جو چاہو مجھ سے پوچھو میں تمہیں اس کی خبردوں گا
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ ، فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ ، فَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ ، فَلَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا ، فَأَكْثَرَ النَّاسُ فِي الْبُكَاءِ ، وَأَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ : سَلُونِي ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِيُّ ، فَقَالَ : مَنْ أَبِي ؟ قَالَ : أَبُوكَ حُذَافَةُ ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ : سَلُونِي ، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ، فَقَالَ : رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ : عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ ، فَلَمْ أَرَ كَالْخَيْرِ وَالشَّرِّ ” ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لائے اور انہیں نمازِ ظہر پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہوکر قیامت کا ذکر فرمایا ۔ یہ بتلایا کہ اس سے قبل بڑے بڑے امور ظاہر ہوں گے پھر فرمایا : من اجب ان یسالنی عن شیءِِ فلیسئالنی عنہ فواللہ لا تسئالوننی عن شیی ءِِ اِلا اَخبرتکم بہٖ مادمت فی مقامی ھٰذا ۔ جو شخص ان کے متعلق مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو وہ سوال کرے ۔ اللہ کی قسم ! میں جب تک اس جگہ کھڑا ہوں تم جس چیز کے متعلق بھی پوچھو گے میں تم کو اس کی خبردوں گا ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے یہ سنا تو انہوں نے بہت رونا شروع کردیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بار بار یہ فرماتے تھے ۔ سَلُونِی ۔ مجھ سے پوچھو ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا ۔ مَن ابی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ؟ ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے والد کون ہیں ؟ فرمایا : ابوک حذافۃ ، تمہارا باپ حذافہ ہے ۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہیں ۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ خاموش ہو گئے ، پھر فرمایا ابھی مجھ پر جنت اور جہنم ا س دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ، میں نے ایسی بھلی اور بری چیز نہیں دیکھی ۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰،چشتی)،(صحیح مسلم شریف جلد ۷ صفحہ ۹۳ باب کراھۃ اکثار السوال۔ طباعت نسخہ معتمدہ قدیمہ از مخطوط ترکی)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: “سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ، قَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ” ۔
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے ایسے سوالات کئے گئے جو ناپسند تھے جب زیادہ کئے گئے تو آپ ناراض ہو گئے ، پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ ایک شخص عرض گزار ہوا : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا تمہارا باپ حُذافہ ہے ۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا سالم مولی شیبہ ہے ۔ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کی حالت دیکھی تو عرض کی یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف توبہ کرتے ہیں ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم۔۔۔ الخ، ۱/۵۱، الحدیث: ۹۲،چشتی)
بے عشق نبی جو پڑھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار اُن کو بخاری نہیں آتی
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ : میری امت کی پیدائش سے پہلے جب میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے اِستِہزاء کے طور پر کہا کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا اورکون کفر کرے گا ، جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں ۔ اس پر حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن (اعتراض) کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حذافہ ، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ربوبیت پر راضی ہوئے ، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے، قرآن کے امام و پیشواہونے پر راضی ہوئے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے معافی چاہتے ہیں ۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کیا تم باز آؤ گے؟ کیا تم باز آؤ گے ؟ پھر منبر سے اتر آئے اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (تفسیر خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۱/۳۲۸)
معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بار بار ارشاد فرمانا کہ سلونی مجھ سے سوال کرو ۔ مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھو ۔ اس سے عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہرچیز کا علم عطا فرمایا ہے پھر حضرت حذافہ رضی اللہ عنہ کو لوگ کسی اور آدمی کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ تو آپ نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوال کرکے اس الزام کی بھی وضاحت کرالوں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ تیرا باپ حذافہ ہے اس سے پہلے بھی وہ اسی کی طرف منسوب تھا۔ جو لوگ کہتے تھے وہ ایک الزام اور بہتان تھا ۔ اور ساتھ میں امام مسلم کی تفصیل میں بھی لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مغیبات (یعنی غیب سے) آگاہ فرما رکھا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment