Tuesday, 19 October 2021

وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ہے سایہ تجھ پر

 وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ہے سایہ تجھ پر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وَوَرَفَعۡنَا لَـكَ ذِكۡرَكَؕ ۔ (سورۃ الشرح نمبر آیت 4)

ترجمہ : اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا ۔


حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : وَوَرَفَعۡنَا لَـكَ ذِكۡرَكَؕ ۔ اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کر دیا ۔ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا : (اے حبیب!) اذان میں ، اقامت میں ، تشہد میں ، جمعہ کے دن منبروں پر، عیدالفطر کے دن ، (خطبوں میں) ایام تشریق میں ، عرفہ کے دن ، مقام جمرہ پر ، صفا و مروہ پر، خطبہ نکاح میں (الغرض) مشرق و مغرب میں جب بھی میرا ذکر کیا جائے گا تو تیرا ذکر بھی میرے ذکر کے ساتھ شامل ہو گا اور ﷲ تعالیٰ (نے فرمایا کہ اس) کا کوئی بندہ (رات دن) اگر اس کی حمد و ثنا بیان کرے اور جنت و دوزخ کے ساتھ ساتھ (باقی ہر ایک ارکان اسلام کی بھی) گواہی دے مگر یہ اقرار نہ کرے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ کے رسول ہیں تو وہ ہرگز ذرہ برابر بھی نفع نہیں پائے گا اور مطلق کافر (کا کافر) ہی رہے گا ۔ (القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 20/ 106، والبغوي في معالم التنزيل، 4/ 502، والطبري في جامع البيان، 30/ 235، والشافعي في أحکام القرآن، 1/ 58، والسيوطي في الدر المنثور، 8/ 547.549، والصنعاني في تفسير القرآن، 3/ 380، والثعلبي في الجواهر الحسان، 4/ 424، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 525، وابن الجوزي في زاد المسير، 9/ 163، والشوکاني في فتح القدير، 5/ 463، والواحدي في الوجيز في تفسير الکتاب العزيز، 2/ 1212، والالوسي في روح المعاني، 30/ 169، والسيوطي في الإتقان، 1/ 128، 2/ 536)


اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کی بلندی اپنے ذمہ رکھی ، مخلوق کو اس کا مکلف نہیں کیا کہ وہ آپ کا ذکر بلند کرے کیونکہ اگر مخلوق آپ کا ذکر بلند کرتی تو مخلوق کی ایک حد ہے ، وہ اپنی حد تک آپ کا ذکر بلند کرتی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو خود بلند کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کی کوئی حد ہے اور نہ آپ کے ذکر کی بلند کی کوئی حد ہوگی ، اللہ عزوجل لامحدود ہے تو آپ کے ذکر کی بلندی بھی لامحدود ہوگی ، نیز مخلوق کی باتداء بھی ہے اور انتہا بھی ہے ، اللہ تعالیٰ ازلی ابدی ہے ، سو آپ کے ذکر کی بلندی بھی ازلی ابدی ہوگی ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر کی بلندی کا اندازہ اس حدیث سے کریں : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم (علیہ السلام) سے (اجتہادی) خطاء ہوگئی تو انہوں نے کہا : اے رب ! میں تجھ سے بہ حق (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے ، اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم ! تم نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیسے جانا، حالانکہ ابھی میں نے ان کو پیدا نہیں کیا ، حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا : کیونکہ اے رب ! جب تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور نے مجھ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں پر ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا تھا ۔ (دلائل النبوۃ ج ٥ ص ٤٨٩ المعجم الصغیر ج ٢ ص 82-83،چشتی)(الفواء ص ٣ و مجموع الفتاویٰ لابن تیمیمہ، دارالجیل، ریاض)


اس کائنات میں سب سے بلند عرش عظیم ہے اور عرش عظیم پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے اور یہ آپ کے ذکر کی بلندی کی واضح مثال ہے ۔


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ (سورہ البقرہ : ٢٥٣) یہ رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام فرمایا اور ان میں سے بعض کو درجات میں بلندی عطا فرمائی ۔


اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے درجات بلندی عطا فرمائی ، کیونکہ عالم عدد میں کوئی ایسا عدد نہیں ہے ، جو نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درجات کی تعیین کر سکے ، سو آپ کے درجات غیر متناہی ہیں امام بوصیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فان فضل رسول اللہ لیس لہ حد فیعرب عنہ ناطق بفم ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فضل و کمال کی کوئی حد ہے ہی نہیں ، جس کو کوئی بتانے والا بتاسکے ۔


اس آیت میں آپ کا نام نہیں لیا بلکہ فرمایا : ان میں سے بعض کو (غیر متناہی) درجات عطا فرمائے ، اس میں یہ اشارہ ہے کہ غیر متناہی درجات کی بلندی کے ساتھ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسے منفرد اور مخصوص ہیں کہ آپ کے سوا ذہن اور کسی کی طرف متوجہ ہو ہی نہیں سکتا۔ حدیث میں ہے ۔


حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم مئوذن سے اذان سنو تو وہی کلمات کہو ، جو اس نے کہے ہیں ، پھر مجھ پر صلوۃ (درود) پڑھو، بیشک جو مجھ پر ایک صلوۃ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس صلوت نازل فرماتا ہے ، پھر اللہ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک ایسا درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٨٤)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٨٣ سنن ترمذی رقم الحدیث، ٣٦١٤،چشتی)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٦٧٨)


وسیلہ جنت کا عظیم ترین درجہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے ساتھ منفرد اور مخصوص ہیں ، اسی طرح غیر متناہی درجات کی بلندی کے ساتھ بھی آپ منفرد اور مخصوص ہیں ۔


دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی جگہ سورج غروب ہو رہا ہے اور جہاں سورج غروب ہو رہا ہے، وہاں مغرب کی ذان ہو رہی ہے، اور جہاں اذن ہو رہی ہے ، وہاں ” اشھدان لا الہ الا اللہ “ کے ساتھ بلند آواز سے ” اشھدان محمدا رسول اللہ پڑھا جا رہا ہے ، سو دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی جگہ آپ کا نام بلند کیا جا رہا ہے اور یہ بھی آپ کے ذکر کی بلندی ہے ۔


پہلے مسلمان سال میں ایک مرتبہ یوم میلاد کو آپ پر صلوۃ وسلام پڑھتے تھے ، مخالین نے اس کو بدعت کہا اور اس کی مخالفت کی تو اس کے ردعمل میں مسلمان سال میں متعدد بار محافل میلاد منعقد کرتے اور آپ پر صلوۃ سلام پڑھتے مخالفین نے پھر اس کو منع کیا تو مسلمان ہر جمعہ کی نماز کے بعد آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنے لگے ، اور جب اس سے بھی منع کیا گیا تو مسلمان ہر نماز کے بعد پڑھنے لگے :” الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ “ اور جب اس کی بھی مخالفت ہوئی تو مسلمان جمعہ اور مغرب کی اذان کے علاوہ ہر اذان کے بعد وقفہ کر کے پڑھنے لگے :” الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ‘ پھر جب اس کے خلاف آوازیں اٹھیں تو مسلمان اذان سے پہلے بھی وقفہ کر کے آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنے لگے اور یوں یوماً فیوماً اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بڑھا رہا ہے اور بلند فرما رہا ہے ، اسی لئے فرمایا : ورفعنالک ذکرک ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا ہے حتّٰی کہ کسی کا اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانا ، اس کی وحدانیّت کا اقرار کرنا اوراس کی عبادت کرنا اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان نہ لے آئے اور ان کی اطاعت نہ کرنے لگے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :  مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۔ (سورہ النساء:۸۰)

ترجمہ : جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس   نے  اللّٰہ کا حکم مانا ۔


اور ارشاد فرمایا : فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔ (سورہ النساء:۶۵)

ترجمہ : تو اے حبیب ! تمہارے رب کی قسم ، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں  گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں  تمہیں  حاکم نہ بنالیں  پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں  میں  اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں  اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔


حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرے ، ہر بات میں  اس کی تصدیق کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے اور وہ کافر ہی رہے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اذان میں ، اقامت میں ، نماز میں ، تشہد میں ، خطبے میں  اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے ۔

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے اس آیت کے بارے میں دریافت فرمایا تو اُنہوں نے عرض کی : اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے تو میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے ۔

حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں  بلند کیا ، ہر خطیب اور ہر تشہد پڑھنے والا ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کے ساتھ ’’ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ پکارتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نام کی طرف ان کے نام کی نسبت کی ہے اور نبوت و رسالت کے وصف کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ان کے اَسماء کے ساتھ کیا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد لیا ۔ (تفسیر تاویلات اہل السنہ الشرح الآیۃ: ۴، ۵ / ۴۸۲)(تفسیر بغوی الشرح الآیۃ: ۴، ۴ / ۴۶۹،چشتی)


امام احمد رضاخان قادری علیہ الرحمہ اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں : یعنی ارشاد ہوتا ہے اے محبوب ہمارے !بہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں  ہماری یا دہوگی تمہارا بھی چرچا ہوگا اور ایمان بے تمہاری یاد کے ہرگز پورا نہ ہوگا ، آسمانوں  کے طبقے اور زمینوں  کے پردے تمہارے نامِ نامی سے گونجیں گے ، مؤذن اذانوں اور خطیب خطبوں اور ذاکرین اپنی مجالس اور واعظین اپنے مَنابر پر ہمارے ذکر کے ساتھ تمہاری یا د کریں گے ۔ اشجار و اَحجار ، آہُو و سوسمار (یعنی ہرن اور گوہ) ودیگر جاندار و اطفالِ شیرخوار و معبودانِ کفار جس طرح ہماری توحید بتائیں گے ویسا ہی بہ زبان فصیح و بیان صحیح تمہارا منشورِ رسالت پڑھ کر سنائیں گے ، چار اَکنافِ عالَم میں لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا غلغلہ ہوگا ، جز (سوائے) اشقیائے ازل ہر ذرہ کلمۂ شہادت پڑھتا ہوگا ، مسبحانِ ملاء اعلیٰ کو ادھر اپنی تسبیح وتقدیس میں مصروف کروں  گا اُدھر تمہارے محمود ، درودِ مسعود کا حکم دوں  گا ۔عرش وکرسی، ہفت اوراقِ سدرہ ، قصورِجناں ، جہاں پر اللّٰہ لکھوں گا ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ بھی تحریر فرماؤں گا ، اپنے پیغمبروں اور اولُوا الْعزم رسولوں کو ارشاد کروں گا کہ ہر وقت تمہار ادم بھریں اور تمہاری یاد سے اپنی آنکھوں کو روشنی اور جگر کو ٹھنڈک اور قلب کو تسکین اور بزم کو تزئین دیں ۔ جو کتاب نازل کروں گا اس میں تمہاری مدح و ستائش اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت ایسی تشریح وتوضیح سے بیان کروں  گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اور نادیدہ تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں ، سینوں میں بھڑک اٹھے گی ۔ ایک عالَم اگر تمہارا دشمن ہوکر تمہاری تنقیصِ شان اور محوِ فضائل میں مشغول ہوتو میں قادرِ مُطلق ہوں ، میرے ساتھ کسی کا کیا بس چلے گا ۔ آخر اسی وعدے کا اثر تھا کہ یہود صدہا برس سے اپنی کتابوں سے ان کا ذکر نکالتے اور چاند پر خاک ڈالتے ہیں تو اہلِ ایمان اس بلند آواز سے ان کی نعت سناتے ہیں کہ سامع اگر انصاف کرے بے ساختہ پکار اٹھے ۔ لاکھوں بے دینوں نے ان کے محوِ فضائل پر کمر باندھی ، مگر مٹانے والے خود مٹ گئے اور ان کی خوبی روز بروز مترقی رہی ۔ ( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۷۱۸-۷۱۹)


رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں  عالَم میں  ہے تیرا چرچا

مرغِ فردوس پس از حمد ِخدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں


وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ہے سایہ تجھ پر

بول بالا ہے ترا ذِکر ہے اُونچا تیرا


مِٹ گئے مٹتے ہیں  مٹ جائیں  گے اعدا تیرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا


تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے

جب بڑھائے تجھے اللّٰہ تعالیٰ تیرا


رفعتِ ذکر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا ہے حتّٰی کہ کسی کا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا،اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا اوراس کی عبادت کرنا اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان نہ لے آئے ، یونہی آپ کے راستے سے ہٹ کر چلنے والے کی اطاعت بھی بارگاہِ خداوندی میں مقبول نہیں کہ اب وہی اطاعت، اطاعتِ الٰہی کہلانے کی مستحق ہے جو اطاعتِ رسول کی صورت میں ہو جیسا کہ فرمایا:(مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ)جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ  کا حکم مانا۔( پ5،النساء:80)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ،ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اورسرور عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے اور وہ کافر ہی رہے گا۔


رفعتِ ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ بھی ہے کہ ذکر ِ خدا کے ساتھ ذکر ِ مصطفیٰ کیا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اَذان میں،اِقامت میں،نماز میں،تشہّد میں ،خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکرشامل کردیا ہے۔اس حوالے سے صرف چند آیاتِ قرآنی ملاحظہ فرمائیں: ❀آپ سے جنگ خدا سے جنگ ہے(بقرہ: 278 ،279) ❀آپ کی اطاعت خُدا کی اطاعت ہے(النساء:80) ❀آپ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے(النساء: 14) ❀آپ کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے(انفال:13) ❀آپ کی طرف بلانا خدا کی طرف بلانا ہے(النساء:61) ❀آپ کی طرف ہجرت خدا کی طرف ہجرت ہے(النساء:100) ❀آپ پر ایمان لانا خدا پر ایمان لانے کی طرح ضَروری ہے(النساء:136) ❀آپ سے مقابلہ خدا سے مقابلہ ہے(مائدہ:33)❀آپ سے دوستی خدا سے دوستی ہے(مائدہ:56) ❀آپ سے منہ پھیرنا خدا سے منہ پھیرنا ہے(انفال:20) ❀آپ کے بلانے پر حاضِر ہونا خدا کے بلانے پر حاضر ہونا ہے یا بالفاظِ دیگر آپ کا بلاوا خدا کا بلاوا ہے(انفال:24) ❀آپ سے خیانت خداسے خیانت ہے(انفال:27) ❀آپ کی طرف سے کسی شے سے بَراءَت کا اظہار خدا کی طرف سے بَراءت کا اظہار ہے(توبہ:1) ❀آپ سے معاہدہ خدا سے معاہدہ ہے(توبہ:7) ❀آپ کی محبت خدا کی محبت ہے(توبہ:24) ❀آپ کا کسی شے کو حرام قرار دینا خدا کا حرام قرار دینا ہے(توبہ:29) ❀آپ سے کُفر کرنا خدا سے کفر کرنا ہے(توبہ:54) ❀آپ کی عطا خدا کی عطا ہے اور آپ کا فضل و کرم خدا کا فضل و کرم ہے(توبہ:59) ❀آپ کی رضا خدا کی رضا ہے اور آپ کو راضی کرنا خُدا کو راضی کرنا ہے(توبہ:62) ❀آپ کا کسی کو مال دینا، غنی کرنا خدا کا غنی کرنا ہے(توبہ:74) ❀آپ سے جُھوٹ بولنا خدا کی بارگاہ میں جھوٹ بولنا ہے(توبہ:90) ❀آپ کی خیر خواہی خدا کی خیر خواہی ہے(توبہ:91) ❀آپ کی طرف بلانا خدا کی طرف بلانا ہے(نور:48) ❀آپ کا وعدہ خدا کا وعدہ ہے(احزاب:22) ❀آپ کی رضا چاہنا  خدا کی رضا چاہنا ہے(احزاب:29) ❀آپ کا فیصلہ خدا کا فیصلہ ہے(احزاب:36) ❀آپ کوایذا خدا کوایذا ہے(احزاب:57)  ❀آپ پر  پیش قدمی خدا پر پیش قدمی ہے(حجرات:1) ❀آپ کی مدد خدا کی مدد ہے۔ (حشر:08)


میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کہ حبیب

یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا


بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر

جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں وہ وہاں نہیں


ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رفعت پر یہ اُمور بھی دلالت کرتے ہیں:❀آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر زمین پر بھی ہے اور آسمانوں پر بھی ❀آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر انسان بھی کرتے ہیں، فرشتے بھی، جنّات بھی اور دیگر مخلوقات بھی ❀آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر پتّھروں نے بھی کیا اور درختوں نے بھی ❀دنیا کے ہر کونے میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذکر کرنے والے موجود ہیں۔چنانچہ دنیا کے ایک کنارے سے فَجْر کی اَذانیں شُروع ہوتی ہیں اوردنیا کے آخری کنارے تک دی جاتی ہیں اور ابھی اگلی جگہوں پر فجر کی اَذان نہیں ہوتی کہ پہلی جگہ ظہر کی اذانیں شروع ہوجاتی ہیں اور ہر اذان میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کانام اور رسا لت کی گواہی پڑھی جاتی ہے اور یوں دنیا کا کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں جہاں ہر وَقْت آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نامِ مبارک نہ لیا جارہا ہو۔ یہی حال قرآنِ مجید کی تلاوت کا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں ہر وقت تلاوتِ قرآن جاری رہتی ہے اور لاکھوں مسلمان ہروقت تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں اور قرآن ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معمور ہے تو ہر وقت آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر تلاوتِ قرآن کی صورت میں بھی جاری ہے۔ درود ِ پاک کی صورت میں ذکر ِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان تو یہ ہے کہ ہر آن، ہر لمحہ دنیا میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر دُرود و سلام پڑھا جارہا ہے اور اگر درود پڑھنے والا کوئی انسان نہ بھی ہو تو فرشتے تو ہر آن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پردرود پڑھ رہے ہیں اور یہ فرشتے زمین کی گہرائیوں سے لے کر عرش کی بُلندیوں تک موجود ہیں اور معاملہ کچھ یوں نظر آتا ہے۔


فرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ، عرش پہ طرفہ دھوم دھام

کان جدھر لگا ئیے تیری ہی داستان ہے


 آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کانام ِ مبارَک عرش وکرسی پر لکھا ہوا ہے، سِدْرَۃُ المُنتہیٰ اور جنّتی درختوں کے پتّوں پر نقش ہے، جنّت کے محلّات پر کندہ ہے۔ تمام انبیا و رسول علیھم الصلوٰۃ والسلام آپ کا ذکر کرتے رہے، آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کا اپنی اپنی امّت سے وعدہ لیتے رہے۔ہر آسمانی کتاب میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر موجود ہے۔سوانح نگاری کی دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت پر لکھی گئیں، بیانِ فضائل میں دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضائل کے متعلّق تحریر کی گئیں۔ نظم کی صورت میں دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ کلام یعنی نعتیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں لکھی گئیں۔ سب سے زیادہ زَبانوں میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کا تذکرہ ملتا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیضاحمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...