Saturday, 23 March 2024

نمازِ جنازہ میں پڑھی جانے والی معروف دعاؤں کا ثبوت

نمازِ جنازہ میں پڑھی جانے والی معروف دعاؤں کا ثبوت
محترم قارئینِ کرام : نمازِ جنازہ میں پڑھی جانے والی نمازِ جنازہ کی معروف دعا : اَللّٰهمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاهدِناَ وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیْرِناَ وَ کَبِیْرِناَ وَ ذَکَرِناَ وَ اُنْثاَنَا ، اَللّٰهمَّ مَنْ أَحْیَیْتَه مِنَّا فَأَحْیِه عَلَی الِاسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الِایْمَانِ ۔
ترجمہ : اے اللہ ! تو ہمارے زندوں کی ، ہمارے مردوں کی ، ہمارے حاضر لوگوں کی ، ہمارے غائب لوگوں کی ، ہمارے چھوٹوں کی ، ہمارے بڑوں کی ، ہمارے مردوں کی اور ہماری عورتوں کی مغفرت فرما ۔ یا اللہ ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے ، تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو ہم میں سے موت دے ، تو اس کو ایمان پر موت دے ۔ (سنن الترمذی باب ما یقعل فی الصلاۃ علی المیت رقم الحدیث 1024) ۔ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے لیکن بعض وہابی حضرات اس کا انکار بھی کرتے ہیں اور یہ کہہ کر کہ مولوی میتنا کہہ کر ٹرخا دیتے ہیں احادیثِ مبارکہ کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں ۔ حدیث یہ ہے : حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَقَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جنازے پر نماز پڑھی تو یوں دعا فرمائی : اللهم اغفر لحينا وميتنا ، وصغيرنا وكبيرنا ، وذكرنا وأنثانا ، وشاهدنا وغائبنا ، اللهم من أحييته منا فأحيه على الإيمان ، ومن توفيته منا فتوفه على الإسلام ، اللهم لا تحرمنا أجره ، ولا تضلنا بعده ۔
ترجمہ : اے اللہ ! ہمارے زندوں اور مرنے والوں کو بخش دے اور چھوٹوں کو اور بڑوں کو ، مردوں کو اور عورتوں کو ، حاضر موجود لوگوں کو اور جو موجود نہیں ہیں انہیں بھی بخش دے ۔ اے اللہ ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے تو اسے ایمان کے ساتھ زندہ رکھ اور جسے تو موت دے اسے اسلام پر موت دے ۔ اے اللہ ! ہمیں اس مرنے والے کے اجر سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں گمراہ بھی نہ کر دینا ۔ (سنن ابی داؤد حدیث نمبر 3201 کتاب جنازے کے احکام و مسائل ۔ باب میت کے لیے دعا کا بیان حکم صحيح)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا هِقْلُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَشْهَلِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ :‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى عَلَى الْجَنَازَةِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا . قَالَ يَحْيَى :‏‏‏‏ وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ فِيهِ :‏‏‏‏ اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ ۔ (سنن الترمذی باب ما یقعل فی الصلاۃ علی المیت رقم الحدیث 1024 دارالحدیث القاہرۃ،چشتی)

موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے : عن نافع ابن عمر کان لا يقرا فی الصلاه علی الجنازه ويصلی بعد التکبيره الثانيه کما يصلی فی التشهد و هو الاولی و يدعو فی الثالثه ۔ الميت و لنفسه والابويه وللمسلمين ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر نماز جنازہ میں قرآن نہیں پڑھتے تھے ۔ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھتے تھے جو تشہد میں پڑھا جاتا ہے ۔ یہی بہتر ہے ۔ تیسری تکبیر میں میت کےلیے ، اپنے لیے ، اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کےلیے دعائے مغفرت مانگتے تھے ۔ (فتح القدير جلد 2 صفحہ 78)

اگر میّت نابالغ لڑکا ہو ، تو یہ دعا پڑھی جائے : ۔ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا ۔
ترجمہ : اے اللہ ! اس کو ہمارے لیے پیش رو بنا(یعنی وہ آخرت میں پہونچ کر ہمارے لیے راحت اور آرام کے اسباب تیار کرائے) ، اور اس کو ہمارے لیے اجر اور ذخیرہ بنا اور اس کو ہمارے لیے شافع (سفارشی) اور مشفع بنا (وہ آدمی جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے) ۔ اگر میّت بانالغ لڑکی ہو، تو مندجہ ذیل دعا پڑھی جائے : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّمُشَفَّعَةً ۔
ترجمہ : اے اللہ ! اس کو ہمارے لیے پیش رو بنا (یعنی وہ آخرت میں پہنچ کر ہمارے لیے راحت اور آرام کے اسباب تیار کرائے) ، اور اس کو ہمارے لیے اجر اور ذخیرہ بنا اور اس کو ہمارے لیے شافع (سفارشی) اور مشفع بنا (وہ آدمی جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے) ۔ (ولا يستغفر لمجنون أو صبي) إذ لا ذنب لهما (ويقول) في الدعاء (اللهم اجعله لنا فرطا) الفرط بفتحتين الذي يتقدم الإنسان من ولده أي أجرا متقدما (واجعله لنا أجرا) أي ثوابا ( وذخرا) بضم الذال المعجمة وسكون الخاء المعجمة الذخيرة (واجعله لنا شافعا مشفعا) بفتح الفاء مقبول الشفاعة ۔ (مراقي الفلاح صفحہ ۵۸۷)

نمازِ جنازہ میں نہ تو تشہد کی دعا (التحیّات لله الخ) پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کوئی آیت پڑھی جاتی ہے : (ولا قراءة ولا تشهد فيها) وعين الشافعي الفاتحة في الأولى وعندنا تجوز بنية الدعاء وتكره بنية القراءة لعدم ثبوتها فيها عن عليه الصلاة والسلام قال الشامي : قوله ( وعين الشافعي الفاتحة ) وبه قال أحمد لأن ابن عباس صلى على جنازة فجهر بالفاتحة وقال عمدا فعلت ليعلم أنها سنة ومذهبنا قول عمر وابنه وعلي وأبي هريرة وبه قال مالك كما في شرح المنية ۔ (رد المحتار جلد ۲ صفحہ ۲۱۳)

اگر کوئی شخص جنازہ کی دعا نہ جانتا ہو ، تو اس کےلیے یہ دعا پڑھنا کافی ہے : اَلَّلهُمَّ اغْفِر لِلمُؤْمِنِينَ وَ المؤمِنَات ۔
ترجمہ : اے اللہ ! تمام مؤمنین اور مؤمنات کی مغفرت فرما ۔ ومن لا يحسن الدعاء يقول اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات كذا في المجتبي ۔ (البحر الرائق جلد ۲ صفحہ ۱۹۷،چشتی)

اگر کوئی نو مسلم نمازِ جنازہ نہیں جانتا تو اس کو چاہیے کہ نمازِ جنازہ کی چار تکبیر پڑھے ، چار تکبیر فرض ہے اور اس کے پڑھنے سے نمازِ جنازہ ادا ہو جائے گی ۔ اس لیے کہ نمازِ جنازہ میں ثنا ، درود اور دعا پڑھنا فرض نہیں ہے ۔ بلکہ سنت ہے تاہم ہر ایک کو نمازِ جنازہ کی مسنون دعائیں سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ سنت کے مطابق نمازِ جنازہ ادا کر سکے ۔ ثم يدعو للميت وللمؤمنين والمؤمنات لأنه المقصد منها وهو لا يقتضي ركنية الدعاء كما توهمه في فتح القدير لأن نفس التكبيرات رحمة للميت وإن لم يدع له ۔ (البحر الرائق جلد ۲ صفحہ ۱۹۷)

اگر مرنے والا پیدائشی مجنون یا پاگل ہو ، بالغ ہونے کے بعد اسے کبھی اِفاقہ نہیں ہوا اور اسی حالت میں فوت ہو گیا ، تو اس کے جنازے میں تیسری تکبیر کے بعد نابالغ بچوں والی دعا پڑھی جائے گی اور یہی معاملہ عورت کے ساتھ ہو ، تو اس کے جنازے میں نابالغ بچیوں والی دعا پڑھی جائے گی ، کیونکہ جو شخص جنون کی حالت میں بالغ ہو اور موت تک مسلسل اسی طرح  رہے ، تو وہ نابالغ کی طرح شرعی احکام کا مکلف نہیں ، جس کی وجہ سے اس کے ذمہ  کوئی گناہ نہیں ہوتا ، لہٰذا اس کے  جنازے میں بھی نابالغوں والی دعا پڑھی جائے گی ، البتہ اگر کوئی بالغ ہونے کے بعد مجنون ہوا یا جنون تو بچپن ہی سے تھا ، لیکن بالغ ہونے کے بعد کبھی اِفاقہ بھی ہوا ، تو اس کے جنازے میں بالغ افراد والی دعا پڑھی جائے گی ۔ یاد رہے کہ بالغ و نابالغ افراد کے جنازہ سے متعلق جو دعائیں احادیث میں بیان ہوئیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، انہیں نمازِ جنازہ میں پڑھنا افضل ہے ، لہٰذا  یہ دعائیں یاد کرنی چاہیے ، البتہ اگر کسی کو نمازِ جنازہ کی مخصوص دعائیں یاد نہ ہوں ، تو وہ ان کی جگہ کوئی اور دعا پڑھ لے ، مگر وہ دعا ایسی ہونی چاہیے جو امورِ آخرت سے متعلق ہو ۔

مجنون اور نابالغ کے جنازے میں کون سی دعا پڑھی جائے گی ، اس بارے میں کنز الدقائق اور اس کی شرح بحر الرائق میں ہے : ولا يستغفر لصبي ولا لمجنون ويقول : اللهم اجعله لنا فرطا واجعله لنا اجرا وذخرا واجعله لنا شافعا مشفعا ، كذا ورد عن رسول اللہ  صلى اللہ عليه وآلہ وسلم ، ولانه لا ذنب لهما ۔
ترجمہ : اور نماز جنازہ میں بچے اور مجنون کےلیے مغفرت کی دعا نہ کرے اور یوں کہے : اے اللہ ! اسے ہمارے لیے ذریعہ اجر اور باعثِ ثواب بنا اور اسے ہمارے لیے ذخیرہ کر دے اور اسے ہماری شفاعت کرنے والا اور مقبول الشفاعہ بنادے (یعنی ایسا بنا کہ اس کی شفاعت قبول کی جائے) ۔ ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے اور اس لیے کہ ان دونوں کے ذمہ کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ (کنز الدقائق مع البحر الرائق جلد 2 صفحہ 198 مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی،چشتی)

مجنون کے جنازے میں کب بالغ اور کب نابالغ والی دعا پڑھی جائے گی ، اس بارے میں حلبی کبیر میں ہے : والمجنون کالطفل ذکرہ فی المحیط وینبغی ان یقید بالجنون الاصلی ، لانہ لم یکلف ، فلا ذنب لہ کالصبی ، بخلاف العارض ، فانہ قد کلف وعروض الجنون لا یمحو ما قبلہ ، بل ھو کسائر الامراض ۔
ترجمہ : اور مجنون بچے ہی کی طرح  ہے ، اسے صاحبِ محیط نے محیط میں ذکر کیا اور مناسب یہ ہے کہ اس مسئلہ کو جنونِ اصلی (وہ جنون جو بالغ ہونے کے وقت موجود تھا ، اس) کے ساتھ مقید کیا جائے ، کیونکہ ایسا شخص شرعی احکام کا مکلّف نہیں ، پس بچے کی طرح اس پر کوئی گناہ بھی نہیں ، بخلاف عارضی جنون (جو بالغ ہونے کے بعد لاحق ہوا ہو) کے ، کیونکہ وہ مکلّف بن چکا ہے اور جنون کا لاحق  ہونا پچھلے گناہوں کو ختم نہیں کر دیتا ، بلکہ یہ بقیہ امراض کی طرح ہی ہو گا ۔ (حلبی کبیر صفحہ 587 مطبوعہ کوئٹہ)

حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ کی مکمل تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : میت مجنون یا نابالغ ہو ، تو تیسری تکبیر کے بعد یہ دُعا پڑھے : اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا (اَجْرًاوّ) ذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا ۔ اور لڑکی ہو تو ۔ اجْعَلْھَا اور شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً کہے ۔ مجنون سے مراد وہ مجنون ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے مجنون ہوا ، کہ وہ کبھی مکلّف ہی نہ ہوا اور اگر جنون عارضی ہے ، تو اس کی مغفرت کی دُعا کی جائے ، جیسے اوروں کےليے کی جاتی ہے ، کہ جنون  سے پہلے تو وہ مکلّف تھا اور جنون کے پیشتر کے گناہ جنون سے جاتے نہ رہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 835 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

اگر احادیث میں وارد دعائیں اچھی طرح یاد نہ ہوں ، تو دوسری بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ چنانچہ فتاوی ہندیہ میں جنازے میں پڑھی جانے والی مختلف دعائیں ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : هذا اذا كان يحسن ذلك ، فان كان لا يحسن ياتي بایّ دعاء شاء ۔
ترجمہ : یہ دعائیں اس صورت میں پڑھے ، جب انہیں اچھے طریقے سے پڑھ سکتا ہو ، اگر اچھے طریقے سے نہیں پڑھ سکتا ، تو (یاد دعاؤں میں سے) جو دعا چاہے پڑھ لے ۔ (فتاوی ھندیہ جلد 1 صفحہ 164،مطبوعہ دار الفکر)

اسی بارے میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : پھر(تیسری تکبیر کےلیے) اللہ اکبر کہہ کر اپنے اور میت اور تمام مومنین و مومنات کےليے دعا کرے اور بہتر یہ کہ وہ دعا پڑھے جو احادیث میں وارد ہیں اور ماثور دُعائیں اگر اچھی طرح نہ پڑھ سکے ، تو جو دعا چاہے پڑھے ، مگر وہ دعا ایسی ہو کہ اُمورِ آخرت سے متعلق ہو ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 829 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...