Saturday 19 January 2019

درس،ِ قرآن موضوع آیت : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى اور لفظ ضال کے مختلف معانی

0 comments

درس،ِ قرآن موضوع آیت : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى اور لفظ ضال کے مختلف معانی

محترم قارئین : آیئے پہلے اس آیت کے دیوبندی تراجم پڑھتے ہیں :

نوٹ : قارئین سے گزارش ہے کہ ایک بار مکمل مضمون ضرور پڑھیں ، پڑھے بغیر کمنٹس سے گریز فرمائیں مکمل پڑھنے کے بعد اپنی قیمتی آراء عطاء فرمائیں ۔

دیوبندیوں نے سورۂ والضحیٰ کی آیت نمبر 7 ‘‘وَوَجَدَ کَ ضَآلًّا فَھَدٰ ی’’ کا ترجمہ یوں کیا ہے :

ترجمہ : شیخ الہنددیوبند ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اور پایا تجھ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو بھٹکتا اور راہ سجھائی ۔ (تفسیر عثمانی ترجمہ قرآن شیخ الہند دیوبند محمود الحسن دیوبندی)

حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اور اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو شریعت سے بے خبر پایا سو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو شریعت کا رستہ بتلا دیا ۔ (ترجمہ قرآن اشرف علی تھانوی دیوبندی)

فتح محمد جالندھری دیوبندی ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:اور رستے سے نا واقف دیکھا تو سیدھا رستہ دیکھایا ۔ (فتح المجید ترجمہ قرآن صفحہ نمبر 1131)۔اہلِ ایمان غور کریں نبی کریم ی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سیدھے راستے سے ناواقف تھے ۔

عبد الماجد دریا آبادی دیوبندی ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے : اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو بے خبر پایا سو رستہ بتایا ۔ (تفسیر ماجدی ترجمہ قرآن صفحہ نمبر 1176عبدالماجد دریا بادی دیوبندی)

ان سب دیوبندی مولویوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بے خبر اور بھٹکا ہوا لکھا ہے اگر نبی بھولا بھٹکا اور بے خبر ہوگا تو پھر وہ اُمت کو کیا راستہ دکھائے گا نبی تو پیدائشی نبی اور ہدایت یا فتہ ہوتا ہے ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

امامِ اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضا ن صاحب قادری محدث بریلی رحمۃ اللہ علیہ اس کا ترجمہ کنزالایمان میں یوں کرتے ہیں :
ترجمہ : اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تواپنی طرف راہ دی ۔

معنی ’’ضال‘‘ کے ایسا محبوب جو محبت میں بے سدھ ہوگیا ہو ‘ اس کو محبت میں قرار و سکون نہ رہا ہو ‘ محبت الٰہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایسے مستغرق غار حراء میں اپنی عمر کا حصہ گذار رہے تھے کہ مخلوق سے کچھ واسطہ تھا ‘ جب ہم نے آپ کو ایسا پایا فھدی اس استغراق سے افاقہ دیا تاکہ آپ نبوت کی تبلیغ کرسکیں ۔
لفظ ’’ضال‘‘ کے معنی وارفتگی و استغراق کی ترجیح کے لئے بہترین استدلال ’’ان ابانا لفی ضلل مبین ‘‘ اس آیت کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے ’’اذ قالو الیوسف و اخوہ احب الی أبینا ‘ جبکہ انہوں نے کہا : یوسف او ران کے بھائی (یعنی بنیامین) ہمارے والد کے انتہائی محبوب ہیں ‘ یعنی انتہائی محبت کو ’’ضلل‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

ضلال کے معنی

(1) جب ''ضلال'' کی نسبت غیرنبی کی طرف ہو تواس کے معنی گمراہ ہوں گے ۔

(2) جب ''ضلال'' کی نسبت نبی کی طر ف ہو تو اس کے معنی وار فتہ محبت یا راہ سے ناواقف ہوں گے ۔

(1) : جب ''ضلال'' کی نسبت غیرنبی کی طرف ہو تواس کے معنی گمراہ ہوں گے۔
ب:جب ''ضلال'' کی نسبت نبی کی طر ف ہو تو اس کے معنی وار فتہ محبت یا راہ سے ناواقف ہوں گے ۔

(1) کی مثال یہ ہے :

(1) مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَاہَادِیَ لَہٗ ۔
ترجمہ : جسے خدا گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ۔ (پ9،الاعراف:186)
(2) غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ۔ (سورہ فاتحہ)
ترجمہ : ان کا راستہ نہ چلا جن پر غضب ہو انہ گمراہوں کا ۔ (پ1،الفاتحۃ:7)
(3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ۔
ترجمہ : جسے رب گمراہ کردے تم اس کیلئے ہادی رہبر نہ پاؤ گے ۔ (پ15،الکھف:17)
ان جیسی تمام آیتو ں میں چونکہ ضلال کا تعلق نبی سے نہیں غیر نبی سے ہے تو اس کے معنی ہیں گمراہی خواہ کفر ہو یا شرک یا کوئی اور گمراہی سب اس میں داخل ہوں گے ۔

(2) کی مثالیں :

(1) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۔
ترجمہ : اے محبوب رب نے تمہیں اپنی محبت میں وارفتہ پایا تو اپنی راہ دے دی ۔ (پ30،الضحی:7)
(2) قَالُوۡا تَاللہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الْقَدِیۡمِ ۔
ترجمہ : وہ فرزندان یعقوب بولے کہ خدا کی قسم تم تو اپنی پرانی خودر فتگی میں ہو۔ (پ13،یوسف:95)
(3) قَالَ فَعَلْتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ۔
ترجمہ : فرمایا موسیٰ نے کہ میں نے قبطی کو مارنے کا کام جب کیا تھا جب مجھے راہ کی خبر نہ تھی ۔ (پ19،الشعرآء:20)
یعنی نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے قبطی مرجائے گا ۔ ان جیسی تمام آیتو ں میں ''ضلال'' کے معنی گمراہی نہیں ہوسکتے کیونکہ نبی ایک آن کے لئے گمراہ نہیں ہوتے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۔
ترجمہ : تمہارے صاحب محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نہ بہکے نہ بے راہ چلے ۔ (پ27،النجم:2)
(2) لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۔
ترجمہ : حضر ت شعیب نے فرمایا کہ مجھ میں گمراہی نہیں لیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔ (پ8،الاعراف:61)
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی گمراہ نہیں ہوسکتے ۔ آیت 2 میں''لکن'' بتا رہا ہے کہ نبوت اور گمراہی جمع نہیں ہوسکتی ۔

محترم قارئین : مخالفین حق نے جب اپنی مزعومہ توحیدی عینک لگا کر عشق محبت میں ڈوبے ہوئے ترجمے کنزالایمان کو دیکھا اور پڑھا تو بغضِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں جلتے ہوئے یہ فتویٰ صادر کیا کہ ‘‘مولوی احمد رضا خاں نے یہ ترجمہ درست نہیں کیا اوراُن کا ترجمہ غلط ہے’’اس کو اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی کرامت ہی قرار دیا جائے گا کہ یہ ہی ‘‘مفتیان’’جب قلم اُٹھائے قرآن مجید کا ترجمہ کرنے بیٹھتے ہیں تو اگرچہ وہ‘‘اپنی محبت میں خود رفتہ پایا’’کی ترکیب تو اختیار نہیں کرتے مگر اشارۃً اس ترجمۂ رضا کی تائید ضرورکرتے ہیں ۔

آئیے ہم اپنے اس موقف کی تائید میں چند مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت پوری طرح مبرہن ہوکر سامنے آجائے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد جو کانگریس کے ‘‘شوبوائے’’ کے نام سے پورے ہندوستان میں شہرت پانے والے مذہبی راہنماتھے،آزادؔ سیاسی طور پر کانگریسی اور مسلکی اعتبار سے پکے ‘‘دیوبندی’’ تھےاگرچہ اپنی ‘‘ابوالکلامی’’ کا اظہارکرتے ہوئے تقلید آئمہ اور اپنے اسلاف جیسے والا بزرگ مولاناخیرالدین، مولانا منورالدین وغیرہ جو پکّے اور متصلّب اہل سنت تھےاور اسماعیل دہلوی و تقویتہ الایمانی تصورتوحید کے سخت مخالف تھے ، ان سے بیزاری کا اکثراظہار کرتے رہتے تھے (اُن کی اپنی کتاب‘‘تذکرہ’’ کے مندرجات اس پر بطورسندودلیل کافی ہے) مولانا آزادؔ نے بھی ترجمۂ قرآن اور ‘‘ترجمان القرآن’’کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھی ، مولاناآزادؔ کا ترجمۂ قرآن ۱۳۵۰ھ/۱۹۳۱ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا ۔ آزادؔ نے اپنے اس ترجمے میں ‘‘سورۂ الضحیٰ’’ کا ترجمہ کرتے ہوئے زیربحث آیت کریمہ کا ترجمہ بایں الفاظ کیا ! ‘‘اے پیغمبر ! ہم نے دیکھا کہ ہماری تلاش میں ہو ۔ ہم نے خود ہی تمہیں اپنی راہ دکھلادی’’۔ (ترجمان القرآن جلدسوم،ص:۱۸۴،چشتی) آزادؔ کا یہ ترجمہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمۂ کنزالایمان کی بڑی حد تک تائید کرتا ہے۔ الفاظ کے فرق کے باوجود مفہوم قریب قریب ایک ہی ہے ۔

تفسیر عثمانی دیوبندکے شیخ الہند مولوی محمودالحسن نے‘‘موضح الفرقان’’ کے نام سے قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء میں مکمل ہوا ۔ مترجم نے تکمیل ترجمہ کے بعد اس کے حواشی بھی لکھنا شروع کیے مگر وہ صرف ‘‘سورۂ آل عمران’’ تک حواشی لکھ سکے بعد میں ان حواشی کو ان کے شاگرد مولوی شبیر احمد عثمانی نے مکمل کیا ۔ جو تفسیر عثمانی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ مولوی محمودالحسن نے ترجمہ تو خالص دیوبندی فکر کے مطابق ہی کیا ہے لیکن شبیر احمد عثمانی نے اس پر جو حاشیہ لکھا ہے وہ قابل توجہ ہے ملاحظہ ہو : ‘‘جب حضرت جوان ہوئے قوم کے مشرکانہ اطواراور بیہودہ رسم و راہ سے سخت بیزار تھے۔ اورقلب میں خدائےواحد کی عبادت کاجذبہ پورے زورکے ساتھ موجزن تھا ۔ عشق الٰہی کی آگ سینۂ مبارک میں بڑی تیزی سے بھڑک رہی تھی۔ وصول الی اللہ اور ہدایت خلق کی اس اکمل ترین استعداد کا چشمہ جو تمام عالم سے بڑھ کر نفس قدسی میں ودیعت کیاگیا تھااندر ہی اندر جوش مارتاتھا۔ لیکن کوئی صاف کھلا ہوا راستہ اور مفصل دستورالعمل بظاہر دکھائی نہیں دیتا تھا ۔ جس سے اس عرش و کرسی سے زیادہ وسیع قلب کو تسکین ہوتی ۔ اسی جوش طلب اور فرط محبت میں آپ بے قراراورسرگرداں پھرتےاورغاروں اور پہاڑوں میں جاکر مالک کو یاد کرتے اور محبوب حقیقی کو پکارتے ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ‘‘غارحرا’’ میں فرشتے کو وحی دے کر بھیجا اور وصول الی اللہ اور اصلاح خلق کی تفصیلی راہیں آپ پر کھول دیں یعنی دین حق نازل فرمایا ‘‘مَاکُنتَ تَد رِی مَاالکِتٰبُ وَلَاالاِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلنٰہُ نُوراً نَّھدِ ی بِہٖ مَن نَشَاءُ مِن عِبَادِ نَا’’ (شوریٰ رکوع۵) (تنبیہ) یہاں ‘‘ضَآلًّا’’ کے معنی کرتے وقت ِِسورۂ یوسف’’ کی آیت ‘‘قَالُوا تَاللہِ اِنَّکَ لَفِی ضَلٰلِکَ القَدِ یمِ O’’کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ (تفسیر عثمانی،بذیل حواشی سورۃ الضحیٰ، ص:۷۷۹،۷۷۸،مطبوعہ دارالتصنیف کراچی،چشتی) اب ذراعثمانی صاحب کا سورۂ یوسف کی مذکورہ آیت پر لکھا گیا حاشیہ بھی ملاحظہ ہو ، لکھتےہیں : ‘‘یعنی یوسف کی محبت ، اس کے زندہ ہونے اور دوبارہ ملنے کا یقین تیرے دل میں جاگزیں ہے ، وہی پرانے خیالات ہیں جو یوسف کی خوشبوبن کردماغ میں آتےہیں’’۔ ایضاً بذیل حواشی سورۂ یوسف آیت نمبر۹۵،ص:۳۱۹،حاشیہ:۱ عثمانی صاحب کے اوّل الذکرحاشیہ سے اشارۃ النص سے اور ثانی الذکر حاشیے سے بطور ‘‘عبارۃ النص’’ ثابت ہواکہ ‘‘ضآل’’کا معنی صرف گمراہ ہونا اور بھٹکنا ہی نہیں ہیں ۔ بلکہ کسی کی محبت کا محبت کا غالب آجانا اور کسی کی محبت میں وارفتہ ہوجانے کا معنی بھی پایاجاتاہے ۔ اگرایسا نہ ہوتا تو مولاناعثمانی کبھی‘‘لَفِی ضَلٰلِکَ القَدِ یمِ’’کا معنی ‘‘یوسف کی محبت’’نہ کرتے عثمانی صاحب اپنے حواشی میں صرف امام اہل سنت مولانا شاہ احمدرضاخاں رحمۃ اللہ علیہ کے بیان فرمودہ ترجمے ‘‘آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ پایا’’کی تائید و تصدیق کر رہے ہیں ۔ لیکن حیرت ہے کہ موصوف کے استاد اور مترجم مولوی محمودالحسن صاحب کی نظر اس معنی کی طرف کیوں نہ گئی ؟ مقام رسالت سے اس قدر بے خبری کو غلط فکری اور بدعقیدگی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔

ایک اور شہادت پروفیسرمولوی فیروزالدین روحی دیوبند نے سورۂ والضحیٰ کی زیر بحث آیتِ مبارکہ کا ترجمہ یوں کیا ہے : ‘‘اورآپ کو طالب پایا تو ہدایت دی’’ اس ترجمہ پر اپنے تفسیری حاشیہ میں لکھتے ہیں : ‘‘پھرآپ کس طرح قلبی اضطراب میں مبتلا تھے کہ کسی طرح دنیا کی ضلالت اور کفروشرک کا ازالہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے اس دلی تڑپ اور شوق کو اس طرح پورا کر دیا کہ اس نے آپ کو منصب نبوت و رسالت پرتفویض فرما کر ہدایت کی وہ راہ بتادی جس پر گامزن ہو کر کفر و شرک کی گند میں مبتلا لوگ نورہدایت سے اپنے قلوب کے گند کا ازالہ کرلیں’’َ۔ (قرآن کریم اردوترجمہ مع مختصر تفسیر،پارہ ۳۰،ص:۶۷مطبوعہ ادارۂ تبلیغ القرآن نمبر۱۱۸، گولیمار کراچی)
پروفیسرروحی اپنے زیرنظر آیت کریمہ کے ترجمے اور اس کے حاشیے میں ضلات و گمراہی کی نسبت حضور پُر نور مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف نہیں بلکہ‘‘قلبی اضطراب’’ یعنی محبت الٰہی میں خود رفتگی کی نسبت کرتے ہوئےعام لوگوں کی ضلالت وگمراہی اور کفروشرک میں مبتلا ہونے کو بیان کرکے آیت کے مفہوم کو واضح کر رہے ہیں کہ العیاذباللہ گمراہ اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے حضور مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے جن کی طرف آپ نبی بن کر مبعوث ہوئے تھے ۔ یہ ایک مُسَلِّمَہ حقیقت ہے کہ قلب مصطفیٰ مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں جہاں محبت الٰہی کا بحرنا پیدا کنار موجزن تھا وہاں قلب اطہر اس حوالے سے بھی مضطرب رہتا تھا کہ بادیۂ ضلالت میں گم کردہ راہ لوگ میری دعوت حق پر ایمان کیوں نہیں لاتے ۔ آپ مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تسلی بھی دی گئی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفسَکَ اَلَّا یَکُونُوامُؤمِنِینَ O (الشعراء۳:۲۶،چشتی) ‘‘(اے حبیب مکرم!) کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤگے اُن کے غم میں کہ وہ ایمان نہیں لائے’’۔ بلاشبہ یہ امام احمدرضاخاں رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے ترجمے‘‘کنزالایمان’’کے فکری اثرات ہیں کہ ایسے چراغ روشن کیئے ہیں جن کے ذریعے اعتقادی بے راہ روی کے اندھیرے خودبخود چھٹ جاتے ہیں۔اور ہر صحیح العقل سلیم الفطرت شخص جادۂ مستقیم کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ جو یقیناًفکر رضا کےصحیح و صواب ہونے کی بین دلیل ہے ۔ جدید مترجمین قرآن پر اثرات جس طرح یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید ایک ابدی اور دائمی شان رکھنے والی آخری الہامی کتاب ہے تو یہ بات بھی بغیر کسی شک و شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ قرآن مجید کے تراجم میں سے کنزالایمان بھی اپنے اندریہ شان رکھتا ہے ، جس طرح قرآن کی تاثیر ہر دور میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اسی طرح کنزالایمان بھی اپنے تاثرات مرتب کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس نے صرف علوم قدیمہ کے ماہرین کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ عصری علوم کے ماہرین و ارباب علم و دانش کے قلوب واذھان کو بھی مسخر کیا ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے قرآن و سنت کے پیغام کی اشاعت کے حوالے سے جن اہل علم نے شہرت پائی ہے اُن میں سے ایک نام حضرت سید محمد وجیہ السیماعرفانی علیہ الرحمتہ کا بھی ہے ۔ موصوف جدید ذہن رکھنےوالے روشن خیال عالم اور سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے نامور شیخ بھی تھے ۔ آپ سورۂ والضحیٰ کی اس آیت کریمہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : ‘‘اور آپ کو مقصود کی چاہت میں گم گشتہ دیکھا تو مقصود تک پہنچادیا’’۔ (عرفان القرآن، سورۂ والضحیٰ،۷:۹۳) یاد رہے کہ موصوف نے ‘‘عرفان القرآن’’ کے نام سے قرآن مجید کا عمدہ اور شستہ و رواں ترجمہ کیا ہے ۔‘‘ ضَآلًّا فَھَدٰ ی’’کا ترجمہ مقصود کی چاہت اور مقصود تک پہنچادینا ، ایک عمدہ تعبیر ہے ۔ اور مقام رسالت کے آداب کے تقاضوں کے بھی قریب تر ہے ۔ اس لیئے کہ حضور نبی رحمت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصود و مطلوب ذاتِ حق کے سوا اور کچھ نہ تھا ، مترجم نے اپنے ترجمہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اسی طرح موصوف ‘‘سورۂ یوسف’’ میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کی بات جس کو قرآن نے ذکرکرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے! ‘‘قَالُوا تَا للہِ لَفِی ضَلٰلِکَ القَدِ یم’’ ‘‘کہنے لگے خداکی قسم آپ تو محبت کے اسی پرانے غلبے میں گرفتارہیں’’۔ بیٹوں نے ‘‘ضلال’’ کی نسبت حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے کی طرف کی تھی حضرت مترجم نے اسی نسبت کو ملحوظ رکھتےہوئے اس کا ترجمہ ‘‘غلبۂ محبت’’ انتہائی مؤدب الفاظ میں کیا ہے، مقام نبوت کا یہی تقاضا تھا۔ جو ترجمے میں نمایاں طور پر نظرآتا ہے ۔

جامعہ اسلامیہ (اسلامی یونیورسٹی) بہاولپورکے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سید حامدحسن بلگرامی کا نام اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان کے علمی حلقوں میں کسی قسم کے تعارف کا محتاج نہیں ۔ موصوف نے‘‘فیوض القرآن’’ کے نام سے قرآن مجید کا بڑا ہی وجد آفریں ایمان افروز ترجمہ کیا ہے جس کوپڑھتے ہوئے قلب و روح اپنے اندر تازگی محسوس کرتے ہیں علاوہ ازیں اس ترجمے کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ تمام مکاتب فکر کے اکابرعلمانے اس کی تائید و توثیق کی ہے ۔ اکابرین اہل سنت میں سے استاذی المکرّم حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت ضیاءالامت پیرمحمدکرم شاہ الازہری رحمتہ اللہ علیہ اور زینت مسند فقہ حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی اس کے مؤیدین میں شامل ہیں : اکابر زعمائے ملت کے مؤید اس ترجمے میں سورۃ والضحیٰ کی زیر بحث آیت مبارکہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو : ‘‘اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو(سرکشتۂ شوق، وادی عشق الٰہی میں) سرگرداں پایاتو(اس نے) آپ کو منزل مقصود پر پہنچایا (غارحراسےاُٹھاکرتبلیغ کے فرائض سونپے کہ دنیااپنے ہادی کو دیکھے، ہدایت پائے)’’۔ (فیوض القرآن،سورۂ والضحیٰ۷:۹۳)

محترم قارئین : بے شک ضلال میں بے خبری کا معنی پایا جاتا ہے اور بےخبرہونا ضلال کا تقاضا بھی ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جس چیز کی بے خبری ؟ کسی نے اس بےخبری کو راہ شریعت سے بے خبری پر محمول کیا ، کسی نے راہ ہدایت سے بے خبری پر اور کسی نے راہ حق سے عدم آگہی پر لیکن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ نے اسے وفورِ محبت میں خود سے بے خبری پر محمول کیا ۔ یعنی حضور مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وفور محبت الٰہی میں اس قدر مستغرق تھے کہ آپ کو اپنی ذات تک کی خبر نہ رہی ۔ تاریخی تناظرمیں بھی یہی حق وصواب ہے کہ حضور مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بعثت سے پہلے چالیس چالیس روز غارحرا کی تنہائیوں میں یاد الٰہی میں مصروف رہتے تھے ۔ چنانچہ ختمی مرتبت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عشقِ الٰہی میں استغراق و محویت کی اسی کیفیت کو ترجمے کے قالب میں ڈھالتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ترجمہ فرمایا :‘‘اور تمہیں اپنی محبت میں خودرفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی’’ یعنی اے محبوب مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب تیری محبت و محویت اس کمال تک پہنچ گئی کہ تجھے نہ اپنی خبر رہی نہ دنیا و مافیھا کی یعنی جب تیرا استغراق و انہماک اپنے نقطۂ عروج کو چھونے لگا تو‘‘فَھَدٰ ی’’ ہم نے تمام حجابات مرتفع کردیئے ۔ تمام پردے اٹھادیئے ۔ تمام دوریاں مٹادیں ۔ تمام فاصلے سمیٹ دیئے اور اپنی بارگاہ صمدیت میں مقالم محبوبیت پر فائزکر دیا ۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے محبّ ومحبوب کے مابین چاہت و محبت کی کیفیات اور کمال درجہ احوال و دلربائی کا لحاظ کرتے ہوئے اس انداز سے ترجمہ کیا کہ لغت و ادب کے تقاضے بھی پورے ہوگئے اور بارگاہ رسالت مآب مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ادب کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پایا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔