Friday, 11 January 2019

درسِ قرآن موضوع : اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چار چیزویں

درسِ قرآن موضوع : اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چار چیزویں

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الْمَیۡتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنۡزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللہِۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیۡہِؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔ ﴿سورۃ البقرہ آیت نمبر 173﴾
ترجمہ : اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو نا چار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ : تم پر یہی حرام کئے ۔ کفار نے چونکہ اپنی طرف سے بہت سے جانوروں کو حرام قرار دے رکھا تھا ۔ کفار کی اس حرکت پر فرمایا گیا کہ جن جانوروں کو تم نے حرام سمجھ رکھا ہے جیسے بَحیرہ وغیرہ وہ حرام نہیں ، حرام صرف وہ ہیں جو ہم نے فرمادئیے۔یہی مضمون مزید تفصیل کے ساتھ سورۂ مائدہ آیت 3 میں بھی موجود ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چار چیزوں کی تفصیل

یہاں آیت میں چار چیزوں کا بیان ہے : (1) مردار ، (2) خون ، (3) خنزیر کا گوشت ، (4) غیرُاللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور۔ ان کی تفصیل یہ ہے :
(1) مردار:جو حلال جانور بغیر ذبح کئے مرجائے یا اس کو شرعی طریقے کے خلاف مارا گیا ہو مثلاً مسلمان اور کتابی کے علاوہ کسی نے ذبح کیا ہو یا جان بوجھ کر تکبیر پڑھے بغیر ذبح کیا گیا ہو یا گلا گھونٹ کر یا لاٹھی پتھر، ڈھیلے، غلیل کی گولی سے مار کر ہلاک کیا گیا ہو یاوہ بلندی سے گر کر مر گیا ہو یا کسی جانور نے اسے سینگ مارکر مار دیا ہو یا کسی درندے نے ہلاک کیا ہو اسے مردار کہتے ہیں اور اس کا کھانا حرام ہے البتہ مردار کا دباغت کیا ہوا چمڑا کام میں لانا اور اس کے بال سینگ ہڈی ، پٹھے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ۔ (تفسیرات احمدیہ، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۱۷۳، ص۴۴،چشتی)
زندہ جانور کا وہ عضو جو کاٹ لیا گیا ہووہ بھی مردار ہی ہے ۔

(2) خون : خون ہر جانور کا حرام ہے جبکہ بہنے والا خون ہو ۔ سورہ اَنعام آیت 145میں فرمایا :’’اَوْ دَمًا مَّسْفُوۡحًا‘‘ ’’یا بہنے والا خون‘‘ ذبح کے بعد جو خون گوشت اور رگوں میں باقی رہ جاتا ہے وہ ناپاک نہیں ۔

(3) خنزیر : خنزیر (یعنی سور) نَجس العین ہے اس کا گوشت پوست بال ناخن وغیرہ تمام اجزاء نجس و حرام ہیں ، کسی کو کام میں لانا جائز نہیں چونکہ آیت میں اُوپر سے کھانے کا بیان ہورہا ہے اس لیے یہاں صرف گوشت کا ذکر ہوا ۔

(4) غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ : اس کا معنی یہ ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا جائے اور جس جانور کو غیراللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے وہ حرام و مردار ہے البتہ اگر ذبح فقط اللہتعالیٰ کے نام پر کیا اور اس سے پہلے یا بعد میں غیر کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ عقیقہ کا بکرا، ولیمہ کا دنبہ یا جس کی طرف سے وہ ذبیحہ ہے اسی کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ اپنے ماں باپ کی طرف سے ذبح کررہا ہوں یا جن اولیاء کے لیے ایصال ثواب مقصود ہے ان کا نام لیا تو یہ جائز ہے، اس میں کچھ حرج نہیں اور ا س فعل کو حرام کہنا اور ایسے جانور کو مردار کہنا سراسر جہالت ہے کیونکہ ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد غیر کی طرف منسوب کرنا ایسافعل نہیں جو کہ حرام ہوجیسے ہم اپنی عام گفتگو میں بہت سی عبادات کو غیر کی طرف منسوب کرتے ہیں ،مثلاً یوں کہتے ہیں کہ ظہر کی نماز،جنازہ کی نماز،مسافر کی نماز،امام کی نماز،مقتدی کی نماز، بیمار کی نماز، پیر کا روزہ،اونٹوں کی زکوٰۃ اور کعبہ کا حج وغیرہ،جب یہ نسبتیں حرام نہیں اور ان نسبتوں کی وجہ سے نماز ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ میں کفر و شرک اور حرمت تو درکنار نام کو بھی کراہت نہیں آتی تو کسی ولی یا بزرگ یا کسی اور کی طرف منسوب کر کے فلاں کی بکری کہنا کیسے حرام ہو گیا اور اس سے یہ خدا کے حلال کئے ہوئے جانور کیوں جیتے جی مردار ا ور سور ہو گئے کہ اب کسی صورت حلال نہیں ہو سکتے ۔ جو لوگ انہیں مردار کہتے ہیں وہ شریعت مطہرہ پر سخت جرأت کرتے ہیں۔یاد رکھیں کہ کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام لے کر جانور ذبح نہیں کرتا اور کسی مسلمان کے بارے میں شرعی ثبوت کے بغیر یہ کہنا کہ اس نے غیرُاللہ کانام لے کر جانور ذبح کیا تو یہ بد گمانی ہے اور کسی مسلمان پر بد گمانی کرناحرام ہے اور حتی الامکان اس کے قول اور فعل کو صحیح وجہ پر محمول کرنا واجب ہے اور ذبح کے معاملے میں دل کے ارادے پر اس وقت تک کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا جب تک قائل اپنے ارادے کی تصریح نہ کر دے اور اگر بالفرض بعض نا سمجھ احمقوں پر شرعی ثبوت کے ساتھ ثابت ہو بھی جائے کہ انہوں نے غیرُاللہ کا نام لے کر ذبح کیا اور اس ذبح سے معاذاللہ ان کا مقصود غیر خدا کی عبادت ہے تو کفر کا حکم صرف انہیں پر ہو گا،اُن کی وجہ سے عام حکم لگا دینا اور باقی لوگوں کی بھی یہی نیت سمجھ لینا باطل ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے ربّ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کر رہا ہے تو اس پر بد گمانی حرام و ناروا ہے اور خود سے بنائے ہوئے ذہنی تَصوُّرات پر کسی مسلمان کو معاذ اللہ کفر کا مُرتکب سمجھنا اللہ تعالیٰ کے حلال کئے ہوئے کو حرام کہہ دینا ہے اور تکبیر کے وقت جو اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اسے باطل و بے اثر ٹھہرانا ہر گزصحیح ہونے کی کوئی وجہ نہیں رکھتا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللہِ عَلَیۡہِ ۔ (سورہ انعام آیت نمبر 119)
ترجمہ : اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے ۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہمیں شریعت مطہرہ نے ظاہر پر عمل کرنے کا حکم فرمایا ہے باطن کی تکلیف نہ دی تو جب اس نے اللہ تعالیٰ کا نام پاک لے کر ذبح کیا توجانور کا حلال ہو نا واجب ہے کہ دل کا ارادہ جان لینے کی طرف ہمیں کوئی راہ نہیں ۔ (تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۲/۲۰۱)
اس مسئلے کے بارے میں مزید تفصیل اور دلائل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 20ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ ’’سُبُلُ الْاَصْفِیَاء فِیْ حُکْمِ ذَبَائِح لِلاَوْلِیَائ‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

فَمَنِ اضْطُرَّ : تو جو مجبور ہوجائے ۔ مُضطَریعنی مجبور جسے حرام چیزیں کھانا حلال ہے وہ ہے جو حرام چیز کے کھانے پر مجبور ہو اور اس کو نہ کھانے سے جان چلی جانے کا خوف ہواور کوئی حلال چیز موجود نہ ہو خواہ بھوک یا غربت کی وجہ سے یہ حالت ہو یا کوئی شخص حرام کے کھانے پر مجبور کرتا ہو اورنہ کھانے کی صورت میں جان کااندیشہ ہو ایسی حالت میں جان بچانے کے لیے حرام چیز کا قدرِ ضرورت یعنی اتنا کھالینا جائز ہے کہ ہلاکت کا خوف نہ رہے بلکہ اتنا کھانا فرض ہے ۔ (تفسیر خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۱/۱۱۳،چشتی)

غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ : بخشنے والا ، مہربان ۔ حالت ِ مجبوری میں حرام کھانے کی اجازت دینا اور اسے معاف رکھنا اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کی دلیل ہے اس لئے آیت کے آخر میں مغفرت و رحمت والی صفات کا تذکرہ فرمایا ۔

حُرِّمَتْ عَلَیۡکُمُ الْمَیۡتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوۡذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیۡحَۃُ وَمَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمْ ۟ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسْتَقْسِمُوۡا بِالۡاَزْلٰمِ ؕ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ ؕ ۔ ﴿سورۃ المائدہ آیت نمبر 3﴾
ترجمہ : تم پر حرام کردیا گیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیرُاللہ کا نام پکارا گیا ہو اور وہ جو گلا گھونٹنے سے مرے اور وہ جوبغیر دھاری دار چیز (کی چوٹ) سے مارا جائے اور جو بلندی سے گر کر مرا ہو اور جو کسی جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور وہ جسے کسی درندے نے کھا لیا ہو مگر (درندوں کا شکار کیا ہوا) وہ جانور جنہیں تم نے (زندہ پاکر) ذبح کرلیا ہو اور جو کسی بت کے آستانے پر ذبح کیا گیا ہو اور (حرام ہے ) کہ پانسے ڈال کر قسمت معلوم کرو یہ گناہ کا کا م ہے ۔

حُرِّمَتْ عَلَیۡکُمُ : تم پر حرام کردیا گیا ہے ۔ سورۃ کی پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ تم پر چوپائے حلال ہیں سوائے ان چوپایوں کے جو آگے بیان کئے جائیں گے۔ یہاں انہیں کا بیان ہے اور گیارہ چیزوں کے حرام ہونے کا ذکر کیا گیا ہے : (1) مردار یعنی جس جانور کے لیے شریعت میں ذبح کا حکم ہو اور وہ بے ذبح مرجائے ۔ (2) بہنے والا خون ۔ (3) سور کا گوشت اور اس کے تمام اجزاء ۔ (4) وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بتوں کے نا م پر ذبح کرتے تھے اور جس جانور کو ذبح تو صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیرِ خدا کی طرف منسوب رہا ہو وہ حرام نہیں جیسا کہ عبد اللہ کی گائے ، عقیقے کا بکرا ، ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو اُن کو ذبح کے وقت کے علاوہ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذبح اُن کا فقط اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ہو ، اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیّب ہیں ۔ اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذبح کرتے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو ،جو لوگ ذبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنیٰ میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام معتبرتفاسیراور خود مفہومِ قرآن کے خلاف ہے ۔
(5) گلا گھونٹ کر مارا ہو ا جانور ۔ (6) وہ جانور جو لاٹھی پتھر ، ڈھیلے ، گولی چھرے یعنی بغیر دھار دار چیز سے مارا گیا ہو ۔ (7) جو گر کر مرا ہو خواہ پہاڑ سے یا کنوئیں وغیرہ میں ۔ (8) وہ جانور جسے دوسرے جانور نے سینگ مارا ہو اور وہ اس کے صدمے سے مر گیا ہو ۔ (9) وہ جسے کسی درندہ نے تھوڑا سا کھایا ہو اور وہ اس کے زخم کی تکلیف سے مرگیا ہو لیکن اگر یہ جانور مر نہ گئے ہوں اور ایسے واقعات کے بعد زندہ بچ گئے ہوں پھر تم انہیں باقاعدہ ذبح کرلو تو وہ حلال ہیں ۔ (10) وہ جوکسی بت کے تھان پر بطورِ عبادت کے ذبح کیا گیا ہو جیسا کہ اہلِ جاہلیت نے کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ پتھر نَصب کئے تھے جن کی وہ عبادت کرتے اور ان کے لیے ذبح کرتے تھے اور اس ذبح سے اُن کی تعظیم و تقرب کی نیت کرتے تھے ۔اس صورت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ طریقہ بطورِ خاص ان میں رائج تھا ۔ (11) کسی کام وغیرہ کا حکم معلوم کرنے کے لئے پانسہ ڈالنا ،زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کو جب سفر یا جنگ یا تجارت یا نکاح وغیرہ کام درپیش ہوتے تو وہ تین تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو’’ہاں ‘‘یا ’’نہ‘‘ نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اور اس کو حکمِ الٰہی جانتے ۔ان سب کی ممانعت فرمائی گئی ۔

قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوۡحًا اَوْ لَحْمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللہِ بِہۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَاعَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔ ﴿سورۃ الانعام آیت نمبر 145﴾
ترجمہ : تم فرماؤ ، جو میری طرف وحی کی جاتی ہے ، اُس میں کسی کھانے والے پر میں کوئی کھانا حرام نہیں پاتا مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں میں بہنے والا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا وہ نافرمانی کا جانور ہو جس کے ذبح میں غیرُاللہ کا نام پکارا گیا ہو تو جو مجبور ہوجائے (اور اس حال میں کھائے کہ) نہ خواہش (سے کھانے) والا ہو اور نہ ضرورت سے بڑھنے والاتو بے شک آپ کا رب بخشنے والا مہربان ہے ۔

قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ:تم فرماؤ میں نہیں پاتا ۔ یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، آپ ان جاہل مشرکوں سے جو حلال چیزوں کو اپنی من مرضی سے حرام کرلیتے ہیں فرما دو کہ’’ جو میری طرف وحی کی جاتی ہے میں اس میں کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام نہیں پاتا سوائے ان چار کے (1) مردار ۔ (2) رگوں میں بہنے والا خون ۔ (3) سور کا گوشت اور (4) نافرمانی کا جانور یعنی جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ لہٰذا تمہارا اُن دیگر چیزوں کو حرام کہنا باطل ہے جن کی حرمت اللہ کی طرف سے نہ آئی ۔

فَمَنِ اضْطُرَّ : تو جو مجبور ہوجائے ۔ یعنی مذکورہ بالا چیزیں کھانا حرام ہے لیکن اگر کوئی مجبور ہو اور ضرورت اُسے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر مجبور کر دے اور وہ اس حال میں کھائے کہ نہ خواہش سے کھانے والا ہو اور نہ ضرورت سے بڑھنے والاتو بے شک رب کری معَزَّوَجَلَّ بخشنے والا ، مہربان ہے اور وہ اِس پر کوئی مؤاخذہ نہ فرمائے گا ۔

حرام جانوروں کے متعلق احکام

(1) حرمت شریعت کی جانب سے ثابت ہوتی ہے نہ کہ ہوائے نفس سے ۔ (2) جما ہوا خون یعنی تلی کلیجی حلال ہے کیونکہ یہ بہتا ہوا خون نہیں لیکن بہتا ہوا خون نکل کر جم جائے وہ بھی حرام ہے کہ وہ بہتا ہوا ہی ہے اگرچہ عارضی طور پر جم گیا ۔ (3) ہر نجس چیز حرام ہے مگر ہر حرام چیز نجس نہیں ۔ (4) سور کی ہر چیز کھال وغیرہ سب حرام ہے کیونکہ وہ نجس ُالعین ہے ۔ (5) سور کی کوئی چیز ذبح کرنے یا پکانے سے پاک نہیں ہو سکتی ۔ (6) جانو رکی زندگی میں اس پر کسی کے نام پکارنے کا اعتبار نہیں ، ذبح کے وقت کا اعتبار ہے ۔ (7) بتوں کے نام پر جانور ذبح کرنا فسقِ اعتقادی یعنی کفر ہے اس لئے یہاں فِسْقًا ارشاد ہوا ۔ (8) مجبوری کی حالت میں مردار وغیرہ چیزیں بقدرِ ضرورت حلال ہوں گی اور مجبوری سے مراد جان جانے یا عُضْو ضائع ہوجانے کا ظنِ غالب ہونا ہے ۔ (9) اگر اندازے میں غلطی کر کے ضرورت سے زیادہ ایک آدھ لقمہ کھا لیا تو پکڑ نہ ہوگی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...