ایک غیر مقلد کا ہماری پوسٹ پر کمنٹ اور ہمارا جواب پڑھیں : کیا ہم ؟
غیر مقلد کا کمنٹ لکھتا ہے : کیا ہم رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے مقابلے میں غیر نبی کی اطاعت کرکے اپنے اعمال برباد نہیں کر رہے ہیں ؟
ہمارا جواب :جنابِ من اگر آپ غیر مقلدین یہ حرکت کرتے ہوں تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہے اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو بلا شبہ سیدھے جہنم میں جائیں گے اور اپنا سارا عمل برباد کریں گے ، البتہ اہلسنت و جماعت کا کوئی فرد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقابلے میں کسی غیر کی اطاعت نہیں کرتا ، بلکہ ﷲ عز و جل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت ہی کےلئے غیر کی اطاعت کرتا ہے اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ غیر ہم سے زیادہ دین و شریعت اور ان کے حقائق و اسرار کا راز داں ہے ۔
غیر مقلد لکھتا ہے : آپ کی ایمانی غیرت و دینی حمیت کا تقاضہ ہے کہ آپ حق کی جستجو کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم چار مسلکوں میں تقسیم ہو کر صراط مستقیم چھوڑ کر شیطان کے راہ پر چل رہے ہیں ۔
ہمارا جواب : جنابِ من غیر مقلدین کو عقل اور دین کی سمجھ ہوتی تو اس طرح کی باتیں نہ کرتے ، گمراہی اور شیطان کا راستہ یہ ہے کہ جاہل لوگ براہ راست قرآن حدیث لے کر بیٹھ جائیں اور اپنی سمجھ سے قرآن و حدیث سے مسئلے مسائل معلوم کریں ، ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ ماہرین شریعت تھے ، ان کی رہنمائی میں دین و شریعت کی وادی کو بلا خوف و خطر طئے کیا جا سکتا ہے ۔ ان شاءاﷲ ساحل مراد تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی ، البتہ جو تیر نا نہ جانتا ہو وہ دریا میں اترے گا تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بچے گا یا مرے گا ، جو مریض اپنا علاج خود سے کرے گا اس کا انجام معلوم ہے ، عقلاء اور اہل فہم ہمیشہ ماہر طبیب کی طرف جاتے ہیں ، کتاب و سنت اور دین و شریعت بچوں کا کھلونا نہیں ہے کہ جو چاہے اس سے کھیلے ، شریعت کے ماہرین اور اہل فقہ و اجتہاد کی قیادت ہی میں دین کا راستہ طے ہو گا ، ورنہ پھر کوئی عبدﷲ چکڑالوی بن جائے گا ، اور کوئی پرویز اور کوئی نیاز ، اور کوئی مرزا غلام قادیانی ، کوئی اسلم جیراجپوری یہ سب غیر مقلد تھے اور آخر میں سب کے سب دین سے باہر ہو گئے ، کوئی کتاب و سنت کا منکرہوا ، کوئی ملحد ہوا اور کوئی نبوت کا مدعی بن گیا ۔
آج بھی عدم تقلید کے نتیجہ میں غیر مقلدوں میں شیعیت و رافضیت کے جراثیم پیدا ہو چکے ہیں اور اسلاف اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ان کی تبرا گوئی شیعوں کی طرح ہو گئی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشی)
No comments:
Post a Comment