کی زندگی میں بارہابصرہ گئے اور ان کی آپس میں ملاقات بھی ثابت ہے توکیوں نہ امام صاحب نے ان سے روایت حدیث کی ہوگی ۔

(6) اگر بیس سال عمر کی قید کو بالعموم بھی فرض کرلیا جائے توبھی یہ کسی طور قرین قیاس نہیں ہے کہ حضرات صحابہ کرام جن کا وجود مسعود نوادرروزگار اور مغتنمات عصر میں سے تھا ان سےاز راہ تبرک وتشرف احادیث کے سماع کیلئے بھی کوئی شخص اس انتظار میں بیٹھا رہے گا کہ میری عمر بیس سال کو پہنچ لے تومیں ان سے جاکر ملاقات اور سماع حدیث کروں ۔حضرت انس کے وصال کے وقت امام اعظم کی عمر پندرہ برس تھی اورامام کردری فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں امام اعظم بیس سے زائد مرتبہ بصرہ تشریف لے گئے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ امام اعظم پندرہ برس تک کی عمر میں بصرہ جاتے رہے ہوں اور حضرت انس سے مل کر اوران سے سماع حدیث کرکے نہ آئے ہوں ،راوی اورمروی عنہ میں معاصرت بھی ثابت ہوجائے توامام مسلم کے نزدیک روایت مقبول ہوتی ہے ۔ یہاں معاصرت کے بجائے ملاقات کے بیس سے زیادہ قرائن موجود ہیں پھر بھی قبول کرنے میں تامل کیا جارہا ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : الحمد للہ العزیز کہ ہم نے اصول روایت اورقرائن عقلیہ کی روشنی میں اس امر کو آفتاب سے زیادہ روشن کردیا ہے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت حدیث کا شرف حاصل تھا اوراس سلسلے میں جتنے اعتراضاف کئے جاتے ہیں ان پر سیر حاصل گفتگو کرلی ہے ۔ اس کے باوجود بھی ہم نے جو کچھ لکھا وہ ہماری تحقیق ہے ہم اسے منوانے کیلئے ہرگزاصرار نہیں کرتے ۔ (تہذیب الاسماء واللغات نووی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اساتذہ

امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کثیر شیوخ واساتذہ سے علم حدیث حاصل کیا ،ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں ۔

عطاء بن ابی رباح ،حماد بن ابی سلیمان ،سلیمان بن مہران اعمش ،امام عامر شعبی ، عکرمہ مولی ابن عباس ،ابن شہاب زہری ،نافع مولی بن عمر ،یحیی بن سعید انصاری ،عدی بن ثابت انصاری ، ابوسفیان بصری ،ہشام بن عروہ ،سعید بن مسروق، علقمہ بن مرثد ،حکم بن عیینہ ، ابواسحاق بن سبیعی ،سلمہ بن کہیل ،ابوجعفر محمد بن علی ، عاصم بن ابی النجود ،علی بن اقمر ،عطیہ بن سعید عوفی ، عبدالکریم ابوامیہ ،زیاد بن علاقہ ۔سلیمان مولی ام المومنین میمونہ ،سالم بن عبداللہ ، علیہم الرّحمہ ۔

چونکہ احادیث فقہ کی بنیاد ہیں اور کتاب اللہ کے معانی ومطالب کے فہم کی بھی اساس ہیں لہذا امام اعظم نے حدیث کی تحصیل میں بھی انتھک کوشش فرمائی ۔یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث کادرس شباب پرتھا ۔تمام بلاد اسلامیہ میں اس کا درس زور وشور سے جاری تھا اورکوفہ تو اس خصوص میں ممتاز تھا ۔کوفہ کا یہ وصف خصوصی امام بخاری کے زمانہ میں بھی اس عروج پرتھا کہ خودامام بخاری فرماتے ہیں ،میں کوفہ اتنی بار حصول حدیث کیلئے گیا کہ شمار نہیں کرسکتا۔

امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حصول حدیث کا آغاز بھی کوفہ ہی سے کیا ۔ کوفہ میں کوئی ایسا محدث نہ تھا جس سے آپ نے حدیث اخذ نہ کی ہو ۔ابوالمحاسن شافعی نے فرمایا :۔ تر انوے وہ مشائخ ہیں جو کوفے میں قیام فرماتھے یاکوفے تشریف لائے جن سے امام اعظم نے حدیث اخذ کی ۔ان میں اکثر تابعی تھے ۔ بعض مشائخ کی تفصیل یہ ہے ۔

امام عامر شعبی :۔انہوں نے پانچسو صحابہ کرام کا زمانہ پایا ،خود فرماتے تھے کہ بیس سال ہوئے میرے کان میں کوئی حدیث ایسی نہ پڑی جسکا علم مجھے پہلے سے نہ ہو ۔ امام اعظم نے ان سے اخذحدیث فرمائی ۔

امام شعبہ : انہیں دوہزار حدیثیں یادتھیں ،سفیان ثوری نے انہیں امیرالمومنین فی الحدیث کہا ،امام شافعی نے فرمایا : شعبہ نہ ہوتے توعراق میں حدیث اتنی عام نہ ہوتی ۔امام شعبہ کو امام اعظم سے قلبی لگاؤ تھا ،فرماتے تھے ،جس طرح مجھے یہ یقین ہے کہ آفتاب روشن ہے اسی طرح یقین سے کہتاہوں کہ علم اورابو حنیفہ ہمنشیں ہیں ۔

امام اعمش : ۔مشہور تابعی ہیں شعبہ وسفیان ثوری کے استاذ ہیں ،حضرت انس اورعبداللہ بن ابی اوفی سے ملاقات ہے ۔ امام اعظم آپ سے حدیث پڑھتے تھے اسی دوران انہوں نے آپ سے مناسک حج لکھوائے ۔واقعہ یوں ہے کہ امام اعمش سے کسی نے کچھ مسائل دریافت کئے ۔انہوں نے امام اعظم سے پوچھا ۔آپ کیاکہتے ہیں ؟ حضرت امام اعظم نے ان سب کے حکم بیان فرمائے ۔امام اعمش نے پوچھا کہاں سے یہ کہتے ہو ۔فرمایا۔آپ ہی کی بیان کردہ احادیث سے اور ان احادیث کو مع سندوں کے بیان کردیا ۔امام اعمش نے فرمایا ۔ بس بس ،میں نے آپ سے جتنی حدیثیں سودن میں بیان کیں آپ نے وہ سب ایک دن میں سناڈالیں ۔میں نہیں جانتا تھا کہ آپ ان احادیث میں یہ عمل کرتے ہیں ۔

یامعشر الفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ وانت ایہا الرجل اخذت بکلاالطرفین۔

اے گروہ فقہاء !تم طبیب ہواور ہم محدثین عطار اورآپ نے دونوں کو حاصل کرلیا ۔

امام حماد :۔امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عظیم استاذ حدیث وفقہ ہیں اور حضرت انس سے حدیث سنی تھی بڑے بڑے ائمہ تابعین سے ان کو شرف تلمذ حاصل تھا ۔

سلمہ بن کہیل :۔تابعی جلیل ہیں ،بہت سے صحابہ کرام سے روایت کی ۔کثیرالروایت اور صحیح الروایت تھے ۔

ابواسحاق سبیعی ۔ علی بن مدینی نے کہا انکے شیوخ حدیث کی تعداد تین سو ہے ۔ان میں اڑتیس صحابہ کرام ہیں ۔ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر ، عبد اللہ بن زبیر، نعمان بن بشیر ،زید بن ارقم سرفہرست ہیں۔

کوفہ کے علاوہ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں آپ نے ایک زمانہ تک علم حدیث حاصل فرمایا: چونکہ آپ نے پچپن حج کئے اس لئے ہرسال حرمین شریفین زادھما اللہ شرفا وتعظیما میں حاضری کا موقع ملتاتھا اور آپ اس موقع پر دنیا ئے اسلام سے آنے والے مشائخ سے اکتساب علم کرتے ۔

مکہ معظمہ میں حضرت عطاء بن ابی رباح سرتاج محدثین تھے ،دوسرے صحابہ کرام کی صحبت کا شرف حاصل تھا ۔ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مجتہد وفقیہ تھے ۔ حضرت ابن عمر فرماتے تھے کہ عطاء کے ہوتے ہوئے میرے پاس کیوں آتے ہیں ۔ ایام حج میں اعلان عام ہوجاتا کہ عطاء کے علاوہ کوئی فتوی نہ دے ۔ اساطین محدثین امام اوزاعی ،امام زہری ، امام عمروبن دینار انکے شاگردتھے۔ امام اعظم نے اپنی خداداد ذہانت وفطانت سے آپ کی بارگاہ میں وہ مقبولیت حاصل کرلی تھی آپ کو قریب سے قریب تر بٹھاتے ۔ تقریباً بیس سال خدمت میں حج بیت اللہ کے موقع پر حاضر ہوتے رہے ۔ 

حضرت عکرمہ کا قیام بھی مکہ مکرمہ میں تھا ، یہ جلیل القدر صحابہ کے تلمیذ ہیں۔ حضرت علی،حضرت ابوہریرہ ، ابوقتادہ ، ابن عمر اورابن عباس کے تلمیذ خاص ہیں ۔ستر مشاہیر ائمہ تابعین انکے تلامذہ میں داخل ہیں ۔امام اعظم نے ان سے بھی حدیث کی تعلیم حاصل کی۔

مدینہ طیبہ میں سلیمان مولی ام المومنین میمونہ اورسالم بن عبداللہ سے احادیث سنیں ۔ 

ان کے علاوہ دوسرے حضرات سے بھی اکتساب علم کیا ۔

بصرہ کے تمام مشاہیر سے اخذ علم فرمایا ،یہ شہر حضرت انس بن مالک کی وجہ سے مرکز حدیث بن گیا تھا۔ امام اعظم کی آمد ورفت یہاں کثرت سے تھی ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپکی ملاقات بصرہ میں بھی ہوئی اورآپ جب کوفہ تشریف لائے اس وقت بھی ۔  غرضکہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو حصول حدیث میں وہ شرف حاصل ہے جو دیگر ائمہ کو نہیں ، آپ کے مشائخ میں صحابہ کرام سے لیکر کبار تابعین اورمشاہیر محدثین تک ایک عظیم جماعت داخل ہے اور آپ کے مشائخ کی تعداد چارہزار تک بیان کی گئی ہے ۔

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے تلامذہ : آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علم حدیث وفقہ حاصل کرنے والے بے شمار ہیں ، چند مشاہیر کے اسماء اس طرح ہیں ۔امام ابو یوسف ،امام محمد بن حسن شیبانی ،امام حماد بن ابی حنیفہ ، امام مالک ،امام عبداللہ بن مبارک ،امام زفربن ہذیل ،امام داؤد طائی ،فضیل بن عیاض ،ابراہیم بن ادہم ،بشربن الحارث حافی ، ابوسعید یحی بن زکریاکوفی ہمدانی ،علی بن مسہر کوفی ، حفص بن غیاث ،حسن بن زناد ، مسعر بن کدام ،نوح بن درا ج نخعی ،ابراہیم بن طہران ،اسحاق بن یوسف ازرق ،اسد بن عمر وقاضی ،عبدالرزاق ،ابونعیم ،حمزہ بن حبیب الزیات ،ابو یحیی حمانی ،عیسی بن یونس ،یزید بن زریع ،وکیع بن جراح ، ہیثم، حکام بن یعلی رازی ،خارجہ بن مصعب ،عبدالحمید بن ابی داؤد ، مصعب بن مقدام ،یحیی بن یمان ،لیث بن سعد ،ابو عصمہ بن مریم ،ابو عبدالرحمن مقری ،ابوعاصم علیہم الرّحمہ ۔

محترم قارئینِ کرام : کوفہ (عراق) وہ مبارک شہر ہےجسے ستّر اصحابِِ بدر اور بیعتِ رضوان میں شریک تین سوصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے شرفِ قیام بخشا ۔ (طبقات کبریٰ، 6/89)

آسمانِ ہدایت کے ان چمکتے دمکتے ستاروں نے کوفہ کو علم و عرفان کا عظیم مرکز بنایا ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اِسے کنز الایمان (ایمان کا خزانہ) اور قبۃُ الاسلام (اسلام کی نشانی) جیسے عظیم الشان القابات سے نوازا گیا ۔

جب 80 ہجری میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو اس وقت شہر کوفہ  میں  ایسی  ایسی ہستیاں موجود تھیں   جن میں  ہر ایک آسمانِ علم  پر آفتاب بن کر ایک عالم کو منوّر کر رہا تھا ۔ (طبقات کبریٰ، 6/86، اخبار ابی حنیفۃ صفحہ 17)

نام و نسب : آپ کا نام نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان کوفی تیمی ہے۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ صفحہ ١٦)

ولادت : آپ کی ولادت کے تعلق سے تین روایتیں ملتی ہیں:٦١ھ،٧٠ھ اور ٨٠ھ ۔لیکن اکثر مؤرخین کا قول یہ ہے کہ آپ کی ولادت ٨٠ھ میں عراق کے دارالحکومت کوفہ میں عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں ہوئی۔(الخیرات الحسان، فصل ٣ صفحہ ٥٩،چشتی)

تعلیم و تربیت : امام اعظم کوفہ ہی میں پروان چڑھے،جب ہوش سنبھالا تو خاندانی پیشہ تجارت میں مشغول ہوگئے،اسی دوران کوفہ کے مشہور امام حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی،انھوں نے آپ کی ذہانت وفطانت کو پہچان لیا اور آپ کو علم کی تحصیل اور علما کی مجلسوں میں شریک ہونے کی ترغیب دلائی،ابتداءً آپ نے علم کلام کی طرف توجہ فرمائی اور اس میں کمال حاصل کرلیا،ایک مدت تک بحث ومناظرہ میں مشغول رہنے کے بعد آپ کو یہ احساس ہوا کہ عوام ، خواص ، علما،حکام،قضاۃ اور زہاد کو سب سے زیادہ فقہ کی ضرورت ہے؛چناں چہ آپ نے علم کلام سے توجہ ہٹالی،آپ کے اس خیال کو اس واقعہ سے مزید تقویت ملی کہ ایک دن آپ کے پاس ایک عورت آئی اور پوچھا کہ سنت طریقے پر طلاق دینے کی کیا صورت ہے؟آپ خود نہ بتاسکے اور اس سے کہا کہ حضرت حماد سے پوچھ لو،وہ جو بتائیں گے مجھے بھی بتادینا،چناں چہ اس عورت نے ایسا ہی کیا۔امام اعظم کو اس واقعہ سے بڑی غیرت آئی اور آپ امام حماد کے حلقۂ درس میں شریک ہوگئے۔(الخیرات الحسان فصل ٣ صفحہ٧١)

علم حدیث کےلیے سفر : آپ نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا ۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیوں کہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے ۔
دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا ۔

اساتذہ و شیوخ : آپ نے تقریبًا 4 ہزار مشایخ سے علم حاصل کیا،جیسا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں : ھم کثیرون،لایسع ھذا المختصر ذکرھم،وقد ذکر منھم الامام أبوحفص الکبیر أربعة آلاف شیخ،وقال غیره:له أربعة آلاف شیخ من التابعين،فما بالك بغیرھم ۔ (الخیرات الحسان، فصل ٧ صفحہ ٧٩،چشتی)
ترجمہ : آپ کے شیوخ بہت ہیں،یہ مختصر ان کے ذکر کی گنجائش نہیں رکھتا،امام ابوحفص کبیر نے چار ہزار مشایخ کا ذکر کیا ہے،دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ یہ چار ہزار تو تابعین میں سے ہیں،تو غیر تابعین کتنے ہوں گے؟
آپ کے بعض اساتذہ کے اسما درج ذیل ہیں : ⬇
(١)حضرت حماد بن سلیمان(٢)حضرت ابراہیم بن محمد بن منتشر(٣)حضرت اسماعیل بن عبدالمالک(٤)حضرت ابوہند حارث بن عبدالرحمٰن ہمدانی(٥)حضرت حسن بن عبید اللّٰه رضی اللّٰه عنھم اجمعین۔(تبییض الصحیفه صفحہ ١٩)

تدریس : آپ کے استاذ گرامی حضرت حماد بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد ان کی مسند تدریس پر ان کے صاحبزادے متمکن ہوئے،لیکن فقہ وافتا میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے تلامذہ کو تشفی نہ مل پاتی،لہٰذا ابوبکر نہشلی سے گزارش کی گئی تو انھوں نے انکار کر دیا،پھر حضرت ابوبردہ سے درخواست کی گئی تو انھوں نے بھی قبول نہ کیا،پھر سارے تلامذہ نے مل کر امام اعظم سے التماس کیا تو آپ نے ان کی بات مان لی اور فرمایا : میں نہیں چاہتا کہ علم مٹ جائے۔چناں چہ آپ نے اپنے استاذ گرامی کی مسند تدریس کو رونق بخشی،جب یہ خبر لوگوں میں عام ہوئی تو ہر طرف سے تشنگان علم آپ کے حلقہ تدریس میں جمع ہونے لگے ۔ (مناقب اعظم صفحہ نمبر ٨٣،چشتی)

تلامذہ : آپ رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں : ⬇

(١) امام ابو یوسف(٢)امام محمد بن حسن شیبانی(٣)امام حماد بن ابو حنیفہ(٤)امام زفر بن ہذیل(٥)امام عبد ﷲ بن مبارک (٦)امام وکیع بن جراح(٧)امام داؤد بن نصیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین ۔

علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم ﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے ۔

تصانیف : آپ کی چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں : ⬇

(١)الفقه الأکبر(٢)الفقه الأبسط(٣)العالم والمتعلم(٤)رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتّی(٥)وصية الامام أبي حنيفة.(ملتقطا،نزھۃ القاری،ج:١،ص:١٨٤)

آپ کا علمی مقام : آپ کا علمی ، فقہی اور اجتہادی مقام بہت ارفع و اعلیٰ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کی علمی رفعت وعظمت کی بشارت دی ہے،جیسا کہ امام ابونعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف”حلیۃ الاولیاء” میں درج ذیل حدیث نقل کرتے ہیں : عن أبی ھریرۃ قال:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم:لوکان العلم منوطا بالثریا لتناوله رجال من أبناء فارس ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر علم ثریا ستارے کے پاس بھی ہوتا تو فارس کے کچھ افراد اس کو وہاں سے بھی حاصل کرلیتے ۔

امام جلال الدین سیوطی نے اس طرح کی بہت سی روایتیں جمع کیں ہیں اور فرمایا کہ ان احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام اعظم کے بارے میں بشارت دی ہے۔اجلۂ محدثین کے نزدیک بھی اس حدیث کے مصداق امام اعظم ہیں ۔

آپ کی عقل مبارک : سید نا بکر بن جیش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل زمانہ کی عقلوں کو جمع کیا جائے ، تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی عقل سب پر غالب آجائے۔( الخیرات الحسان صفحہ ٦٢،چشتی)

طریقۂ اجتہاد و استنباط

آپ رضی اللہ عنہ اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان فرماتے ہیں : میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اللہ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لے لیتا ہوں ، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں ۔

وصال پر ملال : بغداد شریف میں ٢ شعبان المعظم ١٥٠ ہجری میں آپ کا انتقال ہوا ۔ مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ پہلی بار نمازِ جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کا مجمع تھا، اس پر بھی آنے والوں کا سلسلہ قائم تھا یہاں تک کہ چھ بار نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔(الخیرات الحسان فصل ٣٢ صفحہ ١٥٣)

امامِ اعظم کانام نُعمان اور کُنْیَت ابُوحنیفہ ہے ۔ آپ نے ابتداء میں  قرآن پاک حفظ کیا پھر 4000 علما و محدّثین کرام علیہم الرحمہ سے علمِ دین حاصل کرتے کرتے ایسے جلیل القدر فقیہ و محدِّث بن گئے کہ ہر طرف آپ رضی اللہ عنہ کے چرچے ہو گئے ۔ (تھذیب الاسماء،2/501،چشتی)(المناقب للکردری، 1/37تا53،چشتی)(عقودالجمان، صفحہ 187)

آپ رضی اللہ عنہ نےصَحابۂ کِرام   رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے  مُلاقات کا شَرَف حاصل فرمایا ، جن میں سے حضرت  سیّدنا انس بن مالک ، حضرت سیّدنا عبداللہ بن اوفیٰ ، حضرت سیّدنا سہل بن سعد ساعدی اور حضرت سیّدنا ابوالطفیل عامر بن واصلہ رضی اللہ عنہم کا نام سرفہرست ہے ۔ یوں آپ رضی اللہ عنہ کو تابعی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ (شرح مسند ابی حنیفۃ لملاعلی قاری صفحہ 581)

القاب،امام اعظم ، امام الائمہ سراج الامہ ، رئیس الفقہاء والمجتہدین ، سیدالاولیاء والمحدثین ۔ آپ کے دادا اہل کابل سے تھے ۔ سلسلہ نسب یوں بیان کیا جاتا ہے ۔ نعمان بن ثابت بن مرزبان زوطی بن ثابت بن یزدگرد بن شہریاربن پرویز بن نوشیرواں ۔

شرح تحفہ نصائح کے بیان کے مطابق آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم علی نبینا علیہ الصلوۃ والتسلیم تک پہونچتاہے اوریہاں آکر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ کا نسب مل جاتاہے ۔

خطیب بغدادی نے سیدنا حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت اسمعیل بن حماد سے نقل کیا ہے کہ میں اسمعیل بن حماد بن نعمان بن مرزبان ازاولاد فرس احرارہوں ۔ اللہ کی قسم ! ہم پر کبھی غلامی نہیں آئی ۔ میرے دادا حضرت ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی ولادت ۸۰ ھ میں ہوئی ، ان کے والد حضرت ثابت چھوٹی عمر میں حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر کئے گئے ، آپ نے ان کے اور ان کی اولاد کےلیے برکت کی دعا کی ۔ اور ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی دعاہمارے حق میں قبول کرلی گئی ہے ۔ (تاریخ بغداد للخطیب۔ ۱۲/۳۲۶،چشتی)

اس روایت سے ثابت کہ آپ کی ولا دت ۸۰ ھ میں ہوئی ۔ دوسری روایت جو حضرت امام ابویوسف سے ہے اس میں ۷۷ھ ہے ۔ علامہ کوثری نے ۷۰ھ کو دلائل و قرائن سے ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ ۸۷ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گئے اور وہاں حضرت عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی اور حدیث سنی ۔ اسی ۷۰ھ کو ابن حبان علیہ الرحمہ نے بھی صحیح بتایا ہے ۔

معتمد قول یہ ہی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ فارسی النسل ہیں اور غلامی کا دھبہ آپ کے آباء میں کسی پر نہیں لگا ، مورخوں نے غیر عرب پر موالی کا استعمال کیا ہے بلکہ عرب میں ایک رواج یہ بھی تھا کہ پردیسی یا کمزور فرد کسی بااثر شخص یا قبیلہ کی حمایت و پناہ حاصل کرلیتا تھا ۔ لہٰذا جبکہ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کے جد امجد جب عراق آئے توآپ نے بھی ایسا ہی کیا ۔

امام طحاوی علیہ الرحمہ شرح مشکل الآثار میں راوی کہ حضرت عبداللہ بن یزید کہتے ہیں ، میں امام اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا ، تم کون ہو ؟ میں نے عرض کیا : میں ایسا شخص ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جس پر اسلام کے ذریعہ احسان فرمایا ، یعنی نو مسلم ۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یوں نہ کہو ، بلکہ ان قبائل میں سے کسی سے تعلق پیدا کرلو پھر تمہاری نسبت بھی ان کی طرف ہوگی ، میں خود بھی ایساہی تھا ۔ (مشکل الآثار للطحاوی ۔ ۴/۵۴،چشتی)

مولی صرف غلام ہی کو نہیں کہا جاتا ، بلکہ ولاء اسلام ، ولاء حلف ، اور ولاء لزوم کو بھی ولاء کہتے ہیں اور ان تعلق والوں کو بھی موالی کہاجاتاہے ۔ امام بخاری ولاء اسلام کی وجہ سے جعفی ہیں ۔امام مالک ولاء حلف کی وجہ سے تیمی ۔ اور مقسم کو ولاء لزوم یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں ایک عرصہ تک رہنے کی وجہ سے مولی ابن عباس کہاجاتا ہے ۔ (مقدمہ ابن صلاح)

کنیت کی وضاحت : آپ کی کنیت ابوحنیفہ کے سلسلہ میں متعدد اقوال ہیں ۔

چونکہ اہل عرب دوات کو حنیفہ کہتے ہیں اورکوفہ کی جامع مسجد میں وقف کی چار سو دواتیں طلبہ کےلیے ہمیشہ وقف رہتی تھیں ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ کا حلقۂ درس وسیع تھا اور آپ کے ہر شاگرد کے پاس علیحدہ دوات رہتی تھی ، لہذا آپ کو ابوحنیفہ کہا گیا ۔

صاحب ملت حنیفہ ، یعنی ادیان باطلہ سے اعراض کرکے حق کی طرف پورے طور پر مائل رہنے والا ۔

ماء مستعمل کو آپ نے طہارت میں استعمال کرنے کےلیے جائز قرار نہیں دیا تو آپ کے متبعین نے ٹوٹیوں کا استعمال شروع کیا ، چونکہ ٹوٹی کو حنیفہ کہتے ہیں لہذا آپ کا نام ابوحنیفہ پڑ گیا ۔ (سوانح امام اعظم ابو حنیفہ مولانا ابو الحسن زید فاروقی صفحہ ۶۰،چشتی)

وجہ تسمیہ ۔ وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ نعمان لغت عرب میں خون کو کہتے ہیں جس پر مدارِ حیات ہے ۔ نیک فالی کے طور پر یہ نام رکھا گیا ۔ آپ نے شریعت اسلامیہ کے وہ اصول مرتب کیے جو مقبول خلائق ہو ئے اور شریعت مطہرہ کی ہمہ گیری کا ذریعہ بنے ۔ یہاں تک کہ امام شافعی قدس سرہ نے بھی آپ کی علمی شوکت وفقہی جلالت شان کو دیکھ کر فرمایا : الناس فی الفقہ عیال ابی حنیفۃ ۔
فقہ میں سب لوگ ابو حنیفہ کے محتاج ہیں ۔

نعمان گل لالہ کی ایک قسم کانام بھی ہے ۔ اس کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور خوشبو نہایت روح پرور ہوتی ہے ، چنانچہ آپ کے اجتہاد اور استنباط سے بھی فقہ اسلامی اطراف عالم میں مہک اٹھی ۔

غیرمقلد وہابی حضرات کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ امام اعظم اور ابو حنیفہ کیوں کہتے ہو اس اعتراض کا جواب پیشِ خدمت ہے : ⬇

حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام نعما ن ہے ، کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے ۔مسانیدِ امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعداد انتیس (29) ہے ۔ ذیل میں امامِ اعظم سے مروی اِن انتیس مسانید کے نام درج کیے جا رہے ہیں : ⏬

1۔ مسند امام حماد رحمہ اللہ بن ابی حنیفہ رحمہ اللہ (متوفی 176ھ)
2۔ مسند امام قاضی ابو یوسف یعقوب رحمہ اللہ بن ابراہیم انصاری (متوفی 182ھ)
3/4۔ مسند و آثار امام محمد رحمہ اللہ بن حسن شیبانی (متوفی 189ھ)
5۔ مسند امام حسن رحمہ اللہ بن زیاد اللؤلؤی (متوفی 204ھ)
6۔ مسند امام محمد رحمہ اللہ بن مخلد الدوری (متوفی 331ھ)
7۔ مسند امام حافظ احمد رحمہ اللہ بن محمد بن سعید المعروف ابنِ عقدہ (متوفی 332ھ)
8۔ مسند امام ابو القاسم عبد اﷲ رحمہ اللہ بن محمد ابن ابی العوام سعدی (متوفی 335ھ)
9۔ مسند امام عمر رحمہ اللہ بن حسن اشنانی (متوفی 339ھ)
10۔ مسند امام ابو محمد عبد اﷲ رحمہ اللہ بن محمد بن یعقوب حارثی بخاری (متوفی 340ھ)
11۔ مسند امام حافظ ابو احمد عبد اﷲ رحمہ اللہ بن عدی جرجانی (متوفی 365ھ)
12۔ مسند امام ابو الحسین محمد رحمہ اللہ بن مظفر بن موسیٰ (متوفی 379ھ)
13۔ مسند امام طلحہ رحمہ اللہ بن محمد بن جعفر (متوفی 380ھ)
14۔ مسند امام محمد رحمہ اللہ بن ابراہیم بن علی بن زاذان اصبھانی مقری (متوفی 381ھ)
15۔ مسند امام ابو الحسن علی رحمہ اللہ بن عمر بن احمد بغدادی المعروف دار قطنی (متوفی 385ھ)
16۔ مسند امام ابو الحفص عمر رحمہ اللہ بن احمد بن عثمان المعروف ابنِ شاہین (متوفی 385ھ)
17۔ مسند امام ابو عبد اللہ محمد رحمہ اللہ بن اسحاق بن محمد بن یحییٰ بن مندہ (متوفی 395ھ)
18۔ مسند امام حافظ ابو نعیم احمد رحمہ اللہ بن عبد اﷲ اصبھانی (متوفی 430ھ)
19۔ مسند امام حافظ ابو بکر احمد رحمہ اللہ بن محمد بن خالد خلی کلاعی (متوفی 432ھ)
20۔ مسند امام ابو الحسن علی رحمہ اللہ بن محمد بن حبیب بصری ماوردی شافعی (متوفی 450ھ)
21۔ مسند امام ابو بکر احمد رحمہ اللہ بن علی خطیب بغدادی (متوفی 463ھ)
22۔ مسند امام ابو اسماعیل عبد اللہ رحمہ اللہ بن محمد انصاری ہروی (متوفی 481ھ)
23۔ مسند امام حافظ ابو عبد اﷲ محمد رحمہ اللہ بن حسین بن محمد بن خسرو بلخی (متوفی 522ھ)
24۔ مسند امام ابو بکر محمد رحمہ اللہ بن عبد الباقی بن محمد انصاری (متوفی 535ھ)
25۔ مسند امام ابو القاسم علی رحمہ اللہ بن حسن بن ھبۃ اللہ ابنِ عساکر دمشقی (متوفی 571ھ)
26۔ مسند امام علی رحمہ اللہ بن احمد بن مکی رازی (متوفی 598ھ)
27۔ مسند امام ابو علی حسن رحمہ اللہ بن محمد بن محمد بکری (متوفی 656ھ)
28۔ مسند امام شمس الدین محمد رحمہ اللہ بن عبد الرحمن سخاوی شافعی (متوفی 902ھ)
29۔ مسند امام ابو المھدی عیسیٰ رحمہ اللہ بن محمد بن احمد جعفری ثعالبی (متوفی 1082ھ)

بعض لوگ آج کل امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام اور لقب دونوں پر اعتراض کرتے ہیں ،ان مخالفین کے عام طور پر دو بڑے اعتراضات سامنے آتے ہیں :
1 .. حنیفہ امام صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کا نام ہے اور کہتے ہیں یہ کتنا کمزور مذہب ہے، جس میں نسبت لڑکی کی طرف کی جارہی ہو ۔

2 .. دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سب سے بڑے امام تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہیں آپ لوگ ابو حنیفہ کو امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں کہتے ہیں ۔

اعتراض کا جواب : ان لوگوں کے ان اعتراضات کو دیکھ کر ان کی جہا لت کا پتا چل جاتا ہے ،ان لوگوں کو نہ ہمارے امام کی تاریخ کا علم ہے، نہ ان لوگوں کا عربیت سے کوئی تعلق ہے، اگر ان لوگوں کو ہمارے امام کی تاریخ کا علم ہوتا یا ان کا عربیت سے کچھ تعلق ہوتا تو اس قسم کے اعتراضات کبھی نہ کرتے ۔

جہاں تک ہمارے امام کی تاریخ کا تعلق ہے تو اس کا علم اس لیئے نہیں ہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صرف ایک ہی بیٹا تھا ، جس کا نام حماد تھا، اس کے علاوہ امام صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نہ کوئی بیٹا تھا نہ کوئی بیٹی ۔ یہ کتنا بڑا الزام ہے کہ امام صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کا نام حنیفہ تھا، جس کی وجہ سے ابو حنیفہ کو ماننے والے ان کی نسبت لڑکی کی طرف کر رہے ہیں؟! اگلی بات یہ ہے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو حنیفہ کیوں ہے؟ تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ کنیت دو قسم کی ہوتی ہے ۔۱۔کنیت نسبی۔۲۔کنیت وصفی ۔کنیت نسبی کا معنی یہ ہے کہ باپ کی بیٹے کی طرف نسبت کیے جانے کی وجہ سے وہ باپ کی کنیت ہو جاتی ہے، جیسے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم ہے تو چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کا نام قاسم تھا ،پس قاسم کی نسبت محمد صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہونے کی وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم نسبی ہے ۔

اور دوسری قسم کنیت وصفی اس کا معنی یہ ہے کہ یہ کنیت اولاد کی طرف نسبت کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ کسی مخصوص وصف کی وجہ سے ہوتی ہے جو صرف اسی شخص میں نمایاں ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ وصف اس شخص کی کنیت کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے ،اب کنیت وصفی کو بھی مثال سے سمجھ لیں، جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا نام عبدالله بن ابی قحافہ ہے ابوبکر ان کی کنیت ہے ان کے بیٹے کا نام بکر نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کو ابوبکر کہا جاتا ہو بلکہ بکر عربی زبان میں پہل کرنے والے کو کہتے ہیں، جب حضورصلی الله علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے ان کی تصدیق کر نے والے حضرت عبد اللہ بن ابی قحافہ تھے، جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے دولت مانگی تو ساری دولت دینے میں حضرت عبد اللہ بن ابی قحافہ نے پہل کی جب حضورصلی الله علیہ وسلم نے کنواری لڑکی نکاح کے لیے مانگی تو پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی، جب حضورصلی الله علیہ وسلم مکہ سے مدینہ گئے تو ہجرت میں پہل حضرت عبد اللہ بن أبی قحافہ نے کی ۔

جب حضور غزوء احد میں گئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی، جب حضورصلی الله علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماگئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے مصلی پر کھڑے ہونے میں پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی، جب حضورصلی الله علیہ وسلم اپنے مزار تشریف لے گئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے مزار میں سب سے پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی یہاں تک کے جب پیغمبر خداصلی الله علیہ وسلم جنت میں جائیں گے تو ان کے ساتھ سب سے پہلے جانے والا عبد اللہ بن ابی قحافہ ہی ہوگا، غرض یہ کہ ہر کام میں پہل کی،اسی لیے ان کی کنیت ابو بکر پڑگئی ،اس وجہ سے نہیں کہ ان کے بیٹے کا نام بکر تھا، بلکہ ان کی اس صفت کی وجہ سے کہ ہر کام میں وہ پہل کرتے تھے ۔

اسی طرح حضرت علی رضی الله عنہ کی کنیت ابو تراب ہے۔ تراب ان کے بیٹے کا نام نہیں تھا تو ان کی کنیت ابو تراب کیسے پڑگئی ؟ وہ اس طرح کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے گھر تشریف لے گئے، دروازے پر دستک دی اور فرمایا علی ہیں؟ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا موجود نہیں۔ تو حضور علیہ السلام مسجد نبوی میں تشریف لے گئے، دیکھا کہ حضرت علی مسجد میں مٹی پر لیٹے ہوئے ہیں اور جسم مبارک کو مٹی لگی ہوئی ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا :قم یا ابا التراب !اے مٹی والے اٹھ جا۔ حضورصلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی کو کہا ابو التراب۔ تراب نہ حضرت علی کے بیٹے کا نام ہے اور نہ بیٹی کا تو یہ کنیت وصفی ہوئی نہ کہ نسبی۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا نام عبد الرحمن بن صخر ہے ،ابو ہریرہ ان کی کنیت ہے ،ایک مرتبہ آپ رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کی آستین کا دامن کھلا ہوا تھا، جس میں بلی کا بچہ تھا، عربی زبان میں ہریرہ بلی کے بچے کو کہاجاتا ہے تو ابو ہریرہ عبدالرحمن بن صخر کی کنیت بن گئی اب یہ کنیت وصفی ہوئی نہ کہ نسبی اسی طرح ابو حنیفہ بھی کنیت وصفی ہے نہ کہ نسبی اب امام میں آخر وہ کو نسا وصف تھا جس کی بنیاد پر انہیں ابو حنیفہ کہا جاتا ہے، وہ یہ کہ حنیفہ کا ایک معنی عربی زبان میں دوات کے ہیں اور امام صاحب کی مجلس میں بیٹھنے والے ہر وقت قلم ودوات لے کر امام صاحب کے علوم کو مرتب کرتے تھے ، اتنے علوم مرتب کیے کہ ان کی وجہ سے کنیت ابو حنیفہ بن گئی اور حنیفہ کا ایک معنی خالص کا آتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ﴿ واتبع ملة ابراہیم حنیفا﴾ابراہیم علیہ السلام خالص دین والے تھے ،باطل سے بالکل الگ تھے ،امام اعظم نے اس شریعت کو مرتب کیا، جو بالکل خالص ہے، اسی وجہ سے کنیت ابو حنیفہ بن گئی، ابو حنیفہ کا معنی ہوا دین خالص کو مرتب کرنے والا اور جو لوگ کہتے ہیں حنیفہ امام اعظم کی بیٹی کا نام ہے تو ان کے پاس نہ تاریخ کا علم ہے اور نہ عربیت کا ۔

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھی ہی نہیں ایک ہی بیٹا تھا جسے اپنے شیخ حماد رحمہ اللہ کے ہم نام رکھا . اگر کوئی ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں حنیفہ سے مراد امام صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی لیتا ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ میں کیا بکر ، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا نام ہے ابو ہریرہ میں کیا حضرت ابو ہریرہ کی بیٹی ہریرہ تھی، کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کہا جاتا ہے تو کیا تراب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوئی بیٹا تھا ہرگز نہیں ۔

کنیت دو طرح کی ہوتی ہیں

1. ایک نسبی ایک وصفی

2. دوسری نسبی

اگراپنی اولاد کی طرح نسبت ہوتو کنیت نسبی کہلاتی ہے . اگر کسی وصف کی طرف ہو تو وصفی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کنیت کی وجہ بکر کے معنی پہل کرنا، موسم کا پہلا پھل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہر چیزوں میں پہل کرنے والے تھے ایمان لانے میں مال خرچ کرنے میں وغیرہ پہلے ایمان لانے والے اسلام کا پہلا پھل کہا جاسکتا ہے . لوگ عبد اللہ بن ابو قحافہ نہیں جانتے ابوبکر سب جانتے ہیں.
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ معنی لفظی بلی کا باپ بلی کے بچہ کو آستین میں لے کر آئے. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا : ابوہریرہ بلی والے ۔ یہ جملہ حضرت عبدالرحمن بن صخرہ کو پسند آیا اور لوگ عبد الرحمن بن صخرہ کوئی نہیں جانتا ابو ہریرہ سب جانتا ہے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا ابی تراب اے مٹی والے ، اسی طرح امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا نام ہے نعمان بن ثابت مگر وصف سے مشہور ہوئے. حنیفہ کا ایک معنی دوات ابو حنیفہ دوات والا امام صاحب نے اتنا لکھا کہ نام ہی ہو گیا دوات والا یعنی ابو حنیفہ، حنیفہ کا دوسرا معنی خالص دین امام صاحب نے قرآن و حدیث سے پورے دین کو سب سے پہلے لکھوایا اسی بنا پر کہا گیا ابو حنیفہ خالص دین لکھوانےوالا ۔ ان کنیة ابوحنیفہ مونث حنیف وھوالناسک اوالمسلم لان الحنیف المیل.والمسلم مائل الی الدین المحق قیل سبب تکنیة بذالک ملازمتہ للدواة حنفیة بلغة العراق وقيل كانت له بنت تسمي بذالك ورد بانه لايعلم له ولد ذكز ولا انثي غير حماد ۔ (خیرات الحسان صفحہ نمبر ۴۵،چشتی)

ایک اہم نکتہ : ابو بکر کا نام، جو کہ عبد اللہ ہے، لوگ اس کو اتنا نہیں جانتے جتنا ان کی کنیت ابو بکر کو جانتے ہیں۔ اسی طرح امام اعظم ابو حنیفہ کا نام نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے جسے لوگ نہیں جانتے، بلکہ ان کی کنیت یعنی ابو حنیفہ کو نام سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مشن ابو بکر کا تھا اور ایک مشن ابو حنیفہ کا تھا، ابو بکر کا مشن دین پھیلانا تھا اور ابو حنیفہ کا مشن دین لکھوانا تھا، اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان دونوں کا مشن اتنا پسند آیا کہ ان کا نام عبداللہ اور نعمان پردہ خفا میں چلا گیا اور ان کا مشن قیامت تک زندہ رہا ،اس نکتہ کے ذکر کرنے کے بعد امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مخالف ابو حنیفہ کہہ کر مخالفت کرے گا ،ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا مخالف ابو بکر کہہ کر مخالفت کرے گا: تھوڑی سی تو شرم کرنی چاہیے، ابو حنیفہ بھی کہتے ہو مخالفت بھی کرتے ہوا ؟ ابو بکر بھی کہتے ہو مخالفت بھی کرتے ہو ؟ اس کا مطلب تو ایسے ہے جیسا کہ اللہ کے نبی کا نام محمدصلی الله علیہ وسلم ہے جس کی بار بار تعریف کی گئی ہے اب جو کہتا ہے میں محمد کو نہیں مانتا یا جو محمد سے مخالفت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس شخص کو نہیں مانتا جس کی تعریف خود رب ذوالجلال نے کی ہے، اسی طرح جو ابو حنیفہ کی مخالفت کرتا ہے اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ جس نے دین خالص کو مرتب کیا میں اس کو نہیں مانتا اور اس کی مخالفت کرتا ہوں ۔

دوسرا اعتراض اور اس کا جواب : آپ حنفی لوگ ابو حنیفہ کو امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں کہتے ہو ؟ اس کا جواب میں چند مثالوں سے دینا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ سب سے بڑے صدیق یعنی سچے تو اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم ہیں تو پھر ابو بکر صدیق اکبر کیوں کہا جاتا ہے ؟اسی طرح سب سے بڑے فاروق یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والے تو اللہ کا نبی صلی الله علیہ وسلم ہیں تو پھر عمررضی الله عنہ کو فاروق کیوں کہتے ہو؟سب سے بڑا بہادر تو اللہ کا نبی ہے تو پھر حضرت علی کو حید ر کرار کیوں کہتے ہو؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ابو حنیفہ حضورصلی الله علیہ وسلم سے بھی بڑے امام ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ فقہاء میں سب سے بڑے امام ابو حنیفہ ہیں، اسی طرح صدیق اکبر صحابہ کی جماعت میں ابو بکر ہیں اور فاروق بین الحق و الباطل عمر ہیں ۔بڑے بہادر صحابی حضرت علی ہیں اور انبیاء کی جماعت کے سب سے بڑے امام اللہ کے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم ہیں، آج کے غیر مقلد ین کا نفرنسیں کرتے ہیں اور اس کا نام رکھتے ہیں امام اعظم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور کہتے ہیں کہ امام اعظم اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم ہیں اور یہ حنفی مسلک والے ابو حنیفہ کو امام اعظم کہتے ہیں، یہ حنفی شرک فی الرسالت کرتے ہیں، یہ مشرک ہیں، اب بیچارے ان پڑ ھ کے پاس دلیل نہیں ہوتی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ واقع میں یہ توصحیح بات کرتے ہیں، حنفیوں کی یہ بات تو بالکل غلط ہے اور اسی لیے وہ غیر مقلدین کے چنگل میں پھنستے ہیں ،یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ غیر مقلد دلیل کم دیتے ہیں اور ڈھکوسلے زیادہ مانگتے ہیں، دلیل اور ڈھکو سلہ سمجھانے کے لیے میں ایک مثال ذکر کرنا چاہتا ہوں ،وہ یہ کہ ایک بابا جی گھوڑا گاڑی چلا رہے تھے مین روڈ پر اور ان کے پیچھے F.S.C کا ایک اسٹوڈنٹ بائیک پہ آرہا تھا اچانک باباجی نے گھوڑا گاڑی کو دائیں طرف موڑ دیا ، دونوں ٹکرا گئے، اس نوجوان کو غصہ آگیا اور اس نے بابا جی سے کہا ۔اگر آپ کو گھوڑا گاڑی موڑنی تھی تو کم از کم اشارہ تو دیتے ؟ ! باباجی کہنے لگے آپ کو یہ اتنا بڑا روڈ نظر نہیں آرہا تھا جو میرے پیچھے آگئے تو نوجوان خاموش ہو گیا ؟ کیوں کہ کالج میں اسٹوڈنٹ نے اصول پڑھے ، ڈھکوسلے نہیں پڑھے اسی طرح آج کے ان پڑھ یا کالج کے اسٹوڈنٹ وغیرہ غیر مقلد ین کے ڈھکوسلوں کی وجہ سے دلیل نہ ہونے کی صورت میں خاموش ہو جاتے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حنفیوں کے پاس دلائل نہیں ہیں حالاں کہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ وہ ڈھوکوسلے مانگتے ہیں اورہمارے پاس ڈھکوسلے نہیں ، بلکہ دلائل ہیں، اگر غیر مقلد ین دلیل کی بنیاد پر بات کریں تو قریب ہے کہ سارے غیر مقلدین حنفی بن جائیں ،لیکن وہ ایسا کرتے نہیں ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

واذ أتتک مذمتی من ناقص
فھی الشھادة لی بأنی کامل
ترجمہ : اگر کسی ناقص العقل کی جانب سے میری مذمت آپ کے پاس پہنچے تو یہی کافی ہے میری حقیقت جاننے کے لیئے کہ میں کامل ہوں ۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام اعظم کا یہ لقب دینے والے وہ علماء جو حنفی نہیں ہیں کیونکہ اگر اس بارے میں حنفی علماء کی تحریریں لی جاتی تو غیر مقلدین کہتے کہ انہوں نے محبت میں غلو کیا ہے اورحنفی ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام اعظم لکھ دی اہے ۔

سمعانی نے انساب میں امام شافعی کے ذکر میں لکھا ہے : لعلہ مات فی یومھا الامام الاعظم ابوحنیفۃ رضی اللہ عنہ الوافی بالوفیات میں ہے ۔

ابوحنیفہ جماعۃ منہم الامام الاعظم صاحب المذہب اسمہ النعمانتاریخ الدولۃ الرسولیہ جوابوالحسن علی بن حسن الخزرجی الزبیدی الیمنی متوفی812کی تصنیف ہے اس میں وہ لکھتے ہیں القاضی موفق الدین علی بن عثمان المطیب قاضیا علی مذہب الامام الاعظم رحمہ اللہ ۔

حافظ ذہبی اپنی مشہور عالم تصنیف تذکرۃ الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : ابوحنیفہ الامام الاعظم ،فقیہ العراق،نعمان بن ثابت بن زوطا التیمی ۔ (تذکرۃ الحفاظ/جلد نمبر 2،چشتی)

مشہور محدث محمد بن رستم بن قباد الحارثی البدخشی نے تراجم الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں لکھاہے۔ النعمان بن ثابت الکوفی الامام الاعظم احمد الائمۃ الاربعۃ المتبوعین ۔

محمد علی بن محمد علان بن ابراہیم الصدیقی العلوی الشافعی اپنی کتاب الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النوویہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ الامام ابوحنیفہ ہوالامام الاعظم والعلم المفرد المکرم امام الائمۃ عبدالوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الکبریٰ میں امام ابوحنیفہ سے مخالفین کے پھیلائے گئے شبہات کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

فاولھم تبریا من کل رای یخالف ظاہرالشریعۃ الامام الاعظم ابوحنیفہ النعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، خلاف مایضیفہ الیہ بعض المتعصبین ویافضحۃ یوم القیامۃ من الامام
ایسا نہیں ہے کہ صرف امام ابوحنیفہ کو ہی لوگوں نے امام اعظم کے لقب سے پکاراہو ۔
ابن قیم نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے تعلق سے کہانونیہ میں کہاہے۔
ھذاالذی نصت علیہ اَئمہ ال اسلام اہل العلم والعرفان
وہوالذی قصدالبخاری الرضی لکن تقاصر قاصر الاذہان
عن فھمہ کتقاصر الافہام عن قول الامام الاعظم الشیبانی
اب پتہ نہیں امام اعظم کے لقب پر یہ سوچنے والے کہ امام اعظم تورسول پاک ہیں اس بارے میں کیاکہیں گے۔ہمیں بھی جواب کا انتظار رہے گا۔
امام اعظم کے لقب سے ملقب ہونے کی وجہ۔
اس بارے میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ فقہ میں کوئی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشارک اورہم رتبہ نہیں ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ الناس عیال علی فقہ ابی حنیفہ ۔ انہی سے یہ دوسرا قول بھی منقول ہے کہ جو فقہ میں رسوخ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ابوحنیفہ کی فقہ کی جانب توجہ کرے ۔ ویسے دیکھا جائے تو ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے امام شافعی امام محمد کے شاگرد ہونے کی وجہ اورامام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورامام ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہونے کی وجہ سے یہ بات متحقق ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے دوامام امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جیسا کہ علی طنطاوی نے ذکر یات میں ذکر کیا ہے : قال الشيخ علي الطنطاوي رحمہ اللہ في كتابه الذكريات الجزء السابع صفحہ 118 ، الشافعي قرا على محمد (يقصد ابن الحسن) كتبہ الفقہيۃ فكان شبہ تلميذ لہ واحمد تلميذ الشافعي فمن ھنا كان ابو حنيفہ الامام الاعظم انتھى كلامہ رحمہ اللہ ۔
لیکن اس کے علاوہ بھی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے امام اعظم سے متصف ہونے کی دوسری وجوہات بھی ہیں جن کو علماء نے ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے ایک توجیہ تویہ ہے کہ حنیفہ نے صاحبین یعنی امام ابوبوسف اورامام محمد بن حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے امام ابوحنیفہ کو ممتاز اور جداگانہ تشخص کیلئے ان کو امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب دیا ۔ جیسا کہ علماء احناف پر لکھی گئی کتابوں سے واضح ہوتا ہے ۔


جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لقب سے ظاہر ہے کہ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں ۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا پایہ بہت بلند ہے ۔ آپ نے فقہ کی تعلیم اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان سے حاصل کی ۔ آپ کے اساتذہ کا سب سے پہلا طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں آپ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ آپ تابعی ہیں ۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علمِ حدیث حاصل کیا ۔ آپ کے علاوہ امام مالک سمیت ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ علیہم الرحمہ میں کوئی امام بھی تابعی نہیں آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی براہِ راست زیارت کی اور ان سے احادیث نبوی کا سماع کیا ۔

امام اعظم رضی اللہ عنہ نے علم حدیث کے حصول کےلیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا ۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا ۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے ، وہیں پڑھا ، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم رضی اللہ عنہ خود بنے ۔

دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا ۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا ۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا ۔

ایک مرتبہ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہو گیا ۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا ۔ حضرت امام ابو عبد ﷲ رحمۃ ﷲ علیہ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحابِ شافعی سے فرمایا : پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب گنے گئے تو 80 تھے ۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا : اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انہوں نے شمار کیے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے ۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے ۔

حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے ۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں : ⬇

1۔ امام ابو یوسف رحمۃ ﷲ علیہ

2۔ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمۃ ﷲ علیہ

3۔ امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ

4۔ امام زفر بن ہذیل رحمۃ ﷲ علیہ

5۔ امام عبد ﷲ بن مبارک رحمۃ ﷲ علیہ

6۔ امام وکیع بن جراح رحمۃ ﷲ علیہ

7۔ امام داؤد بن نصیر رحمۃ ﷲ علیہ

قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم ﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے ۔

آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے ۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی ۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا ۔ 40 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں ، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے ، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں ۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں : میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب ﷲ سے اخذ کرتا ہوں ، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں ، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی ، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں ۔

آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔  اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ رضی اللہ عنہ ہی کے مسائل ، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے مذہب کا پیرو کار ہے ۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی تصانیف : ⬇

امام اعظم نے کلام وعقائد ،فقہ واصول اورآداب واخلاق پر کتابیں تصنیف فرماکر اس میدان میں اولیت حاصل کی ہے ۔ امام اعظم کے سلسلہ میں ہردور میں کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار رہے ہیں اورآج بھی یہ مرض بعض لوگوں میں موجود ہے ۔فقہ حنفی کو بالعموم حدیث سے تہی دامن اورقیاس ورائے پراسکی بنا سمجھی جاتی ہے جوسراسر خلاف واقع ہے۔اس حقیقت کو تفصیل سے جاننے کیلئے بڑے بڑے علماء فن کے رشحات قلم ملاحظہ کریں جن میں امام یوسف بن عبدالھادی حنبلی ،امام سیوطی شافعی ، امام ابن حجر مکی شافعی ،امام محمد صالحی شافعی وغیرہم جیسے اکابر نے اسی طرح کی پھیلائی گئی غلط فہمی کے ازالہ کیلئے کتابیں تصنیف فرمائیں ۔علم حدیث میں امام اعظم کو بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جن میں کوئی دوسرامحدث شریک نہیں ۔

امام اعظم کی مرویات کے مجموعے چار قسم کے شمار کئے گئے ہیں جیسا کہ شیخ محمد امین نے وضاحت سے ’’مسانید الامام ابی حنیفہ ‘‘ میں لکھا ہے ۔

کتاب الآثار ۔مسند امام ابو حنیفہ ۔ اربعینات ۔وحدانیات ۔

متقدمین میں تصنیف وتالیف کا طریقہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لائق وقابل فخر تلامذہ کو املا کراتے ،یاخود تلامذہ درس میں خاص چیزیں ضبط تحریر میں لے آتے ،اسکے بعد راوی کی حیثیت سے ان تمام معلومات کو جمع کرکے روایت کرتے اورشیخ کی طرف منسوب فرماتے تھے ۔

کتاب الآثار ۔ امام اعظم نے علم حدیث وآثار پر مشتمل کتاب الآثار ،یونہی تصنیف فرمائی ، آپ نے اپنے مقرر کردہ اصول وشرائط کے مطابق چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے املا کرایا ۔قدرے تفصیل گذر چکی ہے ۔ کتاب میں مرفوع ،موقوف ، اورمقطوع سب طرح کی احادیث ہیں ۔ کتاب الآثار کے راوی آپکے متعددتلامذہ ہیں جنکی طرف منسوب ہوکر علیحدہ علیحدہ نام سے معروف ہیں اور مرویات کی تعداد میں بھی حذف واضافہ ہے ۔

عام طور سے چند نسخے مشہور ہیں: ۔

۱۔ کتاب الآثار بروایت امام ابویوسف ۔

۲۔ کتاب الآثار بروایت امام محمد ۔

۳۔ کتاب الآثار بروایت امام حماد بن امام اعظم ۔

۴۔ کتاب الآثار بروایت حفص بن غیاث ۔

۵۔ کتاب الآثار بروایت امام زفر (یہ سنن زفر کے نام سے بھی معروف ہوئی )

۶۔ کتاب الآثار بروایت امام حسن بن زیاد

ان میں بھی زیادہ شہرت امام محمد کے نسخہ کو حاصل ہوئی ۔

امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔

روی الآثار عن نبل ثقات ۔غزارالعلم مشیخۃ حصیفۃ۔

امام اعظم نے الآثار ،کوثقہ اورمعززلوگوں سے روایت کیا ہے جو وسیع العلم اورعمدہ مشائخ تھے ۔

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ۔

والموجود من حدیث ابی حنیفۃ مفرداانما ھوکتاب الآثار التی رواہ محمد بن الحسن ۔

اور اس وقت امام اعظم کی احادیث میں سے کتاب الآثار موجود ہے جسے امام محمد بن حسن نے روایت کیا ہے ۔ اس میں مرفوع احادیث ۱۲۲ ہیں ۔

امام ابویوسف کا نسخہ زیادہ روایات پر مشتمل ہے ،امام عبدالقادر حنفی نے امام ابویوسف کے صاحبزادے یوسف کے ترجمہ میں لکھا ہے:۔

روی کتا ب الآثار عن ابی حنیفۃ وھو مجلد ضخم ۔

یوسف بن ابویوسف نے اپنے والد کے واسطہ سے امام اعظم ابو حنیفہ سے کتاب الآثار کو روایت کیا ہے جو ایک ضخیم جلد ہے ، اس میں ایک ہزار ستر (۱۰۷۰) احادیث ہیں ۔

مسند امام ابوحنیفہ : یہ کتاب امام اعظم کی طرف منسوب ہے ،اسکی حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جن شیوخ سے احادیث کو روایت کیا ہے بعد میں محدثین نے ہرہر شیخ کی مرویات کو علیحدہ کرکے مسانید کو مرتب کیا ۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہاجاسکتاہے کہ آپ نے تدوین فقہ اوردرس کے وقت تلامذہ کو مسائل شرعیہ بیان فرماتے ہوئے جو دلائل بصورت روایت بیان فرمائے تھے ان روایات کو آپکے تلامذہ یابعد کے محدثین نے جمع کرکے مسند کانام دیدیا ۔ان مسانید اورمجموعوں کی تعداد حسب ذیل ہے ۔

۱۔ مسندالامام مرتب امام حماد بن ابی حنیفہ

۲۔ مسندالامام مرتب امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری

۳۔ مسندالامام مرتب امام محمد بن حسن الشیبانی

۴۔ مسندالامام مرتب امام حسن بن زیاد ثولوی

۵۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو محمد عبداللہ بن یعقوب الحارث البخاری

۶۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاہد

۷۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسین محمد بن مظہر بن موسی

۸۔ مسندالامام مرتب حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصفہانی

۹۔ مسندالامام مرتب الشیخ الثقۃ ابوبکر محمد بن عبدالباخی الانصاری

۱۰۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی

۱۱۔ مسندالامام مرتب حافظ عمربن حسن الاشنانی

۱۲۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر احمدبن محمد بن خالد الکلاعی

۱۳۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوعبداللہ حسین بن محمد بن خسروالبلخی

۱۴۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو القاسم عبداللہ بن محمد السعدی

۱۵۔ مسندالامام مرتب حافظ عبداللہ بن مخلد بن حفص البغدادی

۱۶۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن علی بن عمربن احمد الدارقطنی

۱۷۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوحفص عمر بن احمد المعروف بابن شاہین

۱۸۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالخیر شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی

۱۹۔ مسندالامام مرتب حافظ شیخ الحرمین عیسی المغربی المالکی

۲۰۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالفضل محمدبن طاہر القیسرانی

۲۱۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالعباس احمد الہمدانی المعروف بابن عقدہ

۲۲۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر محمد بن ابراہیم الاصفہانی المعروف بابن المقری

۲۳۔ مسندالامام مرتب حافظ ابو اسمعیل عبداللہ بن محمد الانصاری الحنفی

۲۴۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن عمربن حسن الاشنانی

۲۵۔ مسندالامام مرتب حافظ ابوالقاسم علی بن حسن المعروف بابن عساکر الدمشقی ۔

ان علاوہ کچھ مسانید وہ بھی ہیں جنکو مندرجہ بالا مسانید میں سے کسی میں مدغم کردیاگیا

ہے ۔مثلا ابن عقدہ کی مسند میں ان چار حضرات کی مسانید کا تذکرہ ہے اور یہ ایک ہزار سے زیادہ احادیث پر مشتمل ہے۔

۱۔ حمزہ بن حبیب التیمی الکوفی

۲۔ محمد بن مسروق الکندی الکوفی

۳۔ اسمعیل بن حماد بن امام ابو حنیفہ

۴۔ حسین بن علی

پھر یہ کہ جامع مسانید امام اعظم جس کو علامہ ابو المؤید محمد بن محمود بن محمد الخوارزمی نے ابواب فقہ کی ترتیب پر مرتب کیا تھا اس میں کتاب الآثار کے نسخے بھی شامل ہیں اگر انکو علیحدہ شمار کیا جائے تو پھر اس عنوان سند کے تحت آنے والی مسانید کی تعداد اکتیس ہوگی جبکہ جامع المسانید میں صرف پندرہ مسانید ہیں اور انکی بھی تلخیص کی گئی ہے مکرراسناد کو حذف کردیاہے یہ مجموعہ چالیس ابواب پر مشتمل ہے اور کل روایات کی تعداد ۱۷۱۰ ہے ۔

مرفوع روایات ۹۱۶

غیر مرفوع ۷۹۴

پانچ یا چھ واسطوں والی روایات بہت کم اور نادر ہیں ،عام روایات کا تعلق رباعیات ، ثلاثیات ،ثنائیات اوروحدانیات سے ہے ۔

علامہ خوارزمی نے اس مجموعہ مسند کے لکھنے کی وجہ یوں بیان کی ہے ،کہ میں نے ملک شام میں بعض جاہلوں سے سنا کہ حضرت امام اعظم کی روایت حدیث کم تھی ۔ایک جاہل نے تو یہانتک کہاکہ امام شافعی کی مسند بھی ہے اورامام احمد کی مسند بھی ہے ،اورامام مالک نے تو خود مؤطالکھی ۔لیکن امام ابو حنیفہ کا کچھ بھی نہیں ۔

یہ سنکر میری حمیت دینی نے مجھکو مجبورکیا کہ میں آپکی ۱۵ مسانید وآثار سے ایک مسند مرتب کروں ،لہذا ابواب فقہیہ پر میں نے اسکو مرتب کرکے پیش کیاہے ۔(سوانح بے بہائے امام اعظم ابو حنیفہ ۳۴۸)

کتاب الآثار ،جامع المسانید اوردیگر مسانید کی تعداد کے اجمالی تعارف کے بعد یہ بات اب حیز خفا میں نہیں رہ جاتی کہ اما م اعظم کی محفوظ مرویات کتنی ہونگی ،امام مالک اورامام شافعی کی مرویات سے اگر زیادہ تسلیم نہیں کی جاسکیں توکم بھی نہیں ہیں ،بلکہ مجموعی تعداد کے غالب ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوناچاہیئے ۔

امام اعظم کی مسانید کی کثرت سے کوئی اس مغالطہ کا شکار نہ ہو کہ پھر اس میں رطب ویابس سب طرح کی روایات ہونگی ۔ہم نے عرض کیاکہ اول تو مرویات میں امام اعظم قدس سرہ اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان واسطے بہت کم ہوتے ہیں ۔اور جوواسطے مذکور ہوتے ہیں انکی حیثیت وعلوشان کا اندازہ اس سے کیجئے کہ :۔

امام عبدالوہاب شعرانی میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں ۔

وقد من اللہ علی بمطالعۃ مسانید الامام ابی حنیفۃ الثلاثۃ فرأیئہ لایروی حدیثا الاعن اخبار التابعین العدول الثقات الذین ھم من خیرالقرون بشہادۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کالاسود وعلقمۃ وعطاء وعکرمۃ ومجاہد ومکحول والحسن البصری واضرابھم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔بینہ وبین رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عدول ثقات اعلام اخیار لیس فیہم کذاب ولامنہم بکذب ۔(میز ان الشریعۃ الکبری ۱/۶۸)

اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا کہ میں نے امام اعظم کی مسانید ثلاثہ کو مطالعہ کیا۔ میں نے ان میں دیکھا کہ امام اعظم ثقہ اور صادق تابعین کے سوا کسی سے روایت نہیں کرتے جن کے حق میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیرالقرون ہونے کی شہادت دی ،جیسے اسود ،علقمہ عطاء ،عکرمہ ، مجاہد ،مکحول اور حسن بصری وغیرہم ۔لہذا امام اعظم اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان تمام راوی عدول ، ثقہ اور مشہور اخیار میں سے ہیں جنکی طرف کذب کی نسبت بھی نہیں کی جاسکتی اور نہ وہ کذاب ہیں ۔

اربعینات : امام اعظم کی مرویات سے متعلق بعض حضرات نے اربعین بھی تحریر فرمائی ہیں مثلاً : ⬇

الاربعین من روایات نعمان سیدالمجتہدین ۔(مولانا محمد ادریس نگرامی)

الاربعین۔ (شیخ حسن محمد بن شاہ محمد ہندی)

وحدانیات :۔ امام اعظم کی وہ روایات جن میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک صرف ایک وسطہ ہو ان روایات کو بھی ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس سلسلہ میں بعض تفصیلات حسب ذیل ہیں :۔

۱۔ جزء مارواہ ابوحنیفۃ عن الصحابۃ۔

جامع ابومعشر عبدالکریم بن عبدالصمد شافعی ۔

امام سیوطی نے اس رسالہ کو تبییض الصحیفہ فی مناقب الامام ابی حنیفہ میں شامل کردیا ہے ، چنداحادیث قارئین ملاحظہ فرماچکے ۔

۲۔ الاختصار والترجیح للمذہب الصحیح۔

امام ابن جوزی کے پوتے یوسف نے اس کتاب میں بعض روایات نقل فرمائی ہیں ۔

دوسرے ائمہ نے بھی اس سلسلہ میں روایات جمع کی ہیں ۔مثلا:۔

۱۔ ابو حامد محمد بن ہارون حضرمی

۲۔ ابوبکر عبدالرحمن بن محمد سرخسی

۳۔ ابوالحسین علی بن احمد بن عیسی نہفقی

ان تینوں حضرات کے اجزاء وحدانیات کو ابو عبداللہ محمد دمشقی حنفی المعروف بابن طولون م ۹۵۳،نے اپنی سند سے کتاب الفہرست الاوسط میں روایت کیا ۔

نیز علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی سند سے المعجم المفہرس میں

علامہ خوارزمی نے جامع المسانید کے مقدمہ میں

ابوعبداللہ صیمری نے فضائل ابی حنیفہ واخبارہ میں روایت کیاہے ۔

البتہ بعض حضرات نے ان وحدانیات پر تنقید بھی کی ہے ،تواسکے لئے ملاعلی قاری ،امام عینی اورامام سیوطی کی تصریحات ملاحظہ کیجئے ،ان تمام حضرات نے حقیقت واضح کردی ہے ۔

امام اعظم کی فن حدیث میں عظمت وجلالت شان ان تمام تفصیلات سے ظاہر وباہر ہے لیکن بعض لوگوں کو اب بھی یہ شبہ ہے کہ جب اتنے عظیم محدث تھے تو روایات اب بھی اس حیثیت کی نہیں ،محدث اعظم واکبر ہونے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ لاکھوں احادیث آ پ کو یاد ہونا چاہیئے تھیں جیساکہ دوسرے محدثین کے بارے میں منقول ہے ۔تو اس سلسلہ میں علامہ غلام رسول سعیدی کی محققانہ بحث ملاحظہ کریں جس سے حقیقت واضح ہوجا ئے گی ۔لکھتے ہیں :۔

چونکہ بعض اہل اہوایہ کہتے ہیں کہ امام اعظم کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں ۔اس لئے ہم ذرا تفصیل سے یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ امام اعظم کے پاس احادیث کا وافر ذخیرہ تھا۔ حضرت ملاعلی قاری امام محمد بن سماعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔

ان الامام ذکر فی تصانیفہ بضع وسبعین الف حدیث وانتخب الآثار من اربعین الف حدیث ۔

امام ابوحنیفہ نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث بیان کی ہیں اور چالیس ہزار احادیث سے کتاب الآثار کا انتخاب کیا ہے ۔

اور صدر الائمہ امام موفق بن احمد تحریر فرماتے ہیں :

وانتخب ابوحنیفۃ الاثار من اربعین الف حدیث ۔

امام ابو حنیفہ نے کتاب الاثار کا انتخاب چالیس ہزار حدیثوں سے کیا ہے ۔

ان حوالوں سے امام اعظم کا جو علم حدیث میں تبحر ظاہر ہورہاہے وہ محتاج بیاں نہیں ہے ۔

ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ سترہزار احادیث کو بیان کرنا اور کتاب الآثار کا چالیس ہزار حدیثوں سے انتخاب کرنا چنداں کمال کی بات نہیں ہے ۔ امام بخاری کو ایک لاکھ احادیث صحیحہ اور دولاکھ احادیث غیر صحیحہ یاد تھیں اور انہوں نے صحیح بخاری کا انتخاب چھ لاکھ حدیثوں سے کیا تھا پس فن حدیث میں امام بخاری کے مقابلہ میں امام اعظم کا مقام بہت کم معلوم ہوتا ہے ۔ اسکے جواب میں گزارش ہے کہ احادیث کی کثرت اور قلت درحقیقت طرق اور اسانید کی قلت اور کثرت سے عبارت ہے ۔ایک متن حدیث اگر سو مختلف طرق اور سندوں سے روایت کیا جائے تو محدثین کی اصطلاح میں ان کو سو احادیث قرار دیا جائے گاحالانکہ ان تما م حدیثو ں کا متن واحد ہوگا ۔منکرین حدیث انکار حدیث کے سلسلے میںیہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ تمام کتب حدیث کی روایات کو اگر جمع کیا جائے تو یہ تعداد کروڑوں کے لگ بھگ ہوگی اور حضور کی پور ی رسالت کی زند گی کی شب وروز پر انکو تقسیم کیاجائے تو احادیث حضور کی حیات مبارکہ سے بڑھ جا ئیں گی ۔پس اس صورت میں احادیث کی صحت کیونکر قابل تسلیم ہوگی ۔ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ روایا ت کی یہ کثرت دراصل اسانید کی کثرت ہے ورنہ نفس احادیث کی تعداد چار ہزارچارسو سے زیادہ نہیں ہے ۔

چنانچہ علامہ امیر یمانی لکھتے ہیں : ان جملۃ الاحادیث المسندۃ عن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یعنی الصحیحۃ بلاتکرار اربعۃ الاف واربع مائۃ ۔
بلاشبہ وہ تمام مسند احادیث صحیحہ جو بلا تکرار حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان کی تعداد چار ہزار چار سو ہے ۔

امام اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت ۸۰ھ ہے اور امام بخاری ۱۹۴ھ میں پید اہوئے اور ان کے درمیان ایک سو چودہ سال کا طویل عرصہ ہے اور ظاہر ہے اس عرصہ میں بکثرت احادیث شائع ہو چکی تھیں اور ایک ایک حدیث کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں اشخا ص نے روایت کرنا شروع کردیاتھا ۔امام اعظم کے زمانہ میں راویوں کا اتنا شیوع اور عموم تھا نہیں ، اس لئے امام اعظم اور امام بخاری کے درمیان جو روایت کی تعداد کا فرق ہے وہ در اصل اسانید کی تعداد کا فرق ہے ، نفس روایت نہیں ہے ورنہ اگر نفس احادیث کا لحاظ کیا جائے تو امام اعظم کی مرویات امام بخاری سے کہیں زیادہ ہیں ۔

اس زمانہ میں احادیث نبویہ جس قدر اسانید کے ساتھ مل سکتی تھیں امام اعظم نے ان تمام طرق واسانید کے ساتھ ان احادیث کو حاصل کرلیا تھا اورحدیث واثر کسی صحیح سند کے ساتھ موجود نہ تھے مگر امام اعظم کا علم ا نہیں شامل تھا ۔وہ اپنے زمانے کے تمام محدثین پر ادر اک حدیث میںفائق اور غالب تھے۔ چنانچہ امام اعظم کے معاصر اور مشہور محدث امام مسعر بن کدام فرماتے ہیں : ۔

طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبت واخذ نا فی الزہد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون۔

میں نے امام ابو حنیفہ کے ساتھ حدیث کی تحصیل کی لیکن وہ ہم سب پر غالب رہے اور زہد میں مشغول ہوئے تو وہ اس میں سب سے بڑھ کرتھے اور فقہ میں ان کا مقام تو تم جانتے ہی ہو ۔

نیزمحدث بشربن موسی اپنے استاد امام عبدالرحمن مقری سے روایت کرتے ہیں :۔

وکان اذاحدث عن ابی حنیفۃ قال حدثنا شاہنشاہ ۔

امام مقری جب امام ابوحنیفہ سے روایت کرتے تو کہتے کہ ہم سے شہنشاہ نے حدیث بیان کی۔

ان حوالوں سے ظاہر ہوگیا کہ امام اعظم اپنے معاصرین محدثین کے درمیان فن حدیث میں تمام پر فائق اور غالب تھے ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ان کی نگاہ سے اوجھل نہ تھی ،یہی وجہ ہے کہ ان کے تلامذہ انہیں حدیث میں حاکم اور شہنشاہ تسلیم کرتے تھے ۔اصطلاح حدیث میں حاکم اس شخص کو کہتے ہیں جو حضور کی تمام مرویات پر متناًوسنداً دسترس رکھتاہو ،مراتب محدثین میں یہ سب سے اونچا مرتبہ ہے اور امام اعظم اس منصب پر یقیناً فائز تھے۔ کیونکہ جو شخص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی ناواقف ہو وہ حیات انسانی کے تمام شعبوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایات کے مطابق جامع دستور نہیں بناسکتا ۔

امام اعظم کے محدثانہ مقام پرا یک شبہ کاازالہ: ۔ گزشتہ سطور میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بلاتکراراحادیث مرویہ کی تعداد چارہزار چار سو ہے اور امام حسن بن زیادکے بیان کے مطابق امام اعظم نے جو احادیث بلاتکرار بیان فرمائی ہیں انکی تعداد چار ہزار ہے۔ پس امام اعظم کے بارے میں حاکمیت اور حدیث میں ہمہ دانی کا دعوی کیسے صھیح ہوگا ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ چار ہزار احادیث کے بیان کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ باقی چار سو حدیثوں کا امام اعظم کو علم بھی نہ ہو کیونکہ حسن بن زیاد کی حکایت میں بیان کی نفی ہے علم کی نہیں ۔‘

خیال رہے امام اعظم نے فقہی تصنیفات میں ان احادیث کا بیان کیا ہے جن سے مسائل مستنبط ہوتے ہیں اور جن کے ذریعہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے امت کیلئے عمل کا ایک راستہ متعین فرمایا ہے جنہیں عرف عام میں سنن سے تعبیر کیاجاتا ہے لیکن حدیث کا مفہوم سنت سے عام ہے کیونکہ احادیث کے مفہوم میں وہ روایات بھی شامل ہیں جن میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ، آپ کی قلبی واردات ،خصوصیات ، گذشتہ امتوں کے قصص اور مستقبل کی پیش گوئیاں موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی احادیث سنت کے قبیل سے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ احکام ومسائل کیلئے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

پس امام اعظم نے جن چارہزار احادیث کو مسائل کے تحت بیان فرمایاہے وہ از قبیل سنن ہیں اور جن چارسو احادیث کو امام اعظم نے بیان نہیں فرمایا وہ ان روایات پر محمول ہیں

جواحکام سے متعلق نہیں ہیں لیکن یہاں بیان کی نفی ہے علم کی نہیں ۔‘

فن حدیث میں امام اعظم کا فیضان :۔امام اعظم علم حدیث میں جس عظیم مہارت کے حامل اور جلیل القدر مرتبہ پر فائز تھے اس کالازمی نتیجہ یہ تھا کہ تشنگان علم حدیث کا انبوہ کثیر آپ کے حلقہ ٔ درس میں سماع حدیث کیلئے حاضر ہوتا۔

حافظ ابن عبدالبر امام وکیع کے ترجمے میں لکھتے ہیں :۔

وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ کثیرا ،۔

وکیع بن جراح کو امام اعظم کی سب حدیثیں یادتھیں اور انہوں نے امام اعظم سے احادیث کا بہت زیادہ سماع کیا تھا ۔

امام مکی بن ابراہیم ،امام اعظم ابوحنیفہ کے شاگرد اورامام بخاری کے استاذ تھے اور امام بخاری نے اپنی صحیح میں بائیس ثلاثیات صرف امام مکی بن ابراہیم کی سند سے روایت کی ہیں ۔ امام صدر الائمہ موفق بن احمد مکی ان کے بارے میں لکھتے ہیں :۔

ولزم اباحنیفۃ رحمہ اللہ وسمع منہ الحدیث ۔

انہوں نے اپنے اوپر سماع حدیث کیلئے ابوحنیفہ کے درس کو لازم کرلیا تھا ۔

اس سے معلوم ہو اکہ امام بخاری کو اپنی صحیح میں عالی سند کے ساتھ ثلاثیات درج کرنے کا جو شرف حاصل ہواہے وہ دراصل امام اعظم کے تلامذہ کا صدقہ ہے اور یہ صرف ایک مکی بن ابراہیم کی بات نہیں ہے ۔امام بخاری کی اسانید میں اکثر شیوخ حنفی ہیں ان حوالوں سے یہ آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیاکہ امام اعظم علم حدیث میں مرجع خلائق تھے ،ائمہ فن نے آپ سے حدیث کاسماع کیا اور جن شیوخ کے وجود سے صحاح ستہ کی عمارت قائم ہے ان میں سے اکثر حضرات آپ کے علم حدیث میں بالواسطہ یابلا واسطہ شاگرد ہیں ۔

فقیہ عصر شارح بخاری علیہ رحمۃ الباری تقلیل روایت کا موازنہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔

ہمیں یہ تسلیم ہے کہ جس شان کے محدث تھے اس کے لحاظ سے روایت کم ہے ۔مگر یہ ایساالزام ہے کہ امام بخاری جیسے محدث پر بھی عائد ہے ۔انہیں چھ لاکھ احادیث یاد تھیں جن میں ایک لاکھ صحیح یاد تھیں ۔مگر بخاری میں کتنی احادیث ہیں ۔غور کیجئے ایک لاکھ صحیح احادیث میں سے صرف ڈھائی ہزار سے کچھ زیادہ ہیں ۔کیا یہ تقلیل روایت نہیں ہے ؟ ۔

پھر محدثین کی کوشش صرف احادیث جمع کرنا اور پھیلانا تھا ۔مگر حضرت امام اعظم کا منصب ان سب سے بہت بلند اور بہت اہم اوربہت مشکل تھا ۔وہ امت مسلمہ کی آسانی کیلئے قرآن وحدیث واقوال صحابہ سے منقح مسائل اعتقادیہ وعملیہ کااستنباط اور انکو جمع کرنا تھا ۔مسائل کا استنباط کتنا مشکل ہے ۔اس میں مصروفیت اور پھر عوام وخواص کو ان کے حوادث پر احکام بتانے کی مشغولیت نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ اپنی شان کے لائق بکثرت روایت کرتے ۔

ایک وجہ قلت روایت کی یہ بھی ہے کہ آپ نے روایت حدیث کیلئے نہایت سخت اصول وضع کئے تھے ،اور استدلال واستنباط مسائل میں مزید احتیاط سے کام لیتے ،نتیجہ کے طور پر روایت کم فرمائی ۔

چند اصول یہ ہیں :۔

۱۔ سماعت سے لیکر روایت تک حدیث راوی کے ذہن میں محفوظ رہے ۔

۲۔ صحابہ وفقہاء تابعین کے سواکسی کی روایت بالمعنی مقبول نہیں ۔

۳۔ صحابہ سے ایک جماعت اتقیاء نے روایت کیاہو۔

۴۔ عمومی احکام میں وہ روایت چند صحابہ سے آئی ہو ۔

۵۔ اسلام کے کسی مسلم اصول کے مخالف نہ ہو ۔

۶۔ قرآن پر زیادت یاتخصیص کرنے والی خبرواحد غیر مقبول ہے ۔

۷۔ صراحت قرآن کے مخالف خبر واحد بھی غیر مقبول ہے ۔

۸۔ سنت مشہور ہ کے خلاف خبر واحد بھی غیر مقبول ہے ۔

۹۔ راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو جب بھی غیر مقبول ۔

۱۰۔ ایک واقعہ کے دوراوی ہوں ،ایک کی طرف سے امر زائد منقول ہو اور دوسرا نفی بلادلیل کرے تو یہ نفی مقبول نہیں ۔

۱۱۔ حدیث میں حکم عام کے مقابل حدیث میں حکم خاص مقبول نہیں ۔

۱۲۔ صحابہ کی ایک جماعت کے عمل کے خلاف خبر واحد قولی یاعملی مقبول نہیں ۔

۱۳۔ کسی واقعہ کے مشاہدہ کے بارے میں متعارض روایات میں قریب سے مشاہدہ کرنے والے کی روایت مقبول ہوگی ۔

۱۴۔ قلت وسائط اور کثرت تفقہ کے اعتبار سے راویوں کی متعارض روایات میں کثرت تفقہ کو ترجیح ہوگی ۔

۱۵۔ حدودوکفارات میں خبر واحد غیر مقبول ۔

۱۶۔ جس حدیث میں بعض اسلاف پر طعن ہووہ بھی مقبول نہیں ۔

واضح رہے کہ احادیث کو محفوظ کرنا پہلی منزل ہے ،پھر انکو روایت کرنا اور اشاعت دوسرا درجہ ۔ اور آخری منزل ان احادیث سے مسائل اعتقادیہ وعملیہ کا استنباط ہے ۔اس منزل میں آکر غایت احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے ۔ امام اعظم نے کتنی روایات محفوظ کی تھیں آپ پڑھ چکے کہ اس وقت کی تمام مرویات آپ کے پیش نظر تھیں ۔پھر ان سب کو روایت نہ کرنے کی وجہ استنباط واستخراج مسائل میں مشغولی تھی جیساکہ گذرگیا ۔

اب آخری منزل جو خاص احتیاط کی تھی اسکے سبب تمام روایات صحائف میں ثبت نہ ہوسکیں کہ ان کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔جو معمول بہا تھیں ان کو املا کرایا اور انہیں سے تدوین فقہ میں کام لیا ۔

فقہ حنفی میں بظاہر جو تقلیل روایت نظر آتی ہے اس کی ایک وجہ اور بھی ہے ،وہ یہ کہ امام اعظم نے جو مسائل شرعیہ بیان فرمائے انکو لوگ ہرجگہ محض امام اعظم کا قول سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ۔بلکہ کثیر مقامات پر ایساہے کہ احادیث بصورت مسائل ذکر کی گئی ہیں ۔امام اعظم نے احادیث وآثار کو حسب موقع بصورت افتاء ومسائل نقل فرمایا ہے جس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کہنے والے کا خود اپنا قول ہے حالانکہ وہ کسی روایت سے حاصل شدہ حکم ہوتاہے حتی کہ بعض اوقات بعینہ روایت کے الفاظ کے ساتھ ہوتاہے ۔

امام اعظم کا یہ طریقہ خود اپنا نہیں تھا بلکہ ان بعض اکابر صحابہ کا تھا جو روایت حدیث میں غایت احتیاط سے کام لیتے تھے ،وہ ہر جگہ صریح طور پر حضور کی طرف نسبت کرنے سے احتراز کرتے ۔حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی صراحۃً نسبت کرنے میں ان کی نظر حضور کے اس فرمان کی طرف رہتی تھی کہ:۔

من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔

جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ باندھا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنایا ۔

لہذا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے شعوری یا غیر شعوری طور پر انتساب میں کوتاہی ہوجائے اور ہم اس وعید شدید کے سزاوار ٹھہریں ۔امیر المومنین حضرت عمر فارق اعظم اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس سلسلہ میں سر فہرست رہے ہیں جن کے واقعات آپ نے ابتداء مضمون میں ملاحظہ فرمائے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد حضرت عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں ہرجمعرات کی شام بلاناغہ حضرت ابن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوتا لیکن میں نے کبھی آپ کی زبان سے یہ الفاظ نہیں سنے کہ حضور نے یہ فرمایا۔

ایک شام ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،کہتے ہیں ! یہ الفاظ کہتے ہی وہ جھک گئے میں نے ان کی طرف دیکھا تو کھڑے تھے ،ان کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے ،آنکھوں سے سیل اشک رواں تھا اور گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں ۔یہ آپ کی غایت احتیاط کا مظاہرہ تھا۔

اس وجہ سے آپ کے تلامذہ میں بھی یہ طریقہ رائج رہا کہ اکثر احادیث بصورت مسائل بیان فرماتے اور وقت ضرورت ہی حضور کی طرف نسبت کرتے تھے ،کوفہ میں مقیم محدثین وفقہاء بالواسطہ یابلاواسطہ آپ کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ آپ پڑھ چکے ،امام اعظم کا سلسلہ سند حدیث وفقہ بھی آپ تک پہونچتا ہے لہذا جواحتیاط پہلے سے چلی آرہی تھی اسکو امام اعظم نے بھی اپنایا ہے اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ امام ابوحنیفہ احادیث سے کم اور اپنی رائے سے زیادہ کام لیتے اور فتوی دیتے ہیں ۔

کلمات الثنا: ۔امام اعظم کی جلالت شان اورعلمی وعملی کمالات کو آپکے معاصرین واقران ۔

محدثین وفقہاء ،مشائخ وصوفیاء ،تلامذہ واساتذہ سب نے تسلیم کیا اوربیک زبان بے شمار حضرات نے آپکی برتری وفضیلت کا اعتراف کیا ہے ۔حدیث وفقہ دونوں میں آپکی علو شان کی گواہی دینے میں بڑے بڑوں نے بھی کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں کی ،چند حضرات کے تاثرات ملاحظہ کیجئے ۔

امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔

انکی مجلس میں بڑوں کو چھوٹا دیکھتا ،انکی مجلس میں اپنے آ پ کو جتنا کم رتبہ دیکھتا کسی کی مجلس میں نہ دیکھتا ،اگراسکا اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ یہ کہیںگے کہ میں افراط سے کام لے رہاہوں تومیں ابو حنیفہ پر کسی کو مقدم نہیں کرتا ۔

نیزفرمایا:۔

امام اعظم کی نسبت تم لوگ کیسے کہتے ہو کہ وہ حدیث نہیں جانتے تھے ، ابوحنیفہ کی رائے مت کہو حدیث کی تفسیر کہو ۔اگرابو حنیفہ تابعین کے زمانہ میں ہوتے توتابعین بھی انکے محتاج ہوتے ۔آپ علم حاصل کرنے میں بہت سخت تھے وہی کہتے تھے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،احادیث ناسخ ومنسوخ کے بہت ماہر تھے ۔آپ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں

میں سے ایک نشانی تھے ۔

اگراللہ تعالیٰ نے امام اعظم اورسفیان ثوری کے ذریعہ میری دستگیری نہ کی ہو تی تو میں عام آدمیوں میں سے ہوتا ۔میں نے ان میں دیکھا کہ ہردن شرافت اور خیر کا اضافہ ہوتا ۔

سفیان بن عیینہ نے کہا : ابوحنیفہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم ہیں ،میری آنکھوں نے ان کامثل نہیں دیکھا ۔

مکی بن ابراہیم استاذ امام بخاری فرماتے ہیں ۔امام ابوحنیفہ اپنے زمانے کے اعلم علماء تھے ۔

امام مالک سے امام شافعی نے متعدد محدثین کا حال پوچھا ،اخیر میں امام ابوحنیفہ کو دریافت کیا توفرمایا : سبحان اللہ !وہ عجیب ہستی کے مالک تھے ،میں نے انکا مثل نہیں دیکھا ۔

سعید بن عروبہ نے کہا : ہم نے جو متفرق طور پر مختلف مقامات سے حاصل کیا وہ سب آپ میں مجتمع تھا ۔

خلف بن ایوب نے کہا :اللہ عزوجل کی طرف سے علم حضور کو ملا ،اور حضور نے صحابہ کو ، صحابہ نے تابعین کو اورتابعین سے امام اعظم اور آپ کے اصحاب کو ،حق یہ ہی ہے خواہ اس پر کوئی راضی ہو یاناراض ۔

اسرائیل بن یونس نے کہا: اس زمانے میں لوگ جن جن چیزوں کے محتاج ہیں امام ابوحنیفہ ان سب کو سب سے زیادہ جانتے تھے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود کے پوتے حضرت قاسم فرماتے : امام ابوحنیفہ کی مجلس سے زیادہ فیض رساں اور کوئی مجلس نہیں ۔

حفص بن غیاث نے کہا : امام ابوحنیفہ جیسا ان احادیث کا عالم میں نے نہ دیکھا جواحکام میں صحیح اور مفید ہوں ۔

مسعربن کدام کہتے تھے :مجھے صرف دوآدمیوں پر رشک آتاہے ،ابو حنیفہ پر ان کی فقہ کی وجہ سے ،اور حسن بن صالح پر ان کے زہد کی وجہ سے ۔

ابوعلقمہ نے کہا: میں نے اپنے شیوخ سے سنی ہوئی حدیثوں کو امام ابوحنیفہ پر پیش کیا توانہوں نے ہرایک کا ضروری حال بیان کیا ،اب مجھے افسوس ہے کہ کل حدیثیں کیوں نہیں سنادیں ۔

امام ابویوسف فرماتے : میں نے ابوحنیفہ سے بڑھ کر حدیث کے معانی اور فقہی نکات جاننے والا کوئی شخص نہیں دیکھا ۔جس مسئلہ میں غوروخوض کرتا تو امام اعظم کا نظریہ اخروی نجات سے زیادہ قریب تھا ۔میں آپ کیلئے اپنے والد سے پہلے دعا مانگتا ہوں۔

ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں :امام سفیان امام اعظم کیلئے کھڑے ہوتے تو میں نے تعظیم کی وجہ پوچھی ۔فرمایا: وہ علم میں ذی مرتبہ شخص ہیں ،اگر میں ان کے علم کے لئے نہ اٹھتا تو انکے سن وسال کی وجہ سے اٹھتا ،اگراس وجہ سے نہیں تو انکی فقہ کی وجہ سے اٹھتا ،اور اس کے لئے بھی نہیں تو تقوی کی وجہ سے اٹھتا ۔

امام شافعی فرماتے : تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج میں ،امام ابوحنیفہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو فقہ میں موافقت حق عطاکی گئی ۔

امام یحیی بن معین نے کہا : جب لوگ امام اعظم کے مرتبہ کو نہ پاسکے تو حسد کرنے لگے ۔

امام شعبہ نے وصال امام اعظم پر فرمایا : اہل کوفہ سے علم کے نور کی روشنی بجھ گئی ،اب اہل کوفہ ان کا مثل نہ دیکھ سکیں گے ۔

دائود طائی نے کہا : ہروہ علم جو امام ابوحنیفہ کے علم سے نہیں وہ اس علم والے کے لئے آفت ہے ۔

ابن جریج نے وصال امام اعظم پر فرمایا : کیسا عظیم علم ہاتھ چلاگیا ۔

یزید بن ہارون فرماتے ہیں : امام ابوحنیفہ متقی ،پرہیز گار ،زاہد ،عالم ،زبان کے سچے اور

اپنے زمانہ کے سب سے بڑے حافظ تھے ،میں نے انکے معاصرین پائے سب کویہ ہی کہتے سنا : ابو حنیفہ سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا ۔

فضیل بن عیاض نے فرمایا : ابو حنیفہ ایک فقیہ شخص تھے اور فقہ میں معروف ،انکی رات عبادت میں گذرتی ،بات کم کرتے ،ہاں جب مسئلہ حلال وحرام کا آتاتو حق بیان فرماتے ،صحیح حدیث ہوتی توا س کی پیروی کرتے خواہ صحابہ وتابعین سے ہو ورنہ قیاس کرتے اور اچھا قیاس کرتے ۔

ابن شبرمہ نے کہا: عورتیں عاجز ہوگئیں کہ نعمان کا مثل جنیں ۔

عبدالرزاق بن ہمام کہتے ہیں : ابوحنیفہ سے زیادہ علم والاکبھی کسی کو نہیں دیکھا ۔

امام زفر نے فرمایا : امام ابوحنیفہ جب تکلم فرماتے توہم یہ سمجھتے کہ فرشتہ ان کو تلقین کررہاہے ۔

علی بن ہاشم نے کہا: ابوحنیفہ علم کا خزانہ تھے ، جومسائل بڑوں پر مشکل ہوتے آپ پرآسان ہوتے ۔

امام ابودائود نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رحم فرمائے مالک پر وہ امام تھے ،اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ابوحنیفہ پر وہ امام تھے ۔

یحیی بن سعید قطان نے کہا: امام ابوحنیفہ کی رائے سے بہتر کسی کی رائے نہیں ،

خارجہ بن مصعب نے کہا : فقہاء میں ابوحنیفہ مثل چکی کے پاٹ کے محور ہیں ،یاایک ماہر صراف کے مانند ہیں جوسونے کو پرکھتا ہے ۔

عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں : میں نے حسن بن عمارہ کودیکھا کہ وہ امام ابوحنیفہ کی رکاب پکڑے ہوئے کہہ رہے تھے : قسم بخدا! میں نے فقہ میں تم سے اچھا بولنے والا صبرکرنے والااورتم سے بڑھکر حاضر جواب نہیں دیکھا ،بیشک تمہارے دور میں جس نے فقہ میں لب کشائی کی تم اسکے بلا قیل وقال آقاہو ۔جو لوگ آپ پر طعن کرتے ہیں وہ حسدکی بناپر کرتے ہیں ۔

ابومطیع نے بیان کیاکہ میں ایک دن کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھا ہواتھا کہ آپکے پاس مقاتل بن حیان ،حماد بن سلمہ ،امام جعفر صادق اوردوسرے علماء آئے اورانہوں نے امام ابوحنیفہ سے کہا : ہم کویہ بات پہونچی ہے کہ آپ دین میں کثرت سے قیاس کرتے ہیں ۔اسکی وجہ سے ہم کو آپکی عاقبت کا اندیشہ ہے ،کیونکہ ابتداء جس نے قیاس کیا ہے وہ ابلیس ہے ۔امام ابوحنیفہ نے ان حضرات سے بحث کی اور یہ بحث صبح سے زوال تک جاری رہی اوروہ دن جمعہ کا تھا۔

حضرت امام نے اپنا مذہب بیان کیا کہ اولاًکتاب اللہ پر عمل کرنا یوں پھر سنت پر ،اور پھر حضرات صحابہ کے فیصلوں پر ،اور جس پر ان حضرات کا اتفاق ہوتاہے اسکومقدم رکھتا ہوں اوراسکے بعد قیاس کرتا ہوں ۔یہ سنکر حضرات علماء کھڑ ے ہوئے اورانہوں نے حضرت امام کے سراور گھٹنوں کوبوسہ دیا اورکہا: آپ علماء کے سردارہیں اورہم نے جو کچھ برائیاں کی ہیں اپنی لاعلمی کی وجہ سے کی ہیں ۔آپ اسکو معاف کردیں ۔آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہماری اورآپ سب کی مغفرت فرمائے ۔آمین ۔

امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :میں امام اوزاعی سے ملنے ملک شام آیا اور بیروت میں ان سے ملا۔انہوں نے مجھ سے کہا اے خراسانی !یہ بدعتی کون ہے جوکوفہ میں نکلا ہے اور اسکی کنیت ابوحنیفہ ہے ،میں اپنی قیام گاہ پر آیا اورامام ابوحنیفہ کی کتابوں میں مصروف ہوا ،چندمسائل اخذکرکے پہونچا،میرے ہاتھ میں تحریردیکھ کر پوچھا کیاہے ،میں نے پیش کیا ،تحریر پڑھ کر بو لے ،یہ نعمان بن ثابت کون ہیں ؟میں نے کہا: ایک شیخ ہیں جن سے عراق میں میری ملاقات ہوئی ۔فرمایا: یہ مشائخ میں زیادہ دانشمند ہیں ۔ان سے علم میں اضافہ کرو ،میں نے ان سے کہا : یہ

ہی وہ ابوحنیفہ ہی جن سے آپ نے مجھے روکا تھا ۔

امام اعظم سے اسکے بعد مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوئی ،مسائل میں گفتگوہوئی ،جب ان سے میری ملاقات دوبارہ ہوئی توامام اوزاعی فرماتے تھے ،اب مجھے انکے کثرت علم وعقلمندی پررشک ہوتاہے۔میں انکے متعلق کھلی غلطی پرتھا ،میں اللہ سے استغفار کرتاہوں ۔

مدینہ منورہ میں حضرت امام باقر سے ملاقات ہوئی ، ایک صاحب نے تعارف کرایا ، فرمایا : اچھا آپ وہی ہیں جو قیاس کر کے میرے جدِ کریم کی احادیث رد کرتے ہیں ۔

عرض کیا : معاذاللہ ، کون رد کر سکتا ہے ۔حضور اگر اجازت دیں تو کچھ عرض کروں ۔ اجازت کے بعد عرض کیا : حضور مرد ضعیف ہے یا عورت ؟

ارشاد فرمایا : عورت ۔

عرض کیا : وراثت میں مرد کاحصہ زیادہ ہے یاعورت کا ؟

فرمایا : مرد کا ۔

عرض کیا : میں قیاس سے حکم کرتا تو عورت کو مرد کا دونا حصہ دینے کا حکم دیتا ۔

پھر عرض کیا : نماز افضل ہے یا روزہ ؟

فرمایا : نماز ۔

عرض کیا : قیاس یہ چاہتا ہے کہ حائضہ پر نماز کی قضا بدرجہٗ اولی ہونی چاہیے ، اگر قیاس سے حکم کرتا تو یہ حکم دیتا کہ حائضہ نماز کی قضا کرے ۔

پھر عرض کیا : منی کی ناپاکی شدید ترہے یا پیشاب کی ؟

فرمایا : پیشاب کی ۔

عرض کیا : قیاس کرتا تو پیشاب کے بعد غسل کا حکم بدرجۂ اولی دیتا ۔

اس پر امام باقر اتنا خوش ہوئے کہ اٹھ کر پیشانی چوم لی ۔ اس کے بعد ایک مدت تک حضرت امام باقر کی خدمت میں رہ کر فقہ و حدیث کی تعلیم حاصل کی ۔

امام جعفر صادق نے فرمایا : یہ ابوحنیفہ ہیں اور اپنے شہر کے سب سے بڑے فقیہ ہیں ۔

یہ ائمہ وقت اوراساطین ملت توامام اعظم کے علم و فن اور فضل و کمال پر کھلے دل سے شہادت پیش کرتے ہیں اور آج کے کچھ نام نہاد مجتہدین وقت نہایت بے غیرتی کا ثبوت دیتے ہوئے کہتے پھرتے اور کتابوں میں لکھتے ہیں : امام ابوحنیفہ کا حشر عابدین میں تو ہو سکتا ہے لیکن علماء و ائمہ میں نہیں ہو گا ۔ نعوذباللہ من ذلک ۔


حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 96 ہجری کو 16 سال کی عمر میں والد گرامی (حضرت ثابت رضی اللہ عنہ) کے ساتھ حج کیا ، اس دوران میں نے ایک شیخ کو دیکھا جن کے ارد گرد لو گ جمع تھے ، میں نے والدِ محترم سے عرض کی : یہ ہستی کون ہے ؟ انہوں  نے بتایا : یہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ ہیں ۔ میں نے عرض کی : ان کے پاس  کون سی چیز ہے ؟ فرمایا : ان کے پاس نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سنی ہوئی احادیثِ مبارکہ ہیں ۔ یہ سُن کر آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور صحابی رسول سے براہِ راست ایک حدیث پاک سننے کا شرف حاصل کیا ۔ (اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ ، صفحہ 18)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری و باطنی حسن  وجمال  سے نوازا تھا ۔ آپ کا قَد دَرمیانہ اور چہرہ نہایت حسین  تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ عمدہ لباس اور جوتے استعمال فرماتے ، کثرت سے خوشبو استعمال فرماتے اور یہی خوشبو آپ کی تشریف آوری کا پتہ دیتی ۔ آپ کی زبانِ مبارک سے ادا ہونے والے کلمات پھول کی پتیوں سے زیادہ نرم ہوتے اورلفظوں کی مٹھاس کانوں میں رَس گھول  دیتی ، آپ کو کبھی غیبت کرتے نہیں سنا گیا ۔

ایک مرتبہ حضرت ابن مبارک  رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے حَضْرت سُفْیان ثوری  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ سے آپ کے اِس وصف کا تذکرہ یوں کیا : امامِ اعظم ابُوحنیفہ رضی اللہ عنہ غیبت سے اتنے دُور رہتے ہیں کہ میں نے کبھی ان کو دُشْمن کی غیبت کرتے ہوئے بھی نہیں سُنا ۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ صفحہ ننبر 42،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ رضائے الٰہی کو ہر شئی پر ترجیح دیتے ۔ (تہذیب الاسماء، 2/503، 506)(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص42)

آپ رضی اللہ عنہ علما و مشائخ کی اعانت پر زرِّ کثیر خرچ فرماتے ۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ صفحہ 42)

آپ رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر شاگرد امام ابوىوسف رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : امام اعظم رضی اللہ عنہ 20 سال تک میری اور میرے اہل و عیال کى کفالت فرماتے رہے ۔ (الخیرات الحسان ، صفحہ 57،چشتی)

آپ کسى کو کچھ عطا فرماتے اور وہ اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتا تو اس سے فرماتے : اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرو کیونکہ یہ رزق اللہ  تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا ہے ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 57)

امامِ اعظم رضی اللہ عنہ زہد و تقویٰ کے جامع ، والدہ کے فرمانبردار ، امانت و دیانت میں یکتا ، پڑوسیوں سےحسنِ سلوک میں بے مثال تھے ، بے نظیر سخاوت اورمسلمانوں  کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی جیسے کئی اوصاف نے آپ کی ذات کو نمایاں کر دیا تھا ۔ (اخبار الامام اعظم ابی حنیفہ صفحہ 41 تا 49 ، 63)(تبییض الصحیفۃ صفحہ 131)

آپ رضی اللہ عنہ کے حسنِ اخلاق سے متعلق حَضْرت بُکَیْر بن مَعْرُوْف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : میں نےاُمَّتِ مصطفےٰ میں امام ابُو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ حُسْنِ اَخْلاق والا کسی کو نہیں دیکھا ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 56،چشت)

حضرت شفیق بلخی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ ایک شخص آپ کو دیکھ کر چُھپ گیا اور دوسرا راستہ اختیار کیا۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اسے پُکارا ، وہ آیا تو پوچھا کہ تم نے راستہ کیوں بدل دیا ؟ اور کیوں چھپ گئے ؟ اس نے عرض کی : میں آپ کا مقروض ہوں ، میں نے آپ کو دس ہزار درہم دینے ہیں جس کو کافی عرصہ گزر چکا ہے اور میں تنگدست ہوں ، آپ سے شرماتا ہوں ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہے ، جاؤ ! میں نے سارا قرض تمہیں معاف کر دیا ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 57)

عبادت و ریاضت امامِ اعظم رضی اللہ عنہ دن بھر علمِ دین کی اِشاعت ، ساری رات عبادت و رِیاضت میں بَسر فرماتے ۔ آپ نے مسلسل تیس سال روزے رکھے ، تیس سال تک ایک رَکعَت میں قراٰنِ پاک خَتْم کرتے رہے ، چالیس سال تک عِشا کے وُضُو سے فجر کی نَماز ادا کی ، ہر دن اور رات میں  قراٰن پاک ختم فرماتے ، رمضان المبارک میں 62 قراٰن ختم فرماتے اور جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزاربار قراٰنِ پاک خَتْم کیے ۔(الخیرات الحسان صفحہ 50)

آپ نے 1500 درہم خرچ کرکے ایک قیمتی لباس سلوا رکھا تھا جسے آپ روزانہ رات کے وقت زیبِ تن فرماتے اور اس کی حکمت یہ ارشاد فرماتے : اللہ تعایٰ کےلیے زِینت اختیار کرنا ، لوگوں کےلیے زِینت اختیار کرنے سے بہتر ہے ۔ (تفسیرروح البیان ،3/154)

رات میں ادا کی جانے والی اِن نمازوں میں خوب اشک باری فرماتے ، اس گریہ و زاری کا اثر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارکہ پر واضح نظر آتا ۔ (اخبارا بی حنیفۃ و اصحابہ صفحہ 47)(الخیرات الحسان صفحہ 54)

آپ نے حُصُولِ رزقِ حلَال کےلیے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا اور لوگوں سے بھلائی اور شَرعی اُصُولوں کی پاسداری کا عملی مظاہرہ کر کے قیامت تک کے تاجروں کےلیے ایک روشن مثال قائم فرمائی ۔ (تاریخ بغداد، 13/356)

علمِ فقہ  کی تدوین ، ابوابِِ فقہ کی ترتیب اور دنیا بھر میں  فقہ حنفی کی پذیرائی  آپ کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہے ۔ (الخیرات الحسان صحہ 43)

وصال  ومدفن 150 ہجری  کو عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کی پاداش میں آپ رضی اللہ عنہ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا ۔ آپ  کے جنازے میں تقریباً پچاس ہزار افراد نے شرکت کی ۔

لاکھوں شافعیوں کے امام حضرت سیّدنا امام شافِعی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  نے بغداد میں قیام کے دوران ایک معمول کا ذکر یوں فرمایا : میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے برکت حاصِل کرتا ہوں ، جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رَکعَت پڑھ کر ان کی قَبْرِمبارک کے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاس اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں تو میری حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے ۔ آج بھی بغداد شریف میں آپ کا مزارِ فائضُالاَنْوار مَرجَعِ خَلائِق ہے ۔(مناقب الامام الاعظم 2/216)(سیراعلام النبلاء، 6/537)(اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ صدحہ نمبر 94،چشتی)(الخیرات الحسان صفحہ 94)

اسلامی معاشرہ میں تصوف روز اول سے مو جود ہے اور ان شا ء اللہ رہتی دنیا تک پوری آب و تاب کے ساتھ مطلع حیات پر جگمگا تا رہے گا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ تصوف اسلام کی خالص ترین اور پاکیزہ ترین تعبیر ہے سچا تصوف انسان کو حقیقت کا راستہ دکھا تاہے اللہ ورسول کے راستے کا علم عطا کرتا ہے،صوفیا کا تعلق اسلام کے دور اول سے ہی ہے، اسی سلسلے میں سید الطا ئفہ حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کا یہ فرمان ہے کہ:’’ ہمارے طریقے کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے اور ہر وہ طریق جو کتاب و سنت کے خلاف ہو باطل اور مردود ہے۔ ‘‘ آپ کا یہ بھی فرمان ہے’’جس شخص نے حد یث نہیں سنی اور فقہا کے پاس نہیں بیٹھا اور با ادب حضرا ت سے ادب نہیں سیکھا وہ اپنے پیروں کاروں کو بگاڑ دیگا۔ ‘‘ جب تک انسان علم سے آشنا نہیں ہو گا تواللہ و رسول کے احکام کی پیر وی کیسے کرے گا اور اسلامی زندگی کے آداب کو کیسے جا نے گا اسی لئے رب تبا رک وتعالیٰ کا فر مان عالیشان ہے۔ فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ ا لذِّ کْرِاِ نْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوُنَ ۔ (القرآن،سورہ نحل ۱۶، آیت۴۳)۔ تر جمہ : تو اے لو گو! علم والوں سے پوچھو اگر تمھیں علم نہیں ۔ علم ہی کی بنیاد پرانسان اللہ و رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اسکی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے اور دین اسلا م میں اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے، حلال و حرام میں امتیاز برت سکتا ہے ۔ اسی لیے قر آن کریم بھی بتا رہا ہیقُلْ ھَلْ یَسْتَوِی ا لَّذِ یْنَ یَعْلَمُوْ نَ وَ الَّذِ یْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ (القرآن،سورہ زمر۳۹،آیت۹) ۔ تر جمہ : تم فر ما ؤ کیا برابر ہیں جاننے والے (یعنی علم والے) اور انجان (یعنی ان پڑھ) ۔ جا ننے والا اور نہ جاننے والا دونوں برابر نہیں ہو سکتے اللہ جسے چا ہتا ہے اپنے فضل سے نواز تا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَا للّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَا للّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (القرآن،سورہ بقر۲، آیت۱۰۵) ۔ تر جمہ : اور اللہ اپنی ر حمت سے خاص کرتا ہے جسے چاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نواز تا ہے ہر زمانہ ہر دور میں اللہ اپنے نیک بندوں کو علم وفضل کی د ولت سے نواز کر لوگوں کی ہدایت کے لیے چن لیتا ہے انھیں نیک بندوں میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ ہیں (ابوحنیفہ : رحمة اللہ علیہ:۶۹۹۔ ۷۶۷ء۔ ۸۰۔ ۱۵۰ھ) آپ سنی حنفی فقہ اسلامی کے بانی تھے آپ ایک تابعی، عالم دین تھے، مجتہد اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کر نے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے ۔

حضرت امام ا عظم ابو حنیفہ رحمة اللہ کے فضا ئل ومناقب میں بڑے بڑے بزر گوں نے کتا بیں لکھیں ہیں مشہور مفسر قرآن (جن کی تفسیر تمام مکاتب فکر کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے) تفسیر جلالین شریف کے مصنف علامہ جلال الد ین سیوطی (۸۴۹۔ ۹۱۱ھ) ۔ (تبیض الصحیفۃ فی منا قب الا مام ابی حنیفہ،چشتی) میں بہت خوب صورت باتیں لکھی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں اہل علم ضرور پڑھیں ،آپ کانام نعمان بن ثابت زوتا اور کنیت ابو حنیفہ تھی۔ آپ امام اعظم کے لقب سے یاد کئے جا تے ہیں آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مر تبے پر فائز ہیں ۔ اسلامی فقہ میں امام اعظم ابوحنیفہ کا پایا بہت بلند ہے، آپ نہایت ذہین، ا نتہائی قوی حافظہ (memory) کے ما لک تھے آپ کا زہدو تقویٰ، فہم وفراست اور حکمت ودانائی بہت مشہور تھی، امام اعظم ابو حنیفہ دن میں علم دین پھیلا تے اور رات میں اللہ کی عبادت کرتے انکی حیات مبارکہ کے لا تعداد گوشے ہیں ، ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں تو دوسری طرف زہدو تقویٰ وطہارت کے پہاڑ ہیں آپ اکثر خوش لباس رہتے، گفتگو نہایت شیریں فر ماتے او ر فصاحت تو آپ کی گھٹی میں تھی بے شما ر فضائل و منا قب ہیں چھوٹے سے مقالہ میں لکھنا ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ چار امام (۱) امام اعظم ابو حنیفہ(۲) امام مالک(۳) امام شافعی(۴) امام احمد بن حنبل۔ دین اسلام کے سنگ میل ہیں ، اسلام کے ستون ہیں اور اہلسنت و جماعت کے علماء میں سے ہیں ، ان کے فضائل ومناقب بہت مشہور ہیں کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں ، ہر مذ ہب کے علماء نے اپنے اپنے امام کا تذکرہ کیا ہے، ان کی تعریفوں میں مبالغہ کیا ہے اور اپنی عقیدت کے مطابق ان کے منا قب بیان کئے ہیں ،بہت سی کتا بوں میں امام اعظم کے مناقب مو جود ہیں ۔ حضرت امام اعظم کا گزر بسر ان کی اپنی کمائی اور رزق حلال سے تھی علماء مشائخ پر بہت خر چ فرماتے تھے علم سیکھنے سکھا نے کا بہت زیا دہ ذوق تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ کے اسا تذہ کی تعداد چار ہزار سے زیادہ تھی،علم الادب، علم ا لا نساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد فقہ سے فیضیاب ہوئے۔ آپ علم فقہ کے عالم ہیں۔ آپ کے شیوخ اسا تذہ کی تعداد چا ر ہزار بتائی جا تی ہے، جن سے وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما کی شا گر دی کا شرف اور فخر بھی آپ کو حاصل ہے، امام اعظم ابو حنیفہ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام اعظم کا قول ہے کہ’’ میں نے کوفہ و بصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفا دہ نہ کیا ہو‘‘۔ مشہورمجذوب ( خدا کی محبت میں غرق رہنے والا) صوفی بزرگ حضرت بہلول دانا رضی اللہ عنہ بھی آپ کے استاد تھے امام اعظم ابو حنیفہ آپ کے پاس تعلیم حاصل کر نے جاتے رات را ت بھر ان کی خد مت میں رہکر تصوف کے راز جانتے اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ تصوف کے کس قدر اعلیٰ مقام پر فائز ہیں شاگر دوں کی تعداد لا کھوں میں ہے،آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلے کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں ازدھام ہو تا اور حاضرین میں اکثریت اس دور کے جید علما کرام کی ہوتی علامہ کرو ری نے آپ کے خاص شاگر دوں کی تعداد ایک ہزار فقہا، محد ثین، صوفیا ومشائخ شمار کیا ہے یہ ان لا کھوں انسانوں کے علاوہ تھے جو ان کے درس میں شامل ہوتے تھے آپ کے شاگر دوں میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المر تبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے تھے وہ آپ کے مشیر خاص تھے، ان میں چند کے نام یہ ہیں امام حماد بن ابی حنیفہ، امام زفر بن بذیل، امام عبداللہ بن مبارک، امام وکیع بن براح، امام داؤدبن یفر، امام ابو یوسف، اسکے علاوہ قر آن مجید کے بعد اہلسنت و الجما عت کی صحیح ترین کتاب صحیح بخا ری کے مولف حضرت امام محمد اسما عیل بخاری و بڑے بڑے محد ثین کرام آپ کے شاگر دوں کے شاگرد تھے، یہ آپ کے علم کا حال تھا۔آ پ تحفے تحائف اور عطیات قبول نہیں فر ماتے، جب اپنے گھر والوں کے لیے کوئی چیز خرید تے تو بزرگ علما کے لیے بھی خرید تے، علما کو بہت نواز تے، علما کے نواز نے کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے شافیعہ کے مقتدا شیخ شہاب الدین احمد بن حجر ہیتمی مکی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’قلا ئد العیقان فی منا قب النعمان‘‘ میں لکھتے ہیں ، مروی ہے کہ آپ نے اپنے بیٹے حماد کو ایک استاد کے پاس بھیجا، استاد نے انھیں پڑ ھایا’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘امام اعظم نے انھیں پانچ سو درہم بھجوائے، استاد نے کہا کہ یہ تو بہت زیادہ ہیں ( ابھی میں نے پڑھا یا ہی کیا ہے؟) امام اعظم ناراض ہو گئے اور اپنے بیٹے کو روک لیا اور فر مایا: تمہارے نزدیک قر آ ن پاک کی کچھ قدرو منز لت نہیں ہے( ایسے شخص سے اپنے بیٹے کو نہیں پڑھا سکتا)۔تصوف پر آپ کا عمل:آپ کا تصوف پر عمل کس قدر تھا اس واقعہ سے اندازہ لگائیں جامع الا صول میں ہے اور بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جب آپ نے حج کیا تو بیت اللہ شریف کے دربانوں کو نذرانہ پیش کیا اور انتہائی ادب سے بیت اللہ شریف کے اندر نماز پڑھنے کی اجا زت مانگی آپ کو اجازت مل گئی، چنانچہ آپ نے ایک پا ؤں پر کھڑے ہو کر آدھا قرآن پاک پڑ ھا اور باقی آدھا قرآن پاک دوسرے پا ؤں پر کھڑے ہو کر پڑھا، اور دعا کی’’اے میرے رب! میں نے تجھے پہچا نا جیسے کہ تیری معر فت کا حق ہے، لیکن تیری عبادت کا جو حق ہے وہ میں نہیں ادا کر سکا‘‘ یہ معر فت خدا کا کمال تھا کہ آپ نے اپنی عبا دت کو نا قص جا نا، بیت اللہ شریف کے ایک کونے سے آ واز آئی،’’ تم نے خوب معرفت حاصل کی اور اخلاص کے ساتھ عبادت کی، ہم نے تمھیں اور قیامت تک تمھا رے مذہب والوں کو بخش دیا‘‘(عقو دالجمان(حید رآبا د دکن) ص ۱۲۰ مصنف محمد یو سف صالحی،فقہ وتصوف، شاہ عبدالحق دہلوی رحمتہ اللہ ص۲۱۳،۲۱۲،چشتی)

آپ تصوف کے پیکر تھے آج کل کے نام نہاد صو فیا عبادات میں پابند نہیں اور طرح طرح کی تا ویلیں پیش کر تے ہیں کہ صو فیا کی عبادت فلاں فلاں جگہ ہوتی ہے سب عیاری ومکاری ہے،صو فیا ئے کرا م تو اللہ والے ہوتے ہیں شریعت مطہرہ کی پابندی میں اپنی عا فیت کی راہ کھوجتے ہیں ۔ آپ کے سوانح نگاروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ نے عشاء کے وضو سے چالیس سال تک فجر کی نماز ادا کی، اور تیس سال تک (ایام ممنوعہ کے علاوہ) روزہ دار رہے، اکثر راتوں میں ایک رکعت میں قرآن پاک ختم کیا کر تے تھے، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس جگہ آپ کی وفات ہوئی وہاں آپ نے سات ہزار مر تبہ قرآن پاک ختم کیا تھا، رمضان المبا رک کے ہر دن اور رات میں ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے، عید کے دن دو مر تبہ ختم قر آن فر ماتے، ہر سال حج کیا کرتے، اس طرح آپ نے ۵۵ حج کیے ۔

حضرت امام اعظم انتہائی درجے کے صابر اور حلیم تھے، لوگوں کی ایذا رسانی پر صبر وحلم کا مظاہرہ فرماتے۔ یزید بن ہا رون کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ صبر کر نے والا کوئی نہ دیکھا، جب آپ کو اطلاع ملتی کی فلاں شخص نے آپ کی برائی بیان کی ہے تو آپ اسے نر می سے پیغام بھیجتے کہ بھائی اللہ تعالیٰ تمھاری مغفرت فر مائے، میں نے تجھے اللہ کے سپرد کیا، وہ جانتا ہے کہ تم نے غلط بات کی۔ آج کے صو فیا کے لئے آپ کا کر دار مشعل راہ ہے آج تو زرہ زرہ سی بات پر اپنے مخا لفوں کے لیے بدعا کر نے کا رجحان عام ہو گیا ہے جو کی انتہائی فکر اور شرم کی بات ہے۔امانت ودیانت میں آ پ کا مقام: آپ بہت اما نت دار تھے امانت کو ہر بات میں تر جیح دیتے تھے اگر اللہ کی را ہ میں ان پر تلواریں لہر ائی جائیں تو انھیں بر داشت کر لیتے، کہتے ہیں ان کے زمانے میں ایک بکری چوری ہو گئی، امام اعظم نے پو چھا کہ بکری کی عمر عام طور پر کتنی ہو تی ہے؟ بتایا گیا چار سال تک بکری کا گوشت نہیں کھایا( مبادا اس میں چوری کا گوشت نہ کھا جا ؤں ۔

معانی ابن عمران موصلی سے منقول ہے کہ امام ابو حنیفہ میں دس صفات تھیں ، جس شخص میں ان میں سے ایک صفت بھی ہو گی وہ اپنے قبیلے کا سردار اور اپنی قوم کا سردار ہو گا،۱) پر ہیز گاری، ۲) سچائی، ۳ ) فقاہت، ۴ )لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، ۵) سچی مروت، ۶ )کچھ سنا اس کیطرف متوجہ ہو نا، ۷ ) طویل خا موشی، ۸ ) پریشان لو گوں کی مدد کر نا چاہے وہ دوست ہو یا دشمن، ۹ )صحیح بات کہنا، ۱۰) سخاوت۔ ابراھیم بن سعیدی جو ہری سے مر وی ہے کہ میں ایک دن امیر المو منین ہا رون رشید کے پاس تھا ان کے پاس امام ابو یوسف تشریف لائے، امیرا لمومنین نے کہا، یو سف! مجھے امام ابو حنیفہ کے اخلاق کے بارے میں بتائیں ، اما م ابو یوسف نے فر مایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فر ماتا ہے:مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِ لَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌَ۔ (القرآن،سورہ ق ۵۰، آیت۱۸)تر جمہ: کو ئی بات زبان سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک محافظ تیار ہوتاہے،۔  اور یہ ہربات کر نے والے کے پاس ہو تا ہے، امام اعظم ابو حنیفہ کے بارے میں میرا علم یہ ہے کہ * وہ اللہ تعالیٰ کے حرام کئے ہوئے کا موں سے شدت کے ساتھ منع کر نے والے تھے* اللہ تعالیٰ کے دین کی جو بات ان کے علم میں نہ ہوتی اسے کہنے سے سخت پر ہیز کرتے تھے* وہ اس بات کو محبوب رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور نا فر مانی نہ کی جائے* وہ دنیا کے معاملے میں دنیا سے دور دور الگ تھلگ رہتے تھے* دنیا کی کسی چیز میں دلچسپی نہیں لیتے تھے چاہے وہ قیمتی ہو یا معمولی* ان کی خا موشی طویل ہوتی تھی ہر وقت غور و فکر میں مصروف رہتے تھے* ان کا علم بہت وسیع تھافالتو لغو گفتگو با لکل نہیں کرتے تھے ان سے کوئی علمی مسئلہ پو چھا جاتا تو اگر انھیں اس مسئلے کا علم ہوتا تو اس پر گفتگو فر ماتے اور جو کچھ سنا ہو بیان کردیتے ورنہ خاموش رہتے* وہ اپنی جان اور دین کی حفاطت کرتے تھے* علم اور مال کثرت سے خرچہ کرتے تھے* اپنی ذات اور اپنی دولت کی بنیاد پر سب لو گوں سے بے نیاز رہتے تھے* لا لچ کی طرف میلان نہیں رکھتے تھے* غیبت سے یکسر دور تھے اور کسی کا ذکر سوائے بھلائی کے نہیں کرتے تھے۔ ہارون رشید نے کہا کہ صالحین(اولیائے کرام) کے اخلاق ہیں پھر منشی کو کہا یہ صفات تحریر کرکے میرے بیٹے کو پہنچا دو کہ وہ ان کا مطالعہ کرے،پھر اپنے بیٹے کو کہا ان اوصاف کو یاد کر لو، میں تم سے سنوں گا۔

بیان کیا گیا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ کے بیان کردہ مسائل کی تعداد پانچ لاکھ ہے ان کے شا گردوں کی تصانیف سے اس کی تا ئید ہوتی ہے، سب سے پہلے آ پ نے کتا ب الفرائض کی بنیادرکھی،احکام استنباط کیا، اجتہاد کے فوائد اور فقہ کے اصول وضع کئے، یہ سب ان سے منقول اور مروی ہے پھر ان کے شاگردوں نے ان اصول کی تحریر اور شرح کا کام اس حد تک پہنچا دیا کہ اس پر اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ ابن ہبیرہ نے امام اعظم کو کوفہ کا قا ضی بنا نا چاہا تو آپ نے انکا ر کر دیا اور فر مایا: اللہ کی قسم اگر مجھے قتل بھی کردے تو میں یہ منصب قبول نہیں کروں گا، آپ کو کہا گیا کہ وہ محل تعمیر کر نا چاہتا ہے،آپ اینٹوں کی گنتی قبول کر لیں ، امام اعظم نے فر مایا: کہ اگر وہ مجھے کہے کہ میں اسکے لئے مسجد کے دروازے ہی گن دوں تو میں نہیں گنوں گا ۔ (دیکھیے ذیل الجواہر المضیہ جلد ۲ صفحہ ۵۰۵،چشتی)

امام علامہ محمد بن یو سف صا لحی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ خلیفہ ابو جعفر منصور نے امام اعظم کو کو فہ سے بغداد بلایا ہی اسی لیے تھا کہ انھیں شہید کر دے، امام اعظم ابو حنیفہ لوگوں می بہت معزز تھے اور ان کی بات سنی جاتی تھی، ان کے پاس مال تجارت کی بھی فراوانی تھی، ابو جعفر کو سید ابراھیم کی طرف ان کے میلان سے خوف محسوس ہوا، چنانچہ اس نے بلا وجہ انھیں قتل کر نے کی جر اٗت تو نہ کر سکا، البتہ انھیں قاضی بننے کی پیش کش کی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امام اعظم ابو حنیفہ یہ منصب قبول نہیں کریں گے،آپ نے انکار کیا تو آپ کو قید کردیا اور اس نے بہانے سے انھیں زہر دیکر شہید کر دیا ۔ (عقو دالجمان صفحہ ۳۵۹)(فقہ و تصوف صفحہ ۲۸۲)

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر جرح کی حقیقت غیر مقلدین کی جہالت کا جواب : ⏬

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بعض سوانح نگاروں نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف عقائد و فروعات سے متعلق بعض ایسی باتیں نقل کی ہیں جن سے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ بالکل بری ہیں ، بہت سے منصف اہلِ قلم نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے دفاع کیا ہے اور اس کے جوابات لکھے ہیں ، امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف خلق قرآن ، قدر و  ارجاء وغیرہ کے الزامات لگائے گئے ہیں ، شیخ طاہر پٹنی صاحب ”مجمع البحار“ اس کے متعلق فرماتے ہیں : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف ایسے اقوال منسوب کیے گئے ہیں جن سے ان کی شان بالاتر ہے ،وہ اقوال خلق قرآن ، قدر ، ارجا ، وغیرہ ہیں ، ہم کو ضرورت نہیں کہ ان اقوال کے منسوب کرنے والوں کا نام لیں ، یہ ظاہر ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا دامن ان سے پاک تھا ، الله تعالیٰ کا ان کو ایسی شریعت دینا جو سارے آفاق میں پھیل گئی اور جس نے روئے زمین کو ڈھک لیا اور ان کے مذہب وفقہ کو قبول عام دینا ان کی پاک دامنی کی دلیل ہے ، اگر اس میں الله تعالیٰ کا سر خفی نہ ہوتا نصف یا اس سے قریب اسلام ان کی تقلید کے جھنڈے کے نیچے نہ ہوتا ۔ (مجمع البحار)

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر جس طرح کا بھی جرح کیا گیا ہے اس کی حقیقت معاصرانہ چپقلش ، غلط فہمی اور جہالت ، یا تعصب و حسد ہے ، ورنہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی زندگی ان الزامات سے آئینہ کی طرف صاف و شفاف ہے ۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جن جن حضرات نے کلام کیا ہے یا تو وہ محض تعصب اور عناد وحسد کی پیداوار ہے ، جس کی ایک پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں ہے اور بعض حضرات نے اگرچہ دیانةً کلام کیا ہے ، مگر اس رائے کے قائم کرنے میں جس اجتہاد سے انہوں نے کام لیا ہے وہ سرسرا باطل ہے ، کیوں کہ تاریخ ان تمام غلط فہمیوں کو بیخ وبن سے اکھاڑ رہی ہے ، اس لیے ان حوالجات سے مغالطہ آفرینی میں مبتلا ہونا یا دوسروں کو دھوکہ دینا انصاف و دیانت کا جنازہ نکالنا اور محض تعصب اور حسد وغیبت جیسے گناہ میں آلودہ ہونا ہے ۔

خطیب بغدادی نے عبد بن داؤد کے حوالے سے نقل کیا ہے : ”الناس فی أبی حنیفة رجلان : جاھل بہ ، و حاسد لہ ۔ “امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں یا تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے فضل وکمال سے ناواقف ہیں یا ان سے حسد کرتے ہیں ۔ (تاریخ بغداد:13/346،چشتی)

خطیب بغدادی کی جرح کی حقیقت : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر جن لوگوں نے جرح کی ہے اور امام صاحب رضی اللہ عنہ کی طرف مطاعن و معایب کو منسوب کیا ہے اس میں سرِ فہرست خطیب بغدادی ہیں ، بعد میں زیادہ تر حضرات نے خطیب کی عبارتوں سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن خطیب کے جرح کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، اس سلسلے میں بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ خطیب بغدادی نے مدح و ذم کی تمام روایات کو ذکر کر کے اپنے مؤرخانہ فریضہ کو انجام دیا ہے ، اس میں انہوں نے روایت کی صحت وغیرہ پر زور نہیں دیا ہے ، خود خطیب بغدادی ان کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی یہ خطیب بغدادی کی اپنی رائے تھی ، بعض جرح کو نقل کر کے خطیب نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا دفاع بھی کیا ہے ، مثلاً جنت و جہنم کے غیر موجود ہونے کی جرح نقل کرکے خطیب کہتے ہیں : قول بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ خودراوی ابو مطیع اس کا قائل تھا ، ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نہ تھے ، جب کہ بہت سے حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ یہ خطیب بغدادی کی اپنی رائے نہیں ، لیکن خطیب کو ان اقوال کے نقل کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تھا ، انہو ں نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ان باتوں کو لکھ کر گویا اپنی کتاب کی استنادی حیثیت کو کم کر دیا ہے ۔

حافظ محمد بن یوسف الصالحی الشافعی ۔ (المتوفی942ھ) فرماتے ہیں : حافظ ابوبکر خطیب بغدادی نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو مخل تعظیم باتیں نقل کی ہیں ان سے دھوکہ نہ کھانا ، خطیب بغدادی نے اگرچہ پہلے مدح کرنے والوں کی باتیں نقل کی ہیں ، مگر اس کے بعد دوسرے لوگوں کی باتیں بھی نقل کی ہیں ، سو اس وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب کو بڑا دغ دار کر دیا ہے او ر بڑوں اور چھوٹوں کےلیے ایسا کرنے سے وہ ہدف ملامت بن گئے ہیں اور انہوں نے ایسی گندگی اچھالی ہے ، جو سمندر سے بھی نہ دھل سکے ۔ (عقودالجمان)

قاضی القضاة شمس الدین ابن خلکان الشافعی (م861ھ) خطیب بغدادی کی اس غلط طرز گفتگو پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خطیب نے اپنی تاریخ میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بہت سے مناقب ذکر کیے ، اس کے بعد کچھ ایسی ناگفتہ بہ باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا بہت ہی مناسب تھا ؛ کیوں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت کے متعلق نہ تو دیانت میں شبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ورع وحفظ میں ، آپ پر کوئی نکتہ چینی بجز قلت عربیت کے اور نہیں کی گئی ہے ۔ (تاریخ ابن خلکان 2/165،چشتی)

خطیب بغدادی اور چند دیگر حضرات کے علاوہ زیادہ تر مصنفین اور مؤرخین ائمہ جرح و تعدیل اور ائمہ حدیث نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کو انصاف کے ساتھ ذکر کیا ہے اور کسی قسم کی جرح کو ذکر نہیں کیا ، بلکہ صرف مناقب پر اکتفا کیا ہے ، نمونے کے طور پر چند اسماء الرجال کی کتابوں اور چند ائمہ حدیث کے اقوال کو یہاں مختصراً ذکر کیا جاتا ہے ، امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں ، حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں ، حافظ صفی الدین خزرجی نے خلاصة تذہیب تہذیب الکمال میں ، علامہ نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں ، امام یافعی علیہم الرحمہ نے مرآة الجنان میں امام صاحب رضی اللہ عنہ کے حالات اور مناقب کو ذکر کیا ہے ، لیکن کسی نے کوئی جرح نہیں کی ہے ، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک امام صاحب رضی اللہ عنہ پر جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اب چند معتمد ترین اور ائمہ علم و فضل علیہم الرحمہ کے اقوال یہاں ذکر کیے جاتے ہیں ، تاکہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی بے داغ اور تقویٰ و طہارت سے لبریز زندگی اور آپ کے فضل وکمال کی مختلف نوعیتیں ہمارے سامنے آسکیں ۔

(فضیل بن عیاض م187ھ) فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ مشہور صوفیاء میں ہیں ، ان کی زندگی زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت سے عبارت تھی ، وہ فرماتے ہیں : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ مرد فقیہ تھے ، فقہ میں معروف ، پارسائی میں مشہور ، بڑے دولت مند ، ہر صادر و وارد کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے والے ، شب وروز صبر کے ساتھ تعلیم میں مصروف ، رات اچھی گزارنے والے ، خاموشی پسند ، کم سخن تھے ، جب کوئی مسئلہ حلال و حرام کا پیش آتا تو کلام کرتے اور ہدایت کا حق ادا کر دیتے ، سلطانی مال سے بھاگنے والے تھے ۔ ( امام ابوحنیفہ او ران کے ناقدین صفحہ 44،چشتی)

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ م161ھ ابوبکر بن عیاش کا قول ہے کہ سفیان کے بھائی عمرو بن سعید کا انتقال ہوا تو سفیان کے پاس ہم لوگ تعزیت کےلیے گئے مجلس لوگوں سے بھری ہوئی تھی ، عبدالله بن ادریس بھی وہاں تھے ، اسی عرصہ میں ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے رفقاء کے ساتھ وہاں پہنچے ، سفیان نے ان کو دیکھا تو اپنی جگہ خالی کر دی اور کھڑے ہو کر معانقہ کیا ، اپنی جگہ ان کو بٹھایا ، خود سامنے بیٹھے ، یہ دیکھ کہ مجھ کو بہت غصہ آیا ، میں نے سفیان سے کہا ابوعبد الله ! آج آپ نے ایسا کام کیا جو مجھ کو برا معلوم ہوا ، نیز ہمارے دوسرے ساتھیوں کو بھی ، انہوں نے پوچھا کیا بات ہے ؟ میں نے کہا آپ کے پاس ابوحنیفہ آئے ، آپ ان کےلیے کھڑے ہوئے ، اپنی جگہ بٹھایا ، ان کے ادب میں مبالغہ کیا ، یہ ہم لوگوں کو ناپسند ہوا ، سفیان ثوری نے کہا تم کو یہ کیوں ناپسند ہوا ؟ وہ علم میں ذی مرتبہ شخص ہیں ، اگر میں ان کے علم کےلیے نہ اٹھتا تو ان کے سن و سال کےلیے اٹھتا اور اگر ان کے سن و سال کےلیے نہ اٹھتا تو ان کی فقہ کے واسطہ اٹھتا اور اگر ان کے فقہ کےلیے نہ اٹھتا تو ان کے تقویٰ کے واسطے اٹھتا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ 73)

علامہ محمد بن اثیر الشافعی متوفی 606ھ : علامہ محمد بن اثیر الشافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر الله تعالیٰ کا کوئی خاص لطف اور بھید اس میں مضمر نہ ہوتا تو امت محمدیہ کا تقریباً نصف حصہ کبھی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی پیروی نہ کرتا اور اس جلیل القدر کے مسلک پر عامل ہو کر اور ان کی تقلید کرکے کبھی قربِ خدا وندوی حاصل کرنے پر آمادہ نہ ہوتا ۔ (حامل الاصول بحوالہ مقام ابی حنیفہ صفحہ 73،چشتی)

علامہ ابن ہارون متوفی 206ھ : علامہ بن ہارون رحمۃ اللہ علیہ کو شیخ الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، اپنے وقت کے عابد وزاہد حضرات میں شمار ہوتے تھے، علم حدیث میں بڑی شان کے مالک تھے ، ان سے پوچھا گیا آدمی فتوی دینے کا کب مجاز ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایاجب ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مثل اور ان کی طرح فقیہ ہو جائے ۔ ان سے سوال کیا گیا اے ابو خالد ! آپ ایسی بات کہتے ہیں ؟ فرمایا ہاں ! اس سے بھی زیادہ کہتا ہوں ، کیوں کہ میں نے ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے بڑا فقیہ اور متورع نہیں دیکھا ، میں نے ان کو دھوپ میں ایک شخص کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں نے سوال کیا آپ دیوار کے سائے میں کیوں نہیں چلے جاتے ؟ وہ کہنے لگے کہ مالک مکان پر میرا قرضہ ہے ، میں نہیں پسند کرتا کہ مدیون کے مکان اور دیوار کے سائے کے نیچے بیٹھ کر اس سے منتفع ہوں ، اس سے زیادہ تقویٰ اور ورع کیا ہو گا ؟ ۔ ( مناقب موفق1/141)
ان کا ہی بیان ہے میں نے ایک ہزار اساتذہ سے علم لکھا اور حاصل کیا ہے ، لیکن خدا کی قسم ! میں نے ان سب میں ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر صاحب ورع اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا او رکوئی نہیں دیکھا ۔ (مناقب موفق1/195،چشتی)

وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ متوفی 198ھ : علم حدیث کے بڑے اماموں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور امام شافعی کے استاذ ہیں ، ان کی مجلس میں کسی نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی غلطی بیان کی ، اس پر وکیع نے کہا امام صاحب رضی اللہ عنہ کس طرح غلطی کر سکتے ہیں ؟ حالانکہ امام ابویوسف اور زفر جیسے صاحب قیاس اور یحییٰ بن ابی زائدہ اور حفص بن غیاث اور حبان و مندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسا لغت و ادب کا جاننے والا اور داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسا زاہد و پارسا ان کے ساتھ ہیں ، جن کے ایسے ہم نشین ہوں وہ غلطی نہیں کر سکتا ، اگر کبھی غلطی کر جائے تو اس کے جلیس ان کو رد کر دیں گے ۔ (امام ابوحنیفہ اور ان کے ناقدین صفحہ 48)

علامہ الخوارزمی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 665ھ پوری روایت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : پھر امام وکیع نے فرمایا جو شخص امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہتا ہے وہ تو جانوروں کی مانندیا اس سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہے ۔ (جامع المسانید 1/23)

اللہ تعا لیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو حق پر چلنے اور سچ پر قائم رہنے کی تو فیق عطا فرمائے آمین ۔


حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ بلحاظ طبقہ دیگر مشہور ہمعصر مجتہد اماموں سے بڑے ہیں ۔ آپ کا سن ولادت 80 ھجری ہے ، جو کہ خیر القرون علی الاطلاق یعنی قرنِ اول کا زمانہ ہے اور آپ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ۔ جبکہ آپ کے ہمعصر آئمہ مجتہدین مثلاً امام مالک ، امام اوزاعی وغیرھما ، نیز آپ کے بعد کے آئمہ مثلاً امام شافعی و امام احمد بن حنبل وغیرھما رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی ایک کو بھی طبقہ تابعین میں سے ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے ۔ اس لیے آپ کو ” امام اعظم“ کہتے ہیں ۔ چنانچہ امام شہاب الدین احمد بن حجر المکی ، شیخ الاسلام حافظ ابو الفضل شہاب الدین احمد بن علی المعروف ”ابن حجر“ العسقلانی شارح صحیح البخاری کے فتاویٰ سے نقل فرماتے ہیں : شیخ الاسلام حافظ ابن حجر (عسقلانی) کے فتاویٰ میں ہے کہ امام ابو حنیفہ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو پایا جو 80ھ میں آپ کی پیدائش کے بعد وہاں موجود تھے ۔لہٰذا آپ طبقہ تابعین میں شامل ہیں ۔ جبکہ یہ فضیلت آپ کے معاصر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے آئمہ میں سے کسی کےلیے مثلاً اوزاعی کےلیے جو شام میں تھے ۔ اور حماد بن سلمہ و حماد بن زید کےلیے جو بصرہ میں تھے ، اور کوفہ میں سفیان ثوری اور مدینہ شریف میں مالک اور مصر میں لیث بن سعد کےلیے ثابت نہیں ہو سکی ۔

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہی وہ مجتہد امام ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مجموعہ قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی اجتہاد کے ہمہ گیر اصول و قواعد وضع کیے ہر باب سے متعلق دشوار و پیچیدہ مسائل کو حل اور غیر منصوص مسائل کا استخراج و استنباط فرمایا ، نیز علم شریعت کے بکھرے ہوئے مسائل کو ”کتاب الطہارة“ سے لے کر ”کتاب المیراث“ تک فقہی ابواب کی موجودہ ترتیب کے مطابق کتب اور ابواب پر باقاعدہ تحریری طور پر مرتب و مدون کر کے ان کو آسان اور ہمیشہ کےلیے محفوظ کر دیا ۔ پھر بعد کے تمام آئمہ مجتہدین و فقہا مصنفین امام مالک ، سفیان ثوری ، امام شافعی ،امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم و دیگر علماء نے انہی اصول و قواعد سے استفادہ کیا اور اپنی تصنیفات میں اسی ترتیب کو اپنایا ۔ چنانچہ امام احمد بن حجر المکی الشافعی ، شافعی المذہب ہونے کے باوجود امام اعظم کی اس اولیت کے بارے میں اعترافِ حق کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : امام ابو حنیفہ ہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوںنے علم فقہ کو مدون کیا اور اسے ابواب و کتب (فقہ) کی موجودہ ترتیب پر مرتب کیا اور آپ ہی کی ترتیب کی امام مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے مٶطا میں پیروی کی ، ورنہ آپ سے پہلے تو علماء محض اپنے حفظ پر اعتماد کرتے تھے ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 28 مطبوعہ مصر،چشتی)

خطیب بغدادی اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن داود سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اہل اسلام پر لازم ہے کہ اپنی نماز میں اما م ابو حنیفہ کے حق میں دعا کیا کریں ۔ کیونکہ انہوںنے مسلمانوں کے لئے سنن (نبویہ) اور فقہ کو محفوظ کر دیا ۔
یہی مضمون مشہور اہلحدیث غیر مقلد عالم محمد داﺅد غزنوی نے حافظ ابن کثیر کی کتاب”البدایة والنہایة“ کے حوالے سے نقل کیا اور نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ اسے امام صاحب کا بلند مرتبہ تسلیم کرتے ہوئے دلیل کے طور پر ذکر کیا ۔ (مقالات مولانا محمد داﺅد غزنوی مطبوعہ مکتبہ نذیریہ لاہور صفحہ 56)

امام محدث و فقیہ قاضی ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سند کے ساتھ امام شافعی کا مندرجہ ذیل قول نقل فرماتے ہیں : جو شخص امام ابو حنیفہ کی کتابوں کا مطالعہ نہ کرے وہ علم فقہ اور شرائع میں متبحر نہیں ہو سکتا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ81 طبع بیروت)

خطیب بغدادی اپنی سند متصل کے ساتھ امام شافعی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ : جو شخص فقہ و شرائع میں مہارت حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہےے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کو لازم پکڑے ۔ کیونکہ لوگ سب کے سب فقہ میں ان کے محتاج ہیں۔(تاریخ بغداد جلد 13صفحہ 111،چشتی)

امام محدث محمد شمس الدین الذہبی اپنی سند متصل کے ساتھ امام ابو یوسف رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ہم امام ابو حنیفہ کے چند شاگرد جن میں داﺅد ، قاسم بن معن (ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پڑ پوتے) ، عافیہ بن یزید ، حفظ بن غیاث ،وکیع ابن الجراح (امام شافعی کے استاد) ، مالک بن مغول اور زفر رضی اللہ عنہم تھے ، ایک بارشد والے دن میں امام ابو حنیفہ کے پاس جمع تھے ۔ امام صاحب نے اپنا چہرہ ہماری طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ تم لوگ میرے دل کے سرور اور رازدان اور میرے غم کو غلط کرنے والے ہو ، میں نے فقہ کو تمہارے لیے ہموار و آسان کر کے ان کی باگ ڈور تمہارے ہاتھ میں دے دی ہے ، اب سارے لوگ تمہارے نقشِ پاک اتباع اور تمہاری باتوں کی جستجو کیا کریں گے ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ صفحہ 170طبع مصر)

کمالِ عقل و ذہانت ، فقہی بصیرت ، اجتہادی قوت اور علمی و عملی فضیلت کے اعتبار سے امامِ ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا پایہ اپنے تمام ہم عصروں اور بعد کے آئمہ سے نہایت بلند تھا ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ اپنی ان خداداد صلاحیتوں اور علمی و عملی خوبیوں کی وجہ سے علوم شریعہ میں پوری امت کے مقتدیٰ و پیشوا ہیں ۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی آپ کو ”امام اعظم “ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ امام ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سندِ متصل کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا آپ اسے ادب و احترام سے پیش آئے ۔پھر جب وہ شخص چلا گیا تو شاگردوں سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو یہ کون تشریف لائے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ مگر ہم (عبد اللہ بن المبارک) نے ان کو پہچان لیا ۔ چنانچہ امام مالک نے فرمایا کہ یہ عراق کے ابو حنیفہ تھے ، (ان کے علمی پایہ اور زور استدلال کا یہ عالم ہے کہ) اگر کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو وہ ویسا ہی نکل آئے جیسا کہ انہوں نے کہا ہو ۔ ان کو مہارتِ فقہ کی وہ توفیق دی گئی ہے کہ اب ان پر اس کے مسائل کو حل کرنا کوئی زیادہ دشوار نہیں ہے ۔ عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ پھر حضرت سفیان ثوری آپ کے پاس آئے تو ان کو امام ابو حنیفہ سے کمتر مرتبہ کی جگہ پہ بیٹھایا ۔(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ 74 مطبوعہ بیروت)

خطیب بغدادی علامہ احمد بن علی بن ثابت اپنی سند متصل کے ساتھ ربیع بن یونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوںنے فرمایا : ایک روز امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ خلیفہ ابو جعفر منصور کے پاس تشریف لائے ۔ اس وقت حضرت عیسی بن موسیٰ بھی وہاں موجود تھے ۔ وہ منصور سے کہنے لگے یہ (ابو حنیفہ) آج دنیا کے بڑے عالم ہیں ۔ تو منصور نے امام صاحب سے کہا : اے نعمان ! آپ نے کس سے علم حاصل کیا ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے ان کا علم حاصل کیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانے میں روئے زمین پر ان سے بڑا عالم کوئی نہیں تھا ۔ منصور نے کہا کہ آپ نے اپنے لیے مضبوط علم حاصل کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 99،چشتی)

امام شافعی رضی اللہ عنہ کا قول : تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے عیال (محتاج و پروردہ ہیں) اور امام محمد شمس الدین الذہبی ، امام ابو بکر المروزی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : میں نے ابو عبد اللہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے سنا ،وہ فرماتے تھے کہ ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ ابو حنیفہ نے قرآن کو مخلوق کہا ہے ۔ یہ سن کر میں نے کہا الحمد للہ اے ابو عبد اللہ ان کا تو علم میں بڑا مقام ہے ۔تو آپ فرمانے لگے ۔ سبحان اللہ ! وہ (ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ) تو علم و تقویٰ ، زہد اور دارِ آخرت کے اختیار کرنے میں اس مقام پر فائز ہیں کہ جہاں کسی اور کی رسائی نہیں ہو سکتی ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ صفحہ27طبع مصر،چشتی)

حافظ ابو بکر احمد بن علی خطیب بغدادی اپنی سند کے ساتھ حضرت محمد بن بشر سے روایت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتا تھا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ کہاں سے آئے ہو ؟ میں کہتا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سے ۔ یہ سن کر وہ فرماتے ۔ تم ایسے شخص کے پاس سے آئے ہو جو روئے زمین پر سب سے زیادہ فقیہ ہے ۔ (تاریخ بغداد جلد 133 صفحہ 3433 مطبوعہ مصر،چشتی)
یہی حافظ ابو بکر خطیب بغدادی ، نیز امام محدث حافظ شمس الدین محمد الذہبی ، امام محدث و فقیہ سفیان بن عینیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے کہ : میری آنکھ نے (علم و فضل میں) ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا مثل نہیں دیکھا ۔(تاریخ بغداد جلد 13صفحہ 342)( مناقب ابی حنیفہ للذہبی صفحہ 19 مطبوعہ مصر،چشتی)

امام محدث و فقیہ ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری ،ان کے شاگرد حافظ ابو بکر خطیب بغدادی اور امام محدث حافظ شمس الدین الذہبی نے امام محدث و فقیہ حضرت عبد اللہ بن مبارک کا یہ قول نقل کیا : اگر حدیث معلوم ہو اور اجتہاد ی رائے کی ضرورت ہو تو یہ رائے امام مالک،سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ کی لینی چاہےے۔ اور امام ابو حنیفہ کی نظر عقل و ذہانت پر گہری جاتی ہے اور ان تینوں میں زیادہ فقیہ ہیں ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ 77 طبع بیروت و تاریخ بغداد)

امام محدث و فقیہ ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سند کے ساتھ نصر بن علی سے روایت کرتے ہیں کہ امام المحدثین ”شعبیٰ“ کو جب امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر ملی تو افسوس سے انا للہ ۔۔۔الخ پڑھی اور پھر فرمانے لگے ۔ بے شک اہل کوفہ سے نور علم کی روشنی بجھ گئی ، سن لو ! اب لوگ ابو حنیفہ کی مثل کبھی نہیں دیکھیں گے ۔ (اخبارا بی حنیفہ صفحہ 72 طبع بیروت،چشتی)

امام محدث حافظ شمس الدین الذہبی ، امام بخاری کے استاد گرامی امام فقیہ و محدث امام مکی بن ابرا ہیم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ کَانَ اَبُو حَنِیفَةَ اَعلَمُ اَہلِ زَمَانَہ ۔ اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم ہوئے ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ)

اما م الجرح و التعدیل یحی بن معین جو امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں : قرات میرے نزدیک حمزہ کی قرات اور فقہ امام ابو حنیفہ کی فقہ ہے ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ)
یہی امام یحی بن معین اپنے استاد گرامی امام المحدثین امام یحی بن سعید القطان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ہم اللہ کا نام لے کر جھوٹ نہ بولیں گے ، ہم نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ بہتر اجتہادی رائے کسی کی نہیں سنی اور ہم نے ان کے اکثر فقہی اقوال اختیار کر لے ہیں ۔ (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ نمبر 345،چشتی)

امام شافعی رضی اللہ عنہ کے استاد گرامی امام وکیع فرماتے تھے : میں نے امام ابو حنیفہ سے زیادہ فقیہ کسی کو نہ پایا ۔ (تاریخ بغداد جلد 12صفحہ345)

نیز امام محمد بن حسن جو کہ امام شافعی کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں : امام ابو حنیفہ یکتائے روزگار تھے ۔ (اخبار ابی حنیفہ طبع بیروت)

امام محدث شیخ الاسلام یزید بن ہارون جو کہ امام احمد بن حنبل کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں : امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے ۔ آپ کے معاصر علماء میں جس جس کو میں نے پایا اسے یہی کہتے سنا کہ اس نے آپ سے بڑا کوئی فقیہ نہ دیکھا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ طبع بیروت،چشتی)

امام شافعی اور احمد بن حنبل کے استاد گرامی حضرت امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم القاضی فرماتے ہیں : ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اسلافِ کرام کے صحیح جانشین تھے اور قسم بخدا انہوں نے اپنے بعد روئے زمین پر اپنی مثل کوئی نہ چھوڑا ۔ (اخبار ابی حنیفہ للصمیری صفحہ 32)

امام محدث علی بن عاصم کہتے ہیں : اگر روئے زمین کے آدھے لوگوں کی عقل سے امام ابو حنیفہ کی عقل تولی جائے تو آپ کی عقل کا پلہ بھاری رہے گا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ ، تاریخ بغداد ، مناقب الامام ابی حنیفہ)

نیز یہی امام علی بن عاصم فرماتے ہیں : اگر امام ابو حنیفہ کا علم ان کے تمام اہل زمانہ کے مجموعی علم سے تولا جائے تو یقینا آپ کا علم ان سب کے علم سے بڑھا ہوا ہو گا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و مناقب الامام ابی حنیفہ)
اور امام محدث نضر بن شمیل فرماتے ہیں : لوگ علم فقہ (کی باریکیوں) سے غافل تھے ۔ یہاں تک کہ ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی فقہی موشگافیوں ، عقدہ کشائیوں اور ان کی فقہی مسائل کی تشریح و تلخیص نے لوگوں کو چونکا دیا ۔ (تاریخ بغداد جلد نمبر 133)

امام فقیہ و محدث حافظ محمد بن میمون فرماتے ہیں : امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان سے بڑا عالم ، متقی ، زاہد ، عارف اور فقیہ کوئی نہ تھا ۔ ان کا درس فقہ و حدیث سننے کی بجائے مجھے ایک لاکھ سونے کی اشرفیاں بھی ملتیں تو میں راضی نہ ہوتا ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 32 مطبوعہ مصر،چشتی)

الغرض امام مالک ، امام شعبیٰ ، امام ابو یوسف القاضی ، امام سفیان ثوری ، امام سفیان بن عیینہ ، امام عبد اللہ بن المبارک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام وکیع ،عیسیٰ بن موسیٰ ،امام یحییٰ بن سعید القطان ، امام یحی بن معین ، امام مکی بن ابراہیم ، امام محمد بن حسن ، امام علی بن عاصم ، امام نضر بن شمیل اور حافظ محمد بن میمون رضی اللہ عنہم اجمعین یہ پورے سترہ (17) آئمہ کرام ہیں جو سب کے سب اسلام کے صدر اول ، اتباع تابعین اور سلف صالحین میں سے ہیں ۔سب اساطینِ علم و فضل اور علمی دنیا کے آفتاب و ماہتاب ہیں ۔ ان کی جلالتِ شان اور علمی مقام کا یہ عالم ہے کہ ان کا نام آتے ہی بڑے بڑے اولیاء ، عرفا ، عباد و زھاد ، مفسرین ، محدثین ، فقہا اور متکلمین کے سر ادب و احترام سے جھک جاتے ہیں ۔ یہ سب یک زبان ہو کر تمام ہمعصر اور بعد کے علماء و اعلام و آئمہ کرام پر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی علمی و عملی ، عقلی و فکری ، فقہی اور اجتہادی برتری کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان فرمارہے ہیں ۔کیا ان جبالِ علم کی روشن شہادتوں کے بعد بھی کسی مسلمان کو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ”امام اعظم ہونے میں شک رہ سکتا ہے ؟

غیر مقلدین وہابیوں کی گواہیاں : ⬇

اب ہم اس مسئلے پر بحث کو ختم کرتے ہوئے آخر میں غیر مقلد کے بڑے مقتدر عالموں کی مزید گواہیاں پیش کرتے ہیں ۔ تاکہ اگر کوئی مندرجہ بالا آئمہ سلف کے ارشادات سے بھی مطمئن نہ ہوا ہو تو کم از کم اپنے بزرگوں کی شہادتِ حق سن کر تو ضرور ہی اس کا دل نورِ یقین سے منور ہو جانا چاہے ۔ واللہ الھادی ۔

نواب صدیق حسن خان بھوپالوی وہابی کی گواہی : غیر مقلدوں کے مقتدر پیشوائے علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی اپنی مشہور تصنیف” الحطة فی ذکر الصحاح الستة “ کے صفحہ 42 پر رقمطراز ہیں : ان (طبقہ ثالثہ کے آئمہ کبار) میں سے امام جعفر صادق ، امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ، امام مالک ، امام اوزاعی ، امام ثوری ، ابن جریح اور امام محمد بن ادریس شافعی ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔ اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک کی گواہی کے مطابق یہی تین طبقے خیر و برکت کے ہیں ۔نیز یہی اسلام کے صدر اول اور سلف صالح ہیں جو ہر باب میں سند اور حجت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ (مقالات داﺅد غزنوی صفحہ 56 مطبوعہ مکتبہ نذیریہ لاہور)

ابراہیم میر سیالکوٹی غیرمقلد وابی کی گواہی لکھتے ہیں : مولانا محمد داﺅد غزنوی جو کہ غیر مقلدین کی جماعت میں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ،لکھتے ہیں کہ : مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹ ہماری جماعت کے مشہو ر و مقتدر علماء میں سے تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’تاریخ اہلحدیث“ میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی مدح و توصیف اور ان کے خلاف ارجاء (فرقہ مرجئہ سے ہونا) وغیرہ الزامات کے دفیعہ میں 29×23/8سائز کے 8 صفحات وقف کیے ….. پھر کسی جگہ ان کا ذکر امام اعظم کے نام سے کرتے ہیں ، کسی جگہ سیدنا امام ابو حنیفہ کہہ کر ادب و احترام سے ذکر کرتے ہیں ….. اور اس سار ی بحث کو آخر میں مولانا محمد ابراہیم اس فقرہ کے ساتھ ختم کرتے ہیں ”خلاصة الکلام یہ کہ نعیم کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ اس کی روایت کی بناء حضرت امام ابو حنیفہ جیسے بزرگ امام کے حق میں بدگوئی کریں ۔ جن کو حافظ ذہبی جیسے ناقد الرجال ”امام اعظم“ کے معزز لقب سے یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔الخ ملخصاً ۔ (مقالات داﺅد غزنوی صفحہ 55)

علامہ داﺅد غزنوی کی گواہی  : غیرمقلدین کے نہایت ہی مقتدر اور محترم عالم محمد داﺅد غزنوی خود لکھتے ہیں : حضرت الامام الاعظم ۔ (مقالات مولانا محمد داﺅد غزنوی صفحہ 55 شائع کردہ مکتبہ نذیریہ لاہور)

غیر مقلد کے مسلمہ بزرگوں کی یہ تین شہادتیں ہیں جو کہ ہم نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے معزز لقب ”امام اعظم“ کے ثبوت میں پیش کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے علمی سمندر سے چندہ قطرے عطا فرما کر قرآن و سنت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنے پر غیر مقلدین کے اعتراض کا جواب : ⏬

غیر مقلدین امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نمازپڑھنے کا واقعہ بیان کرکے احناف پہ اعتراض کرتے ہیں کہ احناف نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں غُلو کیا ہے لیکن غیر مقلدین یہاں بھی ہمیشہ کی طرح دھوکہ دیتے ہیں ۔ یہ واقعہ بیان کرنے والے صرف احناف نہیں بلکہ اسکو بیان کرنے میں شافعی ، حنبلی اور مالکی علماء بھی شامل ہیں ۔ ان اکابرین میں سے 8 علماء کے حوالے پیشِ خدمت ہیں جنہوں نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے ۔

امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الاسماء صفحہ 704 پہ،علامہ دمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حیات الحیوان جلد 1 صفحہ 122 پہ،حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ450 پہ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تبیض الصحیفہ صفحہ 15 پہ،قاضی حسین بن محمد دیار مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 366 پہ ،(چشتی) عبد الوہاب شعرانی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المیزان جلد 1 صفحہ 61 پہ،ابن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے الخیرات الحسان صفحہ 36 پہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ بیان کیا ہےکہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ۔

اس کے علاوہ یہ واقعہ صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ہی نہیں بلکہ کئی اکابرین سے بھی وقوع ہوا جو کہ مختلف کتابوں میں موجود ہے ۔

حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے کہ چالیس تابعین سے کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور اسکی سند صحیح ہے ۔ (غنیۃ الطالبین، صفحہ 496 بتحقیق مبشر لاہوری غیر مقلد)

غیر مقلدین سے گذارش ہے کہ لگائیں ان اکابرین علماء پہ فتوی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں غُلو کرنے کا اور لگائیں ان چالیس اکابرین پہ فتوی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنے پہ ۔

کیا حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ان چالیس اکابرین کا عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کر کے غُلو کیا ؟ غیر مقلد عالم نے حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ فتوی کیوں نہیں لگایا ؟ کیا یہ سب حنبلی ، مالکی اور شافعی علماء اور اکابرین علیہم الرّحمہ بھی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں غُلو کر رہے ہیں ؟ غیر مقلدو! آؤ، ہمت کرو اور ان اکابرین علیہم الرّحمہ پہ وہی فتوی لگاٶ جو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مقلدین احناف پہ لگاتے ہو ؟

ختم قرآن مجید میں حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے معمولات

جليل القدر محدث وإمام و حافظ و اسلامى مؤرخ شمس الدّين الذَّهَبِيّ ( 673 ھـ – 748 ھ

الوفاة 3 ذو القعدة 748 ھ ) فقہ شافعی کے پیرو ہیں ۔۔ ابن تیمیہ بھی ان کے پسندیدہ شیوخ میں سے ہیں ۔ آپ کی ایک کتاب ہے ۔

مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه أبي يوسف ومحمد بن الحسن ۔
یعنی امام ابو حنیفہ اور آپ کے دو ممتاز شاگردوں ابو یوسف اور محمد بن حسن کے فضائل ۔

حضرت ذھبی نے اس میں سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے تلاوت کے معمولات لکھے ہیں ۔ وَقَالَ ابْنُ أَبِي الْعَوَّامِ الْقَاضِي فِي فَضَائِلِ أَبِي حَنِيفَةَ : ثَنَا الطَّحَاوِيُّ ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ ، قَالَ : ” رُبَّمَا قَرَأْتُ فِي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ حِزْبَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ ۔
ابن ابی العوام القاضی نے فضائل ابی حنیفہ میں لکھا ہے ۔ ہمیں ( ہمارے شیخ امام ) طحاوی نے اپنی سند کے ساتھ ابو حنیفہ کا اپنا ارشاد بتایا کہ کئی بار میں نے صبح کی دو سنتوں میں قرآن مجید کے دو حزب (منزلیں) پڑھے ہیں ۔

یہ کتاب فضائل ابي حنيفة نیٹ پر دستیاب ہے لیکن فقیر خالد محمود نے امام ذھبی کی تائید کو شامل کرنے کے لیئے ان کی کتاب ” مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه أبي يوسف ومحمد بن الحسن” سے خوشہ چینی کی ہے ۔

تقلید و فقہ کی اس عداوت کو کیا کہیں کہ ویسے تو ذھبی بہت بڑے عالم ہیں ان کی کتب زبردست ہیں ۔ ان کی وہ تنقیدیں جو اپنے من کو پسند ہیں وہ قطعی حجت ہیں لیکن ان کی ابو حنیفہ اور ان کے دونوں شاگردوں کے مناقب والی یہ کتاب درست نہیں ۔ سیر اعلام النبلاء باقی ساری قابل استناد ہے لیکن امام ابو حنیفہ کی تعریف والے جملے قابل اعتماد نہیں ۔

ابن حجر حافظ حدیث اور شارح بخاری ہیں ۔ فتح الباری ، الإصابة اور تہذیب التھذیب قابل استناد ہیں لیکن تہذیب کے وہ حصے قابل اعتماد نہیں جو ابو حنیفہ کی تعریف میں ہیں ۔ ملاحظہ ہو کلید التحقیق از حافظ زبیر علی زئی اور لقب لکھا ہوا ہے محدث العصر ۔ اس تحریر کو نیٹ پر پڑھیں تو آپ یقینا حیران ہوں گے کہ خطیب بغدادی کی کتاب میں تشنیع زیادہ ہے اور کچھ بھلے جملے بھی امام اعظم کے متعلق نکل ہی گئے ہیں سو ان ” محدث صاحب ” نے لکھا ہے کہ کچھ باتیں {طنز و تشنیع والی} ٹھیک بھی ہیں اور کچھ {تعریف والی} غلط)

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا فجر کی سنتوں میں دو حزب تلاوت والا ارشاد ” عمدة القاري ” میں امام عینی نے بھی لکھا ہے .

چند اوصاف جناب بغدادی کی اسی تاریخ بغداد سے اگرچہ اور متعدد کتب میں بھی ہیں ۔

(1) خارجة بن مصعب کا قول ہے : ختم القرآن في الكعبة أربعة من الأئمة عثمان بن عفان وتميم الداري وسعيد بن جبير وأبو حنيفة .
یعنی کعبہ مقدسہ میں 4 ائمہ نے قرآن مجید ختم کیا ہے ۔

عثمان بن عفان وتميم الداري وسعيد بن جبير و أبو حنيفة ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي جـ 13 صـ 356 )

كتاب الآثار از امام محمد

(2) مشہور محدث و امام سفيان بن عيينة کا قول ۔: رحم الله أبا حنيفة كان من المصلين ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي جـ13 صـ353)

اللہ کی رحمت ہو ابو حنیفہ پر آپ نمازیوں میں سے تھے ۔

(3) محمد بن فضيل نے أبو مطيع سے بیان کیا ہے ۔ كنت بمكة فما دخلت الطواف في ساعة من ساعات الليل إلا رأيت أبا حنيفة وسفيان في الطواف ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي جـ13 صـ353)
میں مکہ مکرمہ میں تھا رات کے جس لمحے بھی طواف کے لیئے گیا ابو حنیفہ اور سفیان کو طواف میں ہی پایا ۔

(4) يحيى بن أيوب الزاهد کا قول ہے : كان أبو حنيفة لا ينام الليل ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي جـ13 صـ353)
ابو حنیفہ رات کو سوتے نہیں تھے ۔

(5) أسد بن عمر کا قول ہے : صلى أبو حنيفة الفجر بوضوء صلاة العشاء أربعين سنة، فكان عامة الليل يقرأ جميع القرآن في ركعة واحدة وكان يُسمع بكاؤه بالليل حتى يرحمه جيرانه ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي جـ13 صـ363 )
ابو حنیفہ نے 40 برس عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز پڑھی ۔ اکثر راتوں میں ایک ہی رکعت میں پورا قرآن مجید ختم فرماتے ۔ رات کو آپ کے رونے کی آواز آپ کے پڑوسیوں کے کانوں میں بھی پہنچتی تو وہ اس درد بھرے رونے کی وجہ سے آپ پر بڑا ترس کرتے ۔

(6) قال مسعر بن كِدَام : دخلت المسجد فرأيت رجلاً يصلي فاستحليت قراءته فقرأ سبعاً، فقلت: يركع، ثم قرأ الثلث ثم قرأ النصف فلم يزل يقرأ القرآن حتى ختمه كله في ركعة، فنظرت فإذا هو أبو حنيفة ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي جـ13 صـ356)(كتاب الآثار از امام محمد)(سير أعلام النبلاء للذهبي جـ4 صـ602)
حضرت مسعر بن کدام کہتے ہیں کہ میں ایک رات مسجد میں داخل ہوا اور ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ان کی قرأت مجھے بڑی شیریں لگی اور دل کو لُبھائی جب وہ ساتواں حصہ پڑھ چُکے میں نے کہا رکوع کریں گے پھر وہ قرآن کریم کے ثلث پر آگئے پھر نصف پر آ گئے اسی طرح قرآن کریم پڑھتے رہے یہاں تک کہ سارا قرآن کریم ایک رکعت میں پورا کر دیا میں نے جو آگے بڑھ کر دیکھا وہ امام ابوحنیفہ تھے ۔

(7) و قال يحيى بن نصر : ربما ختم أبو حنيفة القرآن في رمضان ستين مرة ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي جـ13 صـ356) ۔ مناقب الإمام أبي حنيفة و صاحبيه از ذھبی ۔ یحیٰ بن نصر بھی یہی کہتے ہیں کہ بہت مرتبہ حضرت ابو حنیفہ نے 60 بار ختم قرآن کریم کیے ہیں ۔

(8) و روى ابن إسحاق السمرقندي عن القاضي أبي يوسف، قال: كان أبو حنيفة يختم القرآن كل ليلة في ركعة ۔ (سير أعلام النبلاء ج4 صفحہ 602،چشتی)
ابن اسحاق سمرقندی نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے شاگرد قاضی ابو یوسف کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ ہمارے استاد امام ابوحنیفہ ہر رکعت میں قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے ۔

(9) وعن يحيى بن عبد الحميد الحماني عن أبيه: أنه صحب أبا حنيفة ستة أشهر، قال : فما رأيته صلى الغداة إلا بوضوء عشاء الآخرة، وكان يختم كل ليلة عند السحر ۔ (سير أعلام النبلاء ج4 ص602،چشتی)(مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه، الذهبي، ص21)
یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی اپنے والد عبدالحمید الحمانی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ چھ ماہ امام ابوحنیفہ کے ساتھ رہے ہیں، کہتے ہیں ان 6 ماہ کے اندر میں نے نہیں دیکھا آپ کو مگر صرف اس حال میں کہ آپ نے عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھی اور آپ ہر رات سحری تک ایک ختم قرآن کریم کیا کرتے تھے ۔

(10) و حُفظ عليه أنه ختم القرآن في الموضع الذي توفي فيه سبعة آلاف مرة ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي،چشتی)(کتاب الاثار از امام محمد)(مرقاة المفاتيح)(الخيرات الحسان)(تهذيب الكمال)(وفيات الأعيان)
آپ کے متعلق یہ بات محفوظ ہے کہ آپ نے اپنے مقام وفات میں 7 ہزار ختم قرآن مجید کیئے ہیں ۔

(11) اور تقریبا ان ساری کتب میں ہے کہ آپ رحمة الله عليه کے صاحبزادے حضرت حماد بن أبي حنيفة کا بیان ہے : لما غسَّل الحسن بن عمارة أبي، قال : “غفر الله لك! لم تفطر منذ ثلاثين سنة، ولم تتوسد يمينك بالليل منذ أربعين سنة، ولقد أتعبت من بعدك، وفضحت القراء ۔ (مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه، الذهبي)
جب حسن بن عمارہ نے میرے ابو جی کو غسل دیا تو بول اٹھے ۔ اللہ کی رحمت ہو آپ پر ، 30 سال ہوئے آپ روزے رکھتے ہیں اور 40 سال ہوئے کہ رات کو آپ نے اپنی دائیں طرف میں تکیہ نہیں رکھا ۔ بعد میں آنے والوں کو آپ نے مشکل میں ڈال دیا ۔
اس قدر عبادت و ورع و تقوی سے زندگی بسر کرنا تو بہت بلند ماننے سے بھی لوگ گریزاں ہوں گے ۔

(12) مليح اپنے والد سے راوی ہیں کہ : حدثني أبو حنيفة رضي الله عنه قال : “ما في القرآن سورة إلا قد أوترت بها ۔
مجھے ابو حنیفہ نے بتایا کہ قرآن مجید کی کوئی سورت ایسی نہیں جو میں نے وتر میں نہ پڑھی ہو ۔ (أخبار أبي حنيفة وأصحابه صفحہ 54 المؤلف : الحسين بن علي بن محمد بن جعفر، أبو عبد الله الصَّيْمَري الحنفي المتوفى: 436 ھ)


اللہ تعالی نے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ جن کو تمام امت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ کہتی ہے کی صورت میں تحفہ عطا فرمایا ۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ کا نام مبارک نعمان ، والد کا نام ثابت اور آپ کی کنیت ابو حنیفہ ہے ، لقب امام اعظم اور سراج الامہ ہے ، امام اعظم رضی الله عنہ نے مرکزِ علم کوفہ میں آنکھ کھولی اس شہر کی علمی فضا کو معلم امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ اور مدینۃ العلم حضرت علی اور دیگر صحابہ و تابعین رضی الله عنہم کی سر پرستی کا شرف حاصل تھا ، آپ نے ائمہ حدیث و فقہ سے خوب خوب استفادہ حاصل کیا چنانچہ خود بیان فرماتے ہیں : میں حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہم اور ان کے اصحاب و تلامذہ کی فقہ حاصل کر چکا ہوں ۔ (سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ 30)(حیات امام ابو حنیفہ صفحہ 67)


امام اعظم رضی الله عنہ کی محدثانہ حیثیت پر کلام کرتے ہوئے مخالفین نے طرح طرح کی باتیں کی ہیں ، بعض ائمہ حدیث نے حضرت امام اعظم صفحہ 30 پر حدیث میں ضعف کا طعن کیا ہے ، خطیب نے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ حدیث میں قوی نہیں ہیں ۔ (فتح الباری جلد 1 صفحہ 112)


علامہ ابن خلدون رقمطراز میں : امام اعظم رضی الله عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے صرف 17 احادیث مروی ہیں یا اس کے قریب قریب یہ بعض حاسدوں کی خام خیالی ہے کہ جس اِمام سے روایت کم مروی ہوں ، وہ حدیث نہیں قلیل النضاعت ہوتا ہے ، حالانکہ ایسا لغو تخیل کیا ائمہ کے بارے میں سخت گستاخی وبے عقلی نہیں ہے ؟ ۔ (سیرت امام اعظم صفحہ 236،چشتی)(مقدمہ ابن خلدون صفحہ 447)


حقیقت یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ نے چار ہزار مشائخ ائمہ تابعین علیہم الرحمہ سے حدیث اخذ کی ہیں ، آپ وہ پہلے امام تھے ، جنہوں نے ادلہ شرعیہ سے مخصوص اصول و ضوابط کے تحت استنباط و اجتہاد کا کام کیا اور خلاصہ یہ ہے کہ یہ کام بغیر فن حدیث کی مہارت ہو نہیں سکتا ۔


یحییٰ بن معین فرماتے ہیں " امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ حدیث میں شقہ تھے ، ان میں اصول جرح و تعدیل کی رُو سے کوئی عیب نہیں تھا ۔ ان اقوال کی روشنی میں امام اعظم رضی الله عنہ پر قلت حدیث کا طعن بے بنیاد ہو کر رہ جاتا ہے ۔ امام اعظم رضی الله عنہ جب دنیا سے کنارہ کش ہو کر عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے تو ایک رات خواب میں دیکھا کہ نبی کریم صلّی اللہُ علیہ و آلہ وسلم کی ہڈیوں کو مزار اقدس سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کر رہا ہوں اور جب پریشان ہوکر اُٹھے تو امام بن سیرین رضی الله عنہ سے تعبیر معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہے اور آپ کو سنت نبوی کے پرکھنے میں وہ مرتبہ عطا کیا جائے گا کہ احادیث صحیحہ کو موضوع حدیث سے جُدا کرنے کی شناخت ہو جائے گی ، اس کے بعد دوبارہ پیارے آقا کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے، تو آپ نے فرمایا اے ابو حنیفہ اللہ پاک نے تیری تخلیق میری سنت کے اظہار کےلیے فرمائی ہے ، لہذا دنیا سے کنارہ کش مت ہو ۔ (تذکرہ الاولیاء صفحہ 122)


یہ خواب امام اعظم رضی الله عنہ کی علم حدیث میں بلند مرتبہ کا ٹھوس ثبوت ہے ، علم حدیث میں امام اعظم رضی الله عنہ کا سب سے اہم کارنامہ قبول روایت اور وہ معیار و اصول ہیں جنہیں آپ نے وضع کیا جن سے بعد کے علمائے حدیث نے فائیدہ اٹھایا ۔ (سیرت امام اعظم صفحہ 240)


امام اعظم رضی الله عنہ حدیث کے ظاہری الفاظ اور ان کی روایات پر زور نہیں دیتے تھے ، بلکہ وہ احادیث کے مفہوم اور سائل فقیہہ کی تخریج و انسباط پر زور دیتے تھے ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے نزدیک حدیث کی تفسیر اور حدیث میں فقہی نکتوں کے مقامات کا جاننے والا امام اعظم رضی الله عنہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ، مزید فرماتے ہیں : مجھ سے زیادہ امام صاحب کے متبع سفیان ثوری ہیں ، سفیان ثوری نے ایک دن ابن مبارک سے امام اعظم کی تعریف بیان کی فرمایا کہ وہ ایسے علم پر سوار ہوتے ہیں ، جو برچھی کی انی سے زیادہ تیز ہے، خدا کی قسم وہ غایت درجہ علم کو لینے والے محارم سے بہت رکھنے والے ، اپنے شہر والوں کی بہت اتباع کرنے والے ہیں ، صحیح حدیث کے سوا دوسری قسم کی حدیث لینا مبتول حلال نہ جانتے ۔ (سیرت امام اعظم صفحہ 243-242)(الخیرات الحسان صفحہ 61،چشتی)


ان تمام اقوال سے امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ کا حدیث میں مقام معلوم ہوتا ہے ، آپ علم حدیث کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے ۔


آپ رضی الله عنہ کے حلقہ درس میں کثیر تعداد میں علم حدیث سیکھنے والے موجود ہوتے ، علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے ذکر کیا ہے کہ امام اعظم رضی الله عنہ سے حدیث کا سماع کرنے والے مشہور حضرات میں حماد بن لغمان اور ابراہیم بن طہمان، حمزہ بن حبیب، قاضی ابو یوسف، اسد بن عمرو ابو نعیم، ابو عاصم شامل تھے، وکیع بن جراح کو امام اعظم کی سب حدیثیں یاد تھیں، امام مکی بن ابراہیم آپ کے شاگرد تھے اور امام بخاری کے استاد تھے، امام اعظم کوفہ جیسے عظیم شہر میں جو فقہ و حدیث کا بڑا مرکز تھا پرورش پائی، آپ کا حدیث میں مقام بہت بلند تھا، بڑے بڑے اساتذہ سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا، ان کے علاؤہ جلیل القدر تابعین سے بھی استفادہ حاصل کیا، بعض اہل علم نے آپ کے مشائخ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے، ان میں اکثریت محدثین کی ہے، آپ کے تلامذہ کی بڑی تعداد محدثین کی ہے ۔


امام اعظم رضی الله عنہ پر طعن کرنے والے کہتے ہیں کہ آپ حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس و رائے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس مقام میں کوئی آپ کے برابر نہیں، سفیان فرماتے ہیں : میں نے امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے فرماتے سُنا کہ میں قرآن پاک سے حکم کرتا ہوں تو جو اِس میں نہیں پاتا، اس کا حکم رسول اللہ کی حدیث سے لیتا ہوں اور جو قرآن اور حدیث میں نہیں پاتا، اس میں صحابہ کرام کے اقوال سے حکم کرتا ہوں اور جس صحابی کے قول سے چاہتا ہوں سند پکڑتا ہوں اور جس کا قول چاہتا ہوں نہیں لیتا ہوں اور صحابہ کرام کے قول سے باہر نہیں جاتا لیکن جب حکم ابراہیم اور شعبی اور ابن سیرین اور حسن اور عطا اور سعید بن مسیب وغیرہ تک پہنچتا ہے تو ان لوگوں نے اجتہاد کیا، میں بھی اجتہاد کرتا ہوں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا ۔ (تبہییض الصحیفہ 23،چشتی)(سیرت امام اعظم صفحہ 250)


یہ اعتراض کہ آپ رضی الله عنہ حدیث پر قیاس کو مقدم کرتے ہیں بالکل غلط کے، یہ آپ پر صریح بہتان ہے، آپ کی شخصیت علمی دینی اور روحانی شخصیت ہے، سفیان فرماتے ہیں : علم میں لوگ ابوحنیفہ سے حسد کرتے ہیں ۔ امام اعظم رضی الله عنہ میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں، جو ایک بلند پایہ عالم دین میں ہونی چاہئیں، علم حدیث میں کوئی آپ کا ثانی نہیں، مال و دولت کی فراوانی کے باوجود بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے، اکثر ارباب تاریخ کا بیان ہے کہ امام اعظم رضی الله عنہ کی وفات 150ھ میں ہوئی ، آپ نے رجب میں انتقال فرمایا ، علی بن ہاشم کا قول ہے ۔ (بحوالہ مناقب موفق ۔ 1/120)


حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ علم کا خزانہ تھے جو مسائل بہت بڑے عالم پر مشکل ہوتے تھے ، آپ پر آسان ہوتے تھے ۔ (سیرت امام اعظم صفحہ 263)


امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ بلحاظ طبقہ دیگر مشہور ہمعصر مجتہد اماموں سے بڑے ہیں ۔ آپ رضی الله عنہ کا سن ولادت 80ھ ہے ، جو کہ خیر القرون علی الاطلاق یعنی قرنِ اول کا زمانہ ہے اور آپ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ۔جبکہ آپ کے ہمعصر آئمہ مجتہدین مثلاً امام مالک، امام اوزاعی وغیرھما ، نیز آپ کے بعد کے آئمہ مثلاً امام شافعی و امام احمد بن حنبل وغیرھما رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی ایک کو بھی طبقہ تابعین میں سے ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے ۔ اس لیے آپ کو ” امام اعظم“ کہتے ہیں ۔چنانچہ امام شہاب الدین احمد بن حجر المکی ،شیخ الاسلام حافظ ابو الفضل شہاب الدین احمد بن علی المعروف ”ابن حجر“ العسقلانی شارح صحیح البخاری کے فتاویٰ سے نقل فرماتے ہیں۔ترجمہ”شیخ الاسلام حافظ ابن حجر (عسقلانی) کے فتاویٰ میں ہے کہ امام ابو حنیفہ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت کو پایا جو 80ھ میں آپ کی پیدائش کے بعد وہاں موجود تھے ۔ لہٰذا آپ طبقہ تابعین میں شامل ہیں ۔جبکہ یہ فضیلت آپ کے معاصر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے آئمہ میں سے کسی کے لئے مثلاً اوزاعی کے لئے جو شام میں تھے ۔اور حماد بن سلمہ و حماد بن زید کےلیے جو بصرہ میں تھے ، اور کوفہ میں سفیان ثوری اور مدینہ شریف میں مالک اور مصر میں لیث بن سعد کےلیے ثابت نہیں ہو سکی ۔


امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہی وہ مجتہد امام ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مجموعہ قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی اجتہاد کے ہمہ گیر اصول و قواعد وضع کئے ہر باب سے متعلق دشوار و پیچیدہ مسائل کو حل اور غیر منصوص مسائل کا استخراج و استنباط فرمایا ،نیز علم شریعت کے بکھرے ہوئے مسائل کو ”کتاب الطہارة“ سے لے کر ”کتاب المیراث“ تک فقہی ابواب کی موجودہ ترتیب کے مطابق کتب اور ابواب پر باقاعدہ تحریری طور پر مرتب و مدون کر کے ان کو آسان اور ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا ۔پھر بعد کے تمام آئمہ مجتہدین و فقہا مصنفین امام مالک ،سفیان ثوری ،امام شافعی ،امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم و دیگر علماءنے انہی اصول و قواعد سے استفادہ کیا اور اپنی تصنیفات میں اسی ترتیب کو اپنایا ۔چنانچہ امام احمد بن حجر المکی الشافعی ،شافعی المذہب ہونے کے باوجود امام اعظم رضی الله عنہ کی اس اولیت کے بارے میں اعترافِ حق کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ ہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوںنے علم فقہ کو مدون کیا اور اسے ابواب و کتب (فقہ ) کی موجودہ ترتیب پر مرتب کیا اور آپ ہی کی ترتیب کی امام مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے موطا میں پیروی کی ، ورنہ آپ سے پہلے تو علماءمحض اپنے حفظ پر اعتماد کرتے تھے ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 28مطبوعہ مصر،چشتی)


خطیب بغدادی اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن داود سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یَجِبُ عَلٰی اَہلِ الاِسلَاِم اَن یَّدعُوا اللّٰہَ لِاَ بِی حَنِیفَةَ فِی صَلٰوتِھِم قَالَ وَذَکَرَ حِفظَہ عَلَیھِمُ السُّنَنَ وَالفِقہَ ۔ اہل اسلام پر لازم ہے کہ اپنی نماز میں اما م ابو حنیفہ کے حق میں دعا کیا کریں ۔کیونکہ انہوںنے مسلمانوں کےلیے سنن (نبویہ ) اور فقہ کو محفوظ کر دیا ۔


یہی مضمون مشہور اہلحدیث غیر مقلد عالم علامہ محمد داﺅد غزنوی نے حافظ ابن کثیر کی کتاب ”البدایة والنہایة“ کے حوالے سے نقل کیا اور نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ اسے امام احب کا بلند مرتبہ تسلیم کرتے ہوئے دلیل کے طور پر ذکر کیا ۔ (مقالات مولانا محمد داﺅد غزنوی مطبوعہ مکتبہ نذیریہ لاہور صفحہ 56)


اور امام محدث و فقیہ قاضی ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سند کے ساتھ امام شافعی کا مندرجہ ذیل قول نقل فرماتے ہیں : مَن لَّم یَنظُر فِی کُتُبِ اَبِی حَنِیفَةَ لَم یَتَبَحَّرفِی الفِقہِ“ ”جو شخص امام ابو حنیفہ کی کتابوں کا مطالعہ نہ کرے وہ علم فقہ اور شرائع میں متبحر نہیں ہو سکتا “ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ81 طبع بیروت،چشتی)


علامہ خطیب بغدادی اپنی سندِ متصل کے ساتھ امام شافعی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ”جو شخص فقہ و شرائع میں مہارت حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کو لازم پکڑے ۔کیونکہ لوگ سب کے سب فقہ میں ان کے محتاج ہیں ۔ (تاریخ بغداد جلد13صفحہ111)


امام محدث محمد شمس الدین الذہبی اپنی سند متصل کے ساتھ امام ابو یوسف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ہم امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ کے چند شاگرد جن میں داﺅ د ،قاسم بن معن (ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پڑ پوتے)،عافیہ بن یزید ،حفظ بن غیاث ،وکیع ابن الجراح (امام شافعی کے استاد) ، مالک بن مغول اور زفررضی اللہ عنہم تھے ،ایک بارشد والے دن میں امام ابو حنیفہ کے پاس جمع تھے ۔امام صاحب نے اپنا چہرہ ہماری طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ تم لوگ میرے دل کے سرور اور رازدان اور میرے غم کو غلط کرنے والے ہو ،میں نے فقہ کو تمہارے لئے ہموار و آسان کر کے ان کی باگ ڈور تمہارے ہاتھ میں دے دی ہے ،اب سارے لوگ تمہارے نقشِ پاک اتباع اور تمہاری باتوں کی جستجو کیا کریں گے ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ صفحہ 170طبع مصر)


کمالِ عقل و ذہانت ،فقہی بصیرت ،اجتہادی قوت اور علمی و عملی فضیلت کے اعتبار سے امامِ ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا پایہ اپنے تمام ہم عصروں اور بعد کے آئمہ سے نہایت بلند تھا ۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ اپنی ان خداداد صلاحیتوں اور علمی و عملی خوبیوں کی وجہ سے علوم شریعہ میں پوری امت کے مقتدیٰ و پیشوا ہیں ۔لہٰذا اس وجہ سے بھی آپ کو ”امام اعظم“ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ امام ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سندِ متصل کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”میں امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا آپ اسے ادب و احترام سے پیش آئے ۔پھر جب وہ شخص چلا گیا تو شاگردوں سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو یہ کون تشریف لائے تھے ؟انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ مگر ہم (عبد اللہ بن المبارک) نے ان کو پہچان لیا ۔چنانچہ امام مالک نے فرمایا کہ یہ عراق کے ابو حنیفہ تھے ،(ان کے علمی پایہ اور زور استدلال کا یہ عالم ہے کہ ) اگر کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو وہ ویسا ہی نکل آئے جیسا کہ انہوں نے کہا ہو ۔ان کو مہارتِ فقہ کی وہ توفیق دی گئی ہے کہ اب ان پر اس کے مسائل کو حل کرنا کوئی زیادہ دشوار نہیں ہے ۔عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ پھر حضرت سفیان ثوری آپ کے پاس آئے تو ان کو امام ابو حنیفہ سے کمتر مرتبہ کی جگہ پہ بیٹھایا۔( اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ 74مطبوعہ بیروت)


خطیب بغدادی علامہ احمد بن علی بن ثابت اپنی سند متصل کے ساتھ ربیع بن یونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوںنے فرمایا:”ایک روز امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ خلیفہ ابو جعفر منصور کے پاس تشریف لائے ۔اس وقت حضرت عیسی بن موسیٰ بھی وہاں موجود تھے ۔وہ منصور سے کہنے لگے یہ (ابو حنیفہ) آج دنیا کے بڑے عالم ہیں ۔تو منصور نے امام صاحب سے کہا : اے نعمان! آپ نے کس سے علم حاصل کیا؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے ان کا علم حاصل کیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانے میں روئے زمین پر ان سے بڑا عالم کوئی نہیں تھا ۔منصور نے کہا کہ آپ نے اپنے لئے مضبوط علم حاصل کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 99)


امام شافعی رضی اللہ عنہ کا قول ”تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے عیال (محتاج و پروردہ ہیں) اور امام محمد شمس الدین الذہبی ،امام ابو بکر المروزی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : میں نے ابو عبد اللہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے سنا ،وہ فرماتے تھے کہ ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ ابو حنیفہ نے قرآن کو مخلوق کہا ہے ۔یہ سن کر میں نے کہا الحمد للہ اے ابو عبد اللہ ان کا تو علم میں بڑا مقام ہے ۔تو آپ فرمانے لگے ۔سبحان اللہ ! وہ (ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ) تو علم و تقویٰ ،زہد اور دارِ آخرت کے اختیار کرنے میں اس مقام پر فائز ہیں کہ جہاں کسی اور کی رسائی نہیں ہو سکتی ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ صفحہ 27 طبع مصر)


حافظ ابو بکر احمد بن علی خطیب بغدادی اپنی سند کے ساتھ حضرت محمد بن بشر سے روایت کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ میں امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتا تھا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ کہاں سے آئے ہو؟ میں کہتا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سے ۔یہ سن کر وہ فرماتے ۔’تم ایسے شخص کے پاس سے آئے ہو جو روئے زمین پر سب سے زیادہ فقیہ ہے ۔ (تاریخ بغداد جلد 133صفحہ 3433 مطبوعہ مصر)


یہی حافظ ابو بکر خطیب بغدادی ،نیز امام محدث حافظ شمس الدین محمد الذہبی ،امام محدث و فقیہ سفیان بن عینیہ رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے کہ : میری آنکھ نے (علم و فضل میں) ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا مثل نہیں دیکھا ۔ (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 342،چشتی)(مناقب ابی حنیفہ للذہبی صفحہ 19مطبوعہ مصر)


امام محدث و فقیہ ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری ،ان کے شاگرد حافظ ابو بکر خطیب بغدادی اور امام محدث حافظ شمس الدین الذہبی نے امام محدث و فقیہ حضرت عبد اللہ بن مبارک کا یہ قول نقل کیا :” اگر حدیث معلوم ہو اور اجتہاد ی رائے کی ضرورت ہو تو یہ رائے امام مالک،سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ کی لینی چاہےے۔ اور امام ابو حنیفہ کی نظر عقل و ذہانت پر گہری جاتی ہے اور ان تینوں میں زیادہ فقیہ ہیں ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ 77 طبع بیروت و تاریخ بغداد)


امام محدث و فقیہ ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سند کے ساتھ نصر بن علی سے روایت کرتے ہیں کہ امام المحدثین ”شعبیٰ“ کو جب امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر ملی تو افسوس سے انا للہ ۔۔۔الخ پڑھی اور پھر فرمانے لگے ۔”بے شک اہل کوفہ سے نور علم کی روشنی بجھ گئی ،سن لو! اب لوگ ابو حنیفہ کی مثل کبھی نہیں دیکھیں گے ۔ (اخبارا بی حنیفہ صفحہ 72 طبع بیروت)


امام محدث حافظ شمس الدین الذہبی ،امام بخاری کے استاد گرامی امام فقیہ و محدث امام مکی بن ابرا ہیم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ کَانَ اَبُو حَنِیفَةَ اَعلَمُ اَہلِ زَمَانَہ ۔ اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم ہوئے ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ )


اما م الجرح و التعدیل یحی بن معین جو امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں : قرات میرے نزدیک حمزہ کی قرات اور فقہ امام ابو حنیفہ کی فقہ ہے ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ)


یہی امام یحی بن معین اپنے استاد گرامی امام المحدثین امام یحی بن سعید القطان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :”ہم خد ا کا نام لے کر جھوٹ نہ بولیں گے ،ہم نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ بہتر اجتہادی رائے کسی کی نہیں سنی اور ہم نے ان کے اکثر فقہی اقوا ل اختیار کر لے ہیں ۔ (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 345)


امام شافعی رضی اللہ عنہ کے استاد گرامی امام وکیع فرماتے تھے : میں نے امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے زیادہ فقیہ کسی کو نہ پایا ۔ (تاریخ بغداد جلد 12 صفحہ 345)


نیز امام محمد بن حسن جو کہ امام شافعی کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں : امام ابو حنیفہ یکتائے روزگار تھے ۔ (اخبار ابی حنیفہ طبع بیروت)


امام محدث ،شیخ الاسلام یزید بن ہارون جو کہ امام احمد بن حنبل کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں:”امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے ۔آپ کے معاصر علماءمیں جس جس کو میں نے پایا اسے یہی کہتے سنا کہ اس نے آپ سے بڑا کوئی فقیہ نہ دیکھا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ طبع بیروت)


امام شافعی اور احمد بن حنبل کے استاد گرامی حضرت امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم القاضی فرماتے ہیں : ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اسلافِ کرام کے صحیح جانشین تھے اور قسم بخدا انہوں نے اپنے بعد روئے زمین پر اپنی مثل کوئی نہ چھوڑا ۔ (اخبار ابی حنیفہ للصمیری صفحہ 32)


امام محدث علی بن عاصم کہتے ہیں : اگر روئے زمین کے آدھے لوگوں کی عقل سے امام ابو حنیفہ کی عقل تولی جائے تو آپ کی عقل کا پلہ بھاری رہے گا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ)(تاریخ بغداد)(مناقب الامام ابی حنیفہ )


نیز یہی امام علی بن عاصم فرماتے ہیں : اگر امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ کا علم ان کے تمام اہل زمانہ کے مجموعی علم سے تولا جائے تو یقینا آپ کا علم ان سب کے علم سے بڑھا ہوا ہو گا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و مناقب الامام ابی حنیفہ)


اور امام محدث نضر بن شمیل فرماتے ہیں : لوگ علم فقہ (کی باریکیوں)سے غافل تھے ۔یہاں تک کہ ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی فقہی موشگافیوں ، عقدہ کشائیوں اور ان کی فقہی مسائل کی تشریح و تلخیص نے لوگوں کو چونکا دیا ۔ (تاریخ بغداد جلد 133)


امام فقیہ و محدث حافظ محمد بن میمون فرماتے ہیں ” امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان سے بڑا عالم ،متقی ،زاہد ،عارف اور فقیہ کوئی نہ تھا ۔ان کا درس فقہ و حدیث سننے کی بجائے مجھے ایک لاکھ سونے کی اشرفیاں بھی ملتیں تو میں راضی نہ ہوتا ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 32 مطبوعہ مصر،چشتی)


الغرض امام مالک ،امام شعبیٰ ،امام ابو یوسف القاضی، امام سفیان ثوری ،امام سفیان بن عیینہ ،امام عبد اللہ بن المبارک، امام شافعی ،امام احمد بن حنبل، امام وکیع ،عیسیٰ بن موسیٰ ،امام یحییٰ بن سعید القطان ،امام یحی بن معین ،امام مکی بن ابراہیم ،امام محمد بن حسن ،امام علی بن عاصم ،امام نضر بن شمیل اور حافظ محمد بن میمون رضی اللہ عنہم اجمعین یہ پورے سترہ (17) آئمہ کرام ہیں جو سب کے سب اسلام کے صدر اول ، اتباع تابعین اور سلف صالحین میں سے ہیں ۔سب اساطینِ علم و فضل اور علمی دنیا کے آفتاب و ماہتاب ہیں ۔ان کی جلالتِ شان اور علمی مقام کا یہ عالم ہے کہ ان کا نام آتے ہی بڑے بڑے اولیاء،عرفا ،عباد و زھاد، مفسرین ،محدثین ،فقہا اور متکلمین کے سر ادب و احترام سے جھک جاتے ہیں ۔یہ سب یک زبان ہو کر تمام ہمعصر اور بعد کے علماءو اعلام وآئمہ کرام پر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی علمی و عملی ،عقلی و فکری ، فقہی اور اجتہادی برتری کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان فرمارہے ہیں ۔ کیا ان جبالِ علم کی روشن شہادتوں کے بعد بھی کسی مسلمان کو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ” امام اعظم ہونے میں شک رہ سکتا ہے ؟


غیر مقلدین کی شہادتیں : اب ہم اس مسئلے پر بحث کو ختم کرتے ہوئے آخر میں غیر مقلد کے دو بڑے مقتدر عالموں کی مزید گواہیاں پیش کرتے ہیں ۔تاکہ اگر کوئی مندرجہ بالا آئمہ سلف کے ارشادات سے بھی مطمئن نہ ہوا ہو تو کم از کم اپنے بزرگوں کی شہادتِ حق سن کر تو ضرور ہی اس کا دل نورِ یقین سے منور ہو جانا چاہیے ۔


علامہ نواب صدیق حسن خاں کی گواہی : غیر مقلدوں کے مقتدر پیشوائے علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی اپنی مشہور تصنیف” الحطة فی ذکر الصحاح الستة “ کے صفحہ 42پر رقمطراز ہیں : ”ان (طبقہ ثالثہ کے آئمہ کبار)میں سے امام جعفر صادق ،امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ،امام مالک ،امام اوزاعی ،امام ثوری ،ابن جریح اور امام محمد بن ادریس شافعی وغیرھم ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔ اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک کی گواہی کے مطابق یہی تین طبقے خیر و برکت کے ہیں ۔نیز یہی اسلام کے صدر اول اور سلف صالح ہیں جو ہر باب میں سند اور حجت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ (مقالات داﺅد غزنوی صفحہ 56 مطبوعہ مکتبہ نذیریہ لاہور)


علامہ ابراہیم میر سیالکوٹی کی گواہی : علامہ محمد داﺅد غزنوی جو کہ غیر مقلدین کی جماعت میں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ،لکھتے ہیں کہ : علامہ محمد ابراہیم سیالکوٹ ہماری جماعت کے مشہو ر و مقتدر علماءمیں سے تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’تاریخ اہلحدیث“ میں امام ابو حنیفہ کی مدح و توصیف اور ان کے خلاف ارجاء (فرقہ مرجیئہ سے ہونا) وغیرہ الزامات کے دفیعہ میں 29x23/8 سائز کے 8 صفحات وقف کیے ..... پھر کسی جگہ ان کا ذکر امام اعظم رضی الله عنہ کے نام سے کرتے ہیں ،کسی جگہ سیدنا امام ابو حنیفہ کہہ کر ادب و احترام سے ذکر کرتے ہیں ..... اور اس سار ی بحث کو آخر میں علامہ محمد ابراہیم میر اس فقرہ کے ساتھ ختم کرتے ہیں ”خلاصة الکلام یہ کہ نعیم کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ اس کی روایت کی بنا ءحضرت امام ابو حنیفہ جیسے بزرگ امام کے حق میں بدگوئی کریں ۔جن کو حافظ ذہبی جیسے ناقد الرجال ”امام اعظم“ کے معزز لقب سے یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔الخ ۔ (مقالات داﺅد غزنوی صفحہ 55)


علامہ داﺅد غزنوی کی گواہی : غیر مقلد ین کے نہایت ہی مقتدر اور محترم عالم علامہ محمد داﺅد غزنوی خود تحریر فرماتے ہیں : حضرت الامام الاعظم ۔ (مقالات مولانا محمد داﺅد غزنوی صفحہ 55 شائع کردہ مکتبہ نذیریہ لاہور)


غیر مقلدین کے مسلمہ بزرگوں کی یہ تین شہادتیں ہیں جو کہ فقیر نے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے معزز لقب ”امام اعظم“ کے ثبوت میں پیش کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے علمی سمندر سے چندہ قطرے عطا فرما کر قرآن و سنت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...