Tuesday 26 March 2024

بیوی کے پستان چوسنے اور دودھ پی لینے کا شرعی حکم

0 comments
بیوی کے پستان چوسنے اور دودھ پی لینے کا شرعی حکم
محترم قارئینِ کرام : ایک محترم نے واٹس آپ پہ سوال کیا کہ اگر بیوی کا پستان چوسا اور دودھ بھی پی لیا تو کیا حکم ؟ ۔ اس مسئلہ کے جواب سے پہلے مسئلہ رضاعت کو سمجھنا ضروری کیونکہ لڑکے کا نکاح رضاعی (دودھ شریک) بہن یا اُس کی کسی بہن سے نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ وہ سب رضاعی ماں کی لڑکیاں ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے : رضاعت سے وہ کچھ حرام ہو جاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۶۴۵)(صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۴۴۷)

رضاعت کی ایک دوسری صورت بھی ہے وہ یہ کہ : ایک عورت اپنے لڑکے کے ساتھ کسی دوسری لڑکی کو دودھ پلائے تو ان دونوں کے درمیان رضاعت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ ان کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح لڑکی کا نکاح لڑکے کے کسی بھائی کے ساتھ نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ وہ سب اس کے رضاعی بھائی ہوئے ۔ لیکن لڑکے کا نکاح لڑکی کی کسی بہن سے ہو سکتا ہے ۔ اس لیے کہ اس کا لڑکی کی کسی بہن سے رضاعت کا رشتہ نہیں ہے ۔

رضاعت کا لغوی معنیٰ : ⏬

علامہ زین الدین ابن نجیم الحنفی کے بقول : لغت میں رِضَاع اور رَضَاع دونوں مستعمل ہیں ، اور ان کا معنیٰ ہے ’’عورت کا پستان چوسنا‘‘ ۔

رضاعت کا شرعی و اصطلاحی معنیٰ : ⏬

عورت کے پستان سے مدتِ رضاعت میں بچے کے پیٹ میں دودھ پہنچنا ، خواہ بچہ خود منہ کے ذریعے دودھ چوسے یا کسی اور طریقے سے اس کے پیٹ میں پہنچایا جائے ۔ (ابن نجيم البحرالرائق جلد 3 صفحہ 237 دارالمعرفة بيروت لبنان)

رضاعت کے ثبوت کےلیے مختلف طریقے اور صورتیں ہو سکتی ہیں : مدت رضاعت میں بچہ خود دودھ چوسے ۔ بچے کے حلق میں دودھ ٹپکایا جائے
ناک کے راستے پیٹ میں دودھ پہنچایا جائے ۔
مذکورہ بالا طریقوں یا کسی اور عمل کے ذریعے عورت کا دودھ مدت رضاعت کے اندر بچے کے پیٹ میں جانے سے رضاعت ثابت ہو جائے گی ۔

ثبوتِ رضاعت کی مدت  قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 233)
ترجمہ : اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں۔

اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ ۔ (سورہ لقمان آیت نمبر 14)
ترجمہ : اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے حمل اور رضاعت کی مدت کو اکٹھا بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۔ (سورہ الاحقاف آیت نمبر 15)
ترجمہ : اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانہ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے ۔

حدیث مبارکہ میں ہے : عن سلمة قالت رسول الله صلی الله عليه وآلہ وسلم لا يحرم من الرضاعة إلا ما فتق الأمعاء في الثدي وكان قبل الفطام ۔ 
ترجمہ : حرمت صرف اُس رضاعت سے ثابت ہوتی ہے ، جس سے میں بچے کی آنتیں صرف پستانوں کے دودھ سے کھلیں ، اور یہ دودھ چھڑانے کی مدت سے قبل ہو ۔ (سنن ترمذی كتاب الرضاع جلد 3 صفحہ 458 رقم : 1152 دار احياء التراث العربي بيروت،چشتی)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے : لا رضاعة إلا ما كان في الحولين ۔
ترجمہ : رضاعت وہ ہے جو دو (2) سال کے اندر ہو۔ (یعنی جس سے خون اورگوشت بنے۔) ۔ (موطأ امام مالک كتاب الرضاع جلد 2 صفحہ 607 رقم : 1267 دار إحياء التراث العربي، مصر)

اس سلسلہ میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ : جاء رجل إلى عمر بن الخطاب فقال إني كانت لي وليدة وكنت أطؤها فعمدت امرأتي إليها فأرضعتها فدخلت عليها فقالت دونك فقد والله أرضعتها فقال عمر أوجعها وأت جاريتك فإنما الرضاعة رضاعة الصغير ۔
ترجمہ : ایک شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگا : میری ایک لونڈی تھی جس سے میں ہم بستر ہوتا تھا ، اب میری بیوی نے اسے دودھ پلادیا ہے ۔ میں جب اس کے پاس جانے لگا ، تو میری بیوی نے مجھے بتایا کہ اس سے دور رہو ، اللہ کی قسم میں نے اسے دودھ پلا دیا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : بیوی کو سزا دو اور اپنی لونڈی کے پاس جاؤ ، اس لیے کہ رضاعت تو بچپن میں ہوتی ہے ۔ (موطأ امام مالک كتاب الرضاع جلد 2 صفحہ 606 رقم : 1266)

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک رضاعت کی مدت تیس ماہ ہے، ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیتِ مبارکہ ہے : وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۔ (سورہ الاحقاف آیت ننبر 15)
ترجمہ : اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانہ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے ۔
صاحبین (امام ابویوسف اور امام محمد) کے نزدیک مدتِ رضاعت دو سال ہے ۔ امام شافعی کا بھی یہی موقف ہے۔ صاحبین اور امام شافعی کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ ہے : وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 233)
ترجمہ : اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے : عن ابن عباس قال کان يقول لا رضاع بعد حولين کاملين ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے پورے دو سال کے بعد رضاعت نہیں ۔ (دار قطني، السنن، 4: 173، رقم: 9، دارالمعرفة، بيروت،چشتی)(بيهقي، السنن الکبریٰ، 7: 458، رقم: 15423، مکتبه دارالباز، مکة المکرمة)

امام مالک رضی اللہ عنہ کے نزدیک دو سال سے اوپر ایک یا دو ماہ کے اضافے میں بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی ۔

علامہ ابوبکر علاؤالدین الکاسانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : قال ابو حنيفة ثلاثون شهراً و لايحرم بعد ذٰلک سوء فطم او لم يفطم و قال ابويوسف و محمد حولان لايحرم بعد ذٰلک فطم او لم يفطم و هو قول الشافعی ۔
ترجمہ : امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک مدتِ رضاعت تیس مہینے ہے ، اس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی چاہے بچے کا دودھ چھڑایا گیا ہو یا نہ چھڑایا گیا ہو ۔ امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک یہ مدت دو سال ہے ، اس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی چاہے دودھ چھڑایا گیا ہو یا نہ چھڑایا گیا ہو ۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ (بدائع اصنائع جلد 4 صفحہ 6 دارالکتاب العربی بيروت)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ دو سے اڑھائی سال کے دوران کسی عورت کا دودھ بچے کے پیٹ میں جانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے ۔ جمہور آئمہ کے نزدیک مدت رضاعت دو سال ، جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک احتیاطاً اڑھائی سال ہے ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ کا مٶقف احتیاط کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے ۔ اس لیے ہمارے نزدیک بھی مدت رضاعت اڑھائی سال ہے ۔

اگر عورت زیادہ دودھ والی ہو اور خوف ہو کہ پستان چوسنے سے دودھ اس کے حلق میں چلا جائے گا تو ایسا کرنا ، مکروہ ہے اور اگر اس نے ایسا کیا اور دودھ منہ میں چلا گیا تو اس پر لازم ہے کہ اس کو نہ پیے ، اگر پی لیا تو گناہ گار ہو گا کیونکہ اس کا پینا حرام ہے البتہ اس سے نکاح پر اثر نہیں پڑے گا ۔ ہاں اگر ایسا نہیں ہے یعنی یا تو دودھ کم ہے جس کا حلق میں جانے کا خوف نہیں یا دودھ ہے ہی نہیں تو پھر حرج نہیں ۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے بوقتِ صحبت بیوی کے رخسار اور پستان کا بوسہ لینے ، پستان کو منہ میں لینے ، دبانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواباً آپ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : یجوز للرجل التمتع بعرسہ کیف ماشاء من رأسھا الٰی قدمھا الامانھی ﷲ تعالٰی عنہ، وکل ما ذکر فی السؤال لانھی عنہ، اما التقبیل فمسنون مستحب یؤجر علیہ ان کان بنیۃ صالحۃ واما مص ثدیھا فکذٰلک ان لم تکن ذات لبن، وان کانت واحترس من دخول اللبن حلقہ فلا باس بہ، وان شرب شیئا منہ قصداً فھو حرام وان کانت غزیرۃ اللبن وخشی ان لومص ثدیھا یدخل اللبن فی حلقہ فالمص مکروہ قال صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ومن رتع حول الحمٰی اوشک ان یقع فیہ ۔
ترجمہ : مرد کےلیے جائز ہے کہ اپنی بیوی کے سر سے لے کر پاؤں تک جیسے چاہے لطف اندوز ہو سوائے اس کے جس سے اللہ تعالیٰ  نے منع فرمایا ہے ، اور سوال میں مذکور امور میں سے کسی سے منع نہیں کیا گیا ۔ بوسہ تومسنون و مستحب ہے اور اگر بنیتِ صالحہ ہو تو باعثِ اجر و ثواب ہے ۔ رہا پستان کو منہ میں دبانا ، تو اس کا حکم بھی ایسا ہی ہے جبکہ بیوی دودھ والی نہ ہو اور اگر وہ دودھ والی ہے اور مرد اس بات کا لحاظ رکھے کہ دودھ کا کوئی قطرہ اس کے حلق میں داخل نہ ہونے پائے تو بھی حرج نہیں ، اور اگر اس دودھ میں سے جان بوجھ کر کچھ پیا تو یہ پینا حرام ہے ۔ اور اگر وہ زیادہ دودھ والی ہے اور اسے ڈر ہے کہ پستان منہ میں لے گا تودودھ حلق میں داخل ہو گا تو اس صورت میں پستان کو منہ میں لینا مکروہ ہے ۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو (ممنوعہ) چراگاہ کے ارد گرد (جانور) چرائے تو قریب ہے کہ وہ (جانور) چراگاہ  میں جا پڑے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 12 صفحہ 267 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

شوہر نے اپنی عورت کا دودھ پی لیا تو نکاح نہیں ٹوٹےگا مگر بیوی کا دودھ پینا حرام ضرور ہے ۔ ہاں چھاتی کو اس طرح چوسے کہ دودھ حلق سے نیچے نہ اترے تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ اجر پائےگا ۔ ہاں شوہر صغیر ہو اور مدتِ رضاعت میں دودھ پلا دیا تو اب وہ عورت اپنے صغیر شوہر پر حرام ہوجائیگی کہ رضاعت ثابت ہوگئی ۔ ردالمحتارمیں ہے : مص رجل ثدی زوجتہ لم تحرم ۔ (درمختار جلد 4 صفحہ 421 الرضاع ھ۱،چشتی)۔( وھکذا فتاوی رضویہ شریف جلد 23 صفحہ 377)۔(بہارشریعت جلد ٢ حصّہ ٧ صفحہ ٤٢)

شوہر کےلیے اپنی بیوی کا دودھ پینا جائز نہیں ہے کیوں کہ بیوی کا دودھ اس کے بدن کا جزء ہے ، اور  انسان کے تمام اعضاء مکرم ہیں ، لہٰذا انسانی اعضاء و اجزاء کی عظمت اور اکرام کی وجہ سے شرعاً بلاضرورت ان کا استعمال اور ان سے انتفاع ناجائز اور  حرام ہے ، چنانچہ بچے کی شیر خوارگی کے زمانہ میں ضرورتاً بچے کےلیے تو ماں کا دودھ پینے کی اجازت ہے ، البتہ شیر خوارگی (دو سال) کی عمر گزرنے کے بعد بچے کےلیے بھی اپنی ماں کا دودھ پینا جائز نہیں ہے ، اسی طرح شوہر کےلیے بھی بیوی سمیت کسی بھی عورت کا دودھ پینا جائز نہیں ہے ۔ اگر شوہر نے پستان منہ میں لیے تھے اور دودھ اتر آیا تو اسے دودھ پینا نہیں چاہیے تھا ، اب اگر بیوی کا دودھ پی لیا ہے تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، البتہ توبہ و استغفار کرنا لازم ہوگا ۔ فتاوی شامی میں ہے : (مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة ، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى ۔۔۔ لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية ۔ (كتاب الرضاع جلد 3 صفحہ 209/210/211 مطبوعہ ايچ ايم سعيد،چشتی)

مرد اپنی بیوی دودھ پی جاۓ تو اسکی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی اور نہ نکاح میں کوئی خلل پیدا ہوگا ۔ درمختار مع شامی جلد دوم صفحہ 414میں ہے : مص رجل ثدی زوجتہ لم تحرما ۔ لیکن بیوی کا دودھ پینا گناہ ہے اگر کوئی پی لے تو چاہیے کہ توبہ کرے ۔ اور اگر دھوکہ سے منہ میں چلا جائے تو باہر نکال دیں ۔ (فتاوی فیض الرسول کتاب الرضاعت)

مرد اپنی بیوی کا دودھ پی جاٸے تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوتی اور نہ نکاح میں کوئی خلل پیدا ہوتا ہے ۔ درمختار مع شامی جلد دوم صفحہ 414 باب الرضاع میں ہے : مص رجل ثدی زوجتہ لم تحرم اھ ۔
لیکن بیوی کا دودھ پینا گناہ ہے ۔ لہٰذا دودھ پینے والا توبہ کرے ۔ حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مدت رضاعت ڈھائی سال ہے اس مدت کے بعد اگر کسی عورت کا دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اگرچہ دودھ پینا  ناجائز ہے مگر نکاح نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد اول صفہ731)

حدیث شریف میں ہے : الرضاعة من المجاعة ۔ بخاری شریف باب من قال لا رضاع بعد حولین صفحہ 764 و ایضا کتاب الشھادات مسلم شریف ۔ اور امام ترمذی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں : قالت قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لا یحرم من الرضاع الا فتق الامعافی الثدی وکان قبل العظام ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہی دودھ پلانا  نکاح کو حرام کرتا ہے جو آنتوں کو پھاڑ کر عورت کے پستان سے آیا ہو اور یہ بات دودھ چھڑانے سے پہلے ہوتی ہے ۔ (مشکوة المصابیح صفحہ 274 مشکوة شریف مترجم جلد دوم صفحہ 85)

لہٰذا ایام رضاعت کے علاوہ دودھ پینے سے نہ رضاعت ثابت ہوتی ہے اور نہ نکاح ٹوٹتا ہے مگر گناہ ہے توبہ کرنا ہوگا ۔ اور اگر غلطی سے چلا گیا تو کوئی مواخذہ نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔