Wednesday 30 January 2019

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موئے مبارک سے حُصولِ برکت

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موئے مبارک سے حُصولِ برکت

محترم قارئین : صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کس طرح پروانہ وار موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو تبرکًا حاصل کرتے تھے اس حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلّم ، وَالْحَلَّاقُ يَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِيْ يَدِ رَجُلٍ ۔
ترجمہ : میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے گرد گھوم رہے تھے ان کی شدید خواہش تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب : قرب النبي صلي الله عليه وآله وسلم من الناس وتبرکهم به، 4 : 1812، رقم : 2325)(أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12386 - 12423)(ابن کثير، البداية والنهاية، 5 : 189)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موئے مبارک کو تبرکًا حاصل کیا بعد میں خصوصی اہتمام کے ساتھ انہیں محفوظ کیا اور نسلاً بعد نسلٍ اُمت میں موئے مبارک محفوظ چلے آ رہے ہیں ۔

حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : أَرْسَلًنِي أَهْلِي إِلَي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ، وَقَبَضَ إِسْرَائِيْلُ ثَلَاثَ أَصَابِعَ مِنْ قُصَّةٍ فِيْهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيئٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ فَاطَّلَعْتُ فِي الْجُلْجُلِ فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا ۔
ترجمہ : مجھے میرے گھر والوں نے حضرت اُم سلمہ رضی ﷲ عنہا کے پاس (چاندی سے بنا ہوا) پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا ۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا موئے مبارک تھا ، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ حضرت اُم سلمۃ رضی ﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب اللباس، باب : ما يذکر في الثيب، 5 : 2210، رقم : 5557،چشتی)(صحیح بخاری مترجم جلد سوم صفحہ نمبر 585)،(ابن راهويه، المسند، 1 : 173، رقم : 145)،(ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 21)

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : والمراد أنه کان من اشتکي أرسل إناء إلي أم سلمة فتجعل فيه تلک الشعرات وتغسلها فيه وتعيره فبشربه صاحب الإناء أو يغسل بهِ استشفاء بها فتحصل له برکتها ۔
ترجمہ : اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ کوئی برتن حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنہا کے ہاں بھیجتا ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ان مبارک بالوں کو اس میں رکھ دیتیں اور اس میں بار بار دھوتیں پھر وہ بیمار شخص اپنے اس برتن سے پانی پیتا یا مرض کی شفاء کے لئے غسل کرتا اور اسے ان موئے مبارک کی برکت حاصل ہو جاتی (یعنی وہ شفایاب ہو جاتا) ۔ (عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 10 : 353)

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أنّ أم سلمة کان عندها شعرات من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم حمر في شئ مثل الجلجل وکان الناس عند مرضهم يتبرکون بها ويستشفون من برکتها ۔
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے ۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے تبرک حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے ۔ (عيني، عمدة القاري، 22 : 49)

حضرت یحییٰ بن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : کان لنا جلجل من ذهب فکان الناس يغسلونه، وفيه شعر رسول اﷲ، قال : فتخرج منه شعرات قد غيرت بالحناء والکتم ۔
ترجمہ : ہمارے پاس سونے کا ایک برتن (جلجل) تھا جس کو لوگ دھوتے تھے ، اس میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موئے مبارک تھے ۔ چند بال نکالے جاتے تھے جن کا رنگ حنا اور نیل سے بدل دیا گیا تھا ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 437،چشتی)

موئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم دنیا کے جملہ خزانوں سے عزیز تر

اکابر ائمہ علیہم الرّحمہ موئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی اسقدر قدر و قیمت کرتے تھے کہ انہیں دنیا و مافیہا کے خزانوں سے پڑھ کر موئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے محبت تھی ۔

امام ابنِ سیرین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : قُلْتُ لِعَبِيْدَةَ : عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلّم ، أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ، أَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ أَنَسٍ، فَقَالَ : لَأَنْ تَکُوْنَ عنِْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبُّ إِليَّ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا ۔
ترجمہ : میں نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا : ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے چند موئے مبارک ہیں جن کو ہم نے انس رضی اللہ عنہ یا ان کے اہلِ خانہ سے حاصل کیا ہے ۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ان مبارک بالوں میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : الماء الذي يغسل به شعر الإنسان، 1 : 75، رقم : 168)(بيهقي، السنن الکبري، 7 : 67، رقم : 13188)(بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 201)

ایک اور روایت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَأَنْ يَکُوْنَ عِنْدِي مِنْهُ شَعَرَةٌ أَحَبُّ إِلَيَ مِنْ کُلِّ صَفْرَاءَ وَبَيْضَاءَ أَصْبَحَتْ عَلَي وَجْهِ الْأَرْضِ وَفِي بَطْنِهَا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے مبارک بالوں میں سے ایک بال کا میرے پاس ہونا مجھے روئے زمین کے تمام ظاہری اور پوشیدہ خزانوں ، سونے اور چاندی کے حصول سے زیادہ محبوب ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 256، رقم : 13710،چشتی)(بيهقي، السنن الکبري، 2 : 427، رقم : 4032)

وصال کے بعد موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے حصولِ برکت

حضرت ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : هَذِهِ شَعَرَةٌ مِنْ شَعَرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَضَعْهَا تَحْتَ لِسَانِي، قَالَ : فَوَضَعْتُهَا تَحْتَ لِسَانِهِ، فَدُفِنَ وَهِيَ تَحْتَ لِسَانِهِ ۔
ترجمہ : یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ایک بال مبارک ہے ، پس تم اسے میری (تدفین کے وقت) اسے زبان کے نیچے رکھ دینا ۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال مبارک آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا ۔ (عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 1 : 127)

جنگ میں فتح کے لئے موئے مبارک کا توسّل

حضرت صفیہ بنتِ نجدہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے چند موئے مبارک تھے ۔ ایک مرتبہ دورانِ جہاد وہ ٹوپی گر پڑی وہ اس کو لینے کے لئے تیزی سے دوڑے جبکہ اس معرکے میں بکثرت صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم شہید ہوئے ۔ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لم أفعلْها بسبب القَلَنْسُوة، بل لما تضَمَّنَتْه من شَعرِه صلي الله عليه وآله وسلم لئلا أُسْلَب برکتها وتقع في أيدي المشرکين ۔
ترجمہ : میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کہ اس ٹوپی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موئے مبارک تھے۔ مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس کی برکت سے محروم نہ ہو جاؤں اور دوسرا یہ کہ یہ کفار و مشرکین کے ہاتھ نہ لگ جائے ۔ (قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفيٰ، 2 : 619،چشتی)(عيني، عمدة القاري، 3 : 37)

موئے مبارک کی برکت سے شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کی صحت یابی

موئے مبارک کی کرامات و برکات کے حوالے سے ائمہ و صالحین علیہم الرّحمہ کے بعض ذاتی مشاہدات کا ذکر بھی کتب سیر و تواریخ میں ملتا ہے ۔ ائمہ متاخرین میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ جیسی عظیم علمی و فکری شخصیت سے کون متعارف نہ ہوگا ۔ انہوں نے اپنی کتاب الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین اور انفاس العارفین میں اپنے والدِ گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی قدس سرہ العزیزکی بیماری کا واقعہ ان کی زبانی خود بیان کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ اتنا سخت بخار ہوا کہ زندہ بچنے کی امید نہ رہی ۔ اسی دوران مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی ، اندریں حال میں نے حضرت شیخ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیٹے عبدالرحیم (مبارک ہو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تمہاری عیادت کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور سمت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرف تمہاری پائنتی ہے اس طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں گے ۔ سو تمہارے پاؤں اس رخ پر نہیں ہونے چاہئیں ۔ مجھے غنودگی کے عالم سے کچھ افاقہ ہوا مگر بولنے کی طاقت نہ تھی چنانچہ حاضرین کو اشارے سے سمجھایا کہ میری چار پائی کا رخ تبدیل کر دیں بس اسی لمحے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تشریف آوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : کیف حالک یا ابنی ؟ بیٹے عبدالرحیم ! تمہارا کیا حال ہے ؟ بس پھر کیا تھا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی شیریں گفتار اور رس بھرے بول نے میری دنیا ہی بدل دی جس سے مجھ پہ وجد و بکاء اور اضطراب کی عجیب کیفیت طاری ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے ۔ فرطِ جذبات سے مجھ پر گریہ و زاری کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا قمیص مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس رقت و گداز سے مجھے قرار و سکون نصیب ہوا ۔ اچانک میرے دل میں خیال گزرا کہ میں تو مدت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موئے مبارک کا آرزو مند ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا کتنا بڑا کرم ہوگا اگر اس وقت میری یہ آرزو پوری فرمادیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم میرے اس خیال سے آگاہ ہوئے اوراپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر (ایک کی بجائے) دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں تھما دیئے ۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو شاید خواب دیکھ رہا ہوں جب بیدار ہوں گا تو خدا جانے یہ بال محفوظ رہیں یا نہ رہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس خیال کو بھی جان گئے اور فرمایا (فکر نہ کر) یہ عالم بیداری میں بھی تیرے پاس محفوظ رہیں گے ۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مجھے صحتِ کلی اور درازیء عمر کی بشارت عطا فرمائی۔ مجھے اسی لمحے افاقہ ہوا اور میں نے چراغ منگوا کر دیکھا تو وہ موئے مبارک میرے ہاتھ سے غائب تھے ، اس پر مجھے سخت اندیشہ اور پریشانی لاحق ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مجھے آگاہ فرمایا کہ بیٹے میں نے دونوں بالوں کو تیرے تکیہ کے نیچے رکھ دیا ہے وہاں سے تجھے ملیں گے۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو میں اٹھا اور انہیں اسی جگہ پایا ۔ میں نے تعظیم و اکرام کے ساتھ انہیں ایک جگہ محفوظ کر لیا ۔ اس کے بعد بخار ختم ہوا ، تمام کمزوری دور ہو گئی اور مجھے صحتِ کلی نصیب ہوئی ۔ انہی موئے مبارک کے خواص میں سے ذیل میں تین کا ذکر کیا جاتاہے ۔
(1) یہ آپس میں جڑے ہوئے رہتے تھے جوں ہی درود شریف پڑھا جاتا یہ دونوں الگ الگ سیدھے کھڑے ہوجاتے تھے اور درود شریف ختم ہوتے ہی پھر اصلی حالت اختیار کرلیتے تھے ۔
(2) ایک مرتبہ تین منکرین نے امتحان لینا چاہا اور ان موئے مبارک کو دھوپ میں لے گئے۔ غیب سے فوراً بادل کا ایک ٹکڑا ظاہر ہوا جس نے ان موئے مبارک پر سایہ کر لیا حالانکہ اس وقت چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی۔ ان میں سے ایک تائب ہوگیا ۔ جب دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو باقی دونوں بھی تائب ہوگئے ۔
(3) ایک مرتبہ کئی لوگ موئے مبارک کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے۔ شاہ صاحب نے ہر چند کوشش کی مگر تالا نہ کھلا۔ اس پر شاہ صاحب نے مراقبہ کیا تو پتہ چلا کہ ان میں ایک شخص جنابت کی حالت میں ہے۔ شاہ صاحب نے پردہ پوشی کرتے ہوئے سب کو تجدید طہارت کا حکم دیا، جنبی کے دل میں چور تھا، جوں ہی وہ مجمع میں سے نکلا فوراً قفل کھل گیا اور سب نے موئے مبارک کی زیارت کر لی پھر والد بزرگوار نے عمر کے آخری حصے میں ان کو بانٹ دیا جن میں ایک مجھے بھی مرحمت فرمایا جو اب تک میرے پاس موجود ہے ۔ (شاه ولي الله، أنفاس العارفين : 40 - 41) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔