علم غیبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قرآن و حدیث کی روشنی میں
محترم قارئین : دیوبندی حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی نے جو توہین رسالت کا ارتکاب کیا اور شان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم میں بد ترین گستاخی کی وہ توہین و گستاخی کس طرح وجود میں آئی آیئے حقیقت جانتے ہیں ۔
مولوی اسماعیل دہلوی نے اپنی بد نام زمانہ کتاب "تقویت الایمان" میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے علم غیب کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ : از خود یا خدا داد علم غیب ماننا شرک ہے یعنی ذاتی علم غیب ماننا تو شرک ہے ہی بلکہ عطائی علم غیب ماننا بھی شرک ہے پھر ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے لیئے غیب کی خبر کا بھی انکار کردیا اور کہا کہ "غیب کی بات اللہ ہی جانتا ہے، رسول کو کیا خبر ۔ (تقویۃ الایمان) ۔ معاذاللہ ۔
پھر قطبُ العالم دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے "مسئلہ علم غیب" لکھا تو اس میں جھوٹا دعوٰی کر دیا کہ : ہر چہار آئمہ مذاہب و جملہ علماء متفق ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام غیب پر مطلع نہیں ہیں ۔ ( مسئلہ علم غیب ص 154)
جب نبئی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کےلئے دیوبندیوں نے اخبار غیب اور اطلاع غیب کا انکار کیا تو علماء اہل سنت کی جانب سے بھی ان کی تردید میں دلائل قائم کیئے گئے تو علمائے اہلسنّت دلائل قاہرہ دیکھنے کے بعد دیوبندی اخبار غیب اور اطلاع غیب کا انکار بھول گئے اور ان لوگوں نے "عالم الغيب" کے معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کےلیئے ثابت کرنے والے کسی فرضی شخص زید کی تردید کرنے کے لیئے قلم اٹھایا اور حکیم الامتِ دیوبند مولوی اشرف علی تھانوی نے رسالہ "حفظ الایمان" لکھ ڈالا جس میں تھانوی نے ایسی کفریہ عبارت لکھی جو کھلی گستاخی و توہین رسالت ہے ۔ تھانوی نے لکھا کہ : پھر یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم) کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب ، اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہے تو اس میں حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم) ہی کی کیا تخصیص ہے ، ایسا علم غیب تو زید و عمر ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے۔(حفظ الایمان صفحہ نمبر 13 قدیمی کتب خانہ کراچی)
اس عبارت میں حکیم الامتِ دیوبند اشرف علی تھانوی نے علم غیب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کو بچوں پاگلوں اور جانوروں کے علم سے تشبیہ دی اور اس تشبیہ کی غرض یہ تھی کہ جو بعض علوم غیبیہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کےلیئے قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور ان علوم غیبیہ میں جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کو تخصیص حاصل ہے وہ تخصیص ختم ہو جائے معاذاللہ ۔
جب امام عشق و محبت مجد دین و ملت اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر پاک اس کفریہ و گستاخانہ عبارت پر پڑی تو آپ نے خود ہی اشرف علی تھانوی کی عبارت پر حکم کفر لگایا اور اشرف علی تھانوی کو کافر قرار دے دیا یہ فتوٰی پہلے 1320 ہجری میں " المعتمد المستند" میں لگایا مگر جب تھانوی اپنے کفر پر اڑے رہے تو 1324 ہجری میں "حسام الحرمین" میں بھی تھانوی کی تکفیر و تضليل کی گئی حسام الحرمين میں مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے اکابر علماء کے فتاوی و دستخط موجود ہے ۔ خود ان ہی کے اکابر نے اپنی کتاب شہاب ثاقب میں بر ملا لکھا کہ ایسے الفاظ کہنے والا کافر ہو جاتا ہے ۔
مگر جائے حیرت ہے کہ آج تک یہ گستاخ فرقہ رسالہ حفظ الایمان کو اس متنازعہ و کفریہ عبارت کے ساتھ اپنے دیوبندی مکتبوں سے چھاپ کر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے نعوذبااللہ ۔ معاذاللہ رب العالمین ۔
آیئے اب قرآن و حدیث کی روشنی میں علمِ غیبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے متعلق پڑھتے ہیں :
قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ ۔ (النمل 65)
ترجمہ : تم فرماؤ خودغیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں مگر اللّٰہ۔
وَ عِنۡدَہ مَفَاتِحُ الْغَیۡبِ لَا یَعْلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ ط وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿الانعام 59﴾
ترجمہ : اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی انہیں وہی جانتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اور جو پتّا گرتا ہے وہ اسے جانتا ہے اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو ۔
وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللہِ وَرُسُلِہ ۚ وَ اِنۡ تُؤْمِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ( آل عمران 179)
ترجمہ : اور اللّٰہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللّٰہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللّٰہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے ۔
اَلرَّحْمٰنُ ۙ﴿۱﴾ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ﴿۲﴾ خَلَقَ الْاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ﴿۴﴾ ۔ (الرحمٰن)
ترجمہ : رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا انسانیت کی جان محمّد کو پیدا کیا ما کان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا ۔
تِلْکَ مِنْ اَنۡۢبَآءِ الْغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ ۔ (ھود49)
ترجمہ : یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں ۔
ذٰلِکَ مِنْ اَنۡۢـبَآءِ الْغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ (آل عمران44)
ترجمہ : یہ غیب کی خبریںہیں کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں ۔
وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ وَرَحْمَتُہ لَہَمَّتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ط وَمَا یُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّوۡنَکَ مِنۡ شَیۡءٍ ط وَاَنۡزَلَ اللہُ عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ط وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ۔ (النساء 113)
ترجمہ : اور اے محبوب اگر اللّٰہ کا فضل و رحمت تم پر نہ ہوتا توان میں کے کچھ لوگ یہ چاہتے کہ تمہیں دھوکا دے دیں اور وہ اپنے ہی آپ کو بہکا رہے ہیں اور تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے اور اللّٰہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللّٰہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔
وَ مَا ھُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ۔ (تکویر 24)
ترجمہ : اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔
کچھ لوگ اس آیت کا ترجمہ " اللہ غیب بتانے میں بخیل نہیں" کرتے ہیں اس سے بھی نبی پکریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم غیب ثابت کیونکہ اللہ غیب بتانے میں بخیل نہیں اس لیئے بہت بتایا ہو گا اوپر بیان ہو چکا کہ اللہ تعالٰی کس کو علم غیب سے مطلع فرماتا ہے ۔
یہ اللہ کے نبی کی شان ہے کہ وہ اللہ کے فضل سے غیب بتاتا اور فرش زمیں پر عرش بریں کی خبریں بیان فرماتا ہے ، جن تک اہل دنیا کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
نبی کا معنی ہی غیب بتانے اور عالم غیب کی خبر دینے والا ہے ، کیونکہ لفظ نبی نباء سے مشتق ہے اور نباء خبر کو کہتے ہیں ، لفظ نبی فاعل کے معنی میں ہو گا یا مفعول کے معنٰی میں ہو گا ، پہلی صورت میں اس کے معنی غیب کی خبریں دینے والا اور دوسری صورت میں اس کے معنی غیب کی خبریں دیا ہوا اور دونوں صورتوں میں نبی کا غیب جاننا اور غیب کی خبریں بتانا واضع و ظاہر ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم مَاکَانَ وَمَایَکُوْن احادیث مبارکہ سے
عَنْ عَمْرِو بْنِ اَخْطَبَ الْاَ نْصَارِیِّ قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا الْفَجْرَ وَصَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّھْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاَخْبَرَنَا بِمَا ھُوَ کَاءنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ قَالَ: فَاَعْلَمُنَا اَحْفَظُنَا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات، الحدیث:۵۹۳۶، ج۲،ص۳۹۷،چشتی)۔(مشکوٰۃ،باب المعجزات،ص۵۴۳)
ترجمہ : حضرت عَمْرو بن اَخْطَب اَنصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دن ہم لوگوں کو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ظہر کی نماز تک خطبہ پڑھتے رہے پھر اُترے اور نماز پڑھ کر پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر اُترے اور نماز پڑھی پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور سورج ڈوبنے تک خطبہ پڑھتے رہے تو (اس دن بھر کے خطبہ میں ) ہم لوگوں کو حضور نے تمام ان چیزوں اور باتوں کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں تو ہم صحابہ میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جس نے سب سے زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھاہے ۔
حضرت عَمْرو بن اَخْطَب : اِس حدیث کے راوی حضرت عَمْرو بن اَخْطَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔یہ اَنصاری ہیں اور ان کی کنیت ’’اَبو زید‘‘ہے اور محدثین کے نزدیک ان کی کنیت ان کے نام سے زیادہ مشہور ہے ۔ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہت سے غزوات میں شریک ِجہاد رہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ محبت اور پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر دیااور ان کی خوبصورتی کے لیے دعا فرمائیی۔جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کی سو برس کی عمر ہوگئی تھی مگر سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے اور آخری عمر تک چہرے کا حسن و جمال باقی رہا ۔ (اکمال فی اسماء الرجال، حرف العین، فصل فی الصحابۃ، ص۶۰۷، چشتی)
مختصر شرحِ حدیث : یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر سے غروب آفتاب تک بجز ظہر و عصر پڑھنے کے برابر دن بھر خطبہ ہی میں مشغول رہے اور سامعین سُنتے رہے اور اس خطبہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے ہونے والے تمام واقعات تمام چیزوں اور تمام باتوں کی سامعین کو خبر دے دی اور صحابہ میں سے جس نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا اتنا ہی بڑا وہ عالم شمار کیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب اخبارالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث:۲۸۹۲،ص۱۵۴۶، چشتی)
یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ہے کہ قیامت تک کے کروڑوں واقعات کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صرف دن بھر کے خطبہ میں بیان فرما دیا۔صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کو خداوند ِعالَم نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ گھوڑے پر زِین کسنے کا حکم دیتے تھے اور ساءیس گھوڑے کی زین باندھ کر درست کر تا تھا اتنی دیر میں آپ ایک ختم ’’زبور شریف ‘‘کی تلاوت کرلیتے تھے (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، الحدیث:۳۴۱۷، ج۲،ص۴۴۷ ، چشتی)
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نبی آخرالزمان جو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کے جامع ہیں اگر دن بھر میں قیامت تک کے تمام احوال و واقعات کو بیان فرمادیں تو اس میں کونسا تعجب کا مقام ہے ۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل پر روشنی پڑتی ہے
(1) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خدا وند ِعالِم ُا لْغَیْب و الشَّہادَۃ نے جس طرح بہت سے معجزانہ کمالات سے نوازااور تمام انبیاء اور رسولوں میں آپ کو ممتاز فرماکر’’سید الانبیاء‘‘ اور’’افضل الرسل‘‘بنایا اسی طرح علمی کمالات کا بھی آپ کو وہ کمال بخشا کہ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ یعنی روز ازل سے قیامت تک کے تمام علوم کا خزانہ آپ کے سینہ نبوت میں بھر دیا ۔
مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صورت میں دیکھا تو اس نے مجھ سے فرمایا کہ اوپر والی جماعت کس چیز میں بحث کر رہی ہے؟ تو میں نے عرض کیا کہ یااللہ! عزوجل تو ہی اس کو زیادہ جاننے والا ہے پھر خدا وند ِعالَم نے اپنی (قدرت کی)ہتھیلی کو میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا تو میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں پایا اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب کو میں نے جان لیا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث:۷۲۵،ج۱، ص۱۵۲)(چشتی)(مشکوٰۃ،باب المساجد،ص۷۰)
اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اسطرح میرے سامنے پیش فرمادیا کہ میں تمام دنیاکو اور اس میں قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اسطرح دیکھ رہا ہوں جس طرح میں اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔(شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳، وحلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷)(زرقانی علی المواہب،جلد۷،ص۲۳۴)
جس طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپکا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں فرمایا کہ :
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ
(القصیدۃ البردۃ، الفصل العاشر فی المناجات وعرض الحال)
ترجمہ : یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم دنیا اور اس کی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپکی سخاوت کے ثمرات میں سے ہیں اور’’لوح و قلم کا علم ‘‘آپ کے علوم کا ایک جزو ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment