اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟ عقیدہ اہلسنّت و جماعت
اللہ تعالیٰ ہماری شہ رگ (یعنی ہماری جان) سے بھی ہمارے زیادہ قریب ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ جہت ، مکان ، زمان ، حرکت،سکون ، شکل ،صورت اور جمیع حوادث سے پاک ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔ ”اذا سألک عبادی عنی فانی قریب “جب تجھ سے میرے متعلق میرے بندے سوال کریں تو میں قریب ہوں ۔ (القرآن الکریم ۲/ ۱۸۶) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے ۔ ”نحن اقرب الیہ من حبل الورید “ ہم تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں ۔ ( القرآن الکریم ۵۰/ ۱۶)
صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں : یہ کمالِ علم کا بیان ہے کہ ہم بندے کے حال کو خود اس سے زیادہ جاننے والے ہیں ،''وَرِید''وہ رَگ ہےجس میں خون جاری ہو کر بدن کے ہر ہرجُزو (یعنی حصّے) میں پہنچتا ہے، یہ رگ گردن میں ہے ۔ معنیٰ یہ ہیں کہ انسان کے اَجزاء ایک دوسرے سے پردے میں ہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی چیز پردے میں نہیں ۔ (خَزَائِنُ الْعِرْفَان صفحہ نمبر 826)
مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہماری جان سے بھی ہمارے زیادہ قریب ہے
اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادی محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہے ۔ (۱) اﷲ عزوجل کے لئے مکان ماننا کفر ہے، بحرالرائق جلد پنجم ص۱۲۹ میں ہے: یکفر بقولہ یجوز ان یفعل اﷲ فعلا لاحکمۃ فیہ وباثبات المکان ﷲتعالٰی۲؎۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اﷲ تعالٰی سے ایسے فعل کا صدور ممکن ہے جس میں حکمت نہ ہوتو وہ کافر ہے یا وہ اﷲ تعالٰی کے مکان کا اثبات تسلیم کرتا ہے(ت) (۲؎ بحرالرائق باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۱۲۰) فتاوٰی قاضی خاں فخر المطابع جلد چہارم ص۴۳۰: یکون کفر الان اﷲ تعالٰی منزہ عن المکان۳؎۔ کافر ہوجائے گاکیونکہ اﷲ تعالٰی مکان سے پاک ہے(ت) (۳؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب السیر باب یکون کفراً وما لایکون کفرا نولکشور لکھنؤ ۴/ ۸۸۴) فتاوٰی خلاصہ قلمی کتاب الفاظ الکفر فصل ۲،جنس۲: یکفر لانہ اثبت المکان ﷲتعالٰی۴؎۔ وہ کافر ہے کیونکہ اس نے اﷲ تعالٰی کیلئے مکان ثابت کیا ہے(ت) (۴؎ خلاصۃ الفتاوٰی فصل الثانی فی الفاظ الکفر مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴/ ۳۸۴) فتاوٰی عالمگیری مطبع مصر جلد دوم ص۱۲۹: یکفرباثبات المکان ﷲ تعالی۱؎۔ اﷲ تعالٰی کے لئے مکان ثابت کرنا کفر ہے(ت) (۱؎ فتاوٰی ہندیہ موجبات الکفر انواع نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۵۹) جامع الفصولین جلد دوم ص،۲۹۸) فتاوٰی ذخیرہ سے : قال، اﷲ فی السماء عالم لوارادبہ المکان کفر۲؎۔ کسی نے کہا اﷲ تعالٰی آسمان میں عالم ہے اگر اس سے مراد مکان لیا ہےتو کفر ہے(ت) (۲؎ جامع الفصولین فصل الثامن والثلاثون فی مسائل کلمات الکفر اسلامی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۹۸) (۲) مولٰی عزوجل کے لئے جہت ماننا بھی صریح ضلالت وبددینی ہے اور بہت ائمہ نے تکفیر فرمائی__شاہ عبدالعزیز صاحب کی تحفہ اثناء عشریہ طبع کلکتہ ۲۵۵بیان عقائد اہلسنت وجماعت میں ہے: عقیدہ سیزدہم آنکہ حق تعالٰی را مکان نیست واورا جہتے از فوق متصور وہمیں ست مذہب اہل سنت وجماعت۳؎۔ تیرھواں عقیدہ یہ ہے کہ حق تعالٰی کیلئے مکان نہیں اور نہ اس کے لئے کوئی جہت نہ فوق اور نہ تحت، اور یہی اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے(ت) (۳؎ تحفہ اثنا عشریہ باب پنجم درالٰہیات سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۴۱) امام ابن حجر مکی کی اعلام بقواطع الاسلام طبع مصرص۱۵ بعد نقل کلام امام حجۃ الاسلام غزالی: ھکذا کما تری ظاھر تکفیر القائلین بالجھۃ۴؎۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں جو لوگ جہت کے قائل ہیں ان کا کافر ہونا واضح ہے(ت) (۴؎ اعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ مقدمہ کتاب مکتبۃ الحقیقیہ استنبول ترکی ص۳۵۱) اسی میں ان کلمات میں جو ہمارے ائمہ کے نزدیک بالاتفاق کفرہیں ص۳۲پر ہے: اوقال اﷲ تعالٰی فی السماء عالم او علی العرش وعنی بہ المکان او لیس لہ نیۃ او قال ینظر الیناویبصرنا من العرش، او قال ھو فی السماء او علی الارض، او قال لایخلومنہ مکان او قال اﷲ تعالٰی فوق وانت تحتہ اھ(ونازعہ ابن حجرفی قولہ لیس لہ نیۃ فقال فی الکفر نظر فضلا عن کونہ متفقا علیہ لان النیۃ القصد، وقد ذکر النووی عفااﷲ تعالٰی عنہ فی شرح المھذب انہ یقال قصداﷲ کذابمعنی اراد فمن قال لیس لہ نیۃ ای قصد فان ارادانہ لیس قصد کقصد نافواضح، وکذا ان اطلق اوارادانہ لاارادۃ لہ اصلا فان ارادالمعنی الذی تقولہ المعتزلۃ فلاکفر ایضا، اوارادسلبھا مطلقا لابالمعنی الذی یقولونہ فھو کفر۱؎اھ اقول رحم اﷲ الشیخ لیس لہ نیۃ لیس من الفاظ الکفر بل ھو عطف علی قولہ عنی بہ المکان ای یکفران اراد المکان، اواطلق ولم ینوشیئا قال فی البحرالرائق ان قال اﷲ فی السماء فان قصد حکایۃ ماجاء فی ظاھر الاخبار لایکفروان اراد المکان کفر وان لم یکن لہ نیۃ کفر عند الاکثر وھوالاصح وعلیہ الفتوی۲؎اھ۔ یا کہتا ہے کہ وہ آسمان میں عالم ہے یا عرش پر، اور اس سے مراد مکان لیتا ہے یا اسکی کوئی نیت نہیں یا کہتا ہے کہ اﷲ تعالٰی ہم کوعرش سے دیکھتا ہے، یا کہتا ہے وہ آسمان میں ہے یا زمین پر، یا کہتا ہے اس سے کوئی مکان خالی نہیں، یا کہتا ہے اﷲ تعالٰی اوپر ہے اورتو نیچے اھ ابن حجر نے ''لیس لہ نیۃ''کی صورت میں اختلاف کیا اور کہا کہ اس صورت میں کفر میں اختلاف ہے چہ جائیکہ کفر بالاتفاق ہو کیونکہ نیت قصد کا نام ہے۔ امام نووی نے شرح المہذب میں کہا کہ جو کہا جاتا ہے قصد اﷲ کذا یعنی اﷲتعالٰی نے ارادہ فرمایا کے معنٰی میں ہوتا ہے اور جس نے کہا''اﷲ کے لئے نیت نہیں'' یعنی قصد نہیں، اگر اس کی مراد یہ ہے کہ اسی طرح اگریہ کلمہ مطلقا ذکر کیا یا یہ مراد لیا کہ اﷲتعالٰی کے لئے کوئی ارادہ نہیں ، اب اگر وہ معنٰی مراد لیا جو معتزلہ کہتے ہیں تو وہ بھی کفر نہیں یا مراد یہ ہے کہ مطلقاً ارادہ کی نفی ہے نہ کہ وہ معنٰی جو معتزلہ کا قول،تو پھر کفر ہے اھ اقول اﷲ تعالٰی شیخ پر رحم فرمائے ''اس کی نیت نہیں''یہ الفاظ کفر میں سے نہیں بلکہ اس کا عطف''اس نے مکان مراد لیا'' پر ہے یعنی وہ کافر ہوجائے گا جب اس نے مکان مراد لیا یا اس نے کلمہ بولا اور اس سے کوئی ارادہ نہ کیا، بحرالرائق میں ہے کہ اگرکسی نے کہا''اﷲ آسمان میں ہے''اگر تو اس نے وہ مراد لیا جو ظاہراً اخبار میں ہے تو پھر کافر نہیں، اور اگر اس نے مکان مراد لیا تو کفر ہوگا اور اگر اس نے کوئی ارادہ نہ کیا تو اکثر کے نزدیک وہ کافر ہے اور یہی اصح ہے اور اسی پر فتوٰی ہے۔(ت) (۱؎ اعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ فصل اول مکتبۃالحقیقیہ استنبول ترکی ص۳۶۷) (۲؎ بحرالرائق باب احکام المرتدین ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۵/ ۱۲۰) نیز اسی کے فصل کفر متفق علیہ میں ہے ص۳۹: اوشبھہ تعالٰی بشیئ اووصفہ بالمکان او الجہات۱؎۔ یا اس نے اﷲ تعالٰی کو کسی شیئ کے ساتھ مشابہت دی یا مکان یا جہت کے ساتھ اس کا وصف بیان کیا۔(ت) (۱؎ اعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ فصل اول مکتبۃ الحقیقیہ استنبول ترکی ص۳۷۴) ۔ (فتاوٰی رضویہ :ج۱۴،ص۵۰۔۵۱،چشتی)
اس طرح کے ایک اورسوال کے جواب میں اامام اہلسنت امام احمد رضا خان قادی محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ضرب ۶۸: مدارک شریف سورہ اعراف میں ہے: انہ تعالٰی کان قبل العرش ولا مکان و ھو الاٰن کما کان ، لان التغیرمن صفات الاکوان ۔۱ بے شک اﷲ تعالٰی عرش سے پہلے موجود تھا جب مکان کا نام و نشان نہ تھا اور وہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا جب تھا اس لیے کہ بدل جانا تو مخلوق کی شان ہے۔ ( ۱ ؎ مدارک التنزیل(تفسیر النسفی) آیت ۷/ ۵۴دارالکتاب العربی بیروت ۲ /۵۶) ضرب ۶۹ : یونہی سورہ طٰہٰ میں تصریح فرمائی کہ عرش مکانِ الہی نہیں ، اللہ عزوجل مکان سے پاک ہے، عبارت سابقاً منقول ہوئی۔ ضرب ۷۰: سورہ یونس میں فرمایا : ای استولی فقد یقدس الدیان جل و عزعن المکان والمعبود عن الحدود ۔۲ استواء بمعنی استیلاء وغلبہ ہے نہ بمعنی مکانیت اس لیے کہ اﷲ عزوجل مکان سے پاک اور معبود جل و علا حدو نہایت سے منزہ ہے۔ ( ۲ ؎ مدارک النتزیل (تفسیرالنسفی) آیت ۱۰/ ۳ دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۱۵۳) ہزار نفرین اُس بیحیا آنکھ کو جو ایسے ناپاک بول بول کر ایسی کتابوں کا نام لیتے ہوئے ذرا نہ جھپکے۔ ضرب ۷۱ : امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں امام اجل ابوعبداﷲ حلیمی سے زیر اسم پاک متعالی نقل فرماتے ہیں: معناہ المرتفع عن ان یجوز علیہ مایجوز علی المحدثین من الازواج والاولادو الجوارح والاعضاء واتخاذ السریرللجلوس علیہ، والا حتجاب بالستورعن ان تنفذ الابصار الیہ، و الانتفال من مکان الٰی مکان ، ونحو ذلک فان اثبات بعض ھذہ الاشیاء یوجب النہایۃ وبعضہا یوجب الحاجۃ، وبعضہا یوجب التغیر والاستحالۃ، و شیئ من ذٰلک غیر لا ئق بالقدیم ولا جائز علیہ ۔۱ یعنی نام الہٰی متعالی کے یہ معنی ہیں کہ اللہ عزوجل اس سے پاک و منزہ ہے کہ جو باتیں مخلوقات پر روا ہیں جیسے جورو، بیٹا ، آلات، اعضاء ، تخت پر بیٹھنا، پردوں میں چھپنا ، ایک مکان سے دوسرے کی طرف انتقال کرنا( جس طرح چڑھنے، اُترنے ، چلنے، ٹھہرنے میں ہوتا ہے) اس پر روا ہوسکیں اس لیے کہ ان میں بعض باتوں سے نہایت لازم آئے گی بعض سے احتیاج بعض سے بدلنا متغیر ہونا اور ان میں سے کوئی امر اﷲ عزوجل کے لائق نہیں، نہ اس کے لیے امکان رکھے ۔ (۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جماع ابواب ذکر الاسماء التی تتبع نفی التشبیہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل ۲ /۷۱ و۷۲) کیوں پچتا ئے تو نہ ہوگے کتاب الاسماء کا حوالہ دے کر، تف ہزار تُف وہابیہ مجسمہ کی بے حیائی پر۔ ضرب ۷۲: باب ماجاء فی العرش میں امام سلیمٰن خطابی علیہ الرحمۃ سے نقل فرماتے ہیں: لیس معنی قول المسلمین ان اﷲ تعالٰی استوٰی علی العرش ھوانہ مماس لہ او متمکن فیہ ، اومتحیز فی جہۃ من جہاتہ، لکنہ بائن من جمیع خلقہ، وانما ھو خبرجاء بہ التوقیف فقلنا بہ، ونفینا عنہ التکیف اذ لیس کمثلہ شیئ وھو السمیع العلیم ۔۱ مسلمانوں کے اس قول کے کہ اللہ تعالٰی عرش پر ہے، یہ معنی نہیں کہ وہ عرش سے لگایا ہوا ہے یا وہ ا س کا مکان ہے یا وہ اس کی کسی جانب میں ٹھہرا ہوا ہے بلکہ وہ تو اپنی تمام مخلوق سے نرالا ہے یہ تو ایک خبر ہے کہ شرع میں وارد ہوئی تو ہم نے مانی اور چگونگی اس سے دور و مسلوب جانی اس لیے کہ اللہ کے مشابہ کوئی چیز نہیں اور وہی ہے سننے دیکھنے والا۔ ( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی العرش والکرسی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۳۹) ضرب ۷۳: اس سے گزرا کہ اﷲ عزوجل کے علو سے اس کا امکان بالا میں ہونا مراد نہیں، مکان اسے نہیں گھیرتا۔ ضرب ۷۴: نیز یہ کلیہ بھی گزرا کہ جو اجسام پر روا ہے اﷲ عزوجل پر روا نہیں۔ ضرب ۷۵ : اُسی میں یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے طبقات آسمان پھر ان کے اوپر عرش پھر طبقاتِ زمین کا بیان کرکے فرمایا: والذی نفس محمد بیدہ لو انکم دلیتم احدکم بحبل الی الارض السابعۃ لھبط علی اﷲ تبارک وتعالٰی ثم قرأرسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و ھو الاول والاخرو والظاہر والباطن ۔۲ قسم اس کی جس کے دستِ قدرت میں محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جان ہے اگر تم کسی کو رسی کے ذریعہ سے ساتویں زمین تک لٹکاؤ تو وہاں بھی وہ اﷲ عزوجل ہی تک پہنچے گا۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ اﷲ ہی ہے اول و آخرو ظاہر و باطن۔ ( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جماع ابواب ذکر الاسماء التی تتبع نفی التشبیہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل ۲/ ۱۴۴) اس حدیث کے بعد امام فرماتے ہیں: الذی روی فی اٰخر ھٰذا الحدیث اشارۃ الٰی نفی المکان عن اﷲ تعالٰی وان العبداینما کان فہو فی القرب والبعد من اﷲ تعالٰی سواء وانہ الظاھر، فیصح ادراکہ بالدلا لۃ، الباطن فلا یصح ادراکہ بالکون فی مکان ۔۳ ؎ اس حدیث کا پچھلا فقرہ اﷲ عزوجل سے نفی مکان پر دلالت کرتا ہے اور یہ کہ بندہ کہیں ہو اﷲ عزوجل سے قُرب و بعد میں یکساں ہے، اور یہ کہ اللہ ہی ظاہر ہے تو دلائل سے اُسے پہچان سکتے ہیں اور وہی باطن ہے کسی مکان میں نہیں کہ یوں اسے جان سکیں۔ (۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جماع ابواب ذکر الاسماء التی تتبع نفی التشبیہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل ۲/ ۱۴۴،چشتی) اقول : یعنی اگر عرش اُس کا مکان ہوتا تو جو ساتویں زمین تک پہنچا وہ اس سے کمال دوری و بعد پر ہوجاتا نہ کہ وہاں بھی اﷲ ہی تک پہنچتا، اور مکانی چیز کا ایک آن میں دو مختلف مکان میں موجود ہونا محال اور یہ اس سے بھی شنیع تر ہے کہ عرش تا فرش تمام مکانات بالا و زیریں دفعۃً اس سے بھرے ہوئے مانوکہ تجزیہ وغیرہ صدہا استحالے لازم آنے کے علاوہ معاذ اﷲ اﷲ تعالٰی کو اسفل وادنی کہنا بھی صحیح ہوگا لاجرم قطعاً یقیناً ایمان لانا پڑے گا کہ عرش وفرش کچھ اس کا مکان نہیں، نہ وہ عرش میں ہے نہ ماتحت الثرٰی میں، نہ کسی جگہ میں ہاں اس کا علم و قدرت و سمع و بصرو ملک ہر جگہ ہے ۔ جس طرح امام ترمذی نے جامع میں ذکر فرمایا: واستدل بعض اصحابنا فی نفی المکان عنہ تعالٰی بقو ل النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انت الظاہر فلیس فوقک شیئ وانت الباطن فلیس دونک شیئ واذا لم یکن فوقہ شیئ ولادونہ شیئ لم یکن فی مکان ۔۱ یعنی اور بعض ائمہ اہلسنت نے اللہ عزوجل سے نفی مکان پر نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس قول سے استدلال کیا کہ اپنے رب عزوجل سے عرض کرتے ہیں تو ہی ظاہر ہے توکوئی تجھ سے اوپر نہیں ، اور تو ہی باطن ہے تو کوئی تیرے نیچے نہیں ، جب اللہ عزوجل سے نہ کوئی اوپر ہوا نہ کوئی نیچے تو اللہ تعالٰی کسی مکان میں نہ ہوا۔ ( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی العرش والکرسی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۴۴) یہ حدیث صحیح مسلم شریف و سنن ابی داؤد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ورواہ البیھقی فی الاسم الاول و الاخر (اسے بیہقی نے اسم اول و آخر میں ذکر کیا ہے۔ت) اقول : حاصل دلیل یہ کہ اﷲ عزوجل کا تمام امکنہ زیر و بالا کو بھرے ہونا تو بداہۃً محال ہے ورنہ وہی استحالے لازم آئیں ، اب اگر مکان بالا میں ہوگا تو اشیاء اس کے نیچے ہوں گی اور مکان زیریں میں ہوا تو اشیاء اُس سے اوپر ہوں گی اور وسط میں ہوا تو اوپر نیچے دونوں ہوں گی حالانکہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی وسلم فرماتے ہیں، نہ اس سے اوپر کچھ ہے نہ نیچے کچھ ، تو واجب ہوا کہ مولٰی تعالٰی مکان سے پاک ہو۔ ضرب ۷۷ : عرش فرش جگہ کو معاذ اﷲ مکانِ الہٰی کہو اﷲ تعالٰی ازل سے اس میں متمکن تھا یا اب متمکن ہوا، پہلی تقدیر پر وہ مکان بھی ازلی ٹھہرا اور کسی مخلوق کو ازلی ماننا باجماع مسلمین کفر ہے دوسری تقدیر پر اﷲ تعالٰی عزوجل میں تغیر آیا اور یہ خلافِ شان الوہیت ہے۔ ضرب ۷۸ : اقول: مکان خواہ بعد موہوم ہو یا مجرد یا سطح حاوی مکین کو اُس کا محیط ہونا لازم،محیط یامماس بعض شے مکان یا بعض مکان ہے نہ مکان شے ، مثلاً ٹوپی کو نہیں کہہ سکتے کہ پہننے والے کا مکان ، تم جوتا پہنے ہو تو یہ نہ کہیں گے کہ تمہارا مکان جوتے میں ہے، تو عرش اگر معاذ اﷲ مکان الہٰی ہو لازم کہ اﷲ عزوجل کو محیط ہو، یہ محال ہے۔ قال اﷲ تعالٰی : وکان اﷲ بکل شیئ محیطا ۱ اﷲ تعالٰی عرش و فرش سب کو محیط ہے۔ وہ احاطہ جو عقل سے وراء ہے اور اس کی شان قدوسی کے لائق ہے اس کا غیر اسے محیط نہیں ہوسکتا۔ (۱القرآن الکریم ۴/ ۱۲۶) ضرب ۷۹: نیز لازم کہ اﷲ عزوجل عرش سے چھوٹا ہو۔ ضرب ۸۰: نیز محدود محصور ہو۔ ضرب ۸۱: ان سب شناعتوں کے بعد جس آیت سے عرش کی مکانیت نکالی تھی وہی باطل ہوگئی ، آیت میں عرش پر فرمایا ہے اور عرش مکانِ خدا ہو تو خدا عرش کے اندر ہوگا نہ کہ عرش پر۔ ضرب ۸۲: اقول : جب تیرے نزدیک تیرا معبود مکانی ہوا تو دو حال سے خالی نہیں جزء، لایتجزی کے برابر ہوگا یا اس سے بڑا ، اول باطل ہے کہ اس تقدیر پر تیرا معبود ہر چھوٹی چیز سے چھوٹا ہوا ، ایک دانہ ریگ کے ہزارویں لاکھوں حصے سے بھی کمتر ہوا، نیز اس صورت میں صد ہا آیات و احادیث عین و ید ووجہ و ساق وغیرہا کا انکار ہوگا کہ جب متشابہات ظاہر پر محمول ٹھہریں تو یہاں بھی معانی مفہومہ ظاہرہ مراد لینے واجب ہوں گے اور جزء لایتجزی کے لیے آنکھ، ہاتھ، چہرہ، پاؤں ممکن نہیں۔ اگر کہیے وہ ایک ہی جز ء اِن سب اعضاء کے کام دیتا ہے، لہذا ان ناموں سے مسمّٰی ہوا تو یہ بھی باطل ہے کہ اوّلاً تو اس کے لیے یہ اشیاء مانی گئی ہیں نہ یہ کہ وہ خود یہ اشیاء ہے۔ ثانیاً با عیننا اور بل یداہ کا کیا جواب ہوگا کہ جزء لایتجزی میں دو فرض نہیں کرسکتے۔ اور مبسوطتان تو صراحۃً اس کا ابطال ہے جو ہر فرد میں بسط کہاں، اور ثانی بھی باطل ہے کہ اس تقدیر پر تیرے معبود کے ٹکڑے ہوسکیں گے اس میں حصے فرض کرسکیں گے اور معبود حق عزجلالہ اس سے پاک ہے۔ ضرب ۸۳ : اقول: جو کسی چیز پر بیٹھا ہو اس کی تین ہی صورتیں ممکن، یا تو وہ بیٹھک اس کے برابر ہے یا اس سے بڑی ہے کہ وہ بیٹھا ہے اور جگہ خالی باقی ہے یا چھوٹی ہے کہ وہ پورا اس بیٹھک پر نہ آیا کچھ حصہ باہر ہے، اللہ عزوجل میں یہ تینوں صورتیں محال ہیں، وہ عرش کے برابر ہوتو جتنے حصے عرش میں ہوسکتے ہیں اس میں بھی ہوسکیں گے، اور چھوٹا ہو تو اسے خدا کہنے سے عرش کو خدا کہنا اولی ہے کہ وہ خدا سے بھی بڑا ہے اور بڑا ہو تو بالفعل حصے متعین ہوگئے کہ خدا کا ایک حصہ عرش سے ملا ہے ا ور ایک حصہ باہر ہے۔ ضرب ۸۴: اقول: خدا اس عرش سے بھی بڑا بنا سکتا ہے یا نہیں، اگر نہیں تو عاجز ہوا حالانکہ ان اﷲ علٰی کل شیئ قدیر ۔۱ بے شک اﷲ تعالٰی ہر چیز پر قادر ہے۔ ت) اور اگر ہاں تو اب اگر خدا عرش سے چھوٹا نہیں برابر بھی ہو تو جب عرش سے بڑا بناسکتا ہے اپنے سے بڑا بھی بناسکتا ہے کہ جب دونوں برابر ہیں تو جو عرش سے بڑا ہے خدا سے بھی بڑا ہے اور اگر خدا عرش سے بڑا ہی تو غیر متناہی بڑا نہیں ہوسکتا کہ لاتناہی ابعاد دلائل قاطعہ سے باطل ہے لاجرم بقدر متناہی بڑا ہوگا۔ مثلاً عرش سے دونا فرض کیجئے ، اب عرش سے سوائی ڈیوڑھی ، پون دگنی ،تگنی مقداروں کو پوچھتے جائیے کہ خدا ان کے بنانے پر قادر ہے یا نہیں، جہاں انکار کرو گے خدا کو عاجز کہو گے اور اقرار کرتے جاؤ گے تو وہی مصیبت آڑے آئے گی کہ خدا اپنے سے بڑا بناسکتا ہے۔ (۱ القرآن الکریم ۲/ ۲۰ و ۱۰۶ و ۱۰۹ و ۱۴۸) ضرب ۸۵: اقول : یہ تو ضرو رہے کہ خدا جب عرش پر بیٹھے تو عرش سے بڑا ہو ورنہ خدا اور مخلوق برابر ہوجائیں گے یا مخلوق اس سے بڑی ٹھہرے گی، اور جب وہ بیٹھنے والا اپنی بیٹھک سے بڑا ہے تو قطعاً اس پر پورا نہیں آسکتا جتنا بڑا ہے اتنا حصہ باہر رہے گا تو اس میں دو حصے ہوئے ایک عرش سے لگا اور ایک الگ۔ اب سوال ہوگا کہ یہ دونوں حصے خدا ہیں یا جتنا عرش سے لگا ہے وہی خدا ہے باہر والا خدائی سے جدا ہے یا اس کا عکس ہے یا اُن میں کوئی خدا نہیں بلکہ دونوں کا مجموعہ خدا ہے پہلی تقدیر پر دو خدا لازم آئیں گے، دوسری پر خدا و عرش برابر ہوگئے کہ خدا تو اتنے ہی کا نام رہا جو عرش سے ملا ہوا ہے۔ تیسری تقدیر پر خدا عرش پر نہ بیٹھا کہ جو خدا ہے وہ الگ ہے اور جو لگا ہے وہ خدا نہیں، چوتھی پر عرش خدا کا مکان نہ ہوا کہ وہ اگر مکان ہے تو اُتنے ٹکڑے کا جو اس سے ملا ہے اور وہ خدا نہیں۔ ضرب ۸۶: اقول : جو مکانی ہے اور جزء لایتجزے کے برابر نہیں اسے مقدار سے مفر نہیں اور مقدار غیر متناہی بالفعل باطل ہے اور مقدار متناہی کے افراد نامتناہی ہیں اور شخص معین کو اُن میں سے کوئی قدر معین ہی عارض ہوگی، تو لاجرم تیرا معبود ایک مقدار مخصوص محدود پر ہوا اس تخصیص کو علت سے چارہ نہیں مثلاً کروڑ گز کا ہے تو دو کروڑ کا کیوں نہ ہوا، دو کروڑ کا ہے تو کروڑ کا کیوں نہ ہوا، اس تخصیص کی علت تیرا معبود آپ ہی ہے یا اس کا غیر اگر غیر ہے جب تو سچا خداوہی ہے جس نے تیرے معبود کو اتنے یا اتنے گز کا بنایا، اور اگر خود ہی ہو تا ہم بہرحال اس کا حادث ہونا لازم کہ امورِ متساویۃ النسبۃ میں ایک کی ترجیح ارادے پر موقوف، اور ہر مخلوق بالا رادہ حادث ہے تو وہ مقدار مخصوص حادث ہوئی اور مقداری کا وجود بے مقدار کے محال، تو تیرا معبود حادث ہوا اور تقدم الشیئ علی نفسہ کا لزوم علاوہ۔ ضرب ۸۷: اقول: ہر مقدار متناہی قابل زیادت ہے تو تیرے معبود سے بڑا اور اس کے بڑے سے بڑا ممکن۔ ضرب ۸۸: اقول: جہات فوق و تحت دو مفہوم اضافی ہیں ایک کا وجود بے د وسرے کے محال ہر بچہ جانتا ہے کہ کسی چیز کو اوپر نہیں کہہ سکتے جب تک دوسری چیز نیچی نہ ہو، اور ازل میں اﷲ عزوجل کے سوا کچھ نہ تھا۔ صحیح بخاری شریف میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: کان اﷲ تعالٰی ولم یکن شیئ غیرہ ۱ ۔ اﷲ تعالٰی تھا اور اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ ( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب بدءِ الخلق باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی وھو الذی یبدؤ الخلق الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۵۳،چشتی) تو ازل میں اﷲ عزوجل کا فوق یا تحت ہونا محال اور جب ازل میں محال تھا تو ہمیشہ محال رہے گا ورنہ اﷲ عزوجل کے ساتھ حوادث کا قیام لازم آئے گا اور یہ محال ہے، کتاب الاسماء والصفات میں امام ابوعبداﷲ حلیمی سے ہے: اذاقیل ﷲ العزیز فانما یراد بہ الاعتراف لہ بالقدم الذی لا یتھیأ معہ تغیرہ عمالم یزل علیہ من القدرۃ والقوۃ و ذٰلک عائد الٰی تنزیہہ تعالٰی عما یحوز علی المصنوعین لاعراضھم بالحدوث فی انفسہم للحوادث ان تصیبہم وتغیرھم ۔۱ جب اﷲ تعالٰی کو عزیز کہا جائے تو اس سے اس کے قدم کا اعتراف ہے کہ جس کی بناء پر ازل سے اس کی قدرت و طاقت پر کوئی تغیر نہیں ہوا، اور اﷲ تعالٰی کی پاکیزگی کی طرف راجع ہے ان چیزوں سے جو مخلوق کے لیے ہوسکتی ہیں کیونکہ وہ خود اور ان کے حوادث تغیر پاتے ہیں۔(ت) ( ۱ ؎کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جماع ابواب ذکر الاسماء التی تتبع نفی التشبیہ الخ ، المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۱/ ۷۱) ضرب ۸۹: اقول: ہر ذی جہت قابل اشارہ حسیہ ہے کہ اُوپر ہوا تو اُنگلی اوپر کو اٹھا کر بتاسکتے ہیں، کہ وہ ہے اور نیچے ہوا تو نیچے کو، اور ہر قابل اشارہ حسیہ متحیز ہے اور متحیز جسم یا جسمانی ہے اور ہر جسم و جسمانی محتاج ہے اور اﷲ عزوجل احتیاج سے پاک ہے تو واجب ہوا کہ جہت سے پاک ہو، نہ اوپر ہو نہ نیچے، نہ آگے نہ پیچھے ، نہ دہنے نہ بائیں تو قطعاً لازم کہ کسی مکان میں نہ ہو۔ ضرب ۹۰: اقول: عرش زمین سے غایت بعد پر ہے اور اﷲ بندے سے نہایت قرب میں قال اﷲ تعالٰی : نحن اقرب الیہ من حبل الورید ۲ ؎ ہم تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔(ت) ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۵۰/ ۱۶) قال اﷲ تعالٰی : اذا سألک عبادی عنی فانی قریب ۳ ؎ جب تجھ سے میرے متعلق میرے بندے سوال کریں تو میں قریب ہوں۔(ت) ( ۳ ؎القرآن الکریم ۲/ ۱۸۶) تو اگر عرش پر اﷲ عزوجل کا مکان ہوتا اﷲ تعالٰی ہردور ترسے زیادہ ہم سے دور ہوتا ، اور وہ بنصِ قرآن باطل ہے۔ ضرب ۹۱: مولٰی تعالٰی اگر عرش پر چڑھا بیٹھا ہے تو اس سے اُتر بھی سکتا ہے یا نہیں، اگر نہیں تو عاجز ہوا اور عاجز خدا نہیں، اور اگر ہاں تو جب اُترے گا عرش سے نیچے ہوگا تو اس کا اسفل ہونا بھی ممکن ہوا اور اسفل خدا نہیں۔ ضرب ۹۲: اقول : اگر تیرے معبود کے لیے مکان ہے اور مکان و مکانی کو جہت سے چارہ نہیں کہ جہات نفس امکنہ ہیں یا حدود امکنہ ، تو اب دو حال سے خالی نہیں، یا تو آفتاب کی طرح صرف ایک ہی طرف ہوگا یا آسمان کی مانند ہر جہت سے محیط، اولٰی باطل ہے بوجوہ۔ اولاً آیہ کریمہ وکان اﷲ بکل شیئ محیطا ۔۱ (اللہ تعالٰی کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے۔ت) کے مخالف ہے۔ ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۲۶) ثانیاً کریمہ اینما تولو ا فثمّ وجہ اﷲ ۔۲ ( تم جدھر پھرو تو وہاں اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ت) کے خلاف ہے۔ ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۵) ثالثاً زمین کروی یعنی گول ہے اور اس کی ہر طرف آبادی ثابت ہوئی ہے اور بحمداﷲ ہر جگہ اسلام پہنچا ہوا ہے نئی پرانی دنیائیں سب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کلمے سے گونج رہی ہیں شریعتِ مطہرہ تمام بقاع کو عام ہے۔ تبرٰک الذی نزل الفرقان علٰی عبدہ لیکون للعٰلمین نذیراً ۔۳ وہ پاک ذات ہے جس نے اپنے خاص بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ سب جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو۔ (ت) ( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲۵/ ۱) اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان احدکم اذا کان فی الصّلوٰۃ فان اﷲ تعالٰی قبل وجہہ فلا یتنخّمن احد قبل وجہہ فی الصّلوۃ ۔۴ جب تم میں کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے منہ کے سامنے ہے تو ہر گز کوئی شخص نماز میں سامنے کو کھکار نہ ڈالے۔ ( ۴ ؎صحیح البخاری کتاب الاذان باب ھل یلتفت لامرینزل بہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۰۴) اگر اللہ تعالٰی ایک ہی طرف ہے تو ہر پارہ زمین میں نماز پڑھنے والے کے سامنے کیونکر ہوسکتا ہے۔ رابعاً ان گمراہوں مکان و جہت ماننے والوں کے پیشواؤں ابن تیمیہ وغیرہ نے اﷲ تعالٰی کے جہت بالا میں ہونے پر خود ہی یہ دلیل پیش کی ہے کہ تمام جہان کے مسلمان دعا و مناجات کے وقت ہاتھ اپنے سروں کی طرف اٹھاتے ہیں۔ پُر ظاہر کہ یہ دلیل ذلیل طبل کلیل کہ ائمہ کرام جس کے پرخچے اُڑا چکے اگر ثابت کرے گی تو اﷲ عزوجل کا سب طرف سے محیط ہونا کہ ایک ہی طرف ہوتا تو وہیں کے مسلمان سر کی طرف ہاتھ اٹھاتے جہاں وہ سروں کے مقابل ہے باقی اطراف کے مسلمان سروں کی طرف کیونکر اٹھاتے بلکہ سمت مقابل کے رہنے والوں پر لازم ہوتا کہ اپنے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھائیں کہ ان مجمسہ کا معبود اُن کے پاؤوں کی طرف ہے۔ بالجملہ پہلی شق باطل ہے، رہی دوسری اس پر یہ احاطہ عرش کے اندر اندر ہر گز نہ ہوگا ورنہ استواء باطل ہوجائے گا، ان کا معبود عرش کے اوپر نہ ہوگا نیچے قرار پائے گا، لاجرم عرش کے باہر سے احاطہ کرے گا اب عرش ان کے معبود کے پیٹ میں ہوگا تو عرش اس کا مکان کیونکر ہوسکتا ہے بلکہ وہ عرش کا مکان ٹھہرا اور اب عرش پر بیٹھنا بھی باطل ہوگیا، کہ جو چیز اپنے اندر ہو اس پر بیٹھنا نہیں کہہ سکتے کیا تمہیں کہیں گے کہ تم اپنے دل یا جگر یا طحال پر بیٹھے ہوئے ہو، گمرا ہو، حجۃ اﷲ یوں قائم ہوتی ہے۔ ضرب ۹۳: اقول : شرع مطہر نے تمام جہان کے مسلمانوں کو نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم فرمایا، یہی حکم دلیل قطعی ہے کہ اﷲ عزوجل جہت و مکان سے پاک و بری ہے، اگر خود حضرت عزت جلالہ کے لیے طرف وجہت ہوتی محض مہمل باطل تھا کہ اصل معبود کی طرف منہ کرکے اس کی خدمت میں کھڑا ہونا اس کی عظمت کے حضور پیٹھ جھکانا اس کے سامنے خاک پر منہ ملنا چھوڑ کر ایک اور مکان کی طرف سجدہ کرنے لگیں حالانکہ معبود دوسرے مکان میں ہے، بادشاہ کا مجرئی اگر بادشاہ کو چھوڑ کر دیوان خانہ کی کسی دیوار کی طرف منہ کرکے آداب مجرا بجالائے اور دیوار ہی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے تو بے ادب مسخرہ کہلائے گا یا مجنون پاگل۔ ہاں اگر معبود سب طرف سے زمین کو گھیرے ہوتا تو البتہ جہت قبلہ مقرر کرنے کی جہت نکل سکتی کہ جب وہ ہر سمت سے محیط ہے تو اس کی طرف منہ تو ہر حال میں ہوگا ہی، ایک ادب قاعدے کے طور پر ایک سمت خاص بنادی گئی، مگر معبود ایسے گھیرے سے پاک ہے کہ یہ صورت دو ہی طور پر متصور ہے ، ایک یہ کہ عرش تا فرش سب جگہیں اس سے بھری ہوں جیسے ہر خلا میں ہوا بھری ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ عرش سے باہر باہر افلاک کی طرح محیط عالم ہو اور بیچ میں خلا جس میں عرش و کرسی، آسمان و زمین و مخلوقات واقع ہیں ، اور دونوں صورتیں محال ہیں، پچھلی اس لیے کہ اب وہ صمد نہ رہے گا صمد وہ جس کے لیے جوف نہ ہو، اور اس کا جوف تو اتنا بڑا ہوا معہذا جب خالق عالم آسمان کی شکل پر ہوا تو تمہیں کیا معلوم ہوا کہ وہ یہی آسمان اعلٰی ہو جسے فلک اطلس و فلک الافلاک کہتے ہیں ، جب تشبیہ ٹھہری تو اس کے استحالے پر کیا دلیل ہوسکتی ہے اور پہلی صورت اس سے بھی شنیع تروبد یہی البطلان ہے کہ جب مجسمہ گمراہوں کا وہمی معبود عرش تا فرش ہر مکان کو بھرے ہوئے ہے تو معاذ اﷲ ہر پاخانے غسل خانے میں ہوگا مردوں کے پیٹ اور عورتوں کے رحم میں بھی ہوگا، راہ چلنے والے اسی پر پاؤں اور جوتا رکھ کر چلیں گے معہذا اس تقدیر پر تمہیں کیا معلوم کہ وہ یہی ہوا ہو جو ہر جگہ بھری ہے، جب احاطہ جسمانیہ ہر طرح باطل ہوا تو بالضرورۃ ایک ہی کنارے کو ہوگا اور شک نہیں کہ کرہ زمین کے ہر سمت رہنے والے جب نمازوں میں کعبے کو منہ کریں گے تو سب کا منہ اس ایک ہی کنارے کی طرف نہ ہوگا جس میں تم نے خدا کو فرض کیا ہے بلکہ ایک کا منہ ہے تو دوسرے کی پیٹھ ہوگی ، تیسرے کا بازو، ایک کا سر ہوگا تو دوسرے کے پاؤں ، یہ شریعت مطہرہ کو سخت عیب لگانا ہوگا۔ لاجرم ایمان لانا فرض ہے کہ وہ غنی بے نیاز مکان و جہت و جملہ اعراض سے پاک ہے وﷲ الحمد۔ ضرب ۹۴: اقول: صحیحین میں ابوہریرہ اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ وابو سعید رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ینزل ربنا کل اللیلۃ الٰی سماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الاٰخر فیقول من یدعونی فاستجیب لہ الحدیث ۔۱ ہمارا رب عزوجل ہر رات تہائی رات رہے اس آسمانِ زیریں تک نزول کرتا اور ارشاد فرماتاہے، ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔ ( ؎ صحیح البخاری کتاب التہجد باب الدعاء والصلوۃ من آخر اللیل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۵۳)(صحیح مسلم کتاب صلوۃ المسافرین باب صلوۃ اللیل وعدد رکعات الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۵۸)اور ارصاد صحیحہ متواترہ نے ثابت کیا ہے کہ آسمان وزمین دونوں گول بشکل کُرہ ہیں، آفتاب ہر آن طلوع و غروب میں ہے، جب ایک موضع میں طالع ہوتا ہے تو دوسرے میں غروب ہوتا ہے، آٹھ پہر یہی حالت ہے تو دن اور رات کا ہر حصہ بھی یونہی آٹھ پہر باختلاف مواضع موجود رہے گا اس وقت یہاں تہائی رات رہی تو ایک لحظہ کے بعد دوسری جگہ تہائی رہے گی جو پہلی جگہ سے ایک مقدار خفیف پر مغرب کو ہٹی ہوگی ایک لحظہ بعد تیسری جگہ تہائی رہے گی وعلٰی ہذا القیاس ، تو واجب ہے کہ مجسمہ کا معبود جن کے طور پر یہ نزول وغیرہ سب معنی حقیقی پر حمل کرنا لازم، ہمیشہ ہر وقت آٹھوں پہر بارھوں مہینے اسی نیچے کے آسمان پر رہتا ہو، غایت یہ کہ جو جو رات سرکتی جائے خود بھی ان لوگوں کے محاذات میں سرکنا ہو خواہ آسمان پر ایک ہی جگہ بیٹھا آواز دیتا ہو، بہرحال جب ہر وقت اسی آسمان پر براج رہا ہے تو عرش پر بیٹھنے کا کون سا وقت آئے گا اور آسمان پر اترنے کے کیا معنی ہوں گے ۔ (فتاوٰی رضویہ :جلد نمبر 29 صفحہ نمبر 24 ، 25)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment