Sunday 10 October 2021

ذکر و نعتِ مصطفیٰ ﷺ اور قرآن کریم اول

0 comments

 ذکر و نعتِ مصطفیٰ ﷺ اور قرآن کریم اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : ﷲ رب العزت نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرِ جمیل پیرایۂ نعت میں کیا ہے ۔ خالقِ کائنات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب بھی روئے خطاب ہوا تونام لینے کی بجائے کبھی يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ کہا اور کبھی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ اور کبھی یٰسین کے لقب سے پکارا ۔ اِسی طرح کلامِ مجید میں کہیں وَالضُّحَى کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ اَنور کی قسم کھائی اور کہیں وَاللَّيْلِ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبِ تاریک کی مانند سیاہ زلفوں کی قسم اٹھائی ۔ ہمہ قرآن دَر شانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصداق پورا قرآن حکیم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح اور نعت ہی تو ہے ۔ اِس کے پیرایۂ اِظہار میں نعت ہی کا رنگ صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے ۔ قرآن حکیم کی درج ذیل آیات سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت اور رِفعت و عظمت کا پہلو اُجاگر ہو رہا ہے جب کہ نعت کا موضوع بھی یہی قرار پاتا ہے ۔ اگر کوئی اِعتراض کرے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھنا اور سننا (معاذ ﷲ) ناجائز ہے تو یہ مندرجہ بالا آیات میں بیان کیے گئے مضمون کے اِنکار کے مترادف ہوگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرحِ صدر، رفعِ بارِ غم اور رِفعتِ ذکر کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے : وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ (۴)) ترجمہ : اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا۔(پ30، الم نشرح:4)


ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمُار فضائل و خصائص سے نوازا۔ اُن میں ایک فضیلت حضور سیّدُالمرسلین   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذِکر ِ مبارَک کی بلندی ہے جو اوپر ذکر کردہ آیت میں بیان کی گئی ہے۔ رحمت ِ دوعالم، نورِ مجسّم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جبریل علیہ السَّلام سے اس آیت کے بارے میں دریافت فرمایا تو اُنہوں نے عرض کی:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بُلندی یہ ہے کہ جب میرا ذِکْر کیا جائے تو میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے۔ اورحضرت قتادہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا، ہر خطیب اور ہر تشہد پڑھنے والا ”اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ“ کے ساتھ ”اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲِ“پکارتاہے۔(تفسیر بغوی، پ30، الم نشرح:4، جلد نمبر 4، صفحہ نمبر 469)،چشتی)(تاویلات اہل السنہ، پ30، الم نشرح:4،ج5،ص489)


اِس رفعت ِ ذکر کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے چند بیان کی جاتی ہیں:رفعتِ ذکر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا ہے حتّٰی کہ کسی کا اللہ تعالیٰ  پر ایمان لانا،اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا اوراس کی عبادت کرنا اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان نہ لے آئے ، یونہی آپ کے راستے سے ہٹ کر چلنے والے کی اطاعت بھی بارگاہِ خداوندی میں مقبول نہیں کہ اب وہی اطاعت، اطاعتِ الٰہی کہلانے کی مستحق ہے جو اطاعتِ رسول کی صورت میں ہو جیسا کہ فرمایا:(مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ) جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا۔( پ5،النساء:80) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما  فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ،ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اورسرور عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے اور وہ کافر ہی رہے گا ۔


اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں ۔ اِرشاد فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO ۔ (الأحزاب، 33 : 56)

ترجمہ : بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبيّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے بارے میں فرمایا : وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO ۔

ترجہم : اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اِس لیے کہ ﷲ کے حکم سے اُس کی اِطاعت کی جائے، اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور ﷲ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اُن کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور ﷲ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ۔ (سورہ النساء، 4 : 64)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنی اِطاعت قرار دیا : مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًاO ۔

ترجمہ : جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بے شک اُس نے ﷲ (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے رُوگردانی کی تو ہم نے آپ کو اُن پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجاo ۔ (سورہ النساء، 4 : 80) ۔ (چشتی)


تورات و انجیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرئہ اَوصاف کے ضمن میں فرمایا : الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَO ۔

ترجمہ : (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اﷲ لوگوں کو اَخبارِ غیب اور معاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اَوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور اِنجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو اُنہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اُس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ۔ (سورہ الأعراف، 7 : 157)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رِسالتِ عامہ کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا : قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔

ترجمہ : آپ فرما دیں : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ۔ (الأعراف، 7 : 158)


معرکۂ بدر میں کفار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا : وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى ۔

ترجمہ : اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) ﷲ نے مارے تھے ۔ (سورہ الانفال، 8 : 17) ۔ ۔ (چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنی اُمت پر رؤوف و رحیم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔

ترجمہ : بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔ (سورہ التوبه، 9 : 128)


اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کی یوں قسم کھاتا ہے : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ ۔ (الحجر، 15 : 72)

ترجمہ : (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمر مبارک کی قسم! بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں ۔


ﷲ تعالیٰ کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشقت میں پڑنا گراں گزرا تو فرمایا :

طه O مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى O ۔

ترجمہ : طٰہٰ (اے محبوبِ مکرّم!) o ہم نے آپ پر قرآن (اِس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں o ۔ (سورہ طٰهٰ، 20 : 1، 2)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمۃً للعالمینی کو درج ذیل آیت میں بیان فرمایا : وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ۔

ترجمہ : اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ۔ (سورہ الأنبياء، 21 : 107)


اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا : لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔

ترجمہ : (اے مسلمانو!) تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اَمرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا ۔ (سورہ النور، 24 : 63)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ایمان والوں کی جانوں سے زیادہ قریب قرار دیتے ہوئے فرمایا : النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔

ترجمہ : یہ نبیء (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اَزواجِ (مطہرات) ان کی مائیں ہیں ۔ (سورہ الأحزاب، 33 : 6)


اللہ تعالیٰ نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاہد، مبشر، نذیر، داعی اور سراجِ منیر بنا کر بھیجا۔ اِرشاد فرمایا : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا O وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا O ۔ (سورہ الأحزاب، 33 : 45، 46)

ترجمہ : اے نبیء (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوش خبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اُس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے) ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِن بے مثال شانوں کو ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا O ۔

ترجمہ : بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اَعمال و اَحوالِ اُمت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo تاکہ (اے لوگو!) تم ﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) ﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو o ۔ (الفتح، 48 : 8، 9)


ایک مقام پر ﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بہ طریقِ نعت یوں بیان فرمائی : يسO وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِO إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَO ۔

ترجمہ : یاسین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o حکمت سے معمور قرآن کی قَسمo بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیںo ۔ (سورہ يٰسين، 36 : 1 - 3) ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔