ہم سب سے زیادہ بہادر ابو بکر صدیق ہیں فرمان مولا علی رضی اللہ عنہما
محترم قارئینِ کرام : شجاعت و جرأت کے عَلَم بَردار خلیفۂ اوّل امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی ذاتِ مبارکہ جہاں بے پناہ خوبیوں اور عمدہ اوصاف سے مزین ہے وہیں آپ رضی اللہُ عنہ میں ہمت ، شجاعت ، جرأت اور بلند حوصلہ کی صفت کامل طور پر موجود ہے امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات : 671) آیتِ مبارکہ نقل کرتے ہوئے فرماتےہیں : وَ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ ۔ اَفَاۡىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْؕ ۔ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ ۔ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْنَ ۔
ترجمہ : اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا ۔
یہ آیتِ کریمہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جرأت و شجاعت پر بڑی دلیل ہے کیونکہ جرأت اور شجاعت کی تعریف یہ ہے کہ مصائب در پیش ہونے کے وقت دل مضبوط و مستحکم رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رِحلت سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں ۔ بڑے بہادر صحابہ بھی اس موقع پر اپنے آپ کو سنبھال نہ پائے ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا : حُضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی ، حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی زبان گویا بند ہو گئی ، حضرت سیدنا مولاعلی رضی اللہ عنہ گھر میں بند ہو کر بیٹھ گئے اور معاملہ بڑا دشوار ہو گیا ، آخر کار حضرت ابوبکر صدیق نے اس آیتِ مبارکہ کو پڑھ کر معاملہ کھول دیا ۔ (الجامع لاحکام القران للقرطبی جلد 2 صفحہ 172 جز 4 سورہ اٰل عمرٰن آیت نمبر 144،چشتی)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شجاع اور بہادر تھے اور ایسے شجاع کہ سفر ہجرت میں اپنی حفاظت کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منتخب فرمایا ۔ نصرتِ اسلام کی خاطر سب سے پہلے داد شجاعت دی ، مانعین زکوۃ کے خلاف تلوار اُٹھائی ، نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا استیصال کیا ، مرتدین اور باغیوں کا سر کچلا اور آپ کی ولولہ انگیز قیادت میں اسلامی فتوحات کا دھارا تیزی سے بہتا رہا ۔ بعض مواقع پر مصلحت کی خاطر بڑے بڑے جری اور باجگر لوگ بھی نرم پڑ گئے ، لیکن بڑی سے بڑی مصلحت بھی عزم و استقلال کے اس کوہِ گراں کو اپنے موقف سے نہ ہٹا سکی ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : غزوہ بدر کے روز ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اور نگہداشت کےلیے ایک سائبان بنایا ، تا کہ کوئی کافر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کر کے تکلیف نہ پہنچا سکے ، اللہ پاک کی قسم ! ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا ، صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں لیے آگے تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے ، پھر کسی کافر کی جرأت نہ ہو سکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب بھی بھٹکے ۔ اس لیے ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ (کنزالعمال جزء 12 حدیث نمبر 35690،چشتی)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا : اے لوگو ! مجھے اس کے بارے میں بتاؤ جو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر ہے ؟ لوگوں نے کہا : اے امیر المؤمنین ! آپ (سب سے زیادہ بہادر) ہیں ۔ فرمایا : میں تو اپنے برابر والے سے لڑتا ہوں ۔ تم مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کے بارے میں بتاؤ ؟ لوگوں نے عرض کی : ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے ؟ فرمایا : سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، غزوۂ بدر کے روز ہم نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی خدمت) کےلیے ایک سائبان بنایا ، اور آپس میں کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس سائبان میں رات کون گزارے گا کہیں کوئی مُشْرِک حملہ نہ کر دے ۔ اللہ پاک کی قسم ! حضرت ابو بکر کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں بلند کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کوئی کافر حضور نبیِّ کریم کی جانب متوجہ ہوتا تو حضرت ابوبکر صدیق اس پر جھپٹ پڑتے ، لہٰذا ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ ہیں ۔
کون آگے بڑھا ؟
پھر مولا علی شیرِخدا رضی اللہُ عنہ نے (ہجرت سے پہلے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا : میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قریش نے پکڑ رکھا ہے ۔ ایک ناہنجار شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دھکے دیتا تو دوسرا زو رزور سے جھنجھوڑتا ۔ اور ساتھ ساتھ نازیبا الفاظ کہتے جاتے : تم وہی ہو جس نے بہت خداؤں کا ایک خدا کر دیا ہے ۔ اللہ پاک کی قسم ! اس وقت حضرت ابو بکر صدیق کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب نہ ہوا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک کو مارتے ، دوسرے کو دھکا دیتے تیسرے کو جھنجھوڑتے اور یہ کہتے جاتے : تم برباد ہو جاؤ ، کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتے ہیں : میرا رب اللہ تعالیٰ ہے ۔ (مسند بزار جلد 3 صفحہ 14 حدیث نمبر 761،چشتی)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! مجھے بتاؤ تمام لوگوں سے زیادہ بہادر کون ہے ؟
لوگوں نے کہا : اے امیرالمومنین آپ، فرمایا : میں نے ہمیشہ اپنے برابر والے کو للکارا ہے ، مجھے بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟
لوگوں نے کہا ہم نہیں جانتے، آپ بتائیے کون بہادر ہے ؟
فرمایا : ابوبکر ۔ جب بدر کا دن آیا تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے ایک عرشہ تیار کیا ، ہم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا تاکہ کوئی مشرک آپ کی طرف بڑھنے کی ہمت نہ کرے ؟
تو اللہ کی قسم ہم سے کوئی قریب نہ گیا سوائے ابوبکر کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پہ تلوار لہرا کے پہرہ دے رہا تھا ، جب کوئی دشمن آپ کی طرف بڑھتا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسے آڑے ہاتھوں لیتے ، تو یہی ہے تمام لوگوں سے زیادہ بہادر فھذا اشجع الناس ۔
پھر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ قریش آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کیا آپ ہی ہمارے خداؤں کی بجائے ایک خدا کی بات کرتے ہیں ؟
تو اللہ کی قسم ہم میں سے کوئی آپ کے قریب نہ گیا سوائے ابوبکر کے ۔ ابوبکر کسی کو مار رہے تھے ، کسی کو گھسیٹ رہے تھے اور کسی کو دھکے دے رہے تھے اور کہ رہے تھے : تم لوگوں کا برا ہو ، کیا تم اس مرد خدا کو (معاذاللہ) قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟
پھر سیدنا علی المرتضی نے اپنے چادر اٹھائی اور اتنا روئے کہ داڑھی مبارک تر ہو گئی، پھر فرمایا : لوگوں! میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ : کیا آل فرعون کا مومن افضل ہے یا ابوبکر ؟ لوگ خاموش ہو گۓ ، فرمایا : مجھے جواب کیوں نہیں دیتے ؟
اللہ کی قسم ابوبکر کا ایک لمحہ آلِ فرعون کے مومن جیسوں سے افضل ہے ، اس نے تو اپنا ایمان چھپایا تھا مگر یہ وہ مرد ہے جس نے اپنے ایمان کا اعلان کیا تھا ۔ (مجمع الزوائد حدیث نمبر ١٤٣٤٣،چشتی)
ہجرت کے کچھ عرصے کے بعد بدر کا معرکہ پیش آتا ہے ۔ قریش مکہ اورمسلمان اپنی اپنی صفیں مرتب کر کے ایک دوسرے کے بالمقابل میدان جنگ میں کھڑے ہیں ۔ مسلمانوں نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے قریب کی ایک پہاڑی پرایک شامیانہ لگا دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس شامیانے میں تشریف رکھیں اور اگر مسلمانوں کی حالت دگرگوں دیکھیں تو اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے ، جب جنگ شروع ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کی کثرت اور مسلمانوں کی کمی دیکھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رو ہو کر اپنے رب عزوجل کے حضور اس سے اس کے وعدوں کی یاد دلا دلا کر مسلمانوں کےلیے فتح و نصرت کی دعائیں مانگنی شروع کیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرما رہے تھے : اللھم ھذہ قریش قداتت بخیلائھا تحاول ان تکذب رسولک اللھم فنصرک الذی وعدتنی اللھم ان تھک ھذہ العصابۃ الیوم لا تعبدا ۔
ترجمہ : اے اللہ! یہ قریش اپنے عظیم الشان لشکر کے ہمراہ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھوٹا ثابت کرنے کےلیے آئے ہیں اے اللہ اپنے اس وعدے کو پورا فرما جو تو نے مسلمانوں کی فتح کے متعلق کیا ہے ۔ اے اللہ ! اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہو گئی تو آئندہ تیرا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے گا ۔
آپ اس قدر زاری اور اتنی بے چینی اور گھبراہٹ کی حالت میں اپنے رب کو پکار رہے تھے اور ہاتھ دعا کےلیے پھیلا رہے تھے کہ بار بار آپ کی چادر زمین پر گر جاتی تھی ۔ بالآخر آپ پر غنودگی کی حالت طاری ہوئی اور اللہ کی طرف سے ایک بار پھر بڑے زور سے مسلمانوں کی فتح و نصرت کی خوشخبری دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطمئن ہو کر شامیانے کے باہر تشریف لائے اور بلند آواز سے مسلمانوں کو کفار پر حملہ کرنے کےلیے ارشاد فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے کہ : مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے کہ آج کے روز ہر شخص کفار سے لڑے گا اور اس حالت میں شہید کیا جائے گاکہ اس کے پیش نظر صر ف اللہ کی رضا اور اس کے دین کی مدد کاجذبہ ہو گا اور اس نے میدان جنگ میں کفار کو پیٹھ نہ دکھائی ہو گی اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ۔
گو پہلے ہی سے اللہ عزوجل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح کی خوشخبری دے دی تھی لیکن اس کے باوجود آپ برابر گِڑ گِڑا کر اللہ عزوجل سے دعائیں مانگتے رہے جب تک کہ ایک بار پھر اللہ کی طرف سے واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کی فتح و نصرت کا وعدہ نہ دے دیا گیا اور آپ کو دلی اطمینان نصیب نہ ہو گیا ۔ واقعی ایک پیغمبر کی شان یہی ہوتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ اللہ عزوجل کے وعدے سچے ہیں اور وہ ضرور مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا ۔ لیکن ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ علم بھی تھا کہ اللہ غنی عن العالمین ہے ممکن ہے کہ مسلمانوں سے دوران جنگ میں کوئی ایسی کوتاہی سرزد ہو جائے جس کے باعث فتح و نصرت کا وعدہ دور جا پڑے اور مسلمان اولین مرحلے میں اپنا مقصود حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔
اس پورے عرصے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اور انہیں یقین تھا کہ اللہ ضرور مسلمانوں کی مدد کرے گا اور انہیں فتح سے ہمکنار کر دے گا ۔ اسی لیے وہ حیرت و استعجاب سے آپ کی مناجات سن رہے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کر رہے تھے اور اسے اس کا وعدہ یاد دلا رہے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر بار بار زمین پر گر جاتی تھی اور اسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر ڈال دیتے اور عرض کرتے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ گھبرائیں نہیں ۔ اللہ نے آپ کو فتح و نصرت کا وعدہ دیا ہے اور وہ اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے عقیدے میں اس قدر راسخ ہوتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے جو ان عقائد میں اختلاف رکھتے ہوں ۔ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ حقیقی ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ مخالفین سے تعصب تندی اور سختی کا برتاٶ کیا جائے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کامل الایمان ہونے کے باوجود نہایت نرم دل انسان تھے ۔ سب و شتم تندی اور سختی سے وہ کوسوں دور تھے ۔ قابو پانے کے بعد مخالف کو معاف کر دینا اور فتح یاب ہونے کے بعد دشمن پر احسان کرنا ان کا شیوہ تھا ۔ اس طرح ان میں حق و صداقت کی محبت اور رحم و کرم کا جذبہ بہ یک وقت پایاجاتا تھا ۔ حق کے راستے میں وہ ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جانوں کو بھی ہیچ سمجھتے تھے اور اعلاء کلمۃ الحق کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے کو بخوشی تیار ہو جاتے تھے ۔ لیکن جب حق غالب آ جاتا تو دشمن سے سختی کابرتاو کرتے اور اس سے مظالم کی جواب دہی کرنے کے بجائے ان میں رحم و کرم کا جذبہ ابھر آتا تھا ۔ مسلمانوں کو جب جنگ بدر میں فتح نصیب ہوئی اور وہ قریش کے ستر قیدی ہمراہ لے کر مدینہ واپس آ گئے ۔ یہ قیدی وہی تھے جنہوں نے مکہ میں تیرہ برس تک مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے تھے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا ۔ انہیں دکھائی دے رہا تھا کہ ان مظالم کا بدلہ چکانے کا وقت آ پہنچا ہے اوراب مسلمان ان پر جس قدربھی سختی کریں کم ہے ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے تھی کہ ان سب قیدیوں کو قتل کر دیا جائے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اصرار کر کے اپنی بات منوا ہی لی اور تمام قیدی زر فدیہ اور پڑھائی لکھائی کے عوض رہا کر دیے گئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کایہ فعل ان کی پاکیزگی قلب اور حد درجہ نرم دلی پر دلالت کرتاہے۔ شاید یہ وجہ بھی ہو کہ انہوں نے دور بین نظر سے اس امر کامشاہدہ کر لیا تھا کہ مشرکین مکہ بالآخر رحم کے مظاہروں سے ہی مغلوب ہوں گے ۔ جب وہ دیکھیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر قسم کی طاقت و قوت رکھتے ہوئے بھی ان سے مروت و احسان کا سلوک کیا ہے تو وہ آپ سے آپ اسلام کی آغوش میں آ گریں گے ۔ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ ظاہری قوت کے ذریعے مخالف پر جسمانی لحاظ سے تو قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اس کے دل کو مطیع نہیں کیا جا سکتا مخالف کے دل پر اسی وقت فتح حاصل کی جا سکتی ہے کہ جب طاقت کے ذریعے سے نہیں بلکہ پیار و محبت کے ذریعےسے اسے اپنی طرف مائل کیا جائے ۔
غزوہ بدر جس طرح مسلمانوں کےلیے ایک نئے دور کا آغاز تھا اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کتاب زندگی کا ایک نیا ورق تھا ۔ اس جنگ کے بعد مسلمانوں نے ایک نئے نہج سے اپنی سیاست کو مرتب کرنا شروع کیا ۔ بدر کی فتح سے مسلمان کو بڑی سیاسی اہمیت حاصل ہو گئی تھی ۔ اوران کے مخالفین کے دلوں میں ان کی جانب سے حسد اور غصے کی آگ بھڑک اٹھی تھی ۔ اس فتح نے جہاں یہود کو چوکنا کر دیا تھا اور انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب مسلمان ان کے دست نگر بن کر نہیں رہ سکتے وہاں مدینے کے اِرد گِرد بسنے والے قبائل کو بھی یہ فکر پیدا ہو گیا تھا کہ مبادا مسلمانوں کا رخ ان کی طرف پھر جائے ۔ چنانچہ یہود اور مدینہ کے نواحی قبائل نے مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں ۔
ان امور کی موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر آن اور ہر لمحہ سختی سے صورتحال کاجائزہ لیتے رہیں اور صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد ان حالات کے مطابق اپنی پالیسی کا جائزہ لیں ۔ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص الخاص مشیر تھے ۔ ان دونوں کی طبیعتوں میں بے حد فر ق تھا لیکن بہ ایں ہمہ دونوں نہایت مخلص اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار تھے اور ہر مشورہ انتہائی غور و فکر سے دیتے تھے ۔ ان مشوروں کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے راہ عمل معین کرنے میں بہت آسانی رہتی تھی ۔ ان دونوں کے علاوہ آپ دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنے مشوروں میں برابر شریک کرتے تھے ۔ جس کااثر لوگوں پر بہت اچھا پڑتا تھا اور ہر شخص خیال کرتا تھا کہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتماد حاصل ہے اور آپ اسے بھی مشوروں میں شریک کر کے خدمت کا موقع عنایت فرماتے ہیں ۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے 7 غزوات میں نبی کریم کے ساتھ شریک ہونے کا شرف حاصل کیا ، اور 9 معرکے ایسے تھے جن میں کبھی تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ ہم پر امیر تھے تو کبھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے قائد و سپہ سالار تھے ۔ (صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 98 حدیث نمبر 4270)
غزوۂ احد میں جب لوگ دورانِ جنگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ادھر ادھر منتشر ہوگئے تھے تو (رسولُ اللہ کی حفاظت کی غرض سے) سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ (مسند بزار جلد 1 صفحہ 132 حدیث نمبر 63،چشتی)
صلح حدیبیہ کے موقع پر کفارِ مکہ کی جانب سے آنے والے نمائندے نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سخت گفتگو کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس پر غضبناک ہو گئے اور اسے سخت کلمات کہتے ہوئے کہنے لگے : کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسوا کردیں گے یا ہم انہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 20 صفحہ 418 حدیث نمبر 38010)
فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ تشریف فرما تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حفاظت کی غرض سے تلوار ہاتھ میں لیے سرہانے کھڑے تھے ۔ (مسند بزار جلد 15 صفحہ 281 حدیث نمبر 8774)
فتح مکہ تک کا پورا عرصہ مسلمانوں کو کفار سے جنگ یا اس کی تیاریاں کرتے گزارنا پڑا ۔ ایک طرف یہود حیی بن احطب کے زیر سرکردگی مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے دوسری طرف قریش مکہ اپنی پوری طاقت سے مسلمانوں کوزیر کرنے اور ان پر غالب آنے کی تیاریاں کر رہے تھے ۔ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں وار لڑائیوں کے علاوہ بنو نضیر خندق احزاب اور بنو قریظہ کے غزوات یہود کی فتنہ انگیز سیاست اور قریش کے غیض و غضب کے نمایاں عناصر ہیں ۔ ان تمام لڑائیوں اورغزوات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش بہ دوش حصہ لیا اوردوسرے تمام مسلمانوں سے زیادہ بہادری صدق و ثبات اور ایمان کا ثبوت دیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment