Thursday, 24 January 2019

علم غیب کا جاننا رسولوں کی رسالت کی دلیل ہے

علم غیب کا جاننا رسولوں کی رسالت کی دلیل ہے

امام اہلسنّت أبو منصور الماتريدی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: ۳۳۳هـ) فرماتے ہیں : إذ علم الغيب آية من آيات رسالته ۔
ترجمہ : علم غیب کا جاننا رسولوں کی رسالت کی دلیل ہے ۔ (تفسير الماتريدی تأويلات أهل السنة جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 541)

محترم قارئین : علمائے دیوبند نے فخریہ طورپرخود کوعقائد میں الماتريدي تسلیم کیا ہے . (عقائد علمائے دیوبند صفحہ نمبر 213)
علمائے دیوبند کو نمک حلالی کاثبوت دیتے ہوئےامام اہلسنّت أبو منصور الماتريديی رحمۃ اللہ علیہ کاعقیدہ علم غیب قبول کرناچاہئے ۔

انبیاء علیہم السّلام کے علوم پر لفظ علم غیب کا اطلاق سلف سے تواتر کے ساته مروی ہے . جبکہ لفظ "عالم الغیب" کا اطلاق صرف الله ربّ العزّت پر جائز ہے اور یہ خاصہ ربّ العزّت ہے مخلوق کے علم پر "عالم الغیب" کا اطلاق جائز نہیں ہے .

مگر مخالفین اہلِ سنّت پر جهوٹ ، کذب ، بہتان لگاتے ہوئے پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اہلِ سنّت اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عالم الغیب مانتے ہیں ۔ ( اختلاف امت اور صراط مستقیم . مولانا یوسف لدهیانوی دیوبندی صفحہ 38)

انبیاء علیہم السّلام کے علوم پر لفظ علم غیب کے اطلاق پر فریق مخالف کا ناقوس اعظم مولوی سرفرازگکهڑوی مغالطہ دیتے ہوئے لکهتا ہے : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو الله تعالی نے غیب کی خبروں سے وافر حصّہ عطا فرمایا ہےلیکن یہ سب ، اخبار غیب ، انباءغیب ، ہے "علم غیب نہی ہے". ( ازالتہ الریب مولاناسرفرازگکهڑوی )

جبکہ امام اہلسنّت أبو منصور الماتريدي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: ۳۳۳هـ) نے انبیاء علیہم السّلام کے علوم پر لفظ علم غیب کا اطلاق کیا ہے .

مفسّرین قرآن اور لفظ علم غیب کا اطلاق

مفسّرقرآن امام قاضی البيضاوي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: ۶۸۵هـ) سورة الكهف ( 65 ) وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً کی تفسیر میں فرماتے ہیں ، ( خضرعلیہ اسّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے علم دیا ہے جس کو ہمارے دیے بغیر کوئ نہی جان سکتا اور وہ ” علم غیب ہے ۔

ایک منافق منکر نے اس کا یہ جواب دیا کہ یہاں پر صرف خضرعلیہ السّلام کے علم غیب کا ذکر ہے حضور محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم غیب کا ذکر نہی ہے . میں نے جواب دیا ہزار افسوس ہو تیری منافقت پر خضرعلیہ السّلام کے لئے ِاستشناء کی دلیل کیا ہے ؟ خضرعلیہ السّلام کے لیئے شرک جائز ہے ؟ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف بغض و عناد میں اتنے اندهے ہو چکے ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضائل کا ذکر تمہارے نزدیک وبال جان ہو گیا ؟ ہزار افسوس ہو تیری منافقت پر ۔

مجهے تمام چیزوں کا علم ہو گیا جو کہ آسمانوں اور زمینوں میں تهیں : حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکو دیکھا، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا، میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی، اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا۔
(سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶) ، ( سنن الدارمي تعليق المحقق إسناده صحيح , حدیث صحیح،چشتی)

سنن ترمذی میں ہی حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی روایت میں ہے کہ ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا ۔
(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک میرے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دنیا اٹھالی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے ا پنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ، اس روشنی کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیئے روشن فرمائی جیسے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ) سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیئے روشن کی تھی ۔
(حلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب،۶/۱۰۷، الحدیث:۷۹۷۹)

حضرت حذیفہ بن اُسید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ گزشتہ رات مجھ پر میری اُمّت اس حجرے کے پاس میرے سامنے پیش کی گئی، بے شک میں ان کے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانتاہے ۔ (معجم الکبیر، حذیفہ بن اسید۔۔۔ الخ، ۳/۱۸۱، الحدیث: ۳۰۵۴،چشتی)

حافظ ابن کثیر ( المتوفى: 774ه ) سورة الكهف ( 60 تا 65 ) کی تفسیر میں خضرعلیہ السّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں : تفسير ابن كثير ت سلامة (۵ / ۱۷۹ )” وَكَانَ رَجُلًا يَعْلَمُ عِلْمَ الْغَيْبِ ” یعنی حضرت خضرعلیہ اسّلام ” علم غیب جانتے تهے .

امام القرطبي رحمتہ اللہ علیہ (المتوفى: 671 هـ) سورة الكهف کی تفسیر میں خضر علیہ السّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں : تفسير القرطبي (16/11) (وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً) أَيْ عِلْمَ الْغَيْبِ ” ( خضرعلیہ اسّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے علم دیا یعنی علم غیب ۔

امام أبي السعود حنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفى: 982 هـ) سورة الكهف (65) {وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا} کی تفسیر میں خضرعلیہ اسّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں . (تفسير أبي السعود = إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم (234/5 ) ، {وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا} خاصاً لا يُكتنه كُنهُه ولا يُقادَرُ قدرُه وهو علمُ الغيوب)
ترجمہ : ( خضرعلیہ السّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے خاص علم دیا جس کی حقیقت و مرتبہ کو کوئی نہی جانتا اور وہ ” علم غیوب ہے .

خضرعلیہ السّلام جن کے نبی ہونے پر اختلاف ہے جب ان کے علم پر علم غیب کا اطلاق جائز ہے تو امام الانبیاء حضرت محمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے علم پر بدرجہ اولَی جائز ہے ۔ منکرین اب کیا فرماتے ہیں ؟ ۔

اطلاع علی الغیب ، اخبار علی الغیب کے فریب کا جواب

اطلاع علی الغیب ،اخبار علی الغیب (یعنی غیب پر اطلاع دینا یا خبر دینا ) تو ثابت ہوتا ہے جو کہ ہم بھی مانتے ہیں اختلاف تو اس میں ہے کہ اس کو علم غیب کہنا جائز ہے یا نہیں ?علم غیب اللہ تعالٰی کا خاصہ ہے اور خاصہ کہتے ہی اسے ہیں جو اپنے غیر میں نہ پایا جائے لہٰذا اللہ کے علاوہ کسی کے لئے علم غیب ثابت کرنا شرک ہے ۔ (معاذاللہ)

تفسیر بیضاوی میں جس غیب کا ذکر ہوا اس کو علم غیب کہا گیا ہے ۔

دیابنہ اور وہابیہ کا یہ کہنا کہ علم غیب اللہ کے ساتھ خاص ہے اگر کوئی اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی کے لئے علم غیب مانے تو یہ شرک ہے معاذاللہ بہت سخت حکم ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ وہابی ویوبندی مولوں کے اس فتوے کی زد میں کون کون آتا ہے

تفسير جامع البيان في تفسير القرآن/ الطبري (ت 310 هـ) اس میں سورہ کہف سورہ نمبر 18 آیت نمبر 64 میں : حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ : إنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعَيَ صَبْراً ۔
کے تحت امام ابن جریر اطبری لکھتے ہیں : وكان رجلاً يعلـم علـم الغيب قد علِّـم ذلك،
وہ حضرت خضر علیہ السلام علم غیب جانتے تھے کہ انہوں نے جان لیا ۔

تفسير روح البيان في تفسير القرآن/ اسماعيل حقي (ت 1127 هـ)
وعلمناه من لدنا علما ۔ کے تحت لکھا ہے کہ : خاصا هو علم الغيوب والاخبار عنها باذنه تعالى على ما ذهب اليه ابن عباس رضى الله عنهما ۔
ترجمہ : حضرت خضر علیہ السّلام کو جو لدنی علم سکھایا گیا وہ علم غیب ہے اور اس غیب کے متعلق خبر دینا ہے خدا کے حکم سے جیسا کہ اس طرف ابن عباس رضی اللہ عنہما گئے ہیں ۔

تفسير انوار التنزيل واسرار التأويل/ البيضاوي (ت 685 هـ) مصنف و مدقق
سورہ کہف کی آیت 65 کے تحت لکھا ہے ، وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ، مما يختص بنا ولا يعلم إلا بتوفيقنا وهو علم الغيوب ۔
ترجمہ : ہم نے ان کو اپنا علم لدنی عطا کیا ،حضرت خضر کو وہ علم سکھائے جو ہمارے ساتھ خاص ہیں بغیر ہمارے بتائے کوئی نہیں جانتا اور وہ علم غیب ہے ۔

علاّمہ ابن کثیر کا حوالہ ملاحظہ ہو جن کی تفسیر دیوبندی وہابی حضرات کے نزدیک بہت ہی مستند مانی جاتی ہے ۔ تفسير تفسير القرآن الكريم/ ابن كثير (ت 774 هـ) قال : إنك لن تستطيع معي صبراً، وكان رجلاً يعلم علم الغيب، قد علم ذلك ،
یہاں علاّمہ ابن کثیر بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت لائے جس کو امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں پیش کیا اور امام اسمعیل حقی علیہ الرحمہ نے جس کو اپنی تفسیر میں ذکر کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...