Friday, 25 January 2019

اسلام میں لے پالک بچوں کے شرعی احکام

اسلام میں لے پالک بچوں کے شرعی احکام

محترم قارئین : متبنٰی بنانے والا شخص نہ باپ ہے نہ متبنٰی اس کا بیٹا یا اولاد ۔ لہٰذا باپ کی جگہ صرف اور صرف اس کے حقیقی باپ کا نام ہی لکھا اور پکارا جائے گا ۔ قرآن کریم میں واضح حکم ہے : وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَo ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۔ (سورہ الاحزاب، 33: 4،5)
ترجمہ : اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا بنایا یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے اور اللہ حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے ، انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں ۔

پس متبنٰی (منہ بولے بیٹے/ بیٹی) کے حقیقی والدین ہی اس کے والدین ہیں اور رہیں گے خواہ پرورش کوئی کرے۔ حقیقی والد کا نام ہی والد کے طور پر لکھا اور بتایا جائے گا خواہ کچھ ہو۔ دوسرے کی طرف منسوب کرکے اس کا بیٹا کہنا یا لکھنا حرام ہے۔ متبنٰی کی پرورش کرنے والا شخص اپنی زندگی میں جتنا مناسب سمجھے مکان، روپیہ، دوکان وغیرہ ہبہ کرسکتا ہے، اس کے نام رجسٹری کردے تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس میں وراثت کا جھگڑا نہ ہو۔ وراثت صرف اس مال میں چلتی ہے جو مرتے وقت کسی کی ملکیت میں ہو ۔

دوسری صورت یہ بھی ہے کہ مرتے وقت ایک تہائی تک مال اس کے نام کرنے کی وصیت کرجائے۔ اس شخص نے اپنی زندگی میں جو کچھ متبنٰی کو دے دیا چونکہ اب وہ اس کی ملکیت سے نکل کر اس متبنٰی کی ملکیت میں آچکا، لہٰذا اس پر مرنے والے کی وراثت کا اطلاق نہ ہوگا اور نہ ہی واپسی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ جب متبنٰی کسی طور پر وارث بنتا ہی نہیں تو صلبی اولاد یا دیگر ورثاء کے ساتھ اس کا وراثت میں کوئی مسئلہ ہی نہ رہا، باقی ورثاء تمام ترکہ میں سے حسب ضابطہ اپنا اپنا مقررہ حصہ پائیں گے ۔

دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ حقیقی ورثاء کا حق اس متبنٰی کی وجہ سے مارا نہ جائے۔ اس لئے میں نے کل مال کی ایک تہائی کی وصیت کی بات کی تاکہ اس کا کام بھی ہوجائے اور بقایا حصے باقی وارثوں میں بھی تقسیم ہوسکیں۔ نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ کوئی محروم ہو ۔

نامعلوم نسب کا کوئی بچہ مل جائے تو اس کی پرورش کرنے والا اس کا سرپرست کہلوائے گا اور تمام کاغذات میں بطور والد نہیں بلکہ بطور سرپرست اس کا نام درج کیا جائے گا ۔

گود لئے ہوئے بچے کے حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام استعمال کرنے کا شرعی حکم

بچہ گود لینا جائز ہے لیکن یہ یاد رہے کہ گود میں لینے والا عام بول چال میں یاکاغذات وغیرہ میں اس کے حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام استعمال نہیں کر سکتا بلکہ سب جگہ حقیقی باپ کے طور پر اس بچے کے اصلی والد ہی کا نام استعمال کرنا ہوگا اور اگر اصلی باپ کا نام معلوم نہیں تو اس کی معلومات کروا کر باپ کے طورپر حقیقی باپ کا نام لکھنا ہو گا اور اگر کوشش کے باوجود کسی طرح اس کے اصلی باپ کا نام معلوم نہ ہو سکے تو گود لینے والا گفتگو میں حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام ہر گز استعمال نہ کرے اور نہ ہی بچہ اسے حقیقی والد کے طور پراپنا باپ کہے ، اسی طرح کاغذات وغیرہ میں سر پرست کے کالم میں اپنا نام لکھے حقیقی والد کے کالم میں ہر گز نہ لکھے ، اگر جان بوجھ کر خود کو حقیقی باپ کہے یالکھے گا تو یہ بھی درج ذیل دو وعیدوں میں داخل ہے :

(1) حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کا باپ کوئی اور ہے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو کسی غیر کی طرف منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے ۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب من ادعی الی غیر ابیہ، ۴/۳۲۶، الحدیث: ۶۷۶۶)

(2) حضرت علی المرتضیٰ رضی سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے خود کواپنے باپ کے غیرکی طرف منسوب کیا یا جس غلام نے اپنے آپ کواپنے مولیٰ کے غیرکی طرف منسوب کیا اس پر الله عَزَّوَجَلَّ کی ، فرشتوں کی اورتمام لوگوں کی لعنت ہو ، قیامت کے دن الله عَزَّوَجَلَّ اس کاکوئی فرض قبول فرمائے گانہ نفل ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۱، الحدیث: ۴۶۷ (۱۳۷۰)،چشتی)

اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیئے کہ جو اپنے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے یا ویسے ہی کسی دوسرے کی اولاد گود میں لیتے ہیں اور اپنے زیرِ سایہ اس کی پرورش کرتے اور اس کی تعلیم و تربیت کے اخراجات برداشت کرتے ہیں ۔ ان کا یہ عمل تو جائز ہے لیکن ان کی یہ خواہش اور تمناہر گزدرست نہیں کہ حقیقی باپ کے طور پر پالنے والے کا نام استعمال ہو اور نہ ہی ان کا یہ عمل جائز ہے کیونکہ الله تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا ہے کہ ’’اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ‘‘ (انہیں ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو) اور جب اللہ تعالیٰ نے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارنے کا حکم فرما دیا اور اَحادیث میں ایسا نہ کرنے پر انتہائی سخت وعیدیں بیان ہو گئیں تو کسی مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کے حکم کے برخلاف اپنی خواہشات کو پروان چڑھائے اور خود کو شدید وعیدوں کا مستحق ٹھہرائے ۔ الله تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

نوٹ : یاد رہے کہ اَحادیث میں بیان کی گئی وعیدوں کا مِصداق وہ صورت ہے جس میں بچے کا نسب حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا جائے جبکہ شفقت کے طور پر کسی کو بیٹا یا بیٹی کہہ کر پکارنا یا کوئی معروف ہی کسی اور کے نام سے ہو تو پہچان کے لئے ا س کابیٹا یا بیٹی کہنا ان وعیدوں میں داخل نہیں ۔

بچہ یا بچی گود لینے سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ

بچہ یا بچی گود میں لینا جائز ہے لیکن جب وہ ا س عمر تک پہنچ جائیں جس میں ان پر نا محرم مرد یا عورت سے پردہ کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس وقت بچے پر پالنے والی عورت سے اور بچی پر پالنے والے مرد سے پردہ کرنا بھی لازم ہوگا کیونکہ وہ اس بچے کے حقیقی یا رضاعی ماں باپ نہیں اِس لئے وہ اُ س بچے اوربچی کے حق میں محرم نہیں ، لہٰذا اگر بچہ گود میں لیا جائے تو عورت اسے اپنا یا اپنی بہن کادودھ پلا دے اور بچی گود میں لی جائے تو مرد اپنی کسی محرم عورت کا دودھ اسے پلوا دے ، اس صورت میں ان کے درمیان رضاعی رشتہ قائم ہوجائے گا اور محرم ہو جانے کی وجہ سے پردے کی وہ پابندیاں نہ رہیں گی جو نامحرم سے پردہ کرنے کی ہیں ، البتہ یہاں مزید دو باتیں ذہن نشین ر ہیں :

(1) یہ کہ دودھ بچے کی عمر دوسال ہونے سے پہلے پلایا جائے اور اگردو سال سے لے کر ڈھائی سال کے درمیان دود ھ پلایا تو بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی لیکن اس عمر میں دودھ پلانا ناجائز ہے اورڈھائی سال عمر ہو جانے کے بعد پلایا تو رضاعت ثابت نہ ہو گی ۔

(2) یہ کہ عورت نے بچے یا بچی کو اپنی بہن کا دودھ پلوایا تووہ اس کی رضاعی خالہ تو بن جائے گی لیکن اس کا شوہر بچی کا محرم نہ بنے گا ، لہٰذا بہتر صورت وہ ہے جو اوپر ذکر کی کہ بچے کو عورت کی محرم رشتہ دار کا دودھ پلوا لیا جائے اور بچی کو شوہر کی محرم رشتہ دار کا تاکہ پرورش کرنے والے پردے کے مسائل میں مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔ البتہ اِن مسائل میں کہیں پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا ایسا کوئی معاملہ ہو تو کسی قابل مفتی کو پوری تفصیل بتا کر عمل کیا جائے ۔

بچّہ گود لے توسکتے ہیں ، مگر وہ نامَحرم ہو تو جب سے عورَتوں کے مُعامَلات سمجھنے لگے ، اُس سے پردہ کیا جائے ۔ فقہائے کرام علیہم الرّحمہ فرماتے ہیں :
مُراہِق ( یعنی قریبُ البُلُوغ لڑکے) کی عمربارہ سال ہے . (دُّالْمُحتَارج۴ص۱۱۸)

بچّی لینی ہو تو آسانی اِسی میں ہے کہ محرمہ مَثَلاً سگی بھتیجی یا سگی بھانجی لے تا کہ رضاعی (یعنی دودھ کا) رشتہ قائم نہ ہو تب بھی بالِغہ ہونے کے بعد ساتھ رہ سکے مگر بالِغہ ہونے کے بعد گھر کے نامحرموں مَثَلاً سگے چچا یا سگے ماموں جِنہوں نے پالا اُن کے بالِغ لڑکوں سے( جب کہ وہ دودھ شریک بھائی نہ ہوں) پردہ واجب ہو جائے گا ۔ اگر گود لی بچّی نامَحرمہ تھی تو بالِغہ بلکہ قریبِ بُلوغ پہنچے تو اُس کو پالنے والا نامحرم باپ اپنے ساتھ نہ رکھے ۔

امام اَحمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ جلد 13 صَفْحَہ412 پر فرماتے ہیں : لڑکی بالِغہ ہوئی یا قریبِ بُلوغ پہنچی جب تک شادی نہ ہوضَرور اس کو باپ کے پاس رہنا چاہئے یہاں تک کہ نو برس کی عمر کے بعد سگی ماں سے لڑکی لے لی جائے گی اور باپ کے پاس رہے گی نہ کہ اجنبی (یعنی جس سے ہمیشہ کیلئے شادی حرام نہیں اُس کے پاس) جس کے پاس رہنا کسی طرح جائز ہی نہیں،بیٹی کر کے پالنے سے بیٹی نہیں ہو جاتی ۔ فُقَہائے کرام علیہم الرّحمہ فرماتے ہیں : مُشْتَھاۃ (یعنی بالغہ ہونے کے قریب لڑکی) کی کم از کم عمر نو سال ہے ۔ ( رَدُّالْمُحتَارج۴ص۱۱۸) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...