Thursday 31 January 2019

انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی

0 comments
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی

محترم قارئین : جب فریقِ مخالف کے پاس جواب نہیں ہوتا تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی طرح اندھے مسلکی تعصب میں مبتلا ہو کر رضا خانی بریلوی بریلوی کا شور کرتے ہیں اگر کبھی آپ کو کوئی "رضا خانی یا بریلوی ' کہہ کر طعنہ دے تو ان کو یہ مضمون بھیجیں اور کسی مناظرہ میں ان کا منہ بند کرنے کےلیئے اپنے پاس محفوظ بھی رکھیں دیوبندی اورغیرمقلد وہابیوں اکابرین کے یہ اعترافات اِن کےلیئے کافی ہیں :

ملاحظہ ہو اصاغرینِ دیوبند اور تمام جماعت دیوبند و وہابی وغیرھم کیا کہتے ہیں

تمام جماعت دیوبند اور مولوی انور کاشمیری محدث دیوبند

سابق ریاست بہاولپور (پاکستان) میں ایک مسلمان عورت کا شوہر مرزائی ہوگیا تھا۔ اس پر عورت نے عدالت میں شوہر کے اتداد کی وجہ سے فسخ نکاح کی درخواست دی۔ مقدمہ دائر ہوا اور اس میں حضرت مولانا انور شاہ صاحب سابق صدر مدرس و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی شہادت کے دوران مرزائی وکیل نے فتویٰ تکفیر کو بے اصل ثابت کرنے کے لئے کہا دیوبندی بریلویوں کو اور بریلوی دیوبندیوں کو کافر کہتے ہیں۔ اس پر حضرت انور شاہ صاحب نے فورا عدالت کو مخاطب کرکے فرمایا۔ میں بطور وکیل تمام جماعت دیوبند کی جانب سے گزارش کرتا ہوں کہ حضرات (علماء) دیوبند بریلوی حضرات کی تکفیر نہیں کرتے ۔ (کتاب حیات انور ص 333، روزنامہ نوائے وقت لاہور، 8 جنوری 1976ء مضمون ’’وقت کی پکار‘‘ قسط نمبر 2 از مولوی بہاء الحق قاسمی دیوبندی امرتسری)
میں بطور وکیل تمام جماعت دیوبند یہ کہتا ہوں علمائے دیوبند بریلویوں کی تکفیر نہیں کرتے یعنی کافر نہیں کہتے ۔ (ملفوظات محدث کشمیری صفحہ نمبر 61 ، 62)
معلوم ہوا کہ تمام دیوبندی جماعت اور ان کے محدث انور کاشمیری بریلویوں کو مسلمان سمجھتے ہیں اس لئے ان کی تکفیر نہیں کرتے ۔ جب عام سنی بریلوی ان کے نزدیک مسلمان ہیں تو انکے امام بدرجہ اتم مسلمان ہوئے ۔

مولوی اشرف علی تھانوی

حضرت والا (اشرف علی تھانوی) کا مذاج باوجود احتیاط فی المسلک کے اس قدر وسیع اور حسن ظن لئے ہوئے ہے کہ مولوی احمد رضا خان بریلوی کے بھی برا بھلا کہنے والوں کے جواب میں دیر دیر تک حمایت فرمایا کرتے ہیں اور شدومد کے ساتھ رد فرمایا کرتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ان کی مخالفت کا سبب واقعی حب رسول ہی ہو اور وہ غلط فہمی سے ہم لوگوں کونعوذ باﷲ گستاخ سمجھتے ہوں ۔ (اشرف السوانح جلد اول، ص 129)

تھانوی کی تمنائے اقتداء

مولوی بہاء الحق قاسمی دیوبندی امرتسری لکھتے ہیں حضرت (اشرف علی تھانوی) فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھ کو مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو میں پڑھ لیتا ۔ (اسوۂ اکابر، ص 15، چٹان لاہور 11 جنوری1962)

عشق رسولِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے باعث احترام

ان (مولوی اشرف علی) کے اخلاق کی عظمت و شرافت کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ مولانا احمد رضا بریلوی زندگی بھر انہیں کافر کہتے رہے۔ مولانا تھانوی نے فرمایا میرے دل میں احمد رضا کے لئے بے حد احترام ہے، وہ ہمیں کافر کہتے ہے لیکن عشق رسول کی بناء پر کہتا ہے کسی اور غرض سے تو نہیں کہتا ۔ (دیوبندی، ہفت روزہ چٹان لاہور 23 اپریل1963)

جواز نماز

ایک شخص نے (اشرف علی تھانوی) سے پوچھا ہم بریلی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ فرمایا ہاں (ہوجائے گی) ہم ان کو کافر نہیں کہتے۔ اگرچہ وہ ہمیں کافر کہتے ہیں ۔ (قصص الاکابر، ملفوظات مولوی اشرف علی تھانوی ص 99، مجالس الحکمۃ معروف بہ اربعین مصطفائی مجلس پنجاہ و دوم ص 150)
ایک سلسلہ گفتگو میں (اشرف علی تھانوی) نے فرمایا کہ دیوبند کا بڑا جلسہ ہوا تھا ۔ اس میں ایک رئیس صاحب نے کوشش کی تھی کہ دیوبندیوں میں اور بریلویوں میں صلح ہوجائے، میںنے کہا وہ نماز پڑھاتے ہیں ہم پڑھ لیتے ہیں۔ ہم پڑھاتے ہیں وہ نہیں پڑھتے تو ان کو آمادہ کرو (الاضافات الیومیہ جلد5، ص 220،چشتی)

دعائے مغفرت

حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانوی صاحب کا قول ہے کہ کسی بریلوی کو کافر نہ کہو اور نہ آپ نے کسی بریلوی کو کافر کہا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ حکیم الامت تھانوی ایک بڑے جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ ابھی آپ نے تقریر شروع کی تھی کہ خبر ملی کہ مولوی احمد رضا بریلوی انتقال کرگئے تو اسی وقت آپ نے تقریر کو ختم کردیا اور غمزدہ ہوکر ارشاد فرمایا کہ مولوی احمد رضا خان صاحب سے ہمارا زندگی میں اختلاف رہا لیکن ہم ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔اسی وقت حکیم الامت تھانوی صاحب نے خود اور اہل جلسہ نے آپ کے ساتھ مولوی احمد رضا کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ۔ (دیوبندی ہفت روزہ چٹان لاہور، ص 15)

دیوبندیوں کے زبردست عالم و فقیہہ ترجمان ندوہ کا اعتراف

ندوی مکتب فکر کے ترجمان ماہنامہ ’’معارف اعظم گڑھ‘‘ نے لکھا ہے۔ مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب مرحوم اپنے وقت کے زبردست عالم، مصنف اور فقیہہ تھے۔ انہوں نے چھوٹے بڑے سینکڑوں فقہی مسائل سے متعلق رسالے لکھے ہیں۔ قرآن کا سلیس ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان علمی کارناموں کے ساتھ ہزار فتوئوں کے جواب بھی انہوں نے دیئے ہیں۔ ان کے بعض فتوے تو کئی کئی صفحات کے ہیں۔ فقہ اور حدیث پر ان کی نظر بڑی وسیع ہے۔ فتاویٰ رضویہ کی دو جلدیں اس سے پہلے شائع ہوچکی ہیں ۔ اب تیسری جلد سنی دارالاشاعت مبارکپور اعظم گڑھ نے شائع کی ہے ۔ (ماہنامہ معارف اعظم فروری 1962)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبندی

مولوی احمد رضا خان بریلوی اور مولوی حشمت علی وغیرہ کو کافر نہ کہا جائے ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند امداد المفتن، ج 7،ص 192)

مولوی شبیر احمد دیوبندی

ہم ان بریلویوں کو کافر نہیں کہتے جو کو ہم کافر بتلاتے ہیں ۔ (الشہاب از مولوی شبیر احمد عثمانی دیوبندی صدر جمعیت العلماء اسلام کلکتہ)

دیوبندی احراری امیر شریعت

مولوی عطاء اﷲ بخاری امیر مجلس احرار اسلام فقیر کے مکتوب کے جواب میں لکھتے ہیں۔ مولانا ابوالفضل محمد سردار احمد خان لائل پوری بریلوی ، مولانا ابوالبرکات سید احمد قادری بریلوی لاہوری اور مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری سنی صحیح العقیدہ مسلمان ہیں اور مولانا غلام اﷲ خان دیوبندی بھی اہل سنت و جماعت ہیں وہ ابن تیمیہ کے پیروکار ہیں ۔ (مکتوب بنام فقیر محمد حسن علی رضوی، 11 جنوری 1958)

مولوی فردوس علی قصوری دیوبندی

یہ صاحب مولوی منظور سنبھلی مدیر الفرقان اور مولوی مرتضیٰ حسن دربھنگی چاند پوری وغیرہ دیوبندی مناظرین و مصنفین کی کتابوں کے حافظ ہیں اور خود بھی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اور سنیت اور بریلویت کے خلاف لکھنے کا ذوق رکھتے ہیں مگر یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ: مولوی احمد رضا بریلوی اور مولوی حشمت علی وغیرہ (بریلوی علماء) کو کافر نہ کہا جائے ۔ (کتاب الصلوٰۃ والسلام، صفحہ نمبر 6)

دیوبندی ہفت روزہ خدام الدین لاہور

مولوی حسین احمد ٹانڈوی شیخ الحدیث دیوبند کے پاکستانی نائب مولوی احمد علی لاہوری کے جاری کردہ رسالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور میں مختلف کتابوں کے اعلان کے ساتھ لکھا ہے۔ اشرفی بہشتی زیور مولانا اشرفعلی تھانوی 15 روپے، فتاویٰ رضویہ مولانا امام احمد رضا خان بریلوی 17 روپئے ۔ (خدام الدین لاہور 17اگست، 7 ستمبر 1962،چشتی)

مولوی محمد احسن نانوتوی

مولوی محمد احسن نانوتوی دیوبندی کا شمار مدرسہ دیوبند کے بانیوں و اکابرین میں ہوتا ہے۔ وہ بریلی شریف نو محلہ کی جامع مسجد میں بھی رہے ہیں۔ ان کی سوانح حیات میںلکھا ہے۔ مولانا محمد احسن نے (سیدنا امام اعلیٰ حضرت احمد رضا خان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد ماجد) مولوی نقی علی خان کو عیدگاہ (بریلوی) سے پیغام بھجوایا کہ میں نماز پڑھنے کوآیا ہوں، پڑھانے نہیں آیا۔ آپ آیئے جسے چاہے امام کرلیجئے، میں اس کی اقتداء کرلوں گا ۔ (کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی صفحہ نمبر 87)

مولوی رشید احمد گنگوہی

اگر بدعتی امام کے پیچھے جمعہ پڑھا تو اس کا اعادہ کرے یا نہیں ؟

جواب : اگر بدعتی امام کے پیچھے جمعہ پڑھا ہو تو اعادہ نہ کرے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ کامل صفحہ نمبر 65)

مولوی بہاء الحق قاسمی

حضرت (اشرفعلی) تھانوی فرمایا کرتے تھے۔ اگر مجھ کو مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو میں پڑھ لیتا ۔ (اسوۂ براکابر صفحہ نمبر 15،چشتی)

مولوی خیر محمد جالندھری و مدرسہ خیر المدارس ملتان پاکستان

مولوی خیر محمد جالندھری دیوبندی مولوی یسٰین سرائے خام بریلی کے شاگرد اور مولوی اشرف علی تھانوی کے خلیفہ اعظم اور پاکستانی دیوبندیوں کے استاذ العلماء ہیں۔ ان کا مدرسہ دیوبندثانی وہ اپنے نام ایک استفتاء کا جواب اپنے مدرسہ کے دارالافتاء کے مفتی سے یوں دلواتے ہیں ۔ ملاحظہ ہوں سوال و جواب ۔
بخدمت حضرت مولانا مولوی خیر محمدصاحب مہتمم مدرسہ خیر المدارس، ملتان

استفتاء : کیا فرماتے ہیں حضرات علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ نماز جنازہ کی امامت مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کا پیروکار بریلوی مولوی کروا رہا ہو تو اس صورت میں اس بریلوی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ فقط المنتظر جواب محمد بشیر میلسی ۔

الجواب : ایسی صورت پیش آجائے تو نماز پڑھ لینا چاہئے ۔ فقط وﷲ اعلم بندہ عبدالستار نائب مفتی مدرسہ خیر المدارس ملتان ۔
الجواب صحیح ، عبداﷲ غفرلہ مفتی مدرسہ خیر المدارس

مولوی فضل الرّحمٰن کے باپ مفتی محمود دیوبندی , یہ صاحب مولوی حسین احمد ٹانڈوی کے تلامذہ میں ان کے سیاسی مقلد اور جمعیۃ العلماء ہند کانگریسی ذہن رکھتے تھے ۔ پاکستان سیاسی کاروبار کرنے کے لئے مولوی شبیر احمد عثمانی جمعیۃ العلماء اسلام کانام سرقہ کرکے جمعیۃ العلماء اسلام کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے ۔ مدرسہ قاسم العلوم کے شیخ الحدیث بھی تھے ان کے شاگرد عمر قریشی کی زبانی سنئے ۔
لائق صد احترام اساتذہ میں سے کسی نے بھی دوران اسباق میں بریلوی مکتب فکر سے نفرت کا اظہار نہیں کیا ۔ قیام ملتان کے زمانہ میں جب طلباء مدرسہ قاسم العلوم بعد نماز عصر قلعہ پر چلے جاتے تھے ۔ نماز مغرب کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ قلعہ کی جملہ مساجد کے ائمہ بدعتی (بریلوی) ہیں، نماز باجماعت ترک کردی جائے۔ معاملہ استاذی مفتی محمود صاحب کے پاس پہنچا ۔ آپ نے فرمایا باجماعت نماز ادا کرو ۔ اگرچہ امام بدعتی بھی ہو ۔ (سیف حقانی برد ارشد القادری ہندوستانی ص 178، از مولوی محمد عمر قریشی دیوبندی ملتانی)

دیوبندی ترجمان ہفت روزہ پاکستانی

’’پاکستانی‘‘ لائل پور پاکستان سے شائع ہوتا تھا اور اس کو قاری طیب قاسمی سابق مہتمم مدرسہ دیوبند کی تائید و حمایت حاصل تھی۔ سیدنا اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت فاضل بریلوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور نائب اعلیٰ حضرت مظہر اعلیٰ حضرت صدر الشریعہ سیدی و سندی محدث اعظم پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد خان قدس سرہ العزیز کے خلاف معاندانہ مضامین شائع کرنا اس کا خاص نصب العین تھا مگر یہ اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں تھا کہ’’پاکستان‘‘ نے بریلوی جماعت کو مسلمان سمجھا اور اس کے بانی اور بزرگوں کا ادب سے نام لیتے ہوئے اس طرح لکھا مولانا احمد رضا خان صاحب مرحوم جناب الٰہی سے رحم کئے گئے ۔ (ہفت روزہ پاکستانی لائلپور 22-6-57، 10-1-58،چشتی)

مولوی غلام غوث ہزاروی دیوبندی

اہل سنت و جماعت مسلمانوں کی تمام شاخیں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث سب مسلمان ہیں ۔ (خدام الدین لاہور)

دیوبندی پیر حماد ﷲ ہالیجوی

کہتے تھے ان (بریلویوں) کی برائی میری مجلس میں ہرگز نہ کرو وہ حُبّ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کی وجہ سے ہماری طرف سے غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ (خدام الدین لاہور)

اخبار الاعتصام اہل حدیث

بریلویوں کا ذبیحہ حلال ہے کیونکہ وہ اہل قبلہ مسلمان ہیں ۔ (اہلحدیث لائلپور 20-11-1959)

پیشوائے اعظم اہل حدیث

مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں 80 سال قبل پہلے قریبا سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو آج کل بریلوی حنفی کہا جاتا ہے ۔ (شمع توحید، ص 40، مطبوعہ سرگودھا)

فرضیت تکفیر پر مرتضیٰ حسن دربھنگی کا فراخدلانہ اعتراف

اگر مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کے نزدیک بعض علماء دیوبند مولانا قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد انبیٹھوی، اشرف علی تھانوی ایسے ہی تھے جیسا کہ انہوں نے انہیں سمجھا تو خان صاحب پران (علماء دیوبند) کی تکفیر فرض تھی، وہ اگر ان کو کافر نہ کہتے تو خود کافر ہوجاتے۔ جیسا کہ علمائے اسلام نے جب مرزا (غلام احمد) صاحب کے عقائد کفریہ معلوم کرلئے اور وہ قطعا ثابت ہوگئے تو اب علمائے اسلام پر مرزا صاحب اور مرزائیوں کو کافر و مرتد کہنا فرض ہوگیا۔ اگر وہ مرزا اور مرزائیوں کو کافر نہ کہیں، چاہے وہ صاحب لاہوری ہوں یا قادیانی وغیرہ تو وہ خود کافر ہوجائیں گے کیونکہ جو کافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے ۔ (اشد العذاب ص 13، مرتضیٰ حسن دربھنگی)

مفتی اعظم مدرسہ دیوبند مفتی

سوال ۱۸۷,
احمد رضا خان بریلوی کے معتقد سے کسی اہل سنت حنفی کو اپنی لڑکی کا نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب : نکاح تو ہوجائے گا کہ آخر وہ (سنی بریلوی امام احمد رضا کے معتقد) بھی مسلمان ہے اگرچہ مبتدی ہے ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند مصدقہ قاری محمد طیب مہتمم مدرسہ دیوبندی و مفتی ظفیر الدین دیوبندی جلد ہفتم ص 158)
مفتی اعظم دیوبند
سوال 1050
جوشخص علم غیب کا قائل ہو اور امام احمد رضا خان سے عقیدت رکھتا ہو ، یا مرید ہو ، اس کے پیچھے نماز جائز ہے ، یا نہیں ؟
الجواب : وہ شخص مبتدی ہے … اگر اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے فتنہ کا اندیشہ ہو یا جماعت فوت ہوتی ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھے جیسا کہ در مختار میں ہے …الخ ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند جلد ثالث ص 280، حسب ہدایت وزیر نگرانی قاری محمد طیب مہتمم دیوبند صفحہ نمبر 280)

مذکورہ بالا ناقابل تردید دلائل ، حقائق و شواہد سے ثابت ہوا کہ سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اور تمام سنی بریلوی مسلمانوں کے عقائد ہرگز ہرگز کفروشرک و ارتداد پر مبنی نہیں ہیں ۔ اگر آپ یا آپ کے عقیدت مند سنی بریلوی علماء کے عقائد خلاف اسلام معلوم ہوتے اور کفروشرک پر مبنی ہوتے تو مذکورہ بالا حضرات آپ کو ہرگز مسلمان نہ لکھتے اور نہ کہتے نیز آپ کی اقتداء میں نمازیں جائز قرار نہ دیتے ۔ ان حوالہ جات سےسیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے ایمان و اسلام ، علم و فضل ، ادب و عشق رسالت کی شہادت ملتی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

او بریلی او مزارات پہ جانے والے آلِ نجد کی نظم کا جواب

0 comments
او بریلی او مزارات پہ جانے والے آلِ نجد کی نظم کا جواب

محترم قارئین : بہت سے احباب نے نجدی کے پیروکاروں کی یہ نظم فقیر کو بھیجی اور بار بار اسرار کیا کہ اس کا جواب دیں مصروفیات کی وجہ سے تاخیر ہوتی رہی آج اُن احباب کی فرمائش پر " جواب آں غزل " پیش خدمت ہے پڑھیئے !! ⇩⇩





فتنہ اٹھے ہے کس طرح اٹھ کے ذرا دکھا کہ یوں

0 comments
فتنہ اٹھے ہے کس طرح اٹھ کے ذرا دکھا کہ یوں


محترم قارئین : مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر جن لوگوں کو نماز طہارت کے بھی مسائل نہیں آتے وہ بھی اپنے آپ کو علامہ بلکہ مناظر سمجھ کر چیلنج کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے بڑے بھی علمائے اہلسنت و جماعت حضرات کے نام سن کر کاپتے اور ڈرتے تھے اور ڈرتے ہیں ، ایسا ہی ایک جاہل نے بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی پاگل خانے سے بھاگ کر آیا ہو ، اور اسی لئے اس نے بغیر سوچے پاگل پن کی وجہ سے اہلسنت و جماعت کو چیلنج کر دیا بےشک قرآن مجید ہدایت اور نور ہے ، قرآن مجید کی ہدایت اور نور اسے ہی حاصل ہو سکتا ہے جو محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نگاہ سے قرآن کی آیتوں کے معنی ، مطلب ، مقصد اور مراد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، آج ہر بدمذہب ہر شخص کو قرآن کی طرف بلا رہا ہے کہ آؤ میرا دین قرآن سے ثابت ہے اسی پرفتن زمانہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم نے دی تھی ، اور ایسے دجّالوں کا ذکر سرکار نے فرمایا تھا : یَدعُونَ الی کِتَابِ اللہ ، وہ گمراہ گروہ ہر ایک کو قرآن کی طرف بلائے گا ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب السنہ، باب فی قتال الخوارج، حدیث ٤٧٦،جلد٤،صفحہ ٣٢٠)

فتنہ اٹھے ہے کس طرح اٹھ کے ذرا دکھا کہ یوں
حشر بپا ہو کس طرح چل کے ذرا بتا کہ یوں

محترم قارئین : اگر کوئی شخص حقیقی اور مجازی یعنی ذاتی اور عطائی کا فرق سمجھے بغیر قرآن مجید کے ظاہری الفاظ ہی کے معنیٰ اخذ کر کے آیت کا مطلب اور مفہوم سمجھنے کی کوشش کرے گا تو وہ بڑی گڑبڑ کھڑی کر دے گا ، بلکہ ہدایت پانے کے بجائے گمراہ ہوجائے گا ، جیسا کہ دور حاضر کے وہابی ، دیوبندی ، تبلیغی ، اہلحدیث ، غیر مقلد وغیرہ باطل فرقے کے لوگ گمراہ ہوئے ہیں ۔

قرآن مجید کی آیت کا صحیح معنی ، مطلب، مقصد ، اور مراد سمجھنے کے لیئے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ یہ آیت کون سی قسم سے ہے ، کیوں کہ قرآن مجید کی آیت کی کئی قسم ہیں ، مثلاً : آیات محکمات ، آیات متشابہات ، آیات مبہمات ، آیات مقدمات ، آیات مؤخرات ، آیات عامات ، آیات خاصات ، آیات ناسخات ، آیات منسوخات ، آیات مجملات ، آیات مبینات ، آیات مطلقات ، آیات منطوفات ، آیات معطوفات ، وغیرہ وغیرہ ۔

قرآن مجید کی آیت طے کر لینے کے بعد اب یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ یعنی یہ آیت کیوں نازل ہوئی ؟ کب نازل ہوئی ؟ کس کے بارے میں نازل ہوئی ؟ اور یہ سب معلومات حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید کی تفسیر جاننا ضروری ہے ۔

اللہ تعالیٰ اور بندوں کی مشترکہ نسبتوں کے درمیان فرق نکالنے کے لئے اصولی بحث ذہن نشین فرمالیں تاکہ شرک کا وہم رفع ہو اور آیتوں کے مضامین کے درمیان جو بظاہر اختلاف نظر آرہا ہے وہ دور ہو ، کیونکہ دونوں طرح کے مضامین کی آیتیں برحق ہیں اور دونوں پر ہمارا (اہل سنت و جماعت) ایمان ہے ۔

جس طرح اللہ تعالیٰ ذات پاک کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفتوں میں بھی کوئی شریک نہیں ، اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی صفتیں ہیں وہ تمام صفتیں ذاتی ہیں، ذاتی کا مطلب اصلی، حقیقی، نجی، اپنی ہیں عطائی کا مطلب ہوتا ہے "عطا کیا ہوا" یعنی کسی کا دیا ہوا، ہبہ کیا ہوا، اللہ تعالٰی کی ہر صفت اور کمال ذاتی ہیں، عطائی نہیں ۔

اگر ہم ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں کریں گے اور ہر معاملہ کو ذاتی اور حقیقی معنوں پر ہی محمول کریں گے اور توحید نیز شرک کی حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر ہر معاملہ کو صرف حقیقی اور ذاتی صفت کے مطلب ہی میں دیکھیں تو شاید ہی کوئی مومن شرک کے فتوٰی سے بچے گا ، کیونکہ ہم اپنی روزانہ کی گفتگو میں ایسے جملے اور الفاظ عام طور پر بولتے ہیں لیکن ہمارا ان جملوں اور لفظوں کا بولنا اور سننا عطائی اور مجازی معنوں میں ہی ہوتا ہے ، ذاتی اور حقیقی معنوں میں ہرگز نہیں بولتے اگر ہم ان الفاظ اور جملوں کو حقیقی اور ذاتی صفت کے طور پر لیا تو یہ نتیجہ آئے گا اور کہ ہر آدمی کے گلے میں شرک کے فتوے کا تمغہ لٹکانا پڑے گا ، چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

اللہ تعالٰی کی صفات

(1) بیشک اللہ ہی سمیع و بصیر ہے ، (سورہ بنی اسرائیل ١)
ہم نے انسان کو سمیع و بصیر بنایا ہے (سورہ الدہر ٢)

(2) اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے موت کے وقت(زمر ٤١)
تمہیں موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔ (سورہ سجدہ ١٠)

(3) بے شک اللہ تعالٰی انسانوں پر نہایت مہربان بے حد رحم والا ہے ۔ (سورہ البقرہ)
(رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ایمان والوں پر بہت مہربان نہایت رحم فرمانے والے ہیں ۔ (سورہ توبہ/١٢٨)

قرآن مجید میں ان آیت میں اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر فرمایا گیا ہے اور بندوں کو بھی سمیع و بصیر کہا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کو موت دینے والا فرمایا گیا ہے اور فرشتوں کو بھی موت دینے والا فرمایا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کو انسانوں پر نہایت مہربان اور رحم والا فرمایا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بھی نہایت مہربان اور رحم والا فرمایا گیا ہے ۔ کیا قرآن مجید کی آیت آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا سکتی ہے ؟ کیا قرآن مجید کی آیت دوسری آیت کا رد کر سکتی ہے؟ کیا قرآن مجید میں اختلاف پایا جا سکتا ہے ؟

نہیں ہرگز نہیں

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے : لو کان من عندِ غیرِ اللہ لو جدوا فِیہِ اختلافا کثیرًا ۔ (سورہ النساء)

اللہ کی تمام کی تمام صفات اس کی ذاتی صفات ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں ہیں اور اس کی صفات بے شمار ہیں جن کا ہم احاطہ نہیں کر سکتے۔جبکہ مخلوق کی تمام کی تمام صفات اللہ کی عطا کردہ ہیں لہذا ان کو عطائی صفات کہا جاتا ہے ۔ علم ، ارادہ ، کلام ، سننا، دیکھنا وغیرہ وغیرہ کئی صفات ایسی ہیں جو اللہ کے لیے بهی ثابت ہیں ، اور بندوں کے لیے بهی ثابت ہیں لیکن ان میں کئی اعتبار سے فرق ہے اور ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ : اللہ کی یہ صفات ذاتی صفات ہیں اور بندوں کی یہ صفات عطائی صفات ہیں ۔ اب جو کہتا ہے کہ میں اس فرق کو نہیں مانتا اس سے سوال یہ ہے کہ تم اس فرق کو مٹا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تمہیں جو مذکورہ بالا صفات میں سے کچھ حصہ ملا ہے تو کیا یہ اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں ہیں ؟

یقیناً اللہ کی ہی عطا کردہ ہیں لہذا عطائی صفات تو ماننی پڑیں گی ورنہ تم اللہ کی عطا کے منکر ٹهرو گے اور جو اللہ کی عطا کا انکار کرے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔اب کچھ صفات ایسی ہیں جو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو خاص طور پر ملی ہیں مثلاً مردے کو زندہ کرنا، شفا دینا، غیب جاننا، ما فوق الاسباب مدد کرنا، اندهے کو بینا کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ان کو معجزات میں شمار کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ عقل میں نہیں آ سکتی ، اسی طرح اولیاء کرام رحمهم اللہ تعالیٰ کو بہت سی کرامات سے نوازا گیا ہے۔یہ سب اللہ کی عطا سے ہے کوئی اللہ کی عطا کے بغیر ایک ذرہ بهی کسی کو نہیں دے سکتا۔اب جو ان صفات کو اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ ذاتی عطائی کوئی چیز نہیں تو جان لو وہ حقیقت میں اللہ کی عطا ہی کا منکر ہے اور وہ توحید و شرک کا فرق اٹھانا چاہتا ہے اور قرآن کی آیات کا انکار اور احادیث کا انکار کر کے اپنے فاسد نظریات پھیلانا چاہتا ہے ، شرک کی جڑ کاٹنے والا فرق یہی ذاتی عطائی اور حقیقی مجازی کا فرق ہے جو ہر مسلمان کو یاد رکھنا لازمی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات جو صفات عامہ کہلاتی ہیں مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جب ان کا ذکر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گا تو وہ حقیقی معنی میں استعمال ہوں گی اور شان خالقیت و الوہیت کے مطابق ہوں گی اور جب مخلوق کے لئے ہو گا تو ان کا استعمال مجازی اور عطائی معنی میں ہو گا کیونکہ مخلوق میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ اللہ کی صفات سے اصلاً مشابہ نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہیں۔ یہ صفات مخلوق کو اس لیے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ صفات کو جہاں تک ممکن ہو معلوم کرنے میں مدد مل سکے گویا یہ صفات الٰہیہ کی معرفت کا ذریعہ اور واسطہ بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں وہ اس طرح کی ہیں :

(1) صفاتِ حقیقی بمعنی صفات ذاتی

(2) صفات مجازی بمعنی صفات عطائی

(1) اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ۔ ترجمہ : بیشک وہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ (الإسراء، 17 : 1)
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ۔ ترجمہ : پھر ہم اس کو سننے والا اور دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں ۔ (الدهر، 76 : 2)

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے ۔ (البقرة، 2 : 143)
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔ (التوبة، 9 : 128،چشتی)

إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے ۔ (الحج، 22 : 17)
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا. ترجمہ : اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم پر گواہ ہو ۔ (البقرة، 2 : 143)

کَلَّمَ اﷲُ مُوْسٰی تکْلِيْمًا ۔ ترجمہ : اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی ۔ (النساء، 4 : 164) ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے کلام کیا ۔

أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا ۔ ترجمہ : کیا یہ ان (کافروں) کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ کے لئے ہے ۔ (النساء، 4 : 139)
وَِﷲِ الْعِزَّة وَ لِرَسُوْلِه وَ لِلْمُوْمِنِيْنَ ۔ ترجمہ : عزت اللہ کیلئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے ۔ (المنافقون، 63 : 8،چشتی)

أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً ۔ ترجمہ : ساری قوتوں کا مالک اللہ ہے ۔ (البقرة، 2 : 165)

سیدنا سلیمان علیہ السلام کے استفسار پر آپ کے درباریوں نے یہ جواب دیا : نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ ۔ ترجمہ : ہم طاقتور اور سخت جنگجو ہیں ۔ (النمل، 27 : 33)

بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۔ ترجمہ : ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ۔ (آل عمران، 3 : 26)
أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۔ ترجمہ : خبردار ہر چیز کی تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے ۔ (الاعراف، 7 : 54)

وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۔ ترجمہ : جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی ۔ (البقرة، 2 : 269)

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے :

أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ۔ ترجمہ : میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں ۔ (آل عمران، 3 : 49)

اب ہے کوئی وہابی ، دیوبندی ، سلفی ، اہلحدیث ، تبلیغی ، غیر مقلد ، جو ان آیت میں بغیر ذاتی اور عطائی کا فرق کئیے ہوئے ان کا صحیح مطلب و مفاہیم بیان فرما دیں
اب تو یہاں وہابی کو ضرور عطائی اور ذاتی میں فرق کرنا ہوگا اور فرق ماننا ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ کریں گا تو وہابی قرآن مجید کا منکر ٹھہرے گا ۔

الحمداللہ ہم اہل سنت و جماعت قرآن مجید کی تمام قسم کی آیتوں کو حق مانتے ہیں اور ان پر ہمارا ایمان ہے ۔ تفصیل سے ذاتی اور عطائی کی بحث نہیں کر سکتا کیونکہ یہ موضوع بہت تویل ہے ۔ بس فقیر چشتی نے اس نیت سے کہ کوئی مسلمان ان وہابیوں کے مکرو فریب میں نہ آئے اس لئے چند باتیں پیش کی ہیں ۔

نفس مسلہ کو سمجھانے کےلیئے ہم نے چند آیات قرآنی نقل کی ہیں اس طرح کی دیگر بہت سی آیات موجود ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے جو بلا سوچے سمجھے اہل اسلام پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں اور امت مسلمہ میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

علمائے اہل سنت میں اختلاف ہو تو یہ درست نہیں کہ ایک دوسرے فاسق کہیں

0 comments
علمائے اہل سنت میں اختلاف ہو تو یہ درست نہیں کہ ایک دوسرے فاسق کہیں

محترم قارئین : شہزادہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ و نائب حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بات یہ ہے کہ جب کسی مسئلے میں خود علمائے اہل سنت میں اختلاف ہو تو یہ درست نہیں کہ ایک دوسرے فاسق کہیں ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد 1 صفحہ 76)

کیا ہی بہترین کلام فرمایا ہے نائب مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے جس کا صاف و واضح مفہوم یہی ہے کہ جب کسی بھی فقہی مسئلہ میں دونوں طرف علمائے اہل سنت ہوں اور اختلاف ہو جائے تو ہر ایک سنی اپنے اپنے فتوے پر عمل کرے لیکن دوسرے موقف والےکو فاسق نہ کہے ۔

مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کون ہیں یہ بھی ملاحظہ فرما لیں

حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ ہند کے بہت بڑے عالم و مفتی ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اکابرین اہل سنت میں شمار ہوتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد آپ کے فتاوی کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ صاحب بہار شریعت خلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اور شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضاخاں رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زندگی میں ہی قاضی اسلام و مفتی اسلام قرار دیا تھا ۔ ان دونوں بزرگوں سے فیض یافتہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ 14 ماہ تک صاحب بہار شریعت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہ کر فتاوی دیئے اور 11 سال تک آپ نے شہزادہ اعلیٰ حضرت حضورمصطفی رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہ کر فتاوی نویسی کی مشق کی ۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے 50 ہزار فتاوی بریلی شریف میں رہ کر دیئے جن میں سے 20 ہزار پر تصدیق حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کی ہے اسی وجہ سے علامہ صاحب کو نائب مفتی اعظم ہند کہا جاتا ہے ۔

گزارش

ایسا نہیں ہو سکتا کہ فقہی مسائل میں اختلاف ختم ہو جائے ۔ مثلاً ویڈیو کے جائز و ناجائز ہونے کا اختلاف ، لاؤڈ سپیکر پر نماز ہونے یا نہ ہونے کا اختلاف ، مزامیر (Music Instruments) کے ساتھ حمد یا نعت کا جائز ہونا یا نہ ہونا ، سجدہ میں تین انگلیوں کا قبلہ کی طرف کرنے کا واجب ہونا یا نہ ہونا ، سیاہ خضاب کا جائز ہونا یا نہ ہونا ، ایک مشت داڑھی کا واجب ہونا یا نہ ہونا ، وغیرہا ایسے بہت سے مسائل ہیں جن میں علماء اہل سنت کا اختلاف ہے لہٰذا ان مسائل اور ان جیسے دیگر مسائل میں شدت نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جب آپ اپنے مخالف موقف والے سنی علماء پر غیر قطعی مسائل میں فسق و فجور کے فتوے لگائیں گے تو لامحالہ ان مخالف موقف والے سنی علماء کے عقیدت مند جواباً آپ حضرات کے خلاف لکھیں گے بولیں گے ، جس سے ہم سنی آپسی اختلافات میں الجھ کر رہ جائیں گے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے ۔ اس لئے خدارا ہر سنی بھائی اوربہن مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کے اس اصول کو ہر وقت سامنے رکھیں ، آپ کو جس بھی عالم کی تحقیق پسند ہواس پر عمل کیجئے لیکن دوسرے عالم کی تحقیق پر عمل کرنے والوں پر زور زبردستی نہ کریں کے وہ بھی آپ والا موقف اپنائیں ۔ ہاں پیار محبت سے گفتگو کرنے میں حرج نہیں ہر سنی اپنے موقف کی تبلیغ دوسرے سنی سے کر سکتا ہے ۔ لیکن زبردستی بالکل بھی نہیں کر سکتا ۔

جو حضرات غیر قطعی مسائل میں اختلاف کرنے والے علماء کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں ان کو مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان بھی ذہن نشین کرنا چاہیئے : کسی غیر قطعی مسئلے میں اختلاف ایسی چیز نہیں کہ اگر کوئی نیاز مند انجانے میں یا جان بوجھ کر بھی اختلاف رائے کی جرات کرے تو اس پر اتنا غیظ و غضب فرمایا جائے۔حضرت علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اس قسم کے اختلاف کو رحمت بتایا ہے۔فرماتے ہیں : التفریق المذموم انما ھو فی العقائد لا فی الفروع فانہ رحمۃ للعباد" (ج 1 ص :251،چشتی)
ترجمہ : اختلاف مذموم صر ف وہ ہے جو عقائد میں ہے فروع میں مذموم نہیں ، یہ بندوں کے لئے رحمت ہے ۔ اور یہی مشہور و معروف حدیث" اختلافُ اُمَّتِی رحمۃ " کے ظاہر عموم منطوق ہے ۔ عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک ہر طبقہ ، ہر قرن ، میں اس کی مثالیں ملیں گی کہ اکابر نے اکابر سے ، اصاغر نے اکابر سے اختلاف رائے کیا ہے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد 1 صفحہ 86)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب سنی صحیح العقیدہ حضرات کو آپس میں اتفاق و اتحاد کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے اورکسی بھی عالم کی توہین و تنقیص سے مرتے دم تک بچائے رکھے آمین۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)