Sunday, 20 January 2019

علم غیبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متعلق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ

علم غیبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متعلق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ

محترم قارئین : سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ علمِ غیب کے سلسلے میں اہلسنت و جماعت کا عقیدہ کیا ہے ۔ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ بےشک اللہ عزوجل غیب کا جاننے والا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے برگزیدہ اور پسندیدہ بندوں کو جتنا چاہا علم عطا فرمایا ۔ اسی طرح علمِ غیب کی بھی دو اشکال ہیں ۔ ایک تو علمِ ذاتی ہے اور دوسرا علمِ عطائی ۔ علمِ ذاتی صرف اللہ عزوجل کا ہی خاصہ ہے اللہ عزوجل کا علم ذاتی نہ کہ کسی کا عطا کیا ہوا ۔ اور علمِ عطائی سے مراد وہ علم جو اللہ عزوجل نے اپنے فضل و کرم سے مخلوق کو عطا کیا ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیئے کہ اللہ عزوجل بھی دیکھتا ہے، سنتا ہے اور مخلوق بھی دیکھ سکتی ہے ، سن سکتی ہے ۔ لیکن اللہ عزوجل کی یہ صفات ذاتی ہیں نہ کہ عطائی ۔ اور مخلوق کی صفات سب اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ ہیں ، از خود ہم کسی قابل نہیں ۔ اسی طرح اہلسنت و جماعت کا عقیدہ یہی ہے انبیا علیہم صلوۃ وسلام کو غیب کا علم اللہ عزوجل کی طرف سے عطا ہوا نہ کہ یہ ان صفتِ ذاتی ہے ۔ از خود علمِ غیب کا حاصل ہونا محال ہے ۔ جو کوئی اللہ عزوجل کے علاوہ کسی پر بھی ذاتی صفات کا اطلاق کرے اس کے خلاف اہلسنت و جماعت کے فتاوٰی موجود ہیں ۔

اورکوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کڑوڑوں درود

جو آیات علمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نفی کے طور پر پیش کی جاتی ہیں ان کی توجیہات مفّسرین علیہم الرّحمہ نے یہ بیان کی ہیں کہ :

اول تو یہ کہ یہ علم غیب ذاتی کی نفی ہے ۔

دوم یہ کلام تواضع وانکساری اور عاجزی کے طور پر بیان ہوا ۔

سوم یہ کہ میں دعوےٰ نہیں کرتا کہ میں علمِ غیب جانتا ہوں یعنی دعوٰی علمِ غیب کی نفی ہے نہ کہ علم کی ۔

اور ہمارا یہ موقف ہے کہ منکرین کی پیش کردہ آیات کی تفاسیر پڑھنے سے بخوبی واضح ہوجائے گا ۔ جیسے منکرین کی پیش کردہ سورۃ الانعام آیت نمبر 50 کی تفسیر دیکھیں ۔

تفسیرِ نیشاپوری میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ : ويحتمل أن يكون عطفاً على { لا أقول }،چشتی) أي قل لا أعلم الغيب فيكون فيه دلالة على أن الغيب بالاستقلال لا يعلمه ۔
ترجمہ : اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ لااعلم کا عطف لا اقول پر ہو یعنی اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرمادو کہ میں غیب نہیں جانتا تو اس میں دلالت اس پر ہو گی کہ غیب بالاستقلال یعنی ذاتی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ۔

تفسیرِ خازن میں ہے کہ : وانما نفی عن نفسہ الشریفۃ ھذہ الاشیاء تواصنعا تعالٰی و اعترافا للعبودیۃ فلست اقوال شیئا من ذالک ولا ادعیہ ۔
ترجمہ : ان چیزون کی اپنی ذات کریمہ سے نفی فرمائی ، رب کےلیئے عاجزی کرتے ہوئے اور اپنی بندگی کا اقرار فرماتے ہوئے یعنی میں اس میں سے کچھ نہیں جانتا اور کسی چیز کا دعوٰی نہیں کرتا ۔

اسی طرح روح المعانی میں اس آیت کے ماتحت لکھا ہے کہ : عطف علی عندی خزائن اللہ ولا مذکرۃ للنفی ای ولا ادعی انی ولکن لا اقول لکم فمن قال ان نبی اللہ لا یعلم الغیب فقد اخطافیما اصاب ۔
ترجمہ : اس کا عطف عندی خزائن اللہ پر ہے اور لا زائدۃ ہے نفی کا یاد دلانے والا یعنی میں یہ دعوٰی نہیں کرتا کہ خدا کے افعال میں غیب جانتا ہوں اس بناء پر کہ خزائن اللہ میرے پاس تو ہیں مگر میں یہ کہتا نہیں ۔ تو جو شخص یہ کہے کہ نبی اللہ غیب نہیں جانتے تھے اس نے غلطی کی اس آیت میں جس میں یہ مصیب تھا ۔

سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 188 کے بارے میں بھی علما ومحققین کا یہی قول ہے جیسا کے نسیم الریاض شرح الشفا میں ہے کہ : قولہ ولوکنت اعلم فان المنقی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ علیہ السلام باعلام اللہ تعالٰی ۔
ترجمہ : علم غیب کا ماننا اس آیت کے منافی نہیں کہ "ولو کنت اعلم الغیب الخ" کیونکہ نفی علم بغیر واسطہ کی ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا غیب پر مطلع ہونا اللہ کے بتانے سے واقع ہے ۔

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے ماتحت ہے کہ : وقد ذهب بعض المشايخ الى ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يعرف وقت الساعة باعلام الله تعالى وهو لا ينافى الحصر فى الآية كما لا يخفى ۔
ترجمہ : بعض مشائخ اس طرف گئے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قیامت کا وقت بھی جانتے ہیں اللہ کے بتانے سے اور ان کا یہ کلام اس آیت کے حق کے خلاف نہیں ۔ جیسا کہ مخفی نہیں ۔

اب کچھ آیات علمِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں

وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء (سورۃ آل عمران آیت 179)
ترجمہ : اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ اے عام لوگو تم کو غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے ۔

تفسیرِ کبیر میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : فاما معرفۃ ذلک علی سبیل الاعلام من الغیب فھو من خواص الانبیاء (جمل) المعنی لکن اللہ یحتبی ان یصطفے من رسلہ من یشاء فیطلعہ علی الغیب (جلالین) وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب فتعرفوا المنافق قبل التمیز ولکن اللہ یحتبی و یختار من یشاء فیطلع علی غیبہ کما اطلع النبی علیہ السلام علی حال المنافقین ۔
ترجمہ : لیکن ان باتوں کا بطریق غیب پر مطلع ہونیکے جان لینا یہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی خصوصیت ہے ۔ (مجمل) معنٰی یہ ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے پس ان کو غیب پر مطلع کرتا ہے ۔ اللہ تعالٰی تم کو غیب پر مطلع نہیں کرنے کا تاکہ فرق کرنے سے پہلے منافقوں کو جان لو ۔ لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے چھانٹ لیتا ہے تو اس کو اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو منافقین کے حال پر مطلع فرمایا ۔

تفسیر بیضاوی میں اسی آیت کے ما تحت ہے : وما کان اللہ لیوتی احدکم علم الغیب فیطلع علی ما فی القلوب من کفر و ایمان ولکن اللہ یجتبی لرسالتہ من یشاء فیوحی اللہ و یخبرہ ببعض المغیبات او ینصب لہ ما یدل علیہ ۔
ترجمہ : اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ تم کو غیب کا علم دے اور مطلع کرے اس کفر و ایمان پر جو دلوں میں ہوتا ہے لیکن اللہ اپنی پیغمبری کیلئے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے پس اس کی طرف وحی فرماتا ہے اور بعض غیوب کی ان کو خبر دیتا ہے یا ان کے لئے ایسے دلائل قائم فرماتا ہے جو غیب پر رہبری کریں ۔

فلا یظھر علی غیبہ احد من ارتضی من رسول ۔ (سورۃ الجنّ آیت 26)۔
ترجمہ : تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔

تفسیرِ کبیر میں اس آیت کے تحت لکھا ہے : ای وقت وقوع القیمۃ من الغیب الذی لا یظھرہ اللہ لاحد فان قیل فاذا حملتم ذلک علی القیمۃ فکیف قال الا من ارتضی من رسول مع انہ لا یظھر ھذا لغیب لاحد قلنابل یظھرہ عند قریب القیمۃ ۔
ترجمہ : یعنی قیامت کے آنے کا وقت ان غیبوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالٰی کسی ہر ظاہر نہیں فرماتا پس اگر کہا جاوے کہ جب تم اس غیب کو قیامت پر محمول کر لیاتو اب رب تعالٰی نے یہ کیسے فرمایا ! مگر پسندیدہ رسولوں کو حالانکہ یہ غیب تو کسی پر ظاہر نہیں کیا جاتا تو ہم کہیں گے کہ رب تعالٰی قیامت کے قریب ظاہر فرمادے گا ۔

تفسیرِ الخازن میں اس آیت کے تحت لکھا ہے : { إلا من ارتضى من رسول } يعني إلا من يصطفيه لرسالته ونبوته فيظهره على ما يشاء من الغيب حتى يستدل على نبوته بما يخبر به من المغيبات فيكون ذلك معجزة ۔
ترجمہ : جو چیز تمام مخلوق سے غائب ہو وہ غائب مطلقہے جیسے قیامت کے آنے کا وقت اور روزانہ اور ہر چیز کے پیدائشی اور شرعی احکام اور جیسے پروردگار کی ذات و صفات بر طریق تفصیل اس قسم کو رب کا خاص غیب کہتے ہیں ۔ پس اپنے خاص غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ۔ اس کے سوا جس کو پسند فرمادے اور وہ رسول ہوتے ہیں خواہ فرشتے کی جنس سے ہوں یا انسان کی جنس سے جیسے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے بعض خاص غیب کو ظاہر فرماتا ہے ۔ سوا اس کے جس کو اپنی نبوت اور رسالت کے لیئے چن لیا پس ظاہر فرماتا ہے جس پر چاہتا ہے غیب تاکہ ان کی نبوت پر دلیل پکڑی جاوے ان غیب چیزوں سے جس کی وہ خبر دیتے ہیں پس یہ ان کا معجزہ ہوتا ہے ۔

ولا یحیطون بشئ من علمہ الا بماشاء ۔ (سورۃ البقرہ آیت 255)
ترجمہ : اور نہیں پاتے اس کے علم میں مگر جتنا وہ چاہے ۔

تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ : { إلاّ بما شاء } يعني أن يطلعهم عليه وهم من الأنبياء والرسل ليكون ما يطلعهم عليه من علم غيبه دليلاً على نبوتهم كما قال تعالى: { فلا يظهر على غيبه أحداً إلاّ من ارتضى من رسول } ۔
ترجمہ : یعنی خدا تعالٰی ان کو اپنے علم پر اطلاع دیتا ہے اور وہ انبیاء اور رسل علیہم السّلام ہیں تاکہ ان کا علم غیب پر مطلع ہونا ان کی نبوت کی دلیل ہو جیسے رب نے فرمایا ہے کہ پس نہیں ظاہر فرماتا اپنے غیب خاص پر کسی کو سوائے اس کے رسول جس سے رب راضی ہے ۔

تفسیرِ البغوی معالم التنزیل میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ : { وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ } أي من علم الله { إِلاَّ بِمَا شَآءَ } أن يطلعهم عليه يعني لا يحيطون بشيء من علم الغيب إلا بما شاء مما أخبر به الرسل ۔
ترجمہ : یعنی یہ لوگ علم غیب کو نہیں گھیر سکتے مگر جس قدر کہ خدا چاہے جس کی خبر رسولوں نے دی ۔

یہ تو صرف چند آیات پیش کیں ہیں ورنہ ربِ کائنات نے قرآنِ کریم نے کئی مقامات پر میرے آقاومولیٰ مالک ومختارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم کا بیان فرمایا ہے۔ اب اسی ضمن میں کچھ احادیث بھی پڑھ لیں ۔

بخاری کتاب بدءالحلق اور مشکوٰۃ جلد دوم باب بدءالخلق و ذکر الانیباء میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقاما فاخبرنا عن بدءالخلق حتٰی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم حفظ ذلک من حفظہ و نسیہ من نسیہ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک جگہ قیام فرمایا پس ہم کو ابتداء پیدائش کی خبر دےد ی ۔ یہاں تک کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی میں جس نے یاد رکھا۔ اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا ۔

مشکوٰۃ باب المعجزات میں مسلم بروایت عمرو ابن اخطب اسی طرح منقول ہے مگر اس میں اتنا اور ہے : فاخبرنا بما ھو کائن الٰی یوم القٰمۃ فاعلمنا احفظنا ۔
ترجمہ : ہم کو تمام ان واقعات کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونیوالے ہیں ۔ پس ہم میں بڑا عالم وہ ہے جو ان باتوں کا زیادہ حافظ ہے ۔

مشکوٰۃ باب الفتن میں بخاری و مسلم سے بروایت حضرت حذیفہ ہے : ما ترک شیئا یکون مقامہ الٰی یوم القیمۃ الا حدث بہ و نسیہ من نسیہ ۔ (مشکوٰۃ باب الفتن،چشتی)
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس جگہ قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی مگر اس کی خبر دے دی جس نے یاد رکھا یاد رکھا جو بھول گیا وہ بھول گیا ۔

مشکوٰۃ باب المساجد میں عبد الرحٰمن بن عائش سے روایت ہے : رایت ربی عزوجل فی احسن صورۃ فو صنع کفہ بین کتفی فو جدت بردھا بین ثدیی فعلمت فافی السمٰوت و الارض ۔
ترجمہ : میں نے اپنے رب کو اچھی صورت میں دیکھا رب تعالٰی نے اپنا دست قدرت ہمارے سینہ پر رکھا ۔ جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے قلب میں پائی پس تمام آسمان و زمین کی چیزوں کو ہم نے جان لیا ۔

مسلم جلد دوم کتاب الجہاد باب غزوہ بدر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذا مصرع فلان یصنع یدہ علی الارض ھھنا ھھنا قال فما ماط احدھم عن موضع ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص کے گرنے کی جگہ ہے اور اپنے دست مبارک کو ادھر ادھر زمین پر رکھتے تھے راوی نے فرمایا کہ کوئی بھی مقتولین میں سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاتھ کہ جگہ سے ذرا بھی نہ ہٹا ۔

شرح مواہب لدنیہ میں زرقانی، حضرت عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے : ان اللہ رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا و الی ما ھو کائن فیھا الی یوم القیمۃ کانما انظر الی کفی ھذا ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰی نے ہمارے سامنے ساری دنیا کو پیش فرما دیا پس ہم اس دنیا کو اور جو اس میں قیامت تک ہونیوالا ہے اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے اپنے اس ہاتھ کو دیکھتے ہیں ۔

مسند امام احمد بن حنبل میں بروایت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہے : ما ترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قائد فتنہ الی ان تنقضی الدنیا یبلغ من ثلث مائۃ فصاعدا قد سماہ لنا باسمہ و اسم ابیہ و اسمقبیلتہ رواہ ابو داؤد ۔
ترجمہ : نہیں چھوڑا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی فتنہ چلا نیوالے کو دنیا کے ختم ہونے تک جن کی تعداد تین سو سے زیادہ تک پہنچے گی مگر ہم کو اس کا نام اس کے باپ کا نام اس کے قبیلے کا نام بتا دیا ۔

بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ اور تفسیر خازن میں زیر آیت لا تسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم ہے : قام علی المنبر فذکر الساعۃ و ذکر ان بین یدیھا امور اعظاما ثم قا ما من رجل احب ان یسئال عن شئی فلیسئل عنہ فواللہ لا تسئلونی عن شیئی الا اخبر کم ما دمت فی مقامی ھذا فقام رجل فقال این مدخلی قال النار فقام عبداللہ ابن حذافۃ فقال من ابی قال ابوک حذافۃ ثم کثر ان قول سلونی سلونی ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منبر کھڑے ہوئے پس قیامت کا ذکر فرمایا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہیں پھر فرمایا کہ جو شخص جو بات پوچھنا چاہے پوچھ لے قسم خدا کی جب تک ہم اس جگہ یعنی منبر پر ہیں تم کوئی بات ہم سے پوچھو گے مگر ہم تم کو اس کی خبر دیں گے ایک شخص نے کھڑےہو کر عرض کیا کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہے ؟ فرمایا جھنم میں عبد اللہ ابن حذافہ نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے فرمایا حذافہ ۔ پھر بار بار فرماتے رہے کہ پوچھو پوچھو ۔ (بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ اور تفسیر خازن،چشتی)

مشکوٰۃ باب ذکر الانبیاء میں بخاری سے بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہے : خفف علی داود القراٰن فکان یامر دوآبہ فتسرج فیقرء القراٰن قبل ان تسرج ۔
ترجمہ : حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن ( زبور) کو اس قدر ہلکا کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کو زین لگانے کا حکم دیتے تھے تو آپ ان کی زین سے پہلے زبور پڑھ لیا کرتے تھے ۔

نوٹ؛ یہ حدیث اس جگہ اس لئے بیان کی گئی کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک وعظ میں ازل تا آخر واقعات بیان فرمادیئے تو یہ بھی آپ کا معجزہ تھا ۔ جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام آن کی آن میں ساری زبور پڑھ لیتے تھے ۔

اور حضرت شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جنہں منکرینِ علمِ غیب بھی مستند مانتے ہیں ، مدارج النبوۃ جلد اول وصل رویۃ الہی میں فرماتے ہیں کہ : فاوحی ۔۔۔۔۔۔۔ الآیۃ بتمام علوم علوم و معارف و حقائق و بشارات و اشارات، اخبار و آثار و کراماتو کمالات در احیطہء ایں ابہام داخلاست وہمہ راشامل و کثرت وعظمت اوست کہ مبہم آدردوبیان نہ کرداشارات بآنکہ جزعلم علام الغیوب ورسول محبوب بہ آں محیط نتواند شد مگر آں چہ آں حضرت بیان کردہ ۔
ترجمہ : معراج میں رب عزّ و جل نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جو سارے علوم اور معرفت اور بشارتیں اور اشارے اور خبریں اور کرامتیں و کمالات وحی فرمائے وہ اس ابہام میں داخل ہیں اور سب کو شامل ہیں ان کی زیادتی اور عظمت ہی کی وجہ سے ان چیزوں کو بطور ابہام ذکر کا بیان نہیں فرمایا ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان علوم غیبیہ کو سوائے رب تعالٰی اور محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کوئی نہ احاطہ کر سکتا ۔ ہاں جس قدر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان فرمایا وہ معلوم ہے ۔

علمائے دیوبند کے عقائد پر مستند کتاب جس پر بیشتر اکابرینِ دیوبند کے دستخط ہیں جن میں اشرف تھانوی ، محمود الحسن اور مفتی کفایت اللہ وغیرہ شامل ہیں ، المہند میں خلیل احمد انبھیٹوی رقمطراز ہیں کہ : ہم زبان سے کہتے ہیں اور دل سے عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ خواہ ان علوم کا تعلق ذات وصفات سے ہو یا تشریعات سے ، عملی احکام ہوں یا نظری احکام ، واقعی حقیقتیں اور مخفی اسرار ہوں ، وہ علوم جن کے پردوں تک کسی مخلوق کی رسائی نہیں ہوئی ، نہ کسی مقرب فرشتے کی اور نہ کسی نبی رسول کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اولین اور آخرین کا علم عطا کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل تھا ، لیکن اس سے ہر زمانے میں نو پیدا امور کی ہر جزئی کا علم لازم نہیں آتا ۔
اس کے چند سطر آگے لکھتے ہیں کہ : لیکن توجہ نہ ہونے کی بنا پر بعض نو پیدا اور حقیر جزئیات کا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نگاہ سے اوجھل ہوجانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے بڑے عالم ہونے میں موجبِ نقص نہیں ہے ، جبکہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلند مقام کے لائق علوم شریفہ کا تمام مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ (المہند، 24-25-26)۔

وَیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمْ شَہِیۡدًا : رسول تم پر گواہ ہوں گے ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس چیز سے واقف ہیں جو کسی کا دینی رتبہ بڑھنے میں رکاوٹ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو لوگوں کے گناہ معلوم ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کے ایمان کی حقیقت ، اعمال، نیکیاں ، برائیاں ، اخلاص اورنفاق وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں ۔ (روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱/۲۴۸) ، ایسا ہی کلام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تفسیر ’’فَتْحُ الْعَزِیْز‘‘ میں بھی ذکر فرمایا ہے ۔ (تفسیر عزیزی مترجم اردو جلد اوّل پارہ نمبر 2 صفحہ نمبر 405)

یاد رہے کہ ہر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے تاکہ روزِ قیامت ان پر گواہی دے سکیں اور چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شہادت سب امتوں کوعام ہوگی اس لیئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی قطعی و حتمی ہے

یہ بات حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی قطعی و حتمی ہے ۔ ہمارے پاس قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی ہے اور جیسے یہ گواہی قطعی طور پر مقبول ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی دنیا میں اپنی امت کے حق میں مقبول ہے ، لہٰذا حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے زمانہ کے حاضرین کے متعلق جو کچھ فرمایا مثلاً : صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن اور اہلِ بیت ِکرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب یا غیر موجود لوگوں جیسے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ یا بعد والوں کے لیئے جیسے حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کیلئے جو کچھ فرمایا ان سب کو تسلیم کرنا لازم ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...