میلاد کو بدعت کہنے والے بدعتیوں کی بدعتیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : علامہ احسان الٰہی ظہیر کی برسی ملک بھر میں احتجاجی اجتماعات منعقد ہونگے۔ اہل حدیث یوتھ فورس کے قائم مقام جنزل سیکرٹری یونس چوہدری نے کہا ہے کہ مارچ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ان کے رفقاءکی شہادت کا ایک سال گزر جانے پر ملک بھر میں احتجاجی جلسے اور اجتماعات منعقد کئے جائیں گے۔ 23۔مارچ سے 31۔مارچ تک ہفتہ ءتجدید عرس منایا جائے گا۔ (روزنامہ مرکز اسلام آباد ۹۲۔فروری ۸۸ء)
21۔ مارچ : روزنامہ مرکز کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق مختلف مقامات پر شہدائے اہلحدیث کانفرنس اور احسان کانفرنس کے انعقاد کے علاوہ 21۔مارچ کو بم کے دھماکہ کی مقررہ جگہ پر بالخصوص شہدائے اہلحدیث کانفرنس منعقد کی گئی اور اس سلسلہ میں دیگر اشتہارات کے علاوہ اہلحدیث یوتھ فورس لاہور کی طرف سے ایک سرخ رنگ کا باتصویر خونی اشتہار شائع کیا گیا جس میں بم کے دھماکہ میں ہلاک و زخمی ہونے والے اہلحدیث مولویوں اور لیڈروں کو فوٹو شائع کئے گئے اور 23۔مارچ کے اخبار جنگ، نوائے وقت وغیرہ میں اس کانفرنس کی رپورٹ شائع ہوئی۔
23۔ مارچ : کو بھی بالخصوص تاریخ، جگہ، دن اور ایک بجے دوپہر کے وقت و تعین کے ساتھ مرنے والوں کی یاد میں خاص اہتمام سے کانفرنس کی گئی اور اشتہارات میں قائد کے روحانی پئیو لاہور چلو کے الفاظ سے اس کانفرنس میں شرکت کی ترغیب دی گئی اور قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کی ان دونوں کانفرنسوں میں اہلحدیث نے بھر پور شرکت کی۔ (پریس رپورٹ)
یزدانی روڈ :مولوی حبیب الرحمان یزدانی روڈ (سادھو کے) کاسنگ بنیاد رکھنے کی تقریب زیر صدارت مولوی محمد عبداللہ وغیرہ منعقد ہوئی اورخطاب کیا گیا۔ (نوائے وقت لاہور۔ 26۔مارچ ۸۸ء)
خانہءخدا پر غیر اللہ کا نام :کوٹ قاضی علی پور چٹھہ روڈ گوجرانوالہ میں مسجد حبیب الرحمان یزدانی نام رکھا گیا۔ (پوسٹر جمعیت اہلحدیث 23۔مارچ فروری ۸۸ء)
پتھر پر دعاء : 29 مارچ ۸۸ءکے نوائے وقت اور 31۔ مارچ ۸۸ءکے جنگ اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس کے نیچے لکھا ہے کہ امیر جمعیت اہلحدیث مولوی محمد عبداللہ یزدانی روڈ کاسنگ بنیاد رکھنے کے بعد دعاءمانگ رہے ہیں۔ کیا کوئی غیر مقلد وضاحت کرے گا کہ : کسی روڈ پر غیر اللہ کا نام متعین کرکے ایسے اہتمام سے تقریب کا انعقاد، پھر پتھر نصب کرنے کے بعد اسے سامنے رکھ کر اس پر دعاءکرنا بدعت ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو اس کا کوئی ثبوت حدیث صحیح و صریح سے پیش کیا جائے۔
جلوس و مزار و فا تحہ 14 ۔ اگست 1988ء بروز جمعہ کا مونکی منڈی میں یوم آزادی کی بجائے یوم احتجاج منایا گیا ۔ بعد نما زجمعہ اہلحدیث کی مساجد سے لوگ جلوسوں کی شکل میں مرکزی جامع المسجد اہلحدیث پہنچے ۔ جہاں سے ایک بڑا جلوس مولوی حبیب الرحمان یزدانی کے مزار پر گیا ۔ اور وہاں فاتحہ خوانی کے بعد پرامن طور پر منتشر ہو گیا ۔ (روزنامہ جنگ لاہور۔ 12۔اگست، نوائے وقت 13۔اگست 1988ء)
قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے جانے اور جلوس میلاد و مزارات اولیاءاور گھروں یا قبروں پر فاتحہ خوا نی کو بدعت و نا جائز قرار دینے والوں کا اپنے آنجہانی مولوی یزدانی، کے لیے یہ سب کچھ کرنا جہاں باعث تعجب ان کی دورنگی کا مظاہرہ ہے، وہاں مسلک اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اصولی فتح ہے کہ مخالفین نے بالآخر قبر کو مزار قرار دینے، وہاں زیارت کے لئے جانے جلوس نکالنے اور فاتحہ خوانی کرنے کا عملی اعتراف کر لیا۔
اہل سنت کے عقیدہ ءتوحید و سنت پر طعنہ زنی کرنے اور شرک و بدعت کا ناحق نشانہ بنانے والے غیر مقلدین بذات خود توحید و سنت کے گلشن کو اجاڑ اور برباد کرنے کے مرتکب و مجرم ہیں اور مختلف بدعات و رسومات میں مستغرق ہیں مگر حال یہ ہے کہ
غیر کی آنکھ کا تنکا تو تجھے نظر آیا
اپنی آنکھ کانہ دیکھا مگر شہنتیر بھی
شہدائے اہلحدیث کی دوسری برسی : 23۔ مارچ کو قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کے جلسہ میں بم کے دھماکہ میں ہلاک ہونے والی مولوی احسان ظہیر ، مولوی حبیب الرحمان یزدانی وغیرہ کی یاد میں ان کی دوسری برسی کے موقع پر بھی مقررہ تاریخ و مقررہ جگہ پر 17۔مارچ بروز جمعہ جمعیت و اہلحدیث یوتھ فورس کے زیر اہتمام بڑے اہم انتظامات کے ساتھ دوسری شہدائے اہلحدیث کانفرنس منعقد ہوئی ۔ اس سلسلے میں اخباری بیانات کے علاوہ وسیع اخراجات سے بڑے سائز کے رنگین اشتہارات بہت کثرت سے چھپوائے اور لگوائے گئے اور رسائل و اشتہارات میں قلعہ لچھمن سنگھ چلو کا ۔ نعرہ لکھوایا گیا اور اہلحدیث مساجد میں جمعہ بند کرکے قلعہ لچھمن سنگھ میں مشترکہ جمعہ کا اعلان کیا گیا۔ نما زجمعہ سے پہلے امیر جمعیت اہلحدیث مولوی محمد عبداللہ اور دیگر علماءحدیث کے بیانات ہوئے اور نماز جمعہ کے بعد قلعہ لچھمن سنگھ سے لیکر چوک آزادی تک جلوس بھی نکالا گیا۔ اس موقع پر دیگر علاقوں کے وہابیوں نے بھی بڑے زور و شور سے شدرحال کیا اور بسوں کے ذریعے قافلوں کی صورت میں قلعہ لچھمن سنگھ کے پروگرام میں حاضری دی۔ پریس نوٹ (18 مارچ ۹۸ء)
کیا فرماتے ہیں : غیر مقلدین وہابیہ کہ کتاب سنت اور عقیدہ ءرتوحید کا وہ کونسا شرعی ضابطہ ہے کہ جس کے تحت میلادمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، عرس اولیاءاور گیارہویں شریف و تیجا دسواں، چالیسواں تو بدعت و حرام و ناجائز ہے لیکن نام نہاد شہدائے اہلحدیث کی دوسری برسی پر دوسری کانفرنس اپنے تمام لوازمات سمیت کتاب و سنت کی روشنی میں عقیدہ ءتوحید کے عین مطابق ہے ؟
جشن میلادمصطفی بدعت و ناجائز کیوں ؟
اور صد سالہ جشن دیوبند کا جواز کیوں ؟
آلِ نجد و آلِ دیوبند جشنِ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت مخالف ہیں ۔ بالخصوص ماہ نور ربیع الاول شریف میں یہ لوگ جشن میلاد شریف کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن جب اپنا معاملہ آتا ہے تو پھر بدعت و عدم جواز کے سب فتوے بھلا دیتے ہیں ۔ اور تمام تر تعلقات و لوازمات کے ساتھ انہیں منانے میں کوئی چیز آڑے نہیں آتی ۔
جشن سعودی عرب : 5 شوال 1499ھ بمطابق 23۔جنوری 1999ءمیں سعودی عرب کے قیام کی 100 سالہ سالگرہ پر صد سالہ جشن بادشاہت منایا گیا اور اس سلسلہ میں مختلف تقریبات کے علاوہ پاکستان میں بھی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 25۔26 جنوری 1999ء) جبکہ صد سالہ جشن سے قبل ہر سال 23۔ ستمبر کو الیوم والوطنی اور عید الوطنی کے نام سے سالانہ سالگرہ بھی بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے۔
غرضیکہ نجدی سعودی دیوبندی وہابی علماءو حکام جشن صد سالہ منائیں یا ہر سال عیدالوطنی اور جشن دستار فضیلت منائیں ان کے لئے شرک و بدعت کا کوئی فتویٰ نہیں مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جب یوم میلاد آئے بدعت کے فتوے انہیں یاد آئے ۔
لمحات فکر۔ 14 اگست 1998ء :
کو 51واں یوم پاکستان حسب سابق شام و شوکت سے منایا گیا۔ اس سلسلہ میں جلسے ہوئے جلوس بھی نکالے گئے۔ جھنڈیاں لگائی گئیں۔ جھنڈے لہرائے گئے اور رات کو خوب چراغاں کیا گیا اور اس تقریب کو عیدآزادی سے تعبیر کیا گیا۔
17 اگست 1998ء : کو سابق صدر ضیاءالحق کی قبر پر ان کی برسی بھی دھوم دھام سے منائی گئی۔ اس سلسلہ میں شدرحال کرکے دور دور سے بڑے بڑے قافلے ان کی قبر پر حاضری اور برسی میں شرکت کے لئے وہاں پہنچے۔ برسی سے قبل اخبارات میں بڑے بڑے باتصویر غیر شرعی قیمتی اشتہارات شائع کرائے گئے۔ مگر بڑے تعجب و افسوس کی بات ہے کہ اہل نجد و دیوبند اس موقع پر شاید گونگے بہرے ہو گئے یا دانستہ انہوں نے علمی بخل و کتمان حق سے کام لیا کہ دیوبندی یا وہابی اصول کے تحت ان دونوں بدبختوں کے خلاف انہیں نے نہ کوئی اجتماعی مظاہرہ کیا اور نہ ان کی طرف سے کسی قسم کا کوئی خاص سا ریپلے دیکھنے ، سننے میں آیا۔
ناحقہ سر بیگریباں ہے اسے کیا کہئیےخامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہئیے
مشہور و مشاہدہ تو یہی ہے کہ
وہابی آں باشد کہ چپ نہ شود
لیکن نامعلوم کونسا سانپ سونگھ گیا کہ سبھی نے چہ سادھ لی اور صورت حال یہ ہو گئی کہ،
چناں خفتہ اند گوئی کہ مرد ہ اند
جبکہ
ربیع الاول کا چاند طلوع ہونے سے پہلے ہی یہ منکرین شان رسالت و مخالفین میلاد مصطفی (علیہ التحیۃ والشاء) اس طرح تیاری کر لیتے اور کمربستہ ہو جاتے ہیں جیسا کہ کسی محاذ جنگ پر جانے والے ہیں۔
اہل نجد و دیوبند :کے چھوٹے بڑے مولوی ملاں نہ صرف زبانی و تقریری طور پر بلکہ بذریعہ اشتہارات جرائد و رسائل بیک وقت بیک زباں خبث باطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدیں الفاظ زہر اگلنے لگتے ہیں کہ عیدمیلادالنبی بدعت ہے بے ثبوت ہے اسراف ہے۔ دن مقرر کرنا سالانہ یادگار منانا جائز نہیں۔ خیرالقرون میں ایسا نہیں ہوا۔ صحابہءکرام علیہم الرضوان نے ایسا نہیں کیا۔ وغیر ذالک من الخرافات۔ مگر 14 اگست اور 17اگست کے مجموعہ بدعات پر اس قسم کے اعتراضات کی بنیاد پر کوئی مخالفانہ رد عمل نہ کیا گیا۔ حالانکہ وہی اعتراضات بلکہ ان سے بڑھ کر اعتراضات مذکورہ دونوں بدعتوں پر بھی عائد ہوتے ہیں۔لٰہذا اگر یہ بدعت نہیں اور ان پر اعتراض نہیں تو 12ربیع الاول اور محافل میلاد شریف بدرجہ اولیٰ نہ بدعت ہیں نہ قابل اعتراض۔ اور اگر 12 ربیع الاول بدعت و قابل اعتراض ہے تو 14 اگست اور 17اگست کا پروگرام اس سے بڑھ کر بدعت و قابل اعتراض ہے۔ پھر اس پر الخاموشی نیم رضا کا مظاہرہ کیوں ؟ جبکہ 14 اگست اور 17 اگست کی بدعتوں پر منکرین میلاد مصطفی کی خاموشی ان کے گونگا شیطان (شیطان اخرس) بننے کے مترادف ہے اور میلاد مصطفی کی مخالفت ان کی شان رسالت سے صریح عداوت کا مصداق ہے۔ ورنہ وجہ بتائی جائے کہ جشن میلاد مصطفی (علیہ التحیۃ والشنائ) کے خلاف اس قدر بدزبانی، واویلا اور جھوٹی فتویٰ بازی کیوں ہے۔ اور 14 اگست و 17اگست کے مجومعہ بدعات پہ خاموشی اور اس کا کیا جواز ہے ؟ اور دونوں میں وجہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ 14اگست کی تقریب منانے میں شریک ہوتے اور شدید بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ (علمی و بحوالہ جواب کا منتظر ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment