Tuesday, 22 January 2019

درسِ قرآن موضوع : علم ما فی الارحام

درسِ قرآن موضوع : علم ما فی الارحام

محترم قارئین : محترم قارئین ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ ۔ ( سورۃ لقمان آیت نمبر 34 )
ترجمہ : اور (اللہ) جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے ۔

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد السّاری شرح بخاری میں فرماتے ہیں : فمن ادعٰی علم شیئ منہا غیر مسند الٰی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان کاذبًا دعواہ ۔
ترجمہ : جو کوئی قیامت و غیرہ خمس سے کسی شئی کے علم کا اِدعا کرے اور اسے رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کی طرف نسبت نہ کرے کہ حضور کے بتائے سے مجھے یہ علم آیا ، وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے ۔ (ارشاد السّاری شرح صحیح بخاری عربی)

تفسیر عرائس البیان زیر آیت “ یعلم ما فی الارحام “ ہے : سمعت ایضا من بعض الاولیاء انہ اخبر مافی الرحم من ذکر وانثی ورئیت بعینی ما اخبر ۔
ترجمہ : ہم نے بعض اولیاء علیہم الرّحمہ کو سنا کہ انہوں نے پیٹ کے بچہ لڑکی یا لڑکے کی خبر دی اور ہم نے اپنی آنکھوں سے وہی دیکھا جس کی انہوں نے خبر دی تھی ۔

تفسیر روح البیان میں اسی آیت کے ما تحت ہے : وما روی عن الانبیاء و الاولیاء من الاخبار عن الغیوب فیتعلم اللہ اما بطریق الوحی او بطریق الالھام والکشف وکذا اخبر بعض الولیاء عن نزول المطر واخبر عما فی الرحم من ذکر و انثی فوقع کما اخبر۔
ترجمہ : اور جو غیب کی خبریں انبیاء و اولیاء سے مروی ہیں پس یہ اللہ کی تعلیم سے ہیں یا وحی یا الہام کے طریقے سے ۔ اور اسی طرح بعض اولیاء نے بارش آنے کی خبر دی اور بعض نے رحم کے بچہ لڑکے یا لڑکی کی خبر دی تو وہ ہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا ۔

علامہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ روض النظر شرح جامع صغیر میں اسی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں : قولہ علیہ السلام الا ھو معناہ بانہ لا یعلھا احد بذاتہ الا ھو لکن قد یعلم بہ با علام اللہ فان ثم من یعلمھا وقد وجدنا ذلک بغیر واحد کما رءینا جماعۃ علموا امتی یموتون وعلموا ما فی الارحام ۔
ترجمہ : حضور علیہ السلام کا فرمانا “ الا ھو“ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ ان کو اپنے آپ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن کبھی اللہ کے بتانے سے جان لیتے ہیں کیونکہ یہان یہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں ہم نے متعدد کو ایسا پایا جیسے ہم نے ایک جماعت کو دیکا کہ وہ جان لیتے ہیں کہ کب مرینگے اور جانتے ہیں شکم کے بچے کو۔
یہی علامہ جلال الدین سیوطی خصائص شریف میں فرماتے ہیں : عرض علیہ ما ھو کائن فی امتہ حتٰی تقوم الساعۃ ۔
ترجمہ : حضور علیہ السلام پر تمام وہ چیزیں پیش کر دی گئیں جو آپ کی امت میں قیامت تک ہونے والی ہیں ۔

علامہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ شرح قصیدہ بردہ صفحہ 74 میں فرماتے ہیں : لم یخرج النبی علیہ السلام من الدنیا الا بعد اب اعلمہ اللہ بھذہ الامور الخمسۃ ۔
ترجمہ : حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر اس کے بعد کہ اللہ نے آپ کو پانچوں چیزوں کا علم بتا دیا ۔

جمع النہایہ میں علامہ شبوائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قد ورد ان اللہ تعالٰی یخرج النبی علیہ السلام حتٰی اطلعہ اللہ علٰٰ کل شئی ۔
ترجمہ : یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی نے نبی علیہ السلام کو دنیا سے خارج نہ کیا یہاں تک کہ ہر چیز پر مطلع کر دیا ۔

فتوحات وہیبہ شرح اربعین نووی میں فاضل ابن عطیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الحق کما جمع ان اللہ لم یقض نبینا علیہ السلام حتٰی اطلعہ علٰی کم ما ابھم عنہ الا انہ امر بکتم بعض والاعلام ببعض ۔
ترجمہ : حق وہ ہی ہے جو ایک جماعت نے کہا ہے کہ اللہ نے حضور علیہ السلام کو وفات نہد ی یہانتک کہ پوشیدہ چیزو ں پر خبردار کر دیا لیکن بعض کے چھپانے اور بعض کے بتانیکا حکم دیا ۔

قرآن مجید میں ہے کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق کی بشارت دی اور حضرت سارہ کے پٹ میں لڑکے کی خبر دی :
قالوا لاتخف وبشروہ بغلم علیم ۔ (سورہ الذاریات : 28)
ترجمہ : تو اپنے جی میں ان سے ڈرنے لگا وہ بولے ڈریئے نہیں اور اسے ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی ۔
اس بشارت کا ذکر سورہ الحجر : 53 میں بھی ہے : انہوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں ۔

اسی طرح فرشتوں نے حضرت زکریا علیہ السّلام کو حضرت یحیی علیہ السّلام کی بشارت دی قرآن مجید میں ہے : فنادتہ الملئکة وھو قآئم یصلی فی المحراب ان الله یبسرک بیحی ۔ (آل عمران : 39)
ترجمہ : تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے ۔

اور حضرت جبریل علیہ السّلام نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو پاکیزہ لڑکے کی بشارت دی اور انہوں نے یہ خبر دی کہ ان کے پیٹ میں کیا ہے : قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلما زکیا ۔ (مریم : 19)
ترجمہ : بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں ، کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں ۔

اور فرشتوں کو بتلا دیا جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی اور فرشتے ماں کے پیٹ میں لکھ دیتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ کہتا ہے اے رب ! یہ نطفہ ہے ، اے رب ! یہ جما ہوا خون ہے ، اے رب ! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے ، پھر جب اللہ اس کی تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے یہ مذکر ہے یا مؤنث ؟ یہ بدبخت ہے یا نیک بخت ؟ اس کا رزق کتنا ہے ؟ اس کی مدت حیات کتنی ہے ‘ پھر وہ ماں کے پیٹ میں لکھ دیتا ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث ٣١٨)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٤٦،چشتی)

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خبر دی کہ حضرت سیدتنا فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں حسن پیدا ہوں گے : قابوس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یارسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہمارے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعضاء میں سے ایک عضو ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تم نے اچھا خواب دیکھا ہے ، عنقریب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور تم اس کو دودھ پلائو گی ، پھر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں حضرت حسین یا حضرت حسن رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے اور انہوں نے حضرت قسم بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کو دودھ پلایا ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٢٣‘ مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث : ٦١٨٠)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی پیٹ کی خبردی کہ ان کی بنت خارجہ سے ایک بیٹی پیدا ہونے والی ہے : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے غابہ کے مال سے بیس وسق کھجوریں عطا فرمائیں ، پھر جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا : اے بیٹی ! مجھے اپنے بعد تمام لوگوں کی بہ نسبت تمہارا خوش حال ہونا سب سے زیادہ پسند ہے ، اور اپنے بعد تمہارا تنگ دست ہونا مجھ پر سب سے زیادہ شاق ہے ، اور میں نے تم کو درخت پر لگی ہوئی کھجوروں میں سے بیس وسق کھجوریں دی تھی ، اگر تم ان کھجوروں کا اندازہ کرکے درختوں سے توڑ لیتیں تو وہ تمہاری ہوجاتیں ، اب آج کے دن وہ وارث کا مال ہے ، (وفات کے وقت) اور اب تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ، اب تم اس مال کو کتاب الله کے مطابق تقسیم کرلینا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا : اے میرے اباجان ! اگر یہ مال اس سے بہت زیادہ بھی ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی مگر میری بہن تو صرف ایک ہے ‘ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ہیں تو دوسری بہن کون سی ہیں ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ ان کی زوجہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوں گی ۔ (موطاء امام مالک رقم الحدیث : ١٥٠٣‘ تنویر الحوالک ص ٥٦٠‘ القبس ج ٣ ص ٤٧٠،چشتی)
انجاح الحاجہ حاشیہ ابن ماجہ باب اشراط الساعتہ زیر حدیچ “ خمس لا یعلمھن الا اللہ“ ہے : اخبر الصدیق زوجتہ بنت خارضۃ انھا حاملۃ بنت فولدت بعد وفاتہ ام کلثوم بنت ابی بکر فھذا من الفراسۃ والظن ویصدق اللہ فراسۃ المؤمن ۔
ترجمہ : حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی بنت خارجہ کو خبر دی کہ وہ بیٹی سے حاملہ ہیں ۔ لہٰذا صدیق کی قفات کے بعد ام کلثوم بنت صدیق پیدا ہوئیں پس یہ فراست اور ظن ہے خدا تعالٰی مومن کی فراست کو سچا کر دیتا ہے۔
علامہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ١١٢٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے گمان کے مطابق ان کی زوجہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اس کا نام ام کلثوم تھا ۔ (شرح الزرقانی علی الموطاء ج ٤ ص ٦١)

حافظ ابو عمر ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٦٣ ھ نے بھی لکھا ہے کہ بنت خارجہ ان کی زوجہ تھی اس سے ایک لڑکی ام کلثوم پیدا ہوئی ۔ (الاستذکار ج ٢٢ ص ٢٩٨‘ مطبوعہ دارقنبیہ بیروت ‘ ١٤١٤ ھ،چشتی)

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بستان محدثین صفحہ 114 میں فرماتے ہیں : نقل مہ کند کہ والد شیخ ابن حجر را فرزاند نمی زیست کبیدہ خاطر بحضور شیخ فرمود کہ از مشت تو فرزند مے خواہد آمد کہ بعلم خود دنیا را پر کند ۔
ترجمہ : نقل ہے کہ شیخ ابن حجر کے والد کا کوئی بچہ نہ جیتا تھا ۔ ملول دل ہو کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے شیخ نے فرمایا کہ تمھاری مشت سے ایسا فرزند ہو گا کہ اپنے علم سے دنیا کو بھر دے گا ۔

اس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ مخالفین بھی مانتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کا علم تمام مخلوق سے زیادہ ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو ان پانچ چیزوں کا علم دیا گیا یا نہیں ۔ مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے کہ شکم مادر میں بچہ بننے کا ذکر فرماتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا : ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمت فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی او سعید ثم ینفخ فیہ الروح ۔
ترجمہ : یعنی پھر رب تعالٰٰی ایک فرشتہ کو چار باتیں بتا کر بھیجتا ہے وہ فرشتہ لکھ جاتا ہے اس کا علم اس کی موت اس کا رزق اور یہ کہ نیک بخت ہے یا بد بخت پھر روح پھونکی جاتی ہے ۔
یہ ہی علوم خمسہ ہیں اور تمام موجودہ اور گذشتہ لوگوں کی یہ پانچ باتیں وہ فرشتہ کاتب تقدیر جانتا ہے ۔
مشکوٰۃ اسی باب میں ہے : کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السٰمٰوت والارض بخمسین الف سنۃ ۔
ترجمہ : اللہ نے زمین و آسمان کی پیدایش سے بچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دیں ۔

معلوم ہوا کہ لوح محفوظ میں علوم خمسہ ہیں ۔ تو وہ ملائکہ جو لوح محفوظ پر مقرر ہیں اسی طرح انبیاء و اولیاء جن کی نظر لوح محفوظ پر رہتی ہے ان کو یہ علوم خمسہ حاصل ہوئے ۔ مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے کہ میثاق کے دن حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اولاد آدم کی روحیں سیاہ و سفید رنگ میں دکھا دی گئیں کہ سیاہ روحیں کافروں کی ہیں سفید مسلمانوں کی ۔ معراج میں حضور علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس طرح دیکھا کہ ان کے داہنے جانب سفید اور بائیں جانب سیاہ رنگ کی ارواح ہیں یعنی جنتی وہ دوذخی لوگ مومنوں کو دیک کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کو ملاحظہ فرما کر غمگین ۔ اسی مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے ۔ کہ ایک دن حضور علیہ السلام اپنے دونوں ہاتھوں میں دو کتابیں لئے ہوئے مجمع صحابہ میں تشریف لائے ۔ اور داہنے ہاتھ کی کتاب کے بارے میں فرمایا کہ نام بمع ان کے قبائل کے ہیں ۔ اور آخر میں ان ناموں کا ٹوٹل بھی لگا دیا گیا ہے ۔ کہ کل کتنے ۔
اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری نے مرقات میں فرمایا : الظاہر من الاشارات انھما حسیان وقیل تمثیل ۔
ترجمہ : اشارہ سے یہ ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کتابیں دیکھنے میں آرہی تھیں ۔
اسی مشکوٰۃ باب عذاب القبر میں ہے کہ جو مردہ نکیرین کے امتحا ن میں کامیاب یا ناکام ہو تا ہے تو نکیرین کہتے ہیں ۔“ قد کنا نعلم انک تقول ھذا“ ہم تو پہلے سے ہی جانتے تھے کہ تو یہ کہے گا ۔

معلوم ہوا کہ نکیرین کو امتحان میت سے پہلے ہی سعادت اورشقاوت کا علم ہوتا ہے ۔ امتحان تو فقط پابندی قانون یا معترض کا منہ بند کرنے کو ہوتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ جب کسی صالح آدمی کی بیوی اس سےلڑتی ہے تو جنت سے حور پکارتی ہے کہ یہ تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے ۔ پھر ھمارے پاس آنیوالا ہےاس سے جھگڑا نہ کر مشکوٰۃ کتاب النکاح فی عشرۃ النساء معلوم ہوا کہ حور کو بھی خبر ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہوگا ۔ حضور علیہ السلام نے جنگ بدر میں ایک دب پہلے زمین پر نشان لگا کر فرمایا کہ یہاں فلاں کافر مرے گا اور یہاں فلاں ۔ موت کی زمین کا علم ہوا ۔ (مشکوٰۃ کتاب الجہاد)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں : وحق آنست کہ در آیت دلیلے نیست بر آنکہ حق تعالی مطلع نگر دانیدہ است حبیب خود راصلے الله وسلم برماھیت روح بلکہ احتمال دارد کہ مطلع گردانیدہ باشد وامر نکرد اور کہ مطلع گرداند ایں قوم راو بعضی از علماء در علم ساعت نیز ایں معنی گفتہ اندالی ان قال ولے گوید بندہ مسکین خصہ الله بنور العلم والیقین وچگونه جرات کند مومن عارف کہ نفی علم به حقیقت روح سیدالمرسلین وامام العارفین صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کند و دادہ است اور احق سبحانہ علم ذات وصفات خود و فتح کردہ بروے فتح مبین از علوم اولین واخرین روح انسانی چہ باشد کہ در جنب حقیقت جامعہ وے قطرہ ایست از دریائے ذرہ از بیضائے فافھم وباللہ التوفیق ۔ (مدارج النبوۃ ج ٢ ص ٤٠،چشتی)
ترجمہ : حق یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ حق تعالی نے اپنے حبیب صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کو روح کی حقیقت پر مطلع نہیں کیا بلکہ جائز ہے کہ مطلع کیا ہو اور لوگوں کو بتلانے کا حکم آپ کو نہ دیا ہو۔ اور بعض علماء نے علم قیامت کے بارے میں بھی یہی قول کیا ہے ‘ اور بندہ مسکین (اللہ اس کو نور علم اور یقین کے ساتھ خاص فرمائے) یہ کہتا ہے کہ کوئی مومن عارف حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم سے روح کے علم کی کیسے نفی کرسکتا ہے وہ جو سید المرسلین اور امام العارفین ہیں ‘ جن کو الله تعالی نے اپنی ذات اور صفات کا علم عطا فرمایا ہے اور تمام اولین اور آخرین کے علوم آپ کو عطا کیے ‘ ان کے سامنے روح کے علم کی کیا حیثیت ہے۔ آپ کے علم کے سمندر کے سامنے روح کے علم کی ایک قطرہ سے زیادہ کیا حقیقت ہے ۔

سید عبدالعزیز دباغ عارف کامل فرماتے ہیں : وکیف یخفی امر الخمس علیه صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم والواحد من اھل التصرف من امته الشریفة لا یمکنه التصرف الا بمعرفة ھذہ الخمس ۔ (الابریز ص ٤٨٣)
رسول صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم سے ان پانچ چیزوں کا علم کیسے مخفی ہوگا حالانکہ آپ کی امت شریفہ میں سے کوئی شخص اس وقت تک صاحب تصرف نہیں ہوسکتا جب تک اس کو ان پانچ چیزوں کی معرفت نہ ہو ۔ (الابریز ص ٤٨٣)

علامہ احمد قسطلانی شافعی متوفی ٩١١ ھ تحریر فرماتے ہیں : لایعلم متی تقوم الساعة الا الله الا من ارتضی من رسول فانہ یطلعہ علی من یشاء من غیبہ والو لی تابع له یا خذ عنه ۔
ترجمہ:کوئی غیر خدا نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی سوا اس کے پسندیدہ رسولوں کے کہ انہیں اپنے جس غیب پر چاہے اطلاع دے دیتا ہے ۔ (یعنی وقت قیامت کا علم بھی ان پر بند نہیں) رہے اولیاء وہ رسولوں کے تابع ہیں ان سے علم حاصل کرتے ہیں ۔ (ارشاد الساری ج ٧ ص ١٧٨)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...