Sunday, 6 January 2019

درسِ قرآن موضوع آیت : اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی

درسِ قرآن موضوع آیت : اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی

محترم احبابِ ذی وقار : اس آیت کی تفسیر جاننے سے پہلے ایک چھوٹی سی بات سمجھ لیں ۔ علم العقائد میں ایک بحث ہے ”حادث“ اور ”قدیم“ کی ۔ میں انتہائی آسان الفاظ میں آپ کو یہ بحث سمجھاتا ہوں اس کے بعد ہم اصل مقصد کی طرف واپس آئیں گے یعنی اس آیت کی تفسیر کی طرف یہ تفصیل ہم اس لئے بیان کر رہے ہیں کہ آج کل بہت سے ایسے لوگ جن کے عقائد و نظریات اہل سنت و جماعت کے خلاف ہیں وہ عرش اور کرسی کی بحث میں الجھا کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔

محترم احبابِ ذی وقار : ”حادث“ اور ”قدیم“ دو متضاد اور بالکل مختلف چیزیں ہیں ۔ ”حادث“ سے مراد ہے عارضی (Temporary) اور ”قدیم“ سے مراد ہے دائمی (Forever) اور ہمیشہ سے موجود (ternal) ۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ ”قدیم“ سے مراد وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اس ذات کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود سے ہی موجود تھی ، موجود ہے اور موجود رہے گی ۔ نہ اس سے پہلے کچھ تھا نہ اس کے بعد اس جیسی کوئی اور ذات ہوگی بلکہ اس کی کوئی ابتداءاور کوئی انتہاء نہیں ۔ جبکہ ”حادث“ سے مراد وہ تمام مخلوقات اور چیزیں جن میں مذکورہ بالا صفات نہیں ہوتیں ۔ ”حادث“ (Temporary) سے مراد وہ جو دائمی نہیں بلکہ بعد میں ان کو وجود ملا ، وہ ہمیشہ سے موجود (ternal) نہیں ۔

اللہ تبارک وتعالی کی ذات اور صفات ”قدیم“ ہیں ہمیشہ سے ہیں ۔ Forever اور ternal ہیں ۔ اس کے علاوہ باقی تمام تر مخلوقات ”حادث“ ہیں ۔ عرش بھی اللہ تعالی کی نورانی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے جس کے اوپر اللہ تعالی کی ایک اور مخلوق رکھی ہوئی ہے جس کا نام کرسی ہے اور اللہ تعالی کا عرش پانی کے اوپر ہے۔ عرش اور کرسی دیگر مخلوقات کی طرف مخلوق ہیں اور دائمی و ابدی نہیں ارشاد باری تعالی ہے : رب العرش الکریموہ کریم ذات عرش کا رب ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ۔ ﴿سورہ طٰہ آیت نمبر 5﴾
ترجمہ : وہ بڑا مہربان ہے ، اس نے عرش پر اِستواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے ۔

اَلرَّحْمٰنُ : وہ بڑا مہربان ہے ۔ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید نازل کرنے والے کی شان یہ ہے کہ وہ بڑا مہربان ہے اور اس نے اپنی شان کے لائق عرش پر اِستواء فرمایا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے ، جو کچھ زمین میں ہے ، جو کچھ زمین و آسمان کے درمیان ہے اور جو کچھ اس گیلی مٹی یعنی زمین کے نیچے ہے سب کا مالک بھی وہی ہے ، وہی ان سب کی تدبیر فرماتا اور ان میں جیسے چاہے تَصَرُّف فرماتا ہے ۔

عرش پر اِستوا فرمانے سے متعلق ایک اہم بات

حضرت امام مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے آکر اس آیت کامطلب دریافت کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے عرش پر کس طرح اِستواء فرمایا تو آپ نے تھوڑے سے تَوَقُّف کے بعد فرمایا ’’ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے عرش پر اِستواء فرمایا لیکن اس کی کَیفیت کیا تھی وہ ہمارے فہم سے بالاتر ہے البتہ اس پرایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں گفتگو کرنا بدعت ہے ۔ (تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲/۱۳۷)

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۟ ۔ (سورۂ اَعراف آیت نمبر 54)
ترجمہ : پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے ۔

ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ : پھر عرش پر جیسا اس کی شان کے لائق ہے اِستِواء فرمایا ۔ استواء کا لغوی معنیٰ تو ہے کہ کسی چیز کا کسی چیز سے بلند ہونا ، کسی چیز کا کسی چیز پر بیٹھنا ۔ یہاں آیت میں کیا مراد ہے اس کے بارے میں علماءِ کرام نے بہت مُفَصَّل کلام فرمایا ہے ۔ ہم یہاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تصنیف کی روشنی میں ایک خلاصہ بیان کرتے ہیں جس سے اس آیت اور اس طرح کی جتنی بھی آیات ہیں ان کے بارے میں صحیح عقیدہ واضح ہوجائے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَنْسَب (یعنی زیادہ مناسب) یہی ہے کہ آیاتِ مُتَشابہات سے ظاہراً سمجھ آنے والے معنی کوایک مناسب وملائم معنی کی طرف جو کہ مُحکمات سے مطابق اور محاورات سے موافق ہو پھیر دیا جا ئے تاکہ فتنے اور گمراہی سے نجات پائیں ، یہ مسلک بہت سے متاخرین علما ء کا ہے کہ عوام کی حالت کے پیشِ نظر اسے اختیار کیا ہے ، اسے ’’ مسلکِ تا ویل‘‘ کہتے ہیں ، یہ علماء آیت ’’ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش‘‘ کی تاویل کئی طرح سے فرماتے ہیں ان میں چار وجہیں نفیس وواضح ہیں :

اول : استواء بمعنی’’ قہر وغلبہ ‘‘ہے، یہ معنی زبانِ عرب سے ثابت وپیدا (ظاہر) ہے، عرش سب مخلو قات سے اوپر اور اونچا ہے اس لئے اس کے ذکر پر اکتفا ء فرمایا اور مطلب یہ ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمام مخلوقات پرقاہر وغالب ہے ۔

دوم : استواء بمعنی ’’عُلُوّ‘‘ ہے اور علو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی صفت ہے ، علوِ مکان صفت نہیں بلکہ علوِ مالکیت و سلطان صفت ہے ۔

سوم : استواء بمعنی ’’قصد و ارادہ‘‘ ہے یعنی پھر عرش کی طر ف متوجہ ہوا یعنی اس کی آفرنیش کا ارادہ فرمایا یعنی اس کی تخلیق شروع کی ۔

چہا رم : استواء بمعنی ’’فراغ و تمامی کار‘‘ ہے یعنی سلسلہ خلق و آفر نیش کو عرش پر ختم فرمایا ، اس سے باہر کوئی چیز نہ پائی ، دنیا و آخرت میں جو کچھ بنا یا اور بنائے گا دائرۂ عرش سے باہر نہیں کہ وہ تمام مخلو ق کو حاوی ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۹/۱۲۴-۱۲۶،چشتی)

مزید تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 29 ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالۂ مبارکہ ’’ قَوَارِعُ الْقَھَّار عَلَی الْمُجَسَّمَۃِ الْفُجَّار‘‘ (اللہ تعالیٰ کے لئے جسم ثابت کرنے والے فاجروں کارد) کا مطالعہ فرمائیں ۔

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہیں اگرچہ اللہ تعالی کو عرش پر مستوی ہونے کی حاجت یا مجبوری نہیں اور نہ ہی مستوی ہونے کا کوئی خاص طریقہ او رکیفیت ہے ۔ (تفسیر تبیان القرآن)

آج کل بعض گمراہ لوگ استویٰ علی العرش کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی عرش اور کرسی پر موجود ہیں اور ہر جگہ موجود نہیں ۔ جبکہ اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ پر موجود ہے ۔ اور عرش پر مستوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش پر اللہ تبارک و تعالی کی خاص تجلی کا ظہور ہے ۔ ہم اس استویٰ کی ٹھیک ٹھیک کیفیت کو نہیں جان سکتے البتہ اس پر ایمان لانا واجب ہے ۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی عرش پر ہی موجود ہیں اس کے علاوہ دیگر کائنات میں ہر جگہ پر موجود نہیں، یہ سخت گمراہ کن اور اسلام سے متصادم عقیدہ ہے ۔ اللہ تعالی کو عرش پر بیٹھا ہوا سمجھنا سخت گمراہی ہے ۔ کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ تعالی اس کے اندر سما گیا ہےتو گویا عرش اللہ تعالی سے بڑھا ہوا ہے حالانکہ یہ درست نہیں ۔ دوسری بات یہ کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ اللہ تعالی عرش پر بیٹھا ہوا ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالی کہاں تھا ؟

آپ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالی کے عرش پر مستوی اور متمکن ہونے سے یہ مراد ہرگز نہ لینا چاہئے کہ شاید عرش اور کرسی بھی اللہ تعالی کی ذات کی طرح دائمی ہیں اور اللہ تعالی کی ذات ان کے ساتھ ہمیشہ سے متصل اور جڑی ہوئی ہے جیسے کوئی شخص اپنی نشست پر بیٹھا ہوتا ہے نہیں ، ہرگز نہیں ! بلکہ عرش اور کرسی کا تعلق اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ اسی طرح کا ہے جیسے دیگر تمام مخلوقات کا ۔

عرش ایک محدود (Limited) اور حادث مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالی دائمی و ابدی (Forever) اور قدیم (Eternal) ہے ۔

دوسری بات یہ کہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کسی خاص جگہ یا مقام میں سمٹ کر بیٹھنا مخلوق کی صفات میں سے ہے اور اللہ تعالی اس سے پاک ہے کہ کسی مخصوص جگہ پر بیٹھے ۔

جو لوگ اللہ تعالی کو عرش پر بیٹھا ہوا سمجھتے ہیں وہ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور منہ کے بل گمراہی کے گہرے تاریک غار میں جا گرتے ہیں ۔

امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں اللہ تعالی پر بغیر کسی تشبیہ کے ایمان لاتا ہوں اور کسی مخصوص صورت کا قائل ہوئے بغیر اس کی تصدیق کرتا ہوں اللہ تعالی کی ذات کی حقیقت کا ادراک نہ کر سکنے کا الزام خواد کو دیتا ہوں اور اس بارے میں غور و خوض سے مکمل اجتناب کرتا ہوں ۔ (تفسیر تبیان القرآن)

امام محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم یوں کہتے ہیں کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس طرح کے متشابہات کی کیفیت معلوم کرنے میں الجھتے نہیں ۔ اسی طرح جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ہم اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس طرح کی باتوں کی حقیقت معلوم کرنے میں نہیں الجھتے ۔ (کتاب الآثار و تفسیر تبیان القرآن)

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالی کو عرش اور کرسی پر اس طرح متمکن سمجھنا جس طرح کوئی آدمی کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے ۔ سخت گمراہی ہے اللہ تعالی اہل سنت کے عقائد و نظریات اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...