اعتراض تقلید کے جائز ہونے پر کوئی دلیل ہے ؟ کا مدلّل جواب
محترم قارئین : بعض سڑک چھاپ جہلاء تقلید کے متعلق سب سے بڑا اعتراض یہ کرتے ہیں تقلید کے جائز ہونے پر کوئی دلیل ہے ؟ جس سے سادہ لوح عوام متاثر ہوتے ہیں چونکہ انہیں زیادہ علم نہیں ہوتا فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے کچھ عرصہ قبل اس کا مختصر جواب دیا تھا اب اسی جواب میں مزید تحقیق شامل کر کے یہ مضمون پیش کیا جا رہا امید ہے اہلِ علم و عوام پسند فرمائیں گے اور اہلِ علم سے گذارش ہے اگر کہیں غلطی پائیں تو مطلع فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔
تقلید ، کے جواز پر متعد د دلائل ہیں ان میں سے چند یہ ہیں
(1) قرآن مجید میں اللہ تعالی فر ماتا ہے : وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ ۔ (سورہ توبہ،آیت نمبر 122)
ترجمہ : اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں ۔
اس آیت کر یمہ میں اللہ تعالی نے صرف بعض مسلمانوں پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر کے اپنی قوم تک احکام کو پہنچائیں تو قوم پر ضروری ہوا کہ وہ ان کی بات مانے اور ان کی پیروی کرے ۔ یہی تقلید ہے۔
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوۡنَ : اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا ۔ یعنی علم حاصل کرنے کے لئے سب مسلمانوں کا اپنے وطن سے نکل جانا درست نہیں کہ اس طرح شدید حَرج ہوگا توجب سارے نہیں جاسکتے تو ہر بڑی جماعت سے ایک چھوٹی جماعت جس کا نکلنا انہیں کافی ہو کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں اورا س کے حصول میں مشقتیں جھیلیں اور اس سے ان کا مقصود واپس آ کر اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرنا ہو تاکہ ان کی قوم کے لوگ اس چیز سے بچیں جس سے بچنا انہیں ضروری ہے ۔ (تفسیر مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ص۴۵۹۔)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں سے ہر ہر قبیلہ سے جماعتیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں اور وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دین کے مسائل سیکھتے اور فقاہت حاصل کرتے اور اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے احکام دریافت کرتے۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی فرماں برداری کا حکم دیتے اور نماز زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں اُن کی قوم پر مامور فرماتے ۔ جب وہ لوگ اپنی قوم میں پہنچتے تو اعلان کردیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں سے ہے اور لوگوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کا خوف دلاتے اور دین کی مخالفت سے ڈراتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲/۲۹۵)
یہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکا معجزۂ عظیمہ ہے کہ بالکل بے پڑھے لوگوں کو بہت تھوڑے عرصے میں دین کے اَحکام کا عالم اور قوم کا ہادی بنادیا ۔
آیت’’ وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل
اس آیت سے تین (3) مسائل معلوم ہوئے
(1) علمِ دین حاصل کرنا فرض ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو چیزیں بندے پر فرض و واجب ہیں اور جو اس کے لئے ممنوع و حرام ہیں اور اسے درپیش ہیں ان کا سیکھنا فرضِ عین ہے اور اس سے زائدعلم حاصل کرنا فرضِ کفایہ۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا : ’’ علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فضل العلماء والحثّ علی طلب العلم، ۱/۱۴۶، الحدیث: ۲۲۴)
امام شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ : ’’ علم سیکھنا نفل نماز سے افضل ہے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲/۲۹۷)
(2) علم حاصل کرنے کے لئے سفر کی ضرورت پڑے تو سفر کیا جائے ۔ طلبِ علم کے لئے سفر کا حکم حدیث شریف میں ہے ، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص طلبِ علم کےلئے راہ چلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کےلئے جنت کی راہ آسان کرتا ہے ۔ (جامع ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، ۴/۲۹۴، الحدیث: ۲۶۵۵)
(3) فقہ افضل ترین علوم میں سے ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے لئے بہتری چاہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے ۔ میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ دینے والا ہے ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱/۴۲، الحدیث: ۷۱، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النہی عن المسألۃ، ص۵۱۷، الحدیث: ۱۰۰(۱۰۳۷)،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہ ے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے ۔ (جامع ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴/۳۱۱، الحدیث: ۲۶۹۰)
فقہ اَحکامِ دین کے علم کو کہتے ہیں اور اِصطلاحی فقہ بھی اس کا عظیم مِصداق ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمْرِ مِنۡکُمْ ۚ فَاِنۡ تَنٰزَعْتُمْ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمْ تُؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاۡوِیۡلًا ۔ (سورہ نساء آیت نمبر 59)
ترجمہ : اے ایمان والو حکم مانواللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ و قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ۔
وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ : اور رسول کی اطاعت کرو ۔ یہاں آیت میں رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی اطاعت ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ، ۲/۲۹۷، الحدیث: ۲۹۵۷)
رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کے بعد امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔ صحیح بخاری کی سابقہ حدیث میں ہی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ، ۲/۲۹۷، الحدیث: ۲۹۵۷)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت فرض ہے
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری فرض ہے ، قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا گیا بلکہ رب تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اورا س پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی نافرمانی پرعذاب جہنم کا مژدہ سنایا ، لہٰذا جس کام کا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایا اسے کرنا اور جس سے منع فرمایا اس سے رک جانا ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَمَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰىکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ ۔ (سورۂ حشر:۷)
ترجمہ : اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں ، اُس سے باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے ۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میری اور اس چیز کی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہنے لگا : اے میری قوم میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے ، میں واضح طور پر تمہیں اُس سے ڈرا رہا ہوں ، اپنی نجات کی راہ تلاش کر لو ۔ اب ایک گروہ اس کی بات مان کر مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راتوں رات وہاں سے چلا گیا وہ تو نجات پا گیا اور ایک گروہ نے اس کی بات نہ مانی اور وہیں رکا رہا تو صبح کے وقت لشکر نے ان پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کردیا ۔ تو جس نے میری اطاعت کی اور جو میں لایا اس پر عمل پیرا ہوا وہ اس گروہ جیسا ہے جو نجات پاگیا اور جس نے میری نافرمانی کی اور جو میں لایا اسے جھٹلایا تو وہ اس گروہ کی طرح ہے جو نہ مان کر ہلاکت میں پڑا ۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۵۳، الحدیث: ۱۶(۲۲۸۳)،چشتی)
اِس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔نیز اس آیت سے معلوم ہوا کہ احکام تین قسم کے ہیں ایک وہ جو ظاہر کتاب یعنی قرآن سے ثابت ہوں ۔ دوسرے وہ جو ظاہر حدیث سے ثابت ہوں اور تیسرے وہ جو قرآن و حدیث کی طرف قیاس کے ذریعے رجوع کرنے سے معلوم ہوں ۔ آیت میں ’’اُولِی الۡاَمْرِ‘‘ کی اطاعت کا حکم ہے ، اس میں امام ، امیر ، بادشاہ، حاکم، قاضی ، علماء سب داخل ہیں ۔
یہ ’’ اولی الامر ‘‘ کون ہے ؟ جس کی اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے ۔ مفسر قرآن سیدنا عبد اللہ بن عباس ، امام مجاہد اور حسن بصری رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : اولی الامر‘سے مراد فقہاء ہیں ۔ (جامع البیان للطبری:۴/ص:۲۰۶۔۲۰۷)
اگر بادشاہِ اسلام بھی ہو جیسا کہ دوسرے مفسرین کہتے ہیں تب بھی ظاہر ہے کہ بادشاہ کی بات اسلامی احکام کے دائرے ہی میں ہو گی تب ہی وہ اسلامی بادشاہ ہو گا ۔ بہر صورت وہ لوگ جو قرآن و سنت سے مسائل اخذ کر کے بتا تے ہیں ان کی پیروی کرنا بحکم قرآنی ماننا ضروری ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ وہ ائمہ جنہوں نے دین کا علم انتہا ئی گہرائی اور گیرا ئی سے حاصل کیا ان کی بات ما ننا اور اس پر عمل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ عوام کے لئے ضروری ہے ۔ اور اس کو نا جائز کہنا سراسر باطل اور غلط ہے ۔
اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا : فَسْـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکْرِ اِنۡ کُنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ ۔ (سورہ نحل،آیت نمبر 43)
ترجمہ : جس چیز کو تم نہیں جانتے ہو اس کو جاننے والوں سے پو چھو ۔
فَسْـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکْرِ : اے لوگو! علم والوں سے پوچھو ۔ اس آیت میں علم والوں سے مراد اہلِ کتاب ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے کفار ِمکہ کو اہلِ کتاب سے دریافت کرنے کا حکم اس لئے دیا کہ کفارِ مکہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ اہلِ کتاب کے پاس سابقہ کتابوں کا علم ہے اور ان کی طرف اللّٰہ تعالیٰ نے رسول بھیجے تھے ، جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وغیرہ ، اور وہ ان کی طرح بشر تھے تو جب کفار ِمکہ اہلِ کتاب سے پوچھتے تو وہ انہیں بتا دیتے کہ جو رسول ان کی طرف بھیجے گئے وہ سب بشر ہی تھے ، اس طرح ان کے دلوں سے یہ شبہ زائل ہو جاتا ۔ (تفسیر خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳/۱۲۴)
جو مسئلہ معلوم نہ ہو وہ علماءِ کرام سے پوچھا جائے
اس آیت کے الفاظ کے عموم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس مسئلے کا علم نہ ہو اس کے بارے میں علماء کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے ۔ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ایک شخص کی وفات کا سبب سن کر) ارشاد فرمایا ’’ جب (رخصت کے بارے) انہیں معلوم نہ تھا تو انہوں نے پوچھا کیوں نہیں کیونکہ جہالت کی بیماری کی شفاء دریافت کرنا ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی المجروح یتیمّم، ۱/۱۵۴، الحدیث: ۳۳۶ ) اور حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عالم کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے علم پر خاموش رہے اور جاہل کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’فَسْـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکْرِ اِنۡ کُنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ‘‘ ، (یعنی اے لوگو! اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو۔) لہٰذا مومن کو دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا عمل ہدایت کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے ۔ (تفسیر در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۵/۱۳۳،چشتی)
اس آیت کر یمہ سے معلوم ہوا کہ جو آدمی احکام شر عیہ کو بذات خود حاصل نہیں کر سکتا اس پر لازم ہے کہ وہ عمل کر نے کے لئے اہل ذکر اور اہل علم یعنی ائمہ مجتہدین سے پو چھے کیونکہ وہی براہ راست احکام شر عیہ اصل ماخذ سے حاصل کر تے ہیں۔اسی لئے مفسر ین کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ عام آدمی کے لئے مسائل فر عیہ میں مجتہد کی تقلید ضروری ہے ۔
امام غزالی نے عام آدمی کی تقلید پر دو دلیلیں قائم کی ہیں ۔ ایک یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع تھا کہ وہ عام آدمی کو مسا ئل بتا تے تھے اور اس کو یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ درجہء اجتہاد کا علم حاصل کرے۔اور دوسری دلیل یہ کہ عام آدمی پر احکام شر عیہ کا بجا لانا ضروری ہے تو اگر ہر آدمی درجہء اجتہاد کا علم حاصل کر نے کا مکلف ہو تو زراعت ، صنعت و حرفت اور تجارت بلکہ دنیا کے تمام کارو بار معطل ہو جائیں گے کیو نکہ ہر آدمی رات و دن علم کے حصول میں لگا رہے گا اور نہ کسی کے لئے کچھ کھانے کو ہو گا اور نہ کچھ پہننے کواور دنیا کا نظام بر باد ہو جائے گا۔حرج عظیم لاحق ہو گا اور یہ بداہتہََ باطل ہے۔ثابت ہو اکہ ہر آدمی پر اتنا علم سیکھنا ضروری نہیں اور عمل بہر حال کر ناہے تو سوائے اس کے جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کر یں اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں اور یہی تقلید ہے ۔
تقلید جائز ہے
یاد رہے کہ یہ آیتِ کریمہ تقلید کے جواز بلکہ حکم پر بھی دلالت کرتی ہے جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب ’’اَلْاِکْلِیْلْ‘‘ میں فرماتے ہیں’’ اس آیت سے علماء نے فروعی مسائل میں عام آدمی کے لئے تقلید کے جواز پر استدلال فرمایا ہے ۔ (الاکلیل، سورۃ النحل، ص۱۶۳،چشتی)
بلکہ آیت فَسْـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکْرِ تقلید واجب ہونے کی صریح دلیل ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ’’اَہْلَ الذِّکْرِ‘‘ سے مسلمان علماء نہیں بلکہ اہل کتاب کے علماء مراد ہیں لہٰذا اس آیت کا تقلید کی بحث سے کوئی تعلق نہیں ، ان کا یہ کہنا نری جہالت ہے کیونکہ یہ اس قانون کے خلاف ہے کہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ مخصوص سبب کا ۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۱/۵۸۲)
تقلید کی تعریف
تقلید کے شرعی معنی یہ ہیں کہ کسی کے قول اور فعل کو یہ سمجھ کر اپنے اوپر لازمِ شرعی جاننا کہ اس کا کلام اور ا س کا کام ہمارے لئے حجت ہے کیونکہ یہ شرعی محقق ہے ۔
تقلید سے متعلق چند اہم مسائل
(1) عقائد اور صریح اسلامی احکام میں کسی کی تقلید جائز نہیں ۔
(2) جو مسائل قرآن و حدیث یا اِجماعِ امت سے اِجتہاد اور اِستنباط کر کے نکالے جائیں ان میں غیر مُجتَہد پر چاروں آئمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا واجب ہے۔
(3) امام احمد رضا خاسن قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’مذاہبِ اربعۂ اہلسنت سب رشد و ہدایت ہیں جو ان میں سے جس کی پیروی کرے اور عمر بھر اسی کا پیرورہے ، کبھی کسی مسئلے میں اس کے خلاف نہ چلے وہ ضرور صراطِ مستقیم پر ہے اس پر شرعاً کوئی الزام نہیں ، ان میں سے ہر مذہب انسان کیلئے نجات کو کافی ہے ۔ تقلید ِشخصی کو شرک یا حرام ماننے والے گمراہ ، ضالین ، مُتَّبِعْ غَیْرِ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْن (یعنی مومنوں کے راستے کے علاوہ کی پیروی کرنے والے) ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۷/۶۴۴)
نوٹ : تقلید سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے کتاب ’’جاء الحق ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
مُقَلِّد کا ایمان درست ہے یا نہیں ؟
جو شخص تقلید کے طور ایمان لایا اس کا ایمان صحیح ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست نہیں ، بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست ہے لیکن وہ غورو فکر اور اِستدلال ترک کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گا ، اور بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست ہے اور ایسے ایمان لانے والا گناہگار بھی نہیں ہو گا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان علماء کے اَقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’بے شک ایمان نور کی ایک تجلی ہے اور وہ (جہالت کا ) پردہ اٹھانا اور سینہ کھولنا ہے ، اللّٰہ تعالیٰ وہ نور اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہے ڈالتا ہے خواہ یہ نور کا داخل ہونا غورو فکر سے ہو یا محض کسی کی بات سننے سے حاصل ہو ، اور کسی عقلمند کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کہے : ایمان نظر و استدلال کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔‘‘ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ خدا کی قسم! بسا اوقات اس شخص کا ایمان جو استدلال کا طریقہ نہیں جانتا اُس سے کامل تر اور مضبوط تر ہوتا ہے جو بحث و مناظرے میں آخری حد تک پہنچا ہوا ہو، تو جس کا سینہ اللّٰہ تعالیٰ اسلام کے لئے کھول دے اور وہ اپنے دل کو ایمان پر مطمئن پائے تو وہ قطعی طور پر مومن ہے اگرچہ وہ نہ جانتا ہو کہ اسے یہ عظیم نعمت کہاں سے ملی ہے ، اور آئمہ اربعہ وغیرہ محققین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن نے جو فرمایا کہ ’’مقلد کا ایمان صحیح ہے‘‘ اس کا یہی معنی ہے ،مقلد سے ان کی مراد وہ شخص ہے جو استدلال کرنا، بحث کے اسلوب اور گفتگو کے مختلف طریقے نہ جانتا ہو ، رہا وہ شخص جس نے اپنے سینے کو اس یقین کے ساتھ اپنی طرف سے کشادہ نہ کیا تو اس نے ویسے ہی کہا جیسے منافق اپنی قبر میں کہتا ہے : ہائے ہائے! مجھے نہیں معلوم ،میں لوگوں کو کچھ کہتے سنتا تھا تو ان سے سن کر میں بھی کہا کرتا تھا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اللّٰہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی تصدیق اس لئے کرے کہ مثلاً اس کا باپ اس بات کی تصدیق کرتا تھا اور وہ اپنے دل سے اللّٰہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر یقین رکھتے ہوئے تصدیق نہ کرے تو ایسے شخص کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور تقلیدی ایمان کی نفی کرنے والوں کی بھی یہی مراد ہے ۔ (المعتمد المستند شرح المعتقد المنتقد، الخاتمۃ فی بحث الایمان، ص۱۹۹-۲۰۰)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment