مسلہ استویٰ علی العرش پر ایک نظر
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۔
ترجمہ : پھر وہ عرش پر جلوہ فرما ہوا (اپنی شان کے لائق) ۔
محترم قارئین : اسوی علی العرش یہ ذات باری تعالی کے متعلق ایک اہم ترین مسئلہ ہے جس کو سمجھنا امت پر اصول دین میں اہم حثیت رکھتا ہے ۔
اس آیت کے ترجمہ و مفہوم کے بارے میں انتہائی احتیاط کو ملحوظ رکھنا لازم ہے اسی لئے اس مسئلہ کے بارے ہم خود کچھ کہے بغیر اکابرین امت علیہم الرّحمہ کے اقوال کو نقل کر کےاس مسئلے کو بیان کرتے ہیں ۔
امام رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستقر ہونے کو باطل قرار دینے کے لیئے بارہ دلیلیں قائم کی ہیں ۔ جو اکثر مشکل اور دقیق ہیں اور عام فہم نہیں ہیں بہرحال ان کی ایک قدرے آسان دلیل یہ ہے : اگر اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر مستقر ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات عرش سے اعظم ہوگی یا مساوی ہوگی یا اصغر ہوگی ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ذات عرش سے اعظم ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات میں انقسام لازم آئے گا کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کی ذات کا بعض عرش پر مستقر ہوگا اور بعض اس سے زائد ہوگا اور اس سے اس کا منقسم ہونا لازم آئے گا اور اگر اللہ تعالیٰ عرش کے مساوی ہو تو اس کا متناہی ہونا لازم آئے گا کیونکہ عرش متناہی ہے اور جو متناہی کے مساوی ہو وہ متناہی ہوتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی ذات عرش سے اصغر ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا متناہی اور منقسم ہونا لازم آئے گا اور یہ تمام صورتیں بداہۃً باطل ہیں ۔ (تفسیر کبیر، ج 5، ص 252-258، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ)
علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی 685 ھجری لکھتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ کا امر بلند ہوا یا غالب ہوا اور ہمارے اصحاب سے یہ منقول ہے کہ عرش پر استواء اللہ تعالیٰ کی صفت بلاکیف ہے ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اس طرح مستوی ہے جس طرح اس نے ارادہ کیا درآنحالیکہ وہ عرش پر استقرار اور جگہ پکڑنے سے منزہ ہے ۔ (انوار التنزیل مع الکازرونی، ج 3، ص 26، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1416 ھ)
علامہ محمد بن یوسف المشہور بابن حبان اندلسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ المتوفی 710 ھجری لکھتے ہیں : اس آیت کا معنی ہے اللہ عرش پر غالب ہے ۔ ہرچند کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے لیکن عرش چونکہ مخلوقات میں سب سے عظیم جسم ہے اس لیئے اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ عرش پر غالب ہونے کا ذکر فرمایا ۔ امام جعفر صادق ، حسن بصری ، امام ابوحنیفہ اور امام مالک رضی اللہ عنہم سے یہ منقول ہے کہ استواء معلوم ہے (مستقر ہونا یا بلند ہونا) اور اس کی کیفیت مجہول ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے اور اس کا سوال کرنا بدعت ہے ۔ (مدارک التنزیل علی الخازن ج 2، ص 10، مطبوعہ پشاور،چشتی)
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی 792 ھجری لکھتے ہیں : اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب کہ دین حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مکان اور جہت منتفی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن اور سنت میں ایسی بے شمار تصریحات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کے لیے مکان اور جہت کا ثبوت ہوتا ہے اور باوجود اختلاف آراء اور سنت میں ایسی بے شمار تصریحات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کے لیئے مکان اور جہت کا ثبوت ہوتا ہے اور باوجود اختلاف آراء اور تفرق ادیان کے سب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کے لیے بلند جانب کی طرف دیکھتے ہیں اور دعا کے وقت آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جہت سے منزہ ہونا عام لوگوں کی عقلوں سے ماوراء ہے حتیٰ کہ جو چیز کسی سمت اور جہت میں نہ ہو لوگ اس کے وجود کا انکار کرتے ہیں تو ان سے خطاب کرنے کے لیئے زیادہ مناسب اور ان کے عرف کے زیادہ قریب اور ان کو دین حق کی دعوت دینے کے زیادہ لائق یہ تھا کہ ان سے ایسا کلام کیا جائے جس میں بظاہر تشبیہ ہو اور ہرچند کہ اللہ تعالیٰ ہر سمت اور جہت سے منزہ (پاک) ہے لیکن چونکہ بلند جانب تمام جوانب میں سب سے اشرف ہے اس لیئے اس جانب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا اور عقلاء اللہ تعالیٰ کے لیئے آسمان کی طرف اس لیئے نہیں متوجہ ہوتے کہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے بلکہ اس وجہ سے کہ آسمان دعا کا قبلہ ہے ۔ کیونکہ تمام خیرات اور براکت اور انوار اور بارشیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں ۔ (شرح المقاصد ج 4، ص 50-51، مطبوعہ منشورات الرضی، قم ایران، 1409 ھ)
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی 668 ھجری لکھتے ہیں : اکثر متقدمین اور متاخرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ سبحانہ کی جہت اور مکان سے تنزیہ ضروری ہے کیونکہ جو چیز مکان میں ہو اس کو حرکت اور سکون اور تغیر اور حدوث لازم ہے یہ متکلمین کا قول ہے۔ اور سلف اول (رضی اللہ عنہم) اللہ تعالیٰ سے جہت کی نفی نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیئے جہت ثابت کرتے تھے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے اور رسولوں نے بھی اس طرح فرمایا ہے اور سلف صالحین علیہم الرّحمہ میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ حقیتاً عرش پر مستوی ہے ، البتہ ان کو اس کا علم نہیں ہے کہ اس کے استواء کی حقیقت میں کیا کیفیت ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن، 7، ص 197، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ،چشتی)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی 1270 ھجری لکھتے ہیں : استوی کا معنی ہے بلند ہے (اللہ عرش پر بلند ہے) اس بلندی سے وہ بلندی مراد نہیں ہے جو مکان اور مساف کی بلندی ہوتی ہے ، یعنی کوئی شخص ایسی جگہ پر ہو جو جگہ دوسری جگہوں سے بلند ہو بلکہ اس سے وہ بلندی مراد ہے جو اللہ کی شان کے لائق ہے ۔ تمہیں یہ معلوم ہوگا کہ سلف کا مذہب اس مسئلہ میں یہ ہے کہ اس کی مراد کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ عزّ و جل عرش پر اس طرح مستوی ہے جس طرح اس کا ارادہ ہے درآنحالیکہ وہ استقرار اور جگہ پکڑنے سے منزہ ہے اور استواء کی تفسیر استیلاء (غلبہ پانے) سے کرنا باطل ہے ۔ کیونکہ جو شخص اس کا قائل ہے کہ استواء کا معنی استیلاء ہے ، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کا غالب ہونا ہمارے غالب ہونے کی مثل ہے بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ یہ کہے کہ وہ ایسا غالب ہے جو اس کی شان کے لائق ہے تو پھر اس کو چاہیئے کہ وہ ابتداءً یہ کہے کہ وہ عرش پر اس طرح مستوی ہے جو اس کی شان کے لائق ہے ۔ (روح المعانی ج 8، ص 136، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی 1340 ھجری نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے : "پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے ۔
نوٹ : اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اس مسلہ پر تحقیق ہم جلد پیش کرینگے ان شاء اللہ ۔
صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی 1367 ھجری لکھتے ہیں : یہ استواء متشابہات میں سے ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ اللہ کی اس سے جو مراد ہے حق ہے ۔ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ استواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول اور اس پر ایمان لانا واجب ۔ حضرت مترجم قدس سرہ نے فرمایا : اس کے معنی یہ ہیں کہ آفرینش کا خاتمہ عرش پر جا ٹھہرا ۔ واللہ اعلم باسرار کتابہ ۔ (خزائن العرفان، ص 353، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment