Tuesday 12 March 2024

فجر کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھنا احادیث و فقہ کی روشنی میں

0 comments
فجر کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھنا احادیث و فقہ کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : بہتر یہی ہے کہ سنتیں نمازِ فجر شروع ہونے سے قبل ادا کر لی جائیں ۔ اگر بامر مجبوری کوئی نمازی باجماعت نماز سے قبل سنتیں ادا نہ کر سکے اور اسے یقین ہو کہ امام کے نماز مکمل کرنے سے پہلے وہ جماعت میں شریک ہو جائے گا تو پھر وہ سنتیں الگ جگہ پر ادا کر کے شاملِ جماعت ہو ۔ نماز فجر کی دو سنتوں کے متعلق احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ان کی بہت فضلیت بھی بیان فرمائی ہے ۔ امام ابو جعفر طحاوی شرح معانی الآثار میں نقل کرتے ہیں کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ اگر نمازِ فجر باجماعت شروع ہو جاتی اور انہوں نے ابھی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں تو وہ پہلے مسجد کے کسی گوشے میں سنتیں ادا کرتے ، پھر باجماعت نماز میں شریک ہو جاتے ۔ روایت درج ذیل ہے : عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّهُ كَانَ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ , ثُمَّ يَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِي الصَّلَاةِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے اور لوگ (باجماعت) نمازِ فجر میں صف بستہ ہوتے تو یہ پہلے مسجد کے گوشے میں دو رکعت (سنتیں) پڑھتے ، پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتے ۔ (شرح معاني الآثار کتاب الصلاة باب الرجل يدخل المسجد والإمام في صلاة الفجر جلد 1 صفحہ 487 رقم 2164)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ ۔
ترجمہ : جو فجر کی دو سنتیں ادا نہ کر سکے ، وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھ سکتا ہے ۔ (سنن ترمذی السنن كتاب الصلاة باب ما جاء في إعادتهما بعد طلوع الشمس جلد 2 صفحہ 287 الرقم 423 بيروت دار إحياء التراث العربي)

عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت: لم یکن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم علی شیء من النوافل اشد تعاھدا منہ علی رکعتی الفجر ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کسی نفل (جو فرضوں سے زائد ہوتی ہے ، مراد سنن ہیں) کی اتنی زیادہ پابندی نہیں فرماتے تھےجتنی فجر کی دو رکعتوں کی کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 156 باب تعاھد رکعتی الفجر،چشتی)(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 251 باب استحباب رکعتی الفجر والحث علیھا)

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم : لا تدعوھما وان طردتکم الخیل ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  نے فرمایا کہ فجر کی دو سنتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 186 باب فی تخفیفھما)(شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 209 باب القراۃ فی رکعتی الفجر)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے باجماعت نماز کی بھی بہت تاکید فرمائی ہے ۔ نیز حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب جماعت ہو رہی ہو تو اس میں شرکت کی جائے ۔ اب ایک شخص ایسے وقت میں آیا کہ فجر کی جماعت کھڑی ہے اور اس نے سنتیں بھی ادا نہیں کیں ، تو احناف کا مذکورہ موقف ایسا مستقیم ہے کہ اس سے دونوں فضیلتیں جمع ہو جاتی ہیں یعنی فجر کی سنتوں کا جو تاکیدی حکم ہے اس پر بھی عمل ہو جاتا ہے اور جماعت میں شمولیت کے حکم کی بھی تعمیل ہوجاتی ہے ۔ یہ موقف حضرت صحابہ  کرام رضی اللہ عنہم  اور تابعین رحمہم اللہ علیہم کے عمل سے ثابت ہے ۔

عن عبد اللہ ابن ابی موسی قال : جاء ابن مسعود والامام یصلی الصبح فصلی رکعتین الی ساریۃ ولم یکن صلی رکعتی الفجر ۔
ترجمہ : عبد اللہ بن ابی موسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ امام نماز پڑھا رہا تھا ۔ تو آپ نے ستون کی اوٹ میں دو رکعتیں پڑھیں ، آپ نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث 9385،چشتی) ۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ورجالہ موثقون ( اس کے راوی ثقہ و لائق اعتماد ہیں) ۔ (مجمع الزوائد رقم الحدیث 2392)

مالک ابن مغول قال سمعت نافعا یقول : ایقظت ابن عمر رضی اللہ عنہما لصلوٰۃ الفجر وقد اقیمت الصلاۃ فقام فصلی رکعتین ۔
ترجمہ : مالک بن مغول سے روایت ہے کہ میں نے  حضرت نافع سے سنا ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز فجر کےلیے اس وقت بیدار کیا جبکہ نماز کھڑی ہو چکی تھی ، آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پہلے دو رکعت سنت ادا فرمائی ۔ (سنن الطحاوی رقم الحدیث 2042)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما باوجود اقامت نماز ہو جانے کے سنتیں ادا فرما رہے ہیں ۔

عن ابی عثمان الانصاری قال: جاء عبد اللہ ابن عباس والامام فی صلوٰۃ الغداۃ ولم یکن صلی الرکعتین فصلی عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما الرکعتین خلف الامام ثم دخل معھم ۔
ترجمہ : ابو عثمان انصاری فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نما پڑھا رہا تھا ۔ آپ نے فجر کی دو سنتیں نہیں پڑھیں تھیں ۔ پس آپ نے اما م کے پیچھے (جماعت سے ہٹ کر) یہ دو رکعتیں ادا کیں، پھر ان کے ساتھ جماعت میں شریک ہو گئے ۔ (سنن الطحاوی رقم الحدیث 2040)

عن محمد ابن کعب قال : خرج عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما من بیتہ فاقیمت صلوٰۃ الصبح فرکع رکعتین قبل ان یدخل المسجد وھو فی طریق ثم دخل المسجد فصلی الصبح مع الناس ۔ (سنن الطحاوی رقم 2041،چشتی)
ترجمہ : محمد ابن کعب فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھر سے نکلے ، صبح کی نماز ادا ہورہی تھی ۔ آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی راستے میں دو رکعت سنت ادا کی ۔ پھر مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی ۔

عن زید ابن اسلم عن ابن عمر رضی اللہ عنھما : انہ جاء والامام یصلی الصبح ولم یکن صلی رکعتین قبل صلاۃ الصبح فصلاھما فی حجرۃ حفصۃ رضی اللہ عنھا ثم انہ صلی مع الامام ۔
ترجمہ : حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نما ز پڑھا رہا تھا ، آپ نے صبح کی دو سنتیں ادا نہیں کی تھیں ، تو آپ نے یہ دو رکعتیں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر ادا کیں پھر امام کے ساتھ جماعت میں آملے ۔ (سنن الطحاوی رقم الحدیث 2043)

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا گھر ان دنوں مسجد میں داخل تھا ۔

عن ابی الدرداء : انہ کان یدخل المسجد والناس صفوف فی صلوٰۃ الفجر فیصلی الرکعتین فی ناحیۃ المسجد ثم یدخل مع القوم فی الصلوٰۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب وہ مسجد میں آتے اور لوگ نماز فجر کی جماعت کی صف میں ہوتے تو یہ مسجد کے کسی گوشے میں سنتِ فجر پڑھ کر لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہو جایا کرتے تھے ۔ (سنن الطحاوی رقم الحدیث 2044)

مصنف عبد الرزاق میں یہ الفاظ ہیں : عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ انہ کان یقول : نعم، واللہ لئن دخلت والناس فی الصلوٰۃ لاعمدن الی ساریۃ من سواری المسجد ثم لارکعنھما ثم لاکملنھما ثم لا اعجل عن اکمالھما ثم امشی الی الناس فاصلی مع الناس  الصبح ۔
ترجمہ : حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں اللہ کی قسم ! اگر میں ایسے وقت میں (مسجد میں) داخل ہوں جبکہ لوگ جماعت میں ہوں تو میں مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے پیچھے جاکر فجر کی سنتوں کی دو رکعتیں ادا کروں گا، ان کو کامل طریقہ سے ادا کروں گا اور ان کو کامل کرنے میں جلدی نہ کروں گا ۔پھر جا کر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوجاؤں گا ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد 2 صفحہ 294 رقم 4033،چشتی)

عن حارثۃ ابن مضرب ؛ ان ابن مسعود وابا موسی خرجا من عند سعید ابن العاص ، فاقیمت الصلوٰۃ، فرکع ابن مسعود رکعتین،ثم دخل  مع القوم فی الصلوٰۃ، واما ابو موسی فدخل فی الصف ۔ ( مصنف ابن ابی شیبۃ رقم 6476)
ترجمہ : حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنھما ، حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ نے دو رکعتیں ادا کیں  اور نماز میں لوگوں کے ساتھ آملے جبکہ ابو موسی اشعری  رضی اللہ عنہ دو رکعتیں پڑھے بغیر آملے ۔
وفیہ ایضا فی  طریق اخری : فجلس عبد اللہ الی اسطوانۃ من المسجد فصلی الرکعتین ثم دخل فی الصلاۃ ۔
ایک طریق میں ہے : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کے ایک ستون کی اوٹ میں بیٹھ گئے ، دو رکعتیں ادا کیں ، پھر نماز میں شامل ہو گئے ۔ (سنن الطحاوی رقم الحدیث 2037،چشتی)(مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث 4034)

عن ابی عثمان النھدی قال: کنا ناتی عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ قبل ان نصلی رکعتین قبل الصبح وھو فی الصلاۃ فنصلی رکعتین فی آخر المسجد ثم ندخل مع القوم فی صلاتھم ۔
ترجمہ : ابو  عثمان النھدی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  حاضر ہوتے تھے جبکہ آپ نماز پڑھا رہے ہوتے تھے اور ہم نے نماز فجر سے پہلے سنتیں ادا نہ کی ہوتی تھیں ، تو ہم پہلے مسجد کے کسی کونے میں سنتیں ادا کرتے تھے پھر لوگوں کے ساتھ نماز (کی جماعت) میں شریک ہو جاتے تھے ۔ (سنن الطحاوی رقم الحدیث 2046)

اس روایت میں “کنا ناتی” جمع کا صیغہ دلالت کرتا ہے کہ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں یہ صورت کثرت سے پیش آتی تھی اور بہت سے حضرات کا عمل اس کے مطابق تھا ۔

عن الشعبی یقول : کان مسرو ق یجیء الی القوم وھم فی الصلاۃ ولم یکن رکع رکعتی الفجر فیصلی رکعتین فی المسجد ثم یدخل مع القوم فی صلاتھم ۔
ترجمہ : امام شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ امام مسروق (مسجد میں) تشریف لاتے جبکہ لوگ نماز ادا کررہے ہوتے اور آپ نے صبح کی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں  تو آپ پہلے دو رکعتیں مسجد میں ادا کرتے ، پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاتے ۔ (سنن الطحاوی رقم الحدیث 2048،چشتی)

عن یزید ابن ابراھیم عن الحسن : انہ کان  یقول اذا دخلت المسجد ولم تصل رکعتی الفجر فصلھما وان کان الامام یصلی ثم ادخل مع الامام ۔
ترجمہ : یزید ابن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم مسجد میں ایسے وقت میں داخل ہو کہ امام نماز میں ہو اور تم نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو پہلے سنتیں پڑھو ، پھر امام کے ساتھ شریک ہو جاؤ ۔ (سنن الطحاوی: رقم الحدیث 2050)
وفی لفظ لہ : عن یونس قال: کان الحسن یقول یصلیھما فی ناحیۃ المسجد ثم یدخل مع القوم فی صلاتھم ۔
ترجمہ : ایک روایت میں یوں ہے : حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہ شخص ( جس نے ابھی سنت فجر ادا نہیں کی ) ان دو رکعتوں کو مسجد کے کسی کونہ میں پڑھے ۔ پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے ۔ (سنن الطحاوی رقم الحدیث 2051)

عن الحارث عن علی قال : کان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یصلی الرکعتین عند الاقامۃ ۔
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز کی اقامت کے وقت دو رکعتیں ادا فرماتے تھے ۔
(سنن ابن ماجۃ رقم الحدیث 1147،چشتی)

اس میں جواز موجود ہے کہ اقامت کے وقت امام دو رکعتیں ادا کرسکتا ہے ، تو مندرجہ بالا آثارِ صحابہ و  تابعین اور حدیث ” لا تدعوھما وان طردتکم الخیل” کی وجہ سے مقتدی کےلیے بھی ان دو رکعتوں کا جواز ثابت ہوتا ہے جبکہ صفوفِ جماعت میں مخالط نہ ہو ۔

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قال اذا اقیمت الصلاۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ الا رکعتی الصبح ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب نماز (کی جماعت) کھڑی ہوجائے تو اس وقت کوئی نماز نہ پڑھی جائے، ہاں صبح کی سنتیں پڑھ سکتے ہیں ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 صفحہ 483 باب کراھیۃ الاشتغال بھما بعد ما اقیمت الصلوٰۃ)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنھم ، ابو عثمان النھدی ، امام مسروق، امام حسن بصری رحمہم اللہ علیہم کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں آنے والے شخص نے اگر سنتیں ادا نہیں کیں تو مسجد سے باہر ، مسجد کے صحن میں ، کسی ستون وغیرہ کی اوٹ میں ، جماعت کی جگہ سے ہٹ کر پہلے سنتیں ادا کرے پھر جماعت میں شریک ہو جائے اور یہی احناف کا مؤقف ہے ۔ نمازِ فجر کی دو سنتوں کے متعلق احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بہت فضلیت بھی بیان فرمائی ہے۔ امام ابو جعفر طحاوی شرح معانی الآثار میں نقل کرتے ہیں کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ اگر نمازِِ فجر باجماعت شروع ہو جاتی اور انہوں نے ابھی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں تو وہ پہلے مسجد کے کسی گوشے میں سنتیں ادا کرتے ، پھر باجماعت نماز میں شریک ہو جاتے ۔ روایت درج ذیل ہے : ⏬

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّهُ كَانَ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ , ثُمَّ يَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِي الصَّلَاةِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے اور لوگ (باجماعت) نمازِ فجر میں صف بستہ ہوتے تو یہ پہلے مسجد کے گوشے میں دو رکعت (سنتیں) پڑھتے، پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتے ۔ (طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب الرجل يدخل المسجد والإمام في صلاة الفجر جلد 1 صفحہ 487 رقم 2164)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ ۔
ترجمہ : جو فجر کی دو سنتیں ادا نہ کر سکے ، وہ طلوع آفتاب کے بعد ادا کرے ۔ (سنن ترمذی كتاب الصلاة باب ما جاء في إعادتهما بعد طلوع الشمس جلد 2 صفحہ 287 الرقم 423 بيروت دار إحياء التراث العربی)

مختصر یہ ہے کہ فجر کی سنتیں ادا کرکے جماعت کے ساتھ مل سکتا ہو تو سنتیں پڑھ لے، باقی نمازوں کی پہلی سنتیں شروع کر چکا ہو تو دو سنتوں کے بعد سلام پھیر دے اگر تیسری رکعت کا سجدہ کر چکا ہو تو چار مکمل کر کے جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے ، اگر شروع نہ کی ہوں تو جماعت کے ساتھ شامل ہونا لازم ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں یہ انتہائی غلط طریقہ رائج ہے ۔ جیسے بعض لوگوں کا معمول ہے کہ مسجد میں فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور وہ جماعت کی صفوں میں متصل کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے ایک نقصان یہ ہے کہ امام بآواز بلند قرآن حکیم کی تلاوت کر رہا ہوتا ہے جس کا سننا فرض ہے اور سنتوں میں مشغول شخص اس فرض کو ترک کر رہا ہوتا ہے ۔ اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات سنتوں میں مشغولیت کی وجہ سے فرض نماز کی جماعت چھوٹ جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں جہاں فجر کی سنتیں پڑھنے کی سخت تاکید کی گئی ہے وہاں فقہاء نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ نمازی کو اگر فجر کی سنتیں پڑھنے کی وجہ سے جماعت سے محروم ہونے کا خدشہ ہو تو پھر سنتیں ترک کر کے جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے اور سورج نکلنے کے بعد استواء (وقتِ مکروہ) سے پہلے سنتوں کی قضا کرے ۔ فجر کے فرض پڑھ لیے اور سنتیں نہیں پڑھی تھیں تو اب یہ سنتیں فجرکے فرضوں کے بعد نہیں پڑھ سکتے ، بلکہ اب اگریہ سنتیں پڑھنا چاہیں تو سورج طلوع ہونے کے بیس منٹ بعد پڑھ سکتے ہیں ، اس سے پہلے نہیں پڑھ سکتے ، اور جب سورج طلوع ہو جائے تو اب بھی جب تک بیس منٹ نہ گزر جائیں تب تک کوئی نماز ادا نہیں کر سکتے ، لہٰذا یہ سنتیں سورج طلوع ہونے کے بیس منٹ بعد ہی پڑھ سکتے ہیں ، اور ضحوہ کبری کے وقت سے پہلے تک پڑھ سکتے ہیں اگر ضحوہ کبری کا وقت شروع ہوگیا تو اب یہ سنتیں نہیں پڑھی جا سکتیں ۔ فتاوی رضویہ میں ہے : سنت فجر کہ تنہا فوت ہوئیں یعنی فرض پڑھ لیے ، سنتیں رہ گئیں ، ان کی قضا کرے تو بعد بلندی آفتاب پیش از نصف النہار الشرعی کرے ۔ طلوع شمس سے پہلے ان کی قضا ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک ممنوع و ناجائز ہے ۔ لقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : صبح کے بعد کوئی نماز جائز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 366 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔