Tuesday, 29 January 2019

وہ کمبل جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا وصال مبارک ہوا اور تبرک

وہ کمبل جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا وصال مبارک ہوا اور تبرک

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا کے پاس وہ کمبل محفوظ تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا وصال مبارک ہوا۔ آپ رضی ﷲ عنھا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حسبِ ضرورت و خواہش اس کی زیارت کرایا کرتی تھیں ۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ رضي ﷲ عنها کِسَاءً مُلَبَّدًا وَقَالَتْ : فِيْ هَذَا نُزِعَ رُوْحُ النَّبِيِ صلي الله عليه وآله وسلم .
ترجمہ : اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا نے ایک موٹا کمبل نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا وصال مبارک اس مبارک کمبل میں ہوا تھا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الخمس، باب : ما ذکر عن درع النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 3 : 1131، رقم : 2941)،(عسقلاني، تغليق التعليق، 3 : 468)،(صحیح بخاری مترجم جلد اوّل صفحہ 310)

دوسرے طریق سے حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہے : فَأَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ إِزَارًا غَلِيْظًا مِمَّا يَصْنَعُ بِالْيَمَنِ، وَکَسَاءً مِنْ هَذِهِ الّتِي يَدْعُوْنَهَا الْمُلَبَّدَةَ.
ترجمہ : اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا کے پاس گیا انہوں نے یمن کا بنا ہوا ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور ایک چادر نکالی جس کو مُلَبَّدہ (پیوند لگی ہوئی) کہا جاتا ہے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الخمس، باب : من درع النبي صلي الله عليه وآله وسلم وعصاه، 3 : 1131، رقم : 2941)(مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : التواضع في اللباس، 3 : 1649، رقم : 2080،چشتی)(أبوداود، السنن، کتاب اللباس : باب : لباس الغليظ، 4 : 45، رقم : 4036)

صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : قَالَ : فَأَقْسَمَتْ بِاﷲِ، إِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قُبِضَ فِي هٰذَيْنِ الثَّوْبَيْنِ .
ترجمہ : انہوں نے ﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی دو کپڑوں میں وصال فرمایا تھا ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : التواضع في اللباس، 3 : 1649، رقم : 2080)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ تبرک

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، صحیح بخاری میں ’’کتاب الخمس‘‘ کے جس باب کے تحت مذکورہ بالا حدیث لائے ہیں اس کا عنوان قائم کر کے انہوں نے لفظِ تبرک استعمال کیا ہے : بَابُ مَا ذُکِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَعَصَاهُ وَسَيْفِهِ وَقَدْحِهِ وَخَاتَمِهِ وَمَا اسْتَعْمَلَ الْخُلَفَاءُ بَعْدَهُ مِنْ ذَلِکَ مِمَّا لَمْ يُذْکَرْ قِسْمَتُه وَمِنْ شَعَرِهِ وَنَعْلِهِ وَآنِيَتِهِ مِمَّا يَتَبَرَّکُ بِهِ أَصْحَابُهُ وَغَيْرُهُمْ بَعْدَ وَفَاتِه صلي الله عليه وآله وسلم ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے تبرکات مثلاً زرہ ، عصا ، تلوار ، پیالہ اور انگوٹھی اور ان میں سے جن چیزوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد خلفاء نے استعمال کیا جنہیں تقسیم نہیں کیا گیا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موئے مبارک اور نعل مبارک اور برتن کا بیان جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور دیگر لوگ برکت حاصل کرتے تھے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب فرض الخمس، باب : 5)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس عنوان سے باب باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی استعمال کردہ مقدس اشیاء سے حصولِ برکت خلفاءِ راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی سنت ہے ۔

چادرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی برکت سے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کی شفایابی

صاحبِ ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین ، شاعر اور شہرۂ آفاق اَدیب تھے ۔ اللہ گ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کی بناء پر اُمراء اور سلاطینِ وقت ان کی بہت قدر و منزلت کرتے تھے ۔ ایک روز وہ کہیں جا رہے تھے کہ سرِ راہ اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے سے آپ کی ملاقات ہوئی ، انہوں نے آپ سے پوچھا : بوصیری ! کیا تمہیں کبھی خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زیارت نصیب ہوئی ہے ؟ اس کا آپ نے نفی میں جواب دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے خیال میں مستغرق رہتے اور اسی دوران کچھ نعتیہ اشعار بھی کہے ۔

پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہو گیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضے میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لا دوا کے لئے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام سے اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور پورے بدن پر اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور آپ فوراً شفایاب ہوگئے۔ اگلے دن صبح صبح آپ اپنے گھر سے نکلے اور سب سے پہلے جس سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالرجاء تھے ۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے مجھے بھی سنا دیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کونسا قصیدہ ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے۔

أَمِنْ تَذَکُّرِ جِيْرَانٍ بِذِيِ سَلَم
مَزَجْتَ دَمْعًا جَرٰي مِنْ مَقْلَةٍ بِدَمِ

ترجمہ : کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون میں ملا دیا ہے ؟

آپ کو تعجب ہوا اور پوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ جس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زدِ خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے ۔ (خرپوتي، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة،چشتی)،(اشرف علی تهانوي، نشر الطيب في ذکر النبي الحبيب، 299 - 300)

چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی تھی اور پھر اپنا دست شفاء بھی پھیرا تھا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوئے لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا ۔

برکاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آج بھی جاری و ساری ہیں اور جس نے بھی اس قصیدہ کو درمان طلبی کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا ، اللہ رب العزت نے اسے بامراد کیا ۔ اس کی برکت سے بہت سوں کو فالج سے صحت یابی اور آشوبِ چشم کی شدت سے نجات ملی اس طرح بہت سے دیگر پریشان حال لوگوں کے دینی و دنیاوی اُمور آسان ہوئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...