تقوی کا معنی ، مفہوم اور اخلاص قرآن و حدیث کی روشنی میں
قرآن و حدیث میں لفظ ’’تقویٰ‘‘ مختلف صورتوں میں بیشمار مقامات پر استعمال کیا گیا ہے ۔ مختلف استعمالات کے پیش نظراس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے ۔ تقویٰ رذائل سے بچنے اور فضائل سے آراستہ ہونے کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بندے کو تقویٰ اختیار کرنے پر متعدد نعمتیں اور رحمتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ان نعمتوں اور رحمتوں کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے : ⏬
وَمَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاَ ۔
ترجمہ : اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے ۔
وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَھُوَ حَسْبُهٗ ۔
ترجمہ : اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے ۔
وَمَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًاَ ۔
ترجمہ : اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے ۔
وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یُکَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰ تِهٖ وَیُعْظِمْ لَهٗٓ اَجْرًا ۔
ترجمہ : اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ اُس کے چھوٹے گناہوں کو اس (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیتا ہے اور اجر و ثواب کو اُس کے لیے بڑا کردیتا ہے ۔ (سورہ الطلاق)
گویا اللہ تعالیٰ متقین کو دنیا میں درج ذیل صورتوں میں اپنے انعامات سے نوازتا ہے : ⏬
1 ۔ دنیا و آخرت کے رنج و غم سے نکلنے کی راہ عطا فرماتا ہے ۔
2 ۔ عالم غیب سے رزق کے اسباب پیدا فرماتا ہے ۔
3 ۔ جملہ معاملات اور امور میں آسانی پیدا فرماتا ہے ۔
4 ۔ صغیرہ گناہوں کو اس کے نامہ اعمال سے مٹادیتا ہے ۔
امام عبدالرحمن السلمی علیہ الرحمہ اپنے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اوصیکم یا اخی احسن الله توفیقکم و نفسی تقوی الله ۔
ترجمہ : اے میرے بھائی اللہ تعالیٰ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ میں آپ کو اور اپنے آپ کو نصیحت اور وصیت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ۔ اس لیے کہ : تقوی الله کفاک کل هم ۔ تقویٰ تمہیں دنیا کی ہر پریشانی سے نجات دلانے والا ہے ۔ (الوصیۃ صفحہ 41)
پھر فرمایا : وان اتقیت الناس: اگر تم لوگوں سے ڈرتے رہے اور اللہ کو بھلا کر لوگوں کے دروازے پر چلے گئے اور منگتے بن کر ان کے سامنے کھڑے بھی رہے تو جان لو ۔ لن یغنوا عنک من الله شیئا ۔ وہ تمہیں اللہ کی بارگاہ سے عاجز نہیں کر سکتے ، اللہ سے بے نیاز نہیں کر سکتے ، پھر بھی تمہیں اللہ کی ضرورت ہے ۔ (الوصیۃ)
بندے کو اللہ تعالیٰ کی کتنی حاجت ہے ؟ اس حوالے سے امام ابوبکر الشبلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : میں نے اپنی زندگی میں سیکڑوں علماء ، اتقیاء ، محققین اور مصلحین کی صحبت میں وقت گزارا اور بڑے بڑے علماء کے ہاں زانوئے تلمذ تہہ کیا لیکن میری زندگی کا نچوڑ صرف ایک ہی حدیث مبارک بن گئی جسے میں نے اپنے قلب و باطن میں انمول موتی کی مانند محفوظ کرلیا اور اپنی زندگی کا زادِ راہ اور نجاتِ آخرت بنالیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : واعمل للدنیا بقدر بقائک فیھا واعمل للآخرة بقدر مقامک فیھا ۔ واعمل لله بقد ر حاجتک الیه واعمل للنار بقدر صبرک الیھا ۔
ترجمہ : اے بندے اس دنیا کے لیے اتنا کر جتنا تو نے اس میں رہنا ہے اور آخرت کے لیے اتنا کرجتنا تو نے آخر ت میں رہنا ہے ۔ اور اپنے رب کے لیے اتنا کر جتنا تجھے اس سے حاجت رہتی ہے۔اور دوزخ کی آگ کے لیے اتنا کر جتنا تو اسے برداشت کر سکتا ہے ۔ (امام غزالی ایھا الولد صفحہ 121،چشتی)
چونکہ ہمیں اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے ، کھانے پینے حتی کہ ہر ہر لمحے کے لیے خدا کی حاجت ہے تو پھر اے بندے تو اس کے لیے اتنا کر جتنا تجھے اس کی حاجت ہے ۔
حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کا معنی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ھی الخوف من الجلیل والعمل بالتنزیل والقناعة بالقلیل والاستعداد لیوم الرحیل ۔
ترجمہ : تقویٰ یہ ہے کہ رب جلیل کے جاہ و جلال سے خوف کھایا جائے ۔ اس کی نازل کردہ کتاب قرآن مجید پر عمل کیا جائے (خوشحالی ہو یا تنگی ہر حال میں بندہ اس کے احکامات پر عمل پیرا رہے) تھوڑی سی نعمت پر بھی قناعت کیا جائے ۔ اور بندہ ہر وقت موت کی تیاری میں لگا رہے ۔ (سبل الھدی والرشاد جلد 1 صفحہ 421،چشتی)
اگر یہ ساری خوبیاں کسی وجود میں جمع ہوجائیں تو سمجھ لیں اللہ نے اسے تقویٰ کا پیکر بنا دیا ۔
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا : تقویٰ کسے کہتے ہیں ؟ فرمایا : المتقون هم الذین یحضرون من الله عقوبة ۔
ترجمہ : متقین وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر وقت اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ (جامع العلوم والحکم جلد 1 صفحہ 159)
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ واتقو الله حق تقاتهکا مطلب کیا ہے ؟ فرمایا : تقویٰ الله ان یطاع فلا یعصی. ویذکر فلا ینسی وان یشکر فلا یکفر ۔
ترجمہ : اللہ کا تقویٰ یہ ہے کہ اس کی اطاعت اس انداز میں کی جائے کہ پھر بندہ نافرمانی نہ کرسکے۔ اور اس کو ایسا یاد کرو کہ پھر اسے کبھی نہ بھولو اور اس کا شکر ایسے ادا کرو کہ پھر اس کی ناشکری نہ ہو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 7 صفحہ 106 رقم : 34553،چشتی)
یعنی اس کی یاد کو ایسے تھام لیں کہ پھر کوئی چاہ کر بھی اس کی یاد کو دل سے نہ نکال سکے۔ اور اس کی اطاعت میں ایسے مصروف ہو جائیں کہ گناہ چاہے بھی تو ہمارے باطن میں نہ جاسکے۔ اس کا شکر ایسے ادا کیا جائے کہ کفران نعمت نہ ہو سکے۔ گناہ کی طرف واپس نہ آسکیں اور گناہوں کی وادی سے ایسے ہجرت کرجائیں اور تقویٰ کا لباس پہن لیں کہ گناہ دوبارہ وجود میں نہ گھس سکیں ۔ جب یہ مقام اور کیفیت کسی کو نصیب ہو جائے تو سمجھ لیں اللہ رب العزت نے اس کو راہِ تقویٰ کا مسافر بنا دیا ہے ۔
صاحب تفسیر مظہری نے متقی کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے : والمتقی من یقي نفسَه عما یضرّہ فی الآخرۃِ من الشرکِ، وذلکَ أدناه، ومن المعاصي، وذلکَ أوسطُه، ومن الاشتغال بما لایعنیه، ویشغله عن ذکر اللّٰہ تعالی، وذلکَ أعلاه، وهو المرادُ بقوله تعالی : حَقَّ تُقَاتِهِ ۔
ترجمہ : متقی وہ شخص ہے جواپنے آپ کوشرک سے بچائے جو آخرت میں اس کو نقصان پہنچانے والاہے۔ پھر تقوی کی تین قسمیں ہیں : (1) شرک سے بچنا۔ اور یہ ادنی درجہ ہے ۔ (2) گناہوں سے بچنا ہے ۔ اور یہ اوسط درجہ ہے ۔ (3) لایعنی باتوں اور چیزوں میں اشتغال سے بچنااور ایسی چیز میں اشتغال سے بچنا اور احتراز کرنا جو آدمی کو اللہ کے ذکر سے غافل کر دے ۔ اور یہ تقوی کا سب سے اعلی درجہ ہے اور یہی مراد ہے اللہ تعالی کا قول : ’’حَقَّ تُقَاتِہِ‘‘ سے ۔ یعنی اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔
(تفسیر مظہری جلد 1 صفحہ 23,24)
امام ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ نے فرمایا : المتقي فی الشریعةِ: الذي یقي نفسَه تعاطي ما یستحقّ به العقوبةَ مِن فعلٍ أو ترکٍ ۔
ترجمہ : شریعت میں متقی اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو اس چیز کے ارتکاب سے بچائے جس سے وہ عذاب و سزا کا مستحق ہو گا ، خواہ اس کا تعلق عمل سے ہو جیسے شراب پینا ، یاترکِ عمل سے ہو جیسے غیبت نہ کرنا ، سود نہ کھانا ۔ (مرقاۃ جلد 3 صفحہ 1136 تحت رقم حدیث : 1555)
حضرت شہر بن حوشب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : المتقي الذی یترکُ ما لابأسَ به حذرًا عمّا به بأسٌ ۔
ترجمہ : متقی وہ آدمی ہے جو اس چیز کو چھوڑدے جس میں کوئی قباحت نہ ہو اس چیز سے بچنے کےلیے جس میں کوئی قباحت ہو ۔ (تفسیر مظہری جلد 1 صفحہ 24،چشتی)
حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ نے فرمایا : المتقي : مَن إذَا قال : قال للّٰهِ ، ومَن إذا عمِل عمِل للّٰهِ ۔
ترجمہ : متقی وہ شخص ہے کہ جب بولے تو اللہ کےلیے بولے اور جب عمل کرے تواللہ کےلیے عمل کرے ، یعنی متقی کا ہر قول و عمل اللہ کے لیے ہوتا ہے ۔ (تفسیر قرطبی جلد 1 صفحہ161)
حضرت ابو سلیمان دارانی علیہ الرحمہ نے فرمایا : المتقونَ الذینَ نَزَعَ اللّٰهُ عن قلوبِهم الشهواتِ ۔
ترجمہ : متقی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں سے اللہ تعالی نے شہوتوں کو نکال دیا ہے ۔ (تفسیرقرطبی جلد 1 صفحہ 161)
حضرت طلق بن حبیب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : التقویٰ اعمل بطاعة الله علی نور من الله. ترجوا ثواب الله وان تترک معصیة الله علی نور من الله تخاب عقاب الله ۔
ترجمہ : تقویٰ یہ ہے کہ اللہ کے نورِ ہدایت سے اللہ کی اطاعت کرے۔ اس کی طرف اجرو ثواب کی امید رکھے ہوئے ہو۔ اور اس کے نورِ ہدایت کے ذریعے سے ہر وقت اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے گناہوں کو ترک کرے ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد 3 صفحہ 64،چشتی)
جملہ دلاٸل کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں : تقویٰ یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ اے بندے میں نے جس حال میں تجھے دنیا میں بھیجا تھا ، جب تم میرے پاس لوٹ کر آؤ تو اپنے آپ کو میرے حوالے اسی حال میں کرو جس حال میں تمھیں بھیجا تھا ۔ یعنی اے بندے میں نے تجھے فطرت پر پیدا کیا تھا، جب میری طرف لوٹ کر آؤ تو اس فطرتِ سلیمہ پر قائم ہو ۔ قلبِ سلیم دے کر بھیجا تھا تو جب میری طرف آؤ تو مجھے تمہارے دل میں چمکتا ہوا اجلا دل اسی طرح چاہیے جس طرح دیا تھا ۔ جس طرح میں نے تمہارے اعضاء گناہوں سے پاک بناکر بھیجے تھے ، مجھے تمہارے اعضاء کی پاکیزگی بھی ویسے چاہیے جس طرح تمہیں دے کر بھیجا تھا ۔ جس طرح تمہاری نگاہوں کو حیا دیا تھا ، جب نگاہ مجھے واپس کرو تو مجھے وہی نظر درکار ہے جیسے تمہیں دی تھی ۔ جس طرح تمہارے احساسات ، شعور اور حواس خمسہ ظاہرو باطن تمہیں دیے تھے ، اے بندے جب تو مجھے ان نعمتوں کو واپس لوٹائے تو مجھے تمہارے ظاہری حواس بھی ویسے چاہئیں جیسے لے کر گئے تھے اور باطن بھی ویسا چاہیے جیسے لے کر گئے تھے ۔ گویا تقویٰ یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اللہ کی ہر ہر نعمت کا محافظ و نگہبان بن کے رہے اور نگاہ اٹھاتے وقت سوچے کہ میری نگاہ کسی ایسی جگہ نہ پڑ جائے کہ جہاں خدا ناراض ہو جائے ۔ زبان سے کوئی چیز ادا ہو تو بندہ یہ سوچے کہ کہیں کسی لفظ سے خدا کی نافرمانی نہ کر بیٹھے ۔ دل میں کہیں خدا کی یاد سے غفلت ، نافرمانی اور حرام کی نیت نہ پیدا ہو جائے ۔ اللہ نے قدم دیے تو قدم کہیں اس سمت نہ چلے جائیں جہاں خدا نہیں دیکھنا چاہتا ۔ جذبہ ، احساس سلامت رہے مگر کبھی ایسا شعور نہ پیدا ہو جائے کہ وہ کچھ کر بیٹھے کہ جس سے خدا ناراض ہو جائے ۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : انصار قبیلے کا ایک نوجوان تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں آکر بیٹھا کرتا تھا ۔ اس نوجوان پر قیامت اور دوزخ کی آگ کا ایسا خوف طاری ہوا کہ وہ ہر وقت اسی خوف کے حصار میں رہتا اور دوزخ کا ذکر سن کر روتا رہتا ۔ اٹھتے ، بیٹھتے ، آتے جاتے ہر وقت اس پر قیامت اور دوزخ کی آگ کا خوف طاری رہتا ۔ وہ پیکر آہ و بکا ہو گیا ، جب بھی قیامت کا ذکر ہوتا تووہ رونے لگ جاتا اور اس کی ہچکی بندھ جاتی اور اس کے ایسے آنسو جاری ہوتے کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتے ۔ یہاں تک کہ اس نوجوان نے اپنے آپ کو گھر میں قید کر لیا اور باہر نکلنا بند کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس نوجوان کی اس حالت کی خبر دی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ جوان ہر وقت زارو قطار روتا رہتا ہے اور قیامت کے خوف کی وجہ سے گھر میں قیدی بن کر بیٹھا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لیا اور اس کے حال کی خبر لینے اس کے گھر تشریف لے گئے ۔ اس نوجوان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سینہ اقدس کے ساتھ لگا لیا ۔ سینہ اقدس سے لگانے کی دیر تھی کہ اسی وقت اس نوجوان کی چیخ نکلی اور اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تجہیز و تکفین کا حکم دیا اور فرمایا کہ قیامت کا خوف اس کے دل میں ایسا وارد ہوا ہے کہ اس کے جگر کے ٹکڑے ہو گئے ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 2 صفحہ 536 رقم : 3828،چشتی)
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے تقویٰ کا عالم یہ تھا کہ ایک روز ایک درخت کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتے جارہے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی صحابی آیا اور کہنے لگا : یاامیرالمومنین ! ماجرا کیا ہے ۔ اسی درخت کو دیکھے جارہے ہیں ۔ فرمایا : لوددت انی کنت ھذہ الشجرۃ ۔
ترجمہ : میری تو خواہش یہ ہے کہ کاش میں بھی درخت ہوتا کہ جسے اکھاڑا اور کاٹا جاتا اور قیامت والے دن حساب سے آزاد ہو جاتا ۔ (امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کتاب الزہد صفحہ 112)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں ؟ آپ نے سوال کرنے والے سے فرمایا کہ کیا کبھی آپ نے کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرے ہوئے راستے کا سفر کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں ۔ فرمایا کہ ایسے راستے سے آپ کیسے گزرے ہیں؟ عرض کیا: میں کانٹوں سے بچتا رہا اور کپڑوں کو سمیٹ کر احتیاط سے چلتا رہا ۔ قدم رکھتے وقت بھی احتیاط کرتا اور قدم اٹھاتے وقت بھی احتیاط کرتا اور ہر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا رہا یہاں تک کہ کانٹوں بھرے رستے سے گزر گیا ۔ فرمایا : اسی کو تقویٰ کہتے ہیں ۔ (جامع العلوم والحکم صفحہ 402)
یعنی جو شخص راہِ تقویٰ پر چل رہا ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے کہ کہیں کوئی معاصی اس کے جسم سے لگ نہ جائے۔۔۔ کہیں کوئی نافرمانی نہ ہو جائے ۔ کوئی غفلت نہ ہوجائے ۔ کان کوئی ایسی بات نہ سن لیں جو حرام ہے ۔ زبان کوئی ایسی چیز نہ چکھ لے جو حرام ہے ۔ دل میں کوئی ایسا گمان نہ آجائے جو حرام ہے ۔ تقویٰ کے راستے پر گامزن شخص اس طرح دنیا کے اندر اپنے آپ کو بچا کر چل رہا ہوتا ہے کہ وہ عجب ، لالچ ، طمع ، بغض ، عداوت اور کینہ ، ظلم و زیادتی ، فحش گوئی ، بے راہروی اور اس طرح کے تمام رذائل سے اپنے دامن کو بچا کر سفر کرتا ہے ۔ پس تقویٰ یہ ہے کہ کاروبار کرو مگر اس انداز سے کرو جس میں میرے محبوب کی منشاء ہے ۔ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھو مگر اس انداز سے رکھو جس میں اللہ عزوجل اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا ہے ۔ اب رہنا اسی دنیا میں ہے اور اس دنیا سے فائدہ بھی اٹھانا ہے مگر یہ فائدہ تقویٰ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اٹھانا ہے اور ہر طرح کی بے راہروی اور غلط سوچ کو ترک کرنا ہی تقویٰ ہے ۔
ایک شخص حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کرنے کےلیے جا رہا ہوں ، مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ۔ حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اے بندے تیرے لیے نصیحت یہ ہے کہ خدا کا تقویٰ اختیار کر ، اس حال میں کہ تو خدا کو دیکھ رہا ہے ۔ پھر فرمایا : اے بندے اگر تو صاحب تقویٰ رہنا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو زندہ بندوں میں شمار نہ کر بلکہ اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر ۔ پھر فرمایا : کسی لمحے بھی کسی فقیر اور مظلوم کی بددعا نہ لے لینا ، اس کی آہ سے بچنا ۔ (احمد بن حنبل کتاب الزہد صفحہ 142،چشتی)
اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتا ہے : وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا ۔
ترجمہ : اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ (سورہ الفرقان آیت نمبر 63)
زمین پر آہستگی سے چلنے سے ایک مراد تو غرور و تکبر نہ کرنا ہے لیکن ایک مراد یہ ہے کہ عبادالرحمن جو صاحبانِ تقویٰ ہوتے ہیں ، یہ لوگ دنیا کی لغزشوں اور برائیوں کی کانٹے دار جھاڑیوں سے بچ کر نیکی کی صاف و شفاف راہ پر چلتے ہیں ۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے بھی ہیں اور اٹھاتے بھی ہیں تاکہ نہ قدم رکھنے پر خدا کی نافرمانی ہو اور نہ اٹھانے پر نافرمانی ہو ۔ جن کی ہر نگاہ میں بھی نیکی ہوتی ہے اور ہر اٹھنے والے قدم میں بھی نیکی پیشِ نظر رہتی ہے ۔ حتی کہ وہ عبادالرحمٰن کے مقام پر فائز ہوجاتے ہیں ۔ پھر فرمایا : وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ۔
ترجمہ : اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں ۔ (سورہ الفرقان آیت نمبر 63)
یعنی صاحبانِ تقویٰ جن کو اللہ رب العزت عبادالرحمن کے ٹائٹل سے مخاطب کررہا ہے، یہ لوگ اپنی زبان کو بھی کنٹرول میں رکھتے ہیں ۔ اگر ہم دورِ حاضر میں اپنے اعمال و کردار پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جب ہم غصے ، جلال اورغضب میں آجاتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ کن کی ہتک کررہے ہیں ۔ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کررہے ہیں ۔ کسی کی حق تلفی کر رہے ہیں اور کسی کے مقام کو گرا رہے ہیں ۔ اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ جبکہ عبادالرحمٰن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر قدم پر سوچتے ہیں کہ کہیں میری کسی ادا ، میرے لہجے اور لین دین سے کسی کو کوئی نقصان تو نہیں ہو رہا ؟ میری سوچ اور میری نیت و فکر سے معاشرے میں کسی کو گزند تو نہیں پہنچ رہا ؟ الغرض صاحبانِ تقویٰ اپنےہر قول اور عمل حتی کہ اپنی سوچ اور باطن پر بھی پہرہ دیتے ہیں کہ کسی طرف سے بھی کوئی معمولی سی حرکت اور عمل بھی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی میں صادر نہ ہو ۔
حضرت سیدنا غوث الاعظم علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تقویٰ کو ترک کرنے سے توبہ کرلو کیونکہ تقویٰ دوا اور علاج ہے ۔ اس کو چھوڑنا بیماری یعنی گناہ میں اضافہ کرنا ہے ۔ (الفتح الربانی صفحہ 279)
حضرت معروف کرخی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کیا ہے ؟ فرمایا : پاکیزہ لوگوں کے دل تقویٰ سے کشادہ ہوتے ہیں اور پھر نیکی کرنے سے دل چمکدار ہوتے ہیں جبکہ گناہگاروں کے دل فسق و فجور سے ظلمت کدہ بن جاتے ہیں اور گندی اور غلط نیت سے وہ اندھے ہو جاتے ہیں ۔ ان سے بچتے رہو گے تو پیکرِ تقویٰ ہو جاؤ گے ۔ (طبقات الصوفیاء صفحہ 90،چشتی)
حضرت جعفر بن حنظلہ علیہ الرحمہ سفر کر رہے تھے کہ ایک فقیر آپ کی بارگاہ میں آیا اور وہ آتے ہی بیمار ہو گیا ۔ اتنا شدید بیمار ہوا کہ چلنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ آپ نے سفر روک لیا اور وہاں کوئی جگہ کرائے پر لے کر اس فقیر کا علاج معالجہ کرنا شروع کر دیا ۔ اس فقیر کی خدمت کرتے رہے حالانکہ آپ اس فقیر کو جانتے بھی نہ تھے ۔ لوگ بیان کرتے ہیں کہ اتنی خدمت کی کہ اس کے پاؤں بھی دبائے ۔
حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی اس فقیر کو افاقہ ہوتا تو مجھے خدمت کرتے ہوئے دیکھتا تو خوش ہوکر کہتا کہ اے بندے آپ بہت اچھے ہیں ، کاش آپ یہودی نہ ہوتے ۔ آپ اس کی یہ بات سنتے اور خاموشی سے خدمت کرتے رہے ۔ ایک دن بھی آپ نے اس سے نہیں کہا کہ میں مسلمان ہوں اور تو مجھے یہودی کہتا ہے ۔ آپ خاموش رہے اور اس کی خدمت کرتے رہے اور اسے اس کے قول کی وجہ سے شرمندہ کیا اور نہ ہی اس کی خدمت میں کوئی کمی آنے دی ۔ (حدائق الحقائق الرازی صفحہ 178)
پتہ چلا اللہ والے تحمل اور برداشت سے رہتے ہیں ، وہ صبر والے ہوتے ہیں ، وہ وسعت والے ہوتے ہیں ۔ ان کے دل سمندر کی طرح ہوتے ہیں ، وہ چھوٹی چھوٹی بات پر مشتعل نہیں ہوتے اور نہ جھگڑتے ہیں بلکہ صبر کرتے ہیں ۔ یہ اولیاء کا شیوہ ہے ۔ اس معاشرے کو بچانا ہے تو اولیاء و صالحین اور اتقیاء و ابرار علیہم الرحمہ کے شیوہ کو اپنانا ہو گا ۔ اپنے مزاج کے اندر تقویٰ والی کیفیت پیدا کرنی ہو گی ۔ اگر اہل تقویٰ بننا چاہتے ہیں تو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا ۔ ہر ہر قدم پر خوفِ الہٰی طاری رکھیں گے تو بچیں گے اور اگر اللہ رب العزت کا ڈر اور خوف نہیں ہوگا تو پھر دنیا و آخرت میں ناکامی و نامرادی مقدر ہو گی ۔
حضرت نصر آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ : تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر چیز سے بچے ۔ طلق ابن خبیب کا قول ہے کہ :اللہ کے عذاب سے ڈر کر اس کے نور کے مطابق اطاعت خداوندی یعنی اس کے احکا م پر عمل کرنے کا نام تقویٰ ہے ۔ جمشید نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ : زندگی اطاعتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزارنا تقویٰ ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی تعریف پوچھی تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا : کیا آپ کبھی خاردار راستے پر چلے ہیں ؟ ۔ آپ نے جواب دیا : ہاں : پھر پوچھا کہ : آپ نے کیاطریقہ استعمال کیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فر مانے لگے : میں کانٹوں سے بچ بچ کر اور کپڑوں کو سمیٹ کر چلا ۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ بولے : یہی تقویٰ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مثال خا ر دار راستے کی ہے ۔ مومن کا کام یہ ہے کہ اس میں سے گزرتے ہوئے دامن سمیٹ کر چلے ۔ اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ ہر کام میں دیکھے کہ اس میں خدا کی خوشنودی مضمر ہے یا نہیں ۔
ابو عبد اللہ رودباری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ : تقویٰ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے اجتناب کیا جائے جواللہ سے دور رکھنے والی ہوں ۔ حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ : اپنے تقویٰ سے بچنے کا نام تقویٰ ہے ۔ (ماخوذ : رسالہ قشریہ ، کشف المہجوب ، الترغیب والترہیب)
متقی آدمی کےلیے ضروری ہے کہ وہ ریا سے بچے اس لیے کہ یہ اعمال کو اس طرح کھاتی ہے جس طرح دیمک لکڑی کو کھاجاتی ہے۔کہتے ہیں کہ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے علاقہ میں ایک بار قحط پڑ گیا ۔لوگ آپ کے پاس دعا کروانے کےلیے آئے ۔ آپ فرمانے لگے : بارش اس لیے نہیں ہوتی کہ گناہ گار زیادہ ہو گئے ہیں اورسب سے بڑا گناہ گار میں ہوں ۔ اگر مجھے شہر سے نکال دیا جائے تو باران رحمت برسنے لگ جائے گا ۔ اللہ ان لوگوں پر رحمتیں برسائے ، عظیم ہوتے ہوئے بھی ان کے ہاں دعویٰ نہیں تھا اور اسی کا نام تقویٰ ہے ۔
فر وتنی است دلیل رسید گان کمال
کہ چوں سوار بمنزل رسد پیادہ شود
ترجمہ : اہل کمال کی نشانی عاجزی اور انکساری ہوتی ہے ۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ سوار جب منزل مقصود پر پہنچتاہے تو پیادہ ہو جاتا ہے ۔
تقویٰ کے مدارج : ⏬
پہلا درجہ : عذاب آخرت سے ڈر کر اپنے آپ کو شرک سے بچانا تقویٰ ہے ۔ (انوار التنزیل جلد 1 صفحہ 16)
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات ، صفات اور افعال میں یکتا جاننا تقویٰ کا پہلا زینہ ہے ۔ مومن کے عرفانی مدارج کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کی رگ وجان میں توحید رچی بسی ہوتی ہے ۔ وہ اللہ ہی کومعبود سمجھتا ہے اوراسی ذات کو مقصود تصور کرتا ہے ۔ گو یہ سب کو تسلیم ہے کہ معبود وہی ہے ، مگر کم ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مقصود وہی ہے ۔ متقی شرک کو ظلم عظیم سمجھتا ہے ۔ اس کی دعوت و تبلیغ کا محور اثباتِ توحید اور تردیدِ شرک ہوتا ہے ، لیکن یاد رہے کہ توہینِ انبیاء علیہم السلام اورگستاخی اولیاء اللہ علیہم الرحمہ توحید نہیں بلکہ جرمِ عظیم ہے ، جس طرح اللہ عزوجل کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا کفر ہے ، اسی طرح انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو اپنی طرح سمجھنا یا اپنے آپ کو ان کے مثل جاننا صریح کفر ہے ۔ اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے آمین یا رب العالمین ۔
عقا ئد کا ٹھیک ہونا تقویٰ کی جان ہے ۔ سورہ بقرہ میں متقی کی تعریف میں اس کے اعمال کے ساتھ ساتھ راسخ عقائد ہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ’’وہ لوگ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔ نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں جو آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی وحی پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ (القرآن)
دوسرا درجہ : ہر وہ فعل جس میں گناہ کا اندیشہ ہو یہاں تک کہ صغیرہ گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ کہلاتا ہے ۔ (انوارالتنزیل جلد 1 صفحہ16)
تقویٰ کے اس مرتبہ کی طرف قرآن حکیم نے اس طرح اشارہ فرمایا ہے : کاش بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے ۔ (سورہ الاعراف۔96)
متقی کےلیے ان حدود کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے جو کائنات کے خالق نے متعین کی ہیں ۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب خوفِ الٰہی دل میں پوری طرح جاگزیں ہو اور انسان ہر وقت یہ سوچے کہ یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ، بلکہ امتحان گاہ ہے اور ایک نہ ایک دن اسے اپنے اعمال کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے ۔
تیسرا درجہ : علامہ ناصر الدین ابو سعید عبداللہ بن بیضاوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ہروقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا اور اس سے غافل کر دینے والی اشیاء سے لا تعلق ہونا تقویٰ ہے اور تقویٰ کی حالت حقیقی اور مطلوب و مقصود ہے ۔ (انوار التنزیل جلد 1 صفحہ 16،چشتی)
یہاں تعلق سے مراد ہر وقت اللہ عزوجل کو یاد کرنا ہے ۔ ہر فعل میں اس کی رضا دیکھنا ہے ۔ بعض صوفیاء کے پاس انفاس کا معمول بھی تقویٰ کے اس مفہوم میں آ سکتا ہے ۔ انسان کو ہر وقت اس کو شش میں لگے رہنا چاہیے کہ کوئی چیز راہِ دین سے غفلت کا سبب نہ بنے ۔ شیطانی طاقتیں اس پر غالب نہ آئیں ۔ نفس امارہ اسے اپنے دامن میں نہ لے لے اور یہ سب کچھ عمل پیہم اور جُہدِ مسلسل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔ فکر اور جذ بہ صادق اس سلسلہ میں ممّد اور معاون ثابت ہوتے ہیں ۔
تقویٰ کی اہمیت : ⏬
متقیانہ زندگی انسان کو نمونے کا انسان بنا دیتی ہے ۔ مسلمان صرف اجتماعی زندگی میں ہی ایک ضابطے کا پابند نہیں بلکہ وہ انفرادی زندگی میں بھی ایک دستور اور قانون کے مطابق تعمیر اور تطہیر حیات کی منازل طے کرتا ہے ۔ اس کا اٹھنا ، بیٹھنا ، چلنا ، پھرنا اور قول و فعل رضائے الٰہی کے حصول کےلیے ہوتے ہیں ۔ تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک با ر پو چھا گیا : آل نبی کون لوگ ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : متقی ۔ علاوہ ازیں اسلام کا سارا نظام عبادت یہی مقصد رکھتا ہے کہ لوگ متقی یعنی صاحبِ کردار بن جائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات ’’تقویٰ‘‘ کےلیے دعا فرماتے ۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے : اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت ، تقویٰ اور عفت وغِنا کا سوال کرتا ہوں ۔
تقویٰ کے اثرات : ⏬
اسلامی کردار یعنی تقویٰ کے اختیار کرنے سے ایک مسلمان کی زندگی پر بیشمار اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ دینی اور دنیاوی زندگی میں اس کی بدولت انسانی ضمیر کو سکون و چین میسر ہوتا ہے ۔ قرآن کی روشنی میں تقویٰ کے اثرات پر ہم ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔
تقویٰ اور فلاح حقیقی : ⏬
انسان جب تک نظامِ وحی سے رہنمائی حاصل نہیں کرتا نقصان اور خسارے میں رہتا ہے ۔ ہدایت کےلیے وجدان اور عقل اس کےلیے نا کافی ثابت ہوتے ہیں ۔ اگر وہ اپنے خالق اور ہادی کی طرف رجوع نہ کرے تو وہ اکثر فیصلے غلط کرتا ہے ۔ اس کی دماغی اور ذہنی قوتیں زندگی کی پر پیچ راہوں میں اس کی ساتھی نہیں بنتیں ۔ وہ یہاں پہنچ کر بے بس ہو جاتا ہے ۔ اس کی نگاہیں کسی ہادی کو تلاش کرتی ہیں ۔ اگر اس بے چارگی کے عالم میں وہ فطرت کی آواز سن کر اپنے خالق و مالک کے ’’نظام ہدایت‘‘ جو مختلف ادوار میں انبیاء علیہم السلام کی وساطت سے انسانیت کی رہنمائی کرتا رہا کو پہچان لے تو فطرت اسے فلاح کا پیغام دیتی ہے ۔ وہ لوگ جن کے سینے ایمان سے خالی ہیں اور ان کے اعمال قرآن و سنت کے برعکس ہیں بے شک وہ انسان تو ہیں لیکن ’’نظام وحی‘‘ سے عدم تمسّک کی بنائی پر نقصان و خسران ان کا مقدر ہے ۔ ’’ بے شک انسان خسارے میں ہے ‘‘۔ (سورہ العصر۔2)
نقصان کے مقابلہ میں قرآن ’’فلاح‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور ’’فلاح‘‘ کی شرائط میں تقویٰ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ سورہ ’’البقرہ‘‘ میں متقی کی 6 صفات بیان کرنے کے بعد اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے : ’’ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کا میاب و کامران بھی ہیں ۔ (سورہ البقرہ۔5 )
تقویٰ اور امتیاز : ⏬
تقویٰ کے اجتماعی اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ معاشرہ جو ’’من حیث الجماعت‘‘ (پوری جماعت کی حیثیت سے) اپنے آپ کو کتاب و سنت کے مطابق بنا لیتا ہے ۔ اقوام عالم میں اس کی شان نرالی اور امتیازی بن جاتی ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: ’’اے اہل ایمان!اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے امتیاز قائم کردے گا۔‘‘ ( الانفال: 29 )
’’امتیاز‘‘کی مختلف نو عیتیں ہو سکتی ہیں۔یعنی اس سے ایک معنی تو یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ تم میں اچھی اور بری چیز میں امتیاز کرنے کی قوت پیدا فرما دے گایعنی بصیرت عطا کر دے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقوام میں تمھیں امتیازی شان عطا کر دے ۔
تقویٰ اورکشادگیِ رزق : ⏬
روٹی ، کپڑے اور مکان کامسئلہ ہر دور میں بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ قرآن نے معاشی آسودگی بھی اپنی حدوں میں قائم رہنے ہی میں قرار دی ۔ارشادِ رب العزت ہے : متقی کےلیے اللہ تنگی سے نکلنے کےلیے سامان مہیا کرتا ہے اور اسے وہاں سے روزی دیتا ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ہے ۔(سورہ اطلاق : 3-2)
اسلامی نظام کا مکمل مطا لعہ کرنے سے اچھی طرح اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ اسلام کیسے ’’معاشی خوشحالی‘‘ دیتا ہے ۔ اس کے برعکس ’’اعراض عن القرآن‘‘ سے اقوام و ملل کی معاش و معیشت تنگ کر کے رکھ دی جاتی ہے ۔ قرآن نے معاشی تنگی کی وجہ ہی اس نظام سے بغاوت کو قرار دیا ہے ۔ ’’ جس نے ہماری یاد سے غفلت برتی بے شک معیشت تنگ ہو جائے گی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے ۔ (سورہ طہٰ : 124)
صدق ، تقویٰ ، اخلاص اور قربانی : ⏬
تقویٰ کا معنیٰ پرہیزگاری ہے یعنی جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اُن سے رکنا۔ تقویٰ کا ایک اپنا دائرہ ہے مگر قرآن مجید میں بعض مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اخلاصِ نیت کےلیے بھی لفظِ تقویٰ کو استعمال فرمایا۔ ارشاد فرمایا : لَنْ يَّنَالَ اللہ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ۔
ترجمہ : ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے ۔ (سورہ الحج : 37)
عام دنوں میں کیا گیا ذبح اور وہ ذبح جسے قربانی کہتے ہیں ، ان دونوں کے درمیان اخلاص اور نیت ہی کا فرق کار فرما ہے ۔ قربانی کے گوشت کےلیے حکم ہے کہ اس کے تین حصے کریں : ⏬
1 ۔ اپنے لیے ۔
2 ۔ اعزء و اقارب کےلیے ۔
3 ۔ غرباء، یتامیٰ اور مساکین کےلیے ۔
شریعت نے مزید گنجائش بھی دی کہ اگر آپ کے اپنے اہل خانہ زیادہ ہیں تو دو حصے بھی خود رکھ سکتے ہیں، ایک حصہ اعزاء و اقارب اور غرباء میں دے دیں۔ اس کے بعد پھر مزید گنجائش بھی دی کہ اگر فیملی زیادہ بڑی ہے اور دو حصوں سے بھی گزارا نہیں ہوتا تو سارا کا سارا گوشت بھی رکھ لیں، قربانی تب بھی ہو جائے گی ۔ اس لیے کہ قربانی اللہ تعالیٰ کےلیے ہے ، اس کا مطلب گوشت کی تقسیم نہیں ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار قربانی کے موقع پر حکم فرمایا کہ خبردار ! کوئی شخص تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس جمع نہ کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسے ہی کیا ۔ جتنا کھایا جا سکا کھا لیا ، بقیہ تقسیم کر دیا ۔ اگلا سال آیا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پھر یہی کیا ، اپنے پاس بچا کر نہ رکھا ، جو کھایا جا سکا کھایا بقیہ تقسیم کر دیا ۔ تیسرے سال قربانی کے موقع پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کلوا وادخروا ۔ ’’ اس سال کھاؤ بھی اور بچاؤ بھی ‘‘ ۔ (صحیح ابن حبان جلد 13 صفحہ 253، رقم: 5929)
پچھلے سالوں میں لوگوں میں قحط سالی و پریشان حالی تھی ، کئی لوگوں کے گھروں میں کھانے کو کچھ نہیں تھا اس لیے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تقسیم کر دو ، تین دن سے زیادہ کوئی جمع نہ کرے ۔ تیسرے سال چونکہ خوشحالی آگئی تھی ، لہٰذا اب وہ حکم اٹھا لیا گیا اور تین دن سے زائد رکھنے کی بھی اجازت مرحمت فرمادی ۔
قربانی کیا ہے ؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر گوشت کی تقسیم قربانی نہیں تو پھر قربانی کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ۔
ترجمہ :ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے ۔ (سورہ الحج : 37)
گوشت پیٹ میں چلا جاتا ہے اور خون زمین پر بہہ جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو نہ گوشت پہنچتے ہیں نہ خون پہنچتا ہے بلکہ ذبح کرتے ہوئے جو نیت تھی کہ ’’ باری تعالیٰ تیری خاطر ذبح کر رہا ہوں ‘‘ پس وہی نیت اللہ تعالیٰ کو پہنچتی ہے ۔ اسی نیت نے اس بکرے کے ذبح کو قربانی بنا دیا ۔ عام دنوں میں بھی بکر ے ذبح ہوتے ہیں مگر وہ قربانی نہیں کہلاتے ، اس لیے کہ نیت گوشت کو بیچنا اور کاروبار کرنا ہے ۔ اِسی قصاب نے معاوضہ لے کر یہ بکرا بھی ذبح کیا اور ذبح کرنے والے نے کہا باری تعالیٰ یہ میں تیرے لیے قربان کر رہا ہوں ۔ پس اس نیت نے اسے قربانی بنا دیا حالانکہ نیت دکھائی نہیں دیتی ۔ معلوم ہوا جو چیز دکھائی نہیں دیتی وہی اصل ہے اور جو دکھائی دیتا ہے وہ اس کے لوازمات ہیں ، اصل نہیں ۔ اِس نیت کے اخلاص کو اللہ نے تقویٰ کا عنوان دیا ۔
تقویٰ کتنی جلدی اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے ؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم چھری چلاتے ہو تو خون کا پہلا قطرہ زمین پر بعد میں گرتا ہے مگر اخلاص اللہ کے حضور پہلے پہنچ جاتا ہے ۔ اخلاص کی رفتار اتنی تیز ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک شٹل کو بھی چاند /خلائی / کسی سیارے پر بھیجنا ہو تو وہ بھی وقت لیتا ہے جبکہ اخلاص ایک ایسی سواری ہے کہ خون کا قطرہ ابھی زمین پر نہیں گرتا مگر اخلاص اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے ۔
تقویٰ اور اخلاص کی جتنی رفتار تیز ہے ، اتنا ہی اس کا اثر تیز ہے ۔ جس میں اخلاص جتنا زیادہ ہو گا اتنی تاثیر زیادہ ہو گی ۔ اللہ پاک عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ ہماری نیات دیکھتا ہے ۔ ہماری نظر اس شے پر ہے جو نظر آتی ہے جبکہ اللہ کی نظر اس شے پر ہے جو نظر نہیں آتی ۔
آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ اللہَ لَا يَنْظُرُ إِلَی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلَکِنْ يَنْظُرُ إِلَی قُلُوبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا ، البتہ وہ تمہارے دلوں اور عملوں کی طرف دیکھتا ہے ۔ (صحيح مسلم کتاب البر والصلة والآداب جلد 4 صفحہ 1987، رقم: 2564،چشتی)
نیت اعلیٰ و مقبول کیسے ہوگی ؟
ذہن نشین رہے کہ اعمال کی کثرت سے نیت مقبول و اعلیٰ نہیں ہوتی بلکہ نیت ، اخلاص کے ساتھ اعلیٰ بنتی ہے ۔ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : الاخلاص سرّ بين العبد و بين اللہ ۔
ترجمہ : اخلاص اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ایک راز ہے ۔ (تفسير قرطبی جلد 2 صصفحہ 146)
اخلاص اگر اعلیٰ ہو تو قلیل عمل بھی کثیر بن جاتا ہے اور اگر اخلاص کم تر و کمزور ہو تو کثیر عمل بھی قلیل بن جاتا ہے ۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نِيَّهُ الْمُوْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ ۔
ترجمہ : مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے ۔(المعجم الکبير طبرانی جلد 6 صفحہ 185 ، رقم: 5942،چشتی)
عمل quantity کا نام ہے اور نیت quality کا نام ہے ۔ عمل مقدار کا نام ہے اور اخلاص معیار کا نام ہے ۔ اعلیٰ نیت ، حسین نیت اور اخلاص کامل کے ساتھ اعلیٰ معیار کے دو نفل ، ریاء و دکھلاوے کے ہزار نفل سے بہتر ہیں ۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے زمانے کے لوگوں کے اعمال اور اجروں کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي ۔ فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : میرے صحابہ کو برا مت کہو ۔ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (صحيح بخاری کتاب فضائل الصحابه جلد 3 صفحہ 1343، الرقم:3470)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حد درجہ انفاق کو دیکھتے ہوئے پوچھا : يَا أَبَا بَکْرٍ، مَا أَبْقَيْتَ لِاَهْلِکَ ؟ ’’ اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کےلیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ ۔ اب اُن کا جو جواب تھا وہ بنائے اخلاص ہے ۔ عرض کیا : أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللہَ وَرَسُوْلَهُ ’’ میں ان کےلیے اللہ عزوجل اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں ۔ (سنن ترمذی باب : فی مناقب أبي بکر وعمر رضی اللہ عنهما جلد 6 صفحہ 614، رقم: 3675)
توکل ، یقین اور اخلاص تینوں مضمون سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ایک جملے میں موجود ہیں ۔ اس عظیم بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل امین کو بھیج دیا ، انہوں نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ رب العزت نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سلام بھیجا ہے اور پیغام دیا ہے کہ ابوبکر سے پوچھیں : هل انت عن ربک راض ؟ ’’ کیا اپنے رب سے آپ راضی ہو ؟
بغیر اخلاص سے عمل کرنے والے کو فکر ہوتی ہے کہ آیا اللہ مجھ سے راضی ہوا یا نہیں ؟ جن کا اخلاص طاقتور نہ ہو اس کی فکر یہ ہے کہ معلوم نہیں اللہ نے قبول کیا یا نہیں ؟ مگر جس نے اخلاص کے کمال کے ساتھ عمل کیا ، اس سے اللہ پوچھتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس حد درجہ تک ایثار و قربانی کے بعد تم مجھ سے راضی بھی ہو یا نہیں ؟ کیونکہ گھر کھانے ، پینے اور پہننے کےلیے کچھ نہیں بچا، کہیں ایسا نہ ہو کہ طبیعت پر بوجھ ہو ؟
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس پیغام کو سن کر عالم وجد میں کھڑے ہو گئے ، تین چکر لگائے اور کہتے جاتے تھے : أنا عن ربي راض : ’’ میں اپنے رب سے راضی ہوں ۔ (حلية الاولياء جلد 7 صفحہ 105)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک ایک لفظ میں کمالِ اخلاص ، کمالِ یقین ، کمالِ محبت اور کمالِ تعلق کا اظہار نمایاں ہے ۔
اخلاص کیا ہے ؟ : ⏬
اخلاص اس کیفیت کا نام ہے جس میں بندہ جو کرتا ہے اللہ کی محبت ، رضا ، قرب جوئی ، دیدار اور حکم کی تعمیل کےلیے کرتا ہے ، اس کے سوا کوئی شے اُس کی نیت و خیال میں داخل نہیں ہوتی ۔ یہ اخلاص تھوڑے عمل کے پیچھے بھی ہو تو اُسے بھی بڑا اور طاقتور بنا دیتا ہے ۔ مقدار اگر چھوٹی تھی لیکن اگر اس کی کوالٹی اعلیٰ تھی تو اس کی طاقت کروڑوں اعمال سے بڑھ جاتی ہے ۔ اس لیے اگر ایک طرف اخلاص میں کمزور دس لاکھ آدمی اللہ سے مانگ رہے ہوں اور دوسری طرف ایک ایسا اللہ کا بندہ جو اخلاص کی نعمت سے مالا مال ہے ، اللہ سے دعا کر رہا ہو تو فرق نمایاں ہو گا ۔ فرق یہ ہے کہ اللہ سے تعلق میں اس ایک بندے کا اخلاص عرشی ہے جبکہ ہمارے جیسے لوگ اعمال کا انبار لیے پھریں ، ان کا اخلاص فرشی ہے ۔
جتنا اخلاص قوی ہو گا اتنا دلوں کا تقویٰ قوی ہو گا ، وہ اتنا جلد اللہ کو پہنچے گا اور جب اللہ کو جلد پہنچے گا تو اللہ کا جواب بھی اتنا ہی جلد آئے گا ، قبولیت بھی جلد ہو گی ۔
قبولیت کا مطلب یہ کبھی نہ سمجھ لیں کہ جو ہم نے مانگا ہے اسی شکل میں ظہور پذیر ہو جائے ، نہیں ۔ وہ اللہ پر چھوڑ دیں ۔ اخلاص والا کبھی اپنے مانگے پر انتظار نہیں کرتا ۔ اپنی عبادت پر اجر کا طلبگار نہیں ہوتا ۔ اپنی دعا پر اس کے نتیجے کے ظہور کا انتظار نہیں کرتا۔۔۔ اخلاص نام ہی اس شے کا ہے کہ عبادت کرے اور عبادت نظر نہ آئے ۔ عمل کرے اور عمل نظر ہی نہ آئے ۔ جب عمل نظر ہی نہیں آنا تو اُس نے کون سے اجر کی تمنا و خواہش کرنی ہے ۔
مراتبِ اخلاص : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ سَاَلَ اللہَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ بَلَّغَهُ اللہُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَی فِرَاشِهِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارة جلد 3 صفحہ 1517، رقم: 1909)
ترجمہ : اگر کسی شخص نے صدق اور اخلاص کے ساتھ اللہ سے شہادت طلب کی اور اسے شہادت نہ بھی ملی (بخار کے ساتھ گھر میں بستر پہ لیٹے ہوئے وفات ہو گئی) اللہ تعالیٰ اسے بھی شہداء میں شامل کرے گا ۔
بستر کی موت نے اسے صدق و اخلاص کی بناء پر شہداء میں شامل کروا دیا ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ فرمایا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کےلیے میری یہ عطا اور نعمت ہے کہ اگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کسی نیک عمل کے کرنے کی نیت کرے مگر اُس پر عمل نہ کر سکے ، اللہ تعالیٰ عمل نہ کرنے کے باوجود بھی اُس کے نامہ اعمال میں اُس عمل کے کرنے کا ثواب لکھ دیتے ہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الرقاق، 5: 2380، رقم: 6126)
گویا اللہ رب العزت نے اُس کے اخلاص کی بھی قدر کی ۔ اس نے اخلاص نیت کے ساتھ نیکی کرنے کا جو ارادہ کیا تھا اُس پر بھی اجر لکھ دیا ۔ مقامِ غور یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے عمل کیے بغیر محض اخلاص کے ساتھ جو ارادہ کیا تھا اس پر بھی نیکی لکھ دی تو اگر وہ بندہ عمل کر لے تو پھر اس کے اجرو ثواب کا عالم کیا ہو گا ؟
ارشاد فرمایا : مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۔
ترجمہ : جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کےلیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں ۔ (سورہ الانعام آیت نمبر 160)
کسی کو کہا کہ اس کےلیے 70 گنا اجر ، کسی کےلیے کہا سو گنا اجر ، کسی کےلیے کہا 700 گنا اجر اور کسی کےلیے بے حدو حساب اجر کا اعلان فرمایا ۔ ایک ہی عمل کے اجر پر اتنے درجات کا فرق کہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اور اس سے بھی بے حد و حساب اجر کی نوید اخلاص نیت کی بناء پر ہے ۔ جب بندہ اخلاص کی راہ کو اپنا لیتا ہے تو اس کے دو نفل نامہ اعمال میں ہزار نفل سے زیادہ بن جاتے ہیں ۔ قیامت کے دن جب لوگوں کا نامہ اعمال کھولا جائے گا تو وہ حیران ہو جائیں گے کہ ہم نے تو اتنی نیکیاں نہیں کیں ، مگر اتنا اجر کیوں لکھا ہوا ہے ؟ جواب آئے گا یہ اجر تیرے اخلاص کی وجہ سے ہے ۔ تیرے عمل میں موجود للہیت ، اخلاصِ نیت ، استحضارِ نیت ، اللہ کی محبت کی قوت، اُس کی رضا طلبی کی قوت اور لوجہ اللہ نیت نے تیرے ایک عمل کو عرش تک پہنچا دیا ۔
دوسری طرف ایک شخص گناہ کرنے کا ارادہ تو کرتا ہے مگر اللہ کے خوف سے وہ گناہ کرتا نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ اس کےلیے ایک نیکی لکھ لو ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہاں بھی اس کا اخلاصِ نیت کام آیا ۔ وہ اللہ کے عذاب و ناراضگی سے ڈر گیا اور اللہ کے ڈر کی وجہ سے اُس نے گناہ نہیں کیا ۔ پس صدق و اخلاص کی قوت کی بناء پر نیکی کا اجر اسے اللہ سے ڈرنے کی بات پر مل گیا ۔ یہ اس کی نیت کا اخلاص تھا کہ اس نے گناہ کا ارادہ کیا مگر عمل نہ کرنے پر نیکی کا مستحق ٹھہرا اور اگر گناہ کر لے تو ایک ہی گناہ لکھا جائے گا ۔ یہ بھی امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت کا اظہار ہے ۔ (صحيح مسلم، کتاب الايمان، 1 /117، الرقم:129،چشتی)
نیت میں اخلاص کا مقام و مرتبہ : ⏬
ریاء کو جڑ سے نکال دینے کا نام اخلاص ہے ۔ نیت میں سے ملاوٹ کو دور کر دینا اخلاص ہے ۔ ریاء ایک ایسا لباس ہے جو سب کچھ چھپا دیتا ہے ۔ اگر ریا کی سنگینی کا خود ریاکار کو پتہ چل جائے تو بہت سے ریا کار تائب ہو جائیں۔ ریاء امراضِ روحانی میں سے ہے ۔ حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اَرَاَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْاَجْرَ وَالذِّکْرَ مَالَهُ ۔
ترجمہ : ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر کوئی شخص لالچ اور طمع کی خاطر یا نام آوری کےلیے جہاد کرے ، اس کےلیے کیا حکم ہے ؟
اس کی جہاد سے اجرت لینے کی بھی نیت تھی اور ناموری کی بھی نیت تھی ۔ گویا یہ نیت میں ملاوٹ ہو گئی ۔ عرفاء نے ترجمہ کیا کہ اس نے جہاد اس لیے کیا کہ اللہ سے اجر ملے گا مگر ساتھ ملاوٹ تھی کہ شہرت و ناموری بھی ملے گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَا شَئْیَ لَهُ ۔ ’’اسے کوئی ثواب نہ ملے گا‘‘ ۔ اس لیے کہ نیت میں اخلاص نہیں تھا ۔
فَاعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ’’ اس (سوال کرنے والے) نے تین مرتبہ بار بار دوہرایا‘‘۔
يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللہِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم لَا شَيْئَ لَهُ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ لَايَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَاکَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهَهُ ۔ ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جواب فرمایا کہ اسے کچھ ثواب نہ ملے گا پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کےلیے ہو اور اُسے کرنے سے محض اللہ کی رضا مندی مقصود ہو ۔ (سنن النسائی، کتاب الجهاد، 6: 25، الرقم:3140،چشتی)
جہاں اخلاص کے ساتھ ریاء کی ملاوٹ تھی وہاں وہ اجر سے محروم ہو گیا اور جس نے اخلاص کے ساتھ جہاد کی نیت کی تھی اور شہادت کی طلب کی تھی مگر شہادت نہیں آئی اور بستر پہ لیٹے فوت ہو گیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شہیدوں میں شمار ہو گا ۔ اِدھر اُس نے جہاد بھی کیا حتی کہ شہید بھی ہو گیا مگر دل میں چھپی ہوئی نیت کی وجہ سے ثواب کا حقدار نہ ٹھہرا ۔ اسی لیے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إنما الأعمال بالنيات : ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، 1: 30، رقم: 54)
تمام اعمال کی قبولیت کا معیار نیت پر ہے اور نیت کا مدار اخلاص پر ہے ۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : إِنَّ اللہَ لَا يَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کےلیے ہو اور اسے کرنے سے محض اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود ہو ۔ (نسائی السنن کتاب الجهاد، 6: 25، رقم: 3140،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنایا۔ رخصتی کے وقت انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے کوئی ایک نصیحت فرما دیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أخلص دينک، يکفک العمل القليل’’ اپنے دین کو خالص کر لو ۔ (یعنی اپنی نیت کو خالص کر لو) تو تھوڑا سا عمل بھی کافی ہو جائے گا ۔ (حاکم، المستدرک، 4: 341، رقم: 7844)
اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ کوئی نیکی کرے یا اللہ عزوجل کے ساتھ عبادت کا کوئی معاملہ کرے اور اپنے اس عمل کو صرف اللہ کی رضا کےلیے خالص رکھے ، باقی ساری نیتوں کو نکال دے ، تو اللہ کی عزت کی قسم ! اس کو کبھی رنج و ملال اور شکوہ ہی نہ رہے گا ۔ اخلاص نیت کے اس مقام و مرتبہ کی بناء پر ہمیشہ یہ ذہن میں رہے کہ عمل بندوں کےلیے نہ کرو بلکہ خدا کےلیے کرو ۔ جب عمل اللہ عزوجل کےلیے کیا جائے گا تو پھر ہمیشہ رحمت و برکت ہی شامل حال ہوگی ۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : طوبیٰ للمخلصين أولٰئک مصابيح الهدی ’’ مبارک ہو اخلاص والوں کو کہ وہ ہدایت کا چراغ ہیں ۔ (حلية الأولياء، 1: 16)
شرک اور ریاء سے نجات :
حضرت فضیل ابن عیاض علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ ریاء کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : العمل لأجل الناس شرک وترک العمل لأجل الناس رياءٌُ والإخلاص أن يوافيک اللہ منهما ۔
ترجمہ : لوگوں کے لیے عمل کرنا شرک ہے اور لوگوں کے لیے عمل ترک کر دینا ریاء ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ شرک اور ریاء دونوں سے تمہیں چھٹکارا دے دے ۔ (نووی الاذکار من کلام سيد الابرار صفحہ 13)
اس فرمان سے یہ تو سمجھ میں آ گیا کہ لوگوں کےلیے عمل کرنا شرک ہے یعنی جب لوگوں کے دکھلاوے کےلیے ، لوگوں کو خوش کرنے کےلیے ، لوگوں میں معزز بننے کےلیے عمل کیا تو جو چیز اللہ کےلیے خاص تھی ، اس نے وہ بندوں کےلیے کر دی لہٰذا شرک ہو گیا ۔ نیت اللہ کےلیے تھی اس نے بندوں کےلیے کرلی لہٰذا شرک ہو گیا ۔ بندہ نیکی کا عمل کر رہا تھا مگر لوگوں کی خاطر چھوڑ دیا کہ لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ لوگ کہیں گے بہت نیک ہے ، یہ تہجد گزار ہے ، نیکو کار ہے ، لوگوں کو میری نیکیوں پر آگاہی ہو جائے گی ، لہٰذا اس نے لوگوں کی وجہ سے وہ عمل چھوڑ دیا ، لہٰذا یہ ریاء ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کےلیے عمل چھوڑ دینا کیسے ریاء بنا ؟
ایسا کرنا اس لیے ریاء بنا کہ کامل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاص کی شرط ہے کہ جب آدمی عمل کرے تو اس عمل کے دوران نہ اسے اپنا عمل نظر آئے ، نہ عامل نظر آئے اور نہ کوئی اور خَلق نظر آئے ۔ جب عمل کرے تو اُس کی نگاہ سے سب کچھ اوجھل ہو جائے ۔ نہ لوگ نظر آئیں ، نہ اپنا آپ نظر آئے اور نہ عمل نظر آئے ۔ جب ہر شے کی نفی ہو جائے تو کہتے ہیں یہ عمل خالصتاً لوجہ اللہ ہے ۔ یعنی دھیان جب اللہ عزوجل کی طرف ہو جائے تو اُس غلبہ دھیان میں بندے کو کوئی اور شے نظر نہیں آتی ۔ کاملین کا دھیان کبھی ہٹتا ہی نہیں ہے ۔ ناقص توجہ سے دھیان ناقص ہو جاتا ہے اور کامل توجہ سے دھیان بھی کامل ہو جاتا ہے حتی کہ اپنا بھی دھیان نہیں رہتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’احسان‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : اَنْ تَعْبُدَاللّٰهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ ’’ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اُس کو دیکھ رہے ہو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تم اُس کو دیکھ رہے ہو بلکہ فرمایا : ’کانک تراہ‘ اپنے اوپر یہ خیال طاری کر لو کہ گویا تم اُس کو دیکھ رہے ہو ۔ یہ کیفیت وارد کر لو ۔ تمہاری ایسی کیفیت ہو جائے جیسے دیکھنے والے کی ہوتی ہے ۔ جب مشاہدہ کی کیفیت طاری ہو گی تو تم خود کو بھول جاؤ گے ۔ جب یہ کیفیت طاری ہو جائے کہ محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہوں تب بھی بہت ساری چیزوں سے دھیان ہٹ جاتا ہے اور اُسی کی طرف انسان متوجہ ہو جاتا ہے ۔
طبقہ ملامتیہ ، صوفیاء میں ایک طبقہ ہے ۔ وہ ریاء کو ختم کرنے اور اخلاص کے حصول کےلیے ظاہری طور پر ایسے اعمال کرتے ہیں جو حقیقت میں خلاف شریعت نہیں ہوتے مگر عام دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ خلاف شرع ہے ۔ لوگ انہیں برا بھلا کہتے ہیں اور ان کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ وہ اسی لیے ایسا کرتے ہیں تا کہ لوگ انہیں برا بھلا کہیں اور انہیں چھوڑ جائیں ، انہیں ملامت کریں ۔ اس سے وہ اپنا اخلاص بچاتے ہیں ۔ صوفیاء میں یہ اعلیٰ طبقہ نہیں بلکہ ادنیٰ طبقہ ہے ۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ : فرقہ ملامتیہ کا ایک صوفی مجھے ملا ، میں نے اُس سے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اس نے کہا لوگوں سے جان چھڑانے کےلیے ۔ میں نے اُس ملامتی صوفی کو کہا کہ لوگوں سے جان چھڑانی ہے تو خود ہی لوگوں کی جان چھوڑ دو ۔ اگر وہ آپ سے عقیدت کرتے ہیں تو آپ ان کو کیوں دیکھتے ہیں ؟ خرابی اُن کے دیکھنے سے نہیں بلکہ خرابی آپ کے دیکھنے سے ہے ۔ آپ کا دھیان لوگوں کے کہنے پر ہے ، رب کو منانے پر نہیں ہے ۔ دھیان اگر لوگوں سے کاملاً ہٹ جائے تو پھر آدمی نہ عمل اُن کےلیے کرتا ہے اور نہ ترکِ عمل ان کےلیے کرتا ہے ، اُسے کوئی اور نظر ہی نہیں آتا ۔ پس شرک اور ریاء دونوں سے نجات مل جائے تو اخلاص ہے ۔
مخلص کیسے بنیں ؟ : ⏬
اخلاص کی تعریف اور مخلص بننے کےلیے صوفیاء کے چند اقوال درج کیے جارہے ہیں : امام ابو القاسم القشیری رضی اللہ عنہ کے شیخ امام ابو علی الدقاق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : الاخلاص ترک ملاحظة الخَلق ’’ اپنے اعمال میں مخلوق کے نظر آنے کو ترک کر دینا اخلاص ہے ۔ (نووی بستان العارفين جلد 1 صفحہ 13،چشتی)
یہ نہیں فرمایا کہ لوگوں کےلیے عمل کرنا ، دکھلاوے کےلیے عمل کرنا ریاء ہے بلکہ فرمایا اپنے اعمال میں مخلوق کے نظر آنے کو ترک کر دینا اخلاص ہے ۔ کوئی دکھائی نہ دے اور کوئی سنائی نہ دے ۔ پھر کسی کی بات ملال نہیں دیتی ۔
حضرت ابو عثمان المغربی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : نسيان رؤية الخَلق بدّوام النظر إلی الخالق ’’ اگر ہر وقت نظر خالق کی طرف رہے تو رؤیت خَلق کا نسیان ہو جاتا ہے۔ پھر مخلوق نظر نہیں آتی ۔ (الرسالة القشيرية صفحہ 209)
امام محمد بن علی الکتانی علیہ الرحمہ سے کسی نے عرض کہ وصیت فرمائیے ۔ فرمایا : کن کما ترء الناس إل فارالناس ما تکون ’’ تو حقیقت میں ایسا ہو جا جیسا تو اپنا آپ لوگوں کو دکھاتا ہے اور اگر تو ایسا نہ بن سکے تو پھر تو اپنا آپ لوگوں کو وہی کچھ دکھا جو حقیقت میں ہے ۔ (طبقات الصوفية صفحہ 374،چشتی)
امام اعظم رضی اللہ عنہ گلی میں سے گزر رہے تھے ، راستے میں بچے کھیل رہے تھے ، کسی ایک بچے نے دوسرے بچوں کو آواز دی کہ رک جاؤ ! اتنی بڑی ہستی گزر رہی ہے کہ جو ہر رات عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتی ہے ، ساری رات قیام کرتے ہیں ۔ یہ سن کر امام اعظم رضی اللہ عنہ رو پڑے ۔ اس وقت تک وہ عشاء کے وضو سے فجر نہیں پڑھتے تھے ۔ اپنا گریبان پکڑ کر کہا کہ تو عشاء سے فجر تک نہیں جاگتا جبکہ لوگ تجھے ایسا سمجھتے ہیں ، پھر اپنے آپ کو کہا کہ آج کے بعد رات کو تو نہ سویا کر ۔ ایسا ہی بن ، جیسے لوگ سمجھتے ہیں ۔ اس دن کے بعد چالیس برس حیات رہے اور عشاء کے وضو سے فجر پڑھتے رہے ۔
گویا جیسا تو لوگوں کو اپنا آپ دکھاتا ہے ویسا بن جا ۔ اگر یہ مشکل کام ہے تو اس عمل کو چھوڑ دے ، پھر کم سے کم وہی حال دکھا جو حقیقت میں تیرا ہے ۔ جو معمول تیرے اندر ہے وہی باہر بھی دکھا ۔ ظاہر وباطن کا دھوکہ نہ کر۔ ظاہر و باطن ایک جیسا ہو جائے تو اسی کو اخلاص کہتے ہیں ۔
حضرت مقہول الدمشقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما أخلص عبد قط أربعين يوما إلا ظهرت ينابيع الحکمة من قلب إلی لسانه ۔ ’’ اخلاص کے ساتھ جس شخص نے چالیس دن گزار لیے ، اُس شخص کے دل میں حکمت کا چشمہ پھوٹ پڑے گا اور وہ اُس کی زبان سے جاری ہوں گے ۔ (ابن قيم جوزی مدارج السالکين جلد 2 صفحہ 69)
حضرت ابو یعقوب السوسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : متی شهدوا فی اخلاصهم الاخلاص احتاج اخلاصهم إلی اخلاصهم ’’ صاحبانِ اخلاص کو اگر اپنے اخلاص میں خود اخلاص نظر آنے لگے تو اُن لوگوں کے اخلاص کو اخلاص کی حاجت ہے ۔ (نووی بستان العارفين جلد 1 صفحہ 27)
اخلاص کا معنیٰ سوائے اللہ عزوجل کے ہر شے سے خلاصی پا جانا ہے ۔ جب اس نے مخلوق کو دیکھنے سے خلاصی پالی ، عمل سے خلاصی پالی ، اپنے آپ کو دیکھنے سے خلاصی پالی تو تین درجے خلاصی کے حاصل کر گیا ۔ اب اخلاص والے کو اپنا اخلاص نظر آ رہا ہے ، تو اخلاص کا دکھائی دینا بھی ایک درجے کا ریاء ہے ۔ اخلاص کر کے بھی اسے اخلاص نظر نہ آئے ۔ اس کی نظر صرف اللہ پر رہے تب اخلاص کامل ہوتا ہے ۔ یہ اخص الخواص کا درجہ ہے ۔ جب اللہ کےلیے کوئی عمل کریں اس میں کوئی شخص نظر نہ آئے ۔ نہ کوئی دکھائی دے نہ سنائی دے ، یہی اخلاص ہے ۔ اللہ رب العزت ہمیں صدق و اخلاص کی اس نعمت سے مالا مال فرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment