لقب اہلسنّت و جماعت دلائل کی روشنی میں
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي ۔
ترجمہ : عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔۔۔۔۔ تحقیق بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جاے گی ، ملت واحدە کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی ، یا رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلّم ، وە ملت واحدە کون ہوں گے ؟ تو رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں ہوں اور میرے اصحاب ۔ (جامع ترمذی : 2461)(سنن ابن ماجہ : 3992 ، ابو داود:4597، مشکوۃ : 171)
امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ہی ہیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ہیں جو نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے طریقے پر ہیں اعتقادًا ، قولاً ، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علمائے اسلام نے جس بات پر اجماع کر لیا وە حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله لا يجمع أمتي أو قال: أمة محمد على ضلالة ويد الله على الجماعة ومن شذ شذ في النار ". . رواه الترمذي وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتبعوا السواد الأعظم فإنه من شذ شذفي النار» . رواه ابن ماجه من حديث أنس ۔
ترجمہ : اور ابن عمر رضی الله عنہما سے روایات ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ بے شک الله تعالی امت محمدی کو گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا اور ا لله کا ہاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پے روی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقادا یا قولا یا فعلا ) الگ ہوا وە آگ میں الگ ہوا ۔ اس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل جنت اصحاب سے الگ ہوا وە آگ میں ڈالا جاے گا ۔ (ترمذی:2167،)(کنز العمال:1029،1030) (مشکوۃ:173،174)
ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : من فارق الجماعة شبرا فمات، إلا مات ميتة جاهلية ( بخاری : 7054) جو جماعت (اہل سنت ) سے بالشت بھر بھی الگ ہوا ، پھر اسی حال میں مرا تو وە جاہلیت کی موت مرا ۔
مخالفينِِ اہل سنت کے پسندیدہ پیشوا علامہ ابن تیمیہ نے " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە "(القران ) کی تفسیر میں لکھا ہے : قال ابن عباس وغیرە تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ ۔ ( مجموع الفتاوٰی ، 278/3 ) اور پھر لکھا کہ امت کے تمام فرقوں میں اہل سنت اس طرح وسط اور درمیانے ہیں جیسے تمام امتوں میں امت مسلمہ ۔ كما فى قوله تعالى وكذلك جعلناكم أمة وسطا(البقرە: 143 ) - (مجموع الفتاوی، 370/3) اور لكهافان الفرقة الناجية اهل السنة والجماعة۔ (141/3)
(تفسیر ابن جریر میں آیت قرآنی " واعتصموا بحبل الله جمیعا " کے تحت حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی الله عنە کی روایت سے لکھا " قال الجماعۃ " اور دوسری سند سے ابن مسعود رضی الله عنہ ہی سے اسی آیت کے تحت لکھا " قال حبل الله الجماعۃ" ابن جریر لکھتے ہیں ( ولا تفرقوا عن دین الله ) علیکم بالطاعۃ والجماعۃ اھل السنۃ والجماعۃ ۔) اور تفسیر ابن کثیر میں ہے ( یوم تبیض وجوە وتسود وجوە ) یعنی یوم القیامۃ حین تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ (390/1)
وَأخرج ابْن أبي حَاتِم وَأَبُو نصر فِي الْإِبَانَة والخطيب فِي تَارِيخه واللالكائي فِي السّنة عَن ابْن عَبَّاس فِي هَذِه الْآيَة قَالَ {تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ تبيض وُجُوه أهل السّنة وَالْجَمَاعَة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع والضلالة وَأخرج الْخَطِيب فِي رُوَاة مَالك والديلمي عَن ابْن عمر عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي قَوْله تَعَالَى {يَوْم تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ: تبيض وُجُوه أهل السّنة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع۔ وَأخرج أَبُو نصر السجْزِي فِي الْإِبَانَة عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَرَأَ {يَوْم تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ: تبيض وُجُوه أهل الْجَمَاعَات وَالسّنة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع والأهواء ۔ (دیلمی مسند الفردوس:8986)(کنز العمال: 2637،چشتی)(تاریخ بغداد:3908،)(تفسیر مظھری 116/1،السنۃ :74)
ترجمہ : اور ابن ابی حاتم اور ابو نصر نے ابانہ میں اور خطیب نے اپنی تاریخ میں اور اللال کائی نے السنۃ میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت فرمائی اس آیت " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە " (آل عمران:106 ) کے بارے میں ، فرمایا کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاە ، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اہل سنت و جماعت کے چہرے سفید اور اہل باطل کے چہرے سیاە ہوں گے اور دیلمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس آیت کی یونہی تفسیر فرمائی اور ابو نصر سجزى نے أبانه ميں ابو سعيد خدری رضی اللہ عنہ سے روايت كى كه رسول كريم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے یہ آیت پڑھی اور فرمايا اهل سنت كےچہرے روشن ہوں گے اور اہل باطل کے چہرے سیاە ہوں گے ۔ ( الدر المنثور :63/2 )
غنیۃ اطالبین میں ہے : فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت ہی ہیں ۔ مومن کے لیئے لازم ہے سنت اور جماعت کی اتباع کرے پس سنت وە ہے جسے رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے جاری فرمایا ہو اور جماعت وە ہے جس پر ائمہ اربعہ خلفائے راشدین مہدیین رضی الله عنہم اجمعین کے دَور خلافت میں اصحاب نبوی نے اتفاق کیا ۔ ( غنیۃ الطالبین 192)
حضرات اولیاء اللہ آئمہ ، محدثین علیہم الرّحمہ محی الدین ، معین الدین ، شہاب الدین ، بہاوٴ الدین ، قطب الدین ، فرید الدین ، نظام الدین ، علاوٴ الدین ، نصیر الدین ، حمید الدین ، جلال الدین ، مصلح الدین ، حسام الدین ، صلاح الدین ، نور الدین ، منیر الدین ، شریف الدین ، سدید الدین ، شرف الدین ، تاج الدین ، اوحد الدین ، امین الدین ، کریم الدین ، سیف الدین ، شمس الدین ، سبھی اہل سنت و جماعت ہی میں ہوئے ہیں ، ولایت بلا شبہ الله تعالی کا انعام ہے اور انعام دوستوں پیاروں ہی کو دیا جاتا ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے اہل حق ہونے کی یہ واضح دلیل ہے ۔
گزشتہ صدی میں وە لوگ جو صحیح العقیدە اہل سنت و جماعت نہیں تھے مگر انہوں نے خود کو اہل سنت وجماعت کہلانا چاہا تو اہل حق اہل سنت و جماعت کی پہچان واضح کرنے کے لیئے سنی کے ساتھ بریلوی کا لقب پکارا جانے لگا ، چودہویں صدی کے مجدد امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ الله علیہ نے غیروں کی سازشوں کو پنپنے نہیں دیا اور کمال جراٴت و استقامت سے مسلک حق اہل سنت و جماعت کی ترجمانی کا حق ادا کیا اس لیئے ان کی نسبت سے بریلوی کا لقب آج اہل سنت و جماعت کی پہچان اور ہر سچے سنی کی صداقت کا عنوان ہے بریلوی کوئی فرقہ نہیں ہے ۔
فرقہ ناجیہ سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت : ⏬
عن انس بن مالک قال سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم یقول ان امتی لا تجمع علٰی ضلالة فاذا رأیتم اختلافاً فعلیكم بالسواد الاعظم ۔
ترجمہ:"حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم سے سنا ۔ حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت گمراہی میں جمع نہ ہو گی ۔جب تم اختلاف دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کو لازم پکڑو ۔
بعض لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ اسلام میں فرقہ بندی کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور سید ِ عالم جناب محمد رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے اس اختلاف و افتراق کی بابت پیشین گوئی فرمائی تھی کہ : والذی نفس محمد بیدہ لتفرقن امتی علٰی ثلٰث وسبعین فرقة فواحدة فی الجنة وثنتان وسبعون فی النار ۔ (سنن ابن ماجہ)
ترجمہ : اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت محمد صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کی جان پاک ہے کہ میری امت ۷۳ فرقوں میں منقسم ہو جائے گی (ان میں سے) ایک جنت میں جائے گا۔ اور ۷۲ دوزخ میں جائیں گے ۔
حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کی یہ پیشین گوئی انسانی فطرت کے عین مطابق تھی ۔ نظامِ کائنات اور رفتارِ زمانہ بھی اس پر شاہد ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نسلِ انسانی ابتداءً چند اصول کو تسلیم کرلیتی ہے۔پھر مرورِ زمانہ کی وجہ سے اس کے بعض افراد کے خیالات میں ان مانے ہوئے اصول کے متعلق تفاوت اور اختلاف پیدا ہوجاتا ہے بلکہ زیادہ مدت گزرنے کے بعد وہ اختلاف کچھ ایسی نوعیت اختیار کرلیتا ہے کہ اس جماعت میں سے ایک فرد بھی مسلمہ اصول پر قائم نہیں رہتا لیکن آسمانی اور الہامی اصول اور سچے دین کی امتیازی شان یہ ہے کہ اس دین کو قبول کرنے والوں میں سے ضرور ایک جماعت ایسی ہوتی ہے جو اس کثرت اختلاف کے باوجود بھی حق و صداقت پر قائم رہتی ہے اور فرقہ بندی کا طوفان اس کے پائے استقلال کو ڈگمگا نہیں سکتا ۔
مختصر یہ کہ غلط اصول کا ذِکر ہی کیا ؟ جب ان کی بنیاد ہی باطل پر ٹھہری تو ان میں حقانیت و صداقت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ الہامی اور آسمانی تعلیمات میں بھی نسلِ انسانی نے اس قدر اختلاف کیا کہ مدت مدید کے بعد ان کو قبول کرنے والوں کی اتنی قلیل تعداد حق و صداقت پر باقی رہی کہ اسے ۷۱ یا ۷۲ یا ۷۳ حصوں میں سے ایک حصہ کہا جاسکتا ہے۔ انسان کی اس فطرت کے ساتھ گردشِ کائنات کا نقشہ بھی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔رفتارِ زمانہ کے اثر سے زمانیات میں جو تفاوت پایا جاتا ہے اس کا انکار بھی نہیں ہوسکتا۔ زمانیات کے بہت تھوڑے افراد ایسے ہوتے ہیں جو اس گردشِ لیل و نہار سے متاثر ہوکر مختلف اور متفاوت نہیں ہوتے اور اپنے پہلے حال پر قائم رہتے ہیں۔
بہر حال اس فطری اصول کے موافق ہادیٔ اعظم نور مجسم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کی پیشین گوئی عقلِ سلیم کے عین مطابق ہے اور واقعات نے ثابت کردیا کہ حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے اختلافِ امت کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ عین حق و صواب پر مبنی تھا ۔ لیکن اس مقام پر جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس دورِ اختلاف و افتراق میں حق پسند اور نجات پانے والے گروہ کا کیسے پتہ چلے اور کیوں کر معلوم ہو کہ موجودہ فرقوں میں حق پر کون ہے ۔ اس حدیث پاک میں حضور اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے یہی بات ارشاد فرمائی ہے کہ : فاذا رأیتم اختلافا فعلیكم بالسواد الاعظم ۔
ترجمہ: جب تم اختلاف دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کو لازم پکڑو ۔
یہاں اختلاف سے مراد اصولی اختلاف ہے جس میں "کفر و ایمان" اور "ہدایت و اختلاف" کا فرق پایا جائے۔ فروعی اختلاف ہر گز مراد نہیں ، کیونکہ وہ تو رحمت ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں "اختلاف اُمتی رحمۃ" میری امت کا (فروعی) اختلاف رحمت ہے ۔
اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر موجودہ اسلامی فرقوں میں اس بڑے فرقے کو تلاش کیجئے جو باہم اصولاً مختلف نہ ہو تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آپ کو ایسا فرقہ اہلسنّت وجماعت کے سوا کوئی نہ ملے گا۔جس میں حنفی، شافعی،مالکی، حنبلی، قادری، چشتی،سہروردی،نقشبندی، اشعری، ماتریدی سب شامل ہیں،یہ سب اہلسنّت ہیں اور ان کے مابین کوئی ایسا اصولی اختلاف نہیں جس میں کفر و ایمان یا ہدایت و ضلالت کا فرق پایاجائے۔
حنفی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو اختلافی مسائل میں خطا اجتہادی پر تسلیم کرتے ہیں۔مگر ان کے مسائل کو (خطا اجتہادی پر مبنی ہونے کے باوجود) ان کے حق میں ہدایت سے خالی نہیں سمجھتے۔ بخلاف معتزلہ، مرزائیہ، روافض و خوارج وغیرہم کے کہ ان میں بعض گروہ ایسے ہیں جو اہلسنّت کے نزدیک دائرہ اسلام و ایمان سے خارج ہیں اور بعض وہ ہیں کہ ہدایت سے بے بہرہ ضلالت میں مبتلا ہیں ۔ لہٰذا اس دورِ پُرفتن میں حدیث مذکور کی رو سے سوادِ اعظم و اہلسنّت و جماعت کا حق پر ہونا ثابت ہوا جیسا کہ شیخ عبدالغنی انجاح الحاجہ حاشیہ ابن ماجہ میں اسی حدیث پر ارقام فرماتے ہیں : فہذا الحدیث معیار عظیم لاہل السنة والجماعة شکر اللہ سعیہم فانہم ہم السواد الاعظم وذلك لا یحتاج الی برہان فانک لو نظرت الی اہل الاہواء باجمعہم اثنتان وسبعون فرقة لا یبلغ عددہم عشر اہل السنة واما اختلاف المجتہدین فیما بینہم وكذالك اختلاف الصوفیة الکرام والمحدثین العظام والقراء الاعلام فہو إختلاف لا یضلل احدہم الآخر الخ ۔
ترجمہ : یہ حدیث اہلسنّت و جماعت (اللہ تعالیٰ ان کی سعی کو مشکور فرمائے) کے لیے معیارِ عظیم ہے۔بے شک وہی سوادِ اعظم ہیں اور یہ امر کسی برہان کا محتاج نہیں۔تمام اہل ہوا باوجودیکہ بہتر فرقے ہیں ان کو اگر تم دیکھو تو وہ اہلسنّت کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ رہا مجتہدین اور اسی طرح صوفیائے کرام اور محدثین عظام اور قراء اعلام کا باہمی اختلاف تو وہ ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی ایک دوسرے کی تضلیل نہیں کرتا ۔
یہاں بعض لوگ یہ شبہ کیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُہُمُ الْفَاسِقُوْنَ ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر فاسق ہیں۔نیزارشاد فرمایا " اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْر " عمل کرو اے آلِ داؤد علیہ السلام شکر کا اور کم ہیں میرے بندوں سے شکر کرنے والے ۔
ان کے علاوہ اور آیات سے بھی یہ ثابت ہے کہ مومن اور نیک بندے قلیل ہیں۔اس لیے یہ حدیث قرآن مجید کے خلاف ہے۔لہٰذا قابل قبول نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مدار نجات ایمان پر ہے۔ایمان رکھنے والوں میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے جو حسب استطاعت اللہ تعالیٰ کی پوری شکر گزاری کرنے والے اور کامل مومن ہوں ۔
دوسرے یہ کہ جن آیتوں میں مومنین کو قلیل اور کفار کو کثیر فرمایا گیا ہے وہاں کفار سے وہ بہتر فرقے بالخصوص مراد نہیں جو مدعی اسلام ہیں بلکہ وہاں کفار سے عام کفارمراد ہیں جن میں اسلام کے مدعی اور منکر سب شامل ہیں اور یہ امر واضح ہے کہ اسلام کے مدعی اور منکر تمام جہان کے کافروں کے مقابلہ میں سوادِاعظم اہلسنّت وجماعت کو لایا جائے تو یہ ضرور قلیل ہوں گے اور وہ کفار یقیناً کثیر ہوں گے۔لہٰذا قرآن و حدیث میں کوئی اختلاف نہیں ۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ دوسری حدیث میں حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے فرقہ ناجیہ کے متعلق فرمایا کہ "ما انا علیہ واصحابی" ناجی گروہ وہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کرام کے مسلک پر ہو۔ اس حدیث میں سوادِاعظم کا ذِکر نہیں۔اس کا جواب ظاہر ہے کہ یہ حدیث سوادِاعظم والی کے خلاف نہیں بلکہ اس کو اور واضح کر رہی ہے۔ کیوں کہ "ما انا علیہ واصحابی" والی حدیث میں یہ اجمال باقی ہے کہ حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم اور حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے موافق کون ہے ؟
۷۳ فرقوں میں سے ہر فرقہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا عقیدہ اور مذہب حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موافق ہے اس صورت میں ناجی گروہ کا پتہ نہیں چل سکتا۔ "علیكم بالسواد الاعظم" والی حدیث نے اس اجمال کو دور کردیا اور اس امر کو واضح کردیا کہ جتنے فرقے اس امر کے مدعی ہوں گے کہ ہمارا دین و مذہب حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام کے موافق ہے وہ سب جھوٹے ہوں گے ۔ میرے دین پر جو جماعت صحیح معنی میں قائم رہے گی وہ سوادِاعظم ہوگی۔لہٰذا تم سوادِ اعظم ہی کو لازم پکڑنا ۔
اس مقام پر ایک اعتراض کا جواب دینا نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ میری امت میں ۷۲ فرقے ناری ہوں گے اور ایک ناجی ہوگا۔حالانکہ اگر ان فرقوں کو دیکھا جائے جو ہمارے نزدیک ناری ہیں تو ان کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہوچکی ہے۔پھر اہلسنّت کا وہ ایک فرقہ ہمارے نزدیک ناجی ہے اس میں بھی متعدد گروہ پائے جاتے ہیں۔ جیسے حنفی، شافعی،مالکی،حنبلی، علیٰ ہذا القیاس صوفیاء کرام اور علماء متكلمین وغیرہم میں بہت سے گروہ ہیں۔حالانکہ ہم ان سب کو ناجی سمجھتے ہیں۔ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہے کہ ناجی فرقہ صرف ایک ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث مبارکہ میں ۷۲ ناری فرقوں سے وہ فرقے مراد ہیں جو کفر و الحاد اور گمراہی و بے دینی کا سرچشمہ اور جڑ ہیں۔ اسی طرح ایک ناجی گروہ سے وہ نجات پانے والا فرقہ مراد ہے جو اسلام اور ایمان ہدایت و رحمت کا منبع اور اصل و بنیاد ہے۔ظاہر ہے کہ ایک جڑ سے کئی شاخیں نکلتی ہیں مگر ان کی اصل وہی جڑ ہے جس سے وہ نکلتی ہے۔شاخوں کی کثرت سے جڑوں کی کثرت لازم نہیں آتی۔ جیسے ایک قیبلے میں کئی خاندان ہوتے ہیں اور ہر خاندان میں کئی گھر اور ہر گھر میں کئی افراد،اسی طرح گمراہی کی ۷۲ جڑوں اور ضلالت کے بہتر قبیلوں سے سینکڑوں کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بھی اگر شاخیں اور خاندان و افراد پیدا ہوجائیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کی اصل اور قبیلے بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں۔مختصر یہ کہ جس طرح گمراہی کی ۷۲ جڑوں سے سینکڑوں ہزاروں شاخیں پیدا ہوگئیں (جنہیں فرقوں میں شمار کرلیا گیا) اسی طرح ہدایت کی ایک جڑ سے کئی شاخیں پیدا ہوئیں۔ مگر یاد رکھیے ضلالت کی جڑ کی ہر شاخ ضلالت ہوگی اور ہدایت کی جڑ سے جو شاخیں نمودار ہوں گی وہ سب ہدایت قرار پائیں گے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا " وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا " جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا (عام اس سے کہ وہ جہاد جانی ہو یا مالی ، جسمانی ہو یا روحانی ہو، جہاد اصغر ہو یا جہاد اکبر ہو) ہم انہیں اپنی راہوں کی طرف رہنمائی فرمائیں گے ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سبیل کی بجائے سُبُل فرمایا۔یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ہم انہیں اپنی راہ کی طرف راہنمائی فرمائیں گے بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ ہم انہیں اپنی راہوں کی طرف رہنمائی فرمائیں گے ۔ معلوم ہوا کہ سبیل خداوندی ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور وہی ہیں جن کا مبداء اور مرکز فرقہ ناجیہ السواد الاعظم اہلسنّت وجماعت ہو ۔ جیسے حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، چشتی ، قادری ، سہروردی ، نقشبندی ، ماتریدی ، اشعری وغیرہم ۔ ثابت ہوا کہ اس اختلاف و افتراق کے دور میں نجات کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ حدیث مبارکہ "علیكم بالسواد الاعظم" کے مطابق مسلمانوں کے سب سے بڑے گروہ اہلسنّت و جماعت کو لازم پکڑ لیا جائے اور اس کے علاوہ دیگر تمام مذاہب باطلہ سے علیحدگی اختیار کی جائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment