Friday, 25 January 2019

اپنے دنیاوی معاملات تم جانتے ہو پر اعتراض کا جواب

علم غیب پر اعتراض نمبر 2 : مدینہ پاک میں انصار باغوں میں نر برخت کی شاخ مادہ درخت میں لگاتے تھے تا کہ پھل زیادہ دے اس فعل سے انصارکو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع فرمایا ( اس کام کو عربی میں تلقیح کہتے ہیں) انصار نے تلقیح چھوڑ دی ۔ خدا کی شان کے پھل گھٹ گئے اس کی شکایت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت پیش ہوئی تو فرمایا : انتم اعلم بامور دنیاکم ۔ “ اپنے دنیاوی معاملات تم جانتے ہو ۔“ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم نہ تھا کہ تلقیح روکنے سے پھل گھٹ جاوینگے اور انصار کا علم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے زیادہ ثابت ہوا ۔

اس اعتراض کا جواب : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمانا “ انتم اعلم بامور دنیاکم“ اظہار ناراضگی ہے کہ جب تم صبر نہیں کرتے تو دنیاوی معاملات تم جانو ۔ جیسے ہم کسی سے کوئی بات کہیں اور وہ اس میں کچھ تامل کرے تو کہتے ہیں بھائی تو جان ۔ اس سے نفی علم مقصود نہیں ۔

شرح شفاء میں امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ بحث معجزات میں فرماتے ہیں : وخصہ اللہ من الاطلاع علٰی جمیع مصالح الدنیا والدین واستشکل بانہ علیہ السلام وجد الانصار یلقحون النکل فقال لو ترکتموہ فلم یخرج شیئا او خرج شیصا فقال انتم اعلم بامور دنیاکم قال الشیخ السسوسی اراد ان یحملھم علٰی خرق العوائد فی ذلک الٰی باب التوکل واما ھناک فلم یمتثلوا فقال انتم اعرف بدنیا کم ولو امتثلوا و تحملوا فی سنۃ او سنتین لکفوا امر ھذہ المحنۃ ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام دینی و دنیاوی مصلحتوں پر مطلع فرمانے سے خاص فرمایا اس پر یہ اعتراض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انصار کو درختوں کی تلقیح کرتے ہوئے پایا تو فرمایا تم اس کو چھوڑ دیتے تو اچھا تھا انہوں نے چھوڑ دیا تو کچھ پھل ہی نہ آیا یا ناقص آیا تو فرمایا کہ اپنے دنیاوی معاملات تم جانو ۔ شیخ سنوسی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے چاہا تھا کہ ان کو خلاف عادت کام کر کے باب توکل تک پہنچا دیں ۔ انہوں نے نہ مانا تو فرما دیا کہ تم جانو ۔ اگر وہ مان جاتے اور دو ایک سال نقصان برداشت کر لیتے تو اس محنت سے بچ جاتے ۔

ملا قاری اسی شرح شفاء جلد دوم صفحہ 238 میں فرماتے ہیں : ولو ثبتوا اعلٰی کلامہ افاقوا انی الفن تقع عنھم کلفۃ المعالجۃ ۔
ترجمہ : اگر وہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرمان پر ثابت رہتے تو اس فن میں فوقیت لیجاتے اور ان سے اس تلقیح کی محنت دور ہو جاتی ۔

فصل الخطاب میں علامہ قیصری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فرمایا : ولا یعزب عن علمہ علیہ السلام مچقال ذرۃ فی الارض ولا فی السماء من حیث مرتبتہ وان کان یقول انتم اعلم بامور دنیاکم ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم سے زمین و آسمان میں ذرہ پھر چیزیں پوشیدہ نہیں اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے تھے کہ دنیاوی کام تم جانو ۔ حضرت یوسف علیہ السّلام نے کبھی کاشتکاری نہ کی تھی اور نہ کاشتکاروں کی صحبت حاصل کی۔ مگر زمانہ قحط آنے سے پہلے حکم دیا کہ غلہ کاشت کرو ۔ اور فرمایا : فما حصدتم فذروہ فی سنبلہ ۔ “ کہ جو کچھ کاٹو اس کو بالی ہی میں رہنے دو ۔“ یعنی گیہوں کی حفاظت کا طریقہ سکھایا ۔ آج بھی غلہ کو بھوسے میں رکھ کر اس کی حفاظت کرتے ہیں ان کو کھیتی باڑی کا خفیہ راز کس طرح معلوم ہوا ؟ اور فرمایا : اجعلنی علٰی خزائن الارض انی حفیظ علیم۔ ( پارہ 13 سورہ 12 آیت 55) “ مجھ کو زمین کے خزانوں پر مقرر کردو میں اس کا محافظ اور ہر کام جاننے والا ہوں ۔“
یہ ملکی انتظامات وغیرہ کس سے سیکھے ؟ تو کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دانائی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم حضرت یوسف علیہ السّلام سے بھی کم ہے ، معاذ اللہ ۔

علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی،پھر فرمایاکہ کوئی چیز ایسی نہیں جو مجھے دکھائی نہیں گئی تھی لیکن وہ میں نے اس جگہ دیکھ لی یہاں تک کہ جنت اور دوزخ بھی ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر86صفحہ نمبر143)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ انھیں عذاب ہورہا ہے اور کسی کبیرہ گناہ کے باعث نہیں، ان میں سے ایک تو پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھااور دوسرا چغلیاں کھاتا پھرتا تھا ، پھر ایک سبز ٹہنی لی اور اُس کے دو حصے کرکے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا،لوگ عرض گزار ہوئے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم ایسا کیوں کیا ؟ فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں تو شاید ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر215صفحہ نمبر188،چشتی)(بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1271صفحہ نمبر553)(بخاری شریف جلد نمبر3حدیث نمبر989صفحہ نمبر390)
ان احادیث سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم سے قبر اور عالمِ برزخ کے حالات مخفی نہیں ، یہاں تک کہ آپ نے واضح فرمادیا کہ ان قبر والوں کو کس عمل کی وجہ سے عذاب ہورہا ہے،بعض روایات میں آتا ہے کہ قبروں والوں کے حالات اور عذاب کو آپ کی سواری یعنی خچر نے بھی آپ کی نسبت ہونے کی وجہ سے دیکھ لیا جس کے باعث وہ بِدکا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے فرمایا ، تم کیا یہی دیکھتے ہو کہ میرا منہ اِدھر ہے ؟ اللہ کی قسم ، مجھ پر نہ تمھارا خشوع وخضوع پوشیدہ ہے اور نہ تمھارے رکوع ، میں تمھیں پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر404صفحہ نمبر255)(بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر703صفحہ نمبر357)
اس حدیثِ پاک میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کا فرمانا کہ مجھ پر تمھارے خشوع ورکوع پوشیدہ نہیں ہیں،اس میں خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے واضح فرمادیا کہ میری نگاہ سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے کیونکہ رکوع تو ظاہری اور جسمانی فعل کا نام ہے مگر خشوع تو قلبی کیفیت کا نام ہے جو خوفِ خدا سے پیدا ہوتی ہے ، یہ بھی واضح فرما دیا کہ میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں اور تمھارے رکوع مجھ پر ظاہر ہیں اور ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ تمھاری قلبی کیفیت بھی مجھ پر عیاں ہے کیونکہ دیکھنا آنکھوں میں موجود اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور کاکام ہے اور جن کا مکمل سراپاء ہی اللہ تعالیٰ کا نور ہو بھلا اُن سے کوئی چیز کیسے پوشیدہ ہوسکتی ہے یعنی نہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی نگاہ سے ہمارے ظاہر پوشیدہ ہیں اور نہ ہی باطن ، اسی طرح اگلی حدیث میں بھی فرمایا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی پھر منبر پر جلوہ افروز ہوکر نماز اور رکوع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمھیں پیچھے سے بھی اُسی طرح دیکھتا ہوں جیسے سامنے سے تمھیں دیکھتا ہوں ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر405صفحہ نمبر256،چشتی)(یہ مضمون کچھ کمی بیشی کے ساتھ جلد نمبر1 حدیث نمبر 703,686, 681 ,680میں بھی موجود ہے،حدیث نمبر702صفحہ357کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں)

ہر سُو نگاہ ہے اُن کی لاجیں نبھا رہے ہیں
ایسے وہ دِلرُبا ہیں واللہ حبیبِ اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے نماز پڑھی ، لوگ عرض گزار ہوئے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم آپ نے اپنی جگہ پر کوئی چیز پکڑی تھی ؟ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم پیچھے ہٹے ، فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی تو اُس میں سے ایک خوشہ پکڑنے لگا تھا اور اگر میں اُسے لے لیتا تو تم اُس میں سے رہتی دنیا تک کھاتے رہتے ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر709صفحہ نمبر359)(بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر990صفحہ نمبر454)
سبحان اللہ نگاہِ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم سے کچھ پوشیدہ نہیں لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کو معاذ اللہ دیوار کے پیچھے کا علم نہیں حالانکہ یہ مستند حدیث بتا رہی ہے کہ بظاہر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم مدینہ منورہ میں نماز پڑھا رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی نگاہ ساتوں آسمانوں کوچیر کر جنت میں پہنچ گئی جبکہ ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو برس کے راستے کے برابر ہے بھلا اُن کی نگاہ سے زمین کا کوئی راز کیسے چھپا رہ سکتا ہے اور اگلی بات کہ صرف جنت کا نظارہ نہیں کیا بلکہ واضح فرمادیا کہ میں اگر خوشہ پکڑ نا چاہتا تو پکڑ سکتا یعنی جہاں نگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نظارہ کرتی ہے وہاں دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی رسائی بھی ہے پھر اُن سے اس دنیا کی کوئی چیز کیسے مخفی ہوسکتی ہے ، معلوم ہوا کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم سے کوئی چیز پوشیدہ ہے اور نہ آپ کے قبضہ واختیار سے باہر ہے ۔

باطل کے سب اندھیرے نابود ہو گئے ہیں
طلوعِ سحر کا جلوہ شب کو مِٹا گیا ہے

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے کہا ، اے اللہ ! ہمیں ہمارے شام میں برکت دے اور ہمارے یمن میں ، لوگ عرض گزار ہوئے اور ہمارے نجد میں ، دوبارہ کہا ، اے اللہ ! ہمیں ہمارے شام میں برکت دے اور ہمارے یمن میں ، لوگ پھر عرض گزار ہوئے اور ہمارے نجد میں ، فرمایا کہ وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا گروہ وہیں سے نکلے گا ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر976صفحہ نمبر448،چشتی)(بخاری شریف جلد نمبر3حدیث نمبر1971صفحہ نمبر777)
معلوم ہوا کہ شام اور یمن کے علاقے برکت والے ہیں اور نجد کا علاقہ منحوس ہے اسی لیئے آپ نے دعائے رحمت سے محروم رکھا کیونکہ نگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم سے پوشیدہ نہیں تھا کہ اس علاقہ سے شیطان جیسی توحید کے علمبردار نکلیں گے جو ہر لحاظ سے شیطان کی پیروری کرتے دکھائی دیں گے اور کھلم کھلاانبیائے کرام واولیائے کرام کی گستاخیاں کریں گے اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے فرمایا اس علاقہ سے زلزلے و فتنے اور شیطان کی جماعت نمودار ہوگی،جن پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برس رہی ہوگی اور وہ رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم اور اُن کے عشاق سے محبت کو شرک قرار دے گی ، شیطان جیسی توحیدپرستی درحقیقت انبیاء کرام علیہم السّلام و اولیائے کرام علیہم الرّحمہ کی گستاخیوں کے علاوہ کچھ نہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کا ادب واحترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

عزازیل کے مراتب کیوں خاک میں مِلے ہیں
تعظیم کے جو مُنکر لعنت اُٹھا رہے ہیں

حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے فرمایا ، جھنڈا زید نے لے لیا ، وہ شہید کردئیے گئے پھر جعفر نے لے لیا وہ بھی شہید کردئیے گئے پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لے لیا وہ بھی شہید کردئیے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، پھر بغیر امیر بنائے اُسے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور اُسے فتح مرحمت فرمادی گئی ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1168صفحہ نمبر516،چشتی)(بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر65صفحہ نمبر65)
اس حدیثِ پاک سے بھی غیب دان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی بتائی ہوئی غیب کی باتیں نمایاں ہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوکر جنگِ موتہ کے علمبرداروں کی خبر دیتے رہے کہ اب جھنڈا فلاں نے اُٹھا لیااب وہ شہید ہوگئے ہیں حتیٰ کہ آخر تک بتا دیا کہ اب جھنڈا خالدؓ بن ولید نے سنبھال لیا ہے اور ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ نے فتح مرحمت فرمادی ہے یہ تمام خبریں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم مدینہ منورہ میں بیٹھ کر دے رہے تھے ۔

دِلدارِ لَم ےیزل کی خیرات بٹ رہی ہے
نورِ خدا کی ہر سُو سوغات بٹ رہی ہے

حضرت ابوحُمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی معیت میں غزوہ تبوک کیا ، جب ہم وادی القریٰ میں پہنچے تو ایک عورت اپنے باغ میں تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے اپنے اصحاب سے کہا کہ اندازہ لگاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے دس وسق کا اندازہ کیا ، اُس عورت سے فرمایا کہ جتنی کجھوریں برآمد ہوں اُن کا حساب رکھنا جب ہم تبوک پہنچے تو فرمایا ، آج رات بہت سخت آندھی آئے گی لہٰذا کوئی کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اُس کا گُھٹنا باندھ دے ، ہم نے وہ باندھ دئیے اور سخت آندھی آئی ، ایک آدمی کھڑا ہوا تو اُسے پہاڑ کے دامن میں پھینک دیا ، ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی خدمت میں ایک خچر اور چادر بطور تحفہ بھیجی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے اُس کا ملک اُسی کیلئے لکھ دیا ، جب وادی القریٰ میں آئے تو اس عورت سے کہا ، تمھارے باغ سے کیا حاصل ہوا ؟ عورت نے کہا دس وسق کجھوریں جوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے اندازہ کیا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے فرمایا ، میں جلد مدینہ منورہ پہنچنا چاہتا ہوں ، جب اُحد نظر آیا تو فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1388صفحہ نمبر596)
محترم قارئین : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا بنا کربھیجا ہے ، جیسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے کجھوروں اور آندھی کے متعلق قبل از وقت خبر دی جس نے آندھی سے قبل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کے حکم کے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش کی تو اسے آندھی نے اُٹھا کر پہاڑ کے دامن میں پھینک دیا ، آج بھی جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کے اوصاف ماننے سے انکار کرتے ہیں اور طرح طرح کی بے ادبیاں کرنے لگتے ہیں اُن کو بھی نفسِ امارہ اور شیطانی آندھیاں اُٹھا کر دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم سے دور پھینک دیتی ہیں ۔

حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم مدینہ منورہ کے مکانات میں سے ایک اُونچے مکان پر چڑھے تو فرمایا ، کیا تم دیکھ رہے ہوجو میں دیکھتا ہوں ؟ بے شک میں تمھارے گھروں پر فتنوں کے گِرنے کی جگہوں کو دیکھ رہاہوں ، جیسے بارش کے قطروں کے گِرنے کے مقامات ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1751صفحہ نمبر714)

حادثوں کا سلسلہ دُور تک تھا چار سُو
بچا گئی وُہ چشمِ تَر یہ کاروانِ زندگی

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے فرمایا،کوئی شہر ایسا نہیں جس کو دجال برباد نہیں کردے گاسوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے.ان کے راستوں میں سے کوئی راستہ ایسا نہیں ہوگا جس پر صف بستہ فرشتے حفاظت نہ کررہے ہوں گے پھر مدینہ منورہ کے رہنے والوں کو تین جھٹکے لگیں گے جن کے باعث اللہ تعالیٰ ہرکافر اور منافق کواس سے نکال دے گا ۔ (بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1754صفحہ نمبر715،چشتی)
اس حدیثِ پاک میں بھی غیب دان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے دجال کے فتنے کے متعلق اپنے عشاق کو آگاہ فرمایا کہ دجال کا فتنہ بہت سخت ہوگا وہ تمام شہر برباد کردے گا لیکن مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکے گا کیونکہ وہاں فرشتے صف بستہ دربانی کے فرائض انجام دے رہے ہونگے جواُس کو داخل نہیں ہونے دیں گے یہ اس لیئے کہ یہ دونوں شہر اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی نشانیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ مکرمہ کو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے حرم بنایا اور میں مدینہ منورہ کو حرم بناتا ہوں ، اسی لیئے اللہ تعالیٰ کو گوارا نہیں کہ جن شہروں کو میرے محبوب بندوں نے حرم بنایا وہاں دجال داخل ہوسکے ، یہ بھی اس حدیث میں واضح ہے کہ ان شہروں میں کافروں اور منافقوں کا بسیرا ہونا کوئی عجیب بات نہیں مگر جب دجال کا فتنہ ظاہر ہوگا تو تمام فتنہ پسند اور فتنہ پھیلانے والے زلزلوں کے جھٹکوں کے باعث اُٹھا کر باہر پھینک دئیے جائیں گے اور وہ سبھی دجال کے ساتھ مل جائیں گے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ دربارِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم میں حاضر ہوکرعرض گزار ہوئیں ، یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم ! مجھے حارثہ کا حال بتائیے جو بدر کی لڑائی میں مارا گیا تھا ، جبکہ اسے نامعلوم تیرلگا تھا ، اگر وہ جنت میں ہے تومیں صبر سے کام لُوں ، اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو میں دل کھول کر اس پر گریہ زاری کروں ؟ ارشاد فرمایا،اے امِ حارثہ ! وہ جنت کے باغوں میں ہے اور بے شک تیرے لختِ جگر نے فردوسِ اعلیٰ پائی ہے ۔ (بخاری شریف جلد2 حدیث نمبر74صفحہ70)
محترم قارئین : بلاشبہ اللہ کریم نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کو تمام غیب کا جاننے والا بنا کربھیجا ہے اسی لیئے جب حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم سے حضرت حارثہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے کیا معلوم یہ باتیں توصرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے بلکہ آپ نے وہیں بیٹھ کر نگاہ اُٹھائی اور حضرت حارثہ کے مقام کی خبر دے دی کہ وہ جنت الفردوس میں مزے لے رہا ہے اور یہ بتا کر آپ نے واضح فرمادیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام طاقتیں عطا فرمائیں ہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ جن کی نگاہ سے جنت اور عرشِ معلیٰ کے حالات پوشیدہ نہیں اُن کے سامنے اس دنیا کے حالات کی خبر دینا کیا معنی رکھتا ہے،اللہ تعالیٰ حق ماننے کی توفیق عطا فرمائے آمین)۔(طالبِ دعا و دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...