Sunday 31 October 2021

تبلٕغِ دین کے مشن میں ہمارا ساتھ دیجیے

0 comments

 تبلٕغِ دین کے مشن میں ہمارا ساتھ دیجیے


دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں کے اس دور میں فتنوں کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے اور دینی تعلیم عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔ ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی : آئیے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور مستحق بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحب حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اہلسنت میں انتشار و افتراق کیوں ؟

0 comments

 اہلسنت میں انتشار و افتراق کیوں ؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اِس وقت اہلسنت و جماعت کے درمیان کافی اختلاف و انتشار برپا ہے کہیں قادری ، رضوی آپس میں متصادم ہیں تو کہیں رضوی اشرفی گتھم گتھا کہیں گولڑوی ، رضوی آپس میں معرکہ آرائی کرتے دِکھ رہے ہیں کبھی مداری اور رضوی حضرات کے درمیان مکّا بازی ہو رہی ہوتی ہے تو کبھی دعوت اسلامی سے رضوی حضرات گرما گرمی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مشاہدہ یہ بھی ہے کہ رضوی حضرات اشرفی ، صابری ، وارثی ، جلالی وغیرہ وغیرہ سبھی سے لڑتے جھگڑتے ، مباحثہ و مبالغہ کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، لہٰذا مذکورہ باتوں کو نہ ٹالتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور آناً فاناً کسی ایسی تدبیر کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعہ کل اہلسُنَّت و جماعت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی نئی صبح دیکھنے کو مل سکے غور طلب بات ہے کہ کہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم سے کوئی چوک کوئی تغافل تو نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری ہی جماعت کے لوگ ہم سے دور ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اہلسنت میں درار پیدا ہو رہی ہے ؟ دوستو جب تک ان مسائل کا سراغ لگا کر ان کو حل نہیں کر لیا جاتا تب تک اہلسنت و جماعت میں اتحاد و اتفاق پیدا نہیں ہو سکتا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے جنہوں نے تمام خانقاہوں کی نمائندگی کرتے ہوئے معمولات اہلسنت کو کفر و شرک بتانے والوں سے لڑائی لڑی سنیت کے تحفظ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اسی حال میں داعئی اجل کو لبّیک کہا لیکن دوستو! آج بعض خانقاہی حضرات اور سنی عوام کو کیا ہو گیا ہے جو خانوادہ اعلیٰ حضرت سے بغض و حسد کا شکار ہو گئے کہیں ان کی شہرت و مقبولیت سے تو حسد نہیں ہو گیا ہے ؟ آج رضوی حضرات دیگر سلسلے کے حضرات کی آنکھوں میں چبھ رہے ہیں چشتی، نقشبندی،سہروردی، رفاعی اس چکر میں ہے کہ ہمارے سلسلہ کا نعرہ لگے اشرفی اور صابری کو اس غم نے کمزور کر دیا کہ ہمارا سلسلہ ہندوستان میں قدیم ہے اس لیے ہمارا نعرہ لگے دوستوں!! جس دن ہم نے ان اختلافات کو نظر انداز کر کے یہ ٹھان لیا کہ چشتی قادری بھی ہمارے ہیں صابری اشرفی بھی ہمارے ہیں وارثی، نقشبندی، سہروردی، برکاتی رفاعی بھی ہمارے ہیں خلاصہ یہ کہ تمام سنّی خانقاہوں اور سلسلے کے علماء کرام اور عوام سب ہمارے ہی ہیں،ان شاء اللہ تعالٰی اسی دن سے اہلسنت و جماعت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضاء ہموار ہونا شروع ہو جائے گی ۔


جب کسی قوم کا عہد زوال شروع ہوتا ہے تو وہ آپسی اختلا ف و انتشار اور مخاصمت ومعاندت کا خوگر ہو جاتی ہے۔باہمی اخوت و محبت کی فضا کو مکدر کر کے اپنی ہی قوم کے ساتھ بر سر پیکار ہو جاتی ہے۔ ان دنوں وطن عزیز میں کچھ ایسا ہی حال جماعت اہل سنت کا ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے ہماری جماعت میں اختلاف وانتشار کی جو تشویش ناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور اس کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، وہ ہماری اجتماعی قوت کوپارہ پارہ کر دینے کے لیے کا فی ہے۔پوری جماعت ٹکڑیوں او رریوڑوں میں تقسیم ہو تی جارہی ہے۔عوام تو عوام،خواص بھی جماعتی مفادات سے نا آشنا ہوتے جارہے ہیں۔نفع ِعاجل اور شہرت وخود نمائی کے چکر میں وہ کسی ایسے عمل کے لیے تیار نہیں جس میں پو ری قوم کی عزت و افتخار کا ساماں ہو۔


بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، اہل سنت و جماعت کی ماضی قریب کی تاریخ پر ہی نظر ڈالیں تو ہمیں وہ زرّین دور بھی نظر آتا ہے۔ جب اتحاد واتفاق کا بول بالا تھا۔ ہمارے علما و مشائخ باہم شیرو شکر تھے۔مشربی تعصبات سے بالا تر ہوکرایک دوسرے کی عظمت و رفعت کا اعتراف کرتے، ایک دوسرے کا ادب و احترام بجا لاتے۔یہ قد سی صفات شخصیتیں دینی و مذہبی کاموں میں ایک دوسرے کی دست وبازو ہو تیں۔محبت و مودت کی یہ پاکیزہ فضا اس لیے قائم نہیں تھی کہ اس زمانے میں مسائل پیدا نہیں ہواکر تے تھے، یا خانقاہوں، اداروں اور تنظیموں کی تعداد بہت کم تھی۔ بلکہ اس دور میں بھی بڑے اہم مسائل پیدا ہوئے۔ فکری اور نظریاتی اختلافات بھی رونما ہوئے۔خانقاہیں اور ادارے بھی قائم تھے۔ لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ ان نفوس قدسیہ کے دلوں میں خدا کا خوف موج زن تھا۔ وہ خلوص وللہیت کے پیکر بھی تھے۔وہ ہردم دین کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہتے۔وہ دینی و مذہبی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے۔ ان کا کوئی بھی عمل اپنی انا کی تسکین کے لیے نہیں ہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مسائل نہایت آسانی کے ساتھ حل ہو جاتے۔کسی بھی اختلاف کو پنپنے کا موقع نہیں مل پا تا۔آپسی اتحاد و اتفاق بہر حال باقی رہتا۔لیکن آج کی صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اخلاص کی جگہ انا کی ہوس نے لے لی ہے۔ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بڑا سے بڑا دینی و جماعتی نقصان بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیا جا تا ہے۔اختلافات کو ختم کر نے کے بجاے ایک خود غرض طبقہ انہیں مسلسل ہوا دے رہا ہے۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔


جماعت اہل سنت میں اختلاف و انتشار کا جو سلسلہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس کا ایک اہم اور بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت کسی ایسی مضبوط قیادت پر متفق نہیں ہو سکی ہے جسے مختلف فیہ اور متنا زع مسا ئل میں حکم بنا یا جا سکے۔جس کے فیصلے پر عمل در آمد ہر دو فریق اپنے لیے لازم و ضروری سمجھتا ہوں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے بعد اسلا میان ہند کے لیے مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمۃ کی ذات مرجع عوام وخواص تھی۔ان کا ہر حکم فیصلے کی حیثیت رکھتا تھا۔متنازع مسائل میں آپ کے فیصلے کو سبھی بسر و چشم قبول کیا کرتے اور آپ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو تا تھا۔افسوس کہ آپ کے وصال کے بعدجماعت کا شیرازہ اس طر ح بکھرا کہ پھر کسی شخصیت کی مرجعیت پر پوری جماعت متفق نہیں ہو سکی۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ ان کے بعد جماعت میں کوئی ایسی شخصیت نہیں رہی جو مسلمانوں کی دینی قیادت کا فریضہ انجام دے سکے ۔ اللہ کے فضل سے آج بھی اپنی جماعت میں ایسی شخصیتیں موجود ہیں جو جماعتی مسائل سے نمٹ کر اپنے دینی و مذہبی فرائض بخوبی انجام دے سکتے ہیں ۔ بلکہ اس صورت حال کا اصل سبب یہ ہے کہ اب ہمارے دلوں میں دینی مفادات کی اہمیت نہیں رہ گئی۔ ہم دین ومذہب کے نام پر صرف اس لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتے کہ اس میں ہمارے بہت سارے دنیا وی مفادات کا خون ہوگا۔ہما ری شخصیت نمایاں نہیں ہو سکے گی،اور ہم دنیا وی جاہ و جلال کے حصول سے قا صر رہ جائیں گے ۔ یقینا اسی طرز فکرکی بنیاد پر جماعتی اتحاد واتفاق کی راہیں مسدود ہو تی جارہی ہیں ۔ خلوص و للہیت کے فقدان نے ہماری انا کی آگ کو شعلہ جوّالہ بنا دیا ہے جس کی لپٹ سے ہما رے دینی مفادات خاکستر ہو ئے جا رہے ہیں ۔ (چشتی)


ادھر ایک دہائی کے اندر ہما ری جماعت میں شدت پسندو ں کا ایک ایسا طبقہ پر وان چڑھا ہے، جس نے آپسی اتحاد واتفاق کو پارہ پارہ کر نے میں سب سے اہم کردار اداکیا ہے۔علم ودانش اور فکر و تدبر سے نا آشنا یہ طبقہ تحقیق و تفتیش اور اصلاح کی سعی کے بغیر ہی کسی شخصیت کو جماعت سے خارج قرار دینے میں ذرا بھی دریغ نہیں کرتا۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اہل سنت کا خار جہ رجسٹر ان دنوں ان ہی حضرات کے قبضے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ آئے دن اہل سنت کی کسی نہ کسی شخصیت، تنظیم اور ادرے کو جماعت کی فہرست سے خارج کرتی نظر آتی ہے۔ستم بالاے ستم یہ کہ وہ اپنی یہ نادانیاں دوسروں کو بھی تسلیم کرا نے کے درپے رہتے ہیں اور عدم اتفاق کی صورت ان کی سنیت بھی اس طبقے کے نزدیک مشکوک ہو جا تی ہے۔کسی کے لیے صلح کلیت کا حکم لگادینا گویا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔’بائیکاٹ‘کی اسلامی سزاکو ان لوگوں نے مذاق بنا دیا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اختلاف انتشار کا یہ عمل ما ضی قریب کی ایک ایسی شخصیت کے نام پرا نجام دیا جا رہا ہے، جو بر صغیر میں اتحاد اہل سنت کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔اس طبقے کی یہ سر گرمیاں جماعتی مفادات کے حق میں حد درجہ نقصان دہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان افراد کو صراط مستقیم پر گام زن فر مائے آمین ۔


ان دنوں بر صغیر میں گمراہ اور باطل فرقوں کی سر گرمیاں عروج پر ہیں۔ سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے معتقدات و مسلمات کے خلاف باطل افکار و نظریات کی اشاعت پر پو ری توانائی صرف کی جا رہی ہے۔ باطل فرقے اپنے گمراہ کن نظریات کی اشاعت کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال بھی بڑی مہارت سے کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے نئی نسل کے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ان فرقوں کے دام فریب میں پھنستی جا رہی ہے۔دیوبندی، وہابی،قادیانی، جماعت اسلامی، نیچری اور نہ جانے کتنے فرقے ہیں جن کا واحد نشانہ اہل سنت وجماعت ہے۔ان فرقوں کی ساری توانائی اسی جماعت حق کے خلاف صرف ہو رہی ہے۔ایسے حا لات میں ان فرقوں کی سرکوبی اورسواداعظم اہل سنت وجما عت کے معتقدات کے تحفظ کے لیے اتحاد اہل سنت کتنا ضروری ہو گیا ہے، بیان کر نے کی ضرورت نہیں ۔


رئیس التحریر علامہ یسین اختر مصباحی کے بقول : وقت کا شدید مطالبہ ہے کہ متعدد غیر منظم سنی حلقے اپنے مسائل حل کر نے اور مخالفین کا مقابلہ کر نے کےلیے خلوص دل سے کوئی ایسی تدبیر نکالیں کہ یہ ساری ندیاں نالے مل کر ایک بیکراں سمندر میں تبدیل ہو جائیں یا کم از کم دیانت دارانہ وفا قی جماعت تشکیل دے کر ایک مضبوط و مستحکم اور بلند وبالاعمارت کی بنا ڈال کر اپنے خون جگر کا نقش جمیل اس کے درو دیوار میں ثبت کر یں اور اس کے فروغ و بقا کی راہ میں اپنی تمام تر کو ششیں صرف کر دیں ۔ جس روز ایسا نقشہ سامنے آگیا تو پھر ید اللہ علی الجماعۃ کے بموجب قدرت کی نوازشات اور اس کی عنایات کا دروازہ اس طرح کھل جائے گاکہ اطراف ہند ہی نہیں بلکہ اس کی موج رحمت سے نہ جانے کتنے ملک اور کتنی قومیں نہال اور شاد کام ہو جائیں گی ۔ (نقوش فکر صفحہ ۳۷،چشتی)


ظاہر ہے یہ سب اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہماری خانقاہیں، ہمارے ادارے، ہماری تنظیمیں اور ہمارے قائدین اپنے دلوں سے نفع عاجل اور شہرت وخود نمائی کے جذبے کو نکال پھیکیں اور نہایت خلوص کے ساتھ کاروان اہل سنت کی زمام قیادت کو اپنے ہا تھوں میں لیں۔ بنام اہل سنت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر دین کی فلاح و بہبودی اور جماعتی مفادات کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کر نے کا عہد کریں ۔ آپس میں محبت و خلوص کا ماحول پیدا کریں۔ ایک دوسرے کی عظمت ورفعت کا لحاظ اورادب و احترام کا خیال رکھیں۔ تمام سنی ادارے اور تنظیمیں مسلک حق کی اشاعت ہی کے لیے ہیں ۔ کوئی تنظیم یا ادارہ کسی دوسرے ادارے کو اگر اپنا حریف سمجھتا ہے تو یہ بڑی بھول ہے ۔


اگر ہماری جماعت کا کوئی فرد کسی غلط راستے پر جا رہا ہے تو اس کے خلاف محاذ آرائی کے بجائے اس کی اصلاح کی کوشش ہو نی چاہیے۔غلطیاں کہاں نہیں ہوتیں ؟ غلطیوں کی اصلاح کی جائے۔اصلاح مفاسد کےلیے حکمت و تدبر کا قرآنی اصول اپنا یا جائے ۔ کسی بھی معاملے میں عجلت اور بے جا شدت جما عتی اتحادکے حق میں حد درجہ ضرر رساں ہے ۔


کاش ! ان امور پر توجہ دی جا ئے تو پھر اتحاد اتفاق کی وہی بہاریں ہماری نظروں کو خیرہ کریں گی جن کا مطالعہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ میں کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کوئی ایسی سبیل پیدا فرمادے کہ ہم اپنے گزشتہ سارے اختلافات کو بھلا کر تلافی مافات کے لیے ایک پرچم تلے جمع ہو جائیں ۔


تعلیماتِ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ


بدگمانی حرام ہے


القرآن: یایھا الذین امنوا احتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم

ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں ۔ (سورۂ حجرات آیت 12 پارہ 26)

(برے) گمان سے دور رہو کہ (برے) گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔

(صحیح بخاری‘ کتاب الادب‘ حدیث 6066‘ جلد 3 صفحہ 117)


بعض گمان گناہ ہیں


ایک مرتبہ امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ سے کعبہ معظمہ کو تشریف لے جارہے تھے اور ہاتھ میں صرف ایک تاملوٹ (یعنی ڈونگا) تھا۔ شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے دیکھا (تو) دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار (یعنی بوجھ) ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ وسوسہ شیطانی آنا تھا کہ امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ نے فرمایا! شفیق ۔ بچو گمانوں سے (کہ) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ نام بتانے اور وسوسہ دلی پر آگاہی سے نہایت عقیدت ہوگئی اور امام کے ساتھ ہولئے۔ راستے میں ایک ٹیلے پر پہنچ کر امام صاحب نے اس سے تھوڑا ریت لے کرتا ملوٹ (یعنی ڈونگے) میں گھول کر پیا اور شفیق بلخی سے بھی پینے کو فرمایا۔ انہیں انکار کا چارہ نہ ہوا جب پیا تو ایسے نفیس لذیذ اور خوشبودار ستو تھے کہ عمر بھر نہ دیکھے نہ سنے ۔ (عیون الحکایات حکایت نمبر 131صفحہ 150/149،چشتی)


شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ : محدث بریلی علیہ الرحمہ کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی۔ نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ’’سبیل مومنین صالحین‘‘ سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت و سنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز محدث بریلی علیہ الرحمہ کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟


مزارات اولیاء پر ہونے والے خرافات


ﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر ﷲ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنے مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فیض حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء ﷲ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔

لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر ﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاسکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کےلیے بیت المقدس آتے تھے (معاذ ﷲ)

اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔

اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم لوگ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں ۔


مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا


امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوسکتی۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا ﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)


روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 765‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)


روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے ۔(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)


معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔


مزارات پر چادر چڑھانا


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 42)


عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے ؟

آپ سے جواباً ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کرام کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔ (ملفوظات شریف ص 383‘ مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی)


عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حرام ہے


سوال : بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب : آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور تصنیع حرام۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24ص 112‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)


عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے


سوال : تقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ کیونکہ خیال بدونیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے ؟

جواب : رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29ص 92‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)


وجد کا شرعی حکم


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں ؟

آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں ۔ اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کے لئے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (ملفوظات شریف صفحہ نمبر231 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)


حرمتِ مزامیر


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہثت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم صفحہ 54)


نشہ و بھنگ و چرس


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلا اثر نہ ہو حرج نہیں ۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہیے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کردیتی ہے ۔ (احکام شریعت جلد دوم)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 30 October 2021

یا رسول اللہ ﷺ پکارنا شرک نہیں ہے

0 comments

 یا رسول اللہ ﷺ پکارنا شرک نہیں ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : کچھ لوگ جوشِ توحید میں صیغۂ خطاب کے ساتھ آقائے دوجہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام کو استعانت بالغیر کہہ کر شرک قرار دیتے ہیں اوراسے ناجائز سمجھتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنے سے منع نہیں کیا بلکہ پکارنے کے آداب سکھائے ہیں، ارشادِ ربّانی ہے : لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔

ترجمہ : (اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بیشک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا ۔ (النور، 24 : 63)


اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ائمہ تفسیر نے حضرت سیدنا عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے وقت ’’یا محمد‘‘ اور ’’یا ابا القاسم‘‘ کہا کرتے تھے ۔


امام محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فنهاهم ﷲ تعالي عن ذالک بقوله سبحانه : لا تجعلوا. . . الآية إعظاما لنبيه صلي الله عليه وآله وسلم، فقالوا : يا نبي ﷲ يا رسول ﷲ ۔

ترجمہ : پس اللہ عزوجل نے انہیں اپنے اس فرمان ’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ‘‘ کے ذریعہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی خاطر منع فرمایا۔ پس صحابہ نے بوقت نداء یا نبی ﷲ، یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کہنا شروع کر دیا۔‘‘(آلوسی، روح المعانی، 18 : 204،چشتی)


تمام علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لاپرواہی اور بے توجہی و بے اعتنائی کے طور پر ذاتی نام سے پکارنا حرام ہے اور یہ حکم حیاتِ ظاہری کے ساتھ مختص نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے ۔ تمام اہلِ ایمان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا جائز ہے خواہ قریب ہوں یا بعید اور خواہ حیاتِ ظاہری ہو یا بعد از وصال ۔ آیتِ مبارکہ میں وارد ہونے والی نہی کا محل دراصل وہ عامیانہ لہجہ اور طرزِ گفتگو ہے جو صحابہ اور اہلِ عرب ایک دوسرے سے بلا تکلف اختیار کرتے تھے۔ اس حکمِ نہی میں مطلق ندا سے منع نہیں کیا گیا اس لیے تعظیم و تکریم پر مشتمل ندا جائز ہے ۔


دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ مدعائے کلام بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کی تعلیم ہے لہٰذا اگر صیغہ خطاب کے ساتھ ادب و تعظیم کا تقاضا پورا نہ ہو اور عرفاً و معناً اس ندا سے گستاخی اور اہانتِ رسول کا پہلو نکلتا ہو تو وہ ندا ممنوع اور حرام ہوگی وگرنہ نہیں ۔ اہلِ ایمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیے بغیر، منصبِ نبوت و رسالت کے ساتھ پکارتے ہیں تو اس میں محبت، ادب، تعظیم اور توقیر مراد ہوتی ہے ۔


نداء کے جواز کا تیسرا سبب یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب و بعید اور حیاتِ ظاہری اور بعد از وصال تمام اہلِ ایمان کو تشہد میں سلام پیش کرنے کا جو طریقہ تعلیم فرمایا اس میں دعا و پکار اور نداء بطریقِ خطاب ہی وارد ہے ۔ یہ تلفّظ محض حکایۃً نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے شبِ معراج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا تھا بلکہ ضروری ہے کہ ہر نمازی اپنی طرف سے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه. (یا نبی! آپ پر خاص سلامتی ، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں) کے کلمات کے ساتھ سلام پیش کرے ۔ تمام اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے بطور انشاء بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام بھیجنا لازم ہے۔ ذیل میں ہم اس سلسلے میں محدثین و محققین کی آراء پیش کرتے ہیں ۔


علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اجمع الأربعة علي أن المصلي يقول : أيُّهَا النَّبِيُّ. وأن هذا من خصوصياته عليه السلام، إذ لو خاطب مصلٍ أحدًا غيره و يقول السلام عليک بطلت صلاته ۔

ترجمہ : ائمہ اربعہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ نمازی تشہد میں ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ کہے اور یہ اندازِ سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے ۔ اگر کوئی نمازی آپ کے علاوہ کسی ایک کو بھی خطاب کرے اور ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ‘‘ کہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی ۔ (ملا علی قاري، شرح الشفاء، 2 : 120)


امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الکبریٰ میں ایک مکمل باب قائم کیا ہے اور اس خصوصیت کو درج ذیل عنوان سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے : باب اختصاصه صلي الله عليه وآله وسلم بأن المصلي يخاطبه بقوله ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ ولا يخاطب سائر الناس ۔

ترجمہ : یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امر کے ساتھ مختص ہیں کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صیغہ خطاب کے ساتھ اس طرح سلام پیش کرتا ہے ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ اور وہ تمام لوگوں کو مخاطب نہیں ہو سکتا ۔ (الخصائص الکبري، 2 : 253،چشتی)


امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ المواہب اللدنیہ میں اور امام زرقانی شرح المواہب میں اسی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ومنها أن المصلي يخاطبه بقوله : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه کما في حديث التشهد والصلوٰة صحيحة. ولا يخاطب غيره من الخلق ملکا أو شيطانا أو جمادًا أو ميتاً ۔

ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه‘‘ کے کلمات کے ساتھ خطاب کرتا ہے جیسا کہ حدیثِ تشہد میں ہے اور اس کے باوجود اس کی نماز صحیح رہتی ہے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی فرشتے یا شیطان اور جماد یا میت کو خطاب نہیں کر سکتا ۔ (زرقانی، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 308)


امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں کیا ایمان افروز عبارت لکھی ہے فرماتے ہیں : واحضر فی قلبک النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه.

ترجمہ : (اے نمازی! پہلے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم شخصیت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه . تیری امید اور آرزو اس معاملہ میں مبنی پر صدق و اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں ۔ (إحياء علوم الدين، 1 : 151)


اس عبارت سے یہ امر واضح ہوا کہ اگر خطاب اپنے ظاہری معنی و مفہوم میں نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کو مستحضر سمجھ کر سلام پیش کرنے کی تلقین نہ کی جاتی ۔


نماز میں صیغۂ خطاب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب ہونے کی حکمت امام طیبی نے بھی بیان کی ہے جسے امام ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری میں نقل کیا ہے : إن المصلين لما استفتحوا باب الملکوت بالتحيات أذن لهم بالدخول في حريم الحي الذي لا يموت، فَقَرَّت أعينهم بالمناجاة. فنبهوا أن ذلک بواسطة نبي الرحمة وبرکة متابعته. فالتفتوا فإذا الحبيب في حرم الحبيب حاضر فأقبلوا عليه قائلين : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَة ﷲِ وَ بَرَکَاتُه ۔

ترجمہ : بے شک نمازی جب التحیات سے ملکوتی دروازہ کھولتے ہیں تو انہیں ذاتِ باری تعالیٰ حَیٌّ لَا يَمُوْتُ کے حریمِ قدس میں داخل ہونے کی اجازت نصیب ہوتی ہے، پس مناجاتِ ربانی کے سبب ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا ہوتی ہے۔ پھر انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت اور آپ کی متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔ پس وہ ادھر توجہ اور التفات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کریم رب کے حضور میں موجود ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یوں سلام پیش کرتے ہوئے متوجہ ہوتے ہیں : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه ۔ (فتح الباري، 2 : 314)


شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ صیغہ خطاب کی وجہ پر محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریان حقیقۃ محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات۔ پس آن حضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است۔ پس مصلی باید کہ ازیں معنی آگاہ باشد وازین شہود غافل نبود تا بانوار قرب و اسرار معرفت متنور و فائز گردد ۔

ترجمہ : بعض عرفاء نے کہا ہے کہ اس خطاب کی جہت حقیقتِ محمدیہ کی طرف ہے جو کہ تمام موجودات کے ذرہ ذرہ اور ممکنات کے ہر ہر فرد میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں حاضر و موجود ہیں لہٰذا نمازی کو چاہئے وہ اس معنی سے آگاہ رہے اور اس شہود سے غافل نہ ہو یہاں تک کہ انوارِ قرب اور اسرارِ معرفت سے منور اور مستفید ہوجائے ۔ (اشعة اللمعات، 1 : 401،چشتی)


شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ذکر کن او را و درود بفرست بروے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و باش در حال ذکر گویا حاضر است پیش تو در حالتِ حیات، و می بینی تو او را امتادب با جلال و تعظیم و ہیبت وحیاء۔ بد آنکہ وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم می بیند ترا و می شنید کلام ترا زیرا کہ وے متصف است بصفات ﷲ تعالیٰ ۔ ویکے از صفات الٰہی آنست کہ انا جلیس من ذکرنی و پیغمبر را نصیب وافر است ازیں صفت ۔

ترجمہ : (اے مخاطب!) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کر اور ان پر درود بھیج اور حالتِ ذکر میں اس طرح سمجھ کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ظاہری میں تیرے سامنے موجود ہیں، اور تو جلالت و عظمت کو ملحوظ رکھ کر اور ہیبت و حیاء کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہے۔ یقین جان کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے دیکھتے ہیں اور تیرا کلام سنتے ہیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ موصوف و متصف ہیں۔ ان صفاتِ ربانی میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَکَرَنِيْ (میں اس کا ہم نشین ہوں جو مجھے یاد کرے) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفتِ الہٰیہ سے وافر حصہ حاصل ہے ۔ (اشعة اللمعات، 2 : 621)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم دور نہیں ہیں یا مجتبیٰ پکارنا آپ مدد گار ہیں


حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشر فعلی تھانوی لکھتے ہیں : یا مرتضیٰ یا مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم آپ صلی اللہ علیہ وسلّم ہمارے دلوں کا حال بیان کرنے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو مرحبا آپ صلی اللہ علیہ وسلّم غائب ہوں  تو موت آجائے دنیا تاریک ہوجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم لوگوں کے مدد گار اور خیر خواہ  ہیں ۔ (حیات المسلمین صفحہ 51 حکیم الامت دیوبند جناب اشر فعلی تھانوی مطبوعہ مکتبہ امیزان اردو بازار لاہور) ۔ (حیات المسلمین صفحہ 9 ، 10 حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ ختم نبوت بند روڈ کراچی) ۔ (حیات المسلمین صفحہ نمبر  9  ۔ حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی مکتبہ معارف القرآن کراچی نمبر 14)


فیس بک کے مفتیان دیوبند سے سوال حکیمِ دیوبند اس طرح پکار اور لکھ کر مشرک ہوئے کہ نہیں اگر ہوئے تو علمائے دیوبند کی طرف سے آج تک کوئی فتویٰ اس پر لگایا گیا ہو تو ثبوت دیں اگر مشرک نہیں ہوئے اور یہ شرک نہیں تو پھر مسلمانانِ اہلسنت پر شرک کے فتوے کیوں ؟


احبابِ دیوبند سے گذارش ہے آیئے حکیمِ دیوبند کے بیان کردہ عقیدہ کو ہی مان لیجیئے اختلاف ختم ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ محبت و ادب رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم عطاء فرمائے آمین ۔


فیس بک کے مفتیان دیوبند سے سوال حکیمِ دیوبند پر کیا فتویٰ لگے گا ؟


احباب دیوبند سے گذارش ہے آیئے حکیمِ دیوبند کے بیان کردہ عقیدہ کو ہی مان لیجیئے اختلاف ختم ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ محبت و ادب رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم عطاء فرمائے آمین ۔ 


دیوبندیوں کے امامُ الحدیث جناب علامہ محمد زکریا کاندہلوی لکھتے ہیں کہ : بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ (اؤجزُالمسالک  جز ثانی صفحہ نمبر  225  مطبوعہ دارالقلم دمشق)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حاضر و ناظر ہیں وہابیوں کا اقرار


غیر مقلدوں کے امام نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر حال اور ہر آن میں مومنین کے مرکز نگاہ اور عابدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ، خصوصیات کی حالت میں انکشاف اور نورانیت ذیادہ قوی اور شدید ہوتی ہے ، بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ ( مسک الختام شرح بلوغ المرام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 244) ۔


ایک شبہ اور اس کا ازالہ : بعض لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام بعد از وصالِ نبوی اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کی بجائے اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ کہتے تھے لہٰذا اب سلام بصیغہ خطاب کہنا جائز نہیں ہے اس لئے شرک ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اور صرف اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه کے اندازِ نداء و خطاب میں ہی سلام پیش کرنے کا طریقہ سکھلایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ میری ظاہری حیات میں تو مجھ پر سلام نداء و خطاب کے ساتھ پیش کریں اور بعد از وصال بدل دی ں۔ اگر بعد از وصال نداء و خطاب کے انداز میں سلام پیش کرنا جائز نہیں تھا تو گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشہد کے بارے میں تعلیم ادھوری اور ناقص رہ گئی؟ (معاذ ﷲ) کیا کوئی عام مسلمان بھی یہ تصور کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ۔


حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں منبر پر بیٹھ کر نداء و خطاب پر مشتمل تشہد و سلام کی تعلیم دی اور اکابر صحابہ کی موجودگی میں یہ تلقین فرمائی اور کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ خطاب کے صیغہ کے ساتھ سلام پیش کرنے پر اجماعِ صحابہ ہے۔ خلفائے راشدین اور دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کے صیغہ خطاب کے ساتھ سلام پیش کیا ہے ۔ تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ نداء و خطاب کے صیغہ کے ساتھ سلام پیش کرنا واجب نہیں ہے لیکن وجوب کی نفی سے جواز بلکہ استحباب کی نفی بھی لازم نہیں آتی کیونکہ خلفائے راشدین اور اہلِ مدینہ کا اجماع اور جمہور امت کا اسی پر مداومت کے ساتھ عمل اس پر شاہدِ عادل اور دلیلِ صادق ہے۔ علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس پر قول بطور دلیل ہم پچھلے صفحات میں نقل کر آئے ہیں کہ جمہور امت کے نزدیک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ نداء و خطاب کے ساتھ سلام پیش کرنا بالکل جائز ہے ۔


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کو آپ کی ظاہری حیاتِ طیبہ اور بعد از وصال صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سلف صالحین نے قریب اور بعید کی مسافت کے فرق کے بغیر بصیغہ نداء و خطاب پکارا۔ مستند کتبِ احادیث اور سیر میں درجنوں واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ اکابر اور سلف صالحین کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ خطاب پکارنے میں کسی قسم کے الجھاؤ اور شک و شبہ میں مبتلا نہیں رہے ۔ انہوں نے اپنی اپنی کتب میں اس عقیدہ صحیحہ کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 26 October 2021

عہد اور ایفائے عہد

0 comments

 عہد اور ایفائے عہد

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : ایک دوسرے کی مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے ، اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کےلیے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے ، اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے ۔ مُستحکم تَعَلُّقات ، لین دین میں آسانی ، معاشرے میں امن اور باہمی اِعتماد کی فضا کا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے ، اسی لئے اسلام نے اِیفائے عہد پر بہت زور دیا ہے ۔ قراٰن و احادیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو ۔ اللّٰہ رب العزّت کا فرمان ہے : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـوْلًا ۔ (پ15، بنی اسرائیل:34)

تَرجَمہ : اور عہد پورا کرو بیشک عہد سے سوال ہونا ہے ۔


آیتِ مبارکہ میں  عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے خواہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ہو یا بندوں  کا ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد اس کی بندگی اور اطاعت کرنے کا ہے ۔ (تفسیر روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۱۵۵، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۱۷۴)


اور بندوں  سے عہد میں  ہر جائز عہد داخل ہے ۔ افسوس کہ وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں  بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں  بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے ۔ لیڈر قوم سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں  اور لوگ ایک دوسرے سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں ۔


فاعقبھم نفاقا فی قلوبھم الی یوم یلقونہ بما اخلفوا اللہ ماوعدوہ وبما کانوا یکذبون ۔ (سورہ التوبہ : 77) 

ترجمہ : سو اللہ سے ملاقات کے دن تک انکے دلوں میں نفاق رکھ دیا ‘ کیونکہ انہوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی تھی اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے ۔


کَیۡفَ یَکُوۡنُ لِلْمُشْرِکِیۡنَ عَہۡدٌ عِنۡدَ اللہِ وَعِنۡدَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمْ عِنۡدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۚ فَمَا اسْتَقٰمُوۡا لَکُمْ فَاسْتَقِیۡمُوۡا لَہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیۡنَ ۔ ﴿سورہ التوبہ آیت نمبر 7﴾ 

ترجمہ : مشرکوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے پاس کوئی عہد کیونکر ہوگا مگر وہ جن سے تمہارا معاہدہ مسجد حرام کے پاس ہوا تو جب تک وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں تم ان کے لیے قائم رہو  بیشک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں ۔


ان مشرکوں کا بیان جنہوں نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کی اور جنہوں نے اس معاہدہ کی پابندی کی : جن لوگوں نے مسجد حرام کے پاس رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عہد کرکے پھر اس عہد کو توڑا ، ان کے متعلق امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : امام ابن اسحاق نے کہا کہ عام معاہدہ یہ کیا گیا تھا کہ نہ مسلمان مشرکوں کو حرم میں جانے سے روکیں گے اور نہ مشرک مسلمانوں کو حرم میں داخل ہونے سے روکیں گے اور نہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کریں گے۔ یہ معاہدہ حدیبیہ کے مقام پر ہوا تھا جو مسجد حرام کے پاس ہے۔ یہ معاہدہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدہ میں بنو بکر قریش کے حلیف تھے اور بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف تھے ، پھر معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے بنوبکر نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور بنو خزاعہ پر حملہ کردیا ۔ اور جن لوگوں نے عہد کی پاس داری کی وہ بنو خزاعہ تھے۔ امام ابو جعفر نے کہا وہ لوگ بنوبکر کے بعض افراد تھے جن کا تعلق کنانہ سے تھا، جب بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا تو کنانہ نے بنوبکر کا ساتھ نہیں دیا اور اپنے عہد پر قائم رہے ۔ یہ قول اس سے اولیٰ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سورة البراءۃ کا پیغام سنانے کے لیے مکہ مکرمہ گئے تھے تو اس وقت تک اہل مکہ میں سے قریش اور بنو خزاعہ سے جنگ ہوچکی تھی اور فتح مکہ کے بعد ان آیات کے نزول سے پہلے وہ سب مسلمان ہوچکے تھے ، اس وقت کنانہ ہی شرک پر تھے لیکن انہوں نے چونکہ معاہدہ حدیبیہ کی پاس داری کی تھی اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا جب تک وہ عہد پر قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ عہد نبھائو اور جو شخص اپنے فرائض کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرتا ہے اور خوف خدا سے معاہدہ کی پابندی کرتا ہے ، اللہ کی نافرمانی سے اجتناب کرتا ہے ، اور معاہدہ کرکے غداری نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے ۔ (جامع البیان جز 10 ص 107، 106، ملخصاً ، مطبوعہ دارالفکر بیرورت، 1415 ھ)


امام رازی متوفی 606 ھ نے لکھا ہے : جنہوں نے عہد کی پاسداری کی تھی وہ بنو کنانہ اور بنو ضمرہ تھے ۔ (تفسیر کبیر ج 5 ص 531، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1410 ھ)


جن لوگوں نے عہد شکنی کی تھی ان کے متعلق امام ابن جوزی متوفی 597 ھ نے تین قول لکھے ہیں : (1) بنو ضمرہ، (2) قریش، (3) خزاعہ۔ (زادالمسیر، ج 3 ص 400، مطبوعہ مکتب اسلام بیروت، 1407 ھ) ۔


خلاصہ یہ ہے کہ مشرکوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی عہد نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر اور عہد شکنی کیا کرتے ہیں البتہ  بنی کنانہ اور بنی ضمرہ وغیرہ جن لوگوں سے تم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مسجد ِحرام کے نزدیک معاہدہ کیا تھا اور ان سے کوئی عہد شکنی ظہور میں نہ آئی تو ان کے معاہدہ کی مدت پوری کرو اور معاہدے کی مدت کے اندر جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں ، تم بھی قائم رہو اگر وہ اس دوران میں عہد توڑ دیں تو تم بھی ان سے جنگ کرو ۔ (تفسیر خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۲/۲۱۸)(تفسیر جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۵۵-۱۵۶، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۲۷)


اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے کئے ہوئے معاہدے بھی پورے کرنے کا حکم دیا ہے تو اس پر افسوس ہے جو مومن کے ساتھ دھوکہ بازی اوربد عہدی سے باز نہ آئے ۔ عہد شکنی حرام ہے چنانچہ حدیث مبارک ہے’’ جس شخص میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔ (2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔ (3) جب معاہدہ کرے تو اسے توڑ دے ۔ (4) جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے ۔ اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک حصہ موجود ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ (بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب اثم من عاہد ثمّ غدر، ۲/۳۷۰، الحدیث: ۳۱۷۸)


وَ اَوْفُوۡا بِعَہۡدِ اللہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمْ وَلَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعْدَ تَوْکِیۡدِہَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَیۡکُمْ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوۡنَ ۔ (سورہ النحل : 91) 

ترجمہ : اور اللّٰہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللّٰہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بیشک اللّٰہ تمہارے کام جانتا ہے ۔


اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کرنے والے کاموں اور نہ کرنے والے کاموں کا اِجمالی طور پر ذکر فرمایا اور ا س آیت سے بعض اِجمالی اَحکام کو تفصیل سے بیان فرما رہا ہے اور ان میں سب سے پہلے عہد پورا کرنے کا ذکر کیا کیونکہ اس حق کو ادا کرنے کی تاکید بہت زیادہ ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے(بیعتِ رضوان کے موقع پر) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کی تھی ، انہیں اپنے عہد پورے کرنے کا حکم دیا گیا ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے وہ عہد ہے جسے انسان اپنے اختیار سے اپنے اوپر لازم کر لے اور اس میں وعدہ بھی داخل ہے کیونکہ وعدہ عہد کی قسم ہے ۔ (تفسیر خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳/۱۴۰)


وعدے کی تعریف اور اس کا حکم


وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کرلے ”وعدہ“ کہلاتا ہے ۔ (معجم وسیط،ج 2،ص1007)


حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے ۔ مسلمان سے وَعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے ، اُستاذ، شیخ، نبی، اللّٰہ تعالٰی سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو ۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج6،ص483،492،چشتی)


لفظِ وعدہ ضروری نہیں


وعدہ کے لئے لفظِ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی بات کی تاکید ظاہر کی مثلاً وعدے کے طور پر طے کیا کہ ”فُلاں کام کروں گا یا فُلاں کام نہیں کروں گا“ وعدہ ہوجائے گا ۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں، ص461)


وعدہ پورا کرنے کی اہمیت


ایفائے عہد بندے کی عزّت و وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و قرار سے روگردانی اور عہد (Agreement) کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتی ہے ۔ نبیِّ صادق و امین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے : اس شخص کا کچھ دِین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا ۔ (معجم کبیر،ج10،ص227، حدیث:10553)


حالتِ جنگ میں بھی وعدہ پورا کیا نبی کریم صلَّی اللّٰہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حالتِ جنگ میں بھی عہد کو پورا فرمایا چنانچہ غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی افرادی قوت کم اور کفّار کا لشکر تین گنا سے بھی زائد تھا، حضرت حُذَیفہ اور حضرت حُسَیْل رضی اللہ تعالٰی عنہما دونوں صحابی کہیں سے آرہے تھے کہ راستے میں کفّار نے دَھر لیا اور کہا : تم محمد عربی (صلَّی اللّٰہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے پاس جا رہے ہو ؟ جب ان دونوں حضرات نے شریکِ جنگ نہ ہونے کا عہد کیا تب کفار نے انہیں چھوڑا، آقا علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام نے سارا ماجرا سُن کر دونوں کو الگ کردیا اور فرمایا : ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ، ہمیں صرف  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی مدد درکار ہے ۔ (مسلم، ص763، حدیث:4639) 


مفسرین نے اس عہد کی حسب ذیل اقسام بیان فرمائی ہیں


(1) اللہ کے عہد سے مراد بیعت رضوان ہے جب چودہ سو مسلمانوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ قصاص عثمان لینے کے لیے بیعت کی تھی۔ جس کا ذکر اس آیت میں ہے : ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ، ید اللہ فوق ایدیھم فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ۔ (سورہ الفتح : 10) ، بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے ہی بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ، پس جس نے بیعت توڑی اس کا وبال اسی پر ہوگا ۔

یعنی جب تم بیعت کرنے کے بعد اللہ کی قسم کھا کر اس بیعت کو پکار کرو، یا عہد کر کے اللہ کی قسم کھا کر اس عہد کو پکار کرو تو پھر اس بیعت یا عہد کو نہ توڑو ۔


(2) اس سے مراد ہر وہ عہد ہے جو انسان اپنے اختیار سے کسی کے ساتھ کرتا ہے ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا وعدہ بھی عہد کی قسم سے ہے ۔ میمون بن مہران نے کہا تم جس شخص سے بھی عہد کرو اس عہد کو پورا کرو خواہ مسلمان سے عہد کرو یا کافر سے کیونکہ اس عہد پر تم نے اللہ کا نام لیا ہے اور اس کو ضامن بنایا ہے ۔


(3) اس عہد سے مراد اللہ کی قسم ہے اور جب کوئی شخص کسی کام کو کرنے کے لیے اللہ کی قسم کھائے تو اس پر اس قسم کو پورا کرنا واجب ہے ، سوا اس صورت کے جب اس نے گناہ کا کام کرنے کی قسم کھائی تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس قسم کے خلاف کرے یعنی گناہ نہ کرے اور اس قسم کا کفارہ دے ۔ حدیث میں ہے : حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس چیز کا انسان مالک نہ ہو اس پر قسم نہ کھائے ، اور نہ اللہ کی نافرمانی کرنے پر قسم کھائے اور نہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے پر قسم کھائے اور جس شخص نے کسی کام کرنے کی قسم کھائی پھر اس نے غور کیا کہ اس کام کے خلاف کرنا اچھا ہے تو وہ اس کام کو ترک کردے اور جو کام اچھا ہو اس کو کرے اس کام کو ترک کرنا ہی اس کا کفارہ ہے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جو تمام احادیث مروی ہیں ان سب میں یہ ہے کہ وہ اس قسم کا کفارہ دے ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 3274، سنن النسائی رقم الحدیث : 3801)


حضرت عبدالرحإن بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اے عبدالرحمن بن سمرہ ! جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر تم یہ سمجھو کہ اس کام کے خلاف کرنا بہتر ہے تو وہ کام کرو جو بہتر ہے اور اس قسم کا کفارہ دے دو ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 3277، صحیح البخاری رقم الحدیث : 6721، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1652، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1529، سنن النسائی رقم الحدیث : 3791،چشتی)


(4) عہد سے مراد ہر وہ کام ہے جس کے تقاضے سے اس کو پورا کرنا واجب ہو کیونکہ عقلی اور سمعی دلائل قسم کے پورا کرنے کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔

ایک دوسرے سے تعاون کے معاہدہ کے متعلق متعارض احادیث : حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اسلام میں حلف (ایک دوسرے سے تعاون کا معاہدہ) نہیں ہے جس شخص نے زمانہ جاہلیت میں حلف (تعاون کا معاہدہ) کیا تھا اس نے اس کو اور پختہ کردیا ہے ۔ حلف (ح اور لام کی زبر) کا معنی ہے ، قسم کھانا اور حلف (ح کی زیر اور لام پر جزم) کا معنی ہے ایک دوسرے سے تعاون کا معاہدہ کرنا ۔ (مختار الصحاح ص 99، المنجد ص 149) (صحیح مسلم رقم الحدیث : 2530، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 2925)


حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے گھر میں مہاجرین اور انصار کے درمیان حلف کرایا (یہ معاہدہ کرایا کہ یہ آپس میں بھائی ہیں) حضرت انس سے کہا گیا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسلام میں حلف نہیں ہے ۔ اس پر انہوں نے کہا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے گھر میں دو یا تین بار حلف برداری کرائی ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 2926، صحیح البخاری رقم الحدیث : 6083، صحیح مسلم رقم الحدیث : 2531، مسند احمد رقم الحدیث : 12090، طبع جدید دار الفکر)


ان احادیث میں تطبیق 


علامہ ابن اثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں : حلف کا معنی ہے ایک دوسرے کا بازو بننا ، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق سے رہنے کا معاہدہ کرنا، زمانہ جاہلیت میں دو قبیلے یا دو دوست یہ معاہدہ کرتے تھے کہ وہ جنگ میں لوٹ مار میں اور قتل اور غارت گری میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے خواہ حق ہو یا باطل ، اسلام میں اس سے منع کردیا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اسلام میں حلف نہیں ہے اور جن لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ ملکر مظلوموں کی مدد کریں گے ، رشتہ داروں سے ملاپ رکھیں گے اس کے متعلق نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں جو حلف بھی اٹھایا گیا (جو معاہدہ بھی کیا گیا) اسلام نے اس کو اور پختہ کردیا ہے سو جس حلف کو اسلام نے جائز قرار دیا اور باقی رکھا ہے ، یہ وہ حلف ہے جس میں نیک کاموں اور حق کے راستے میں مدد کرنے پر معاہدہ ہوا اور یہی وہ حلف ہے جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے اور جو حلف اسلام میں ممنوع ہے یہ وہ حلف ہے جو اسلام کے احکام کے خلاف ہو ۔ لہذا حلف کی ممانعت اور حلت کے جواز کی حدیثیں کے محمل الگ الگ ہوگئے اور ان حدیثوں میں تعارض نہ رہا اور یہ حدیثیں مجتمع ہوگئیں ۔ (النہایہ ج 1 ص 407، 408، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ،چشتی)


علامہ یحی بن شرف نواوی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں : زمانہ جاہلیت میں جو حلف اٹھا کر معاہدہ کیا جاتا تھا، اس میں یہ حلف بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اس حلف کو اسلام نے منسوخ کردیا۔ قرآن مجید میں ہے : واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ۔ (الانفال : 75) اور بعض رشتہ دار دوسرے بعض رشتہ داروں سے (بہ اعتبار وراثت کے) اللہ کی کتاب میں زیادہ مستحق ہیں ۔

علامہ نووی فرماتے ہیں جو معاہدہ وراثت سے متعلق ہو تو اس کی مخالفت کرنا جمہور علماء کے نزدیک مستحب ہے اور رہا اسلام میں مواخاۃ (بھائی بننا) اور اللہ کی اطاعت کرنا اور دین میں ایک دوسرے کی نصرت کرنا اور نیکی کرنے، تقوی اور حق کو قائم کرنے پر ایک دوسرے کے ساتھ حلف برداری کرنا (معاہدہ کرنا) تو یہ ہنوز باقی ہے اور منسوخ نہیں ہوا ، اور ان احادیث کا یہی معنی ہے جن میں آپ کا ارشاد ہے : زمانہ جاہلیت میں جو بھی حلف تھا اس کو اسلام نے اور مضبوط کردیا ہے ۔ اور آپ نے جو فرمایا ہے اسلام میں حلف نہیں ہے اس سے مراد ہے ، ایک دوسرے کا وارث بننے اور خلاف شرعی کاموں میں معاونت کرنے کا اسلام میں کوئی حلف نہیں ہے ۔ (صحیح مسلم بشرح النواوی ج 10،ص 6505، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 141 ھ)


مواخاۃ کا معنی


علامہ نووی نے اپنی شرح میں مواخاۃ کا بھی ذکر کیا ہے ۔ یہ لفظ اخوت سے بنا ہے ، اس کا معنی یہ ہے کہ دو آدمی ایک دوسرے کی مدد کرنے ، ایک دوسرے کی غم خو واری کرنے اور ایک دوسرے کا وارث بننے کا معاہدہ کریں حتی کہ وہ دونوں نسبی بھائیوں کی طرح ہوجائیں۔ اس معاہدہ کو مواخاۃ کہتے ہیں اور کبھی اس کو حلف بھی کہتے ہیں جیسا کہ حضرت انس نے بیان کیا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے گھر میں قریش کے درمیان حلف برداری کرائی ۔ یہ چیز مانہ جاہلیت میں معروف تھی اور اس پر عمل بھی کیا جاتا تھا اور وہ اس کو حلف ہی کہتے تھے۔ جب اسلام آیا تو پھر بھی اس پر عمل کیا گیا اور ایک دوسرے کا وارث بنایا گیا، جیسا کہ کتب سیرت میں ہے کہ ہجرت سے پہلے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔


علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب مدینہ آئے تو مسجد نبوی بنانے کے بعد آپ نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا کہ وہ نیکی کے راستے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے اور اقامت حق میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے ، صحابہ اس مواخاۃ کی وجہ سے بغیر نسب اور رحم کی قرابت کے ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے حتی کہ یہ آیت نازل ہوگئی : والوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ ۔ (سورہ الانفال : 75) ، اور بعض رشتہ دار دوسرے بعض رشتہ داروں سے (بہ اعتبار وراثت کے) اللہ کی کتاب میں زیادہ مستحق ہیں ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا بھائی بنایا اور فرمایا تم میرے بھائی اور میرے صاحب ہو ، اور ایک روایت میں ہے کہ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو ۔ اور حضرت علی کہتے تھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور مجھ سے پہلے کسی نے یہ نہیں کہا اور جو میرے بعد کہے گا ، وہ کذاب مفتری ہوگا۔ اور آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت خارجہ بن زید کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور حضرت عمر اور حضرت عتبان بن مالک کو اور حضرت عثمان اور حضرت اوس بن مالک کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔


حلف الفضول (مظلوم کا بدلہ لینے کا باہمی معاہدہ)


ہم نے مواخات کا ذکر کیا ہے یہ زمانہ جاہلیت کے حلف الفضول کی مثل ہے ۔ اس میں بھی نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا حلف اٹھایا گیا تھا۔ امام بن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ قریش کے قبائل عبداللہ بن جدعان کے شرف اور نسب کی فضیلت کی وجہ سے اس کے گھر جمع ہوئے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ حلف اٹھا کر یہ معاہدہ کیا کہ مکہ میں ان کو جو مظلوم بھی دکھائی دے گا خواہ وہ مکہ کا رہنے والا ہو نہ ہو، وہ اس کی مدد کریں گے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ اس کا حق اس کو نہیں دلا دیتے ۔ قریش نے اس حلف کا نام حلف الفضول رکھا اس کا معنی تھا حلف الفضائل اور فضول فضل کی جمع کثرت ہے جسے فلس کی جمع فلوس ہے ۔ امام ابن اسحاق نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس وقت عبداللہ بن جدعان کے گھر میں حلف ہورہا تھا میں بھی اس موقع پر تھا اور اگر اس تقریب میں شرکت کے بدلہ مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو مجھے پسند نہ تھا اور اگر زمانہ اسلام میں بھی مجھے اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی جاتی تو میں قبول کرلیا۔ امام ابن اسحاق نے کہا کہ ولید بن عتبہ نے حضرت حسین بن علی کے خلاف اپنے مال کا مقدمہ ولید کے پاس پیش کیا ، وہ اس وقت مدینہ کا گورنر تھا ، حضرت حسین بن علی نے فرمایا کہ اللہ کی قسم کھاؤ کہ تم میرے حق کے ساتھ انصاف کرو گے ورنہ میں اپنی تلوار پکڑ لوں گا ۔ پھر میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسجد میں لوگوں کو حلف الفضول کے لیے بلاؤں گا ۔ حضرت عبداللہ بن الزبیر نے فمرایا اللہ کی قسم ! اگر انہوں نے مجھے حلف الفضول کی دعوت دی تو میں اپنی تلوار اٹھا لوں گا پھر میں ان کا ساتھ دوں گا حتی کہ یا تو انہیں ان کا حق مل جائے یا ہم ان کے حق کی خاطر لڑتے لڑتے مرجائیں گے ۔ یہ بات حضرت مسور بن مخرمہ تک پہنچی تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا پھر یہ بات عبدالرحمن بن عثمان بن عبید اللہ التیمی تک پہنچی تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا اور جب یہ خبر ولید کو پہنچی جو امیر مدینہ تھا تو اس نے کہا میں انصاف کروں گا ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 10 ص 154)


علماء نے کہا یہ وہ حلف ہے (معاہدہ) ہے جو زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا اور اسلام نے اس کو اور مضبوط کردیا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو فرمایا ہے اسلام میں حلف (تعاون کا معاہدہ) نہیں ہے آپ نے اپنے ارشاد کے عموم سے اس معاہدہ کو مستثنی کردیا جس میں جائز اور ناجائز حمایت کا عہد کیا جاتا تھا۔ اور اس کی حکمت یہ ہے کہ شریعت کا بھی یہ حکم ہے کہ ظالم سے بدلہ لیا جائے اور اس سے مظلوم کا حق لے کر مظلوم تک پہنچایا جائے اور اس کام کو مکفلین پر بقدر استطاعت واجب کردیا اور ظالموں سے حق وصول کرنے کی ان کا اجازت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ما علیھم من سبیل۔ انما السبیل علی الذین یظلمون الناس ویبغون فی الارض بغیر الحق اولئک لھم عذاب الیم ۔ (سورہ الشوری : 42، 43) ، جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لے تو اس پر گرفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گرفت کی گنجائش تو صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔


اس کی تائید ان حدیثوں میں ہے


حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم ہو ۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کریں گے، ظالم کی کیسے مدد کریں ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ پکڑ لو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2444، مسند احمد رقم الحدیث : 13110، سنن الترمذی رقم الحدیث : 2255، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 5167)


حضرت ابوبکر یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں تو عنقریب اللہ تعالیٰ ان سب پر عام عذاب نازل کردے گا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2167، مسند الحمیدی رقم الحدیث : 3، مصنف ابن ابی شیبہ ج 15، ص 174، 175، مسند احمد ج 1 ص 5، 7، 9) (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 4338، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4005، مسند البزار رقم الحدیث : 65، 66، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : 128، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 403، المعجم الاوسط رقم الحدیث : 2532، السنن الکبری للبیہقی ج 10، ص 9)


عہد شکنی کی مذمت


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور قسموں کو پکار کرنے کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو اپنا ضامن قرار دے چکے ہو۔ قسموں کو پکا کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی چیز پر یا کسی کام کے کرنے پر دو یا تین بار اللہ تعالیٰ کے نام کیق سم کھائے اور اس کو موکد کرنے کے لیے کہے اللہ کی قسم ! میں اس کے خلاف نہیں کروں گا۔ تاہم اس موکد قسم کے کفارہ اور غیر موکد قسم کے کفارہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ قسم بھی عہد ہے اور ہر قسم عہد ہوتی ہے لیکن جس عہد کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے اس کے توڑنے پر کفارہ نہیں ہوتا لیکن عہد شکنی کی شرع میں سخت مزمت کی گئی ہے اور اس پر سخت وعید ہے ۔


نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنے نوکروں اور بال بچوں کو جمع کیا اور فرمایا میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا نصب کیا جائے گا اور ہم نے اس شخص سے بیعت کی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی بیعت ہے اور میرے علم میں اس سے بڑی عہد شکنی نہیں ہے کہ ایک شخص کسی کے ہاتھ پر اللہ اور اس کے رسول کی بیعت کرے اور پھر اس سے جنگ کرنا شروع کردے اور مجھے تم میں سے جس شخص کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ وہ اس شخص سے بیعت توڑ رہا اور اس بیعت کو قائم نہیں رکھ سکا ، میرے اور اس کے درمیان تعلق منقطع ہوجائے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 7111، صحیح مسلم، رقم الحدیث : 1738، السنن الکبری رقم الحدیث : 8737، مسند احمد رقم الحدیث : 5457، عالم الکتب بیروت)


حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا قیامت کے دن عہد شکن کے لیے جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6177، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1735)


حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’وعدہ عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تم جس شخص سے بھی عہد کرو تواسے پورا کرو ، خواہ وہ شخص مسلمان ہو یا کافر ، کیونکہ تم نے اس عہد پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لیا (اور اسے ضامن بنایا) ہے ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۷/۲۶۳،چشتی)


حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : تم میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ  میں تمہارے لیے جنت کا ذمہ دار ہوتا ہوں ۔ (۱) جب بات کرو سچ بولو۔ (۲) جب وعدہ کرو اسے پورا کرو ۔ (۳) جب تمھارے پاس امانت رکھی جائے اسے ادا کرو ۔ (۴)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ۔ (۵) اپنی نگاہیں نیچی رکھو ۔ (۶) اپنے ہاتھوں کو روکو ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ، ۸/۴۱۲، الحدیث: ۲۲۸۲۱) یعنی ہاتھ سے کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ ۔


حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، ۴/۱۴۹، الحدیث: ۶۱۷۷)


حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا ۔ (بخاری، کتاب الحیل، باب اذا غصب جاریۃ فزعم انّہا ماتت۔۔۔ الخ، ۴/۳۹۴، الحدیث: ۶۹۶۶)


قسموں کو مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قسم کھاتے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے اَسماء اور صفات زیادہ ذکر کئے جائیں اور قسم توڑنے کی ممانعت مضبوط کرنے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مُطْلَقاً قسم توڑنا منع ہے۔ یا قسم مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قصداً قسم کھائی جائے ، اس صورت میں لَغْو قسم اس حکم سے خارج ہو جائے گی ۔ (تفسیر جمل، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۴/۲۶۲)


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا قیامت کے دن جب اللہ اولین وآخرین کو جمع فرمائے گا تو ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا جھنڈا ہے ۔ (صحیح البخاری ‘ ج 7‘ رقم الحدیث :‘ 6177‘ صحیح مسلم ‘ جہاد ‘ 9‘ (1735) 4448‘ سنن الترمذی ‘ ج 3‘ رقم الحدیث :‘ 1587‘ سنن ابوداؤد ‘ ج 2‘ رقم الحدیث :‘ 2756‘ صحیح ابن حبان ‘ ج 16‘ رقم الحدیث :‘ 7343‘ مسند احمد ‘ ج 2‘ رقم الحدیث :‘ 4648‘ مسند احمد ‘ ج 1‘ ص 411‘ 417‘ 441‘ ج 2‘ ص 56‘ 49‘ 48‘ 29‘ 16‘ طبع قدیم ‘ مسند احمد ‘ ج 2‘ رقم الحدیث :‘ 4648‘ طبع جدید ‘ سنن کبری ‘ للبیہقی ‘ ج 8‘ ص 160۔ 159،چشتی)


حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خطبہ میں فرمایا سنو ! جو امانت دار نہ ہو اس کا ایمان نہیں اور جو عہد پورا نہ کرے وہ دین دار نہیں ۔ (شعب الایمان ‘ ج 4‘ رقم الحدیث :‘ 4354)


نبی کریم صلَّی اللّٰہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا کوئی گوشہ نہیں جو کمال انسانیت کا آئینہ دار نہ ہولیکن اس کے دو اہم پہلو ایسے ہیں جو سب سے زیادہ بنیادی اور سب سے اہم ہیں(1) ایک تو یہ کہ آپ صلَّی اللّٰہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جو حق تھا اسے آپ نے خلق تک و قت کے وقت جوں کا توں پہنچا دیااور کبھی اس بات کو روا نہ رکھا کہ اس کا کوئی جز و لوگوں پر واضح ہونے سے رہ جائے ۔


(2) دوسرے یہ کہ آپ نہایت سچے وعدہ نبھانے والے اور امین یعنی دیانت دار ہیں ۔ قرآن کریم ، حدیث پاک وعلماء کی لکھی ہوئی قدیم و جدید کتب کا جس نے بھی اچھی طرح مطالعہ کیا ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کے بارے میں سیر حاصل تحقیق کی ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس دنیا میں آنے والے سب سے بڑے وعدہ نبھانے والے تھے اور کئی صدیوں کے گذر جانے کے باوجود یہ حقیقت دھندلی ہونے کے بجائے زیادہ روشن اور صاف ہو گئی ہے ۔


ساری دنیا اور معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں ان میں اہم چیز ایفائے عہد (قول وقرار کا پورا کرنا) بھی ہے اس کے ذریعے معاشرے میں ایک توازن پیدا ہوتا ہے جس سے ماحول خوشگوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا دائمی سب کا ازالہ ہوجاتا ہے کوئی بھی ملک ہو یا کمپنی یا قبیلہ یا انسان کسی بات پر کوئی عہد (Agreement) کرے یا کسی طرح کا وعدہ کرے لیکن بر وقت اس کی تعمیل و تکمیل نہ کرے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بد مزگی پیدا ہو جاتی ہے ۔


یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد (وعدہ) کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے وعدہ کرو اسے بر وقت پورا کروبندوں کو بتایا جارہا ہے کہ سارے عہدوں (وعدوں) کو پورا کرو خواہ خالق کائنات سے کریں یا مخلوق سے ۔


پارہ 2؍ رکوع 6؍ سورہ البقرہ آیت نمبر 177 (ترجمہ) اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے پورا کریں پھر وعدہ مجبور۱ً پورا نہ کریں بلکہ قرآن فرما رہا ہے عہد کرتے وقت وفا کی نیت ہونا چاہیئے عہد ﷲ تعالیٰ کی صفت ہے ﷲ تعالیٰ نے اپنے متعلق متعدد مقامات پر فرمایا ہے پارہ 13؍ رکوع 10؍سورہ رعد آیت نمبر 31؍اِنَّ اللّٰہ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعِاد (ترجمہ) یقینا اﷲ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا (4) پارہ 11؍ رکوع 2؍ سورہ توبہ آیت نمبر 111؍ وَ مَنْ اَوْفیَ بِعَہَدِہ مِنَ اللّٰہٖ (ترجمہ) اور ﷲ سے زیادہ اپنے عہد پورا کرنے والا کون ہے ۔ عہد کا پورا کرنا اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہتا ہے اس لئے اس نے عہد (وعدہ)(Promise) کی بار بار تاکید کی ہے ۔ پارہ 15رکوع3؍سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 37؍وَاَوْفُوْبِالعَہْداِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُولاَ (ترجمہ) اور عہد کو پورا کرو عہد کے بارے میں (ﷲ کے یہاں) ضرور باز پُرس ہوگی ۔


ﷲ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور انبیاء کرام کی صفت بھی وعدہ پورا کرنے والی ہے رب العزت فرماتا ہے اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ کَانَ رَسُوْلاًنَبِیاً ، (ترجمہ) جتنے بھی رسول آئے سب سچے وعدہ پورا کرنے والے ۔


اور آگے رب کریم ارشاد فرماتا ہے اِنَّہٗ کَانَ صِدِیْقاً نَبِیاً سورہ مریم آیت نمبر 56 ، (ترجمہ) بے شک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔


جو لوگ حج کی سعادت عظمیٰ و روضۂ رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حاضری سے سرفراز ہو چکے ہیں انہوں نے روضۂ رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جالیوں میں لکھا ہوا دیکھا ہوگا محمد رسول صادق الوعدالامین ․․․․․․․ ہیں حضور سچے وعدہ نبہانے والے اور امین ہیں یعنی امانت دار ہیں ۔ وعدہ خلافی شیطانی عیب ہے ابلیس قیامت میں کہے گا سورہ ابراہیم آیت نمبر 21؍ وَوَعَدْتَّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ ․․․․․․․الخ (ترجمہ) میں نے جو تم کو وعدہ دیا تھا وہ میں نے تم سے جھوٹا کیا ․․․․․․․․ (1) وفائے عہد ایمانی صفت ہے (2) جھوٹا آدمی دین ودنیا میں کہیں کا میاب نہیں ہوتا (3) وعدہ نبہانے عہد کی پابندی کرنے والے سے ﷲ خوش ہوتا ہے اور دوست رکھتا ہے (4) وعدہ خلافی کرنے والے پر سخت عذاب کی وعید ہے (5) ایفائے عہد وعدہ نبہانے والے سے ﷲ محبت فرماتا ہے ۔ پارہ 3؍ رکوع 15؍ سورہ آل عمران آیت نمبر 75 (ترجمہ) ہاں کیوں نہیں جس نے پورا کیا اپنا وعدہ اور پرہیزگار بنا تو بے شک ﷲ محبت کرتا ہے وعدہ نبہانے والوں اور پرہیز گاروں سے ۔


عہد کی پابندی نہ کرنے والے پرسخت عذاب کی وعید ہے ۔ اسلام نے محض ایفائے عہد کی تعلیم و تلقین ہی پر (کفایت)اکتفا نہیں کیا ۔ اس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں ﷲ کے عذاب کی وعیدیں بھی آئی ہیں ۔ پارہ 3؍ رکوع 15؍ سورہ آل عمران آیت نمبر 77؍ (ترجمہ) بے شک جو لوگ خریدتے ہیں ﷲ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی سی قیمت یہ وہ (بد نصیب) ہیں کہ کچھ حصہ نہیں ان کے لئے آخرت میں اور بات نہ کرے گا ان سے ﷲ تعالیٰ اور دیکھے گا بھی نہیں ﷲ ان کی جانب قیامت کے روز نہ پاک کرے گا انہیں اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔


عہد (وعدہ) پورا نہ کرنے اور جھوٹی قسم کھانے پر بہت سی وعیدیں قرآ ن پاک و حدیث شریف میں آئی ہیں وعدہ نہ نبہانے والے کی طرف ﷲ پاک دیکھے گا بھی نہیں اور گناہ بھی معاف نہ فرمائے گا (استغفر اﷲ) ۔ تفسیر ضیاء القرآن جلد اول صفحہ 245 سے  246 تک کبیرہ گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس میں عہد شکنی وعدہ خلافی کو نمبر 3 پر رکھا گیاہے اور جو سزا مقرر کی گئی ہے وہ کسی دوسرے گناہ کے لئے تجویز نہیں کی گئی ۔ عہد شکنی کے لئے پانچ سزاؤں کایہاں ذکر کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں غور کریں اور اپنا محاسبہ فرمائیں (1) وہ آخرت کی نعمتوں سے یکسر محروم کرد یا جائے گا (2) رحمٰن و رحیم خدائے پاک اس سے بات تک نہ کرے گا (3) اس کی نظر کرم و رحمت سے بھی محروم رہے گا (4)گناہوں کی آلائشوں سے بھی وہ پاک نہیں کیا جائے گا (5) اس کے علاوہ اسے درد ناک عذاب دیا جائے گا ۔


ہے کوئی ایسے دل گردے والاجو ان سزاؤں میں ایک کو بھی برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہو ۔ قرآن پاک کو ﷲ تعالیٰ کا کلام ماننے والی قوم اگر اس ہیبت و جلال والی آیت کے بعد بھی وہ وعدہ کی پابندی نہ کرے (استغفرﷲ-استغفرﷲ)عہد شکنی نفاق کی علامت ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا آیۃ المنافق ثلاث اذا احدث کذب واذا وعداخلف واذا اُتمئن خان ۔ (ترجمہ) منافق تین باتوں سے پہچانا جاتا ہے ٭ جب بات کرے تو جھوٹ بولے ٭ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے ٭ جب امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ٭ (بخاری شریف کتاب الایمان باب علامت منافق حدیث نمبر 2682-2633 ) ، اسی مضمون کی ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں ․․ عبد ﷲ بن عمرو رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے چار خصلتیں ہیں جس کے اندر پائی جائیں وہ خالص منافق ہوگا (1) جب بولے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے (Promise) تو ا س کی خلاف ورزی کرے (3) جب معاہدہ کرے (Agreement)کرے تو توڑ دے (4)جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے ۔ ﷲ کے رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جو ظاہری طور پر اعلان نبوت کے پہلے بھی صادق الامین کے لقب سے مشہور تھے وعدہ کی اہمیت پر ارشاد فرماتے ہیں اَلْعِدَّۃُدَیْنٌ وعدہ ایک قسم کا قرض ہے جس طرح قرض ادا کرنا واجب ہے اسی طرح وعدہ پورا کرنا واجب ہے ۔


ایفائے عہد (وعدہ) پورا کرنے کی نیت پر نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں ایفائے عہد کے نیت کے باوجودوعدہ پورا نہ کر سکے تو یہ وعدہ خلافی نہیں ۔


نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں ایفائے عہد (وعدہ پورا کرنے) کی نیت ہو اور آدمی وعدہ وفا نہ کر سکے تو یہ خلف وعدہ نہیں ہے۔ہاں خلف وعدہ (وعدہ خلافی) یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور ایفائے عہد (وعدہ پورا نہ کرنے کی نیت نہ ہو (کنزالعمال جلد 3؍ صفحہ 200) صادق الوعد الامین محمد رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وعدہ وفا کرنا ملاحظہ فرمائیں ۔ صلح حدیبیہ میں کفار و مشرکین کی من مانی کے باوجود ﷲ کے رسول نے معاہدہ فرمایا صحابہ کو شرائط سن کر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ ابھی معاہدہ لکھا جا رہا تھا کہ کفار کے نمائند ے سہیل بن عمرو کا لڑکا ۔ ابو جندل رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جو ایمان لا چکے تھے انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تھا زنجیروں کو گھسیٹتے ہوئے میدان میں آگئے مسلمانوں نے بڑے پُر تپاک سے خوش آمدید کہا ان کا باپ سہیل بن عمرو ابھی وہیں موجود تھا اس نے ببول کی ٹہنی توڑ کر حضرت ابو جندل رضی ﷲ عنہ کے منھ میں مارنے لگا چہرہ لہو لہان ہوگیا اور سہیل بن عمرو نے کہا اے محمد صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ پہلا آدمی ہے اس کی واپسی کا مطالبہ میں آپ سے کرتا ہوں نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ابھی معاہدہ لکھا جا رہا ہے ۔ ابھی دستخط نہیں ہوئے ہیں معاہدہ اس وقت واجب العمل ہوتا ہے جب فریقین کے دستخط ہو جاتے ہیں اس ظالم نے کہا اگر آپ میریلڑکے کو واپس نہیں کریں گے تو سارے معاہدے کلعدم قرار دیں گے حضور رحمت عالم نے فرمایا اے سہیل اسے (ابو جندل) کو میرے لئے چھوڑ دو لیکن اس نے حضور کی بھی پرواہ نہیں کی اور ضد کرنے لگا ۔ ابو جندل رضی ﷲ عنہ جان رہے تھے کہ ہم کو اپنے پاس لے جائیں گے تو یہ اور زیادہ ظلم کریں گے آپ رونے لگے نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابو جندل رضی ﷲ عنہ کو بلایا اور فرمایا ابو جندل صبر کرو اور ﷲ سے اس کے اجر کی امید رکھو یقینا ﷲ تمہارے لئے اور تمہارے کمزور ساتھیوں کے لئے نجات کا راستہ بنانے ہی والا ہے ہم نے قوم کے ساتھ صلح کی ہے اور ان کے ساتھ عہد و پیمان کیا ہے اب ہم عہد شکنی نہیں کریں گے سُبحان ﷲ سُبحان ﷲ اس چیز نے صحابہ کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا لیکن ادب سے کسی نے کچھ بھی نہیں کہا ۔ (ضیاء النبی پیر کرم شاہ ازہری رحمۃ ﷲ علیہ جلد 4؍ صفحہ 153؍سیرت خاتم النبین جلد 2؍ صفحہ 852)


وعدہ کی پاسداری


حضرت حذیفہ بن یمان رضی ﷲ عنہ مشہور صحابی ہیں یہ جب ایمان لاچکے تھے نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میں بے چین تھے مکہ سے مدینہ آرہے تھے نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھنے راستے میں ابو جہل اور اس کے لشکر سے ملاقات ہوگئی تو پکڑلیا چونکہ اسلام و کفر کی سب سے پہلی جنگ بدر کی تیاری کرکے لشکر لیکر ابو جہل مدینے کی جانب آرہا تھا ۔ پوچھا کہاں جا رہے ہو تو آپ نے کہا نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا روئے زیبا دیکھنے وہ نہ مانا کہا تم جنگ میں جارہے ہو انہوں نے کہا نہیں ہم وعدہ کرتے ہیں جنگ میں حصہ نہیں لیں گے حضور کی زیارت کریں گے ابو جہل نے وعدہ کرواکر چھوڑ دیا آپ مدینہ آئے جنگ کی تیاریاں شباب پر تھیں حذیفہ رضی ﷲ عنہ نے نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے واقعہ بتا دیا نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنگ بدر میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی ۔ فرمایا تم وعدہ کرکے آئے ہو اور اسی شرط پر ابو جہل نے رہا کیا ہے لہٰذا اس پہلی جنگ میں میں تمہیں اجازت نہیں دیتا وعدہ کی پاسداری کرو اسلام میں اس کی سخت تاکید ہے ۔ (الاصابۃ جلد 1؍ صفحہ 316) اور اس اعلیٰ وصف (وعدہ پر) عامل کے لئے جنت کی اعلی قسم جنت فردوس کی خوشخبری ہے عہد کو پورا کرنا مومن کا وصف ہے ۔


ارشادباری ہے سورہ مومنون آیت نمبر 8-11(ترجمہ) اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد (وعدہ) کی رعایت کرتے ہیں اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس (جنت) کی میراث پائیں گے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔


عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول و قرار کو سمجھتے ہیں اسلام میں اس کے معنی بہت وسیع ہیں یہ حقوق ﷲ ،حقوق العباد،معاشرت،تجارت،اخلاق ومعاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط (گھیرے ہوئے) ہے جس کی پابندی انسان پر عقلاً ،شرعاً ،اخلاقاً فرض ہے امام قرطبی الجامع الاحکام القرآن جلد 12؍ صفحہ 107میں فرماتے ہیں امانت و عہد دینی و دنیاوی معاملے پر حاوی ہے چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اور جس کا پابند اور متحمل ہو علامہ الوسی بغدادی رحمۃ ﷲ علیہ (تفسیر روح المعانی جلد 18؍صفحہ 11) میں فرماتے ہیں یہ آیت مبارکہ اکثر مفسرین کے نزدیک ہر قول و قرار کے لئے عام ہے چاہے وہ ﷲ اور بندے کے مابین ہو یا دو انسانوں کے درمیان ہو ۔


وعدہ نبہانہ ﷲ کا محبوب بن جانا ہے جس شخص سے معاہدہ (Agreement) ہے چاہے وہ کافر مشرک ہی کیوں نہ ہو اگر وہ وعدہ خلافی نہ کرے تو اس کے لئے وعدہ کی پابندی و استواری اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا نا گزیر ہے اور یہی تقوے کا تقاضا ہے ۔ مولائے رحیم فرما رہا ہے سورہ توبہ آیت نمبر 7؍ (ترجمہ) ان مشرکین کے لئے ﷲ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہدآخر کیسے ہو سکتا ہے بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ۔تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیوں کہ ﷲ متقیوں کو پسند فرماتا ہے ایک جگہ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ آل عمران آیت نمبر 76؍ (ترجمہ) جو بھی اپنے عہد(وعدہ) کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ ﷲ کا محبوب بنے گا کیوں کہ پرہیز گار لوگ ﷲ کو پسند ہیں ۔


محترم قارئینِ کرام : مندرجہ بالا آیتوں و احادیثِ مبارکہ اور تفاسیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد کا ایفا یعنی وعدہ پورا کرنا ﷲ کی خوشی و مسرت اور محبت و رضامندی کا سبب ہے ﷲ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندے کے لئے عظیم انعام و اعزاز ہے اس سے بڑھ کر کوئی اکرام نہیں ۔ ﷲ ہم تمام اہل ایمان کو عہد (وعدہ) کی اہمیت سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ۔ 


تبلیغِ دین کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیئے


دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں کے اس دور میں فتنوں کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے اور دینی تعلیم عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔ دین کی نشر و اشاعت کےلیے دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی اشد ضرورت ہے : آئیے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور مستحق بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحب حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی ولد ملک غلام سرور اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 24 October 2021

قرآن و حدیث اور منافقین کی پہچان

0 comments

 قرآن و حدیث اور منافقین کی پہچان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : قرآن کریم کی معروف اصطلا حات میں سے ایک اصطلاح منافق بھی ہے۔ اسلامی سو سائٹی میں جو عناصر بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن باطن میں وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں ، ایسے افراد کو منافق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ’’ دوست نما دشمن‘‘ کا کردار کرتے ہیں ۔

سورۃ العنکبوت کے شروع ہی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ترجمہ : اور اللہ کو تو ضرور دیکھنا ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون ۔ (سورہ العنکبوت: ۱۱)

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک حدیث میں منافق کی پہچان کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے : چار باتیں جس میں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں منافق کی ایک نشا نی رہے گی ۔ یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جب امانتدار بنا یا جائے تو خیانت کرے ، جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب معاہدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ، جب جھگڑا کرے تو گالی دے ۔ (صحیح البخاری باب علامۃ المنافق)


بد قسمتی سے ہمارے نام نہاد مسلم معاشرہ میں یہ رزائل بہت تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ اس منا فقانہ طرز عمل کو چالاکی اور ہوشیاری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے ۔


امانت میں خیانت


اس حدیث مبارک میں منافق کی پہلی خصلت امانت میں خیانت بتا ئی گئی ہے ۔ امانت کی پاسداری دراصل مومن کی پہچان ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مومن کے اندر ہر عادت ہو سکتی ہے جھوٹ اور خیانت کے سوا ۔ (رواہ احمد عن ابی امامہ ورواہ البزار)


امانت میں خیانت کی درج ذیل شکلیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ، اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن ہے : ⬇


۱۔ امانت میں خیانت یعنی کم مال واپس کرنا، اچھے مال سے خراب مال بدل لینا۔

۲ ۔ اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی بھی امانت میں خیانت ہے۔

۳۔ ناپ تول میں کمی کرنا بھی امانت میں خیانت ہے۔

۴۔ راز بھی امانت ہے، اس کی حفاظت نہ کرنا خیانت ہے۔

۵۔ وقت کا ضیاع، کام چوری اور غیر متعلق امور سے دلچسپی بھی خیانت ہے۔

۶۔ رشوت لے کر کام کرنا اور ناحق فائدہ پہنچانا بھی خیانت ہے۔

کذب بیانی

منافق کی دوسری خصلت کذب بیانی کہی گئی ہے، اس کی درج ذیل مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں:

۱۔ اللہ کے معاملے میں جھوٹ بولنا یعنی حلال کو حرام اور حرام کو حلال بتا نا۔

۔ اللہ کے رسول کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا،

۳۔ جھوٹی خبریں، اور جھوٹے واقعات بیان کرنا، سنسنی خیز صحافت بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔

۴۔ جھوٹی قسمیں، جھوٹے وعدے، جھوٹے مقدمات قائم کرنا۔ جھوٹی گواہی دینے والے کے تعلق سے ارشاد خدا وندی ہے:’’ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو حقیر قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصّہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا‘‘۔( آل عمران: ۷۷)

اس معاملے کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نا فرمانی کرنا، سنو! جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔ آپ بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ راوی نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے۔‘‘ (بخاری، مسلم، ترمذی)

جھوٹی قسم کھاکر تجارت کو فروغ دینا، غلط طریقے سے سامان بیچنا ،اور خریدار کو فریب دینا بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے، اس ضمن میں نبیؐ کا ارشاد ہے:’’ تین ایسے آدمی ہیں جن کی طرف روز قیامت اللہ تعالی نہ دیکھے گا، نہ ان کا تزکیہ کرے گا، اس روز ان کو درد ناک عذاب ہوگا(۱) تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا (متکبر)، (۲) احسان جتانے والا، (۳) جھوٹی قسم کھاکر اپنی تجارت کو فروغ دینے والا۔

۵۔ ایک اور انتہائی درجہ بد اخلاقی کی جیتی جاگتی تصویر جس میں نوجوان طبقہ خاص طور سے ملوث ہے، بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر بد چلنی کا الزام لگانا، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: ’’بے شک جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہوگی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (النور: ۳۳)

اسلامی معاشرہ کی اصل روح تو یہ ہے کہ دوسروں کے واقعی عیبوں پر بھی پردہ ڈالا جائے اور کسی بھی مومن یا مومنہ کی سرِ بازار پگڑی نہ اچھالی جائے۔ ورنہ نفرت، بغض وکینہ وغیرہ سے معاشرہ کا پاک رہ جانا بڑا ہی مشکل ہو گا ۔ اگر اتفاقاً کسی کی کوئی غلط حرکت سامنے آبھی جائے تو خلوت میں حکمت کے ساتھ اسے سمجھانا ہی افضل ہے ۔


بد عہدی یا معا ہدہ شکنی


منافق کی تیسری خصلت بد عہدی یا معا ہدہ شکنی ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور عہد کو پورا کر و کیونکہ عہد کی پرسش ہونی ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل)

’’ اس عہد میں ہر قسم کا عہد شامل ہے خواہ وہ کسی معا ہدے کی صورت میں وجود میں آئے، لیکن عادتاً اور عرفاََاُن کو عہد ہی سمجھا اور مانا جاتا ہو، جس نوعیت کا بھی عہد ہو، اگر وہ خلاف شریعت نہیں ہے تو اس کو پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔ عہد کی دو قسمیں ہیں:

الف) اللہ اور بندے کے درمیان یعنی ہر شخص کا اللہ سے یہ عہد کہ وہ سچا پکا مومن ہوگا اور جملہ معاملات میں شریعت الہی کی اتباع کرے گا۔ یہی بات سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں بھی کہی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘۔( سورۃ المائدۃ، آیت:۱)

’’ یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورہ میں تم پر عائد کی جارہی ہیں اور جو بالعموم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں ‘‘

عہد کی دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے درمیان ہے، اس کی مثال ہے کام چوری کرنا، دھوکہ دینا، وعدہ پورا نہ کرنا، وغیرہ

بد زبانی و بد کلامی

منا فق کی چوتھی خصلت بد زبانی اور بد کلامی ہے، یعنی وہ مخاصمت کے وقت آپے سے باہر ہو جاتا ہے، نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگ جہنم میں اپنی بد زبانی کے سبب جائیں گے‘‘(ترمذی) جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں اہل ایمان کوئی لا یعنی اور لغو یات نہیں سنیں گے، جیسا سورۃ الواقعۃ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی‘‘۔ (سورۃ الواقعۃ: ۲۵۔۲۶)

سطور بالاکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور سے ہی سہی منافقت کے مہلک مرض میں مبتلا تو نہیں ہو رہے ہیں ؟


عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کےلیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں


محترم قارئینِ کرام : بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم مسٹر عمران خان نیازی آئے دن کوئی نہ کوئی اول فول بکتے رہتا ہے حال ہی میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف لفظ ذلیل کی نسبت کر کے اس شخص نے پھر اپنی ذلت و رسوائی کو دعوت دی ہے اور غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر  مظالم کی انتہا کردی ہے اس شخص نٕ ۔ یاد رہے جس نے بھی ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کیا ذلتیں اُس کا مقدر بنیں یہی الفاظ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے نواز شریف صاحب کےلیے لکھے تھے آج اُس کا حال دیکھ لیں اب فقیر کہتا ہے عمران خان نیازی کا انجام اُس سے بھی بُرا ہوگا ان شاء اللہ ۔


محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ-وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠ ۔ (سورہ منافقون آیت نمبر 8)

ترجمہ : کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اُسے جو نہایت ذلت والا ہے اور عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں ۔


یَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں ۔ یعنی منافق کہتے ہیں : اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا ۔ منافقوں نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا ، اللّٰہ تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ، اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے چند ہی روز بعد عبد اللّٰہ بن اُبی منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا ۔ (تفسیر خازن المنافقون : ۸، ۴/۲۷۴)


عبد اللّٰہ بن اُبی منافق کے بیٹے کا عشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)


عبد اللّٰہ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ تھا اور یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشقِ رسول تھے ، جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے کہنے لگے اس وقت تک مدینہ میں داخل ہونے نہیں دوں گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے والے تھے مگر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں باپ کی کوئی عزت و محبت دل میں نہ رہی ۔ آخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ واللّٰہ میں ذلیل ہوں اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ، اس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔( سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،غزوۃ بنی المصطلق ،۲/۳۹۳،چشتی)(مدارج النبوۃ، قسم سوم، باب پنجم، ۲/۱۵۷)


اس آیت سے معلوم ہوا


(1) ہر مومن عزت والا ہے کسی مسلم قوم کو ذلیل جاننا یا اسے کمین کہنا حرام ہے۔


(2) مومن کی عزت ایمان اور نیک اعمال سے ہے ، روپیہ پیسہ سے نہیں ۔


(3) مومن کی عزت دائمی ہے فانی نہیں اسی لئے مومن کی لاش اور قبر کی بھی عزت کی جاتی ہے ۔


(4) جو مومن کو ذلیل سمجھے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ہے ، غریب مسکین مومن عزت والا ہے جبکہ مالدار کافر بد تر ہے ۔


اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ (سورہ حضرات آیت نمبر 13)

ترجمہ : اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔


اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ : بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔


آیت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت و فضیلت کا سبب ہے اور جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں جاننے والا اور تمہارے باطن سے خبردار ہے ۔


شانِ نزول : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ، وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک حبشی غلام یہ کہہ رہا تھا : جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے ۔ اس غلام کو ایک شخص نے خرید لیا ، پھر وہ غلام بیمار ہوگیا تو نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے ، پھر اس کی وفات ہوگئی اور رنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی تدفین میں تشریف لائے ، اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۴۲۸،چشتی)


عزت اور فضیلت کا مدار پرہیزگاری ہے


اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو ۔


حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : فتحِ مکہ کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلِیَّت کا غرور اور ایک دوسرے پر خاندانی فخر دور کر دیا ہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں (1) نیک اور متقی شخص جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز ہے ۔ (2) گناہگار اور بد بخت آدمی ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔ تمام لوگ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘ ۔

ترجمہ : اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو ، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات، ۵/۱۷۹، الحدیث: ۳۲۸۱)


حضرت عداء بن خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں حجۃ الوداع کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کے منبر ِاقدس کے نیچے بیٹھا ہوا تھا ، آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی ، پھر فرمایا ’’ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى ۔

ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘‘ ۔

ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔

تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ،کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے بلکہ فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے (تو جو مُتَّقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے) ۔ (معجم الکبیر، عداء بن خالد بن ہوذہ العامری، ۱۸/۱۲، الحدیث: ۱۶،چشتی)


حضر ت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں کواللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اس حال میں کہ وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی ، تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : ’’اے میرے بندو ! میں نے تمہیں حکم دیا اور تم نے میرے حکم کو ضائع کردیا اورتم نے اپنے نسبوں کو بلند کیا اور انہی کے سبب ایک دوسرے پر فخر کرتے رہے ، آج کے دن میں تمہارے نسبوں کو حقیر و ذلیل قراردے رہاہوں ، میں ہی غالب حکمران ہوں ، کہاں ہیں مُتَّقی لوگ ؟ کہاں ہیں متقی لوگ ؟ بیشک اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ علیّ، حرف الالف من آباء العلیین، ۶۱۷۲-علیّ بن ابراہیم العمری القزوینی، ۱۱/۳۳۷)


مسلمانوں کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو :


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے ، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت ﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932،چشتی)(طبراني، مسند الشاميين، 2: 396، رقم: 1568)(منذري، الترغيب والترهيب، 3: 201، رقم: 3679)


حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یصف اھل النار فیمُرُبِھِم ُ الرجل من اھل الجنۃ فیقول الرجل منھم یا فلان! اما تعرفنی اناالذی سقیتک شربَۃً و قال بعضھم اناالّذی وھبتُ لک وضوءً فیشفعہ لہ فید خلہ الجنۃ ۔ (ابن ماجہ:3685،مشکوٰۃ،494)

ترجمہ : گنہگار دوزخیوں کو دوزخ میں بھیجنے کیلئے علیحدہ کر دیا جائے گا وہ صفِ بستہ کھڑے ہوں گے کہ ایک جنتی بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے قریب سے گزرے گاتو دوزخی اپنے اس نیک صالح انسان کو پہچان لیں گے کوئی کہے گا آپ مجھے نہیں پہچانتے فلاں موقع پر میں نے آپ کو پانی پلایا تھا کوئی کہے گا میں نے آپ کو وضو کیلئے پانی لا کر دیا تھا اتنے سے تعارف اور معمولی سی خدمت پر ہی وہ نیک انسان ان کی شفاعت کرے گا جو قبول کی جائے گی اور وہ انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گا ۔


دینی نشر و اشاعت کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیئے


دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں کے اس دور میں فتنوں کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے اور دینی تعلیم عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔ دین کی نشر و اشاعت کےلیے دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی اشد ضرورت ہے : آئیے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور مستحق بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحب حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی ولد ملک غلام سرور اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 23 October 2021

اسلام اور خدمت خلق

0 comments

اسلام اور خدمت خلق

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : کچھ عرصہ قبل جمعۃ المبارک کے خطبات فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے خدمت خلق کے موضوع پر دیے تھے یہ بہت اہم موضوع ہے فقیر نے سوچا ان کا کچھ خلاصہ آپ احباب کی خدمت میں دوبارہ پیش کیا جائے شاید اسے پڑھ کر ہماری سوچیں بدلیں اور خدمت خلق کا جذبہ بیدار ہو اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ دین اسلام ، قرآن مجید اورر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات و سیرت نے سکھایا ہے کہ سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اور تکلیف نہ دے ، غریبوں ، مساکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھر سکے ، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج وغم سے پاک کرنے کو کوشش کریں ، چند لمحوں کے لئے ہی صحیح انہیں فرحت و مسرت اور شادمانی فراہم کر کے ان کے درد والم اورحزن و ملال کو ہلکا کرے ، انہیں اگر مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ کچھ نہ کر سکتا ہو تو کم از کم ان کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے ۔


مخلوق خدا کی خدمت کرنا ، ان کے کام آنا ، ان کے مصائب و آلام کو دور کرنا ، ان کے دکھ درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمخواری اور شفقت کرنے پر شریعت نے کتنا زور دیا ہے ۔ یہ خدمت خلق اور شفقت علی الخلق کتنی بڑی نیکی اور کتنی بڑی عبادت ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا کیا مقام ہے ۔ یہ ایک مستقل لمبا چوڑا موضوع ہے ، جس کی یہاں قطعاً گنجائش نہیں ۔ تاہم اتنی بات عرض کر دینا ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت الٰہی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ۔ (سورۂ الزاریات 56)

ترجمہ : اور میں نے جنات اور انسانوں کو پیدا ہی اس غرض سے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔


مفسرین کرام علیہم الرّحمہ نے لکھا ہے کہ : عبادت سے یہاں مراد فقہ کتاب العبادات والی عبادت پنج گانہ مراد نہیں بلکہ اپنے وسیع و عام مفہوم میں طلب رضا الٰہی کے مترادف مراد ہے ۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں ۔ ایک امر الٰہی کی تعظیم دوسری خلق خدا پر شفقت ۔ دوسرے لفظوں میں حقوق ﷲ اور حقوق العباد کی ادائیگی ۔ تفسیر کبیر میں ہے : ماالعبادہ التی الجن والانس لھا قلنا التعظیم لامرﷲ والشفقہ علی خلق ﷲ فان ہذین النوعین لم یخل شرع منہما ۔

ترجمہ : وہ عبادت کیا ہے جس کے لئے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا گیا تو ہم کہیں گے کہ یہ امر الٰہی کی تعظیم اور خلق خدا پر شفقت کا نام ہے۔ کیونکہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن سے کوئی شریعت خالی نہیں رہی ۔


عبادت کے مفہوم میں وسعت کا اندازہ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ سورہ البقرہ میں ارشاد ہے : نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرلو بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص ﷲ ، قیامت کے دن ، فرشتوں ، (آسمانی) کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اس کی محبت میں مال صرف کرے، قرابت داروں، مسکینوں، راہ گیروں اور سائلوں پر اور گردنوں کے آزاد کرادینے میں ۔ (سورہ البقرہ 177)


خدمت خلق ایک جا مع لفظ ہے ، یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ خلق مخلوق کے معنی میں ہے اور اس کا روئے زمین پر رہنے والے ہر جاندار پر اطلا ق ہوتا ہے اور ان سب کی حتی الامکان خدمت کرنا ، ان کا خیال رکھنا ہمارا مذہبی واخلاقی فرض ہے، ان کے ساتھ بہتر سلو ک وبر تاؤکی ہدایت اللہ رب العزت نے بھی دی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں تاکید کرتی ہیں ۔ دین میں خدمت خلق کے مقام کو سمجھنے سے اس کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنا آسان ہوجائے گا ۔


قرآن مجید میں جگہ جگہ ایمان لانے والوں کی جن اہم صفا ت کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ، یتیموں کی دیکھ بھا ل کرنا ، مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی شامل ہے ۔ اور ان صفات کی نہ صرف ترغیب دی گئی ہے ، بلکہ ان صفات کو نہ اپنانے پر بھڑکتی آگ کی وعید سنائی گئی ہے ۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی خدمت میں گذاری ، آپ کی دعوت میں مخلوقات کی خدمت پر بہت زور ملتا ہے ۔ قربان جائیے اس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات پر ، جس نے عا لم انسانیت کی خدمت میں اپنی سا ری زندگی گزار دی اور ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔


خدمت خلق کا مفہوم


خد مت خلق کے لغوی معنی  مخلوق کی خدمت کرنا ہے اور اصطلاحِ اسلام میں خدمت خلق کا مفہوم یہ ہے : رضا ئے حق حاصل کر نے کےلیے تمام مخلوق خصوصاً انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد دینا ہے ۔


لوگوں کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بڑی عزت واحترام پاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا حقدار بن جاتا ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا شیخ سعدی علیہ الرحمة کے اس مصرع کے مصداق بن جاتا ہے : ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد ۔ یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے (ایک وقت ایسا آتا ہے کہ) لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔


اسلام میں ایک بہترین انسان کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے ، ان میں سے ایک صفت خدمت خلق کی ہے اور ایسی صفت رکھنے والے کو اچھا انسان قرار دیا گیا ہے ۔ خدمت خلق میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے ۔


خدمت خلق اور قرآنی حکم


خدمت خلق میں صرف مالی امداد و اعانت ہی شامل نہیں بلکہ کسی کی رہنمائی کرنا ، کسی کی کفالت کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ، کوئی ہنر سکھانا ، اچھا اور مفید مشورہ دینا ، کسی کی علمی سرپرستی کرنا ، مسجد اور مدرسہ قائم کرنا ، نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ یہ تمام امور خدمت خلق میں آتے ہیں ۔ چنانچہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :  وَتَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الاِثمِ وَالعُدوَانَ ۔ (سورةالمائدہ:آیت۲)

ترجمہ : اے ایمان والو! نیکی اور پر ہیزگاری (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون ومدد کرو اور گناہ اور برائی (کے کاموں) میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو ۔


اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ خیر و بھلائی اور اچھے کاموں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون وامداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گنا ہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے ۔


ایک حدیث شریف میں نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : خَیرُ النَّاسِ مَن یَّنفَعُ النَّاسَ ۔

ترجمہ : لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے ۔ (جامع ترمذی)


ایک اور مقام پر فرمایا : اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے ۔ (صحیح مسلم،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہترین انسان کے بارے میں فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسنِ سلوک کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہترین انسان بننے کا معیار یہ مقرر کیا ہے کہ اس کے وجود دوسروں کےلیے فائدہ مند اور نفع آور ہو ، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو اور ان کی خیرو بھلائی کےلیے ہر وقت کوشاں رہے ۔


خدمت خلق کےلیے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں


دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک سچے مسلمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ ایسے کام کرے ، جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔ مثلاً رفاعی ادارے بنانا، ہسپتال وشفاخانے بنانا، اسکول وکالجز بنانا، کنویں اور تالاب بنانا ، دارالامان بنانا وغیرہ، یہ ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوقِ خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے ہیں کہ جو صدقہ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں اور اس کا اجرو ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اوراس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ۔


خدمت خلق اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : رحمت کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو ، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا ۔ (صحیح مسلم،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے گھر کے سارے کام خود فرمایا کرتے تھے ۔ پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے اور اپنے نعلین کی خود مرمت فرما لیتے ۔ پالتو جانوروں کو خود کھولتے باندھتے اور انہیں چارا دیا کرتے الغرض کسی کام میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ طریقہ تھا کہ ضرورت مند لوگوں کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کر دیا کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے کام بھی آتے تھے ۔ ایک بوڑھی یہودیہ عورت کی خدمت کرنے کا واقعہ احادیث میں موجود ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے پڑوسیوں کی دیکھ بھال اور تیمارداری بھی فرماتے تھے ۔


ایک مرتبہ حبشہ سے نجاشی بادشاہ کے کچھ مہمان مدینہ منورہ آئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خواہش تھی کہ مہمانوں کی خدمت اور مہمان نوازی وہ کریں لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت اور خاطر مدارت کی اور فرمایا کہ ”ان لوگوں نے میرے ساتھیوں (مہاجرین حبشہ) کی خدمت کی ہے اس لیے میں خودان کی خدمت کروں گا ۔ (شعب الایمان،مسند امام احمد،چشتی)


حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : اصحابِ صفہ غریب لوگ تھے ۔ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : جس کے گھر دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ یہاں (اصحابِ صفہ میں) سے تیسرے آدمی کو لے جائے (یعنی ان کو کھانا کھلائے) اور جس کے گھر میں چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کو لے جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو گھر لائے اور خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے ساتھ دس آدمیوں کو لے کر گئے ۔ (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)


غلاموں کی آزادی اور رضائِے الہٰی


حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جس مسلمان کو کفار کے ہاتھ میں غلام یا قیدی کی حالت میں دیکھتے تو اُس کو خرید کر آزاد کردیتے تھے اور یہ لوگ عموماً کمزور اور ضعیف ہوتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا کہ : جب تم غلاموں کو خرید کر آزاد ہی کرتے ہو تو ایسے غلا موں کو خرید کر آزاد کرو جو طاقت وَر اوربہادر ہوں تاکہ وہ کل تمہارے دشمنوں کا مقابلہ اور تمہاری حفاظت کرسکیں - حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ : میرا مقصد اُن آزاد کردہ غلاموں سے کوئی فائدہ اٹھانا نہیں ہے ، بلکہ میں تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اُن کو آزاد کرتا ہوں ۔ (تاریخ الخلفا، تفسیر ضیاءالقرآن،تفسیر مظہری)


مال و دولت اگر صحیح مصرف ، صحیح مقام اور مناسب موقع پر خرچ ہو تو اُس کی قدر و منزلت غیر متنا ہی ہو جاتی ہے ۔ روٹی کا ایک ٹکڑاشدتِ گرسنگی (شدید بھوک) کی حالت میں خوانِ نعمت ہے، لیکن آسودگی کی حالت میں ”الوانِ نعمت“ بھی بے حقیقت شئے بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے اپنی جان و مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اعانت و مدد کی تھی ، ان کو قرآن مجید نے مخصوص عظمت و فضیلت کا مستحق قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : تم میں سے کوئی برابر ی نہیں کرسکتا ، اُن کی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے (راہِ الہٰی میں) مال خرچ کیا اور جہاد کیا ، اُن کا درجہ بہت بڑا ہے ، ان سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا ، اور سب کے ساتھ اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بہ خوبی خبردار ہے ۔ (سورة الحدید)


صدیق کےلیے خدا کا رسول کافی ہے


ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال طلب کیا تو شاہراہِ عشق و محبت کے سالکین دوڑ پڑے ۔ کوئی اپنا چو تھائی مال لے کر آیا ، تو کوئی اپنی آدھی متاع لے کر آیا اور آسمانِ محبت کے نیر اعظم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا گھر کا گھر اٹھا لائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : اے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟

کاروانِ عشق کے سالارِ اعلیٰ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑا ہی پیارا اور دل رُبا جواب دیا ، جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے مرقوم ہے- عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے گھر والوں کےلیے بس اللہ عز و جل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (کی رضا) کو چھوڑ آیا ہوں ۔ (تاریخ الخلفاء) اس جذبہ مقدس کو شاعرمشرق علامہ محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں : ⬇


پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس

صدیق کےلیے ہے خدا کا رسول بس


خدمت خلق اور اسوہ فاروقی


امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و دبدبہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض آپ کے نام سے ہی قیصر و کسریٰ ایسی عظیم الشان سلطنت کے ایوان حکومت و اقتدار میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا اور دوسری طرف خدمت خلق کا یہ عالم ہے کہ کندھے پر مشکیزہ رکھ کر بیوہ عورتوں کےلیے آپ پانی بھرتے ہیں ۔ مجاہدین اسلام کے اہل و عیال کا بازار سے سودا سلف خرید کر لادیتے ہیں اور پھر اسی حالت میں تھک کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کسی گوشہ میں فرشِ خاک پر لیٹ کر آرام فرماتے ہیں ۔


ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ کام کسی غلام سے لے لیا ہوتا، آپ کیوں اتنی محنت ومشقت کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر اور کون غلام ہو سکتا ہے ، جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ در حقیقت ان کا غلام بھی ہے ۔(سیر الصحابہ/ کنزالعما ل،چشتی)


حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ (متوفی 561 ھ / 1166 ء) فرماتے ہیں کہ : اگر مجھے دنیا کے تمام خزانوں کا مال اور دولت مل جائے تو میں آن کی آن میں سب مال و دولت فقیروں ، مسکینوں اور حاجت مندوں میں بانٹ دوں ۔اور فرمایا کہ امیروں اور دولت مندوں کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش تو ہر شخص کرتا ہے لیکن حقیقی مسرت اور سعادت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں کی ہم نشینی کی آرزو رہتی ہے ۔ (الفتح الربانی و غنیہ)


حضو ر دا تا گنج بخش سید علی ہجویری رحمة اللہ علیہ (متوفی 465ھ/1074) اپنی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ : ایک مرتبہ میں عراق میں دنیا کو حاصل کرنے اور اسے (حاجت مندوں میں) لٹا دینے میں پوری طرح مشغول تھا ، جس کی وجہ سے میں بہت قرض دار ہو گیا جس کسی کو بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی ، وہ میری طرف ہی رجوع کرتا اور میں اس فکر میں رہتا کہ سب کی آرزو کیسے پوری کروں ۔ اندریں حالات ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھا کہ اے عظیم فرزند  اگر ممکن ہو تو دوسروں کی حاجت ضرور پوری کیا کرو مگر سب کےلیے اپنا دل پریشان بھی نہیں کیا کرو کیوں کہ اللہ رب العٰلمین ہی حقیقی حاجت رواہے اوروہ اپنے بندوں کےلیے خود ہی کافی ہے ۔


شہباز طریقت حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمة اللہ علیہ نے جب تونسہ شریف میں مستقل سکونت فرمائی ، تو اس وقت حالت یہ تھی کہ رہنے کے لئے کوئی مکان نہ تھا ، فقط ایک جھونپڑی تھی ، جس میں آپ فقروفاقہ سے شغل فرماتے تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد جب بڑے بڑے امرا ، وزرا ، نواب اور جاگیر دار آپ کی قدم بوسی کےلیے حاضر ہونے لگے تو کچھ فتوح (نذرانوں) کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور دنیا کی ہر نعمت آپ کے قدموں میں آتی گئی ، لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود استغناء اور مخلو قِ خدا کی خدمت کا یہ جذبہ تھا کہ آپ کے قائم کردہ آستانہ عالیہ سلیمانیہ میں ہزاروں طلبہ ، درویش ، مہمان اور مسافر ہر روز لنگر سے کھانا کھاتے تھے ۔ کھانے کے علاوہ بھی ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہوتی تھی اور بیماری کی حالت میں ادویات بھی لنگر سے بلامعاوضہ ملتی تھیں ۔ ایک مرتبہ لنگر خانے کے ایک باورچی نے عرض کی کہ : حضور اس مہینہ میں پانچ سو روپیہ صرف درویشوں کی دوائی پر خرچ ہوگیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ : اگر پانچ ہزار روپے بھی خرچ ہوجائیں تو مجھے اطلاع نہ دی جائے ، درویشوں اور طالب علموں کی جان کے مقابلہ میں روپے پیسے کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ (بحوالہ تذکرہ خواجگانِ تونسوی ، نافع السالکین،چشتی)


انسانی زندگی پر خدمت خلق کے ثمرات


اللہ کے انعام یافتہ بندے : ﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہمیں اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز خرچ کرنی چاہئے کہ اس سے ﷲ کی رضا اور خیرو بھلائی حاصل ہوتی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ : لَن تَنَالُوا البِرَّحَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّاتُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَےیٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیم ۔

ترجمہ : جب تک تم ﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز خرچ نہیں کرو گے تو خیروبھلائی (تقویٰ و پرہیز گاری) تم کو ہر گز نہیں پہنچ سکتے اور تم جو کچھ بھی (ﷲ کی راہ میں) خرچ کرو گے ، ﷲ اس کو جاننے والا ہے ۔(سورة آل عمران: آیت ۲۹)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرما یا کہ : ﷲ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ ﷲ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے ، ﷲ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوںسے نواز تا رہے گا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محرو م کر دیں گے تو ﷲ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فرما لیتا ہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطاء فر ما دیتا ہے ۔ (مشکوٰة شریف)


حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینے میں بڑے مال دار صحابی تھے اور انہیں اپنے اموال میں سے اپنا باغ ”بیرحائی“ بہت ہی پیارا اور محبوب تھا اور جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! مجھے اپنے تمام اموال میں باغ بیر حا سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس کو ﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ انہوں نے اپنا وہ باغ ﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردیا ۔ (صحیح بخاری / صحیح مسلم)


قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کو تقویٰ وپرہیز گاری کا سبب بتا یا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَاَمَّا مَن اَعطٰی وَاتَّقٰی ۔ وَصَدَّقَ بِالحُسنٰی ۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلیُسرٰی ۔

ترجمہ : پھر جس نے (راہِ خدامیں اپنا) مال دیا اور (اس سے) ڈرتا رہا اور (جس نے) اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم آسان کر دیں گے اس کے لئے آسان راہ ۔ (سورة اللیل : آیت ۷۔۵)


ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے”اتقٰی“ سے پہلے ”اعطٰی“ ذکر فرمایا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مال خرچ کرنا جہاں تقویٰ و پرہیزگاری کا سبب ہے اور اس سے خیر و بھلائی اور نیکیوں کے راستے کھل جاتے ہیں اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سخاوت کے بغیر تمام اعمال ادھورے رہ جاتے ہیں ، گویا سخاوت تمام اعمال خیر کو درجہ کمال تک پہنچانے کا سبب بھی ہے ۔


ہمدردی اور احترامِ انسانیت جس کا ہمارا دین مطالبہ کرتا ہے ، وہ ایک معاشرتی اصلاح کا کامیاب نسخہ ہے، جس کی بدولت معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک اسلامی وفلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور امن وسکون کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ : ⬇


افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ


خدمت خلق ، وقت کی اہم ضرورت


رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انسانوں کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تاکیدو تلقین فرمائی ۔ مظلوموں اور حاجت مندوں کی فریا درسی کی تاکید فرمائی ۔ یتیموں ، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سر پرستی کا حکم فرما یا ہے ۔


خدمت خلق وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی ہے ۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے ۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا ﷲ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے ۔ کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا ﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے ۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی ہے ۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے ۔دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے ، اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، کامل انسان تو وہ ہے ، جو ﷲ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لئے جیتا ہو ۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں : ⬇


ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے


عیسائی مشنریوں اور صوفیاءکرام علیہم الرّحمہ کی خدمت خلق میں فرق


آج دنیا بھر میں عیسائی مشنریاں صرف ایک نعرہ خدمت Service of Humanity کو لے کر دوسرے مذاہب کو شرمندہ کررہی ہیں ۔ ان کے پاس بڑے مالی وسائل ہیں ۔ جنگ کے میدان میں زخمیوں کی خدمت ، اسپتال قائم کرکے مریضوں کا علاج ، قحط زدہ علاقوں میں خوراک سے بھوکوں کی امداد، تعلیمی اداروں وغیرہ کا قیام ۔ ان کی سرگرمیاں مختلف نوعیت کی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ بائبل کے مواعظ بھی سناتی ہیں ، عیسائیت کا لٹریچر مفت تقسیم کرتی ہیں ، تبدیل مذاہب کا لالچ دیتی ہیں اور ان کا مذہب قبول کرنے والوں کو بہت سی رعایتیں بھی حاصل ہوجاتی ہیں۔ پسماندہ اور جاہل استحصال کے شکار علاقوں میں انہیں خاصی کامیابی ہوتی ہے ۔


چشتی صوفیاءکرام علیہم الرّحمہ بھی اسلام کے مبلغ تھے ۔ مگر کیا ان کے پاس اتنے عظیم فنڈز تھے ؟ کیا ان کی تحریک اتنی منظم تھی ؟ کیا وہ پروپیگنڈے کے فن سے کام لیتے تھے ؟ بے سروسامانی اور فقر محض کے باوجود ان کی خانقاہوں میں دن رات لنگر جاری تھا ۔ فتوح میں نقد آیا تقسیم ہوگیا ۔ نذرانے میں اشرفیاں آئیں لٹ گئیں ، ہدیہ میں کپڑا آیا ، بانٹ دیا گیا ۔ دنیا کی کوئی جماعت یا ادارہ یا مشنری یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ انہوں نے ان مشائخ علیہم الرّحمہ سے زیادہ دلسوزی سے مجروح انسانیت کی خدمت کی ہوگی ۔


خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کا حال ان کے خلیفہ خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان کیا ہے : از پگاہ تا شام خلق بیامدے۔ نماز حفتن ہم خلق بسیدے۔ ام خواہندہ بیش ازاں بود کہ آرندہ وہرکہ چیزے بیاوردے چیزے یافتے ۔

ترجمہ :  صبح سے شام تک خلق خدا آتی رہتی ، عشاء کی نماز کے وقت بھی یہ سلسلہ جاری رہتا تھا مگر مانگنے والوں کی تعداد نذر دینے والوں سے زیادہ ہی ہوتی تھی۔ جو کوئی چیز نذر لاتا تھا ، وہ کچھ نہ کچھ عطیہ پاتا تھا ۔ (خیر المجالس صفحہ نمبر 257،چشتی)


حضرت بابا فرید الدین شکر رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے دروازے بھی نصف شب تک کھلے رہتے تھے اور ’’ہیچ کس خدمت ایشاں نیامدے کہ اور اچیزے نصیب نہ کردے‘‘ ۔ (فوائد الفواد 125)


اور فرماتے تھے کہ : ہر برمن می آید چیزے می آرو۔ اگر مسکینے بیاید وچیزے نیا رد ہر آئینہ رما چیزے بدوباید داد‘‘ ۔ (فوائد الفواد 336)


دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک اچھے مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہوں ۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی درجات حاصل کرلیتا ہے ۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم ، خوش اخلاقی ، غمخواری و غمگساری خیرو بھلائی ، ہمدردی ، عفو و درگزر، حسن سلوک ، امداد و اعانت اور خدمت خلق ! ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات (Qualities) ہیں کہ جن کی بہ دولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے ۔

آیئے اسی مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیے : ⬇


دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں ، مصاٸب و مشکلات کے اس دور میں فتنوں ، مصاٸب و مشکلات کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے اور غربا فقرا و مستحقین کی مدد میں ہمارا ساتھ دیں ۔ دین کی نشر و اشاعت کےلیے دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی اشد ضرورت ہے : آیئے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام مستحق بچوں ، بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحبِ حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⬇


فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ۔

موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)