Saturday 19 January 2019

علمِ غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا انکارکرنا ، علم پر تنقید کرنا منافقین کا شیوہ ہے

0 comments
علمِ غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا انکارکرنا ، علم پر تنقید کرنا منافقین کا شیوہ ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَاکُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلْعَبُ ؕ قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمْ تَسْتَہۡزِءُوۡنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 65)
ترجمہ : اور اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اگرآپ ان سے پوچھیں تو کہیں گے کہ ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔ تم فرماؤ : کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی مذاق کرتے ہو ۔

امام المفسرین امام مجاهد رحمۃ اللہ علیہ (وفات 104 هجری ) اس آیت : ولئن سألتهم ليقولن إنما كنا نخوض ونلعب ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 65) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک منافق نے کہا محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمیں یہ حدیث سناتے ہیں کہ فلاں شخص کی اونٹنی فلاں فلاں وادی میں ہے بهلا وہ (محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) غیب کی باتیں کیا جانیں ۔ (تفسير ابن أبی حاتم جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 1830)

اِنَّمَاکُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلْعَبُ : ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔ اس آیت کا ایک شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین گروپوں میں سے دو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے ، کتنا بعید خیال ہے اور ایک گروپ بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہم راستہ طے کرنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کر رہے تھے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ دوسرا شانِ نزول یہ ہے کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا او نٹنی فلاں جنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا ’’محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ کریمہ اتاری ۔ (تفسیر مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۴۳) (تفسیر در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴/۲۳۰)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم دیا کہ جو تنہائی میں باتیں کی جائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کی خبر ہے ۔

(2) کفر کی باتیں سن کر رضا کے طور پر خاموش رہنا یا ہنسنا بھی کفر ہے ۔ کیونکہ رضا بِالْکُفر کفر ہے ۔

(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تَوہین اللہ تعالیٰ کی توہین ہے کیونکہ ان منافقوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کی تھی مگر فرمایا ’’ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ‘‘ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مذاق اڑانا اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام آیتوں کا مذاق اڑانا ہے ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے ۔

محترم قارئین : منافقین کا ایک گھناؤنا وطیرہ یہ تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم مبارک پر طعن کرتے اور یہ کہتے دیکھو یہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آسمانی خبریں دیتا ہے مگر اونٹنی کے بارے میں نہیں جانتا ۔ غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آرام فرمایا ۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اونٹنی گم ہوگئی صحابہ رضی اللہ عنہم تلاش میں نکلے وہاں ایک شخص زید بن الصیت تھا جو پہلے یہودی تھا بظاہر اسلام لایا مگر منافق تھا اس نے یہ کہنا شروع کردیا : محمد یزعم انہ نبی و ھو یخبرکم عن خبرالسماء وھو لایدری این ناقتہ ؟
ترجمہ : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دعویٰ ہے میں نبی ہوں اور وہ تمہیں آسمانی خبریں دیتا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اسکی اونٹنی کہاں ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ کی قسم میں وہی جانتا ہوں جو مجھے میرا اللہ بتاتا ہے ۔ یعنی میں ذاتی طور پر کچھ نہیں جانتا مجھے اللہ تعالیٰ ہی بتاتا ہے ۔ میرے رب نے مجھے اونٹنی کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے وہ فلاں جگہ ہے اور اس کی نکیل درخت کے ساتھ پھنس گئی ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور وہاں سے اسے لے آئے ۔ (بحوالہ سبل الھدیٰ والرشاد، 5، 449،چشتی)

یہ واقعہ احادیث اور تاریخ کی متعدد کتب میں آیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علوم و غیوب بعطائے الہٰی پر شک کرنا اور ان کا طعن و تمسخر اڑانا صرف منافقین کا شیوہ تھا اور ہے ۔ اور آج بھی اگر کوئی علم نبوت کا انکار کرتا ہے تو وہ انہیں منافقین کی پیروی کرتا ہے جن کا ذکر احادیث میں بیان ہوچکا ۔

علم نبوی پر طعن کے ساتھ ساتھ اسکا مذاق اڑاتے

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے (یا ایھا الذین امنوا لاتسئلوا عن اشیاء) کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا : کان قزم یسئالون رسول اللہ علیہ السلام استھزا فیقول الرجل من ابی و یقول الرجل تضل ناقتہ این ناقتی فانزل اللہ فیھم ھذہ الایۃ ۔
ترجمہ : کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بطور تمسخر و مذاق سوالات کرتے ہوئے پوچھتے بتائیں میرا والد کون ہے ؟ اونٹنی گمشدہ کے بارے میں پوچھتے میری اونٹنی کہاں ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر،چشتی)

جبکہ بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منبر پر تشریف فرما ہوکر اعلان فرماتے کسی نے جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لے ۔

فواللہ لا تسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ما دمت فی مقامی ھذا ۔ یعنی ۔ اللہ کی قسم تم جو بھی مجھ سے پوچھو گے میں اسی مقام پر کھڑے کھڑے بتاؤں گا۔

بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بار بار یہ اعلان فرماتے : سلونی سلونی ۔ مجھ سے پوچھو مجھ سے پوچھ لو ۔ (بحوالہ بخاری 2/183)

اسی طرح امام بدرالدین عینی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری شیخ مہلب کے حوالہ سے آپ کے خطبہ ، اعلان ، اور ناراضگی کا سبب ان الفاظ میں لکھتے ہیں : لانہ بلغہ ان قوماً من المنافقین یسالون منہ ویعجزونہ عن بعض مایسالونہ فتغیظ وقال لاتسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ۔
ترجمہ : کچھ منافقین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اطلاع ملی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوالات کیئے اور کہا یہ ہمارے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ناراض ہوئے اور برسر منبر تشریف لاکر اعلان فرمایا مجھ سے پوچھو ، جو تم پوچھو گے میں اس کا جواب دوں گا ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 /27،چشتی)

یعنی منافقین کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے اس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیع علم پر طنز کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم غیب کی بنا پر اعلان فرمایا کہ آؤ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو ۔

محترم قارئین : آپ صرف اتنا غور کیجیئے کہ آج کے دور کےمنافقین و خوارج اور ان سب کے ماننے والوں کا بھی لاعلمی یا پھر منافقت سے ویسا ہی عقیدہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دور میں منافقین تھے جو کہ انکارِ علم نبوی کرتے تھے ۔ وہ اس دور میں کھلم کھلا انکار کرتے تھے ۔ اور انہوں نے مسلمانوں کا لباس پہنا ہوتا تھا نام رکھے ہوتے تھے اور آجکل یہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں بگاڑ ڈالا اور خوارج اسی لیئے کہلائے کہ امتِ مسلمہ سے ہٹ کر انہوں نے ایسی چیزوں کا انکار کیا اور توہینِ نبوی کے مرتکب ہوئے ۔

ان کے نزدیک بھی شیطان کا علم (معاذاللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم سے زیادہ ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں (بحوالہ تفویۃ الایمان ، صراط مستقیم براھین قاطعہ وغیرہ) ۔ لہٰذا آپ خود فرق تلاش کریں کہ ماضی کے منکرین اور حال کے منکرین میں کیا فرق رہا ؟ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔