درسِ قرآن موضوع آیت : فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ
ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ وَالْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ ۔ (پارہ نمبر 28 سورہ التحریم آیت نمبر 4)
ترجمہ : تو بیشک اللّٰہ خود ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مددگار ہیں ۔
بیشک اللّٰہ تعالیٰ ان کا مددگار ہے ،حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام، نیک ایمان والے اور ان کی مدد کے بعد فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ (تفسیر خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۴، ۴/۲۸۵،چشتی)(تفسیر مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۵۷)
(1) اگرچہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بھی فرشتوں میں داخل ہیں مگر چونکہ وہ تمام فرشتوں کے سردار ہیں اس لئے خصوصیَّت سے ان کا علیحدہ ذکر ہوا ۔
(2) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسلمانوں کے ایسے مدد گار ہیں ، جیسے بادشاہ رعایا کا مددگار اور مومن حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایسے مددگار جیسے خُدّام اور سپاہی بادشاہ کے ، لہٰذا اس آیت کی بناء پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسلمانوں کے حاجت مند ہیں ۔
(3) اس آیت میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور نیک مسلمانوں کو مولیٰ یعنی مدد گار فرمایا گیا اور فرشتوں کو ظہیر، یعنی معاون قرار دیا گیا، اس سے معلوم ہواکہ اللّٰہ تعالیٰ کے بندے مدد گار ہیں ، یاد رہے کہ جہاں غیرُاللّٰہ کی مدد کی نفی ہے وہاں حقیقی مدد مراد ہے ، لہٰذا آیات میں تعارُض نہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ۔ (سورہ کہف آیت نمبر 17)
ترجمہ : اور جسے وہ (اللہ عزّ و جل) گمراہ کرے تو تم ہرگز اس کیلئے کوئی راہ دکھانے والا مددگار نہ پاؤ گے ۔
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوۡنَ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِۚ اٰمَنَّا بِاللہِۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوۡنَ ﴿52﴾ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنۡزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوۡلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿53﴾ ۔ (سورہ العمران آیت نمبر 52 ، 53،چشتی)
ترجمہ : پھر جب عیسیٰ نے ان (بنی اسرائیل) سے کفر پایا تو فرمایا : اللہ کی طرف ہو کر کون میرا مددگار ہوتا ہے؟ مخلص ساتھیوں نے کہا : ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں ۔ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ اس پر گواہ ہوجائیں کہ ہم یقینا مسلمان ہیں ۔ اے ہمارے رب ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اورہم نے رسول کی اِتّباع کی پس ہمیں گواہی دینے والوں میں سے لکھ دے ۔
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ : پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفرپایا ۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ یہودی اپنے کفر پر قائم ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں اور اتنی روشن آیات اور معجزات سے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے پہچان لیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی وہ مسیح ہیں جن کی توریت میں بشارت دی گئی ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے دین کو منسوخ کریں گے، تو جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعوت کا اظہار فرمایا تو یہ ان پر بہت شاق گزرا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ایذاا ورقتل کے درپے ہوئے اور انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفر کیا ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس وقت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہوکر میرا مددگار بنے ۔ اس پر حواریوں نے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد کا وعدہ کیا ۔ (تفسیر خازن، اٰل عمران ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱/۲۵۳)
حواری وہ مخلصین ہیں جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین کے مددگار تھے اور آپ پر اوّل ایمان لائے ، یہ بارہ اَشخاص تھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ِمصیبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں سے مدد مانگنا سنت ِپیغمبر ہے ۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور پھر کہا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے مسلمان ہونے پر گواہ بن جائیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان و اسلام ایک ہی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین اسلام تھا ، یہودیت و نصرانیت نہیں ۔ اسی لئے ایمان لانے والوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا ، عیسائی نہیں ۔
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ۔ (پارہ نمبر 6 سورہ المائدہ آیت نمبر 55)
ترجمہ : تمہارے دوست (مددگار) نہیں مگر اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والے ۔
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا : تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں ۔ گزشتہ آیات میں ان لوگوں کا بیان ہوا جن کے ساتھ دلی دوستیاں لگانا حرام ہے ، ان کا ذکر فرمانے کے بعد اب ان کا بیان فرمایا جن کے ساتھ مُوالات واجب ہے ۔ اس آیتِ مبارکہ کے متعلق حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی ، انہوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی ، یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، ہماری قوم نے ہمیں چھوڑ دیا اور قسمیں کھالیں کہ وہ ہمارے پاس نہیں بیٹھا کریں گے اور دوری کی وجہ سے ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے اصحاب کی صحبت میں بھی نہیں بیٹھ سکتے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور ایمان والے تمہارے دوست (مددگار) ہیں تو حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ، اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر اور مؤمنین کے دوست ہونے پر ہم راضی ہیں ۔ (تفسیر قرطبی المائدۃ، تحت الآیۃ : ۵۵، ۳/۱۳۱، الجزء السادس،چشتی)
غیر اللہ سے مدد مانگنا قرآن و حدیث کی روشنی میں
قرآن و حدیث میں انبیاء واولیاء سے مدد مانگنے سے کہیں منع ہی نہیں کیا گیا ، پھر بھی تشفی قلب کے لیے کچھ آیات و احادیث پیش خدمت ہیں جن سے انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنے کا ثبوت حاصل ہوتا۔ مگر اس سے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے ، ان شاء اللہ تعالیٰ بہت سے شبہات و وَساوس دور ہوں گے اور یہ اصول بہت جگہ کارآمد ہوگا۔ پہلی بات یہ یاد رکھئے کہ شرک ہر حال میں شرک ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی چیز حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں تو شرک تھی اور آج نہ ہو، یا کوئی بات ان کے دور میں شرک نہیں تھی اور آج آکر وہ بات شرک ہو جائے، دوسری بات یہ کہ یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک کام جس کا تعلق اگر زندہ کے ساتھ ہو تو وہ شرک نہ ہو اور اگر وہی کام مردہ سے متعلق ہو جائے تو شرک ٹھہرے، کیونکہ اگر مردہ خدا کا شریک نہیں ہو سکتا تو زندہ بھی نہیں ہو سکتا ۔
ہماراعقیدہ یہ ہے کہ دینے والی ذات اللہ کریم ہی کی ہے اگر وہ نہ چاہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا لیکن وہ جسے چاہے، جتنا چاہے عطا کرے، اور اللہ عزوجل ہی کی عطا سے انبیاء و اولیاء اسی کی نعمتیں جس کو چاہیں اور جس قدر چاہیں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اور جب وہ تقسیم کرسکتے ہیں تو ان سے مانگنے میں کیا حرج ہے؟ مزید یہ کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا فرض یا واجب نہیں اور نہ ہی یہ کہ جو غیر اللہ سے مدد نہ مانگے وہ گنہگار ہے، بلکہ یہ ایک جائز فعل ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :"واستعينوا بالصبر والصلاة" نماز اور صبر سے مدد مانگو۔ [البقرۃ] کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے، کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے۔ دوسری آیت میں فرماتا ہے:"وتعاونوا علی البر والتقوی"، آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر۔ [المائدۃ) کیوں صاحب !اگر غیر خدا سے مدد لینی مطلقاً محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا ؟!!، انتھی۔
یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ مزاروں پر جا کر بیٹے مانگتے ہیں ، ابھی آپ نے سنا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ آیات کریمہ کا حوالہ دے کر ارشاد فرماتے ہیں کہ جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا؟ اب قرآن پاک کی زبانی سنئے کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اوربھی باذن الہٰی بیٹا دے سکتا ہے : حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں:"إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا"میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں۔[مریم:19]
اس موضوع پر دلائل کا احاطہ ممکن نہیں ، طوالت کے خوف سے مزید صرف چند آیات و احادیث لکھ کر اختتام چاہوں گا :
ہمارا پیارا اللہ فرماتا ہے : "اور انہیں کیا برا لگا یہی نا کہ انہیں دولت مند کردیا اللہ اور اللہ کے رسول نے اپنے فضل سے"۔ [التوبۃ:74]
ہاں یہ جگہ ہے کہ غیظ میں کٹ جائیں بیمار دل ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول نے دولت مند کردیا اپنے فضل سے ۔ اے اللہ کے رسول ! مجھے اور سب اہلسنت کو دین و دنیا کا دولتمند فرما اپنے فضل سے ۔ صلی الله تعالىٰ عليك وسلم
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
نور دن دونا ترادے ڈال صدقہ نور کا
مزيد فرماتا ہے: "اور کیا خوب تھا اگر وہ راضی ہوتے خدا اور رسول کے دئيے پر ، اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے اب دے گا اللہ ہمیں اپنے فضل سے اور اس کا رسول، بیشک ہم اللہ کی طرف راغبت والے ہیں"۔ [التوبۃ:59] ۔ یہاں رب العزت جل وعلانے اپنے ساتھ اپنے رسول صلى الله علیہ وآلہ وسلم کو بھی دینے والا فرمایا اورساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی کہ اللہ و رسول سے امید لگی رکھو کہ اب ہمیں اپنے فضل سے دیتے ہیں ۔ حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں:" میں بناتا ہوں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت پھر پھونکتا ہوں اس میں تو وہ ہوجاتی ہے پرند اللہ كے اذن سے، اور میں شفاء دیتا ہوں مادر زا د اند ھے اور بدن بگڑے کو ، اور میں زندہ کرتا ہوں مردے اللہ كے اذن سے ، اور میں تمہیں خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے اور جو گھروں میں بھر رکھتے ہو تاکہ میں حلال کردوں تمہارے لئے بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ۔ [آل عمران:49] ۔ اب بتائیے جو شفاء دیتا ہو، جس کے پاس نابینا پن کا علاج ہو، جو بگڑے بدن کو صحت یاب کر دے، اس سے کیونکر مدد نہ طلب کریں ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment