Saturday, 9 March 2024

عرس بزرگانِ دین ، مزاراتِ مقدسہ پر چادریں چڑھانا اور ان کو چومنا

عرس بزرگانِ دین ، مزاراتِ مقدسہ پر چادریں چڑھانا اور ان کو چومنا

محترم قارئینِ کرام : کسی بزرگ کی یاد منانے کےلیے اور ان کو ایصالِ ثواب کرنے کےلیے ان کے مُحبّین ومریدین وغیرہ کا ان کی یومِ وفات پر سالانہ اجتماع ’’عُرس‘‘کہلاتا ہے ۔ بزرگانِ دین اولیاءِ کرام رحمہم اللہ علیہم اجمعین کا عُرس منانے سے مقصود ان کی یاد منانا اور ان کو ایصالِ ثواب کرنا ہوتا ہے اس لئے ان کے عُرس کا انعقاد کرنا شرعاً جائز و مستحسن اور اجر و ثواب کا ذریعہ ہے ۔ بزرگانِ دین کے اعراس میں ذکرُاللّٰہ ، نعت خوانی اورقرآنِ پاک کی تلاوت اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام کر کے ان کو ایصالِ ثواب کیا جاتاہے اور ایصالِ ثواب کے جائز اور مستحسن ہونے کے دلائل ہم الگ سے لکھ چکے ہیں ۔ جو لوگ اپنے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کےلیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں ارشاد پاک ہے : وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ۔
ترجمہ : اور وہ جو ان کے بعد آئے ، عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو ، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔ (سورۃ الحشر ،آیت 10)

اس آیت کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے، سلف کےلیے بھی کرے ، دوسرے یہ کہ بزرگان دین خصوصاً صحابہ کرام و اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے عرس ، ختم ، نیاز ، فاتحہ اعلیٰ چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کےلیے دعا ہے ۔ (تفسیر نور العرفان) ۔

بخاری شریف میں ہے : ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان أمی افتلتت نفسھا و أظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا أجر ان تصدقت عنھا قال نعم ۔
ترجمہ : ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کی کہ میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں ، تو صدقہ کرتیں ۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں ، تو کیا انہیں اجر ملے گا ؟ توآپ نے فرمایا : ہاں ملے گا ۔ (صحیح بخاری ، جلد1 ، صفحہ 186 مطبوعہ کراچی)

ردالمحتار میں ہے کہ : صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بأن للانسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أوصوما أو صدقۃ أو غیرھا کذا فی الھدایۃ ۔
ترجمہ : ہمارے علماء نے باب الحج عن الغیر میں صراحت فرمائی ہے کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کے لیے کر سکتا ہے ۔ نماز ہو ،روزہ ہو ، صدقہ ہو یا کچھ اور ۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے ۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار ، جلد 3 ، صفحہ 180 ، مطبوعہ پشاور )

جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیل حدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی،چشتی)

عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھےاور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُن اللہ والوں کا وِصال ہوا۔(بوادر النوادر صفحہ 400 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)

اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائز ہے۔(بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہما الرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی،چشتی)

جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی ۔ (اشرف السوانح جلد اول ، دوم صفحہ نمبر 226)

مزارات پر حاضری دینا زمانہ قدیم سے مسلمانوں میں رائج ہے بلکہ خود رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر برکات لُٹانے کیلئے تشریف لاتے تھے ۔ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضور سیّدِ دوعالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر ہر سال کے شروع میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی زیارة القبور،3/177،چشتی)

اولیاء اللّٰہ رحمہم اللہ علیہم کے مزارات پر جانا باعثِ برکت اوررفعِ حاجات کا ذریعہ ہے ۔ اس لیے بزرگانِ دین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اولیاءِ کرام کی قبورپرجاتے اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی حاجات کےلیے دعا کرتے جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں مقدمۂ ردُّ المحتار میں امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے نقل فرماتے ہیں :’’میں امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر آتا ہوں اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دورکعت پڑھتا ہوں اورانکی قبر کے پاس جاکراللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں تو جلد حاجت پوری ہو جاتی ہے ۔ (ردالمحتار مقدمة الکتاب مطلب یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل جلد 1 صفحہ 135،چشتی)

بانی جماعتِ اسلامی جناب مودودی صاحب لکھتے ہیں : الاحقاف صحرائے عرب (الربع الخالی) کے جنوب مغربی حصہ کا نام ہے جہاں آج کوئی آبادی نہیں ہے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ عاد کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلا ہوا تھا۔ اور قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ان کا اصل وطن الاحقاف تھا۔ جہاں سے نکل کر وہ گردوپیش کے ممالک میں پھیلے اور کمزور قوموں پر چھا گئے۔ آج کے زمانہ تک بھی جنوبی عرب کے باشندوں میں یہی بات مشہور ہے کہ عاد اسی علاقہ میں آباد تھے۔ موجودہ شہر سے تقریبا 152 میل کے فاصہ پر شمال کی جانب میں حضرت موت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ہود کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ھود کے نام سے ہی مشہور ہے۔ ہر سال پندرہ شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہ قبر اگرچہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے لیکن اس کا وہاں بنایا جانا اور جنوبی عرب کے لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنا کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مقامی روایات اسی علاقہ کو قوم عاد کا علاقہ قرار دیتی ہیں ۔
الاحقاف کی موجودہ حالت کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہیں کرسکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمند رکھنے والی طاقت ور قوم آباد ہوگی۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہوگا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگ زار بنادیا ہوگا۔ آج اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔ 1843 ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارہ پر پہنچ گیا۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فیٹ نشیب میں نظر آتا ہے۔ اس میں جگہ جگہ ایسے سفید قطعے ہیں جن میں کوئی چیز گرجائے تو وہ ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہوجاتی ہے۔ عرب کے بدو اس علاقہ سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل سفوف کی طرح ہے ۔ میں دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہوگیا اور اس رسی کا سرا جل گیا جس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا ۔ مفصل معلومات کےلیے ملاحظہ ہو : Arabia And The Isles Harold ingrams, London, 1946 ۔ (تفہیم القرآن، ج 4، ص 615، مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، مارچ 1983 ء)

سید ابوالاعلی مودودی کے اس اقتباس سے جہاں الاحقاف کی تاریخی حیثیت پر روشنی پڑتی ہے ، وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نبیوں اور مقدس اور برگزیدہ بندوں کا عرس منانا صرف اہل سنت بریلوی مکتبہ فکر کی اختراع نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں مسلمان بزرگوں کا عرس کا عرس مناتے ہیں ۔ عرس کی معنوی اصل یہ ہے ۔

امام محمد بن عمر الواقد متوفی 2074 ھ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شہداء احد کی قبروں کی زیارت کرتے تھے، جب آپ گھاٹی میں داخل ہوتے تو بہ آواز بلند فرماتے : السلام علیکم، کیونکہ تم نے صبر کیا، پس آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے ! پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر سال اسی طرح کرتے تھے ۔ پھر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما ہر سال اسی طرح کرتے تھے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (کتاب المغازی، ج 1، ص 313، مطبوعہ عالم الکتب بیروت، 1404 ھ)(دلائل النبوۃ، ج 3، ص 308، مطبوعہ بیروت)(شرح الصدور، ص 210، دار الکتب العلمیہ، بیروت 404،چشتی)(در منثور، ج 4، ص 568، مصنف عبدالرزاق، 573 (قدیم) رقم الحدیث (جدید) 6745)

اور عرس کی لفظی اصل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبر میں منکر نکیر آ کر سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتے تھے اور جب مردہ یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ شہادت پڑھتا ہے تو اس کی قبر وسیع اور منور کردی جاتی ہے اور اس سے کہتے ہیں کہ اس عروس کی طرح سوجاؤ جس کو اس کے اہل میں سب سے زیادہ محبوب کے سوا کوئی بیدار نہیں کرتا۔ (الحدیث) (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1073، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

اس حدیث میں مومن کےلیے عروس کا لفظ وارد ہے اور عروس کا لفظ عرس سے ماخوذ ہے اور یہ عرس کی لفظی اصل ہے ۔ عرس کی حقیقت یہ ہے کہ سال کے سال صالحین اور بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی جائے ۔ ان پر سلام پیش کیا جائے اور ان کی تعریف و توصیف کے کلمات کہے جائیں اور اتنی مقدار سنت ہے ، اور قرآن شریف پڑھ کر اور صدقہ و خیرات کا انہیں ثواب پہنچانا یہ بھی دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے اپنی حاجات میں اللہ سے دعا کرنے اور شفاعت کرنے کی درخواست کرنا اس کا ثبوت امام طبرانی کی اس حدیث سے ہے جس میں عثمان بن حنیف نے ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ سے دعا کرنے اور آپ سے شفاعت کی درخواست کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (المعجم الصغیر، ج 1، ص 1184 ۔ 183، مطبوعہ مکتبہ سلفیہ، مدینہ منورہ، 1388 ھ، حافظ منذری متوفی 656 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ الترغیب والترہیب، ج 1، ص 474 ۔ 476،چشتی)(اور شیخ ابن تیمیہ متوفی 728 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ فتاوی ابن تیمیہ، ج 1، ص 274 ۔ 273)

اسی طرح امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں ایک بار قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں ۔ (الحدیث) (المصنف، ج 12، ص 32، مطبوعہ کراچی، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے، فتح الباری، ج 2، ص 495 ۔ 496، مطبوعہ لاہور)

تاریخ وصال کے موقع پر اھل اللہ کی یاد منانے کو عرس کہتے ہیں اور انبیائے کرام کا عرس منانا یعنی تاریخ وصال پر ان کا ذکر کرنا ان کی یاد منانا قرآن مجید سے ثابت ہے جیسا کہ :  حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠ ۔ (سورہ مریم آیت نمبر ۱۵)
ترجمہ : اور سلامتی ہے اس پرجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔

مزارات مقدسہ پر چادریں چڑھانا اور ان کو چومنا شرک نہیں ہے ۔ آج کل قرآن و حدیث سے بہت دور کچھ لوگ قرآن و حدیث کے نام پر غلط استدلال کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ اس پر جامع جواب درج ذیل ہے : ⏬

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن باہر نکلے اور احد میں شہید ہوجانے والوں پر نماز پڑھی جیسا کہ آپ میت پر نماز پڑھتے تھے پھر آپ منبر شریف کی طرف واپس تشریف لائے (اور منبر پر جلوہ افروز ہوکر) فرمایا : اِنِّيْ فَرَطٌ لَّکُمْ وَاَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی الْاٰنَ وَاِنِّيْ اُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَاءِنِ الْاَرْضِ اَوْ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ مَا اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوا بَعْدِيْ وَلٰکِنْ اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا ۔
ترجمہ :میں تمہارے لیے (فرط) مقدم ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کو اب دیکھ رہا ہوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں یا فرمایا زمین کی کنجیاں اور بے شک میں اللہ کی قسم تم پر شرک کرنے کا خوف نہیں رکھتا لیکن مجھے تم پر یہ خوف ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرنے لگ جاؤ گے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 451 الرقم : 1279 دار اابن کثیر الیمامة بیروت،چشتی)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ كي مذكورہ روایت کے متعلق شارحین حدیث نے علی التحقیق لکھا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال والے سال کا واقعہ ہے، چونکہ یہ حدیث آگے بھی بخاری میں روایت کی گئی ہے جس میں صحابی کہتے ہیں کہ منبر پر خطاب کرتے ہوئے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری منظر تھا جو ہم نے دیکھا ۔ حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نماز پڑھی جیسے الوداع کرنے والا پڑھتا ہے ۔ اس پر محدثین نے کہا کہ یہ آخری سال کا واقعہ ہے گویا اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے مزارات پر تشریف لائے شہدائے احد کو آٹھ سال بیت چکے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لیا اور ایک پورا اجتماع شہدائے احد کی زیارت کےلیے گیا ۔ لہٰذا اجتماعی طور پر مزارات کی زیارت کو جانا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوا ۔ نبی کریم کے ساتھ سینکڑوں صحابہ رضی اللہ عنہم تھے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب فرمایا ۔ گویا سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتماع ہوا تو پھر مزار ولی اور مزار شہید پر سینکڑوں کا اجتماع اور زیارت کرنا یہ بھی سنت ہے اور اسی کو عرس کہتے ہیں ۔ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد کا عرس منایا تھا ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے عرس کہاں سے ثابت ہے ؟ حدیث کا اگلا حصہ اس امر کو واضح کررہا ہے کہ جب آپ نے وہاں نماز پڑھ لی یا دعا فرمائی (شارحین حدیث کے ہاں دونوں معنیٰ آئے ہیں) : ⏬

ثُمَّ انْصَرَفَ اِليَ الْمِنْبَر ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر پر قیام فرما کر خطاب کیا ۔

چونکہ منبر پر کھڑے ہوکر خطاب کیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد کثیر تھی کیونکہ اگر تعداد کم ہوتی تو منبر پر قیام فرما کر خطاب کی ضرورت و حاجت نہ تھی ۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھی اور ان تمام کو ساتھ لے کر مزارات شہدائے احد پر آئے ۔ شہدائے احد کی قبور میں منبر کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ منبر ساتھ لے کر گئے تھے یا منگوایا گیا تھا ۔ گویا جاتے ہوئے یہ ارادہ تھا کہ صرف زیارت ہی نہیں ہوگی بلکہ خطاب بھی ہو گا ۔ معلوم ہوا جب مزار کی زیارت ہو ، سینکڑوں کا اجتماع ہو ، منبر لگے اور منبر پر خطاب ہو یہ تمام اجزاء مل جائیں تو اسی کو عرس کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس سے واضح ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال مبارک سے قبل آداب مزارات پر حاضری کے آداب سکھا دیے گویا شہداء ، اولیاء ، صالحین کے مزار پر جانا ، ان کی اجتماعی زیارت کرنا ، خطاب کرنا ، ذکر و تذکیر اور وعظ و نصیحت کرنا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔

اس موقع پر خطاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فضائل اور مناقب بیان کیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احکام و شریعت میں سے کوئی مسئلہ بیان نہیں کیا بلکہ خطاب شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر تھا ۔ فرمایا : لوگو ! میں تم سے پہلے جارہا ہوں تاکہ آگے تمہاری بخشش کا انتظام کروں، میں وہاں تمہارا استقبال کروں گا ۔ اِنِّيْ فَرَطٌ لَکُمْ وَفِيْ رَوايَة قَالَ حَيَاتِيْ خَيْرُلَّکُمْ وَمَمَاتِيْ خَيْرٌلَّکُمْ ’’ میں تمہاری خاطر آگے جانے والا ہوں اور ایک روایت میں ہے۔ میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میرا وصال (بھی ) تمہارے لیے بہتر ہے ۔ یعنی میں تم میں تھا تب بھی تمہیں فیض دیتا رہا ، اب آگے جارہا ہوں ، وفات بھی تمہارے لیے باعث فیض ہوگی، تمہیں بخشوانے کا سامان کرنے جا رہا ہوں ۔

ربط بین الالفاظ کے ذریعے حدیث کو پڑھیں ۔ پہلا جز یہ تھا کہ اِنِّيْ فَرَطٌ لَّکُمْ اس میں اپنے وصال اور آخرت میں صحابہ و امت کی شفاعت کا اشارہ موجود ہے کہ تمہاری شفاعت کا بندوبست کرنے جارہا ہوں ۔ اس کے بعد فرمایا وَاَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ اور یہ نہ سمجھنا کہ میں رخصت ہو گیا ، نہیں میں پھر بھی تمہیں دیکھتا رہوں گا ۔ تمہارے اوپر گواہ اور نگہبان رہوں گا ۔ فَرَطٌ لَّکُمْ اور شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ کے درمیان ایک معنوی ربط ہے ۔ فَرَطٌ لَّکُمْ وصال کی خبر دے رہا ہے اور شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ اشارہ دے رہا ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھنا کہ اب میں نہیں رہا بلکہ میں تم پر نگہبان رہوں گا ، تمہارے اعمال اور درود و سلام مجھ پر پیش ہوتے رہیں گے میں تمہارے اعمال نیک و بد سے خوش و غمزدہ ہوتا رہوں گا اور ہر لمحہ تم سے باخبر رہوں گا۔ پھر فرمایا : وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی اَلْاٰن ۔ اس تیسرے جملے میں خوشخبری دی کہ ایک حوض ، حوض کوثر ہے اور میں اس وقت اس حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں ۔ یہ حوض ، جنت میں ہے مگر اس کا ظہور قیامت کے دن ہوگا اور یہ حقائق غیبیہ میں سے ہے ۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کی سر زمین پر کھڑے ہوکر اسی لمحے اس حوض کوثر کا مشاہدہ بھی فرمارہے ہیں جو جنت میں ہے یا جو قیامت کے دن ظاہر ہونے والا ہے ۔ گویا وہاں کھڑے ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت بھی دیکھ رہے ہیں اور جس دن قیامت برپا ہوگی اس دن کا منظر بھی دیکھ رہے ہیں پھر فرمایا : وَاِنِّيْ اُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِن الْاَرْض اَوْ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ ۔ اور زمین کے سب خزانوں کی ساری چابیاں مجھے عطا کردی گئی ہیں ۔

’’مَفَاتِيْح‘‘ جمع منتہی الجموع ہے اور ’’خزائن‘‘ بھی جمع ہے ۔ ’’مفاتیح‘‘ اور ’’خزائن‘‘ آپس میں مضاف اور مضاف الیہ ہیں ، جب مضاف و مضاف الیہ دونوں جمع ہوں نیز مضاف جمع منتہی الجموع ہو یعنی جمع کی اضافت جمع پر ہو تو یہ استغراق کلی کا فائدہ دیتا ہے ، کلیت پر دلالت کرتا ہے ۔ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتا رہے ہیں کہ جتنی قِسموں کے خزانے ہیں اور ان کی جتنی چابیاں ہیں ، رب نے مجھے عطا کردی ہیں ۔ گویا خزانوں کے مالک بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور چابیوں کے مالک بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا : وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ ’’ اور غیب کی کنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اس کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں ۔ (سورہ الانعام آیت نمبر 59)

غیروں کےلیے تالا ہوتا ہے اور اپنوں کےلیے چابیاں ہوتی ہیں اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی امت کے لئے اشارہ فرمادیا کہ زمین کے کل خزانوں کی کل چابیاں مجھے دی ہیں ۔ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ ’’تم میرے قدموں سے جڑ جاؤ ، جس کو طلب ہوگی، صدق کا تعلق ہوگا اس کو خزانوں سے بھردوں گا ۔

مَفَاتِيْحَ الْاَرْض میں مستقبل میں فتوحاتِ اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے نیز اس سے عرب کی سرزمین سے نکلنے والے تیل کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ یہ بات بغیر دلیل کے نہیں ہے ، امام حجر عسقلانی علیہ الرحمہ بھی اس بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہاں سرزمین عرب کے تیل و معدنیات کی طرف اشارہ ہے ۔ تو پھر جو کچھ زمین سے نکلا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 1400 سال قبل بیان فرما دیا اور اب جس جس وقت میں جو کچھ بھی ظاہر ہو گا اور جو جو اس سے بہرہ مند ہو گا اور نفع اٹھائے گا وہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا صدقہ ہو گا۔ مانے یا نہ مانے یہ الگ بات ہے مگر ہر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا صدقہ ہی کھائے گا ۔

سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت پر شرک کے فتوے لگانے والوں کےلیے مقام غور : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد کی زیارت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے آخری حصے میں فرمایا : وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ مَا اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِی ’’ اللہ کی قسم ! مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم شرک کرو گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو مشرک قرار دینے والے غور کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر شرک کا اتہام تہمت لگانے والوں کےلیے مقام غور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھائی کہ مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے ۔ وَلٰکِنْ اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا ’’ بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ تم دنیا طلبی اور دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا کہ دنیا کی وجہ سے ہلاکت میں چلے جاؤ گے ۔

یہاں ایک جزئیہ سمجھنے والا ہے ۔ بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرک کے خوف کا نہ ہونا یہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرک سے مستثنیٰ اور مبراء تھے ۔ اور ہمیں مبراء نہیں کیا کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ ایک لمحہ کےلیے اس سوال کو اگر قبول کر لیا جائے تو اب اس کا جواب یہ ہے ۔ ’’ولکن‘‘ (لیکن) کے آنے کی وجہ سے جملے کے دونوں اجزاء ایک ہی جملہ ہوں گے ۔ مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا پرستی کرو گے ۔ اس جملے کو صرف صحابہ کے دور تک محدود کرنے والے غور کریں کہ اگر صحابہ کے ساتھ شرک کے خوف کا نہ ہونا خاص کرنا ہے تو صرف شرک کے خوف کا نہ ہونا ہی صحابہ کے ساتھ خاص نہ ہوگا بلکہ پھر دنیا پرستی کا الزام بھی ان کے ساتھ خاص ہوگا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو باتیں کہیں : ⏬

1 ۔ عدم شرک
2 ۔ دنیا پرستی

اب یہاں دو امکان ہیں کہ یہ بات یا تو جمیع امت کےلیے فرمائی ہے یا صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے ہے ۔ اگر جمیع امت کےلیے ہے تب بھی دونوں جزء ہیں ، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا ۔ اور اگر صرف صحابہ کےلیے ہے تب بھی دونوں جزء ، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا ۔ کیونکہ ’’ولکن‘‘ ’’لیکن‘‘ کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہو گا ۔ پس حدیث مبارکہ میں موجود شرک کے خوف کا نہ ہونا صرف صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع امت کےلیے ہے ۔ پس معنی یہ ہوگا کہ اے میری امت مجھے تمہارے بارے شرک کا خوف تو نہیں مگر یہ خوف ہے کہ دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے۔ میں نے شرک کو جڑوں سے کاٹ کر اتنا ختم کر دیا ہے کہ قیامت کے دن تک میری امت من حیث المجموع اب مشرک کبھی نہیں بنے گی ۔ اور اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہو گی ۔ آج ہم دنیا پرستی میں مبتلا ہیں ۔ تو پھر جزء اول بھی حق ہوا اور جزء ثانی بھی حق ہوا ۔ جب جزء ثانی امت کے بارے میں حق ہے کہ واقعتاً امت دنیا پرستی میں مبتلا ہے تو جزء اول بھی حق ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہو گی ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جزء لے لیا جائے اور ایک جزء چھوڑ دیا جائے ۔

آج امت دنیا پرستی کا شکار ہے اور اسی کے باعث ذلت و رسوائی کا عذاب بھگت رہی ہے مگر بطور مجموعی امت مشرک نہیں ہوگی اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دے دی ۔ لہٰذا اب امت کے سواد اعظم کو مشرک کہنا یا ان کے عقیدہ کو شرک تصور کرنا یہ سواد اعظم پر اعتراض نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کو معاذ اللہ رد کرنا ہے ۔ غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبارک ہوکہ شرک کی تہمت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سب سے دفع فرما دیا ۔ اس لیے امت کو مشرک قرار دینے سے احتیاط کرنی چاہیے ۔

ایک واقعہ حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ نے سبع سنابل شریف میں ذکر کیا ہے : جس میں ماہ ربیع الاول میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ کی جانب منسوب ہونے والے بزم کو عرس ہی تحریر فرمایا ہے ۔ اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے سبع سنابل شریف میں مذکور واقعہ کو خود فتاویٰ رضویہ شریف میں نقل کیا ہے تحریر فرماتے ہیں : حضرت میر سید عبد الواحد قدس سرہ ، الماجد سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں : مخدوم شیخ ابوالفتح جونپوری راقدس ﷲ تعالٰی روحہ، درماہ ربیع الاول بجہت عرس رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ازدہ جا استدعا آمدہ کہ بعد از نماز پیشین حاضر شوند ہر دہ استدعا را قبول کردند۔ حاضران پرسیدند اے مخدوم ہر دہ استدعا را قبول فرمود و ہر جا بعد از نماز پیشین حاضر باید شد چگونہ میسر خواہد آمد۔ فرمود کِشن کہ کافر بود چند صد جا حاضر می شد، اگر ابوالفتح دہ جا حاضر شود چہ عجب بعد از نماز پیشین از ہردہ جا چوڈول رسید مخدوم ہر بارے از حجرہ بیرون می آمد بر چوڈول سوار میشد و می رفت ونیز ودر حجرہ حاضر می ماند۔ خرد مندا تو ایں رابر تمثیل حمل مکن یعنی مپندار کہ تمثیلہائے شیخ بچندیں جاہا حاضر شدہ است۔ لا وﷲ بلکہ عین ذات شیخ بہر جا حاضر شدہ بود، ایں خود دریک شہر و یک مقام واقع شد۔ و ذات ایں موحد خود در اقصائے عالم حاضر است خواہ علویات خواہ سفلیات ۔
ترجمہ : ماہ ربیع الاول میں رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے عرس پاک کی وجہ سے مخدوم شیخ ابوالفتح جونپوری قدس سرہ، کی دس جگہ سے دعوت آئی کہ بعد نماز ظہر تشریف لائیں۔ حضرت نے دسوں دعوتیں قبول کیں۔ حاضرین نے پوچھا: حضور نے دسوں دعوتیں قبول فرمائی ہیں اور ہر جگہ نماز ظہر کے بعد پہنچنا ہے یہ کیسے میسر ہوگا؟ فرمایا: کِشن جو کافر تھا سیکڑوں جگہ حاضر ہوتا تھا اگر ابو الفتح دس جگہ حاضر ہو تو کیا عجب ہے ؟ نماز ظہر کے بعد دسوں جگہ سے پالکی پہنچی، مخدوم ہر بار حجرہ سے آتے، سوار ہوجاتے، تشریف لے جاتے اور حجرہ میں بھی موجود رہتے _ اے عقل مند! اسے تمثیل پر محمول نہ کرنا، یعنی یہ نہ سمجھنا کہ شیخ کی مثالیں اتنی جگہوں میں حاضر ہوئیں ۔ یہ تو ایک شہر اور ایک مقام میں واقع ہوا خود اس موحد کی ذات عالم کے سروں میں موجود ہے خواہ علویات ہوں خواہ سفلیات ۔ (سبع سنابل سنبلۂ ششم درحقائق وحدت الخ مکتبہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص ۱۷۰،چشتی)۔(فتاویٰ رضویہ جلد نہم صفحہ ١٥٢)

اور فتاوی رضویہ میں کوئی ایسی عبارت جو حضور اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی جس میں انبیاء کے عرس کو ناجائز کہا ہو کبھی نظر سے نہ گزری البتہ ایک بدمذہب کی عبارت عرس کے عدم جواز پر سائل نے سوال کے ساتھ بھیجا ہے جو فتاوی رضویہ جلد ٢٩ میں ہے اور اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا رد کیا ہے جو عبارت عرس کے عدم جواز پر ہے وہ بدمذہب کی عبارت ہے اور اس کے بعد میں اس کے رد پر جو عبارت ہے وہ حضور اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ہے ۔

عوام عرس سے بزرگان دین کی سالانہ فاتحہ خوانی وغیرہ ہی سمجھتی ہے اور اکثر عرس کا استعمال بزرگان دین ہی کے سالانہ فاتحہ خوانی پر ہی مستعمل ہے اس لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی جانب منسوب مجلس و محافل کو دیگر ناموں سے یاد کرنا ہی بہتر ہے مثلاً ذکر یا محفل وغیرہ اگرچہ عرس کہنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں لیکن عرفا قباحت ہے اس لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف منسوب مجلس کو عرس کہنے سے احتراز کرنا بہتر ہے ۔

ہر سال صالحین کے مزارات کی زیارت کےلیے جانا ، ان کو سلام پیش کرنا اور ان کی تحسین کرنا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت ہے ۔ اور ان کے لیے ایصال ثواب کرنا اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ، اور ہمارے نزدیک عرس منانے کا یہی طریقہ ہے ۔ باقی اب جو لوگوں نے اس میں اپنی طرف سے اضافات کرلیے ہیں ، وہ بزرگان دین کی نذر اور منت مانتے ہیں اور ڈھول ، باجوں گا جوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں ناچتے گاتے ہوئے اوباش لڑکے چادر لے کر جاتے ہیں اور چادر چڑھانے کی بھی منت مانی جاتی ہے اور مزارات پر سجدے کرتے ہیں اور مزار کے قریب میلہ لگایا جاتا ہے اور مزامیر کے ساتھ گانا بجانا ہوتا ہے اور موسیقی کی ریکارڈنگ ہوتی ہے تو یہ تمام امور بدعت سیئہ قبیحہ ہیں۔ علماء اہل سنت و جماعت ان سے بری اور بیزار ہیں ۔ یہ صرف جہلاء کا عمل ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں ۔ عُرس کا مسئلہ قرآن و حدیث ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء صالحین کے عمل سے واضح ہو چکا ہے اور ہماری مُراد بھی وہی عُرس ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے مطابق منائے جاتے ہیں ۔ ہاں غیرشرعی اُمور تو وہ ہر جگہ ناجائز ہیں اور یہ ناجائز کام عُرس کے علاوہ بھی ہوں تو ناجائز ہیں اور شریعت کے احکام کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان انہیں جائز نہیں کہہ سکتا ، ان خُرافات سے دور رہنا چاہیے اور حتّی المقدور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس سے بچانا چاہیے ۔

کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ ذبح کرتے وقت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لیکر ذبح کیا جائے ۔ کیونکہ اگر ذبح کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہوجائے گا لیکن کوئی مسلمان اس طرح نہیں کرتا ، ہمارے یہاں لوگ عموماً جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے یا گائے ہے جسے بعد میں اس موقع پر ذبح کردیاجاتا ہے، اورذبح کے وقت اس پر اللّٰہ تعالیٰ کا نام ہی لیا جاتا ہے اور اس ذبح سے مقصود اس بزرگ کے لئے ایصالِ ثواب ہی ہوتا ہے اس میں حرج نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...