Tuesday, 8 January 2019

سجدہ تعظیمی کا شرعی حکم

سجدہ تعظیمی کا شرعی حکم

امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سجدہ تحیت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : مسلمان اے مسلمان ! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان ، جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عزوجل کے سوا کسی کے لئے نہیں ۔ اس کے غیرکو سجدہ عبادت تو یقینا اجماعا شرک مہین و کفرمبین اور سجدہ تحیت حرام و گناہ کبیرہ بالیقین ۔ ہاں ! مثل صنم و صلیب و شمس و قمر کے لئے سجدے پر مطلقا اکفار ۔ تو قرآن عظیم نے ثابت فرمایا کہ سجدہ تحیت ایسا سخت حرام ہے کہ مشابہ کفرہے ۔ والعیاذباللہ تعالی ۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو سجدہ تحیت کی اجازت چاہی ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ کیا تمھیں کفر کا حکم دیں ۔ معلوم ہوا کہ سجدہ تحیت ایسی قبیح چیز ہے جسے کفر سے تعبیر فرمایا ۔ جب خود حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے سجدہ تحیت کا یہ حکم ہے تو پھر اوروں کا کیا ذکر ؟ واللہ الھادی ۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحۃ ۔ کتب خانہ سمنانی میرٹھ ۔ صفحہ 05 اور 10،چشتی)

نوٹ : حضرت فاضل بریلوی رحمتۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب اتنی مدلل اور وقیع ہے کہ اس کے بارے میں علامہ ابو الحسن علی ندوی دیوبندی نے لکھا ہے کہ : یہ ایک جامع رسالہ ہے جس سے مولانا بریلوی کے وفور علم اور ان کی وسعت معلومات کا پتہ چلتا ہے ۔ (نزھۃ الخواطر ۔ صفحہ 40 ۔ جلد ہشتم،چشتی)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیر خدا کو سجدہ کرنا شرک ہے اور سجدہ تعظیم حرام ہے ۔ (تفسیر نعیمی جلد نمبر 3)

مفتی اجمل قادر ی رضوی رحمۃ اللہ علیہ : ہماری شریعت میںیہ سجدۂ تعظیمی حرام ہے (فتاویٰ اجملیہ جلد نمبر 4)

اصل میں سجدہ کی دو بنیادی اقسام ہیں اور اسلامی و شرعی لٹریچر میں واضح بیان کی گئی ہیں :

(1) ایک قسم سجدہء عبادت ۔

(2) دوسرا سجدہ تعظیمی حضرت سیدنا آدم و سیدنا یوسف علی نبینا و علیہم السّلام کو جو سجدہ ہوا وہ سجدہ تعظیمی تھا ۔ دوسری شریعتوں میں سجدہ تعظیمی ، رب العزت کے علاوہ جائز رکھا گیا تھا ۔ سجدہ عبادت کسی بھی شریعت میں کسی بھی حالت میں کبھی بھی جائز نہیں رہا اور نہ ہی یہ عملا ممکن تھا،بلکہ یہ تو منطق کی اصطلاح میں "ممتنع" ہے۔۔۔سجدہ تعظیمی دوسری شرائع میں جائز تھا ۔ مگر شریعت اسلامیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسے حرام فرمادیا ۔
جی ہاں! حرام ، یعنی اگر کوئی شخص سجدہ، عبادت کی نیت سے کرتا ہے تو ''شرک'' ہے ، لیکن اگر تعظیما کرتاہےتو ''حرام " ہے ۔

سجدہء تعظیمی (کسی کی عزت و تعظیم کی نیت سے کیا گیا سجدہ) تو اس کے بارے میں چاروں آئمہ علیہم الرّحمہ امت حتی کہ غیر مقلدین سمیت ساری امت متفق ہے کہ سجدہء تعظیمی شریعت محمدی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم سے پہلے بعض امتوں میں جائز تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ یا حضرت یوسف علیہ السلام کو کیا گیا سجدہ بھی اسی سجدہء تعظیمی کی مثالیں ہیں ۔ لیکن حضور نبی اکرم :صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : کے بعد شریعت اسلامیہ میں یہ سجدہ بھی حرام و ممنوع قرار دے دیا گیا۔ یہ حکم براہ راست سنن ابن ماجه ، كتاب النكاح ، باب حق الزوج على المراة ، حدیث نمبر : 1926 اس حدیث پاک سے ثابت ہے ۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک بار ملک شام گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ شامی لوگ اپنے اکابرین اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں ۔ وہ جب واپس لوٹے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کو آکر سجدہ کیا ۔ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : معاذ یہ کیا بات ہے ؟
تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم میں نے اہلِ شام کو اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو آقا آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ تو اس (سجدہ) کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ت 1159 ـ حسن صحيح , ابن ماجة ( 1853)
ترجمہ : اگر میں کسی کو کسی کے لیئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے (لیکن سجدہ کسی کے لیے جائز نہیں) ۔ (حسن صحيح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1853)

نتیجہ یہ نکلا کہ بطور امت محمدی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم ہمارے لیئے سجدہ سوائے اللہ تعالی وحدہُ لاشریک کے کسی کو بھی کسی بھی نیت سے کرنا جائز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شرعی احکام کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...