Saturday 12 January 2019

دم اور تعویذات قرآن و حدیث کی روشنی میں

0 comments
دم اور تعویذات قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئین : آج کل منکرین حدیث کا ایک گروہ نئے لیبل غیرمقلدین نام نہاد اہلحدیث حضرات کا ہے جن کا دعویٰ تو قرآن و حدیث کا ہے مگر یہ گروہ اپنی خواہش نفس کا غلام ہے جو بات ان کی خواہش نفسانی کے مطابق ہو وہ درست باقی سب غلط یہی سلوک یہ احادیث مبارکہ کے ساتھ کرتے ہیں دم اور تعویذات کے بارے میں بھی ان کا یہی رویہ ہے خود ان کے مولوی کریں تو جائز اور جب مسلمانانِ اہلسنّت کی باری آتی ہے تو شرک کے فتوے آیئے اس حقیقت کو جانتے ہیں ۔ دورِ جدید کے اِن منکرین حدیث کی حقیقت کو بھی آپ پہچان لیں گے ان شاء اللہ ۔

صحابی رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ یہ دعا سکھاتے اور جو نابالغ ہوتا تھا تو اس کو لکھ کر اُس کے گلے میں لٹکا دیتے تھے ۔ (جامع ترمذی جلد دوم صفحہ 971 ،972 ترجمہ و تحقیق غیر مقلد وہابی علماء)

حدیث پر عمل کا دعوی اسی وقت درست ہے جب عمل بھی ہو اپنے مطلب کی حدیث لے لینے والا اور دوسری کو چھوڑ دینے والا حدیث کا پیروکار نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مخالف اور دشمن حدیث ہے ، ایسے لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حدیث کے مصداق ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اخیر زمانے میں کچھ لوگ ایسی باتیں لائیں گے جن کو تم اور تمھارے باپ دادا نے نہ سنا ہوگا ، ایک حدیث بیان کرنا اور دوسری چھوڑ دینا بلا شبہ حدیث کا غلط مطلب بیان کرنا اور نبی محترم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جھوٹ باندھنا ہے اس لیے کہ کثیر احادیث ایسی ہیں جن کا مطلب دوسری احادیث سے ہی واضح ہوتا ہے ۔

تعویذ اور جھاڑ پھونک کی قرآن و احادیث کی روشنی میں کیا حقیقت ہے ہم ذیل میں اسے بیان کرتے ہیں

قرآن پاک میں اللّٰه تعالی ارشاد فرماتا ہے : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ ۙ وَ لَایَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا ۔ ﴿سورۃ الاسراء آیت نمبر 82﴾
ترجمہ : اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو خسارہ ہی بڑھتا ہے ۔
اولًا اس آیت مبارکہ ہی سے دم اور تعویذ کا ثبوت ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو مومنین کے لیے شفا اور رحمت قرار دیا ہے، اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ پڑھ کر کسی پر دم کردیا جائے یا تعویذ بنا کر مریض کے گلے میں لٹکا دیا جائے ، اس آیت پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی ذی عقل تعویذ و دم کو ناجائز و حرام نہیں کہہ سکتا مگر وہی قرآن جن کے حلق سے نیچے نہیں اترتا ۔
تعویذ اورجھاڑ پھونک وہ ممنوع و ناجائز ہیں جس میں جہالت بھرے الفاظ اور شرکیہ کلمات ہوں اور جس میں یہ باتیں نہ ہوں بلکہ قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ ہو وہ بلا شبہ جائز و مستحسن ہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جھاڑ پھونک (دم) فرمایا کرتے تھے ۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ : اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ۔ قرآن شفا ہے کہ اس سے ظاہری و باطنی اَمراض، گمراہی اور جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے۔ باطل عقائد، رذیل اخلاق اس کے ذریعے دفع ہوتے ہیں اور عقائد ِحقہ ، معارفِ الٰہیہ ، صفاتِ حمیدہ اور اَخلاقِ فاضلہ حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہم پر مَبنی چیزوں کواور شیطانی ظلمتوں کو اپنے انوار سے نیست و نابُود کر دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ و خزانہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں ۔ (تفسیر خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳/۱۸۹)(تفسیرروح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵/۱۹۴)

قرآنِ مجید میں جسمانی امراض کی بھی شفا موجود ہے

یاد رہے کہ قرآنِ کریم کی حقیقی شفا تو روحانی امراض سے ہے لیکن جسمانی امراض کی بھی اس میں شفا موجود ہے اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال و اَفعال سے ثابت ہے،اس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں :

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ عرب کے کسی قبیلے میں گئے ، اس قبیلے کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی دورا ن قبیلے کے سردار کو ایک بچھو نے ڈنک مار دیا تو وہ لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکے پاس آ کر کہنے لگے کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس دوا ہے یا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے ؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’تم نے چونکہ ہماری مہمان نوازی نہیں کی اس لئے ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ا س کی اجرت نہ دو گے ۔ چنانچہ انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بکریوں کا ایک ریوڑ مقرر کیا ، پھر (ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے) سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اپنے تھوک کی چھینٹیں اس پر ڈالیں تو وہ تندرست ہو گیا۔ پھر قبیلے کے لوگ بکریاں لے کر آئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’ہم اس وقت تک یہ بکریاں نہیں لیں گے جب تک (ان کے بارے میں)رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھ نہ لیں ۔ جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرائے اور ارشاد فرمایا ’’ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ یہ دم ہے ؟ ان بکریوں کو لے لو اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکال لو ۔ (بخاری، کتاب الطب، باب الرّقی بفاتحۃ الکتاب، ۴/۳۰، الحدیث: ۵۷۳۶)
اس حدیث پاک میں واضح طور پر مذکور ہے کہ صحابی نے جھاڑ پھونک فرمائی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسل:م تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اسے غلط قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجرت بھی قبول کرنے کا حکم دیا ۔

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : جس مرض میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی تھی ، اس مرض میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ فلق اور سورۂ والناس پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے اور جب طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تو میں وہ سورتیں پڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دم کیا کرتی اور خود آپ کے ہاتھ کو پھیرتی کیونکہ وہ(میرے ہاتھ سے زیادہ) بابرکت ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الطب، باب فی المرأۃ ترقی الرجل، ۴/۳۴، الحدیث: ۵۷۵۱،چشتی) ۔ البتہ آیت کے آخر میں فرمایا کہ مومنوں کیلئے تو قرآن شفا ہے مگر اس قرآن کے ذریعے ظالموں یعنی کافروں کا خسارہ ہی بڑھتا ہے کہ کفرو ضد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔

بخاری شریف میں ہے: 5412 حدثنی احمد ابن ابی رجاء حدثنا النضر عن ھشام بن عروۃ قال اخبرنی ابی عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرقی یقول امسح الباس رب الناس بیدک الشفاء لا کاشف لہ الا الا انت ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دم کرتے تو کہا کرتے تکلیف کو مٹا دے اے لوگوں کے رب شفا تیرے دست قدرت میں ہے,اس مشکل کا آسان کرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں.
اس حدیث پاک میں صاف طور پر مذکور ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دم فرمایا کرتے تھے ۔

نیز مسلم شریف میں ہے: وعَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : " نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى ، فَجَاءَ آلُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ! إِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَنَا رُقْيَةٌ نَرْقِي بِهَا مِنَ الْعَقْرَبِ ، وَإِنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقَى ، قَالَ: فَعَرَضُوهَا عَلَيْهِ ، فَقَالَ: ( مَا أَرَى بَأْسًا ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ ) رواه مسلم ( 2199 )
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا تو عمرو بن حزم کی آل حضور کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے پاس ایک دم تھا جسے ہم بچھو کے کاٹنے پر کرتے تھے اور آپ نے دم کرنے سے منع فرمادیا ہے , حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا وہ دم مجھے بتاؤ پھر فرمایا میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا , تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو اسے پہنچانا چاہیے ۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک میں اگر شرکیہ بات نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس طرح سے مسلمان بھائی کو نفع پہنچانے کی ترغیب دلائی ہے ۔

مسلم شریف کی ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے جس میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صاف طور فرمایا کہ جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو ۔

وعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ : " كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ! كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : ( اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ) " رواه مسلم ( 2200 )
ترجمہ : صحابی عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم زمانہ جاھلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ اسے کیسا گمان کرتے ہیں ؟ فرمایا : اپنی جھاڑ پھونک,دم مجھے بتاؤ , دم یا جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں کوئی شرک نہ ہو ۔

ظاہر ہے کہ دم.جھاڑ پھونک اور دعا تعویذکرنے والے قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ کرتے ہیں ان کا یہ کام بالکل درست ہے اور حدیث سے اس کا قوی ثبوت ہے, کوئی اگر اب جھاڑ پھونک کو غلط قرار دیتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جھوٹ باندھتا ہے اور صریح و مرفوع احادیث کا انکار کرتا ہے . اور یاد رہے کہ حضور نے فرمایا ہے کہ جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو اسے اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنانا چاہیے . اب منکرین اپنے ایمان کا اندازہ لگائیں ۔

تعویذ اور دم دونوں ہم معنی ہیں

مصباح اللغات میں ہے: عَوَّذَ تَعْوِیْذًا وَاَعَاذَ اِعَاذَۃً الرجل. حفاظت کی دعا کرنا اور اعیذک باللہ کہنا, منتر کرنا گلے میں تعویذ لٹکانا (ص: 583) رقی یرقی الرُّقی: منتر, تعویذ (ص: 310)

حدیث میں یہ دونوں الفاظ آئے ہیں : جس طرح دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح لٹکانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہم اس تعلق سے بھی حدیث پیش کرتے ہیں : امام احمد بن حنبل اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حدثنا يزيد ، أخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا كلمات يقولهن عند النوم ، من الفزع : " بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون " قال : فكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده أن يقولها عند نومه ، ومن كان منهم صغيرا لا يعقل أن يحفظها ، كتبها له ، فعلقها في عنقه . ورواه أبو داود ، والترمذي ، والنسائي ، من حديث محمد بن إسحاق ، وقال الترمذي : حسن غريب ۔ (سنن ابی داؤد ج: 2 ص: 187 مطبوعہ مطبع مجتبائی پاکستان لاہور)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چند کلمات سکھائے جن کو ہم خوف اور دہشت کی وجہ سے سوتے وقت پڑھتے تھے وہ کلمات یہ تھے بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون. حضرت عبد اللہ بن عمرو بالغ بچوں کو سوتے وقت ان کلمات کے پڑھنے کی تلقین کرتے اور جو کم سن بچے ان کلمات کو یاد نہیں کر سکتے تھے ان کے گلے میں ان کلمات کو لکھ کر ان کا تعویذ ڈال دیتے ۔

صحابی رضی اللہ عنہ کا تعویذ لٹکانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس لیئے کہ کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نہ تو خلافِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں معلوم ہوا کہ دم جھاڑ پھونک تعویذ میں کوئی حرج نہیں ۔

حدیث پر عمل کا دعوی کرنے والوں سے میرا کہنا ہے کہ وہ اپنی سوچ کا محاسبہ کریں اور غور کریں کہ وہ کتنا حدیث پر عمل کر رہے ہیں اور ان کا ایمان کہاں تک سلامت ہے ۔ کیا یہی حدیث پر عمل ہے کہ ایک حدیث کو لے لیا جائے اور اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے ؟ یہی تمھارا ایمان ہے ؟ حدیث کا انکار اور پھر بھی اس پر عمل کا دعوی ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔