مقلد اور غیرمقلد کی آسان تعریف
محترم قارئین : ہر وہ شخص جو اجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتا مقلد ہے ہم بھی مقلد اور غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث بھی مقلد ہیں لیکن یہ انحصار کرتا ہے کہ کس کا مقلد خیر القرون کے مجتہد کا یا انگریز کے دور کے کسی نا اہل اور غیر مجتہد کا مقلد ۔
انگریز کے دور میں ایک ایسا فرقہ وجود میں آیا جو نہ تو اجتہاد جانتا تھا نہ کسی مجتہد کی تقلید کرتا تھا بلکہ اپنے نا اہل علماء کی تحقیق کو مجتہدین پر ترجیح دیتا تھا جو ”غیرمقلد “ کے نام سے مشہور ہوا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ میں سے ایک بھی شخص غیرمقلد نہ تھا ۔ جس کے بارے میں صرف ایک حوالہ جو مستند ہو اور صاف اور صریح ہو کہ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ یا فلاں محدث رحمۃ اللہ علیہ نہ اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے نہ ہی مجتہد کی تقلید کرتے تھے بلکہ غیرمقلد تھے ایسا صاف اور صریح حوالہ قیامت تک پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ فرقہ نہ مکہ میں پیدا ہوا نہ مدینہ میں نہ ہی عرب کے کسی اور شہر میں ۔ یہ فرقہ انگریز کے دورِ حکومت میں پیدا ہوا اور یہیں سے دوسرے ملکوں میں گیا ۔
الحمد للہ مسلمانانِ اہل سنت و جماعت کے فقہ میں چار ائمہ علیہم الرّحمہ ہیں ۔
(1) امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ (م 150 ھ)
(2) امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ ( م 189 ھ)
(3) امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ (م 204 ھ)
(4( امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ (م 241 ھ)
ان ائمہ کرام علیہم الرّحمہ نے اپنی خداد داد علمی فکری صلاحیتوں اور مجتہدانہ بصیرت کی بناء پر اپنے اپنے دور میں حسبِ ضرورت قرآن و حدیث سے مسائل فقہہ مرتب کئے یوں ان ائمہ کرام علیہم الرّحمہ کے زیر اثر چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے ۔
چنانچہ ان چاروں ائمہ کرام علیہم الرّحمہ میں سے کسی بھی فقہی مکتب فکر کی پیروی کرنے والے کو مقلد کہتے ہیں ۔ جیسے امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے مقلدین کو حنفی ، امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ کے مقلدین کو مالکی اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے مقلدین کو شوافع اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ کے مقلدین کو حنبلی کہا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص ان میں سے کسی کا پیروکار نہ ہو تو وہ غیر مقلد ہے ۔
غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث اپنے ذھن اور اپنی سوچ کو اللہ عز وجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرح معصوم سمجھتے ہیں ۔ اس لئے جو شخص ان کے فہم سے اختلاف کرے اس کو نہیں کہتے کہ اس نے ہمارے فہم کو نہیں مانا بلکہ اس کو اللہ عز وجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مخالف کہتے ہیں ۔ ان کی سمجھ کے خلاف کسی امام رحمۃ اللہ علیہ کا فہم ہو ، صحابی رضی اللہ عنہ کی سوچ ہو ، خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہو ، سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مخالف کہیں گے ، اور دھوکا یہ دیں گے کہ ایک طرف قولِ معصوم ہے دوسری طرف قولِ مجتہد ، جس سے خطاء کا امکان بلکہ وقوع بھی ہے ، حالانکہ اتنی بات صاف ہے کہ دونوں جہانوں کی کامیابیاں اتباع رسولِ معصوم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے وابستہ ہیں ، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دین ہم تک بواسطہ امّت پہنچا ہے ، اب اگر اس پر امّت کا اجماع ہے تو اجماع معصوم ہوتا ہے ۔ اس لیے ایسے مسائل حجت قاطعہ ہیں کہ معصوم کی بات معصوم واسطہ سے ہم تک پہنچ گئیں لیکن اگر اس مسئلہ پر اجماع نہیں بلکہ مجتہدین میں اختلاف ہے تو یہ رحمتِ واسعہ ہے کہ ثواب پر دو اجر اور خطاء پر ایک اجر اور عمل ہر حال میں مقبول – اس لئے مجتہد اور مقلد کو ذرہ بھر خطرہ نہیں ، ان کے اعمال مقبول ہیں اور اجر بھی یقینی ہے ، خواہ ایک اجر ملے یا دو ۔ مجتہد اور غیرمقلد کا مقابلہ معصوم اور غیر معصوم کا مقابلہ نہیں بلکہ اہل اور نااہل کا مقابلہ ہے اور نااہل کا عمل مردود اور گناہ لازم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا "من قال فی القراٰن براُیہ فاصاب فقہ اخطاء" ۔ کتنا بڑا فرق ہے کہ مجتہد کو خطاء پر بھی اجر ، نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا : إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ .
ترجمہ : جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919 )۔(مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم : 1716،چشتی) ۔ غیرمقلد کا ثواب بھی خطاء - جیسے ڈاکٹر انجیکشن لگائے تو بلا ری ایکشن بھی مجرم اور جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہ ہو وہ بغیر ایکسیڈنٹ کرنے کے بھی قانونی مجرم ۔
غیر مقلد کا معنی ہے جو نہ خود اجتہاد کر سکتا ہو اور نہ کسی کی تقلید کرے یعنی نہ مجتہد ہو نہ مقلد ۔ جیسے نماز باجماعت میں ایک امام ہوتا ہے باقی مقتدی ۔ لیکن جو شخص نہ امام ہو نہ مقتدی ، کبھی امام کو گالیاں دے کبھی مقتدیوں سے لڑے یہ غیر مقلد ہے یا جیسے مالک میں ایک حاکم ہوتا ہے باقی رعایا ۔ لیکن جو نہ حاکم ہو نہ رعایا بنے وہ ملک کا باغی ہے اسی طرح غیر مقلد ہے ۔ غیر مقلدین میں اگرچہ کئی فرقے اور بہت سے اختلافات ہیں اتنے اختلافات کسی اور فرقے میں نہیں ہیں ۔ مگر ایک بات پر غیر مقلدین کے تمام فرقوں کا اتفاق اور اجماع ہے وہ يہ ہے کہ غیر مقلدوں کو نہ قرآن آتا ہے ، نہ حدیث ، کیونکہ نواب صدیق حسن خان ، نواب وحید الزمان ، میر نور الحسن ، مولوی محمد حسین اور مولوی ثناء اﷲ وغیرہ نے جو کتابیں لکھی ہیں ، اگرچہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قران وحدیث کے مسائل لکھے ہیں ، غیر مقلدین کے تمام فرقوں کے علماء اور عوام بالاتفاق ان کتابوں کو غلط قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں بلکہ برملا ہماری پوسٹوں کے نیچے کمنٹ میں آکر کہتے ہیں کہ ان کتابوں کو آگ لگا دو ۔ گویا سب غیر مقلدین کا اجماع ہے کہ غیر مقلد علماء قران وحدیث پر جھوٹ بولتے ہیں انہیں قرآن وحدیث نہیں آتا وہ غلط گندے اور نہایت شرمناک مسائل لکھ لکھ کر قرآن و حدیث کا نام لے دیتے ہیں اس لیئے وہ کتابیں اجماعاً مردود ہیں اور یہ سب جاہل ہیں ۔
غیرمقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی نے "معیار الحق" کتاب لکھ کر مسلمانوں کو ایسی بے راہ روی اور آوارہ گردی پر لگادیا جس سے آج ہزاروں لوگ مرتد اور کم از کم فاسق بن گئے ، اہلِ سنت میں کئی فرقے بن گئے بلکہ اسی فتنہ ترک تقلید سے مرزائیت ، انکارِ حدیث اور دین بیزاری کے فتنوں نے جنم لیا اللہ تعالیٰ فتنہ غیرمقلدین سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment