Monday, 21 January 2019

درسِ قرآن موضوع آیت : اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ

درسِ قرآن موضوع آیت : اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ

محترم قارئین ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ - وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ - وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ - وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ - اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۠ ۔ ( سورۃ لقمان آیت نمبر 34 )
ترجمہ : بیشک الله کے پاس ہے قیامت کا علم اور اُتارتا ہے مینہ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی بیشک الله جاننے والا بتانے والا ہے ۔

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ : بیشک قیامت کا علم الله ہی کے پاس ہے ۔

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد السّاری شرح بخاری میں فرماتے ہیں : فمن ادعٰی علم شیئ منہا غیر مسند الٰی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان کاذبًا دعواہ ۔
ترجمہ : جو کوئی قیامت و غیرہ خمس سے کسی شے کے علم کا اِدعا کرے اور اسے رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کی طرف نسبت نہ کرے کہ حضور کے بتائے سے مجھے یہ علم آیا ، وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے ۔ (ارشاد السّاری شرح صحیح بخاری عربی)

شانِ نزول

یہ آیت حارث بن عمرو کے بارے میں نازل ہوئی جس نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر قیامت کا وقت دریافت کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ میں نے کھیتی بوئی ہے ، مجھے خبر دیجئے کہ بارش کب آئے گی ؟ اور میری عورت حاملہ ہے، مجھے بتائیے کہ اس کے پیٹ میں کیا ہے ،لڑکایا لڑکی ؟ نیزیہ تو مجھے معلوم ہے کہ کل میں نے کیا کیا ، البتہ مجھے یہ بتائیے کہ آئندہ کل کو میں کیا کروں گا ؟ نیز میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں کہاں پیدا ہوا ، لیکن مجھے یہ بتائیے کہ میں کہاں مروں گا ؟ اس کے جواب میں یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۴، ۷/۱۰۳۔)

اس آیت کا آخری ٹکڑا ہے بیشک الله جاننے والا بتانے والا ہے یعنی الله ان پانچ چیزوں کی خبر بھی دیتا ہے .

علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قال ابن عباس ھذہ الخمسة لایعلمھا الا الله ولا یعلمھا ملک مقرب ولا نبی مرسل فمن ادعی انه یعلم شیئا من ھذہ فقد کفر بالقرآن لانه خالفه ثم ان الانبیاء یعلمون کثیرا من الغیب بتعریف الله تعالی ایاھم والمراد ابطال کون الکہنة والمنجمین ومن یستسقی بالانواء ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ یہ پانچ چیزیں وہ ہیں جنہیں اللہ تعالی کے بغیر کوئی نہیں جانتا حتی کہ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی نبی مرسل بھی انہیں خود بخود نہیں جان سکتا۔ جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز خود بخود جانتا ہے، اس نے قرآن کریم کا انکار کیا کیونکہ اس نے قرآن کریم کی مخالفت کی۔ انبیاء ان امور غیبہ میں سے بہت کچھ جانتے ہیں۔ ان کا یہ جاننا اللہ تعالی کی تعلیم اور سکھانے سے ہے۔ اس آیت سے مراد (انبیاء کے علوم کی نفی نہیں بلکہ) کاہنوں، نجومیوں اور جو لوگ بارش کے نزول کو مخصوص ستاروں کے طلوع غروب سے وابستہ سمجھتے ہیں، ان کی تردید ہے۔

علامہ ثناء الله پانی پتی رقمطراز ہیں : یحصل له علم بتعلیم من الله تعالی بتوسط الرسل او بنصب دلیل علیه ۔
ان امور کے جاننے کی ایک ہی صوت ہے کہ اللہ تعالی ان کا علم سکھا دے، خواہ رسولوں کے ذریعے سے یا اس پر دلائل قائم کرکے ۔

علامہ ابن کثیر نے ایک فقرے میں ہی ساری الجھنوں کا خاتمہ کردیا۔ لکھتے ہیں : ھذہ مفاتیح الغیب التی استاثر الله تعالی بعلمہا ولا یعلمھا احد الا بعد اعلامه تعالی بھا ۔
یعنی یہ امور خمسہ مفاتیح الغیب (غیب کی کنجیاں) ہیں جنہیں الله تعالی نے اپنے علم کے ساتھ مختص کرلیا ہے، پس انہیں کوئی نہیں جان سکتا۔ سوائے اس بات کے کہ الله تعالی اس کا علم سکھا دے ۔

علامہ آلوسی روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح بخاری میں علامہ قرطبی کا یہ قول نقل کیا ہے : من ادعی علم شیء من الخمس غیر مسندہ الی رسول کان کاذبا فی دعوہ ۔
یعنی اگر کوئی شخص ان پانچ امور میں سے کسی کے جاننے کا دعوی کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے یہ علم حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کے واسطہ سے ملا ہے تو وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہوگا ۔

علامہ صاوی مالکی لکھتے ہیں : قال العلماء الحق انه لم یخرج نبینا من الدنیا حتی اطلعه الله علی تلک الخمس ولکنه امرہ بکتمھا ۔ (تفسیر صاوی ج ٣ ص ٢١٥)
علماء کرام نے فرمایا کہ حق بات یہ ہے کہ رسول صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم نے دنیا سے اس وقت تک وفات نہیں پائی ‘ جب تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو ہر اس چیز کا علم نہیں دے دیا جس کا علم دینا ممکن تھا ۔ (روح المعانی ج ١٥ ص ١٥٤)

امام رازی لکھتے ہیں : عالم الغیب فلا یظھر علی غیبه المخصوص وھوقیام القیامة احداثم قال بعدہ لکن من ارتضی من رسول ۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٧٨)
اللہ تعالی عالم الغیب ہے وہ اپنے مخصوص غیب یعنی قیامت قائم ہونے کے وقت پر کسی کو مطلع نہیں فرمایا ‘ البتہ ان کو مطلع فرماتا ہے جن سے وہ راضی ہوتا ہے اور وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ علامہ علاؤ الدین خازن نے بھی یہی تفسیر کی ہے ۔ (تفسیرخازن ج ٤ ص ٣١٩)

علامہ تفتازانی لکھتے ہیں : والجواب ان الغیب ھھنا لیس للعموم بل مطلق اومعین ھو وقت وقوع القیمة بقرینة السیاق ولا یبعدان یطلع علیه بعض الرسل من المئکة او البشر۔
(شرح المقاصد ج ٥ ص ٦‘ طبع ایران،چشتی)
اور جواب یہ ہے کہ یہاں غیب عموم کے لیے نہیں ہے بلکہ مطلق ہے یا اس سے غیب خاص مراد ہے یعنی وقت وقوع قیامت ‘ اور آیات کے سلسلہ ربط سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے اور یہ بات مستبعد نہیں ہے کہ الله تعالی بعض رسولوں کو وقت وقوع قیامت پر مطلع فرمائے خواہ رسل ملائکہ ہوں یا رسل بشر ۔

علامہ حسن بن علی مدابغی حاشیه فتح المبین امام ابن حجر مکی اور فاضل ابن عطیه فتوحات وہبیہه شرح اربعین امام نووی میں نبی صلی اله تعالٰی علیہ وسلم کو علم قیامت عطا ہونے کے باب میں فرماتے ہیں : الحق کما قال جمع ان ﷲ سبحٰنه وتعالٰی لم یقبض نبینا صلی اللہ تعالٰی علیه وسلم حتی اطلعه علی کل ما ابھمه عنہ الا انه امر بکتم بعض والا علام ببعض ۔
یعنی حق مذہب وہ ہے جو ایک جماعت علماء نے فرمایا کہ اللہ عزوجل ہمارے نبی کریم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا یہاں تک کہ جو کچھ حضور سے مخفی رہا تھا اس سب کا علم حضور کو عطا فرمادیا، ہاں بعض علوم کی بنسبت حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کو حکم دیا کہ کسی کو نہ بتائے اور بعض کے بتانے کا حکم کیا ۔

روض النضیر شرح جامع صغیر امام کبیر جلال الملتہ والدین سیوطی سے اس حدیث کے متعلق ہے : اما قوله صلی الله تعالٰی علیہ وسلم الا ھو ففسر بانه لا یعلمہا احد بذاته و من ذاته الا ھو لکن قد تعلم باعلام ﷲ تعالٰی فان ثمہ من یعلمھا وقد وجدنا ذٰلک لغیر واحد کما راینا جماعته علموامتی یموتون و علموا مافی الارحام حال حمل المرأۃ وقبله۔
نبی کریم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا کہ ان پانچویں غیبوں کو ﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اس کے یہ معنی ہیں کہ بذاتِ خود اپنی ذات سے انہیں ﷲ ہی جانتا ہے مگر خدا کے بتائے سے کبھی ان کو بھی ان کا علم ملتا ہے بے شک یہاں ایسے موجود ہیں جو ان غیبوں کو جانتے ہیں اور ہم نے متعدد اشخاص ان کے جاننے والے پائے ایک جماعت کو ہم نے دیکھا کہ ان کو معلوم تھا کب مریں گے اور انہوں نے عورت کے حمل کے زمانے میں بلکہ حمل سے بھی پہلے جان لیا کہ پیٹ میں کیا ہے ۔ (روض النضیر شرح الجامع الصغیر)

علامہ عشماوی کتاب مستطاب عجب العجاب شرح صلاۃ سیّدی احمد بدوی کبیر صلی الله تعالٰی عنہ میں فرماتے ہیں : قیل انه صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم اوتی علمہا (ای الخمس) فی اٰخرالامرلکنه امرفیہابالکتمان وھٰذا القیل ھوالصحیح ۔
یعنی کہا گیا کہ نبی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کو آخر میں ان پانچوں غیبوں کا بھی علم عطا ہوگیا مکر ان کے چھپانے کا حکم تھا، اور یہی قول صحیح ہے ۔ (عجب العجاب شرح صلٰوۃ سید احمد کبیر بدوی)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں : وحق آنست کہ در آیت دلیلے نیست بر آنکہ حق تعالی مطلع نگر دانیدہ است حبیب خود راصلے الله وسلم برماھیت روح بلکہ احتمال دارد کہ مطلع گردانیدہ باشد وامر نکرد اور کہ مطلع گرداند ایں قوم راو بعضی از علماء در علم ساعت نیز ایں معنی گفتہ اندالی ان قال ولے گوید بندہ مسکین خصہ الله بنور العلم والیقین وچگونه جرات کند مومن عارف کہ نفی علم به حقیقت روح سیدالمرسلین وامام العارفین صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کند و دادہ است اور احق سبحانہ علم ذات وصفات خود و فتح کردہ بروے فتح مبین از علوم اولین واخرین روح انسانی چہ باشد کہ در جنب حقیقت جامعہ وے قطرہ ایست از دریائے ذرہ از بیضائے فافھم وباللہ التوفیق ۔ (مدارج النبوۃ ج ٢ ص ٤٠،چشتی)
حق یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ حق تعالی نے اپنے حبیب صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کو روح کی حقیقت پر مطلع نہیں کیا بلکہ جائز ہے کہ مطلع کیا ہو اور لوگوں کو بتلانے کا حکم آپ کو نہ دیا ہو۔ اور بعض علماء نے علم قیامت کے بارے میں بھی یہی قول کیا ہے ‘ اور بندہ مسکین (اللہ اس کو نور علم اور یقین کے ساتھ خاص فرمائے) یہ کہتا ہے کہ کوئی مومن عارف حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم سے روح کے علم کی کیسے نفی کرسکتا ہے وہ جو سید المرسلین اور امام العارفین ہیں ‘ جن کو الله تعالی نے اپنی ذات اور صفات کا علم عطا فرمایا ہے اور تمام اولین اور آخرین کے علوم آپ کو عطا کیے ‘ ان کے سامنے روح کے علم کی کیا حیثیت ہے۔ آپ کے علم کے سمندر کے سامنے روح کے علم کی ایک قطرہ سے زیادہ کیا حقیقت ہے ۔

سید عبدالعزیز دباغ عارف کامل فرماتے ہیں : وکیف یخفی امر الخمس علیه صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم والواحد من اھل التصرف من امته الشریفة لا یمکنه التصرف الا بمعرفة ھذہ الخمس ۔ (الابریز ص ٤٨٣)
رسول صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم سے ان پانچ چیزوں کا علم کیسے مخفی ہوگا حالانکہ آپ کی امت شریفہ میں سے کوئی شخص اس وقت تک صاحب تصرف نہیں ہوسکتا جب تک اس کو ان پانچ چیزوں کی معرفت نہ ہو ۔ (الابریز ص ٤٨٣)

علامہ احمد قسطلانی شافعی متوفی ٩١١ ھ تحریر فرماتے ہیں : لایعلم متی تقوم الساعة الا الله الا من ارتضی من رسول فانہ یطلعہ علی من یشاء من غیبہ والو لی تابع له یا خذ عنه ۔
کوئی غیر خدا نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی سوا اس کے پسندیدہ رسولوں کے کہ انہیں اپنے جس غیب پر چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔ (یعنی وقت قیامت کا علم بھی ان پر بند نہیں) رہے اولیاء وہ رسولوں کے تابع ہیں ان سے علم حاصل کرتے ہیں ۔ (ارشاد الساری ج ٧ ص ١٧٨،چشتی)

علامہ بیجوری شرح بردہ شریف میں فرماتے ہیں : لم یخرج صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم الدنیا الا بعد ان اعلمه الله تعالی بھذہ الامورای الخمسه ۔
نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر بعد اس کے کہ الله تعالی نے حضور کو ان پانچوں غیبوں کا علم دے دیا ۔

علامہ شنوانی نے جمع النہایہ میں اسے بطور حدیث بیان کیا ہے کہ : قدوردان الله تعالی لم یخرج النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم حتی اطعه علی کل شیٔ ۔
بیشک وارد ہوا کہ الله تعالی نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کو دنیا سے نہ لے گیا جب تک کہ حضور کو تمام اشیاء کا علم عطا نہ فرمایا ۔

ابوالعزم اصفہانی شیراز میں بیمار ہوگئے انہوں نے کہا کہ میں نے الله تعالی سے طرطوس میں موت کی دعا ہے اگر بالفرض شیراز میں مرگیا تو مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ (یعنی ان کو یقین تھا کہ ان کی موت طرطوس میں آئے گی) وہ تندرست ہوگئے اور بعد میں طرطوس میں ان کی وفات ہوئی، اور میرے شیخ نے بیس سال پہلے اپنی موت کا وقت بتادیا تھا اور وہ اپنے بتائے ہوئے وقت پر فوت ہوئے تھے ۔ (روح البیان ج ٧ ص ١٠٥۔ ١٠٣)

اس آیت میں پانچ چیزوں کے علم کی خصوصیت الله تعالیٰ کے ساتھ بیان فرمائی گئی اور مخلوق کو علمِ غیب عطا کئے جانے کے بارے میں سورہِ جن کی آیت نمبر26اور27 میں ارشاد ہوا : عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ (۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘ ۔
ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا ۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ علم ِغیب آیت میں مذکور پانچ چیزوں سے متعلق ہو یا کسی اور چیز کے بارے میں ، ذاتی طور پر الله تعالیٰ ہی جانتا ہے جبکہ الله تعالیٰ کے بتادینے سے مخلوق بھی غیب جان سکتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ ذاتی علم غیب الله تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُ الله تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو غیب کا علم الله تعالیٰ کے بتانے سے معجزہ اور کرامت کے طور پرعطا ہوتا ہے ، یہ اس اِختصاص کے مُنافی نہیں جو آیت میں بیان ہوا بلکہ اس پر کثیر آیتیں اور حدیثیں دلالت کرتی ہیں ، بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے گا اور کہاں مرے گا ان اُمور کی خبریں اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء ِعظام رَحْمَۃُ الله تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے بکثرت دی ہیں اور قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ،جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرشتوں نے حضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی اور حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی اور حضرت مریم رَضِیَ الله تَعَالٰی عَنْہَا کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی خبریں دیں ، تو ان فرشتوں کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ان حملوں (حمل کی جمع) میں کیا ہے اور ان حضرات کو بھی جنہیں فرشتوں نے اطلاعیں دی تھیں اور ان سب کا جاننا قرآنِ کریم سے ثابت ہے ، تواس آیت کے معنی قطعاً یہی ہیں کہ الله تعالیٰ کے بتائے بغیرکوئی نہیں جانتا ۔ اس کے یہ معنی مراد لینا کہ الله تعالیٰ کے بتانے سے بھی کوئی نہیں جانتا، محض باطل اور صَدہاآیات و اَحادیث کے خلاف ہے ۔

نوٹ : اس آیت اور ا س جیسی دیگر آیات سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 26 ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ الله تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ ’’اَلصَّمْصَامْ عَلٰی مُشَکِّکٍ فِیْ آیَۃِ عُلُوْمِ الْاَرْحَامْ‘‘ (علوم ِاَرحام سے تعلق رکھنے والی آیتوں سے متعلق کلام) کا مطالعہ فرمائیں ۔

اس آیت کے تحت حضرت صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ عربی کی مشہور و معتمد تفاسیر تفسیر خازن ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر احمدی اور تفسیر روح البیان کے حوالے سے اپنی تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں : اس آیت میں جن پانچ چیزوں کے علم کی خصوصیات اللہ تعالٰی کے ساتھ بیان فرمائی گئی انہی کی نسبت سورہ جن میں ارشاد ہوا علم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من الرتضٰی من رسول غرض یہ کہ بغیراللہ کے بتائے ان چیزوں کا علم کسی کو نہیں اور اللہ تعالٰی اپنے محبوبوں میں سے جسے چاہے بتائے اور اپنے پسندیدہ رسولوں کو بتانے کی خبر خود اس نے سورہ جن میں دی ہے ، خلاصہ یہ کہ علم غیب اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء و اولیاء کو غیب کا علم اللہ تعالٰی کی تعلیم سے بطریق معجزہ و کرامت عطا ہوتا ہے یہ اس اختصاص کے منافی نہیں اور کثیر آیتیں اور حدیثیں اس پر دلالت کرتیں ہیں‌ بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے اور کہاں مرے گا ان امور کی خبریں بکثرت اولیاء و انبیاء نے دی ہیں‌اور قرآن و حدیث‌سے ثابت ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحٰق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحیٰی علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت مریم علیہ السلام کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیدا ہونے کی خبریں دیں تو فرشتوں کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ان حملوں میں کیا ہے اور حضرات کو بھی جنہیں فرشتوں نے اطلاعیں‌ دی تھیں اور ان سب کا جاننا قرآن کریم سے ثابت ہے تو آیت کے معنی قطعا یہی ہیں‌ کہ بغیر اللہ تعالٰی کے بتائے کوئی نہیں جانتا اور کے یہ معنی لینا کہ اللہ تعالٰی کے بتانے سے بھی کوئی نہیں‌ جانتا محض باطل اور صدہا آیات و احادیث کے خلاف ہے ۔ (‌تفسیر خزائن العرفان ص 746 بحوالہ خازن بیضاوی احمدی روح البیان)

مذکورہ عبارت سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ سوائے اللہ عزوجل کے ذاتی طور پر کوئی بھی ان علوم کے بارے میں نہیں جانتا لیکن اللہ تعالٰی نے اس آیت کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا کہ اللہ تعالٰی جاننے والا بتانے والا ہے یعنی جس کو چاہے اپنے انبیاء علیہم السّلام اور اولیاء علیہم الرّحمہ اورانہیں خبر خبردار کردے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...