Sunday, 20 January 2019

وحی کے بعد بھی علم غیب علم غیب ہی کہلائے گا اورلفظ علم غیب کا اطلاق

وحی کے بعد بھی علم غیب علم غیب ہی کہلائے گا اورلفظ علم غیب کا اطلاق


محترم قارئین : جمھور مفسرین و محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک لفظ علم غیب کا اطلاق انبیاء علیہم السّلام کے علوم پر کیا جا سکتا ہے :

امام قاضی البيضاوي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: ۶۸۵هـ) اور لفظ علم غیب کا اطلاق

تفسير البيضاوي أنوار التنزيل وأسرار التأويل (3/ 287) : فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا الجمهور على أنه الخضر عليه السلام واسمه بليا بن ملكان، وقيل اليسع، وقيل إلياس. آتَيْناهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنا هي الوحي والنبوة. وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً مما يختص بنا ولا يعلم إلا بتوفيقنا وهو علم الغيوب ۔
امام قاضی البيضاوي رحمۃ اللہ علیہ سورة الكهف ( 65 ) وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ( خضرعلیہ اسّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے علم دیا ہے جس کو ہمارے دیے بغیر کوئ نہی جان سکتا اور وہ " علم غیب ہے ۔
خضرعلیہ السّلام جن کے نبی ہونے پر اختلاف ہے جب ان کے علم پر علم غیب کا اطلاق جائز ہے تو امام الانبیاء حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم پر بدرجہ اولَی جائز ہے ۔

حافظ ابن کثیر ( المتوفى : 774ه ) اور علم غیب کا اطلاق

حافظ ابن کثیر سورة الكهف ( 60 تا 65 ) کی تفسیر میں خضرعلیہ اسّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں : تفسير ابن كثير ت سلامة (۵ / ۱۷۹ )" وَكَانَ رَجُلًا يَعْلَمُ عِلْمَ الْغَيْبِ " یعنی حضرت خضرعلیہ اسّلام " علم غیب جانتے تهے ۔

امام القرطبي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: 671 هـ) اور علم غیب کا اطلاق

امام القرطبي رحمۃ اللہ علیہ سورة الكهف کی تفسیر میں خضرعلیہ اسّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں : تفسير القرطبي (16/11) (وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً) أَيْ عِلْمَ الْغَيْبِ " ( خضرعلیہ اسّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے علم دیا یعنی علم غیب ۔

امام أبي السعود حنفی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: 982 هـ) اور علم غیب کا اطلاق

امام أبي السعود حنفی رحمۃ اللہ علیہ سورة الكهف (65) {وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا} کی تفسیر میں خضرعلیہ السّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں : تفسير أبي السعود إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم (234/5،چشتی) {وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا} خاصاً لا يُكتنه كُنهُه ولا يُقادَرُ قدرُه وهو علمُ الغيوب ۔
ترجمہ : ( خضرعلیہ السّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے خاص علم دیا جسکی حقیقت و مرتبہ کو کوئی نہی جانتا اور وہ " علم غیوب ہے ۔

محدّث علّامہ حافظ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ ( المتوفى : 597 ه ) اورلفظ علم غیب کا اطلاق

حافظ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ سورة الكهف ( 65 ) {وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا} کی تفسیر میں حضرت ابن عبّاس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سے تفسیر نقل کرتے ہوئے لکهتے ہیں
زاد المسير في علم التفسير ( شاملہ ۳ / ۹۸،چشتی) قوله تعالى : وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا أي: من عندنا عِلْماً قال ابن عباس: أعطاه علما من علم الغيب ۔
ترجمہ : حضرت ابن عبّاس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے کہا : اللہ تعالَی نے حضرت خضرعلیہ اسّلام کو علم غیب سے علم عطا فرمایا تها ۔

حافظ امام جلال الدين السيوطي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: ۹۱۱هـ) اور لفظ علم غیب کا اطلاق

الدر المنثور في التفسير بالمأثور (۵ ۴۱۴) وَكَانَ رجلا يعلم علم الْغَيْب
ترجمہ : حضرت خضرعلیہ السّلام ایک مرد تهے جو "علم الغیب" جانتے تهے ۔

خضرعلیہ السّلام جن کے نبی ہونے پر اختلاف ہے جب ان کے علم پر علم غیب کا اطلاق جائز ہے تو امام الانبیاء حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم پر بدرجہ اولَی جائز ہے ۔

حافظ أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي رحمۃ اللہ علیہ ( وفات 852 هجری ) کا عقیدہ علم غیب اور لفظ علم غیب کا اِطلاق

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الرُّؤْيَا لِأَوَّلِ عَابِرٍ إِذَا لَمْ يُصِبْ، حدیث نمبر ( 7046 ) کے تحت حضرت ابن عبّاس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما سے ایک طویل حدیث بیان کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کی ایک شخص نے آکرحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے ایک خواب بیان کیا ، حضرت ابو بکر صدّیق رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اجازت سے خواب کی تعبیر بیان کی ، تعبیر بیان کرنے کے بعد حضرت ابو بکر صدّیق رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ پر میرے ماں باپ فدا ہو جائیں مجهے بتائیں کی میں نے صحیح تعبیر بیان کی ہے یا غلط ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا بعض صحیح اور بعض غلط ، حضرت ابو بکر صدّیق رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قسم بخدا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجهے میری خطاء ضرور بتائیں . آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا قسم نہ کهاو . رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس وقت حضرت ابو بکر صدّیق رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ کوان کی تعبیر میں جو غلطی نہی بتلائی اس کی وجہ لکهتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکهتے ہیں : فتح الباري لابن حجر (شاملہ 12/436 ) هُوَ عِلْمُ غَيْبٍ فَجَازَ أَنْ يَخْتَصَّ بِهِ وَيُخْفِيَهُ عَنْ غَيْرِهِ ۔ ترجمہ ( خواب کی تعبیر ) "علم غیب تها" اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئیے جائز تها کی اس "علم غیب" کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے ساته خاص رکهتے اور دوسروں سے مخفی رکهتے ۔

اطلاع علی الغیب ، اخبار علی الغیب دیابنہ اور وہابیہ کے فریب کا جواب

اطلاع علی الغیب ، اخبار علی الغیب (یعنی غیب پر اطلاع دینا یا خبر دینا ) تو ثابت ہوتا ہے جو کہ ہم بھی مانتے ہیں اختلاف تو اس میں ہے کہ اس کو علم غیب کہنا جائز ہے یا نہیں ؟ علم غیب اللہ تعالٰی کا خاصہ ہے اور خاصہ کہتے ہی اسے ہیں جو اپنے غیر میں نہ پایا جائے لہٰذا اللہ کے علاوہ کسی کے لئے علم غیب ثابت کرنا شرک ہے ۔ (معاذاللہ)

تفسیر بیضاوی میں جس غیب کا ذکر ہوا اس کو علم غیب کہا گیا ہے ۔

دیابنہ اور وہابیہ کا یہ کہنا کہ علم غیب اللہ کے ساتھ خاص ہے اگر کوئی اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی کے لئے علم غیب مانے تو یہ شرک ہے معاذاللہ بہت سخت حکم ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ وہابی ویوبندی مولوں کے اس فتوے کی زد میں کون کون آتا ہے

تفسير جامع البيان في تفسير القرآن/ الطبري (ت 310 هـ) اس میں سورہ کہف سورہ نمبر 18 آیت نمبر 64 میں : حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ : إنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعَيَ صَبْراً ۔
کے تحت امام ابن جریر اطبری لکھتے ہیں : وكان رجلاً يعلـم علـم الغيب قد علِّـم ذلك،
وہ حضرت خضر علیہ السلام علم غیب جانتے تھے کہ انہوں نے جان لیا ۔

تفسير روح البيان في تفسير القرآن/ اسماعيل حقي (ت 1127 هـ)
وعلمناه من لدنا علما ۔ کے تحت لکھا ہے کہ : خاصا هو علم الغيوب والاخبار عنها باذنه تعالى على ما ذهب اليه ابن عباس رضى الله عنهما ا
ترجمہ : حضرت خضر علیہ السلام کو جو لدنی علم سکھایا گیا وہ علم غیب ہے اور اس غیب کے متعلق خبر دینا ہے خدا کے حکم سے جیسا کہ اس طرف ابن عباس رضی اللہ عنہما گئے ہیں ۔

تفسير انوار التنزيل واسرار التأويل/ البيضاوي (ت 685 هـ) مصنف و مدقق
سورہ کہف کی آیت 65 کے تحت لکھا ہے ، وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ، مما يختص بنا ولا يعلم إلا بتوفيقنا وهو علم الغيوب.
ترجمہ : ہم نے ان کو اپنا علم لدنی عطا کیا ،حضرت خضر کو وہ علم سکھائے جو ہمارے ساتھ خاص ہیں بغیر ہمارے بتائے کوئی نہیں جانتا اور وہ علم غیب ہے ۔

اب امام ابن کثیر کا حوالہ ملاحظہ ہو جن کی تفسیر دیوبندی وہابی حضرات کے نزدیک بہت ہی مستند مانی جاتی ہے ۔ تفسير تفسير القرآن الكريم/ ابن كثير (ت 774 هـ) قال : إنك لن تستطيع معي صبراً، وكان رجلاً يعلم علم الغيب، قد علم ذلك ، یہاں امام ابن کثیر بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت لائے جس کو امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں پیش کیا اور امام اسمعیل حقی علیہ الرحمہ نے جس کو اپنی تفسیر میں ذکر کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...