Monday, 14 January 2019

ابن تیمیہ اور اُس کے گمراہ کن عقائد و نظریات کا جائزہ

ابن تیمیہ اور اُس کے گمراہ کن عقائد و نظریات کا جائزہ

تقی الدین ابن تیمیہ کی زندگی کے دو دورتھے اوّل دوریعنی شورشباب میں علماء کرام نے اس کی خوب ستائش کی ‘جب یہ دورختم ہوا اورابن تیمیہ نے دورکہولت (جوانی) کی منزلیں طے کیں اورشیخوخت (بڑھاپے) میں داخل ہواتو اس کے یہی مداح اورمعاون اس سے برگشتہ ہوگئے‘چنانچہ علامہ زاہد الکوثری نے لکھا ہے کہ ’’یہ امر واقع ہے کہ ابن تیمیہ کی تعریف کرنے اوران کے طرفداربننے میں علماء نے عجلت سے کام لیا اورپھران کیلئے پلٹنا مشکل ہوگیا یہاں تک کہ ان تیمیہ اپنے تفردات میں بڑھتے چلے گئے جوکہ معروف ہیں لہٰذا علماء بھی یکے بعد دیگرے ان سے کٹنے لگے یہاں تک کہ جلالی قزوینی ‘قونوی اورحریری وغیرہم کاپیمانہ صبرلبریزہوگیا اورذہنی بھی ان سے کچھ منحرف ہوگئے جب کہ وہ ایک مدت تک مخالفوں کے جوش کوٹھنڈا کرنے میں مصروف رہے اور پوری کوشش کی کہ ابن تیمیہ کواس ورطہ سے نکالیں‘ جس نے بھی ان کی حیات کادقت نظر سے مطالعہ کیا ہے اس سے یہ بات پوشیدہ نہیں۔(ابن تیمیہ اوران کے ہم عصر ص۵ مطبوعہ ضیاء اکیڈمی‘ کراچی)
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی نے لکھاہے کہ واول ماانکرو علیہ من مقالاتہ فی شہر ربیع الاوّل۶۲۸ھ قام علیہ جماعۃ من الفقاء بسب الحموتہ(الدررالکامنۃ حرف الالف ذکر مین اسمہ احد‘برقم۴۰۹‘۱/۱۴۴)
یعنی‘ابن تیمیہ کی تحریرات پرناپسندیدگی کااظہار پہلی بار ماہ ربیع الاوّل ۶۹۸ھ میں ہوا جب کہ ان کے حموی فتویٰ کے خلاف علماء کی ایک جماعت کھڑی ہوئی۔
چونکہ ابن تیمیہ کی پیدائش ربیع الاوّل۶۶۱ھ ہے اس سے ظاہر ہے کہ مخالفت کی ابتداء اس وقت ہوئی ہے جب ابن تیمیہ کی عمرسینتیس (۳۷) سال کی تھی اورچونکہ فتویٰ حموی کاتعلق عقائد سے ہے‘ اس سے معلوم ہوا کہ فقہاء کااختلاف عقائد کی بناء پرشروع پھر حافظ ابن حجر نے علماء کرام کی کتب سے ابن تیمیہ کی روح وستائش اوران کے ہفوات کابیان کیا ان میں تقریباً آٹھ صفحات محاسن پر اورتقریباً تین صفحات مساوی پر مشتمل ہیں اوردیکھنے میں آیا ہے کہ ابن تیمیہ کے پیروکار طرفداراس کے ہفوات ومزلات کوچھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ علماء کرام کے حوالے سے بیاہ کردہ محاسن کوتوبیان کرتے ہیں اورمساوی ذکر نہیں کرتے حالانکہ ابن تیمیہ کے ہم عصر علماء میں سے صر ف دوتین ہی ایسے تھے کہ جنہوں نے اس کے مساوی کوبیان کرنے سے گریز کیاجیسے ابن قیم اورابن عبدالہادی وغیر دھما اوریہ توعلماء اعلام کی انصاف پسندی اورنیک نیتی تھی کہ انہوں نے ابن تیمیہ کی اچھی صفات کاانکارنہیں کیا اور خرابی اس سے دور سے پیدا ہوئی کہ علماء اعلام نے ابن تیمیہ کے محاسن بیان کرنے میں عجلت سے کام لیا جیساکہ علامہ کوثری نے ذکر کیااس سے ایک طرفہ تو اس کے طرفداروں نے اس کے بارے میں غلوکیا‘ دوسری طرف خود اس میں گھمنڈ پیدا ہوا اور وہ اپنے آپ کودوسروں سے برتر سمجھنے لگا‘ سب ہی پرردکرنا شروع کردیں یہاں تک کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تک پہنچ گیا اورکسی بات میں ان کوبرخطا کہہ دیا کہ یہ بات شیخ (ابواسحاق)ابراہیم(بن احمد بن محمد)الرقی تک پہنچی اورانہوں نے اس کاانکار کردیا‘چنانچہ ابن تیمیہ نے ان کے پاس جاکرعذر خواہی اوراستغفار کی‘ اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق کہہ دیا کہ ستر(۷۰) جگہ ان سے خطا ہوئی ہے اوروہ نص کتاب کی مخالفت کرگئے اوروہ حنبلیت کی بناء پراشاعرہ پراعتراضات کررہاتھاکہ امام غزالی کوگالی دے بیٹھا‘چنانچہ کچھ لوگ برافروختہ ہوگئے اورقریب تھاکہ اسے قتل کردیتے‘ الدرلکامنہ حرف الائف ذکر مین اسمہ احد برقم ۰۹‘۱/۱۴۳ ‘۱۵،چشتی)
ابن تیمیہ نے جب بعض اہم مسائل میں اہل السنتہ کی مخالفت کی توعلماء کرام نے اس کابھرپورردکیا خصوصاً اللہ تعالیٰ کی جہت وجانب اورمکان ومحل کے عقیدہ کاردوابطال ‘چنانچہ امام یوسف بن اسماعیل نبہانی ‘ متوفی۱۳۵۰ لکھتے ہیں ابن تیمیہ کے معاصرین میں سے امام صدر الدین بن وکیل المعروف ابن مرحل شافعی ہیں جنہوں نے اس کے ساتھ مناظرہ بھی کیا تھااور امام ابو حیان ہیں جوکہ اس کے انتہائی گہرے دوست تھے مگر جب اس کی بدعات پر مطلع ہوئے تواس کوہمیشہ کیلئے ترک کردیاا ورلوگوں کواس سے دور رہنے کاحکم دیا ‘اورامام الدین ابن جماعہ ہیں جنہوں نے ابن تیمیہ کازبردست رد کیا‘ اور اس پر سخت تشیع کی‘ ابن تیمیہ پرردوقدح کرنے والوں میں سے امام کمال الدین زملکانی شافعی ہیں جن کی وفات۷۲۷ھ میں ہوئی ابن الوردی نے اپنی کتاب میں ان کے متعلق فرمایا کہوہ علم کے سمندرتھے‘ مختلف فنون پرکامل دسترس رکھتے تھے‘ فتوی میں انتہائی دقیقہ سنج تھے اورپختہ فکر کے مالک‘ کشف الظنون میں ان کی کتاب’’کتاب الدرہ امضیہ فی الرد علی ابن تیمیہ) کاذکر کیاگیا ہے انہوں نے ابن تیمیہ کے ساتھ ان مسائل میں مناظرہ کیا جن میں اس نے مذاہب اربعہ سے شندوذ اورعلیحدگی اختیار کی تھی جس میں سے ایک انتہائی قبیح اوربدترین نظریہ یہ بھی تھاکہ انبیاء وصالحین کے ساتھ توسل واستغاثہ بھی ممنوع ہے اوران کااکابرین ملت میں سے امام کبیروشہیر تقی الدین سکبی شافعی ہیں جنہوں نے اپنی تصنیف کردہ کتاب’’شفاء السقام فی زیارہ خیر الانام علیہ الصلوۃ والسلام‘‘ میں ابن تیمیہ کاردکرتے ہوئے فرمایا یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ توسل استغاثہ اوران سے طلب شفاعت جائز ومستحسن ہے اوراس کاحسن اورجوازشرعی ہردیندار کے نزدیک معلوم ومعرف اورانبیاء ومرسلین ‘سلف صالحین اورعلماء عوام مسلمین کے معروف ومشہور سیرت وطریقہ سے ہے نہ کسی مومن نے اس کاانکار کیا ہے اورنہ ہی ابن تیمیہ کے ظہور سے قبل کسی زمانے میں اس کاانکار سننے میں آیا یہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اس مسئلہ پر کلام کیا اورسادہ لوح حنیف ایمان والے لوگوں پر اس مسئلہ کوخلط ملط کردیا اور ایک ایسی بدعت پیدا کردی جس کا پہلے تمام زمانوں میں کسی نے نام تک نہیں لیا اور اس قول کی لغویت وبیہودگی کیلئے یہی قدرکافی ہے کہ ابن تیمیہ سے قبل کوئی عالم استغاثہ توسل کامنکر نہیں ہوا اور یہی شخض اس قبول کی وجہ سے اہل اسلام کے درمیان ضرب المثل بن گیا۔(شواہد الحق الباب‘ الرابع‘فی نقل عبارات علماء المذہب الاربعہ فی الردعلی ابن تیمیہ۱۳۲‘مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا) ابن حجر نے اپنی تصنیف فتح الباری شرح صحیح البخاری میں حدیث رسولﷺ لاتشدالرحال الا الی تلاثۃ مساجد کے تحت امام سبکی کا ابن تیمیہ پرزیارت کوحرام قرا ردینے کاردذکرکرکے اورامام سبکی کی تائید وتصدیق کرتے ہوئے فرمایا‘زیارت رسولﷺ کے لئے سفر کرنا حرام قرار دینا ان مسائل میں سے قبیح ترین ہے جو ابن تیمیہ سے منقول ہیں(فتح الباری شرح صحیح البخاری‘ کتاب فضل الصلوہ فی مسجد مکۃ والمدینہ ‘باب فضل الصلوہ فی مسجد مکۃ والمدینہ الجز الثالث والرابع ص۸۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت الطبعۃ الثالثہ 1421ھء 2000ء،چشتی)
دکتور محمودالسید صبیح نے لکھا ہے کہ جن علماء نے ابن تیمیہ کی مذمت کی ان میں ابن الرفعہ‘ باجی‘ ابن الزملکانی‘ صفی الدین ہندی‘ ابن المرحل‘ تقی الدین سبکی‘ تقی الدین حضی‘علاء البخاری اوردوسرے ہیں(اخطاء ابن تیمیہ فی حق رسول اللہﷺ و اہل بیتہ ص۱۴)
اورابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھاکہ دمشق میں حنابلہ کے کبار فقہا میں سے ابن تیمیہ تھے جو شام کے بڑے (عالم) تھے اورفنون میں کلام کرتے تھے مگران کی عقل میں کچھ فتورتھا‘میں جب دمشق میں تھا توجمعہ کے روزاس کے پِاس گیا اوروہ جامع مسجد میں منبر پرلوگوں کووعظ کررہاتھا اورانہیں نصیحت کررہاتھااس کے من جملہ کلام سے یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا سے نزول فرمائیگا‘ میرے اس نزول کی طرح اوریہ کہتے ہوئے وہ منبر کے درجوں میں سے ایک درجہ اترا۔
اورحافظ ولی الدین عراقی نے بھی فرمایا کہ مگرشیخ تقی الدین ابن تیمیہ توجیسا کہ اس کے بارے میں کہاگیا اس کاعلم اس کی عقل سے زائد تھا میں نے اس کوکثیر مسائل میں فرق اجماع تک پہنچادیا۔(اخطاء ابن تیمیہ فی حق رسول اللہﷺ واہل بیتہ ص۱۵)اورعلامہ احمد بن حجرہیتمی شافعی ۹۷۳ھ نے الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم‘‘میں فرمایا میں کہتاہوں کہ وہ ابن تیمیہ کون ہے کہ اس کی طرف نگاہ کی جائے یا اموردین میں سے کسی شے میں اس کی جانب رجوع کیا جائے وہ نہیں ہے مگر جیساکہ ائمہ دین کی ایک بڑی جماعت نے کہاکہ جس جماعت نے اس کلمات فاسدہ اوراس کی کاسدہ حجتوں کاتعقب کیا ہے یہاں تک کہ اس کے گرے ہوئے ہونے اوراس کے اوہام کی قباحت اوراس کی غلطیوں کوظاہر کیا جیسے عزبن جماعہ کہ یہ ایک بندہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے گمراہ کردیا اوراسے رسوائی کی چادرپہنادی‘ افتراء وکذب کے قوت کاٹھکانہ دیا کہ جس کاانجام خواری ہے اور اس کے لئے محرومی کوواجب کردیا(ھدایتہ السالک ۳/۱۳۸۴)یہ جوابن تیمیہ سے واقع ہو اس میں سے جوذکر کیا گیا اگرچہ ایسا ہے جوہمیشہ کیلئے نہ کیاجائے اورایسی مصیبت ہے کہ جس کی شومی ہمیشہ رہے گی(الجوہرہ المنظم فی زیارہ القبور المکرم ‘تنبیہ ھام فی الرد علی من اعتقد ان الزیارہ تنافی التوحید‘ ص۵۸مطبوعہ دارالحاوی ‘دمشق الطبعۃ الاولیٰ ۱۴۲۷ھ۔۲۰۰۸،چشتی)
اورفتاویٰ حدیثیہ میں لکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے بہت سے مسائل میں علمائے حق کی مخالفت کی ہے جس کی نشاندہی امام تاج الدین سبکی وغیرہ نے کی ہے توجن مسائل میں اس نے فرق اجماع کیا ان میں سے چند یہ ہیں حالت حیض میں اورجس طہر میں ہمبستری کی ہے طلاق واقع نہیں ہوتی نماز اگرقصداً چھوڑی جائے توا س کی قضا واجب نہیں اورحالت حیض میں طواف بیت اللہ جائز ہے اورکوئی کفارہ نہیں ‘تین طلاق سے ایک ہی پڑتی ہے اورتیل وغیرہ پتلی چیزیں چوہا وغیرہ مرنے سے نجس نہیں ہوتیں اور ہمبستری غسل کرنے سے پہلے رات میں نفل نماز پڑھناجائز ہے اگرچہ شہر میں ہو اور جوشخص اجماع امت کی مخالفت کرے اسے کافر وفاسق قرارنہیں دیاجائیگا اور خداتعالیٰ کی ذات میں تغیر وتبدل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے اوراس کے لئے جہت اورایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کاقائل ہے اورکہتاہے کہ خدا تعالیٰ بالکل عرش کے برابرہے نہ اس سے چھوٹا ہے اورنہ بڑااوریہ بھی کہتا ہے کہ جہنم فنا ہوجائیگی‘ اوریہ بھی کہتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم نہیں ہیں اوررسول اللہﷺ کاکوئی مرتبہ نہیں اوران کاوسیلہ بناناجائز نہیں اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی نیت سے سفرکرنا گناہ ہے ایسے سفرمیں نماز کی قصر جائز نہیں اور جوشخص ایسا کرے گا وہ حضور ﷺکی شفاعت سے محروم رہے گا ملخصاً(الفتاویٰ الحدیثیہ مطلب فیما جری من ابن تیمیہ ص۱۰۰‘مطبوعہ مطبعہ مصطفی البابی واولادہ مصر ۱۳۵۶ھ۔۱۹۳۸ئ)
اورلکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ ایسا شخص ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے نامرادکردیا اوراس کی بصارت وسماعت کوسلب فرمالیا اوراس کوذلت کے گڑھے میں گرادیا اوران باتوں کی تصریح ان آئمہ کرام نے فرمائی ہے جنہوں نے اس کے احوال کے فساد اوراس کے اقوام کے جھوٹ کاپول کھولا جوشخص ان باتوں کاتفصیلی علم حاصل کرناچاہئے وہ اس امام کے کلام کامطالعہ کرے جن کی امامت وجلالت پرسب علماء کرام کااتفاق ہے جو مرتبہ اجتہاد پرفائز ہیں یعنی حضرت ابوالحسن سبکی رحمتہ اللہ علیہ اورتاج الدین سبکی کے فرزند‘امام عزالدین بن جماعہ اوران کے ہمعصر شافعی‘ مالکی اورحنفی علماء کی کتب کوپڑھے‘ابن تیمیہ کے اعتراضات فقط متاخرین صوفیہ ہی پرنہیں بلکہ وہ توحد سے بڑھ گیا کہ امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب اورامیرالمومنین حضرت علی بن ابن طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسی مقدس ذاتوں کوبھی اپنے اعتراضات کانشانہ بناڈالا‘خلاصہ یہ کہ ابن تیمیہ کے کلام میں کوئی وزن نہیں بلکہ وہ اس قابل ہیں کہ گڑھوں اورکنوئوں میں پھینک دی جائیں اورابن تیمیہ کے بارے میں یہی اعتقادرکھاجائے کہ وہ بدعتی ‘گمراہ دوسروں کوگمراہ کرنے والا‘جاہل اورحد سے تجاویز کرنے والاخدا تعالیٰ اس سے انتقام لے ہم سب لوگوں کو اس کی راہ اوراس کے عقائد سے اپنی پناہ میں رکھے(الفتاویٰ الحدیثہ مطلب‘اعترض ابن تیمیہ علی متاخری الصوفیہ ولہ خوارق الخ‘ص۹۹مطبوعہ مصطفی البابی واولادہ بمصر ۱۳۵۶ھ۔۱۹۳۷ئ)
علامہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی کے ردابن تیمیہ کااحوال امام یوسف بن اسماعیل نبہانی شافعی متوفی ۱۳۵۰ھ یوں لکھتے ہیں کہ امام موصوف نے ابن تیمیہ پرردوقدح کے معاملہ میں انتہائی شدت سے کام لیا جس میں دین متین کاتحفظ بھی مطلوب ہے‘ اہلسنّت پرشفقت بھی ہے تاکہ کہیں ابن تیمیہ کی لغزشات اورمعالظات فاحشہ ان تک بھی سرایت نہ کرجائیں اورخاص طورپرسید دوعالم فخر مرسلینﷺ کے متعلق ان کی کج روی اورغلط سوچ سے اہل اسلام کاتحفظ ضروری ہے‘ اور جوشخص بھی بنظر انصاف اس امام زمانہ(یعنی ابن حجرہیتمی) کے اندازواسلوب کودیکھے گا وہ ان کی ولایت کی گواہی دے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کومستقل قریب میں ابن تیمیہ کے اقوام پر مرتب ہونے والے نقصانات سے مطلع فرمادیا‘ یعنی فرقہ وہابیہ کاظہور وخروج جن کی اصل بنیاد یہی ابن تیمیہ ہے وہی ان کے عقائد ہیں جوابن تیمیہ کے تھے اوروہی ان کاسرمایہ ‘استدلال واستناد ہے اوروہی اس فساد کی جڑ ہے اورضررونقصان اہل اسلام کوان سے پہنچا ہے اورعلی الخصوص حرمین شریفین اورسرزمین عرب میں اہل اسلام اوراسلام کوان کی وجہ سے جو نقصان پہنچاوہ کسی بھی صاحب ایمان پر مخفی نہیں ہے لہٰذا عین ممکن ہے اوربالکل قرین قیاس یہ احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام ابن حجر کواس امر پرازروائے کرامت مطلع کردیا ہے اوروہ اس کے اہل بھی ہیں کیونکہ وہ اکابرعلماء عاملین میں سے ہیں اورآئمہ ھادین ومہدیین سے ان کاعلم اوران کی کتب جوامت کیلئے انتہائی مفید ہیں اورانہوں نے اپنی تصانیف سے امت کی وہ خدمت کی ہے جس پراس وقت سے لے کرآج تک ان کاکوئی ہمسرنہیں ہے‘ انہوں نے اپنے فیوض وبرکات سے دنیا کومعمورکردیا ہے اورتمام بلاد اسلام میں خواص وعوام نے ان سے استفادہ کیا ہے۔
جس شخص کایہ منصب ومقام ہوتوکیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوبعض غیوب پر اطلاع کی کرامت سے سرفراز فرمایا ہو اور اس ابن تیمیہ کے نامہ اعمال میں وہ فضائح وقبائح بھی مندرج ہیں جو اس کی اتباع میں فرقہ وہابیہ کی وجہ سے اہل اسلام اورملت اسلامیہ کونقصانات اٹھانے پڑے ہیں اسی لئے امام موصوف نے ابن تیمیہ پرسب ائمہ اعلام اورعلماء کرام کی نسبت سخت تنقید کی اورآپ بہت سخت عبارات کے ساتھ اس کاردفرماتے تھے جس میں اہل اسلام پرشفقت ہے اوردین متین کی حمایت وحفاظت ان کی عبارات تمام کتب میں موجود ہیں خصوصاً فتاویٰ حدیثیہ میں(شواہد الحق الباب الربع‘ص ۱۴۲‘مطبوعہ مرکز اہل السنتہ برکات رضا غجرات الھند الطبعتہ الاولیٰ۲۰۰۴ھ۴۳۵‘م،چشتی)
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ان نقول وتصریحات اورعلماء اعلام کی تصانیف سے دوپہر کے آفتاب کی مانند واضح ہوگیاکہ مذہب اربعہ کے علماء اعلام ابن تیمیہ کے بدعات پرردوقدح میں متفق ہیں‘ بعض حضرات نے اس حوالہ جات کی صحت نقل کے لحاظ سے اس پراعتراض کیا ہے (یعنی ابن تیمیہ اس معاملہ میں بددیانتی سے کام لیتاتھا) اوربعض نے اس کے عقل کی کمی کے اعتبار سے اوراس کے مسائل پرطن وتشنیع اس کے علاوہ ہے جن میں اس کے شذواختیارکیا ہے اوراجماع امت کی مخالفت کی ہے اورخطاء فاحش کامرتکب ہوا، خصوصاً ان مسائل میں کہ جن کاتعلق سید المرسلین فخر الاولین والاآخرینﷺ سے ہے‘جن حضرات نے اس پرعدم صحت نقل کے لحاظ سے اعتراض کیا ہے ان میں علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی شارح شفاء امام محمد زرقانی مالکی شارح مواہب اورامام سبکی شافعی قابل ذکر ہیں اورامام سبکی نے’’الشفاء السقام‘‘ میں ابن تیمیہ کی نظریاتی خطاء کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ ان احکام شرعیہ کی صحت نقل کے لحاظ سے بھی اس کی خطاء واضح کی ہے جن کومختلف علماء اعلام کی طرف منسوب کرکے اس (یعنی ابن تیمیہ) نے نقل کیا۔
تاکہ اپنی بدعات(وضلالات) کی تائید وتقویت حاصل کرے حالانکہ انہوں نے قطعاً یہ اقوام واحکام ذکر نہیں کئے تھے اور امام ابن حجرہیتمی نے بھی اپنے ردوقدح میں ابن تیمیہ پر یہ اعتراض کیا ہے۔
اوریہ امر کسی بھی صاحب ہوش وعقل پر مخفی نہیں ہے کہ نقل میں بددیانتی سے کام لینا عالم کے اندر بڑا عیب ہے اورانتہائی بداخلاقی جس سے اس پروثوق واعتماد ختم ہوجاتاہے اگرچہ واحفظ الحاظ واعلم العلماء کیوں نہ ہو(شواہد الحق الباب الرابع ص۱۴۳‘مطبوعہ مرکز اہل السنہ برکات رضا غجرات الہند اطبعہ الاوّلی ۲۰۰۴۔۱۴۲۵م)
حافظ ابن حجر اورامام عینی کے استاد حافظ کبیر زین الدین عبدالرحیم بن حسین عراقی نے بھی ابن تیمیہ کاردکیا جس سے ابن تیمیہ کی نقل کے غیر معتبر ہونے کی تائید ہوتی ہے حافظ عراقی نے ابن تیمیہ کے ایک جواب پراعتراض کرتے ہوئے فرمایا‘ مجھے ابن تیمیہ جیسے عالم سے سرزد ہونے والے یہ اقوال دیکھ کربہت زیادہ حیرانگی ہوئی کہ یہ شخص جس کے متعلق اس کے متبعین یہ کہتے ہیں کہ وہ علام سنت کااحاطہ کئے ہوئے ہیں اوران کی حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے الخ(شواھد الحق‘الباب الرابع‘ص۱۴۳‘۱۴۴‘مطبوعہ مرکز اہل لانستہ برکات رضا غجرات الہندالطبعہ الاولی۲۰۰۴۔۱۴۲۵م)
اورکچھ نے ابن تیمیہ کی تکفیر بھی کی ہے جیسے ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اور شہاب الدین خفاجی حنفی رحمۃ اللہ علیہ وغیر ہما ۔ (شواہد الحق الباب الرابع التنبیہ الثانی‘ص۴۰)۔)طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...